بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ وحدہ والصلاۃ
والسلام علی من لا نبی بعدہ أما بعد ، قال اللہ تبارک وتعالی
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)
’’یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
ایک دوسری جگہ فرمایا :
وَلَا يَاْتُوْنَكَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰكَ بِالْحَقِّ وَاَحْسَنَ تَفْسِيْرًا (الفرقان :33)
’’ اور نہیں وہ لاتے آپ کے پاس کوئی مثال گر ہم آپ کے پا س حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے ہیں۔‘‘
حدیث نبوی ﷺ جو احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے دورِ نبوی ﷺ سے ہی مدون ومرتب ہوتا چلا آرہا ہے یہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم ﷺ کے ایک ایک قول،فعل اور تقریر کو محفوظ کرنے کی بہت زیادہ محنت وکوشش کی ۔ ہر صحابی میں اس بات کی خواہش اور تڑپ موجود تھی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فیض یاب ہو تاکہ احادیث کا علم ہو پھر یہ اصحاب ایک دوسرے سے آپ کے فرامین وہدایات معلوم کیا کرتے تھے۔ ضروریات زندگی اور ناگزیر مصروفیات کے باوجود رسول اللہ ﷺ کی صحبت سے استفادہ کرنے کا اور حدیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے اس کا اندازہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے۔
’’ کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ، باری باری رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں آتا دوسرے دن وہ آتا جس دن میں آتا اس دن کی احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ آتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا۔
(صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب التناؤب... الحدیث:89)
آخر ایسے کیوں نہ ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن وحدیث کی حفاظت کا ذمہ خوداٹھایا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:9)
’’یقیناً ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
اور دوسرے مقام پر فرمایا :
لَا تُحَرِّكْ بِهٖ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَقُرْاٰنَه ٗ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗ (القیامۃ: 16۔19)
’’ آپ اس قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، تاکہ آپ اسے جلدی(یاد)کرلیں، یقیناً ہمارے ذمے ہے اس کا جمع کرنا(آپ کے سینے میں) اور اس کا پڑھنا (آپ کی زبان سے) سوجب ہم اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کیجیے پھر یقیناً اس کا واضح کرنا ہمارے ذمے ہے۔ ‘‘
بہر حال جس طرح قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے کی ہے اسی طرح حدیث رسول ﷺ کی بھی حفاظت کی ہے۔ حدیث کی تدوین وترتیب عہد رسالت سے ہی شروع ہوچکی تھی لیکن اب تدوین حدیث کے بارے میں پہلا سوال جوابھر کر ہمارے سامنے آتاہے وہ یہ کہ خود عہدِ نبوی ﷺ میں حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ غیر معمولی تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس والہانہ محبت وعقیدت کی بنا پر جو وہ رسول اللہ ﷺ سے رکھتے تھے۔ آب کے ارشادات گرامی کو حفظ کرنے کا انہیں بہت اشتیاق تھا مگر یہ کہنا سراسر حق کی تکذیب ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں احادیث ضبط تحریر میں نہیں لائی گئیں اور کتابت وتدوین کا کام نبی کریم ﷺ کی وفات کے 90 برس بعد شروع ہوا اور اس درمیانی عرصے میں محض زبانی روایات پر بھروسہ رہا۔ حدیث اور تاریخ کی مستند کتابوں سے پتہ چلتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط تحریر میں لاتے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ آپ کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو آپ ﷺ کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔
1رسول اللہ ﷺ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث
2 آپ ﷺ کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث
3 مجلس نبوی ﷺ کے برخواست ہونے کے بعد قلمبند کی جانے والی احادیث
1رسول اللہ ﷺ کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث
1صحیفہ عمرو بن حزم : نبی کریم ﷺ نے زکوۃ،صدقات اور خون بہا کے احکام پوری تشریح کے ساتھ عمرو بن حزم کو یمن کیلئے لکھوا کر دیئے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی 2/417)
2 سیدنا عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خلافت میں رسول اللہ ﷺ کے فرمان صدقات کی تلاش کے لیے اہل مدینہ کے پاس قاصد بھیجا تو وہ مجموعہ احکام صدقات عمرو بن حزم صحابی کے لڑکوں سے مل گیا۔(دارقطنی ، ص:451)
3 صحیفہ عمروبن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمروبن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے پاس موجود تھیں۔
(دارقطنی ، کتاب الزکاۃ ، ص:209)
4عبد اللہ بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے ہوئے استعمال میں نہ لاؤ۔ (ترمذی1/206)
5 سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ جب مدینہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے کچھ دن آپ کی خدمت میں حاضر رہے جب وطن جانے لگے تو آپ نے ایک صحیفہ لکھوا کر انہیں دیا جس میں نماز،روزہ،شراب اور سود وغیرہ کے احکام تھے۔ ( طبرانی صغیر ، ص:241۔242)
6 دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔ الفاظ یوں ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ، وَلَا طَلَاقَ قَبْلَ إِمْلَاكٍ، وَلَا عَتَاقَ حَتَّى يَبْتَاعَ (سنن دارمی،ص:393)
’’ بے شک رسول اللہ ﷺ نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرآن کو چھوئے مگر پاک آدمی ہی اور ملکیت سے پہلے طلاق نہیں ہے اور نہیں ہے آزادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘
7 سیدنا ا بن عمر wکا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری زمانہ میں اپنے عالموں کے پاس بھیجنے کیلئے کتاب الصدقہ لکھوائی تھی۔ (ترمذی1/79)
8 خطوط ووثائق : احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور وثیقے ہیں جو کہ رسول اللہ ﷺ نے مختلف اوقات میں بادشاہوں، قبیلوں،سرداروں اور دوسرے لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔
9 جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو عرب اوس وخزرج بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی دس قبیلوں میں منقسم تھے۔ ہر قبیلے کا الگ راج تھا۔ کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا تو آپ وہاں کے باشندوں مہاجرین وانصاری، یہود اور غیرمسلموں سے مشورہ کرنے کے بعد ایک دستورِ مملکت نافذ فرمایا جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق وواجبات کی تفصیل تھی۔ یہ ایک اہم دستاویز تھی جسے ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں، ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے کتاب الاموال اور بعد کے مصنفین میں سے حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں، ابن سید الناس نے سیرت میں مکمل نقل کیا ہے اس دستاویز میں 53 جملے تھے قانون کی زبان میں یوں کہیے کہ یہ 53 دفعات پر مشتمل دستورِ مملکت تھے۔
2 آپ ﷺ کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث
n سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کاتب حدیث اپنے ایک بیان کی ابتداء یوں فرماتے ہیں
بینما نحن حول رسول اللہ نکتب
’’ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔ ‘‘ ( دارمی ، ص:68)
اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ آپ درمیان محفل تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت آپ کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور جو کچھ آپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے تو یہ بالکل املاء کی شکل ہے اور ساتھ ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی روایت کو بھی پیش نظر رکھیے۔
’’ کہ رسول اللہ ﷺ کو بات کو دو دو ، تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں سہولت ہو۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
n سیدنا عبد اللہ بن عمرو مہاجرین میں سے ہیں تذکرہ نگاروں نے انہیں ’’العالم الربّانی‘‘ کا لقب دیا ہے ۔ تورات وانجیل کے بھی عالم تھے۔ پھر ان کا زہد وتقویٰ، عبادت وریاضت عہد رسالت میں ہی مسلم تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ ، 1/356)
n سیدنا عبد اللہ بن عمرو wفرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا :
بلی فاکتبوھا
’’ کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔‘‘ (ابو داود : 3646)
n اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات نے کتابت سے منع کیا۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا
فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ ( سنن ابی داود:3646، حاکم 1/106، مسند احمد 2/207)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتاہے۔‘‘
اس کے بعد سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کتابت حدیث کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور لکھتے لکھتے ان کے پاس احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا، حدیث کی اس کتاب کے بار ےمیں فرمایا کرتے تھے ۔
فَأَمَّا الصَّادِقَةُ، فَصَحِيفَةٌ كَتَبْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن الدارمی:513)
’’رہا صحیفہ صادقہ تو میں نے اسے رسول اللہ ﷺ سے لکھا ہے۔‘‘
اس صحیفہ صادقہ سے بڑی محبت کرتے تھے ، زندگی کا عزیز ترین سرمایہ سمجھتے تھے ، فرماتے تھے :
مَا يُرَغِّبُنِي فِي الْحَيَاةِ إِلَّا الصَّادِقَةُ (سنن الدارمی)
’’صادقہ مجھے زندگی میں بہت زیادہ مرغوب ہے۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ حدیث کی یہ کتاب ’’الصادقہ‘‘ کتنی بڑی اور ضخیم تھی اور اس میں کتنی احادیث درج تھیں اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن کی روایات کی تعداد 5374 ہے ، فرماتے ہیں :
مَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْهُ مِنِّي، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَلاَ أَكْتُبُ (صحیح البخاری مع فتح الباری ، رقم الحدیث: 113، کتاب العلم ، باب کتابۃ العلم)
’’ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو آپ ﷺ سے زیادہ روایات بیان کرنے والا ہو میری بنسبت سوائے سیدنا عبد اللہ بن عمرو wکے کیونکہ بیشک وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘
n اس بات کی توثیق سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے بھی اور زیادہ ہوجاتی ہے ۔
كُنْتُ أَكْتُبُ كُلَّ شَيْءٍ أَسْمَعُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
(سنن ابی داؤد:3646۔ تحفۃ الاحوذی،ص:83)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صادقہ میں 5374 سے بھی زیادہ روایات تھیں جبکہ بخاری ومسلم کی غیر مکرراحادیث کی تعداد 4 ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن میں کافی حصہ ان حدیثوں کا ہے جو دونوں کتابوں میں مشترک ہے۔ مؤطا امام مالک جسے بعض حضرات بخاری ومسلم پر فوقیت دیتے تھے ان کی مرویات کی تعداد 1720 ہے۔
n سیدنا رافع بن خدیج فرماتےہیں کہ ہم لوگوں نے دربار رسالت میں عرض کی کہ ہمیں آپ کی بہت سی باتیں یاد نہیں رہتیںاور انہیں لکھ لیتے ہیں آپ نے فرمایا :’’ لکھ لیا کرو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘ (کنزالعمال 5/223)
