عورت اور جدید ذرائع ابلاغ کی لغوی و اصطلاحی تحقیق:
لغوی اعتبار سے عورت سے مراد ہر وہ امر جس سے شرم کی جائے اور انسان کے وہ اعضاء بھی جن کو حیاء سے چھپایا جاتا ہے، عورت/ عورات کہلاتے ہیں۔
لغوی اصطلاح میں جسم کے قابل ستر حصوں کو غیروں کی نظروں سے چھپانا اور چھپانے کی بہتر زیبِ تن صورت کپڑے ہی سے ہو سکتی ہے۔لہذا ستر کے لیے ایسے کپڑے پہننا ضروری ہیں جو واقعی چھپانے والے ہوں جو نہ شفاف ہوں اور نہ ایسے چست کہ ان سے جسم کے اُبھار اور خطوط جن کا چھپانا لازمی ہے، نمائیاں طور پر نطر آئیں گویا کہ عورت کا نہ صرف سارا جسم بلکہ اس کے حرکات و سکنات اور گفتار بھی ستر میں شامل ہیں جن کے لیے شریعت نے اصول و قواعد مقرر کیے ہیں۔(۱)
ذرائع ابلاغ سے مراد وہ علم یا ہنر جس کے ذریعے مختلف قسم کی اطلاعات کی تشہیر ہوتی ہے۔ مثلاً اخبارات، رسائل، ریڈیو اور ٹیلی وژن وغیرہ (۲)
جب ہم تاریخی تناظر میں عصر حاضر کے بدلتے ہوئے عالمی معاشرتی و ثقافتی حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صاف معلوم ہوتا ہے کہ مغرب اپنے اخلاقی اور روحانی دیوالیہ پن میں پستی کی انتہاکو پہنچ چکا ہے، کیونکہ جن بنیادوں پر مغربی تہذیب استوارہے وہ خالص مادی اور روحانی وبا طنی اثرات سے یکثر خالی ہے اور پھر المیہ یہ کہ بیمار مغرب شہ جائیکہ اپنا ہوش سنبھال کر اپنی اصلاح کی فکرکرے مسلمانوں کو اسلام دشمنی کے باعث مادی ترقی یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، معیشت اور اقتصادیات وغیرہ کے میدانوں میں شکست دینے کے بعد اس کوشش میں ہے، کہ اسلامی ممالک بھی اس کے نقش قدم پر چل کر اس کی طرح دینی و اخلاقی طور پر مفلوج ہوں تاکہ مسلمان قوم عیاش، آرام پرست اور بے حس بن کر ہمیشہ ہمیشہ اس کی محکوم اور دست نگر رہے چنانچہ مغرب نے عورت کو آلہء کار بناکر مسلمان معاشروں کے اندر بے حیائی فحاشی اور عریانی کو فروغ دیا ہے جبکہ مسلمانوں کے نزدیک اسلام کی رو سے بے حیائی جفاء ہے اور جفاء باعث دوزخ ہے۔(۳)
اس مقصد کے حصول کی خاطر ایک مغرب عورت کے نمائش حُسن کومختلف روپ اور انداز میں پیش کر رہاہے اور دوسری طرف ہمارے جدیدذرائع ابلاغ مغرب کے معاون بن کر فیشن، ثقافت، گلیمبر، شوبز بزنس، موسیقی اور مخلوط مجالس کی آڑ میں جنسی جذبات کو بھڑکا رہے ہیں، جبکہ عفت و عصمت کی مناسبت سے اسلامی تعلیمات کے مطابق عورت کا دائرہ کا ر گھر کے اندر ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى
اپنے گھروں میں وقار سے بیٹھی رہو اور جاہلیت کے سے بناؤ سنگھار نہ دکھاتی پھرو۔ (۴)
ہاں حاجات و ضروریات کے لیے ان کو نکلنے کی پوری اجازت ہے۔
قَدْ أَذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائِجِكُنَّ(۵)
لیکن اس سے مراد یہ بھی نہیں کہ عورتیںجہاں چاہیں آزادی کے ساتھ پھریں اور مردانہ اجتماعات میں گھل مل جائیں جبکہ مرد کا دائرہ کار گھر سے باہر کی دنیا ہے جس کی تائید آیت کریمہ ھذا سے ہوتی ہے۔
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ
مرد عورتوں کے جملہ معاملات کے ذمہ دار اور منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ وہ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔(۶)
