برصغیر پاک وہند میں جماعت اہلحدیث کے جو علمائے ذی وقار اپنے علمی تبحر، ذوق مطالعہ، وسعت معلومات، درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور وعظ وتبلیغ کے ذریعہ اور علوم اسلامیہ(تفسیر،حدیث،فقہ خاص کر علم حدیث نبوی ﷺ اور اس کے متعلقہ علوم اسماء الرجال، جرح وتعدیل،اصول حدیث اور فقہ الحدیث میں دسترس رکھتے تھے اور ان علوم میں صاحب امتیاز ہونے کی وجہ سے ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور ہوئے۔ اُن کا مختصر تذکرہ مع اُن کی تصانیف متعلقہ حدیث نبویﷺ پیش خدمت ہے۔ (عبد الرشید عراقی)
مُحَدِّث
علمائے اسلام محدث کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ
’’ جو عالم دین علوم اسلامیہ یعنی تفسیر، حدیث ، فقہ، اصول فقہ اور حدیث نبوی ﷺ کے متعلقہ تمام علوم یعنی اسماء الرجال، لغت، جرح وتعدیل اور فقہ الحدیث پر کامل عبور رکھتا ہو اُس کو محدث کہا جاتاہے۔
برصغیر(پاک وہند) کے جو علمائے کرام ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور ہوئے۔ان کے اسمائے گرامی مع سن وفات حسب ذیل ہیں۔
1۔مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی 1320ھ
2۔ علامہ حسین بن محسن انصاری محدث الیمانی 1327ھ
3۔ مولانا محمد سعید محدث بنارسی 1322ھ
4۔ مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی 1339ھ
5۔ حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی 1334ھ
6۔ حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری 1337ھ
7۔ مولانا عبد الوہاب محدث صدری دہلوی 1351ھ
8۔ مولانا محمد عبد الرحمان محدث مبارکپوری 1353ھ
9۔ مولانا عبد التواث محدث ملتانی 1366ھ
10۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی (گوجرانوالہ) 1387ھ
11۔ مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی 1381ھ
12۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی 1384ھ
13۔ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی 1408ھ
14۔ حضرت العلام حافظ محمد محدث گوندلوی 1405ھ
15۔ مولانا محمدعلی جانباز محدث سیالکوٹی 1429ھ
16۔ مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی1363ھ
1۔مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ (1220۔1320ھ/1805۔1902ء)
شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ امام حدیث تھے۔ حدیث کی مہارت ان پر ختم تھی۔ آپ مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی رحمہ اللہ کے 1258ء میں مکہ مکرمہ ہجرت کرنے کے بعد دہلی کی سند تحدیث پر فائز ہوئے اور 62 سال تک حدیث نبوی ﷺ کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی(م1996ء) لکھتے ہیں کہ
’’شاہ اسمعیل شہید کی اس مسابقت الی الجہاد وفوزبہ شہادت کے بعد دہلی میں مولانا شاہ محمد اسحاق کا فیضان جاری ہوگیا تھا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید محمد نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔ (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ، ص:20۔21)
جس عالم دین نے 62 سال تک قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ کی صدائیں بلند کی ہوں اس کے تلامذہ کا شمار ممکن نہیں ۔
وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت،کتاب وسنت کی ترقی وترویج ، شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ اور ادیان باطلہ اور کتاب وسنت کے مخالف افکار ونظریات کی تردید کے لیے جو ذرائع استعمال کئے۔ وہ درج ذیل ہیں :
1۔ درس وتدریس
2۔ دعوت وتبلیغ
3۔ تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4۔ تصنیف وتالیف
5۔ باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید ۔
6۔ تحریک جہاد
تلامذہ :
تبرکاً حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ کے چند معروف ومشہور تلامذہ کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں :
حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ)
حافظ عبد المنان وزیر آبادی (م1334ھ)
حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ)
عارف باللہ سید اللہ غزنوی ( م 1298)
حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی (م 1311ھ)
مولانا شمس الحق عظیم آبادی ( م 1329ھ)
مولانا غلام نبی الربانی سوہدروی (م 1348ھ)
مولانا عبد الحمید سوہدروی ( م 1330ھ)
مولانامحمد عبدالرحمان مبارک پوری ( م 1353ھ)
مولانا عبد السلام مبارک پوری ( م 1342ھ)
مولانا عبد الحق حقانی ( م1335ھ)
شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م 1367ھ)
مولانا حکیم سید عبد الحی حسنی ( م 1341ھ)
مولانا سید عبد الجبار غزنوی ( م 1331ھ)
مولانا عبد الوہاب صدری دہلوی ( م 1351ھ)
مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ( م 1375ھ) رحمہم اللہ اجمعین ۔(الحیاۃ بعد المماۃ )
تصنیف :
حضرت میاں صاحب کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی ۔
اس لئے تصنیف وتالیف کے لیے فراغت نہیں ملی لیکن ان کی ایک بہت مفید کتاب ہے جس کا موضوع تردید تقلید ہے ۔
دوسری تصنیف ’’فتاوی نذیریہ‘‘ ہے جو دو جلدوں میں دہلی سے شائع ہوا۔
بعد میں اہلحدیث اکیڈمی لاہور نے تین جلدوں میں شائع کیا یہ فتاوی حضرت میاں صاحب کے دو تلامذہ مولانا شمس الحق عظیم آبادی(م 1329ھ) اور مولانا عبد الرحمان مبارکپوری (م 1352ھ) نے حضرت میاں صاحب کی وفات کے بعد شائع کیا۔
حل صحیح بخاری یعنی نسخہ عتیقۃ صحیحۃ مع حل مشکلات وحواشی وجمیع نسخ من خزانۃ الکتب العلامۃ شمس العلماء مولانا السید نذیر حسین المحدیث الدہلوی ( م 1320ھ)