n ایک دن مروان نے خطبہ میں بیان کیا کہ مکہ حرم ہے۔ رافع بن خدیج نے پکار کر کہا اور مدینہ بھی حرم ہے یہ بیان میرے پاس موجود ہے اگر چاہو تو پڑھ کر سنادوں۔ (مسلم:3315 ، مجمع الزوائد 4/14)
n آپ کے آزاد کردہ غلام اور خادم ابو رافع نے بھی آپ سے حدیث لکھنے کی اجازت مانگی اور آپ نے انہیں اجازت دے دی تھی۔ ( طبقات ابن سعد جلد 4 حصہ دوم ، صفحہ :11)
n رسول اللہ ﷺ نے اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب بھی دلاتے تھے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
’’علم کو مقید کر لو سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مقید کرنے سے آپ کی مراد کیا ہے ؟ فرمایا ’’لکھنا۔‘‘ (مجمع الزائد ، ص:152)
n سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی کہ اسے احادیث یاد نہیں رہتیں آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنے ہاتھ سے مدد لو یعنی لکھ لیا کرو۔‘‘ ( مجمع الزوائد ، ص:152)
n سیدنا جابر اورسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے مدد لینے کا حکم دیا۔‘‘ (کنزالعمال ، 5/226)
n فتح مکہ کے موقع پر آپ نے خطبہ دیا تو ایک یمنی صحابی ابو شاہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر عرض کرنے لگے
اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِﷺ
’’ مجھے بھی لکھ دو ‘‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا
اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ (بخاری:112۔ مسلم:3305۔ ابو داود:2017۔ ترمذی:2667۔نسائی:4799)
’’ابو شاہ کو لکھ دو۔‘‘
n صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہ صرف احادیث کو قلمبند کیا بلکہ اپنے بچوں سے کہا تھا کہ
يَا بَنِيَّ قَيِّدُوا هَذَا الْعِلْمَ (سنن الدارمی ، ص:491)
’’ اے میرے بیٹو! اس علم کو مقید کر لو۔‘‘
منع کتابت والی حدیث کی صحیح تشریح :
لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ (مسلم:7510۔ ترمذی:2665۔ شرح السنۃ 1/234)
’’ مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو۔‘‘
اس حدیث اور کتابت حدیث کی ترغیب واجازت والی احادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہوتاہے کہ ایک میں کتابت سے منع کیا ہے اور دیگر روایات میں لکھنے کی ترغیب ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں ہے صورت حال یہ تھی کہ قرآن مجید آہستہ آہستہ نازل ہورہا تھا تو رسول اللہ ﷺ اس کی توضیح فرماتے تو صحابہ احادیث اور قرآن کو ایک جگہ لکھ لیتے تھے اس کی تائید اس بیان سے بھی ہوتی ہے۔
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى قَالَ: كَتَبْتُ عَنْ أَبِي كِتَابًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ فِيهِ كِتَابَ اللَّهِ لَأَحْرَقْتُهُ (مجمع الزائد1/60)
’’ سیدنا ابو بردہ بن ابی موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے ایک کتاب لکھی تو انہوں نے کہا اگر اس میں کتاب اللہ نہ ہوتی تو میں اسے ضر ور جلا دیتا۔‘‘
تو آپ نے فرمایا :
أَمْحِضُوا كِتَابَ اللَّهِ وَأَخْلَصُوهُ (مجمع الزوائد)
’’ کتاب اللہ کو مٹادو اور اس کو خالص کرلو یعنی الگ کرلو۔‘‘
صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہوا تھا سب اکٹھا کرکے جلادیا یعنی خلط ملط کرکے لکھنے سے منع کیامطلقاً منع نہیں کیا۔ جب قرآن وحدیث کا فرق واضح ہوگیا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اجازت دیدی اور صحابہ کرام نے احادیث کو قلمبند کیا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں منع کتابت والی حدیث اور اذن کتاب والی احادیث وروایات میں تطبیق دیتے ہوئے کئی احتمالات ذکر کیے ہیں مذکورہ بالا احتمال وقیع معلوم ہوتاہے۔
اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مشہور محدث مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کے ایک دو فقروں پر غور کیجیے:
قد ظن بعض الجهلة في هذا الزمان أن الاحاديث النبوية لم يكن مكتوبة في عهد رسول الله ول في عهد الصحابة وإنما كتبت وجمعت في عهد التابعين قلت: ظن بعض الجهلة هذا فاسد مبني علي عدم وقوفه علي حقيقة الحال۔(مقدمة تحفة الاحوذي، ص:28 دار الحديث قاهرة)
’’اس زمانے کے بعض جاہل لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بےشک احادیث نبویہ نہ نبی کریم ﷺ کے دور میں لکھی گئیں اور نہ صحابہ کے دور میں بلکہ ان کی جمع وکتابت تابعین کے زمانے میں ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ بعض جھال کا یہ گمان فاسد ہے اور حقیقت حال پر عدم واقفیت پر مبنی ہے۔‘‘
بہر حال حکم واذن کتابت کی تمام احادیث وروایات کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے اور سیاق وسباق عبارت کو حذف کرتے ہوئے اور حکم کی علت پر پردہ ڈالتے ہوئے محض ’’لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ‘‘ کے فقرے پر ہنگامہ برپا کرنا علمی دیانت کے یکسر منافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
5جون 632ء اور 12 ربیع الاول 11ھ خاتم الانبیاء سیّدنا محمد عربیﷺ ، جب رفیقِ اعلیٰ سے جا ملے، تو یہ خبر جنگل میںآ گ کی طرح ثابت ہوئی۔جہاں جہاںیہ جاں نکاہ خبر پہنچی، بغاوت کے شعلے اُٹھنے لگے۔ اسلام دشمنوں نے اپنی تخریبی سرگرمیاں تیز تر کر دیں۔
ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوںنےقبائلی سرداروں کی دیکھا دیکھی اسلام قبول کیا تھا۔ صدقِ قلب سے اسلام قبول کرنے والے کچھ لوگ ان میںتھے، ان لوگوں نے نہ صرف اسلام سے بغاوت کر دی، بلکہ انہوں نے مدینہ کی ریاست کے خلاف بھی علمِ بغاوت بلند کر دیا۔
اور مدینہ منورہ پر حملے کی منصوبہ بندی ہونے لگی۔ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے باغی قبائل کی طرف پیغامات بھیجے کہ اسلام کو نہ چھوڑیں، آگے سے جواب ملا کہ ہمارا اسلام تو ایک شخص (رسول اکرمﷺ) سے ایک معاہدہ تھا۔ جب وہ ہی نہ رہے تو ہمارا معاہدہ بھی ختم لہٰذا اب ہم آزاد ہیں۔ ہمارا آپ کے اسلام سے اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اب ہم اپنا راستہ خود اختیار کریں گے۔
ان میں سب سے خطرناک ترین فتنہ مرتدین کا تھا۔
رسولِ مکرمﷺ کی حیاتِ مقدسہ کے آخری ایام میں ہی بعض جھوٹے نبوت کے دعویدار پیدا ہو چکے تھےجن کی رومی و ایرانی اور یہودی پشت پناہی کر رہے تھے۔
ان مدعیانِ نبوت اور باغی قبائل میں اسود عنسی، مسیلمہ کذاب (مسلمہ بن حبیب) طلیحہ اسدی اور سجاح بنت حارث قابل ذکر ہیں۔
اسود عنسی کا اصل نام عقیلہ بن کعب تھا۔ چونکہ اس کا رنگ سیاہ تھا۔ اس لیے اسود کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہ بڑا فصیح البیان، شعبدہ باز اور شر پسند نجومی تھا۔ وہ یمن کے مغربی علاقے عنس کا سردار تھا۔ اس مناسبت سے اسے اسود عنسی کہتے ہیں۔
بد شکل اور سیاہ رنگ کے باوجود اس مرتد میں ایسی کشش تھی کہ لوگ اس کے اشاروں پر چلتے تھے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ یہ ایک پُر اسرار شعبدہ باز اور کاہن بھی رہ چکا تھا۔ اس دور میںکاہنوں کو مشرک لوگ دیوتائوں کا منظورِ نظر اور ایلچی تصّور کرتے تھے۔
چنانچہ جنگل میں آگ کی طرح اچانک یہ خبر پھیل گئی،کہ اسود عنسی کو اللہ نے نبوت عطا کی ہے ۔ اب وہ اسود عنسی نہیں بلکہ ’’رحمن الیمن‘ ‘ کہلاتا تھا۔
خبر دینے والے اس کے کارندے بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے، کہ جا کر دیکھو تو سہی ’’رحمن الیمن‘‘ مردوں کو زندہ کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں کو پھول بناتا ہے، چلو لوگو چلو، اپنی روح کی نجات کیلئے چلو۔‘‘
چونکہ پہلے وہ کاہن رہ چکا تھا۔ لوگ پہلے ہی اسے پُر اسرار طاقتوں کا مالک سمجھتے تھے۔ اس لیے ضعیف الاعتقاد لوگوں نے اس کے دعویٰ نبوت کو بھی تسلیم کر لیا۔
یہ ایک غار کے دھانے رہتا تھااور غار کے قریب ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر لوگوں کو قرآن کی طرز پر کچھ جملے سناتا۔
اور کہتا کہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھی آتا ہے جو اسے ہر روز،ایک راز کی بات بتاتا ہے۔
وہ لوگوںکو اپنی شعبدہ بازیوں کے ذریعہ کرتب بھی دکھایا کرتا تھا۔ مثلاً جلتی ہوئی مشعل اپنے منہ میں ڈال لیتااور جب مشعل اس کے منہ سے نکلتی تو جل رہی ہوتی۔ وہ بڑا چرب زبان اور لسّان بھی تھا۔ اس کے بولنے کا انداز بھی مختلف تھا۔ اس نے یمن والوں کو یہ نعرہ دیا کہ ’یمن یمن والوں کا ہے‘ اس نعرے میں چونکہ بڑی کشش تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل یمن ایک مدت سے ایرانیوں کے زیر نگین چلے آ رہے تھے۔ دوسری طرف وہاں یہودی، نصرانی او رمجوسی بھی تھے۔یہ سب اسلام کے مخالف متحد تھے۔ جیسا کہ روزِ اول سے ہی ایسا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہ لوگ در پردہ اسود عنسی لعنتی کی نبوت کی حمایت کر رہے تھے۔
اسود عنسی لعین نے اپنی نبوت کی صداقت کے لیے ایک گدھا رکھا ہوا تھا۔ وہ گدھا اس کے سامنے لایا جاتا۔ تو وہ گدھے کو کہتا، بیٹھ جائو، گدھا بیٹھ جاتا۔ پھر کہتا جھک جائو، تو وہ سجدے کے انداز میں اس کے سامنے جھک جاتا۔
غرض دیکھتے ہی دیکھتے اس لعین نے ایک لشکر کی صورت میں خود کو منظم کر لیا۔ اس نے اولاً نجران کا رُخ کیا۔ وہاں رسولِ اکرمﷺ کے مقرر کردہ دوحاکم تھے۔ خالد بن سعیداور عمرو بن حزم رضی اللہ عنہم کو لوگ چھوڑ گئے اور اسود کی بظاہر قوت دیکھتے ہوئے نجرانی اس کے ساتھ مل گئے۔
چنانچہ رسالت مآبﷺ کے مقرر کردہ حاکم واپس مدینہ آ گئے۔ اسود عنسی نے اپنی حکومت قائم کر کے صنعا یعنی یمن کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ صنعا میں باذان کے بیٹے شہر بن باذان کی حکومت تھی۔
یہی وہ باذان ہے جس نے اپنے شہنشاہ خسرو پرویز کے حکم پر رسولِ اکرمﷺ کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور اپنے دو سپاہی رسول اللہﷺ کی گرفتاری کے لیے بھیجے تھے۔
رسولِ اکرمﷺ نے جن بادشاہوں کے نام قبول اسلام کے خطوط روانہ کیے تھے۔ ان میں ایک شہنشاہِ ایران بھی تھا ۔ اس کے دربار میں عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ کا خط سنتے ہی وہ آگ بگولا ہو گیا اور اس نے نامہ مبارک کو چاک کر دیاتھا۔
اور عبداللہ بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کو بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دربار سے نکال دیا گیا۔ تب اس نے یمن کے گونر باذان کو حکم دیا۔
کہ اس شخص ’’محمدﷺ’’ کو گرفتار کر کے میرے حضور پیش کیا جائے جس نے حجاز میںنبوت کا دعویٰ کر رکھا ہے۔
شہنشاہ ایران نے چونکہ نہایت گستاخی کا ارتکاب کیا تھا کہ اس نے نامہ مبارک کے پُرزے پُرزے کر دئیے تھے۔اللہ تعالیٰ نے اس کی اس گستاخی کے ردِّ عمل میں اس کے بیٹے کے ہاتھوں اس کو مروا دیا اور یہ سب کچھ آناً فاناً ہوا۔
رسولِ اکرمﷺ نے ان سپاہیوں کو جو کہ آپﷺ کے وارنٹ گرفتاری لے کر آئے تھے۔ ان سے کہا:
جس نے تمہیں یہاں بھیجا ہے۔ اس کے بیٹے نے تو آج رات اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ہیں۔ یہ سن کروہ حیرانی سے ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے۔
گورنرِ یمن باذان تک جب یہ خبر پہنچی، تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی وہ بدستور یمن کا حاکم رہا۔
رسولِ اکرمﷺ نے یمن کے کئی حصے کر کے الگ الگ حاکم مقرر فرمائے۔ باذان کے بعد اس کا بیٹا شہربن باذان کو بدستور صنعا اور اس کے گردونواح کا حاکم بنا دیا گیا۔
