اولیاء اللہ کے دو طبقات ہیں ، سبقت لے جانے والے اللہ کے مقرب بندے ( السابقون المقربون) اور دائیں ہاتھ والے میانہ رو لوگ (أصحاب الیمین )۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں متعدد مقامات پر ان طبقات کا ذکر کیا ہے ۔ مثلا سورئہ واقعہ کے ابتدائی اور آخری حصے میں ،سورئہ نساء ، سورئہ مطففین اور سورئہ فاطر میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔
یہ دونوں طبقات روزِ قیامت ظاہر ہوں گے
اللہ تعالیٰ نے سورئہ واقعہ کے ابتدائی حصے میں قیامت کبریٰ کا ذکر فرمایا ہے اور سورت کے آخر میں قیامت صغریٰ کا ۔ سورئہ واقعہ کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۱ۙ لَيْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ۲ۘ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ۳ۙ اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا۴ۙ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۵ۙ فَکَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۶ۙ وَّکُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۷ۭ فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۸ۭ وَاَصْحٰبُ الْمَشْـَٔــمَۃِ۰ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْــَٔــمَۃِ۹ۭ وَالسّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۱۰ۚۙ اُولٰۗىِٕکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۱۱ۚ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۱۲ ثُـلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِيْنَ۱۳ۙ وَقَلِيْلٌ مِّنَ الْاٰخِرِيْنَ۱۴ۭ(الواقعۃ:۱۔۱۴)
’’جب وہ ہونے والا واقعہ پیش آجائے گاتو کوئی اس کے وقوع کو جھٹلانے والا نہ ہوگا وہ تہہ و بالا کر دینے والی آفت ہوگی،زمین اس وقت یکبارگی ہلا ڈالی جائے گی اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔تم لوگ اس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جائو گے دائیں بازو والے ، سو دائیں بازو والوں (کی خوش نصیبی ) کا کیا کہنا۔اور بائیں بازو والے ، تو بائیں بازو والوں (کی بدنصیبی ) کا کیا ٹھکانا۔ اور آگے والے تو پھر آگے والے ہی ہیں وہی تو مقرب لوگ ہیں نعمت بھری جنتوں میں رہیں گے۔اگلوں میں سے بہت ہوں گے اور پچھلوں میں سے کم۔‘‘
لہذا یہ وہ تقسیم ہے جو قیامت کبریٰ قائم ہونے پر ظاہر ہوگی ، جب اللہ تعالیٰ اول وآخر تمام انسانیت کو اکھٹا فرمائیں گے۔ اللہ نے قرآن میں متعدد مقامات پر یہ منظر کشی کی ہے۔
اولیاء اللہ کے لئے آخر ت میں انعامات
سورئہ واقعہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۸۳ۙ وَاَنْتُمْ حِيْـنَىِٕذٍ تَنْظُرُوْنَ۸۴ۙ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْکُمْ وَلٰکِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ۸۵ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْـنِيْنَ۸۶ۙ تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۸۷ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِيْنَ۸۸ۙ فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ۰ۥۙ وَّجَنَّتُ نَعِيْمٍ۸۹ وَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۹۰ۙ فَسَلٰمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْيَمِيْنِ۹۱ۭ (الواقعۃ : ۸۳۔۹۱)
اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اس خیال میں سچے ہو، تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں سے دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ مگر تم کو نظر نہیں آتے۔پھر وہ مرنے والا اگر مقربین میں سے ہو۔تو اس کے لیے راحت اور عمدہ رزق اور نعمت بھری جنت ہے۔اور اگر وہ اصحاب الیمین میں سے ہو تو اس کا استقبال یوں ہوتا ہے۔کہ سلام ہے تجھے ، تو اصحاب الیمین میں سے ہے۔‘‘
سورئہ دہر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوْرًا۵ۚ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللہِ يُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِيْرًا۶ يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَيَخَافُوْنَ يَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْـتَطِيْرًا۷ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّہٖ مِسْکِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا۸ اِنَّمَا نُـطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ جَزَاۗءً وَّلَا شُکُوْرًا۹ اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِيْرًا۱۰ فَوَقٰىہُمُ اللہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْيَوْمِ وَلَقّٰىہُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا۱۱ۚ وَجَزٰىہُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِيْرًا۱۲ۙ (الدہر : ۵۔۱۲)
نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آبِ کافور کی آمیزش ہوگی، (چشمۂ کافور کی آمیزش ہوگی) یہ ایک بہتا ہُوا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔یہ وہ لوگ ہوں گے جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں ، اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی، اور اللہ کی محبّت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ ) ’’ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ، ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ ہمیں تو اپنے رب سے اس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا۔ ‘‘پس اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے بچا لے گا اور انہیں تازگی اور سرور بخشے گا۔اور ان کے صبر کے بدلے میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ ‘‘
اسی طرح سورئہ مطففین میں اللہ تعالیٰ نے ان دو طبقات کا ذکر کچھ یوں فرمایا ہے :
کَلَّآ اِنَّ کِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ۱۸ۭ وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا عِلِّيُّوْنَ۱۹ۭ کِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ۲۰ۙ يَّشْہَدُہُ الْمُقَرَّبُوْنَ۲۱ۭ اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ۲۲ۙ عَلَي الْاَرَاۗىِٕکِ يَنْظُرُوْنَ۲۳ۙ تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃَ النَّعِيْمِ۲۴ۚ يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ۲۵ۙ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۰ۭ وَفِيْ ذٰلِکَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ۲۶ۭ وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِيْمٍ ۲۷ۙ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا الْمُقَرَّبُوْنَ۲۸ۭ (المطففین : ۱۸۔۲۸)