اسلام عورت کو وہی ذمہ داریاں دیتاہے جس مقصد کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور یہ ذمہ داریاں عورت کی نفسیات جسمانی ساخت اور مزاج کے عین مطابق ہیں اسلام مرد و زن کے آزادانہ میل جول کو ناپسند کرتا ہے حتی کہ نماز بھی عورتوں کی وہی افضل و پسندیدہ قرار دی گئی ہے جو گھر کے اندر ادا کی جائے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت کی سب سے زیادہ پسندیدہ نماز وہ ہے جو اپنے گھرمیں سب سے زیادہ اندھیری جگہ ادا کرے(۷)
تو پھر بزنس، مخلوط مجالس، مقابلہ موسیقی، مقابلہ حسن، اشتہارات، فلموں، ڈراموں سے لے کر دفاتر، کارخانوں، ہسپتالوں اور ذرائع ابلاغ تک نسوانی حسن کی نمائش اور بے حیائی کا جواز کیسے نکل سکتا ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ کے قول کے مطابق عورتوں کو عام چال میں بھی احتیاط کا حکم ہے۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ
اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ (۸)
لیکن دوسری صورت میں فی زمانہ خواتین کی صلاحیتوں سے استفادہ بھی ایک قومی ضرورت بن چکا ہے اس لیے اسلام کی مقرر کردہ حدودوقیود کے اندر رہ کر راستے تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
اسلام عریانی و فحاشی، بے پردگی اور بے حیائی کو کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کرتا، بلکہ حیاء اور پاک دامنی کا درس دیتا ہے، ایک حدیث میں ہے۔
اَلْحَيَاءُ مِنَ الإِيمَانِ
حیاء ایمان کا حصہ ہے۔(۹)
حیاء ایک ایسا وصف ہے جسے اخلاقیات میں اہم مقام حاصل ہے حیاء کا جذبہ اگر کسی میں موجود ہو تو اس کا دل و دماغ نیکیوں کی طرف مائل رہتا ہے اور اگر حیاء رخصت ہو جائے تو آدمی کے کردار پر بند نہیں باندھا جا سکتا اس لیے اس کو ایمان کا حصہ قراردیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام کا معاشرتی نظام افراد پر قانونی و اخلاقی پابندیاں عائد کرتا ہے اوریہ پابندیاں دنیا کے ہر معاشرے میں لگائی جاتی ہیں تاکہ افراد کی انفرادی غلطیوں کی سزا پورے معاشرے کو نہ ملے اور وہ اپنی ذاتی رجحانات سے معاشرے میں برائی کو نہ پھیلا سکے چنانچہ اسلام میں عورتوں سے متعلق واضح احکامات موجود ہیں جن کی بدولت ذرائع ابلاغ میں عورتون کے کردار پر روشنی پڑتی ہے وقت کا اہم تقاضا ہے کہ مسلم معاشرے کے ذرائع ابلاغ مغربی ذرائع ابلاغ جس نے عورت کے صنفی جذبات کا استحصال کیا ہے کی نکالی اور ان کی تہذیب، ثقافت و تمدن کو فروغ دینے کی بجائے دین اسلام کےعطاءکردہ اعلیٰ و ارفع مقاصد کی تبلیغ و اشاعت کا ذریعہ بنیں، کیونکہ امت مسلمہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور منتخب امت ہے نہ انسانوں کا جم غفیر نہیں بلکہ یہ ایک خاص مقصد کے لیے اٹھائی گئی ہے اور فلاح انسانیت اور بندگی رب کا قیام اس کاخاص مقصد ہے جیسا کہ آیت کریمہ:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
(مسلمانو! اس وقت) تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے لاکھڑا کیا گیا ہے: تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو۔(۱۰)