حضرت میاں صاحب صحیح بخاری کا درس جس نسخہ کو اپنے سامنے رکھ کر ارشاد فرمایا کرتے تھے اس کے بارے میں آپ کے تلمیذ رشید مولانا عبد السلام مبارک پوری ( م 1342ھ) فرماتے ہیں کہ
’’ یہ نسخہ بہت عتیق نہایت واضح خوش خط ہے ، مع جمیع نسخ وحل مشکلات وحواشی ورق کلاں پر تیس(30) ضخیم جلدوں میں ختم ہوا ہے اس نسخہ کی صورت اس کی قدامت کی دلیل روشن ہے یہ وہ نسخہ ہے جو بڑے بڑے اساتذہ اور شیوخ کے درس وتدریس میں رہا اور ہر زمانہ میں بڑے بڑے افاضل نے اس پر حواشی نکات چڑھائے مختلف اوقات میں حواشی چڑھانے کی وجہ سے حاشیہ لکھنے کا کوئی نظم نہیں رہا جس نے جس طرف جگہ پائی ۔ لکھ دیا
حضرت شیخ الکل کے خاص ہاتھ کے حواشی لکھے ہوئے بھی اس پر موجود ہیں اس طرح مدت کے بعد یہ نسخہ اس کمال کو پہنچا حضرت شیخ الکل اس نسخہ کی بڑی حفاظت فرماتے او ر اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے الحمد للہ کہ اس نسخہ کے دیدار سے ہماری آنکھیں بہی منور ہوئیں اور اس کی جلدیں اس وقت ہمارے سامنے موجود ہیں اور تیسوں جلدیں الگ الگ ہیں محشی میں ذیل کے علامات لکھے ہوئے ملتے ہیں۔ (سیرت البخارین صدی ایڈیشن (مطبوعہ 2009) ص : 285)
پروفیسر عبد الجبار شاکر ( م 2009ء) لکھتے ہیں کہ |
شیخ الکل کا ذاتی کتب خانہ ’’ہمدرد لائبریری دہلی‘‘ میں ہزاروں کتب اور مخطوطات میں موجود ہے مجھے 2005ء میں ان کی زیارت نصیب ہوئی کاش کوئی ان کے حواشی مدون کرے۔ (ایضاً)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10رجب1320ھ/13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی اور شیوی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (تراجم علمائے اہلحدیث ہند ص 1501)
2۔علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ
برصغیر پاک وہند میں علوم اسلامیہ کی تدریس میں علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی ( م 1327ھ) کا اسم گرامی سنہری حروف میں لکھا گیا ہے آپ جلیل القدر محدث، محقق اور حافظ حدیث تھے۔ برصغیر کے ممتاز علمائے حدیث نے آپ سے حدیث میں استفادہ کیا ہے اور ان کی شاگردی کو اپنے لیے باعث افتخار سمجھا ہے اور ان کے علمی تبحر،ذوق مطالعہ، قوت حافظہ اور وسعت ِ معلومات کا اعتراف کیا ہے ۔
مولانا شمس الحق محدث عظیم آبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
میں نے علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی کو علم اور عمل کا جامع پایا، شیخ قوی وجوہ، عظیم الشان اور بلند مرتبے کے حامل ایسے سمندر تھے جس کا کوئی ساحل نہ ہو آپ محدث، محقق اور کتاب اللہ کے معانی کی وضاحت کرنے والے ، اصول حدیث ،علل حدیث ، رجال حدیث کے عالم ، علم اصول حدیث اور لغت کے ماہرتھے۔ سنن ابی داؤد اور دیگر کتب حدیث پر ان کی مختلف تعلیقات ہیں اور بہت سے مفید رسائل علم حدیث کے مباحث پر ہیں۔ ( غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ص 71’’مقدمہ‘‘)
علامہ حسین بن محسن انصاری الیمانی رحمہ اللہ کی تدریسی خدمات کے بارے میں مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م1999ء) رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ
’’ شیخ حسین بن محسن کا وجود اور ان کا درس حدیث ایک نعمت خداوندی تھا جس سے ہندوستان اس وقت بلاد مغرب ویمن کا ہمسر بنا ہوا تھا اور اس نے جلیل اقدر شیوخ حدیث کی یادتازہ کر دی تھی جو اپنے خداداد اور حافظہ،علو سند اور کتب حدیث ورجال پر عبور کامل کی بنا پر خود ایک زندہ کتاب خانہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ شیخ حسین بیک واسطہ علامہ محمد بن علی شوکانی صاحب نیل الاوطار کے شاگرد تھے اور ان کی سند بہت عالی اور قلیل اوسائط سمجھی جاتی تھی۔ یمن کے جلیل القدر اساتذہ حدیث کے تلمذ وصحبت ، غیر معمولی حافظہ ، جو اہل عرب کی خصوصیت چلی آرہی تھی سالہا سال تک درس حدیث کے مشغلے طویل مزاولت اور ان یمنی خصوصیات کی بنا پر جن کی ایمان وحکمت کی شہادت احادیث صحیحہ میں موجود ہے حدیث کا فن گویا ان کے رگ وریشہ میں سرایت کر گیا تھا اور اس کے دفتر ان کے سینے میں سماگئے۔ (بقول میر ... استاد حدیث مولانا حیدر حسن ٹونکی رحمہ اللہ شیخ الحدیث ندوۃ العلماء لکھنو ۔ جو شیخ کے شاگرد تھے فتح الباری( جس کی 13 ضخیم جلدیں اور ایک مقدمہ علیحدہ جلد ہے) شیخ صاحب کو تقریباً حفظ تھی) وہ ہندوستان آئے تو علماء وفضلاء نے( جن میں بہت سے صاحب درس وصاحب تصنیف بھی تھے)پروانہ وارد ہجوم کیا اور فن حدیث کی تکمیل کی اور ان سے سند لی تلامذہ میں نواب صدیق حسن خان، مولانا محمد بشیر سہیوانی، مولانا شمس الحق ڈیانوی، مولانا عبد اللہ غازی پژری ، مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ، مولانا سلامت اللہ جیراج پوری نواب وقار نواز جنگ مولوی وحید الزماں، علامہ محمد طیب مکی، شیخ اسحاق بن عبد الرحمان نجدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔(حیات عبد الحی ص 79۔80)
علاوہ ازیں ان علمائے کرام کے اور بھی بہت سے علمائے حدیث نے علامہ حسین بن محسن سے کتب حدیث پڑھیں اور سند واجازت حاصل کی، مثلاً :
’’ سعید شریف حسین بن شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین محدث دہولی ، مولانا عبد الحمید سوہدروی(والد محترم مولانا عبد المجید خادم سوہدروی) حافظ عبد الوہاب نابینا دہلوی، مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی، مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی، مولانا سید عبد الباقی سہیوانی، مولانا عبد السلام مبارک پوری، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری، مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی، رحمہم اللہ اجمعین ۔