ہر گز نہیں ! بے شک نیک آدمیوں کا نامہ اعمال بلند پایہ لوگوں کے دفتر میں ہے۔اور تمہیں کیا خبر ! کہ کیا ہے وہ (عِلِّیّن) بلند پایہ لوگوں کا دفتر؟ ایک لکھی ہوئی کتاب،جس کی نگہداشت ، مقرب (فرشتے ) کرتے ہیں۔نیک بندے (اَبرار) اللہ کی نعمتوں میں گھرے ہوں گے، (عیش میں ہوں گے)تختوں (اونچی مسندوں) پر بیٹھے نظّارہ کر رہے ہوں گے، اَبرار کے چہروں پر خوشحالی کی رونق محسوس ہو گی۔ اَبرارکو نفیس سر بند شراب (رحیقِ مختوم) پلائی جائے گی۔جس پر مشک کی مہر لگی ہو گی۔ بازی لے جانے والے رَحیقِ مختوم کو حاصل کرنے کے لیے بازی لے جانے کی کوشش کریں۔ اِس شراب میں تسنیم کی آمیزش ہو گی، یہ (تسنیم) ایک چشمہ ہے جس کے ساتھ مقرب لوگ شراب پئیں گے۔ ‘‘
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سلف میں دیگر مفسرین سے مروی ہے کہ یہ سر بمہر شراب (رحیق مختوم) دائیں ہاتھ والوں کو تسنیم( جنت کا ایک چشمہ) کی آمیزش کے ساتھ پلائی جائے گی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ( السابقون المقربون ) تسنیم کا خالص پانی پئیں گے ، اور سیر ہونے تک پئیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے یَشرَبُ بِہَا یعنی وہ اسی سے پئیں گے ، یہ نہیں کہا کہ ’’ یَشرَبُ مِنہَا ‘‘ یعنی اس میں سے کچھ پئیں گے ۔ لہذا یہاں یشرب سے مراد سیر ہوکر پینا ہے ۔ بسا اوقات پینے والا ایک چیز پیتا ہے مگر اس سے سیر نہیں ہوتا‘ سو اگر یہ کہاجاتاکہ اس میں سے کچھ پئیں گے تو یہ سیر ہونے تک پینے پر دلالت نہ کرتا لہذا یہ جو کہاگیا کہ ’’ یَشرَبُ مِنہَا ‘‘تو مراد یہ ہے کہ اللہ کے مقرب بندے اس چشمے سے سیر ہوکر پئیں گے اور انہیں اس کے ساتھ کسی اور چیز کی حاجت نہ ہوگی۔ پس ’’مقرب بندے‘‘ تسنیم کا پانی خالص ہی پئیں گے اور ’’دائیں ہاتھ والوں‘‘ کو تسنیم کی آمیزش پلائی جائے گی۔ اسی بات کو سورئہ دہر میں اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا :
اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُہَا کَافُوْرًا۵ۚ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِہَا عِبَادُ اللہِ يُفَجِّرُوْنَہَا تَفْجِيْرًا۶(الدہر : ۵۔۶)
نیک لوگ (جنت میں) شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آبِ کافور کی آمیزش ہوگی،یہ ایک بہتا ہُوا چشمہ ہوگا جس کے پانی کے ساتھ اللہ کے بندے شراب پئیں گے اور جہاں چاہیں گے بسہولت اس کی شاخیں نکال لیں گے۔
یہاں ’’عباد اللہ‘ ‘ سے مراد اللہ کے وہ مقرب بندے ہیں جن کا سورئہ واقعہ میں ذکر ہوا۔
’’دائیں ہاتھ والوں‘‘ اور مقرب بندوں‘‘ کی جزاء میں یہ فرق اس لئے ہے کہ ہر عمل کا بدلہ چاہے اچھاہو یا برا .... عمل کے جنس ہی سے ہوتاہے یعنی اگر عمل بالکل خالص ہوتو جزا بھی خالص ہی ملتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتو جزا میں بھی اسی قدر کمی آتی ہے ۔ آئندہ سطور میں اس بات کی تشریح مزید واضح کر دی جائے گی۔
ان دو طبقات کی صفات :
ان دونوں طبقات کے اعمال کا تذکرہ اللہ کے پیارے نبی ﷺ نے اس حدیث میں کیا ہے کہ :
إِنَّ اللَّہَ قَالَ مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ وَمَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْہِ وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّہُ فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِي يَسْمَعُ بِہِ وَبَصَرَہُ الَّذِي يُبْصِرُ بِہِ وَيَدَہُ الَّتِي يَبْطُشُ بِہَا وَرِجْلَہُ الَّتِي يَمْشِي بِہَا (صحیح البخاری، کتاب الرقاق ، باب التواضع)
ــ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : جس نے میرے ولی (دوست) سے دشمنی اختیار کی ، تو گویا اس نے مجھے جنگ کی دعوت دی اور کوئی بندہ میرا قرب اس طرح نہیں پاسکتا جس طرح وہ میرے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی سے میرا قرب پاتاہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے ، اور جب مجھے اپنے بندے سے (فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی کرنے کے سبب) محبت ہوجاتی ہے تو میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتاہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتاہے اور اس کا پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتاہے۔‘‘
دائیں ہاتھ والے (اصحاب یمین)
پس دائیں ہاتھ والے نیکو کار لوگ وہ ہوتے ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں ، ہر وہ کام کرتے ہیں جسے اللہ نے ان پر فرض کیا ہے اور ہر اس چیز کو ترک کردیتے ہیں جسے اللہ نے ان پر حرام کیا ہے البتہ اپنے آپ کو مستحب اعمال کا مکلف نہیں ٹھہراتے اور نہ ہی بے فائدہ مباح امور سے اپنا ہاتھ کھینچتے ہیں۔
سبقت لے جانے والے (السابقون المقربون)
جبکہ سبقت لے جانے والے اللہ کے مقرب بندے فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ وہ واجبات ومستحبات دونوں ادا کرتے ہیں ، اور حرام ومکروہ دونوں قسم کے امور کو ترک کرتے ہیں پھر جب وہ اللہ کے محبوب اعمال میں سے اپنی کامل استطاعت کے مطابق عمل کرکے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں تو رب تعالیٰ بھی ان سے مکمل محبت کرنے لگتاہے۔ جیسا کہ سابقہ حدیث میں مذکور ہے کہ جب بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتاہے تو مجھے اس سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہاں محبت سے مراد مطلق محبت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۵ۙ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّالِّيْنَ۷
ـــ’’ ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔ ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا ، نہ ان کے راستے جن پر تو نے غضب کیا اور نہ گمراہوں کے (راستے پر چلا)۔‘‘
یعنی ان لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنا مطلق انعام فرمایا جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ :
وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَيْہِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕکَ رَفِيْقًا(الأنعام:۶۹)
جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ۔کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔
پس یہ مقرب بندے مباحات میں بھی قرب الٰہی پانے کے راستے ڈھونڈتے ہیں اور یوں مباح امور بھی ان کے حق میں اطاعت ربانی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتاہے لہذا جس طرح انہوں نے عمل خالص کیا ، اسی طرح وہ جنت کی شراب بھی (بغیر کسی آمیزش کے ) خالص پئیں گے۔
ان کے برعکس نیکیوں کے معاملے میں میانہ رو یعنی دائیں ہاتھ والوں کے نامہ اعمال میں ایسے کام بھی شامل تھے جو ان کی اپنی ذات کے لئے تھے ، اس پر انہیں نہ سزا ہوگی ، نہ ہی جزا۔ لہذا انہیں خالص مشروب نہیں پلائی جائے گی بلکہ اس میں مقربین کی مشروب سے اسی قدر آمیزش ہوگی جس قدر ان کے اعمال میں مقربین کے اعمال کی آمیزش تھی۔
پیغمبر بادشاہ اور رسول عبد کی مثال :
اس کی ایک مثال انبیاء کی تقسیم بھی ہے جس میں کچھ رسول وہ ہیں جو محض اللہ کے بندے ہیں ، بادشاہ نہیں ( عبد رسول) .. جبکہ کچھ دیگر وہ ہیں جو بادشاہ بھی ہیں اور نبی بھی ( نبی ملک) ہمارے نبی ﷺ کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ دونوں میں سے ایک کو اپنے لئے پسند کریں تو آپ نے اللہ کا بندہ ورسول بننا پسند فرمایا ۔ (مسند احمد)
وہ انبیاء جنہیں رسالت کے ساتھ بادشاہت بھی عطا کی گئی ان میں سیدنا داؤد اور سیدنا سلیمان علیہما السلام شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرمایا :
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَہَبْ لِيْ مُلْکًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ۰ۚ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ۳۵ فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّيْحَ تَجْرِيْ بِاَمْرِہٖ رُخَاۗءً حَيْثُ اَصَابَ۳۶ۙ وَالشَّيٰطِيْنَ کُلَّ بَنَّاۗءٍ وَّغَوَّاصٍ۳۷ۙ وَّاٰخَرِيْنَ مُقَرَّنِيْنَ فِي الْاَصْفَادِ۳۸ ھٰذَا عَطَاۗؤُنَا فَامْنُنْ اَوْ اَمْسِکْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۳۹ (ص : ۳۵۔۳۹)
اور کہا کہ ’’ اے میرے رب ، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو، بے شک تو ہی اصل داتا ہے۔ ‘‘’’ تب ہم نے اس کے لیے ہوا کہ مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا ۔اور شیاطین کو مسخرَّ کر دیا ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور ۔اور دوسرے جو پابندِ سلاسل تھے ۔(ہم نے اس سے کہا) ’’ یہ ہماری بخشش ہے ، تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے ، کوئی حساب نہیں۔ ‘‘
یعنی جسے عطا کرنا ہے کریں اور جسے محروم رکھنا ہے رکھیں ، آپ پر کوئی حساب کتاب نہیں۔
سو وہ نبی جسے بادشاہت عطا کی گئی ہو، وہ اللہ کے فرض کردہ کاموں کو ادا کرتے ہیں اور محرمات کو ترک کر دیتے ہیں اور اس کے بعد ( مباحات کے دائرے میں) اختیارات واموال میں اپنی پسند اور مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں اور اس پر انہیں کوئی گناہ نہیں ملتا۔
جبکہ وہ رسول جو محض اللہ کے بندے ہوتے ہیں( نہ کہ بادشاہ تبھی) ، وہ اللہ کے حکم کے سوا کسی کو عطا نہیں کرتے، نہ کسی کو اپنی مرضی سے دیتے ہیں اور نہ کسی کو اپنی مرضی سے محروم کرتے ہیں، بلکہ جسے اللہ عطا کرنے کا حکم دیتے ہیں اسے عطا کرتے ہیں اور جسے اللہ دوست بنانے کا حکم دیتے ہیں اسی کو دوست بناتے ہیں چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
مَا أُعْطِيکُمْ ، وَلاَ أَمْنَعُکُمْ أَنَا قَاسِمٌ أَضَعُ حَيْثُ أُمِرْتُ. (صحیح البخاری ، کتاب فرض الخمس ، باب قول اللہ تعالیٰ فإن للہ خمسہ ولرسولہ )
ــ’’میں اپنی مرضی سے تمہیں دے سکتاہوں اور نہ ہی تمہیں منع کرسکتاہوں میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں چیز کو وہیں رکھتا ہوں جہاں اسے رکھنے کا حکم دیا گیاہو۔‘‘
سبقت لے جانے والوں کی دائیں ہاتھ والوں پر فضیلت
پس مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ اللہ کا وہ رسول جو محض اللہ کا بندہ ہو ، اس نبی سے افضل ہے جو بادشاہ بھی ہو جیسا کہ سیدنا ابراہیم ، موسی ، عیسیٰ اور محمد علیہم السلام سیدنا یوسف، داؤداور سلیمان علیہم السلام پر فوقیت رکھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اللہ کے مقرب بندے ( السابقون المقربون) دائیں ہاتھ والوں (أصحاب الیمین) سے افضل ہیں۔
لہٰذا جس نے واجبات پابندی سے ادا کئے لیکن مباح امور میں اپنی پسند کے مطابق معاملہ کیا تو وہ دائیں ہاتھ والوں میں شمار ہوگا۔ اس کے مقابل جس شخص نے صرف وہی اعمال کئے جو اللہ کو پسند ہیں اور جن سے وہ راضی ہوتاہے اور مباح امور میں بھی اس کی نیت یہی رہی کہ وہ اللہ کے حکم ہی کی پیروی کرے تو بلاشبہ وہ سبق لے جانے والوں میں سے ہے ۔
اللھم اجعلنا منھم .
آمین یا رب العالمین
مزارات پر حاضری دینے والوں کاگمان ہے کہ زندگی میں
اس کی صحبت سے جس طرح فیض حاصل کر تے رہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی انکی قبر سے برکت حاصل ہوسکتی ہےانکا یہ بھی نظریہ بن چکا ہے کہ جس طرح ہم ان کی حیا ت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کرتے تھے اسی طرح وہ قبر میں بھی ہماری پکارسن لیتے ہیں اور وہ سفارش کرکے رب سے مشکل حل کرالیتے ہیں ۔اہل قبور سے استمداد کے حق میں کتابچہ نظر سے گزرا جس میں تحریر ہے ۔
مزارات کو سجدہ حرام ۔ان سے فیض اللہ کا انعام۔
چنانچہ چند غور طلب امور ہیں۔
اگر ولی اللہ اگر اپنی حیا ت کی طرح موت کے بعد بھی راہنمائی کرسکتا ہے تو نبی کیوںنہیں کرسکتے ؟
جب ہر نبی فوت ہونے کے بعد فیض رسائی پر قادر ہوتو یکہ بعد دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا کیا مقصد ؟
اگر ولی اللہ کی ولایت موت تک ہے تو فوت شدہ اولیاء کومشکل کے وقت پکارنے کا کیا مقصد ؟
بصورت دیگر اگر انکی ولایت موت کے بعد بھی دائمی ہے تو ان کی ولایت کا نسل در نسل نیک وبد اولاد میں منتقل ہونا چہ معنی وارد؟
ولی زندگی میں مشکل کشا اور موت کے بعد بھی تو سوچنے کا مقام ہے کہ انکی زندگی اور موت میں کیا فرق ؟
اگر فرق نہیں تو موت طاری ہونے کا کیا مقصد ؟
قابل احترام بھائیوں اگر آپ معقول جواب نہیں دے سکتے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ولی جب فوت ہوجاتا ہے تو اس کا دنیا عالم سے رشتہ کٹ جاتا ہے جس طرح اہل دنیا کا عالم ارواح سے تعلق منقطع ہوچکا ہے ۔
