’’محبت‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو معاشرے میں بیشتر پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں ہر فرد اس کا متلاشی نظر آتا ہے اگرچہ ہر متلاشی کی سوچ اور محبت کے پیمانے جدا جدا ہوتے ہیں۔ جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات چڑھتے سورج کے مانند واضح ہوتی ہے کہ اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ مگر قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے دیا گیا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’محبت‘‘ کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے۔ صورت حال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے حقیقی محبت کا اظہار کرنا چاہے تو وہ بھی تذبذب کا شکار رہتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ جس سے محبت ہو اس سے محبت کا اظہار بھی کیا جائے۔ (سنن أبي داود: 5124) اس تمام صورت حال کا سبب فقط اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ اسلام نے محبت کی تمام راہیں متعین فرما دی ہیں۔ جہاں محبت کے لفظ کو بدنام کر دیا گیا ہے وہیں ہمارے معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کا منایا جانا ہے۔ ہر سال 14 فروری کو یہ تہوار منایا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے گفتگو کرنے سے پہلے ہم ’’محبت‘‘ کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں، اس لیے کہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کی حقیقت کو جاننے کے لیے اسلام کا ’’معیارِ محبت‘‘ اور اس کی ترتیب کو جاننا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ سے محبت
قرآن و حدیث میں محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس میں سر فہرست بندوں کا اپنے رب سے محبت کرنا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پر کسی اور شخص یا چیز کی محبت غالب نہیں آتی۔مومنوں کی اس محبت کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ}
’’اہل ایمان اللہ کے ساتھ محبت کرنے میں بہت سخت ہیں۔‘‘ (البقرۃ2:165)
رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
ثَلَاثٌ مَّنْ کُنَّ فِیہِ وَجَدَ حَلَاوَۃَ الْإِیْمَانِ: أَنْ یَّکُونَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَحَبَّ إِلَیہِ مِمَّا سِوَاھُما…‘
’’تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں وہ ایمان کی مٹھاس محسوس کرنے لگتا ہے: ایک یہ کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں…۔‘‘ (صحیح البخاري: 16)
یہ ایک طبعی امر ہے کہ آدمی کو جس سے محبت ہو وہ اس سے ملاقات کا مشتاق بھی بہت ہوتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اسی بات کو بیان فرمایا ہے:
مَنْ أَحَبَّ لِقَائَ اللّٰہِ أَحَبَّ اللّٰہُ لِقَائَ ہُ
’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ملاقات کا خواہش مند ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: 2683)
رسول اللہﷺ سے محبت
سیدنا محمد رسول اللہﷺ سے بھی محبت ایمان کا حصہ ہے۔ ایک مسلمان کی کامیابی کا انحصار آپﷺ کی محبت کو قرار دیا گیا ہے۔ تمام کائنات سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت کا ہونا لازم اور ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِِلَیہِ مِنْ وَّالِدِہِ وَوَلِدِہِ
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح البخاري: 14)
ایک روایت میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے:
’وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ
’’جب تک تمام لوگوں سے بڑھ کر ان کے نزدیک محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ (صحیح البخاري: 15)
ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے قبولِ اسلام سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نبیﷺ سے محبت کا اعتراف یوں کیا تھا:
’مَارَأَیتُ فِی النَّاسِ أَحَداً یُحِبُّ اَحَدًا کَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّداً
’’میں نے کسی کو کسی دوسرے سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محبت محمد (ﷺ) کے ساتھی اور شاگرد ان سے کرتے ہیں۔‘‘ (تاریخ الطبري: 216/2
صحابہ کرامرضی اللہ عنہم سے محبت
صحابہ کرام سے محبت بھی ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن و حدیث کی بہت ساری نصوص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ صحابہ کرامرضی اللہ عنہم
سے بغض و عناد رکھنا کفر و نفاق اور الحاد کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے ایمان کو مسلمانوں کے لیے آئیڈیل قرار دیا ہے۔ نبیﷺ نے بار ہا صحابہ کرام کو برا بھلا کہنے اور ان سے بغض رکھنے کی ممانعت فرمائی ہے، خصوصاً انصار صحابہ کے بارے میں آپﷺ کا فرمان ہے:
أَلْاَنْصَارُ لَا یُحِبُّھُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُھُمْ إِلاَّ مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّھُمْ أَحَبَّہُ اللّٰہُ، وَمَنْ أَبْغَضَھُمْ أَبْغَضَہُ اللّٰہُ
’’مومن شخص ہی انصار سے محبت رکھتا ہے اور منافق ہی ان سے بغض رکھتا ہے۔ جو ان سے محبت رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے بغض رکھے گا۔‘‘
(صحیح البخاري: 3783)
میاں بیوی کی آپس کی محبت
میاں بیوی کا آپس میں محبت کرنا شرعاً پسندیدہ اور مطلوب چیز ہے۔ دین اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ میاں بیوی آپس میں محبت کرنے کے بجائے غیروں سے محبت کی پینگیں بڑھاتے پھریں۔ شریعت یہ چاہتی ہے کہ میاں بیوی کا یہ پاکیزہ بندھن خوش حال زندگی کا باعث بنے، اسی لیے شریعت نے ان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ ان حقوق میں سے ایک اہم حق ان کا آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کی آپس کی محبت کو قرآن میں بیان فرمایا ہے:
{وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ}
’’اور (یہ بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اوراس نے تمھارے درمیان محبت اوررحمت پیدا کردی۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں جو غوروفکر کرتے ہیں۔‘‘ (الروم30:21) رسول اللہﷺ نے رفیقۂ حیات کے انتخاب کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:
تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَاِنِّی مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْاُمَمَ
’’تم اس عورت سے شادی کرو جو محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی ہو۔ میں تمھاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔‘‘
(سنن أبي داود: 2050)
والدین اور اولاد کی آپس میں محبت
والدین اور اولاد کے درمیان محبت کا ہونا ایک فطری چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس محبت کے اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر غالب ہونے کی صورت میں سخت وعید فرمائی ہے، اس لیے کہ محبت کا پہلا حق اللہ اور اس کے رسول کا ہے۔ گو یا کہ والدین اور اولاد کے مابین محبت شرعی طور پر مطلوب ہے مگر اس وقت جب اسے ثانوی حیثیت دی جائے اور اس پر اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کو ترجیح حاصل ہو جیسا کہ بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