( تراجم علمائے حدیث ہند)
تصانیف :
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنیرحمہ اللہ (م1341ھ) لکھتے ہیں کہ
’’ تالیف سے مناسبت نہ تھی ورنہ حدیث اور متعلقات حدیث پر بہتر لکھ سکتے تھے تاہم حدیث پر لکھا خوب لکھا۔
1۔ تعلیقات علی سنن ابی داؤد(عربی)
2۔ تعلیقات علی سنن نسائی ( عربی)
3۔البیان المکمل فی تحقیق الشاذ والمعلل ( عربی)
(اس کتاب میں شاذ اور معلل کی تعریف میں جو علمائے معللین کے اختلافات ہیں اُن کی نقل کرکے لکھ دیاگیا ہے نیز ایسی احادیث کے حجت وعدم حجت ہونے پر بحث ہے۔
4۔ التحفۃ المرضیۃ فی حل بعض المشکلات المرضیۃ( عربی)
(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:68۔69)
3۔مولانا محمد سعید محدث بنارسی رحمہ اللہ
مولانا سعید بنارسی رحمہ اللہ کا شمار اُن علمائے حدیث میں ہوتا ہے جنہوں نے ہندوؤں کے شہر بنارس میں دین اسلام کی نشر واشاعت،توحید وسنت کی ترقی وترویج، شرک وبدعت ومحدثات کی تردید وتوبیخ میں نمایاں کردار ادا کیا۔
مولانا محمد سعید کا تعلق ایک غیر مسلم گھرانے سے تھا۔ مولانا شیخ عبید اللہ نو مسلم صاحب(م 1310ھ) تحفۃ الہند کی تحریک پر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ پہلے دار العلوم دیوبند میں مختلف اساتذہ سے علوم عالیہ وآلیہ میں استفادہ کیا بعد ازاں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی(م1320ھ) اور مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری(م 1337ھ) سے تفسیر،حدیث،فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں پڑھیںجب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حجازتشریف لے گئے تومکہ مکرمہ میں شیخ عباس بن عبد الرحمان تلمیذ قاضی شوکانی سے سند واجازت حاصل کی۔
حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس ہندوستان تشریف لائے اور مولانا حافظ ابراہیم آروی (م1319ھ) کے مدرسہ احمدیہ آرہ(مدراس) میں تدریس پر مامور ہوئے کچھ عرصہ مدرسہ احمدیہ آرہ میں تدریسی خدمات دینے کے بعد اپنے استاد محترم مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری( م 1337ھ) کی تحریک پر بنارس کو اپنا مسکن بنایا اور بنارس تشریف لانے کے بعد ایک دینی درسگاہ بنام’’مدرسہ سعیدیہ‘‘ کی بنیاد رکھی اور ساتھ کتب توحید وحدیث نبوی ﷺ کی تائید، نصرت، حفاظت، مدافعت کے لیے ایک پریس بنام ’’سعید المطابع‘‘ قائم کیا اور توحید وسنت کی حمایت میں لاکھوں ورق شائع کئے۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی فن مناظرہ میں ید طولیٰ رکھتے تھے آپ نے کئی ایک مناظرے اہل بدع اور اہل تشیع سے کئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہر مناظرہ میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ مولانا محمد سعید صاحب تصانیف کثیرہ تھے۔ ان کی کتابوں کی تعداد (38) ہے جو مختلف موضوعات سے متعلق ہیں۔ مولانا محمد سعید صاحبِ علم وفضل تھے۔ بنارس شہر میں اپنے علمی تبحر، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کی وجہ سے ’’محدث‘‘ کے لقب سے معروف ومشہور تھے۔
مولانا محمد سعید محدث بنارسی نے 18 رمضان 1322ھ/ 37 نومبر 1904ء کو بنارس میں انتقال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ( تراجم علمائے حدیث ہند ص 353۔354 ، نزھۃ الخواطر جلد 8)
4۔مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی(م 1341ھ) فرماتے ہیں کہ
وكان حليماً متواضعاً، كريماً عفيفاً، صاحب صلاح وطريقة ظاهرة، محباً لأهل العلم(نزھۃ الخواطر 8/180)
’’وہ بہت بڑے حلیم،متواضع،شریف پاک دامن، نیک اور عمدہ طریقہ کے مالک اور اہل علم سے محبت کرنے والے تھے۔
حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں جن علمائے ذی وقار نے حدیث نبویﷺ کی اشاعت،حفاظت،نصرت اور مدافعت میں نمایاں خدمات انجام دیں ان میں مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی رحمہ اللہ سرفہرست تھے۔ علامہ سید سلیمان ندوی(م 1373ھ) نے مولانا عظیم آبادی کی خدمت حدیث کا اعتراف کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ
’’(درسگاہ مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی)کے نامور مولانا شمس الحق مرحوم صاحب عون المعبود ہیں جنہوں نے کتب حدیث کی جمع اور اشاعت کو اپنی دولت اور زندگی کا مقصد قرار دیا اور اس میں وہ کامیاب ہوئے۔ ( مقدمہ تراجم علمائے حدیث ہند ، ص 37)
حدیث نبوی ﷺ سے مولانا عظیم آبادی کو بہت زیادہ شغف تھا حدیث کی کئی کتابیں اپنے خرچ پر طبع کرکے علمائے کرام میں مفت تقسیم کیں مثلاً امام عبد العظیم منذری(م656ھ) کی مختصر السنن ، حافظ ابن القیم الجوزی کی تہذیب السنن ، حافظ جلال الدین سیوطی ( م911ھ) اسعاف المبطأ برجال الموطأ وغیرہ
حدیث نبوی ﷺ کی حفاظت،نصرت اور مدافعت میں مولانا عظیم آبادی رحمہ اللہ کی جو نمایاں خدمات ہیں وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک سفیر کا باب ہے اس سلسلہ میں آپ نے جو خدمات انجام دیں اس کی مختصر تفصیل یہ ہے:
1۔ مولانا شبلی نعمانی( م 1914ء) نے حضرت امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کے سوانح حیات بنام’’سیرۃ النعمان‘‘ لکھی اور اس کو شائع کیا اس کتاب میں مولانا شبلی مرحوم نے حدیث نبویﷺ پر بے جا قسم کی تنقید کی مولانا شمس الحق مرحوم نے سیرت النعمان کا جواب نامور اہلحدیث عالم اور مجاہد مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ) تلمیذ حضرت شیخ الکل میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے حسن البیان کے نام سے لکھوایا۔