در حقیقت ولی کی وفات کے بعد بھی کائنات میں کئ اولیا ء ٔٔٔٔٔٔاور رحانی معالج موجود ہوتے ہیں جن سے روحانی برکت اور فیض حاصل کیا جاسکتا ہے اور دعا کی درخواست کی جا سکتی ہے آپ ان سے رجوع کریںسب سے بڑھ کر یہ کہ جب اللہ تعالی کادر ہر وقت کھلارہتاہے وہ حی اور قیوم ہے اسے موت نہیں آتی اسکا اعلان ہے کہ ہر حالت میں مجھے پکارو میں تمہاری فریادیں سنتاہوں اور تمہاری مصیبتوں کو صرف میں ہی ٹالنے والا ہوں تو ہم اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ۔ہمارا اپنے رب کی قدرت کنـ پر ایمان اتنا کمزور کیوں ہے ؟خدانخواستہ آپ زندہ بزرگوں کی بجائے فوت شدہ بزرگوں سے فیض ،برکت اور مدد طلب کرنے موقف پر قائم ہوں تودردمندانہ التماس ہے آپ سورہ نوح کی تفسیر بالحدیث پڑھ کرذرا اس پر غور فرمائیں کہ بت پرستی کاآغاز کس طرح ہوا؟
وہ علماءجوقبور سے استمداد کے قائل ہیں انہوںنے قبر پر جاکر استمداد کے تین طریقے بیان کیے ہیں ۔
1۔ وہاں جاکر سلام کیا ہے اور پھر فاتحہ شریف پڑھی اور دعا رب سے کی اور کہا کہ یہ مقبول بندے ہیں جنکے پاس آیا ہوں تو انکے صدقے سے میری مشکل آسان کردے
2۔سلام کرنے کےبعد فاتحہ خوانی کی اور کہا کہ تم اللہ تعالی کے پسندیدہ ہو تم اللہ کے دربار میں سفارش کردو انہیںمعبود بنائے بغیر سفارشی بنانا جائز ہے۔
3۔اے اللہ تعالیٰ کےولی میں تیرے پاس آیا ہوں مجھے اللہ تعالیٰ سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا مجھے اللہ تعالیٰ سے لیکر دے۔
یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل اہل سنت کے لئے مشعل راہ ہے۔ زندگی کا کونسا غمی وخوشی کا موقع ہے جہاں رحمت کائنات محمد ﷺ نے دعا نہیں سکھائی۔ آ پﷺ نے سونے جاگنے، کھانے پینے کے وقت، مسجد میں داخل اور نکلتے وقت اور اہل قبور کے حق میں جو دعائیں سکھائیں احادیث میں ان کا تذکرہ موجود ہے۔ لیکن قبر سے استمداد کے مذکورہ تین طریقوں کا ذکر ہوا ہے۔ قائلین کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ احادیث کے ذخیرہ میں سے اس امر کی نشاندہی کریں جہاں مخبر صادق محمد ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مزارات پر جاکر مذکورہ طریقوں کے مطابق حاجت طلب کرنے کی دعائیں سکھائی ہوں؟
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی عبادت کے لائق ہے تو وہی مشکل کشائی کا حق دار ہے۔
دنیا وآخرت میں ہمارے رہبر وراہنما محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں جن کے بعد وحی کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہوگیا اب ان کے علاوہ کوئی رہبر اکمل ومرشد کامل کوئی نہیں۔
عابد،زاہد،مجاہد اور شہید کی جنازہ میں شریک افراد میت کی مغفرت ودرجات کی بلندی کے لیے دعا کرتے ہیں جب وہ قبر میں دفن ہوجاتے ہیں تو اُن کو حاجت روائی کا وسیلہ تسلیم کرنا حقیقت کے منافی عمل ہے۔
معبود ما ، مسجود ما
اللہ احد جل جلالہ
حاجت روا مشکل کشا
اللہ واحدہ اللہ واحدہ
کامل مرشد وراہ نما
محمد مصطفی، مصطفیٰ
شافع محشر
احمد مصطفی
اولیاء کی صحبت سے فیض وبرکات کا حصول
ایمان میں تروتازگی اہل حق کا معمول
اہل قبور کے لیے مغفرت ودرجات طلب کرنا جائز
مگر ان کے وسیلہ سے حاجت ومدد مانگنا حرام
۔۔۔
بارہواں اصول
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰـٹکُمْ
’’یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘
قرآنِ کریم کے محکم ترین اصولوں میں سے ایک یہ اصول ہے‘ جو اِس دین کی عظمت بیان کر رہا ہے ‘اس کی بلندی کا اَمین اوراس کے اصولوںکا پاسبان ہے۔ یہ آیت ِ کریمہ سورۃ الحجرات میں آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سارے اخلا قِ فا ضلہ اوراچھی خصلتوں کے ذکر کے بعد اس آیت کو ذکر فرمایا ہے‘ اوربرے اخلاق اورگھٹیا عادتوں سے روکنے کے بعد اس بات کو بیان کیا ہے۔ اِس آیت میں اس جامع اصول کو بیا ن فرمایا ہے جس سے تمام اچھے اخلاق جنم لیتے ہیں اور تمام غلط اخلاق کا راستہ بند ہو تا ہے یاوہ بہت کمزور ہو جاتا ہے ‘اور یہی آیت اللہ تعالیٰ کے ہاں باہمی فضیلت یا عزت کا معیارہے۔ فرمایا:
یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَـبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْااِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰٹکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (الحجرات13)
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیے ہیں تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو ۔ یقینا اللہ کے نزدیک تم میں سب سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ دانا اور باخبر ہے۔‘‘
یقینا یہ بڑی عظیم آیت ہے جو عدل وانصاف کو واضح کررہی ہے جو اس دین کے علاوہ کسی دوسرے دین میں واضح نہیں ہوئے ۔
اس آیت ِکریمہ کی اہمیت آپ کے سامنے اس وقت تک واضح نہیں ہو سکتی جب تک آپ اپنے ذہن میں ان حالات کو تازہ نہ کر لیں جن سے عرب معاشرہ گزر رہا تھا کہ وہ کس طرح سے دوسرے قبائل سے معاملہ کیا کرتے تھے ‘خواہ ان کا تعلق ایسے قبائل کے ساتھ تھا جن کو وہ نسب کے اعتبار سے نیچ قبیلے مانتے تھے ‘یا ان کا تعلق غیر عرب قبائل کے ساتھ تھا ‘ یا ان کا تعلق غلاموں یا آزاد شدہ قبائل کے ساتھ تھا ۔
نبی اکرم ﷺ کی انتہائی کوشش تھی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت اس آیت ِ کریمہ کی روشنی میں کریں اور آپﷺ نے زبانی اور عملی طور پر باربار اس آیت پر عمل کیا۔ میں یہاں صرف دو مثالیں پیش کر رہا ہوں جن کو قیامت تک نہ تو عرب بھلا سکیں گے اور نہ ہی قریش۔
پہلا واقعہ: یہ فتح مکہ کا دن ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ جاؤ اور بلند آواز سے اذان دو۔ جو لوگ وہاں پر موجود تھے ان میں سے کافر قریشیوں کی بات تو چھوڑیے‘ جدید مسلمانوں کوبھی یقین نہیںآرہاتھا کہ وہ اپنی کھلی آنکھوں سے اس قسم کا منظر دیکھیں گے کہ ایک حبشی غلام اس مقام پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہ اسلام اور آپ ﷺ کی لائی ہوئی ہدایت کا اعجاز تھا جو زبانی اور عملی دونوں طرح سے لوگوں کی تربیت کررہا تھا۔ اور یہ فتح مکہ ہی کے دن کی بات ہے کہ نبی اکرم ﷺ خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے جاتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں۔ آپ کے خیال میں وہ کون کون سی شخصیات ہو سکتی
ہیں جو آپ ﷺ کے ہمراہ داخل ہونے کا شرف پا سکی ہوں گی؟ اور جن لوگوں کو آپ ﷺاپنے ہمراہ لے کر گئے تھے اُن کے داخل ہوتے ہی آپﷺ نے خانہ کعبہ کا دروازہ بند کر دیا! آپﷺ کے ہمراہ صرف تین آدمی داخل ہوئے :