عام افراد کی آپس میں محبت
اسلام امن و امان، اخوت اور محبت کا دین ہے۔ تمام لوگ معاشرے میں امن و امان اور محبت کے ساتھ پر سکون زندگی گزاریں، یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کلامِ مقدس میں تمام مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا ہے۔ گویا جس طرح سگے بھائیوں کے درمیان محبت ہوتی ہے اسی طرح تمام لوگوں سے محبت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قرآن و حدیث میں مسلمانوں کے آپس میں محبت کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
مَا أَحَبَّ عَبْدٌ عَبْدًا لِلّٰہِ إِلاَّ اَکْرَمَ رَبَّہُ عَزَّوَجَلَّ
’’جب کوئی بندہ کسی دوسرے سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لیے محبت رکھتا ہے تو حقیقت میں وہ اپنے پروردگار کی تکریم کرتا ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 259/5) یہ محبت اسی صورت لائق تحسین ہے جب بغیر کسی لالچ اور طمع کے ہو۔
ویلنٹائن ڈے
عالمی سطح پر ’’یومِ محبت‘‘ کے طور پر ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے منایا جانے والا یہ تہوار ہر سال پاکستان میں دیمک کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہ تہوار منانے والے ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں کر پائے کہ یہ دن منانے کی وجہ کیاہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں۔ اگر ان روایات کو بھی بنیاد بنایا جائے تو ایک عقل مند اور باشعور انسان اس تہوار کو منانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کوئی بھی باغیرت اور باحمیت شخص کبھی یہ گوارا نہیں کرے گا کہ کوئی راہ چلتا شخص اس کی بیٹی کو پھولوں کا گل دستہ پیش کرتا پھرے۔ اسی طرح کوئی بھی باحیا، با غیرت اور پاکدامن لڑکی کبھی یہ پسند نہیں کرے گی کہ اس کا کلاس فیلو، یونیورسٹی فیلو یا کوئی بھی راہ چلتا نوجوان اسے پھول پیش کرے اور محبت کی پینگیں بڑھائے۔
ہم نے پہلے ذکر کیا ہے کہ اس دن کے حوالے سے مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں سے کوئی مستند نہیں ہے، البتہ ایک خیالی داستان جو اس حوالے سے بہت مشہور ہو چکی ہے، اسے بطور مثال ذکر کرتے ہیں: تیسری صدی عیسوی میں روم میں ’’ ویلنٹائن ‘‘ نامی ایک پادری کو ایک راہبہ سے ’’عشق‘‘ ہو گیا۔ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا اور اب بھی ممنوع ہے۔ اس نے عشق کو انتہا تک پہنچانے کے لیے ایک ڈرامہ رچایا اور اپنی معشوقہ سے کہا: ’’مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ اگر 14 فروری کو راہب اور راہبہ (بغیر نکاح کے) صنفی ملاپ کر لیں تو ان پر کوئی حد نہیں لگے گی۔‘‘ راہبہ اس کے چکر میں آ گئی اور دونوں ’’جوشِ عشق‘‘ میں ’’منہ کالا‘‘ کر بیٹھے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر انھیں قتل کر دیا گیا۔ اس پادری کا نام ’’ویلنٹائن‘‘ بتایا جاتا ہے جسے بعد میں ’’عشاق‘‘ کی طرف سے ’’شہیدِ محبت‘‘ کا لقب دیا گیا۔ اسی عاشق راہب ویلنٹائن کی یاد میں ہر سال 14 فروری کو ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔
یہ وہ داستان ہے جس کی بنیاد پر ایک جنونی گروہ مسلم معاشرے خصوصاً پاکستان میں بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ باعثِ شرم بات تو یہ ہے کہ اس عاشق راہب اور معشوقہ راہبہ کا جس مذہب سے تعلق تھا وہ اس تہوار کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر مسلمان ہیں کہ بے حیائی کے اس کلچر کو دل و جاں سے قبول کیے ہوئے ہیں۔ باعثِ صد افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھایا ہوا ایک مخصوص گروہ ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کو یومِ تجدید محبت‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ماضی قریب تک ایسی ’’محبت‘‘ کو باعث عار سمجھا جاتا تھا مگر اب اسے باعث افتخار سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اگر کسی کو عشق کی بیماری لگ جاتی تو وہ معاشرے میں اپنی عزت کو برقرار رکھنے کی خاطر اپنے اس مرض کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ مگر آج وطن عزیز میں صورت حال یہ بن چکی ہے کہ ہمارا میڈیا اس مرض کو ایک ’’مقدس شے‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ پاکستان میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ویلنٹائن جیسی واہیات تقریبات کو رواج دیا جا رہا ہے۔ اسلام کے نام پر بننے والی اس مملکت خداداد میں لادینیت اور جنسی بداعتدالیوں کو کس طرح تیزی سے پروان چڑھایا جا رہا ہے اس کا اندازا اس طرح کے حیا باختہ تہواروں سے باآسانی لگایا جا سکتا ہے۔ غیر مسلم این۔ جی۔ اوز کے تحت چلنے والے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں باقاعدہ طور پر اس بے ہودہ تہوار کو منایا جاتا ہے۔ یقینا ان سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے ہمارے ہی بچے، ہماری ہی بیٹیاں اور بہنیں ہوتی ہیں جن کو دنیاوی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ دین سے دور بھی لے جایا جا رہا ہے۔ گلی کوچوں، محلوں، بازاروں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لفنگے نوجوان ان با حیا اور شریف لڑکیوں کو پھول پیش کر کے چھیڑ خانی کرتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مغربی تہذیب سے محفوظ رکھنا چاہتی ہیں۔ عفت و عصمت کی پیکر یہ لڑکیاں اس بداخلاقی کا جواب دینے کے بجائے عزت بچا کر وہاں سے بچ نکلنے ہی میں عافیت سمجھتی ہیں۔
فحاشی اور بے حیائی کے اس تہوار کو ’’یومِ محبت‘‘ قرار دیے جانے کے بجائے ’’یومِ اوباشی‘‘ قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا، اس لیے کہ اس تہوار کا اصل مقصود مرد اور عورت کے درمیان ناجائز تعلقات کو فروغ دینا بلکہ تقدس عطا کرنا ہے۔ قدیم رومی کلچر کی روایات ہوں یا جدید مغرب کا اسلوبِ جنس پرستی، ان کا ہماری مذہبی تعلیمات تو ایک طرف، مشرقی کلچر سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ مغرب میں ’’محبت‘‘ کا تصور و مفہوم یکسر مختلف ہے۔ جس جذبے کو وہاں محبت (LOVE) کا نام دیا جاتا ہے، وہ درحقیقت بوالہوسی اور خواہش پرستی ہے۔ اس معاشرے میں عشق اور فسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ مرد و زن کی باہمی رضا مندی، ہر طرح کی شہوت رانی اور زنا کاری وہاں ’’محبت‘‘ ہی کہلاتی ہے۔ اسی طرح ’’ویلنٹائے ڈے‘‘ منانے والوں کی جانب سے ’’محبت‘‘ کا لفظ جنسی بے راہ روی کے لیے بطورِ استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ گویا ’’حقیقی محبت‘‘ اور ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ دو متضاد چیزیں ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ’’حقیقی محبت‘‘ دین اسلام کا حصہ اور ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ جنسی بے راہ روی کا دوسرا نام ہے۔