2۔ پٹنہ کے ایک غالی مولوی ڈاکٹر عمر کریم نے امیر المؤمنین فی الحدیث امام محمد بن اسمعیل بخاری ( م 256ھ) کی عدیم المثال اور بے نظیر تصنیف الجامع الصحیح البخاری اور امام صاحب پر بے جا قسم کے اعتراضات پر مشتمل ایک کتاب ’’الجرح علی البخاری‘‘ تین جلدوں میں شائع کی اور اس کے ساتھ کئی ایک اشتہارات بھی شائع کیے جن میں حدیث نبوی کے خلاف امام صاحب کی ذات پر ناروا قسم کے اعتراضات کئے۔
مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی مدافعت میں مولاناعبد السلام مبارک پوری (م1342ھ) سے ’’سیرت البخاری‘‘ لکھوائی یہ کتاب دو جلدوں میں ہے۔
پہلی جلد میں امام صاحب کی مکمل سوانح عمری ہے یعنی دلادت سے زمانہ طفولیت،طالب علمی کے استاد، بعد فراغت تعلیم درس وتدریس ،اخلاق وعادات وغیرہ اور وفات تک کے حالات مذکور ہیں دوسرے حصہ میں عملی زندگی کے کارنامے،اسلامی خدمات ،فقایت واجتہادات وفنون حدیثیہ وتاریخ وغیرہ پر مفصل بحث ہے ان کے علاوہ آپ کی تصانیف کا تذکرہ اور الجامع الصحیح البخاری کی شروح کا تفصیل سے ذکر کیا گیاہے۔
3۔ ڈاکٹر عمر کریم نے جو اشتہار امام بخاری اور صحیح بخاری پر کئے اُن کے جوابات اپنے شاگرد خاص مولانا ابو القاسم سیف بنارسی(م 1369ھ)سے لکھوائے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ حل مشکلات بخاری مسمی بہ ’’الکوثر الجاری فی جواب الجرح علی البخاری(3جلد)
2۔ الامر المبرم لابطال الکلام المحکم
3۔ ماء حمیم للمولوی عمر کریم
4۔صراط مستقیم لہدایۃ عمر کریم
5۔الریح العقیم بحسم بناء عمر کریم
6۔ العرجون القدیم فی افشاء عمر کریم
(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ،ص:368۔369)
درس وتدریس :
مولانا شمس الحق ڈیانوی نے ہندوستان میں جلیل القدر علمائے کرام اور اساطین فن سے استفادہ کیا ان میں چند ایک معروف اساتذہ یہ ہیں۔
مولانا فضل اللہ لکھنوی ( م 1311ھ) مولانا بشیر الدین قنوجی ( م 1296ھ) شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی ( م 1320ھ) علامہ شیخ حسین بن محسن انصاری الیمانی ( م 1327ھ)
رجب 1311ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریفین کا سفر کیا حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد وہاں کے اہل کمال اور اساطین فن سے تفسیر،حدیث، فقہ وغیرہ علوم میں استفادہ کیا اور اُ ن سے سند واجازت حاصل کی۔
حج سے واپس آکر اپنے وطن میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا آپ سے بے شمار علمائے کرام نے اکتساب فیض کیا مشہور ومعروف تلامذہ یہ ہیں :
مولانا عبد الحمید سوہدروی(م1330ھ) مولانا ابو سعید شرف الدین محدث دہلوی(م1381ھ) مولانا احمد اللہ محدث پرتاب گڑھی(م 1363ھ) مولانا ابو القاسم سیف بنارسی( م 1369ھ) حکیم مولانا محمد ادریس ڈیانوی(م 1962ء)(صاحبزادہ)
(مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی(حیات وخدمات) ص : 56)
کتب خا نہ :
مولانا عظیم آبادی کا کتب خانہ نایاب ونادر کتابوں پر مشتمل تھا اور برصغیر پاک وہند میں ایک مثالی کتب خانہ تھا۔ اپریل 1906ء میں مولانا شبلی نعمانی نے بنارس کے ٹاؤن ہال میں ندوۃ العلماء کے زیر اہتمام نایاب ونادر کتابوں کی نمائش لگوائی۔ اس نمائش میں بیشتر کتابیں مولانا عظیم آبادی نے اپنے کتب خانہ سے بھیجوائی تھیں لیکن یہ کتب خانہ دو حادثوں میں ضائع ہوگیا۔
پہلا حادثہ 1946ء میں آیا جب بہاد میں مسلم کش فسادات ہوئے تو مولانا عظیم آبادی کے صاحبزداہ حکیم مولوی محمد ادریس ڈیانوی نے مسلمانوں کے لیے وہ مکان کھول دیاجس میں کتب خانہ تھا تو اُن مسلمانوں نے جنہوں نے مکان میں پناہ لی انہوں نے بے شمار کتابیں کھانا پکانے کے لیے چولہوں کی نذر کر دیں جب مولوی حکیم محمد ادریس صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے بقیہ کتابوں میں بے شمار کتابیں خدا بخش لائبریری پٹنہ کو دے دیں اور کچھ کتابیں اپنے پاس رکھ لیں قیام پاکستان کے بعد حکیم محمد ادریس صاحب نقل مکانی کرے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) لے گئے اور حکیم صاحب کی یہ کتابیں 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریک میں ضائع ہوگئیں۔
فضل وکمال :
مولانا شمس الحق عظیم آبادی علم وفضل کے اعتبار سے جامع العلوم تھے تمام علوم اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع تھی۔ حدیث اور اسماء الرجال میں دسترس حاصل تھی فقہی مذاہب اور ائمہ کرام کے اختلافات ودلائل پر مکمل عبور رکھتے تھے۔مطالعہ کا عمدہ ذوق تھا تحقیق وتدقیق میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی ذہانت اور قوت فہم سے نوازا تھا۔
تصانیف :
مولانا شمس الحق رحمہ اللہ ایک کامیاب مصنف تھے آپ نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اُٹھایا آپ نے عربی، فارسی اور اُردو میں (33) کتابیں لکھیں۔
عربی : 19
فارسی : 7
اُردو : 7
کل : 33
حدیث نبوی ﷺ پر آپ کی (9) تصانیف ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد ( عربی)
یہ کتاب سنن ابی داؤد تالیف امام ابو داؤد سجستانی (م275ھ) کی مبسوط شرح ہے اور 32 مجلدات میں اس کی تکمیل ہونی تھی لیکن شارح کی عمر نے وفا نہ کی اس کی پہلی جلد 1305ھ میں مطبع انصاری دہلی سے شائع ہوئی جو باب ترک الوضوء مما مست النار تک کی شرح ہے۔ (صفحات : 194)
2۔ عون المعبود شر ح سنن ابی داؤد ( عربی)