(۱) اُسامہ بن زید (جو خود بھی آپﷺ کے غلام اور ان کا باپ بھی آپﷺ کا غلام)
(۲) بلال حبشی
(۳) عثمان بن طلحہ جو خانہ کعبہ کے کلید بردار (چابی کے ذمہ دار) تھے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
جاہلیت کے معیارات کو ملیامیٹ کرنے کے لیے اس سے بڑی کون سی عملی دلیل ہو سکتی ہے؟ حالانکہ حاضرین میں سیدنا بلال وسیدنا اُسامہ رضی اللہ عنہماسے افضل لوگ بھی موجود تھے‘ جیسے چاروں خلفاء راشدین اور باقی حضراتِ عشرہ مبشرہ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
دوسرا واقعہ:یہ واقعہ اس دن پیش آیاجواس وقت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا واقعہ تھا‘ یعنی حجۃ الوداع کا اجتماع۔ اس اجتماع کے موقع پر لوگ وہاں سے کوچ کی تیاری کررہے تھے اور لوگوں کی نگاہیں اس جانور پر لگی ہوئی تھیں جس پر نبی اکرم ﷺ کو سوار ہونا تھا کہ آج وہ کون خوش قسمت ہے جسے آپ ﷺ کے پیچھے اس جانور پر سوار ہونے کا موقع ملے گا! کیا دیکھتے ہیں کہ وہ کالا کلوٹا نوجوان جو آپﷺ کا غلام ہے اور اس کا والد بھی آپ کا غلام تھا وہ آپ ﷺ کے پیچھے سوار ہوا اور لوگ یہ منظر اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ یہ کام اُس نبیﷺ نے عملًا کر کے دکھایاجس نے اسی دن وہ عظیم خطبہ ارشاد فرمایا تھا جس میں توحید اور اسلام کے بنیادی اصول بیان کیے تھے‘ نیز شرک اور جاہلیت کے اصولوں کو پاش پاش کیا تھا اور وہ مشہور قول ارشاد فرمایا تھا: ’’یقینا جاہلیت کی ہر بات آج میرے قدموں کے درمیان رکھی ہوئی ہے‘‘۔ یہ دو واقعات آپ ﷺ کی گلبہار سیرت میں سے ایسے ہی ہیں جیسے سمندر کے دو قطرے ہوں ۔
اس دین کی عظمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں انسان کے مقام و مرتبے کو کسی ایسی چیزسے منسلک نہیں کیا جو اس کے اپنے اختیار میں نہ ہو۔ چنانچہ انسان کے اپنے بس میں نہیں ہے کہ وہ اپنے لیے بڑے خاندان کا انتخاب کرے‘ ورنہ ہر آدمی کی خواہش ہوتی کہ اس کا تعلق خاندانِ نبوت سے ہو۔ نہ کسی کے لمبے قد یا چھوٹے قد یا خوبصورت یا بدصورت ہونے سے اس کے مقام کا تعلق ہے اور نہ کسی دوسری چیز سے مقام ومرتبے کا تعلق ہے جو انسان کے بس میں نہیں ۔بلکہ انسان کے مقام ومرتبے کا اُس معیار سے تعلق ہے جو اُس کے بس میں ہے۔ اسی لیے قرآنِ حکیم میں ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں کسی کی تعریف اس کے نسب کے حوالے سے کی گئی ہو اور نہ ہی کسی کی مذمت اس کے نسب کی وجہ سے ہوئی ہے۔ مدح کا معیار ایمان و تقویٰ ہے اور مذمت کا معیار کفر ‘ فسق اور نافرمانی ہے ۔
اس بات کی گواہی کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت ابولہب کی مذمت میں نازل فرمائی کہ اس کا کفر اور نبی اکرم ﷺ سے اس کی دشمنی بہت واضح تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو اس بات سے منع فرمایا کہ دنیوی طور پر اپنے کمزورصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو اپنے سے دور کریں‘ اگرچہ آپ ﷺ کا مقصد سردارانِ قریش کے دلوں کو اپنے قریب کرنا تھا۔
فی زمانہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی قابل ِ افسوس ہے‘ جس کی ایسی بہت ساری مثالیں پائی جاتی ہیں جو اس شرعی
قاعدے کے سخت خلاف ہیں: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ} ’’بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘ جو کہ جاہلانہ قبائلی عصبیت کی شکل میں نظر آرہا ہے‘ کہ صرف قبیلے کے افراد کے درمیان باہمی پہچان ہی نہیں رہ گیا اور نہ ہی قابل ِ قبول مدح تک محدود رہ گیا ہے‘ بلکہ مدح میں بھی غلو کی حدوں کو پار کر گیا ہے۔ اور لوگ قبیلے کا ساتھ دینے میں بھی قبیلہ پرستی کا شکار ہیں ‘ بلکہ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دوسرے قبیلے والوں یا دوسرے شہر والوں کی مذمت کی باتیں ہوتی ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر شرعی معیارات بالکل بکھر کر رہ گئے ہیں۔جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سنتا ہے: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ} ’’اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘ اسے قابل ِ مذمت باہمی فخر کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہیے۔ مؤمن کو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ’’جس کو اس کا عمل سست کر دے اس کا نسب اس کو تیز نہیں کرسکتا۔‘‘
تیرہواں اصول :
{اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا}(سورۃ النساء:11)
’’تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے‘ تمہیں نہیں معلوم کہ اِن میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔‘‘
قرآنِ کریم میں بیان کردہ اصولوں میں سے یہ اصول بندے کو مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی عظمت ‘ شریعت میں اس کی حکمت اور بندے کو اپنے علم کی کمی وکوتاہی کے پاس لا کھڑا کرتا ہے۔ سورۃ النساء کے شروع میں آیات ِ میراث کے حوالے سے یہ قاعدہ بیان ہوا ہے۔ فرمایا:
{اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا} (آیت۱۱)
’’تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے‘ تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے ۔‘‘
یعنی تمہیں معلوم نہیں کہ دین ودنیا کے اعتبار سے کون تمہارے لیے زیادہ فائدہ مند ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ باپ زیادہ فائدہ مند ہے‘ مگر عملاًبیٹا زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے ‘ اور کوئی سمجھتا ہے کہ بیٹا زیادہ فائدہ مند ہے ‘مگر عملاً باپ زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے زیادہ صحیح پتا ہے کہ تمہارے لیے زیادہ فائدہ مند کون ہے۔ جس میں تمہارے لیے زیادہ فائدہ تھا میں نے اسی طرح حکم دیا ہے‘ لہٰذا اسی کی پیروی کرو۔ زمانۂ جاہلیت کے لوگ وراثت کو بغیر کسی اصول وضابطہ کے تقسیم کیاکرتے تھے ‘ کبھی والدین کی ضرورت کا زیادہ خیال رکھتے اور کبھی اولاد کی ضرورت کا‘ اور کبھی درمیان درمیان میں رہتے۔ بالآخر یہ پاکیزہ شریعت آگئی تاکہ سابقہ ساری خود ساختہ صورتوںکو بدل دے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خود وراثت تقسیم کر دی۔ اگر ہم اس قاعدے کو اپنے آج کے حالات پر لاگو کر کے دیکھیں تو ہمیں اپنی سوچ اورمعاشرتی معاملات میں بہت ساری غلطیوں کی اصلاح کا موقع ملے گا۔ چند ایک باتیں درجِ ذیل ہیں:
۱) بعض والدین کی اولاد صرف لڑکیاں ہوا کرتی ہیں‘ جن کی وجہ سے وہ گھبراتے ہیںاور اس آزمائش پر غمگین ہوتے ہیں۔ اب یہ قاعدہ ان کے سامنے آگیا جس نے ان کے دل میں یقین اور اللہ کی رضا جاگزیں کر دی ۔ کتنی ہی بیٹیاں اپنے والدین کے لیے لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مندثابت ہوتی ہیں۔ کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں ۔میں ایک آدمی کو جانتا ہوں جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اس کے بیٹے رزق کمانے کی وجہ سے دور ہوگئے۔ اَب اس بوڑھے انسان کے پاس جس کی جسمانی قوت ختم ہو رہی تھی اور اس کی ہڈیاں بھی کمزور ہو چکی تھی صرف ایک بیٹی تھی جس نے اس بوڑھے باپ پر بہت توجہ دی‘ بہت اہتمام سے اس کی ضروریات کو پورا کیا اور اس کی صحت کا خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایاہے:
{اٰبَــآؤُکُمْ وَاَبْـنَــآؤُکُمْ لاَ تَدْرُوْنَ اَیُّـہُـمْ اَقْرَبُ لَــکُمْ نَفْعًا} (النساء :۱۱)
’’تمہارے باپ یا تمہارے بیٹے‘ تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہنچانے میں زیادہ قریب ہے۔‘‘
یہ تو تھا دنیا کا معاملہ ‘ آخرت کی بات تو اور بھی زیادہ عظیم ہے ۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’تمہارے والدین یا تمہاری اولاد میں سے جو زیادہ اللہ کا اطاعت گزار ہوگا‘ وہی قیامت کے روز زیادہ اونچے درجے پر ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اہل ِ ایمان کی باہم ایک دوسرے کے حق میں سفارش قبول کریں گے۔ اگر جنت میں والد کا درجہ بلند ہوا تواس کے بچے کو اس کے مقام تک پہنچا دیا جائے گا اور اگر بچے کا مقام بلند ہوا تو اس کے والد کو بچے کے مقام تک پہنچا دیا جائے گا‘ تاکہ اس طرح ان کی نگاہیں ٹھنڈی رہیں ۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم سنتے وپڑھتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاں صرف بیٹیاں پیدا ہوتی ہوں وہ سخت پریشان ہو جاتے ہیں اور بعض تو اپنی بیویوں کو دھمکیاں دینے لگتے ہیں کہ خبردار! اگر بیٹی پیداکی۔ گویا کہ یہ معاملہ ان عورتوں کے اپنے ہاتھ میں ہے! درحقیقت یہ جہالت کی بات ہے۔ کسی انسان کو کسی ایسے کام پرکیونکر ملامت کیا جاسکتا ہے جو اس کے بس میں نہ ہو؟
اے کاش! جو لوگ اس قسم کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیںوہ اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر غور کرلیتے:
لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَخْلُقُ مَا یَشَآئُ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَآئُ الذُّکُوْرَاَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَآئُ عَقِیْمًا اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ} (الشوریٰ 49۔50)
’’آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ۔وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے۔ یا انہیں جمع کردیتا ہے‘ بیٹے بھی بیٹیاں بھی ‘اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اور بندہ اس پر ناراض ہو! کیا ایسے بندے کو اس پر سزانہیں ہونی چاہیے؟
جس کسی کے حصے میں یہ بیٹیاں آجائیں اُسے اِن احادیث کو یاد کرنا چاہیے جن میں بیٹیوں کی پرورش کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے بیٹیوں کی پرورش کی اور بالغ ہونے تک انہیں پالا ‘وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
بچیوں کی وجہ سے پریشان ہونے والے کو نصیحت کی خاطر کہا جائے گا :
مان لیا تو پریشان ہے اور تجھے سخت تکلیف ہے۔ کیا اس طرح تیرے گھر میںبیٹے پید ا ہوجائیں گے؟ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ لوگوں کی اکثریت لڑکوں کو پسند کرتی ہے ‘ لیکن مؤمن اس آزمائش کو دوسری نظر سے دیکھتا ہے ‘اور وہ ہے صبر کی شکل میں عبادت ‘ اور اللہ کی رضا پر راضی رہ کر عبادت کا حق ادا کرنا۔ کچھ اہل توفیق ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسی بات پر اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں۔ اُن کو علم ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے پسند کی ہے وہ اُن کی اپنی پسند سے زیادہ بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں لڑکوں سے محروم کرکے بہت بڑے شر سے محفوظ کر لیا ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ نے اس ناخلف لڑکے پر سیدناخضر uکو مسلط نہیں کیا تھا جسے بعد میں انہوں نے قتل کردیا تھا‘ پھر اپنے اس فعل کی وجہ بیا ن کرتے ہوئے فرمایا تھا:
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا فَاَرَدْنَآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا}
(الکہف80۔81)
’’اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے‘ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انہیں اپنی سرکشی اورکفر سے عاجز اور پریشان نہ کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ انہیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس زیادہ محبت اور پیار والا بچہ عطا فرمائے۔‘‘
جس طرح اس قرآنی اصول میں ان لوگوں کے لیے تسلی کا سامان ہے جن کو بیٹیاں عطا ہوئیں اسی طرح ان لوگوں کے لیے دل کو مضبوط کرنے کی بات ہے جن کو معذور اولاد ملی ہو‘ چاہے ان کی معذوری کانوں سے متعلق ہو یا آنکھوں سے متعلق یا عقل سے متعلق یا پھر جسمانی ہو۔ ان سے کہا جا رہا ہے :
وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ} (البقرۃ:216)
’’اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لیے اچھی ہو۔‘‘
اور ان سے یہ بھی کہا جائے گا : اللہ کی قسم !تمہیں قطعاً علم نہیں تمہاری کون سی اولاد تمہیں زیادہ نفع دینے والی ہوگی۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہی معذوربچہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی تمہارے لیے فائدہ مند ثابت ہو جائے۔
دنیا کا معاملہ ہی دیکھ لیجئے۔ ممکن ہے ان معذوربچوں کے والدین کے لیے ان آزمائشوں نے تعلق باللہ ‘ خلوت کی دعاؤں اور اس آزمائش سے نکلنے کی امید کی راہیں کھول دی ہوں اور ان معذور بچوں کے والدین کے دلوں میں صبر وبرداشت کا کس قدر جذبہ پیدا ہوگیا ہو۔ اگر اس طرح کی آزمائشیں نہ ہوتیں تو یہ خوبیاں انہیں کہاں سے نصیب ہوتیں؟ اور اسی طرح کے بہت سارے فائدے انہیں کہاں سے حاصل ہوتے!