قدیم روم میں اس تہوار کو ’’خاوند کے شکار‘‘ کا دن سمجھا جاتا تھا، یعنی عورت خود ہی بازار میں نکلتی اور اپنے ہونے والے شوہر کا خود ہی انتخاب کرتی۔ اسلام اس بے حمیتی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اسلامی معاشرے میں عورت کی شادی کی ذمہ داری اس کے ولی کی ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر عورت کے اس نکاح کو شریعت نے زنا قرار دیا ہے۔ اسی طرح اسلام میں میاں بیوی کے درمیان محبت کے اظہار پر کوئی بندش نہیں ہے لیکن اس کے لیے ایک ایسے دن کا انتخاب کرنا جو مغرب کی جنس پرست تہذیب کا علامتی اظہار بن چکا ہے، کسی بھی اعتبار سے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ نہایت افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو ان خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جا رہا۔ انھیں اس بات سے مطلع نہیں کیا جا رہا کہ جس بات کو وہ ’’محبت‘‘ سمجھ کر منا رہے ہیں، وہ در حقیقت شہوت رانی اور جنسی بے راہ روی کی علامت ہے۔ اس کا ان کی سماجی روایات اور اخلاقی قدروں سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔
بے حیائی پر مبنی یہ تہوار جس تیزی کے ساتھ پاکستان میں پھیلتا جا رہا ہے وہ بہت تشویشناک ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق صرف لاہور کے اندر گزشتہ سال 14 فروری کو کروڑوں روپے کے پھول فروخت ہوئے۔ اس قدر بڑی مقدار میں پھول بوالہوس عُشّاق کی طرف سے ایک دوسرے کو پیش کرنے کے لیے خریدے گئے۔ اس تمام صورتِ حال کا ذمہ دار ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہے۔ کیا ہمارے ذرائع ابلاغ کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ محض خبروں کی سنسنی خیز اشاعت کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل میں پاکستانی قوم کی رہنمائی کا فریضہ بھی ادا کریں؟ ہر سال ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے نام سے بے شمار قیمتی اشتہار شائع کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکٹرانک میڈیا پر ’’ ویلنٹائن ڈے‘‘ کے حوالے سے پروگرام نشر کیے جاتے ہیں۔ اوباش نوجوانوں کی طرف سے شریف لڑکیوں کے نام پیغام نشر کیے جاتے ہیں، اسی طرح کچھ ’’روشن خیال‘‘ نوجوان لڑکیاں بھی اپنے عاشقوں کے نام پیغام نشر کرواتی ہیں۔ گویا کہ جس طرح ہمارا میڈیا بے حیائی کے اس کلچر کو کوریج دیتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ بے حیائی کے اس پروگرام کو پھیلانے میں مغربی ممالک کی طرف سے میڈیا کو خاص ہدف سونپا گیا ہے۔
بے حیائی کو فروغ دینے میں موبائل فون کمپنیاں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ ایسے موقع پر ان کمپنیوں کی طرف سے بھی عجیب و غریب قسم کے ایس۔ ایم۔ ایس بھیجے جاتے ہیں۔ ٹاک میسجز اور کالر ٹونز کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔
روزنامہ جنگ لاہور: 15 فروری 2012ء کے مطابق گزشتہ سال سیاستدانوں میں سے بھی اکثریت نے بے غیرتی کے اس کلچر میں پورا پورا حصہ لیا۔ انھوں نے بھی خوب جوش و خروش سے ویلنٹائن ڈے منایا اور اس بات کا ثبوت دیا کہ ہمارا تعلق ’’محمد رسول اللہﷺ ‘‘ سے نہیں بلکہ جنسی بے راہ روی کے علمبردار مسیحی راہب ’’ویلنٹائن‘‘ سے ہے۔ صاحب اقتدار طبقے کی اس روش پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔
بہر حال اس حوالے سے کوئی جامع حکمت عملی تشکیل دی جانی چاہیے۔ مغرب سے گہری وابستگی اور قربت کے طوفان کو نہ روکا گیا تو مغربی فضولیات ہماری معاشرتی اقدار کو بہا لے جائیں گی۔ انگریزی تہذیب کے ایام ہماری نئی نسل کے کردار کو مسخ کر دیں گے۔ چونکہ مغرب اسلام سے بہت خائف ہے، اسی لیے وہ ہمارے معاشرے میں ایسے تہواروں کو فروغ دے رہا ہے۔ اہل مغرب کی یہ کوشش ہے کہ اسلامی معاشرے میں فحاشی و عریانی کو عام کر کے مغربی ممالک کی طرح یہاں بھی عورت کو ’’تماشا‘‘ بنا دیا جائے۔
حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو لہو و لعب اور جنسی بے راہ روی سے بچانے کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر گلاب کے پھول اور کارڈز کی خرید و فروخت پر پابند عائد کرے۔ اخبارات کے مالکان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کسی قسم کے اشتہارات اور پیغامات شائع نہیں کریں گے۔ ویلنٹائن ڈے اور اس جیسی بے ہودہ سرگرمیاں جو اسلامی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں، ان کے متعلق حکومت کو خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔
پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں۔ نئی نسل کی جنسی آوارگی کی طرف رہنمائی کرنے کے بجائے ان کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔ انھیں اس بات سے آگاہ کریں کہ جس راہ پر تم چل نکلے ہو اس کے نتائج بہت خطرناک ہیں۔
تعلیمی اداروں کے منتظمین اور اساتذہ کرام کے نام بھی یہ پیغام ہے کہ تعلیم کے حصول کے لیے آنے والے بچے آپ کے پاس امانت ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی بھیجتے ہیں تو ان کا مقصود ان کو اچھی تعلیم دلوانا ہوتا ہے نہ کہ ان کے اخلاق کا جنازہ نکلوانا۔ اب آپ کا یہ فرض بنتا ہے کہ سکول، کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں۔ انھیں حیا باختہ تہواروں کے بارے میں آگاہ کریں کہ ہمارے مذہب اور ہماری معاشرتی اقدار کا تہذیب ہے جو ہمارے صاف ستھرے چہرے کو مسخ کرنا چاہتی ہے۔
حکومت، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے منتظمین و اساتذہ کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں۔ انھیں ان بے ہودہ تہواروں سے لا تعلق رہنے کی تلقین کریں اور ان دنوں ان کی خصوصی نگرانی بھی کریں کہ کہیں وہ شیطان کے جال میں پھنس کر کوئی غلط قدم نہ اٹھا بیٹھیں۔
یاد رکھیں! اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور تمام ذمہ داران اخلاقیات کے دشمن ان تہواروں سے صرفِ نظر کرتے رہے تو آج مغرب جس صورتِ حال سے دو چار ہے وطنِ عزیز میں اس کے پیدا ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔ یورپ حیا سے عاری ان تہواروں کے نتائج دیکھ چکا ہے۔ اگر ان حیا سوز تہواروں کے آگے بند نہ باندھا گیا تو ہم بھی اس عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ یورپ میں بھی یہ سب کچھ ایک سال میں نہیں ہو گیا تھا، ان کے ہاں بھی خاندانی نظام کی تباہی اور جنسی انقلاب آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوا تھا۔ یورپ کے دانشور خاندانی نظام کی بحالی کی دہائی دے رہے ہیں مگر اب پانی ان کے سروں سے گزر چکا ہے۔ ہمارے ہاں اس وقت محض ایک قلیل تعداد اس خطرناک اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوئی ہے، ہماری آبادی کی اکثریت اس آگ کی تپش سے اب تک محفوظ ہے۔ ابھی وقت ہے کہ آگے بڑھ کر چند جھاڑیوں کو لگی آگ کو بجھا دیا جائے، ورنہ یہ آگ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی…!! !
محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر دل میں پروان چڑھتا ہے کوئی دل اس سے خالی نہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ محبت کے جذبے کو اللہ کے حکم کا پابند رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس جذبے کو اللہ کے حکم سے آزاد کرکے سرکش بندوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔
آج دنیا میں ’’دن‘‘ منانے کی روایت جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔ ’’Mother day, Father day, Chidren day ‘‘وغیرہ وغیرہ اسی طرح ایک دن 14 فروری ہے جو ’’محبت‘‘ کرنے والوں کے لیے منایا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ رسم مسلمانوں میں تیزی سے جڑ پکڑ رہی ہے حالانکہ اس جذبے کو اللہ کے حکم کا پابند ہونا چاہئے تھا مگر اس بات کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ صرف عارضی خوشی کے حصول کیلئے نوجوان تیزی سے اللہ سے بغاوت کے اس راستے کو اپنا رہے ہیں۔ یہ دن ہمارے قومی تہوار کا دن بھی نہیں ہے۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم صرف اس ’’دن‘‘ اظہار محبت کر کے یا اس کو’’celebrate ‘‘کر کے کہیں کافروں سے ’’محبت‘‘ کا ثبوت تو نہیں دے رہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
جو جس قوم کی مشابہت کرے گا قیامت کے دن انہی کے ساتھ ہو گا۔
14 فروری سرح گلابوں کا، لال ربن کے پھولوں ودلوں کا عشقیہ شاعری کا محبت کا سب سے بڑھ کر پوری دنیا میں منایا جانے والا دن۔ جب اسکی گہرائی میں جا کر ہم دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اصل میں اس کی حقیقت کتنی کڑوی ہے۔
Valentineکی ابتداء کیسے ہوئی ۔۔۔؟؟ یہ سوال آج ہم میں سے کتنے لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتاہے؟ ہم تو بھاگ رہے ہیں یہود ونصاریٰ کی اندھی تقلید میں۔۔۔۔! وہ گوہ کے بل میں داخل ہونگے تو ہم بھی ہو جائیں گے۔۔۔! ایسا ہی ہے نا۔۔۔۔؟؟؟
Valentine کے بارے میں بہت سی روایات ہیں مگر دو قابل بھروسہ روایات جو ہمیں Encyclopedia Britonica میں ملتی ہیں پہلی وہ روایت ہے جس میں Saint Valentine کو شاہ Caludies نے 14 فروری کو قتل کروا دیا تھا کیونکہ وہ ایسے فوجیوں کی شادیاں کروا دیا کرتا تھا جن کو دراصل شادی کی اجازت نہ تھی۔ قید کے دوران بشپ کو داروغے کی بیٹی سے عشق ہو گیا بشپ نے اس لڑکی کو خط لکھا جس کے آخر میں اس نے دستخط کئے تھے ’’ your Valentine‘‘ پھر یہی طریقہ بعد میں رواج پا گیا۔
دوسری روایت جو ہمیں ملتی ہے وہ یہ کہتی ہے کہ Valentine کا تعلق Saint Valentine سے نہیں بلکہ قدیم رومیوں کے دیوتا Luppercallaکے مغربانہ تہوار سے ہے جو کہ پندرہ فروری کو June Februllaکے آغاز میں ہوتا ہے۔ اس موقعہ پر لڑکیوں کے نام ایک برتن میں ڈال دیئے جاتے ہیں اور مرد بنا دیکھے جس لڑکی کا نام نکالتے ہیں وہی تہوار کے ختم ہونے تک ان کی ساتھی بن جاتی ہے اس طرح یہ فحش تہوار عروج پانے لگا۔
496ء میں پاپائے روم Gelusiusنے سرکاری طور پر 15 فروری کے مشرکانہ تہوار کو Saint Valentine day میں تبدیل کر دیا۔
یہ ہے اس خوشنما منظر کے پیچھے چھپی وہ بھیانک تصویر جسے ہم دیکھنا نہیں چاہتے یا جان بوجھ کر سب جانتے ہوئے بھی ہم چپ ہیں، خاموش ہیں۔ ہمارا میڈیا خاموش ہمارے نیوز پیپرز اور میگزین خاموش ہم کس کا ساتھ دے رہے ہیں؟
ان سب باتوں کو ایک سائیڈ پر رکھ کر میرا آپ سب سے جو جو اس تہوار کو منا رہے ہیں ایک سوال ہے کہ کیا ’’محبت جیسے خوبصورت جذبہ کے اظہار کے لیے ایک دن کافی ہے۔۔۔۔؟‘‘
’’محبت‘‘ کے بارے میں ابن قیم رحمہ اللہ فرماتےہیں:
’’عبادت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی محبت ہے۔۔۔بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے محبت ہے اس کے علاوہ کسی سے محبت نہ ہو اگر کسی سے محبت ہو تو۔۔۔۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی خاطر ہو۔۔۔۔!