چنانچہ اسود عنسی نے جب صنعا کا رُخ کیا، تو ابن باذان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ جس سے اس کی فوج کے قدم اُکھڑ گئے اور صنعا پر اسود عنسی کا قبضہ ہو گیا۔
اور اس نے ابن باذان کی جواں سال خوبصورت بیوی کو جبراً اپنی بیوی بنالیا۔
اسود عنسی نے یکے بعد دیگرے حضرموت، بحرین اَحساء اور عدن تک تمام علاقوں پر قابض ہو کر یمن میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اہل اسلام کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔
دوسری طرف رومیوں کے حملے کا بھی خطرہ تھا۔ اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یمن کو ایک خود ساختہ بنی سے نجات دلانے کے لیے بھی ایک بڑے لشکر کی ضرورت تھی
چنانچہ حکمت عملی کے تحت قیس بن ہبیرہ کو اس مہم کے لیے منتخب کیا گیا اور اسود عنسی کی نبوت کو خاک میں ملانے کے لیے ٹاسک دے کر یمن روانہ کر دیا گیا۔
قیس پُر عزم انداز میں جھوٹے نبی اسود عنسی کے خاتمے کے لیے وفادار مسلمانوں سے مل کر منصوبہ بندی کرنے لگے۔ مختصراً قیس بن ہببرہ رضی اللہ عنہ اسود کے ایک معتمدِ خاص فیروز کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے۔
فیروز اسود کی جبراً بنائی گئی بیوی آزاد کا چچا زاد بھائی تھا۔ فیروز کی مدد سے اسود کو ٹھکانے لگانے کا پروگرام تشکیل دیا گیا۔مؤرخ بلا ذری نے لکھا ہے کہ
’’پروگرام کے مطابق جب فیروز اپنی چچا زاد کے ذریعہ رات کی تاریکی میں اسود کی خوابگاہ تک پہنچا۔ تو وہ شراب کے نشے میں دُھت تھا۔‘‘
یہاں بات قابل ذکر ہے کہ (تمام مدعیانِ نبوتِ کاذبہ بشمول مرزا قادیانی اور قادیانی رائل فیملی شراب و کباب کے رسیا ہیں) فیروز کمرے میں داخل ہوا تو کمرے میں شراب اور گناہوں کا تعفن تھا۔ اسود جنگلی سانڈھ کی طرح تھا۔
دفعتاً اسود بیدار ہو گیا۔ اپنے معتمد فیروز اور بیوی کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔ اس وقت کیا مصیبت آ گئی ہے؟
اسود نے نشے میں لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں پوچھا۔
فیروز نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر تلوار کھینچی، اور پوری قوت کے ساتھ اسود (جھوٹے نبی) کی گردن پر وار کیا۔
اسود نے گردن بچا لی اور تلوار اس کے ننگے سر پر پڑی اور ساتھ ہی اس کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلنے لگیں۔
غلام اور پہرے دار دوڑتے ہوئے آئے۔ آزاد تیزی سے باہر نکلی اور دروازہ بند کرتے ہوئے کہا:
رحمن الیمن کے پاس فرشتہ آیا ہوا ہے۔وحی کا نزول ہو رہا ہے۔ چلو واپس اپنی جگہ پر چلے جائو۔
مؤرخ بلا ذری لکھتا ہے کہ ’’پہرہ دار نے احترام سے سر جھکایا اور چلا گیا۔‘‘
آزاد اندر آئی تو دیکھا کہ اسود فرش سے اُٹھ کر بستر پر گر رہا ہے،اور فیروز دوسرے وار کے لیے بڑھ رہا ہے۔
اسود بستر پر گر پڑا، اور سانڈ کی طرح ڈکا رہا تھا۔ آزاد نے آگے بڑھ کر اسود کے لمبے بال دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر نیچے کو کھینچے اور پھر فیروز نے ایک ہی وار سے اسود کی گردن کاٹ کر جھوٹے نبی کا کام تمام کر دیا۔
جھوٹے نبی کا سر محل کے باہر لٹکا دیا گیا اور ساتھ ہی اَشَہَد اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُولُ اللّٰہ کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔’’اللہ اکبر‘‘
یہ واقعہ مئی 632ء کا ہے۔ اگلے ہفتے قیس بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ اور وبر بن یحنّس یہ خوشخبری لے کر مدینۃ الرسول ﷺ پہنچے۔تو ان کے قدموں تلے سے زمین نکل رہی تھی اور مدینہ کی فضا سوگوار تھی۔
کیونکہ 5جون 632ء ،12ربیع الاول 11ھ کو خاتم النبیین محمد عربی ﷺ اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے تھے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
بڑھے جو ہاتھ حرمتِ نبوت کی طرف تو قلم کر دو
لہو کی دھار سے کھینچو حصارِ ختمِ نبوت