اور آخرت کے فائدے کو سامنے رکھیں۔ ان معذور بچوں کی وجہ سے دنیا میں ان کو جو آزمائش آئی ‘ اس طرح یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے لیے بلندی ٔدرجات کا سبب بن گئے۔ ممکن ہے ان کو ان کے اپنے اعمال اس درجے تک نہ پہنچاتے۔ (جاری ہے)
پہلی بات
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی خاص حکمت کے تحت دنیا میں موجود چیزوں میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے ۔ انسانوں میں ہمیں سب سے اعلیٰ وارفع انبیاء ورسل کا طبقہ دکھائی دیتا ہے اگر دنیا میں موجود کتب کے متعلق غور کریں تو کتب سماوی کو بلند مقام حاصل ہے پھر کتب سماوی میں سے قرآن حکیم ایک منفرد اور اعلی مقام ومرتبہ رکھتا ہے اگر ہم دنوں پر غور کریں تو فرمان نبوی کی رو سے جمعہ کو ایک خاص منزلت اور رفعت حاصل ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : خَیرُ یَومٍ طَلَعَت فِیہِ الشَّمسُ یَومُ الجُمُعَۃِ ۔ (سنن الترمذی ، کتاب الجمعۃ، حدیث نمبر :۴۵۰) ۔بہترین دن جس دن سورج نکلتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے ۔اسی طرح مکہ اور مدینہ کی شان باقی تمام بلدان اور شہروں سے افضل ہے حتی کہ مکہ کی قسم خود ربّ کائنات نے قرآن میں اٹھائی اور فرمایا
﴿وَہٰذَا الْبَلَدِ الْأَمِینِ ﴾(التین :۳)
اور مجھے اس بلد امین (مکہ) کی قسم ہے ۔
اسی نقطہ سے جب ہم سال کے بارہ مہینوں کیطرف نگاہ دوڑ اتے ہیں تو جو مقام ومنزلت ماہ رمضان کو حاصل ہے وہ کسی دوسرے مہینے کو حاصل نہیں پھر رمضان کے عشرہ اخیرہ کی شان اس کے پہلے دو عشروں سے زیادہ ہے رمضان کی جان ا سکا آخری عشرہ ہے اس لیے اس عشرہ میں آپ ﷺکے معمولات میں ایک نمایاں تبدیلی نظر آتی ہے ۔
رمضان کے آخری عشرہ میں آپﷺ کی عبادت میں زیادتی کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یوں بیان فرمایا ۔
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَجتَہِدُ فِی العَشرِ الأَوَاخِرِ مَا لاَیَجتَہِدُ فِی غَیرِہِ
(رواہ مسلم، کتاب الإعتکاف ، حدیث نمبر :۲۰۰۹)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کی آخری عشرہ میں جو محنت اور جدوجہد فرماتے وہ بقیہ دنوں میں نہیں فرماتے تھے ۔
رمضان کے آخری عشرہ میں رسول اللہ ﷺکے کچھ ایسے معمولات ہمیں ملتے ہیں جو کہ رمضان کے پہلے عشرے میں کم ہی نظر آتے ہیں ۔
۱۔ رات بھر جاگنا
مسند احمد میں عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :
نبی کریم ﷺرمضان کے شروع کے دنوں کی راتیں کچھ نماز پڑ ھ کر اور کچھ سوکر گزارتے لیکن جب عشرہ اخیر شروع ہوجاتا تو(مکمل شب بیداری) کیلئے کمر کس لیتے اور مستعد ہوجاتے ۔
۲۔ اپنے اہل کو جگانا:
طبرانی میں ایک روایت ہے کہ آپ ﷺاپنے اہل کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹے بڑ ے کو جو نماز ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو اٹھایا کرتے تھے ۔
۳۔ وصال صوم:
بعض روایات کے مطابق آپ ﷺعشرہ اخیر ہ میں وصال صوم بھی کرتے تھے ۔
۴۔ لیلۃ القدر
یہ بھی عشر ہ اخیر کے اہم خصائص میں سے ہے جس کے بارے میں فرمان رب العالمین ہے کہ
﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَہْرٍ ﴾(القدر :۳)
لیلۃ القدر کی ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے افضل ہے ۔
آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :
مَن قَامَ لَیلَۃَ القَدرِ اِیمَاناً وَاحتِسَاباً غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِہِ (صحیح بخاری :۱۷۶۸)
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا جس نے ایمان اور احتساب(ثواب کی نیت سے ) کے ساتھ لیلۃ القدر کا قیام کیا اس کے تمام گذشتہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
۵۔ اعتکاف
اعتکاف بھی عشرہ اواخرہ کے اہم خصائص میں سے ہے ۔
اعتکاف کی تعریف
لغت میں اعتکاف کا لفظ عکف سے بنا ہے جس کا معنی ہے روک لینا بند کرنا ، مقید کرنا وغیرہ
شرعی اصطلاح میں اعتکاف کسی مسلمان کا عبادت الٰہی کی نیت سے مسجد میں خاص وقت تک اپنے آپ کو مقید کرنا مراد ہے ۔
اعتکاف کی اقسام
شرعی اعتکاف کی دو قسمیں ہیں ۔
۱۔ سنت مؤکدہ
وہ اعتکاف جو کہ رمضان کے آخری دس دنوں پر محیط ہو وہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے ۔
۲۔ واجب
وہ اعتکاف جو کہ انسان اپنے اوپر نذر کی صورت میں واجب کر لے مثلاً اگر کوئی آدمی نذر مانتا ہے کہ اگر اللہ نے مجھے حج کرنے کی توفیق بخشی تو پھر میں اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا اب اس شخص پر اعتکاف کرنا واجب ہے ۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں مسلمانوں کا اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔
اعتکاف کی شرائط
۱۔ مسلمان ہونا
۲۔ عاقل ہونا یعنی پاگل دیوانہ مجنون نہ ہو۔
۳۔ غسل واجب سے پاک ہونا
۴۔ حیض اور نفاس کے خون سے پاک ہونا
۵۔ اعتکاف کی نیت کرنا
۶۔ مسجد کا ہونا
اعتکاف کی فضیلت
اعتکاف کی فضیلت میں رسول اللہﷺ کا یہ فرمان جوکہ سیدناابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔
(من اعتکف یوماً ابتغاء وجہ اللہ جعل اللہ بینہ بین النار ثلاث خنادق کل خندق ابعد فیما بین الخافقین ) (رواہ الطبرانی والحاکم وصححہ)
جوشخص اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے ایک دن کا اعتکاف کرے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان ۳ تین خندقیں تیار کروائے گا ہر خندق کی چوڑ ائی مشرق ومغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو گی۔
اتنی فضیلت صرف ایک دن اعتکاف کرنے والے کی ہے اور آدمی دس دن اعتکاف کرتا ہے اور وہ بھی ماہ صیام میں اس کی فضیلت کا اندازہ لگائیں ؟
اور ابن ماجہ کی ایک روایت میں مشفق اور امین پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فِی المُعتَکِفِ ہُوَ یَعکِفُ الذُّنُوبَ وَیُجرَی لَہُ مِنَ الحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الحَسَنَاتِ کُلَّہَا)
اعتکاف والا آدمی گنا ہوں سے رکا رہتا ہے اس کو ان تمام نیک اعمال کا جوکہ وہ اعتکاف کی وجہ سے نہیں کر پاتا ایسا ہی بدلہ دیا جائے گا جیسا کہ نیک اعمال کرنے والے کو دیاجاتا ہے ۔
جائے اعتکاف
اعتکاف صرف اور صرف مساجد میں ہی ہوتا ہے ۔ رب العالمین کا ارشاد ہے
﴿وَاَنتُم عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)