سے واضح ہے، قرآنی تعلیمات و احادیث کے قیمتی خزانے کی حامل اس امت کے پاس حیرت انگیز صلاحیت ہے کہ یہ موجودہ دور کے مسائل کو حل کر سکتی ہے اور بنی نوع انسان کو امن و انصاف فراہم کرکے قیادت و سیادت کا فریضہ ادا کرسکتی ہے جس کی وضاحت خالق کائنات نے یوں کردی ہے۔
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا
اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنادیا ہے جو (ہر پہلو سے) نہایت اعتدال پر ہے تاکہ تم (مخالف) لوگوں کے مقابلہ میں گواہ ہو اور تمھارے لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم گواہ ہوں۔(۱۱)
یعنی تم (مسلمان) لوگوں کی قیادت اور ہمیشہ ان کی رہنمائی حق اور خیر کے راستے کی طرف کرتے رہیں معلوم ہوا کہ دنیا اخلاقی بے راہ روی اور سماجی خود کشی کی جس راہ پر گامزن ہے امت مسلمہ ہی دنیا کو اس تباہی و بربادی سے بچا سکتی ہے لیکن آج امت مسلمہ کی یہ حالت ہے کہ یہ ذہنی جمود، مادی پریشانیوں، عقلی انحطاط اور علمی افلاس میں مبتلا ہے کیونکہ مغربی ذرائع ابلاغ کا اطلاعاتی سیلاب مسلمانوں کو انکی تعلیم، انداز فکر، طرزحیات، روایات، مذہبی اور اخلاقی اقدار سے بے گانہ کر رہا ہے مغربی ذرائع ابلاغ کی باگ ڈور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ مسلمان دنیا کی قیادت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔
فرنگ کی رگ جان پنجہ یہود میں ہے (علامہ اقبال)
مسلمانوں سے ان کی عداوت پر قرآن شاہد ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا
یقیناً آپ ایمان والوں کا سب سے زیادہ دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے ۔(۱۲)
حقیقت یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ کی پیش کردہ خیالی دنیا نے مسلمانوں کو نہ صرف عیش و آرام کا عادی بنا دیا ہے بلکہ ان کی روح و دل کو مردہ کر دیا ہے حتی کہ عربی معاشروں کے مسلمان بھی اپنے عقائد، رسم و رواج اور دینی فرائض کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ مسلمانوں کے دشمن جانتے ہیں کہ عالم رنگ و بو میں معدے کے گرفتار اور شہوت کے شکار اور نسوانی حسن کے پر ستار افراد کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی، چنانچہ یہ ادارے مسلمانوں کو سہل پسند بنا کر ان کی پوشیدہ توانائیوں کا پامال کرہے ہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے عورت کی نسوانیت کا بھر پور استحصال کیا ہے، ریڈیو پر گانے بجانے ہوں یا اخبارات کی رنگین تصویریں یا ٹیلی ویژن پر خواتین کے متحرک سراپے، ذرائع ابلاغ نے فلموں، ڈراموں، خبروں اور اشتہاروں میں ہر جگہ یہ طے کر لیا ہے کہ ہر نو جوان کے ذہن پر عورت کو سوار کر کے چھوڑنا ہے یہ ایک اہم تدبیر ہے مسلم معاشرے میں مغربیت کے فروغ کی، سید ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ ’’ مغرب کی تہذیب کے علمبرداروں نے ’’ عورت بگاڑ تحریک‘‘ شروع کر کے ہماری خانہ بربادی کے لیے سرگرمی سے کام شروع کر رکھا ہے پہلے اس نے ارباب دولت جاہ کے خاندانوں کو نشانہ بنایا ہے اور اب انکی مدد سے درمیانی اور غریب طبقے کی خواتین کو گھروں سے نکال کر تفریح و نشاط کی محفلوں کی رونق بنانے، مردوں کی حوس انگیزی کے لیے ثقافتی اسٹیج پر رقص کرانے اور فیشن پرستی اور عریانی پسندی کی رو چلانے کی مہم جاری ہے اسی خرابیء احوال کے لیےترقی نسواں اور مساوات مردو زن کے خوبصورت عنوانات تحریر کئے جاتے ہیں۔ مسلمان معاشروں کی اخلاقی اور معاشرتی تباہی کے منصوبہ کی علمبرداری بھی یہودی فتنہ گر بڑے گہرے سازشی انداز میں کر رہے ہیں۔ (۱۳)