اس شرح میں اسناد ومتن سے متعلق اشکالات کے حل وایضاح کی طرف پوری توجہ کی گئی ہے اور الفاظ کی مختصر وضاحت کرتے ہوئے جابجا ترکیب کر دی گئی ہے ( مطبع انصاری دہلی 1318تا 1322) (4مجلدات صفحات مجموعی 1341)
3۔سنن میں ضعیف، صحیح ،منکر،موضوع ہر قسم کی روایتیں ہیں شارح نے روایت کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے الفاظ کی مختصر وضاحت اور تشریح کردی ہے۔ (مطبع انصاری دہلی 1310ھ) (2 مجلد مجموعی صفحات : 554)
4۔تعلیقات علی اسعاف المبطأ برجال الموطأ (عربی)
اس کتاب میں مولانا عظیم آبادی نے تعلیقات کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی (م911ھ) کی لغزشوں کی نشاندہی کی ہے ۔(اسعاف علامہ سیوطی کی تالیف ہے ) (مطبع انصاری دہلی 1320ھ (صفحات : 50)
5۔ تعلیقات علی سنن نسائی (عربی)
یہ کتاب طبع نہ ہوسکی مولانا عظیم آبادی کی وفات کے بعد اس کا مسودہ گم ہوگیا اس کتاب کا ذکر مولانا عبد السلام مبارک پوری نے اپنی کتاب سیرۃ البخاری (صفحہ 437 طبع دوم 1367 مطبع کریمی الہ آباد میں کیا ہے ۔
6۔ رفع الالباس عن بعض الناس ( عربی)
’’بعض الناس فی دفع الوسواس‘‘ یہ کتاب احناف کی طرف سے شائع ہوئی (مصنف کا نام کتاب پر درج نہیں ہے) جس میں امام بخاری کے وقال بعض الناس کا جواب دیا تھا یہ کتاب اسی کے جواب میں ہے ۔ ( مطبع شمسیہ ملتان 1358ھ صفحات :32)
7۔ غنیۃ الامعی(عربی)
یہ کتاب حدیث اور علوم حدیث سے متعلق چند سوالات کے جوابات پر مشتمل ہے ۔ (مطبع انصاری دہلی 1311ھ صفحات : 15)
8۔ فضل الباری شرح ثلاثیات البخاری(عربی)
اس کتاب میں ثلاثیات بخاری (جن کی تعداد23ہیں) اُ ن کی شرح کی گئی ہے مولانا عبد السلام مبارک پوری (م 1342ھ) نے اپنی کتاب’’سیرۃ البخاری‘‘ میں کیا ہے۔
9۔ ہدایۃ اللوذعی بنکات الترمذی(عربی)
یہ کتاب چند فصلوں پر مشتمل ہے اس میں امام ترمذی(م 279ھ) اور جامع ترمذی پر بحث کرتے ہوئے امام ترمذی کے اساتذہ اور شراح اور محشین کے حالات بیان کئے گئے ہیں ( صفحات 12 بڑی تقطیع فی صفحہ 21 سطر) (جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات صفحہ : 50تا 52)
وفات :
مولانا شمس الحق رحمہ اللہ نے 19 ربیع الاول 1329ھ بمطابق 21 مارچ 1911ء 56 سال کی عمر میں بعارضہ طاعون ڈیانواں میں وفات پائی بقول اُن کے تلمیذ رشید مولانا ابو القاسم بنارسی جس وقت دینا کا آفتاب طلوع ہورہا تھا عین اسی وقت دین اسلام کا آفتاب(شمس الحق) غروب ہورہا تھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
13۔مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ
حضرت العلام شیخ الاسلام، مجتہد العصر،سلطان القلم،رئیس التحریر ،حضرت مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ بیک وقت جید عالم دین مفسر قرآن ،محدث ذی شان، فقیہ، مجتہد،مورخ،محقق،مدرس،مفتی، مناظر، مصنف، واعظ، خطیب ، مقرر ،مبلغ ،مفکر ،مدبر،متعلم ،دانشور ،عربی ، فارسی اور اردو کے بلند پایہ ادیب اور اپنے علم وفضل کے اعتبار سے یگانہ روزگار ،علوم عالیہ وآلیہ کےشناور اور اپنے مسلک اہلحدیث میں بہت زیادہ متشدد اور اتباع سنت نبویﷺ میں بہت زیادہ ارفع و اعلیٰ تھے ۔ تمام علوم اسلامیہ یعنی تفسیر ،حدیث،اصول حدیث ،فقہ الحدیث، فقہ،اصول فقہ ،تاریخ وسیر ،اسماءالرجال،عقائد ولغت، عربیت،علم فرائض ، علم کلام، فلسفہ، منطق،صرف ونحو، ریاضی ،اقلیدس وغیرہ میں یکساں قدرت حاصل تھی ۔ افتاءمیں مہارت تامہ رکھتے تھے ان کے فتاوی قرآن وسنت ،آثار صحابہ کرا م اور اقوال ائمہ عظام کی روشنی میںبڑے مدلل ہوتےتھے ۔
بر صغیر کے علمائے حدیث(جوخود اپنے علمی تبحرکی وجہ سے اعلی مقام کے حامل تھے )نے محدث روپڑی کے متبحر علمی ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اعتراف کیا ہے۔ مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی(م1920)فرماتے ہیں کہ حافظ عبداللہ روپڑی علم وفضل میںحافظ عبداللہ غازی پوری کے ہم پلہ ہیں مولانا محمد عبدالرحمان محدث مبارک پوری (م1935)فرماتے ہیں کہ
حافظ عبداللہ روپڑی جیسا ذی علم اور لائق استاد تمام ہندوستان میں کہیں نہیں ملےگا۔ہندوستان میں ان کی نظیر نہیں ۔
محدث شہیر اور محقق زماں ،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی (م1987)فرماتے ہیں کہ
حضرت العلام محدث روپڑی فقہ الحدیث میںیک گونہ مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے ۔علوم قرآن اورعلوم حدیث کے علاوہ فقہ، اصول فقہ،صرف ونحو ،معانی وادب ،عقائد ، کلام،حکمت ،فلسفہ ،منطق وغیرہ میں تدریسا وتحریرا ید طولی حاصل تھا۔
حافظ عبداللہ روپڑی کاسن ولادت 1303ھ /1894ء ہے ۔تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا ،بعد ازاں اس دور کے نامور اساتذہ کرام سےعلوم دینیہ میں استفاذہ کیا مشہور اساتذہ یہ ہیں ۔
مولانا عبدالقادر لکھوی، مولانا سید عبد الاول غزنوی ، مولانا سید عبدالجبار غزنوی ،مولانا محمد اسحاق منطقی ،استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی رحمہم اللہ اجمعین۔
فراغت تعلیم کےبعد 1915 میںروپڑضلع اخبالہ (مشرقی پنجاب)میں ایک دینی مدرسہ بنامـ’’دار الحدیثـ‘‘قائم کیا اور 1938تک اسی مدرسہ میں تدریس فرمائی اس کےبعد امر تسر تشریف لے آئے اور قیام پاکستان 1947تک امر تسر میں کتاب وسنت کی تدریس میں کوشاں رہے ۔روپڑ کے قیام کے دوران 26رمضان المبارک 1350مطابق 5فروری 1933ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث جاری کیا جوآج بھی اللہ کے فضل وکرم سے جاری ہے قیام پاکستان کے بعد لاہور تشریف لائے اور چوک دالگراںمیں جامعہ اہلحدیث کے نام سے ایک دینی مدرسہ کا اجراءکیا جو آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے دین اسلام کی اشاعت اور قرآن وحدیث کی ترقی وترویج اور شرک وبدعت اور محدثات کی تردید و توبیخ میں مصروف عمل ہیں حافظ محمد عبد الغفار روپڑی حفظہ اللہ اور حافظ عبدالوہاب روپڑی حفظہ اللہ دونوں بھائی اس مدرسہ کے نگران ہیں اخبار تنظیم اہلحدیث بھی دونوں بھائیوں کی زیر نگرانی خدمت اسلام میں کوشاں ہے ۔