اور تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو۔
مذکورہ آیت میں اعتکاف کی جگہ صرف مساجد ہی ذکر کی گئی۔
اورسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
أَنَّہَا کَانَت تُرَجِّلُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَہِیَ حَائِضٌ وَہُوَ مُعتَکِفٌ فِی المَسجِدِ
(صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف ، رقم الحدیث :۱۹۰۵)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام ما ہواری میں آپﷺ کی مانگ نکالا کرتی تھیں اور آپ ﷺ مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے ۔
عورتوں کا اعتکاف
عورت بھی مرد کی طرح اعتکاف کی برکات سے مستفید ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کا شوہر اس بات کی اجازت دے عورت کا اعتکاف بھی صرف مسجد میں ہی درست ہو گا کیونکہ قرآن کا حکم
﴿وَاَنتُم عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ﴾ (البقرۃ:۱۸۷)
عام ہے اور شریعت میں عورتوں کیلئے کوئی الگ حکم نہیں ہے کہ وہ اعتکاف گھر میں کریں بلکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ ﷺ کی زوجات مسجد نبوی میں ہی اعتکاف کرتی تھیں کسی صحیح حدیث سے گھر میں اعتکاف کرنا ثابت نہیں ہے۔
اعتکاف کا وقت
اعتکاف کرنے والا شخص ۲۰ رمضان کی شام کومسجد میں داخل ہو گا اور اگلے روز نمازِ فجر کے بعد اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو۔
عَن عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنہَا قَالَت کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا أَرَادَ أَن یَعتَکِفَ صَلَّی الفَجرَ ثُمَّ دَخَلَ مُعتَکَفَہُ
(صحیح مسلم ، کتاب الاعتکاف ، حدیث نمبر ۲۰۰۷)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جب آپ ﷺ اعتکاف کا ارادہ فرماتے تو نماز فجر ادا فرما کر اپنی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوتے تھے ۔
دوران اعتکاف جائز امور
۱۔ طبعی ضروریات مثلاً پیشاب وغیرہ ، غسل جنابت کیلئے مسجد سے نکل سکتا ہے بشرطیکہ مسجد میں اس چیز کا انتظام نہ ہو۔
۲۔ مسجد میں کھانا، سونا، چار پائی لگانا، خیمہ لگانا اور بقدر ضرورت گفتگو میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
۳۔ سرمیں تیل لگانا، کنگھی کرنا جائز ہے ۔
أَنَّہَا کَانَت تُرَجِّلُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَہِیَ حَائِضٌ وَہُوَ مُعتَکِفٌ فِی المَسجِدِ
(صحیح بخاری، کتاب الاعتکاف ، رقم الحدیث :۱۹۰۵)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام ما ہواری میں آپ ﷺ کی مانگ نکالا کرتی تھیں اور آپ ﷺمسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے ہوتے تھے ۔
۴۔ معتکف آدمی سے اس کی بیوی ملاقات کے لئے آ سکتی ہے اور وہ اس کو مسجد کے دروازے تک چھوڑ نے کیلئے بھی جا سکتا ہے ۔
دلیل : سیدنا صفیہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کی زیارت کیلئے مسجد میں تشریف لاتی تھیں ۔
دوران اعتکاف ممنوع اعمال
۱۔ ازدواجی تعلقات قائم کرنا
﴿وَلاَ تُبَاشِرُوہُنَّ وَاَنتُم عَاکِفُونَ فِی المَسَاجِدِ﴾
اور تم مسجدوں میں اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت نہ کرو۔(البقرۃ:۱۸۷)
۲۔ جنازہ میں شرکت کرنا
۳۔ مریض کی عیادت کرنا (چلتے چلتے اگر کسی کا حال پوچھ لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں )
دلیل : قَالَت عَائِشَۃُ رضی اللہ عنہا : اَلسُّنَّۃُ عَلَی المُعتَکِفِ أَن لاَ یَعُودَ مَرِیضاً وَلاَ یَشہَدَ جَنَازَۃً وَلاَ یَمَسَّ امرَأَۃً وَلاَ یُبَاشِرَہَا
(سنن ابی داؤد، کتاب الصوم ، حدیث نمبر :۲۱۱۵)
سیدہ صدیقہ کائنات عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اعتکاف کرنے والے کیلئے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت نہ کرے نہ جنازہ میں شریک ہو اور نہ ہی عورت کو (شہوت کیساتھ) چھوئے اور نہ ہی اس کے ساتھ مباشرت کرے ۔
۴۔ بغیر ضرورت کے مسجد سے نکلنا
کَانَ لاَ یَدخُلُ البَیتَ إِلاَّ لِحَاجَۃٍ إِذَا کَانَ مُعتَکِفاً (صحیح بخاری 1889)
آپ ﷺاشد ضرورت کے بغیر کبھی گھر میں داخل نہیں ہوتے جس وقت آپ ا اعتکاف میں ہوتے ۔
سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر معتکف بغیر کسی ضرورت کے مسجد سے نکلتا ہے خواہ تھوڑ ی دیر کیلئے ہی کیوں نہ نکلے اس کا اعتکاف باطل ہوجائے گا کیونکہ مسجد میں ٹھہرنا اعتکاف کا ایک رکن ہے ۔ (فقہ السنہ باب الاعتکاف)
۵۔ کبائر کا ارتکاب
اگر معتکف کبائر کا ارتکاب کرے گا تو اس کا اعتکاف بھی باطل ہوجائے گا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے ۔
ایک غلط فہمی:
عوام الناس میں یہ تأثر عام طور پر پایا جاتا ہے کہ بغیر روزہ کے اعتکاف نہیں ہوتا یہ بات صحیح نہیں ہے اگر معتکف آدمی کسی شرعی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ تا ہے تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہیں ہے جمہور اور محقق علماء کا موقف ہے کہ روزہ اعتکاف کیلئے شرط نہیں ہے ۔
(فتوی علامہ ابن باز رحمہ اللہ )
اعتکاف کے فوائد
۱۔ معتکف کیلئے لیلۃ القدر کو تلاش کرنا آسان ہوتا ہے ۔
۲۔ معتکف کے قلب وذہن پر صرف ذکر الٰہی جاری ہوتا ہے جس کی بناپر وہ فرشتوں کی مشابہت اختیار کرتا ہے ۔
۳۔ معتکف آدمی ساری خواہشات اور گنا ہوں سے بچا رہتا ہے ۔
۴۔ معتکف آدمی کو مسجد کیساتھ ایک خاص انس اور پیار ہوجاتا ہے ۔
۵۔ معتکف کو تنہائی میسر ہوتی ہے جس میں اپنی گذشتہ خطاؤں پر ندامت کے آنسو بہا سکتا ہے اورتوبہ کر کےنئےسرےسے اپنی زندگی کو احکام الٰہی کےمطابق بسرکرسکتا ہے ۔
۶۔ اعتکاف سے آدمی کو آخرت کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔
۷۔ حالت اعتکاف میں معتکف کو فضول گوئی اور فضول کلام کی بری عادت سے نجات ملتی ہے اور وہ کم گوئی کی عادت حسنہ کا عادی ہوجاتا ہے ۔
آخری بات
محترم قارئین ! اعتکاف کے متعلق آخری اور اہم بات اس کی حفاظت ہے اگر معتکف اعتکاف کے بعد بھی تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی میں مشغول رہتا ہے اور فضول گفتگو ، گالی گلوچ ، عبث کلام سے دور رہتا ہے تو اس نے اعتکاف کی حفاظت بھی کی ہے اور اعتکاف سے اس کو فائدہ بھی ہوا ہے ۔اعتکاف کے بعد ہر قسم کے گناہ سے احتراز اور بچناہی ہماری اصل ضرورت ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بعد از اعتکاف بھی گنا ہوں سے بچائے ۔ آمین