میں اللہ سے کتنی محبت کرتا ہوں/ کرتی ہوں اور کیا۔۔۔ میری محبت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ۔۔۔؟؟
ایمان کی تکمیل اس وقت تک ہو نہیں سکتی یا دوسرے لفظوں میں آپ اس وقت تک مومن بن نہیں سکتے جب تک آپ کے دل میں تمام محبتوں پر حاوی اللہ رب العزت کی محبت ہوگی۔
اللہ کی محبت ہی ایسی محبت جو آپ کو سکون و اطمینان اور طاقت عطا کرتی ہے۔
جبکہ اس کے برعکس دنیاوی محبتیں آپ کا چین و سکون لوٹ لیتی ہیں اور آپ کی سب سے بڑی کمزوری بن جاتی ہیں۔
اگر میں خالق سے محبت کرتا ہوں تو بدلے میں مجھے اللہ رب العزت دنیاوی محبتیں و عزتیں پر مخلوق کو ترجیح دی اور رب العزت کی محبت کی ذرا پروا نہ کی تو ۔۔۔ تو محبتیں کتنی ہی شدید کیوں نہ ہوں میرے لیے روز آخرت خسارہ کا باعث بن جائیں گی۔
ہمارے دل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کتنی محبت ہے آیئے اس بات کا جائزہ لیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے دس امور کا ذکر فرمایا ہے اگر میں ان چیزوں کا عامل ہوں تو الحمد للہ میں میرے دل میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی محبت ہے۔
وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ غور و فکر سے تلاوت کرنا
2۔ نوافل کی کثرت
3۔ ذکر الٰہی
4۔ اللہ کی محبوب چیزوں کو اپنی پسند پر ترجیح دینا
5۔ اللہ کے اسماء وصفات پر غور کرنا
6۔ اللہ کے احسانات و نعمتوں کا مشاہدہ کرنا
7۔ تضرع وخشوع کے ساتھ دعا کرنا
8۔ آسمان دنیا پر نزول الہی کے وقت اللہ کو یاد کرنا اور تلاوت کا اہتمام کرنا
9۔ نیک اور صالح لوگوں کی مجلس اختیار کرنا
10۔ ہر اس چیز سے دوری اختیار کرنا جو اللہ اور اس کے بندے کے درمیان حائل ہو
اللہ سبحانہ وتعالیٰ بے نیاز ہے اسے کیا میری محبت کی ضرورت ہے۔۔۔ یاد رکھے اس میں بذات خود ہمارا اپنا فائدہ ہے۔ اللہ رب العزت نے تو قرآن پاک میں فرما دیا ہے کہ اگر تم نے اللہ سے محبت نہ کی اس کی محبت کا انکار کیا دین سے چھڑگئے تو اللہ دوسری قومیں دوسرے لوگ لے آئیگا جو اللہ سے محبت رکھے گی۔۔۔!!! (المائدہ 54)
اللہ سے محبت کا حصول بہت آسان ہے احادیث میں یہ بات واضح بتائی گئی ہے اگر انسان دنیا اس میں موجود ہر چیز سے بے نیاز ہو جائے تو اللہ کی محبت کا حصول بہت آسان ہے بات تو طلب کی ہے اگر دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی طلب ہے تو اللہ ضرور ہمارے دلوں میں اپنی محبت اجاگر کر دیگا۔ عمل کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لیے دعائیں بھی بہت ضروری ہیں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مجھے اور آپ کو اپنی سچی و خالص محبت عطا کرے۔ تمام محبتوں میں اپنی محبت حاوی کردے۔ آمین یا رب العالمین
اللہ سے حصول محبت کی دعا:
اللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِى يُبَلِّغُنِى حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَىَّ مِنْ نَفْسِى وَأَهْلِى وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ (سنن الترمذى (12/ 464)
آمین یا رب العالمین
وَالحُبُّ فِي اللَّهِ وَالبُغْضُ فِي اللَّهِ (صحيح البخاري (1/ 11)
محبت اس جذبے کا نام ہے کہ ہر جاندار جس کا متلاشی نظر آتا ہے البتہ انسان کے اندر اس جذبے کا شعور دیگر مخلوقات کی نسبت کچھ زیادہ ہے کیونکہ انسان کو اس کی ضرورت بھی زیادہ ہے محبت سے خالی دل ایسا ہی ہے جیسے جڑکٹا درخت جو نہ کسی کو کچھ دے سکتا ہے اور نہ کسی سے کچھ لے سکتا ہے، محبت اصل میں ایثار اور قربانی کا نام ہے، بد قسمتی سے اغیار کی تقلید سے ہمارے معاشر ے میں محبت جیسے مقدس جذبے کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیا ہے آج بازاری سوچ کو بے حیائی کا جامہ پہنانے کا نام محبت رکھ دیا گیا ہے اور اس محبت کے اظہار کے لیے جس واقعے کو بنیاد بناکر جس دن کو مخصو ص کیا گیا ہے وہ خود اس کی خرابی کا پتہ دیتاہے اور خرابی تو ہوگی کیونکہ ببول کے درخت پر کبھی گلاب کے پھول نہیں کھل سکتے۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت:
مغربی شناخت کا حامل ’’ویلنٹائن ڈے ‘‘ اب ’’یوم محبت‘‘ نام کے نام کی معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر عالم اسلام کے اندر بے حیائی کے مرض کو پھیلانے کا سبب بننے والے واقعے کی حقیقت کے بارے میں وہ لوگ بھی کوئی باوثوق دعویٰ نہیں کر سکتے جو اس کے موجد ہیں اور مناتے ہیں اور جن سے اس لعنت کو امت مسلمہ نے مستعار لیا ہےلیکن جو زیادہ مشہور بات بیان کی جاتی ہےوہ یہ ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں ’’ویلنٹائن‘‘ نامی ایک رومن پادری کو ایک راہبہ سے عشق ہوگیا اب عیسائیت کے فطرت سے متصادم قوانین کے نتیجے میں راہب اور راہبہ شادی نہیں کرسکتے تھے ۔ سو راہب اور راہبہ شادی تو نہ کرسکے مگر کلیسا میں بیٹھ کربے حیائی کے مرتکب ہوئے جس کی پاداش میں دونوں کو قتل کردیا گیا بعض لوگ کہتےہیں کہ ویلنٹائن نامی پادری ان فوجیوں کی خفیہ شادیاں کرواتاتھا جن کو شادی کی اجازت نہ تھی لہٰذا اس کو قتل کردیا گیا بہر حال ا س کے قتل کے بعد اس کو ’’شہید محبت‘‘ کا لقب دیا گیا اور 14 فروری کو اس کی یاد کے طور پر منایا جانے لگا۔ بات یہیں تک رہتی تو کوئی مضائقہ نہ تھا لیکن یہود ونصاری کی مشابہت اور متابعت کے شوقین نام کے مسلمانوں نے اس کو اپنانا شروع کردیا یوں
ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ(النور: 40)
’’اندھیروں پر اندھیرا‘‘
کے مصداق صہیونوں کے ذرخرید غلام ہمارا الکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اس کے لیے مہمیز کا کام کیا اور اس دن کو تقدس کا جامہ پہنا کر اس طرح پیش کیا جانے لگا کہ ایک عام آدمی اس قسم کی محبت کے اظہار کو نظر استحسان سے دیکھنے لگااور یہ بھول گیا کہ پیارے پیغمبر ﷺ نے فرمایا تھا :
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(سنن أبي داود (4/ 44)
’’جو جس قوم سے مشابہت اختیا ر کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا‘‘