تلامذہ :
حضرت العلام محدث روپڑی کے تلامذہ میں درج ذیل علماء مشہور و معروف ہیں :
مولانا محمد عبد الجبار کھنڈیلوی ، حافظ محمد حسین روپڑی ، حافظ اسماعیل روپڑی ، حافظ عبدالقادر روپڑی ، مولانا محمدصدیق بن عبد العزیز (سرگودھا) حافظ ثناء اللہ مدنی ، مولانا حکیم محمد اشرف سندھو ،حافظ عبد الرحمان مدنی ، مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی ، مولانامحمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانوی ،مولانا عبد السلام کیلانی وغیرہم ۔ (چالیس علمائے اہلحدیث ص297)
تصانیف :
حضرت العلام محدث روپڑی کثیر التصانیف مصنف تھے عربی اور اردو میں انکی تصانیف کی تعداد (55) ہے حدیث اور متعلقات حدیث میںانکی درج ذیل کتابیں ہیں ۔
1۔حواشی مشکوۃ المصابیح (عربی)(نامکمل)
2۔ترجمہ وتشریح مشکوۃ المصابیح(اردو)(نامکمل)
3۔ترجمہ وشرح حدیث جبریل (غیر مطبوع)
4۔الکتاب المستطاب فی جواب فصل الخطاب (عربی)
یہ کتاب مولانا سید انور شاہ کاشمیری (دیوبندی) (م1932) کی کتاب فصل الخطاب کا جواب ہے ۔ مولانا کاشمیری نے اپنی کتاب میںحدیث لاصلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتابکی تأویل کی ہے۔ (مطبوع1929)
5۔تحقیق الترویح فی جواب تنویر المصابیح(اردو)
یہ کتاب حنفی مصنف ابو الناصر زبیدی کی کتاب’’ تنویر المصابیح ‘‘کا جواب ہےزبیدی صاحب نے 20تراویح کے ثبوت میں 34دلائل پیش کیے ہیں حضرت العلام محدث روپڑی نے 34دلائل سے زبیدی صاحب کے دلائل کا رد کیا ہے اور 8رکعات تراویح کا ثبوت احادیث مرفوعہ سے پیش کیے۔(مطبوع)
6۔مودودیت اور احادیث نبویہﷺ(اردو )
اس کتاب میں مولانا سید مودودی (م 1979)کے نظریہ حدیث پر بحث کی ہے اور احادیث کےمتعلق مولانا مودودی کے شبہات کا جواب دیا ہے ۔ (مطبوع1955)
7۔تکبیرات عیدین ۔
اس رسالہ میں عیدین کی نماز میں رفع الیدین اور تکبیرات کے درمیان کوئی دعا یا ذکر وغیرہ کرکے کتاب وسنت کی روشنی میں بحث کی ہے (مطبوع1963)
وفات :
حضرت العلام حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے 20 اگست 1964مطابق 11ربیع الثانی 1384بمقام لاہوررحلت فرمائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون
شیخ العرب والعجم حضرت العلام امام العصر مولانا حافظ ابو عبداللہ محمد بن میاں فضل الدین گوندلوی نے نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی تدفین گارڈن ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں ہوئی۔اللہم اغفرہ وارحمہ ۔
14۔شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل محدث سلفی رحمہ اللہ
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ جلیل القدر عالم دین مفسر قرآن ،بلند پایہ محدث ، نامور محقق ومورخ ، خطیب ومقررومبلغ ،ادیب،دانشور ،مدرس ومصنف ، مناظر ،معلم ومتکلم ،عربی وفارسی اور اردو میں یگانہ روزگار، فقہ المذاہب الاربعہ میں مہارت تامہ رکھنے والے اور علوم عالیہ اور آلیہ میں دسترس کے حامل اور چوٹی کے سیاستدان،تبحرعلمی ،ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کے اعتبار سے اعلی وارفع علماء میں شمار ہوتے تھے ۔بقول پروفیسر عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم مولانا محمد اسماعیل سلفی وسیع العلم اور وسیع المطالعہ عالم دین تھے تمام علوم اسلامیہ ودینیہ پر انکی نظر وسیع تھی اورملکی سیاست پر انکو مکمل عبور حاصل تھا ۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی قدرت کی طرف سے بڑے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے روشن فکر اورسلجھا ہوا دماغ پایا تھا ۔ ذہن وذکاوت کے ساتھ قوت حافظہ بھی قوی تھا ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا ۔ حدیث، تاریخ اوراسماء الرجال پر انکی نظر وسیع تھی ۔تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے،اور ملکی سیاست سے نہ صرف باخبر تھے اس پر اپنی ناقدانہ نظر رکھتے تھے ۔سیاسی اور غیر سیاسی تحریکات کے پس منظر سے واقف تھے ادب عربی کے بلند پایہ انشاءپرداز تھے قلم بر داشتہ تحریر کاان کو عجیب ملکہ تھا ۔ تحریرمیں بر جستگی ،سلالت ،اورروانی ہوتی تھی ۔مولانا محمد اسماعیل سلفی اپنے مسلک اہلحدیث میں بہت زیادہ متشددتھے ،اورحدیث نبوی ﷺسے انکو خاص شغف اور لگاؤ تھا اور حدیث كکےمعاملے میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف مرحوم فرمایا کرتے تھے ۔
علماء اہلحدیث میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امر تسری رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی دو ایسی بزرگ ہستیاں گزری ہیں جو حدیث نبوی ﷺ کے معاملے میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے جب بھی حدیث کے معاملے میں کوئی مخالفانہ مضمون یا کتاب ورسالہ شائع ہوتا تو یہ دونوں علماء کرام فوراً اسکانوٹس لیتے اور دلائل سے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے تھے اور ایسا دندان شکن جواب کے مخالفین کو دوبارہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اوراعتراضات یا تنقیدی مضمون لکھیں ملکی سیاست میں بھی مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔تحریک استخلاص وطن اور 1953 کی قادیانی تحریک اسیر ذنداں بھی رہے ۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی تقسیم ملک سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی مجلس عاملہ کے رکن رہے انجمن اہلحدیث پنجاب سے بھی وابستہ رہےتقسیم ملک کے بعد مغربی پاکستان جمعیت اہلحدیث کا قیام عمل میں آیا ۔ مولانا سید محمد داوؤد غزنوی رحمہ اللہ کے شانہ بشانہ کام کیا اور جمعیت اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں بہت زیادہ محنت کی ،جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلی بھی رہے اور مولانا غزنوی کی وفات کے بعد امارت کے منصب پر فائز ہوئے۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی 1895میں پیدا ہوئے والد محترم کا اسم گرامی مولوی حکیم محمد ابراہیم تھا جواپنے دور کے نامورطبیب حاذقتھے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ،بعد ازاں وزیرآباد ،دہلی اور امر تسر اور سیالکوٹ میں اجلہ علماء کرام سےعلوم عالیہ وآلیہ میں استفاذہ کیا آپ کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔
1۔مولوی عبد الستار بن مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیرآبادی رحمہ اللہ ۔
2۔استاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث
وزیر آبادی رحمہ اللہ ۔
3۔مولانا عبدالجبارعمر پوری ۔
4۔مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری ۔
5۔مولانا عبدالرحیم غزنوی ۔
6۔مولانا عبدالغفور غزنوی ۔
7۔مولانامفتی محمد حسن امرتسری ۔
8۔حکیم مولوی محمد عالم امر تسری۔
9۔مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ اجمعین
فراغت کے بعد وطن واپس آئے اور مولانا ثنا ءاللہ امر تسری اورمولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی تحریک جامع مسجد اہل حدیث حاجی پورہ کے خطیب مقرر ہوئے ۔کچھ عرصے بعد مولانا علاؤالدین تلمیذ شیخ الکل حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی خطیب جامع مسجد اہلحدیث چوک ینائیں گوجرانوالہ نےوفات پائی تو مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ان کی جگہ مسجد اہل حدیث چوک ینائیں کے خطیب مقرر ہوئے اور پ زندگی تا وفات 1968اس مسجد سے وابستہ رہے اور مسجد چوک ینائیں میں آنے کے بعد آپنے ایک دینی درسگاہ بنام جامعہ محمدیہ کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی خدمت دین اسلام اور مسلک اہلحدیث کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہےمولانا سلفی جامعہ محمدیہ کےشیخ الحدیث تھےآپ نےتقریبا نصف صدی کے قریب قرآن حدیث کی تدریس فرمائی ۔ آپ کے مشہور ومعروف تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔مولانا محمد حنیف ندوی
2۔مولوی حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی
3۔مولانا محمد اسحاق بھٹی
4۔مولانا حکیم محمود سلفی
5۔مولانامحمد خالدگھرجاکھی
6۔علامہ عبد العزیزحنیف
7۔حافظ عبد المنا ن نو ر پوری رحمہم اللہ اجمعین۔
مولانا سلفی رحمہ اللہ کو تدریس کا خاص ملکہ حاصل تھا ،انکی تدریس کاایک واقعہ راقم سے مولاناعلی کاندہلوی (دیوبند) مرحوم( سیالکوٹ)نے بیان کیا ہے کہ:
میں 1953کی قادیانی تحریک میںگجرانوالہ سنٹرل جیل میں نظر بند تھا مولانا محمد اسماعیل سلفی ،مولانا عبدالمجید سوہدروی ،حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی اور کئی دوسرے علماءکرام بھی ہمارے ساتھ اسیر زنداں تھے ۔ایک دن میں میں اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے عرض کیا مولانا کہ ہم یہاں سارا دن بیکار وقت گزارتے ہیں ماسوائے لطائف وظرائف کے اور کوئی شغل نہیں ہوتا آپ ہمیں حجۃ اللہ البالغۃ کا درس دیا کریں ،مولانا سلفی مرحوم نے رضا مندی ظاہر کی ،چناچہ اسی دن آپ نے اپنے گھر سے حجۃاللہ البالغۃ منگوائی دوسرے دن آپ نے اس کا درس دینا شروع کردیا۔
میں دیوبند میںحجۃاللہ البالغۃمولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ سے پڑھی تھی۔مولانا عثمانی مر حوم جس انداز سے حجۃ اللہ البالغۃ کا درس دیتے تھے میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس طرح کوئی دوسرا مدرس نہیں پڑھا سکتا ،انکا پڑھانے کا انداز ہی نرالہ تھا لیکن مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے جب حجۃ اللہ البالغۃ کا درس دینا شروع کیا حیران رہ گیا کہ ان کا پڑھانے کا انداز ہی نرالہ ہےاور آپ مولانا عثمانی مرحوم سے بازی لے گئے تدریس کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ(سعودی عرب )کے وائس چانسلر مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے آپ کو بحیثیت استاد حدیث (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ )میں دعوت دی کہ آپ جامعہ میں طلباء کو حدیث پڑھائیں لیکن آپ نے منظور نہ کیا اور آپ نےاپنی جگہ استاد العلماءحضرت العلام حضرت حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ کو بھیج دیا جنہوں نے وہاں دوسال تک تدریس فرمائی۔
تصانیف:
شیخ الحدیث مولانامحمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ایک کامیاب مصنف تھے ،آپکی زیادہ تر کتابیں حدیث نبوی ﷺ کی تائید وحمایت ،نصرت و مدافعت اور منکرین حدیث کی تردید میں ہیں۔ذیل میں صرف ان تصانیف کا تعارف پیش خدمت ہے جوحدیث اور متعلقات حدیث کے متعلق ہیں۔
مشکوٰۃ المصابیح مترجم جلد اول:
یہ جلد کتاب الایمان ،کتاب العلم،کتاب الطہارۃاور کتاب الصلوۃ پر مشتمل ہے اس ترجمہ میں ایک جانب عربی عبارت اوردوسری جانب ترجمہ اور نیچے حدیث کی توضیح اور مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔مولانا سلفی رحمہ اللہ نے زندگی کے آخری ایام میں ترجمہ کا آغاز کیاتھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور صرف ا یک ربع کی تکمیل کر سکےبقیہ تین جلدوں کی تکمیل مولانامحمد سلمان کیلانی مرحوم نے کی پہلی جلد 1970 میں مولاناسلفی کی وفات سے تین سال بعدشائع ہوئی اور بقیہ تین جلد بھی مطبوع ہیں۔
امام بخاری کا مسلک :
اس کتاب کے شروع میں مسلک اہلحدیث پر روشنی ڈالی گئی ہے ایمان اور اس کے متعلق چاروں ائمہ کرام کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے تحمل حدیث،نماز میں ائمہ کے اختلافی مسائل اور ان کے جزئیات پر روشنی ڈالتے ہوئے امام بخاری کے مسلک کی ترجمانی کی گئی ہے او ر اس کے بعد علمائے دیوبند کا اضطراب، فقہ الحدیث اور فقہ الرائے ، الرد علی الجہمیہ اور خبر واحد کی وضاحت کرتے ہوئے ہر ایک پر محاکمہ کیاگیاہے۔ صفحات (44) مطبوع (ملتان)
واقعہ افک :
یہ کتاب مولوی تمنا عمادی(منکر حدیث) کے ایک مضمون کا جواب ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ واقعہ افک عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث موضوع ہے یہ عجمی سازش کی پیداوار ہے مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں عمادی صاحب کے شبہات ونکات پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔(صفحات48 ، ندوۃ المحدثین گوجرانوالہ 1982) (جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص :64۔65)
دفاع حدیث میں مولانا سلفی رحمہ اللہ کی تصانیف :
سنت قرآن کے آئینہ میں :
یہ رسالہ فتنہ انکار حدیث کی تردید میں ہے اس میں مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اچھوتے اور نئے انداز میں حجیت حدیث پر بحث کی ہے۔ ( صفحات : 32 مطبوع)
حدیث کی تشریعی اہمیت :
اس کتاب میں آیات قرآن سے ثابت کیاگیا ہے کہ جس طرح قر آن مجید کے ہر حکم کو ماننا ضروری ہے اسی طرح صحیح احادیث پر عمل کرنا بھی فرض ہے جیسے قرآن مجید کا منکر کافر ہوجاتاہے اسی طرح احادیث کا منکر بھی کافر ہوجاتاہے اس کے بعد جسٹس محمد شفیع کے حدیث کے بارے میں جو اعتراضات ہیں ان کا جواب دیاگیا ہے۔ ( صفحات : 110 مطبوعہ لاہور 1963ء)
حجیت حدیث آنحضرت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں :
اس کتاب میں آیات کریمہ سے آنحضرت ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیاگیا ہے کہ جس شخص کی سیرت اس طرح روشن ہو پھر بھی اس کی بات کوئی نہ مانے تو وہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہتاہے۔ ( صفحات : 77 مطبوع 1985ء)
جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث :
یہ کتاب دراصل مولانا سید مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تفہیمات‘‘ و’’مسلک اعتدالی‘‘ اور مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے ایک مضمون بسلسلہ حجیت حدیث کے جواب میں ہے جن میں ان حضرات نے منکرین حدیث سے اتفاق فرمایا ہے۔ (صفحات 112، مطبوعہ لاہور 1376ھ)(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:378۔379)
حجیت حدیث :
یہ کتاب (صفحات 406)1408ھ/1985ء میں ادارہ البحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ بنارس نے شائع کی اس میں علامہ ا لبانی اور مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کے تین رسائل اور پانچ فکر انگیز مقالات جمع کئے گئے ہیں۔
رسائل :
1۔ اسلام میں سنت نبوی کا مقام / صرف قرآن پر اکتفاء کی تردید
2۔ عقائد میں احادیث آحاد سے استدلال واجب ہے / مخالفین کے شبہات کا جواب
3۔ عقائد واحکام کے لیے حدیث ایک مستقل حجت
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
مقالات :
1۔حدیث کی تشریعی اہمیت
2۔جماعت اسلامیہ کا نظریہ اہلحدیث
3سنت قرآ ن کے آئینہ میں
4۔حجیت حدیث آنحضرت ﷺکی سیرت کی روشنی میں
5۔مسئلہ درایت وفقہ راوی کا تاریخی وتحقیقی جائزہ
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ
مقالات حدیث
تصنیف: شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ
تقدیم : فضیلۃ الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ۔ فضیلۃ الشیخ مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ
تحقیق وتخریج : حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ
صفحات : 700 ناشر ام القری پبلی کیشنز گوجرانوالہ ، طبع اول 2009ء۔ طبع دوم 2012ء
1۔ حدیث کی تشریعی اہمیت
2۔ سنت قرآن کے آئینہ میں
3۔ حجیت حدیث
4۔ حدیث شریف کا مقام حجیت
5۔ حدیث علمائے امت کی نظر میں
6۔ امام بخاری کا مسلک
7۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث
8۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث اورحدیر فاران کراچی
9۔ اضاحۃ الحق
10۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ
11۔عجمی سازش کا افسانہ
12۔عجمی سازش کا تجزیہ واقعات کی روشنی میں
13۔ایک سوال۔ دو جواب
14۔امام محمد بن مسلم زہری قرشی اور تحریک انکار حدیث
15۔ مولانا تمنا عمادی کے تنقیدی مضمون کا علمی محاسبہ
16۔واقعہ افک کے متعلق نئی تمنائی ریسرچ
17۔مقدمہ نصرۃ الباری فی بیان صحۃ البخاری
18۔مسئلہ درایت وفقہ راوی کا تاریخی وتحقیقی جائزہ
وفات :
مولانا محمد اسمعیل سلفی نے 20فروری 1968ء کو گوجرانوالہ میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے پڑھائی ، تدفین قبرستان کلاں میں ہوئی۔ راقم آثم کو بھی جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔ اللھم اغفرہ وارحمہ