اصحاب العقول خود فیصلہ کریں کہ وہ دین اسلام جو امہات المومنین سیدہ خدیجہ، عائشہ، اور حفصہ رضی اللہ عنہن اجمعین کی بیٹیوں کو سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخن تک پردے کا حکم دیتاہے وہ کس طرح یہ برداشت کر سکتا ہے کہ اس کے ماننے والے بے حیائی اور محاشی کا ارتکاب کرتے ہوئے اوروں کی عزتوں سے سر عام کھیلتے ہوئے حوا کی بیٹیوں کو سر بازار گلدستے پیش کرتے پھریں،اقبال نے شاید انہی لوگوں کے متعلق کہاتھا؎
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟
دین اسلام میں تصور محبت:
قطع نظر ویلنٹائن ڈے کی ابتداء اور حقیقت کے اگر ہم دین اسلام کے عمومی مزاج پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ دین تو ہے ہی اخوت، مساوات اور محبت کا نام بلکہ دین اسلام کی عمارت کی بنیاد ہی محبت ہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے
وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ(آل عمران: 159)
’’اگر آپ ﷺ بد زبان اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ ﷺ کے پاس سے چھٹ جاتے ‘‘
شریعت اسلامیہ ایک مسلمان سے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا تقاضاکرتی ہے ارشاد باری تعالی ہے :
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ(البقرة: 165)
’’اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ‘
امام کائنات ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:
فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِه(بخاري (1/ 12)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کے بیٹے سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں‘‘
انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے وہ اسے اس کی ہر ادا پسند ہوتی ہے اور وہ ویسا بننے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسو ل ﷺ کی اطاعت کیے بغیر دعوۂ محبت بے کار اور فضول بات ہے، اسی لیے رب تعالی نے ارشاد فرمایا:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ(آل عمران: 31)
’’کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘
اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے علاوہ دیگر تمام محبتوں کی اسلام نفی نہیں کرتا بلکہ محبت کا حکم دیتاہے اور اسے مستحب عمل قرار دیتا ہے مگر اس کے لیے ایک مختصر، جامع اور محقق اصول وضع کرتاہے اور وہ اصول نبی ﷺ کی یہ حدیث مبارکہ ہے:
الحُبُّ فِي اللَّهِ وَالبُغْضُ فِي اللَّهِ (بخاري (1/ 11)
’’محبت بھی اللہ کے لیے اور نفرت بھی اللہ کے لیے‘‘
وہ والدین کی محبت ہو،اولاد کی محبت ہو، زوجین کی محبت ہو، بہن بھائیوں کے درمیان محبت ہو یا دوست احباب کے درمیان محبت ہو اسلام یہی قاعدہ بتاتا ہے کہ یہ تمام محبتیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت پر غالب نہ آنے پائیں یعنی ان تمام محبتوں کے شکنجے میں آکر انسان کوئی ایسا عمل نہ کر بیٹے جو شریعت اسلامیہ کے متعین کردہ طریقے کےخلاف ہو:
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبتیں:
آج کا روشن خیال طبقہ ’’ویلنٹائن‘‘ کو شہید محبت قرار دیتا ہے کیونکہ، شاعر نے کہا تھا؎
غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
کسی نے اگر حقیقی شہید محبت دیکھانا ہے تو وہ میرے آقا ﷺ کے صحابی سیدنا خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو دیکھے جسے یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے اور خباب اپنے گھر میں ارام سے ہو۔ یا احد کے ان شہدائے محبت کے لاشے دیکھے جن میں کئی کو کفن بھی پورا میسر نہ تھا انہی شہدا میں ایک نام سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا بھی ہے جو شکل و صورت میں نبی مکرم ﷺسے بے حد مشابہت رکھتے تھے جاہلیت میں مکہ کے سب سے زیادہ نازوں میں پلے ہوئے نوجوان تھے، عالم یہ تھا جس گلی سے گزرجاتے خوشبو پتہ دیتی تھی یہاں سے مصعب کا گزر ہوا ہے لیکن اسلام لانے کے بعد سب کچھ قربان کردیا اور جب احد کے میدان میں شہید ہوئے تو کفن کی چادر اتنی سے تھی کہ سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے پیر ڈھانپتے تو چہرہ ننگا ہوتا نبی مکرم ﷺ نے فرنے سر ڈھانپ دیا ور پیروں پر گھاس سے کفن دیا، اور اگر محبت کا دن منانے سے ہی محبت کا حق ادا ہوتا تو وہ دن منائے جانے کا زیادہ مستحق تھا جس دن نبی مکرم ﷺسعد بن ابی وقاص کو فرمارہے تھے:
ارْمِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي(صحيح البخاري (4/ 39)
’’(سعد) تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں‘‘
ہم میں اور ان میں فرق صرف اتنا ہےکہ انہوں نے محبت کا اصول سمجھ لیا اور کامیاب ہوگئے اور ہم نے وہ اصول نہ سمجھا اور اغیار کی تقلید میں اندھے ہوکر محبت کے لبادے میں نفرتوں کے خریدار بن گئے۔
رسول اللہ ﷺ جس بات کا حکم دیں اس پر عمل کیا جائے اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے رکا جائے۔
وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللهَ ۭ اِنَّ اللهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب
ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔ (الحشر 7)
جو کام رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں نہیں کیا وہ کام اپنی مرضی سے کر کے اللہ کے رسول (ﷺ) سے آگے نہ بڑھا جائے۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُـقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُوْلِهٖ وَاتَّقُوا اللهَ ۭ اِنَّ اللهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)کے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو یقیناً اللہ تعالٰی سننے والا، جاننے والا ہے۔ (الحجرات 1)
رسول اکرم ﷺ کی متروک سنتوں کو زندہ کر نے کی جدوجہد کی جائے۔
عن كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُ , حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَليْهِ وسَلَّمَ قَالَ : مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي ، فَعَمِلَ بِهَا النَّاسُ ، كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا ، لاَ يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا
ترجمہ: کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی فرماتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے میرے دادا سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے میری سنتوں میں سے کوئی ایک سنت زندہ کی اور لوگوں نے اس پر عمل کیا تو سنت زندہ کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کو ملے گا جبکہ لوگوں کے اپنے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔(ابن ماجہ)
جس بات سے نبی اکرم ﷺ اظہار بیزاری فرمائیں اس سے اظہار بیزاری کی جائے۔
عن أبو بردة بن أبي موسى قال وجع أبو موسى وجعا فغشي عليه ورأسه في حجر امرأة من أهله فصاحت امرأة من أهله فلم يستطع أن يرد عليها شيئا فلما أفاق قال أنا بريء مما بريء منه رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم بريء من الصالقة والحالقة والشاقة
ترجمہ:سیدناابوبردہ بن ابو موسی (اشعری) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو موسی رضی اللہ کو شدید درد ہوا جس سے وہ بے ہوش ہو گئے ان کا سر ان کے گھر والوں میں سے ایک خاتون کی گود میں تھا ایک خاتون نے چلانا شروع کر دیا۔حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ (غشی کی وجہ سے) اسے روک نہ سکے۔جب ہوش آیا تو فرمانے لگے جس بات سے اللہ کے رسول ﷺ بیزار ہوں میں بھی اس سے بیزار ہوں۔رسول اللہ نے چلانے والی،بال نوچنے والی اور کپڑے پھاڑنے والی (عورت سے ) اظہار بیزاری فرمایا ہے۔(صحیح مسلم)
آپ ﷺ کی نصرت کی جائے:
لِلْفُقَرَاۗءِ الْمُهٰجِرِيْنَ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ وَاَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ
ترجمہ: (فئ کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکال دیئے گئے ہیں وہ اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالٰی کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں۔ (الحشر8)
وضاحت: رسول اکرم ﷺ کی نصرت سے مراد آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کا علم حاصل کرنا ،اس پر عمل کرنا،اس کو پھیلانا اور اسے غالب کرنے کی جدوجہد کرناہے۔
دل و جان سے آپ ﷺ کی عزت اور احترام کیا جائے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يٰآ أَيَّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ إِلَى آخِرِ الْآيَةِ جَلَسَ ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ فِي بَيْتِهِ وَقَالَ أَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ وَاحْتَبَسَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ فَقَالَ يَا أَبَا عَمْرٍو مَا شَأْنُ ثَابِتٍ اشْتَكَى قَالَ سَعْدٌ إِنَّهُ لَجَارِي وَمَا عَلِمْتُ لَهُ بِشَكْوَى قَالَ فَأَتَاهُ سَعْدٌ فَذَكَرَ لَهُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ثَابِتٌ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَلَقَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي مِنْ أَرْفَعِكُمْ صَوْتًا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنَا مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ هُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ
ترجمہ:سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب یہ آیت نازل ہوئی اے لوگو!جو ایمان لائے ہو،اپنی آواز نبی (ﷺ) کی آواز سےاونچی نہ کرو۔تو سیدناثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنے گھر بیٹھ گئے۔ (سیدناثابت رضی اللہ عنہ کی آواز قدرتی طور پر اونچی تھی) اور کہنے لگے میں تو آگ والوں میں سے ہوں۔ اور نبی اکرم ﷺ سے ملنا جلنا ترک کر دیا۔ آپ ﷺ نے سیدناسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے دیافت فرمایا۔ اے ابو عمرو! (سیدناسعد رضی اللہ عنہ کی کنیت) ثابت کہاں ہے،کیا بیمار ہے؟سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا وہ میرا ہمسایہ ہے اور میرے علم کی حد تک تو بیمار نہیں۔چنانچہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے گھر آئے تو رسول اللہ ﷺ کی گفتگو کا تذکرہ کیا۔ سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کہنے لگے فلاں آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں میری آواز تم سب لوگوں سے زیادہ اونچی ہے تو میں جہنمی ہوگیا۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے (واپس آ کر) رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:نہیں وہ تو جنتی ہے۔(صحیح مسلم)
رسول اکرم ﷺ کی سیرت اور فضائل بیان کیے جائیں ،نعت کہی جائے اور آپ ﷺ کے خلاف ہر قسم کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا جواب دیا جائے۔
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اهْجُوا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْهَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ فَأَرْسَلَ إِلَى ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ اهْجُهُمْ فَهَجَاهُمْ فَلَمْ يُرْضِ فَأَرْسَلَ إِلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ قَالَ حَسَّانُ قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَى هَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِهِ ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ فَجَعَلَ يُحَرِّكُهُ فَقَالَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِيَنَّهُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيمِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَعْجَلْ فَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِهَا وَإِنَّ لِي فِيهِمْ نَسَبًا حَتَّى يُلَخِّصَ لَكَ نَسَبِي فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَكَ وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَسُلَّنَّكَ مِنْهُمْ كَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَةُ مِنْ الْعَجِينِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِحَسَّانَ إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لَا يَزَالُ يُؤَيِّدُكَ مَا نَافَحْتَ عَنْ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَجَاهُمْ حَسَّانُ فَشَفَى وَاشْتَفَى قَالَ حَسَّانُ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ هَجَوْتَ مُحَمَّدًا بَرًّا حَنِيفًا رَسُولَ اللَّهِ شِيمَتُهُ الْوَفَاءُ فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ ثَكِلْتُ بُنَيَّتِي إِنْ لَمْ تَرَوْهَا تُثِيرُ النَّقْعَ مِنْ كَنَفَيْ كَدَاءِ يُبَارِينَ الْأَعِنَّةَ مُصْعِدَاتٍ عَلَى أَكْتَافِهَا الْأَسَلُ الظِّمَاءُ تَظَلُّ جِيَادُنَا مُتَمَطِّرَاتٍ تُلَطِّمُهُنَّ بِالْخُمُرِ النِّسَاءُ فَإِنْ أَعْرَضْتُمُو عَنَّا اعْتَمَرْنَا وَكَانَ الْفَتْحُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ وَإِلَّا فَاصْبِرُوا لِضِرَابِ يَوْمٍ يُعِزُّ اللَّهُ فِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ أَرْسَلْتُ عَبْدًا يَقُولُ الْحَقَّ لَيْسَ بِهِ خَفَاءُ وَقَالَ اللَّهُ قَدْ يَسَّرْتُ جُنْدًا هُمْ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُهَا اللِّقَاءُ لَنَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ هِجَاءُ فَمَنْ يَهْجُو رَسُولَ اللَّهِ مِنْكُمْ وَيَمْدَحُهُ وَيَنْصُرُهُ سَوَاءُ وَجِبْرِيلٌ رَسُولُ اللَّهِ فِينَا وَرُوحُ الْقُدُسِ لَيْسَ لَهُ كِفَاءُ
ترجمہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا کہ جب تک تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے(کافروں کو) جواب دیتا رہے گا اللہ تعالیٰ روح القدس یعنی جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے تیری مدد فرماتے رہیں گے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا کہ حسان نے کفار کی ہجو کی، اہل ایمان کے دلوں کو سکون پہنچایا اور کافروں کی عزتوں کو برباد کیا۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے چند شعر درج ذیل ہیں:
کافروں نے محمد (ﷺ) کی ہجو کی تو میں نے اس کا جواب دیا اور اس کا بدلہ اللہ کے پاس ہے۔
کافروں نے نیک اور متقی محمد (ﷺ) کی برائی کی جو اللہ کے رسول ہیں،وفاداری ان کی فطرت ہے۔
میرے ماں باپ اور میری عزت و آبرو سب کچھ محمد رسول اللہ (ﷺ) کی عزت اور آبرو کو بچانے کے لیے قربان ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے ایک بندہ بھیجا ہے جو سچ کہتا ہے اور اس کی بات میں کوئی شک نہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے،انصار کا لشکر،جن کا کام کفار سے مقابلہ کرنا ہے۔
ہمارے درمیان اللہ کے رسول اور جبرائیل ہیں اور جبرائیل کا تو کوئی مدمقابل ہی نہیں۔(صحیح مسلم)
رسول اکرم ﷺ کی عزت اور ناموس کا تحفظ کیا جائے۔
ابن عباس رضى الله عنه أن أعمى كانت له أم ولد تشتم النبي صلى الله عليه و سلم وتقع فيه فينهاها فلا تنتهي ويزجرها فلا تنزجر قال فلما كانت ذات ليلة جعلت تقع في النبي صلى الله عليه و سلم وتشتمه فأخذ المغول (المغول بالغين المعجة وهو السكين ) فوضعه في بطنها واتكأ عليها فقتلها فوقع بين رجليها طفل فلطخت ما هناك بالدم فلما أصبح ذكر ذلك للنبي صلى الله عليه و سلم فجمع الناس فقال " أنشد الله رجلا فعل ما فعل لي عليه حق إلا قام " قال فقام الأعمى يتخطى الناس وهو يتزلزل حتى قعد بين يدي النبي صلى الله عليه و سلم فقال يارسول الله أنا صاحبها كانت تشتمك وتقع فيك فأنهاها فلا تنتهي وأزجرها فلا تنزجر ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين وكانت بي رفيقة فلما كان البارحة جعلت تشتمك وتقع فيك فأخذت المغول فوضعته في بطنها واتكأت عليها حتى قتلتها فقال النبي صلى الله عليه و سلم ألا اشهدوا أن دمها هدر
ترجمہ: سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی کی لونڈی تھی جو نبی اکرم ﷺ کو گالیاں بکتی اور آپ ﷺ کی ہجو کرتی۔صحابی اسے منع کرتا لیکن وہ باز نہ آتی،صحابی اسے ڈانٹتا لیکن وہ پھر بھی نہ رکتی۔ایک رات لونڈی نے آپﷺ کی ہجو کی اور گالیاں بکنے لگی تو صحابی نے چھرا اس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور زور سے دبایا جس سے وہ ہلاک ہوگئی۔ جب صبح ہوئی تو نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: جس شخص نے یہ کام کیا ہے میں اسے اللہ کی قسم دے کر اور اپنے اس حق کے حوالہ سے جو میرا اس پر ہے، کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے۔
چنانچہ وہ نابینا صحابی کھڑا ہو گیا اور لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھا اور نبی اکرمﷺ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔وہ آدمی کانپ رہا تھا،عرض کرنے لگا:یا رسول اللہ ﷺ! میں ہوں اس کا قاتل،وہ آپ ﷺ کو گالیاں بکتی تھی اور آپ ﷺ کی ہجو کرتی تھی،میں اسے منع کرتا لیکن وہ باز نہ آتی میں اسے ڈانٹتا لیکن پھر بھی وہ منع نہ ہوتی حالانکہ اس سے میرے موتیوں جیسے (خوبصورت) دو بیٹے بھی ہیں وہ میری (اچھی) رفیقہ تھی لیکن کل رات جب وہ آپ ﷺ کو گالیاں بکنے لگی اور آپ ﷺ کی ہجو کرنے لگی تو میں نے چھرا پکڑا اوراس کے پیٹ میں گھونپ دیا اور زور سے دبایا ،حتی کہ میں نے اسے قتل کر دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لوگو سنو! گواہ رہنا اس لونڈی کا خون رائیگاں ہے۔ ( یعنی اس کا قصاص نہیں لیا جائے گا) (ابوداود)
رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی شدید تمنا رکھی جائے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مِنْ أَشَدِّ أُمَّتِي لِي حُبًّا نَاسٌ يَكُونُونَ بَعْدِي يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ رَآنِي بِأَهْلِهِ وَمَالِهِ
ترجمہ: سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے بعد میری اُمت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو مجھ سے اس قدر شدید محبت کرتے ہوں گے کہ ان میں سے کوئی یہ خواہش رکھے گا کہ اپنا اہل و عیال اور مال و منال سب کچھ صدقہ کر کے میری زیارت کرے۔ (صحیح مسلم)
آپ ﷺ کا اسم مبارک سن کر آپ ﷺ پر درور بھیجا جائے۔
عن علي رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم البخيل الذي من ذكرت عنده فلم يصل علي
ترجمہ: سیدناعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ میرے اوپر درود نہ بھیجے وہ بخیل ہے۔(ترمذی)