عورتوں کو آزادیء نسواں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا پر فریب نعرہ دے کر مغربی داناؤں نے خاتون خانہ کو یوتھ فیسٹیول، کھیلوں، شوبزنس، ناچ گھروں، نائٹ کلبوں اور عالمی مقابلہ ء حسن میں لاکھڑا کیا ہے جہاں عورت اپنی فطری شرم وحیا سے عاری ہو کر تماش بینوں کے لیے ایک تماشہ بن گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ اس تماشے کو پیش کرنے میں پیش پیش ہیں، موجودہ ذرائع ابلاغ نے عورت کی بے حیائی اور آوارگی کو فن، آرٹ، ثقافت، گلیمر، جیسے خوبصورت نام دئیے ہیں تاکہ کسی کو اس آزادی پر اعتراض نہ ہو اور یہ آزادی آرٹ اور شوبزنس کے حوالے سے جائز قرار دے دی جائے۔ اسی پر بس نہیں بلکہ جدید معاشرے میں عریانی و فحاشی اور بے حیائی پھیلانے میں بصری ذرائع ابلاغ نے گھر گھر نقب لگائی ہے ہر پروگرام میں عورتیں کھلے بال، کھلے بازو، باریک لباس، ننگی پنڈلیوں اور نیم عریاں سینے کی نمائش کرتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ اسلام میں باریک پوشاک کے بارے میں سخت وعید وارد ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اس حال میں کہ اس نے تنگ اور باریک لباس پہنا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رخ موڑ لیا اور فرمایا اے اسماء عورت جب جوان ہو جائے تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ سوائے چہرے اور ہتھیلیوں کے دوسرے اعضاء نظر آئیں۔ (اور یہ واقع پردے کے حکم سے پہلے کا ہے) (۱۴)
اسی طرح مختلف پروگراموں میں مخلوط مجالس، مخلوط رقص اور مخلوط نقل و حرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش کے جذبے کو اجاگر کیا ہے، چنانچہ اب خوشبوئیات، زیورات، نیم عریاں لباس اور میک اپ سے مزین خواتین مردوں کی ہر محفل میں صنفی میلانات کو بھڑکا رہی ہیں، جو حکم خداوندی سے کھلم کھلا بغاوت کے مترادف ہے۔
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ عورت جب نا محرم مرد کے سامنے آتی ہے تو شیطان کے روپ میں آتی ہے۔ (۱۵)
ستم ظریفی یہ کہ کسی بھی تجارتی کا روبار کے اشتہار کو دیکھ لیجئے عورت کی برہنہ تصویر اس کا جزو لانیفک ہو گی گویا عورت کے بغیر کوئی اشتہار اشتہار نہیں ہو سکتا، ہوٹل، ریسٹورینٹ، شوروم کوئی جگہ آپ کو ایسی نہ ملے گی جہاں عورت اس غرض سے نہ رکھی گئی ہو کہ مرد اس کی طرف کھینچ کر آئیں۔(۱۶)
جس سے اس امر کی وضاحت ہو تی ہے کہ دور حاضر میں عورت ایک بڑے فتنہ کی صورت اختیار کر گئی ہے جو دنیا کی تباہی و بربادی کا ذریعہ بن رہی ہے اور یہ صرف آج کا فتنہ نہیں بلکہ عیش کو شی کا مرکزی اساس ہمیشہ کے لیے عورت ہی رہی ہے تاریخ عالم کے حوالے سے یونانیوں میں جب نفس پرستی اور شہوانیت عروج پر پہنچ گئی تو طوائف کلچر کو فروغ حاصل ہوا اسی طوائف کلچر کو روم کے تمدنی عروج کے دور میں بھی فروغ ملا بقول سید مودودی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ اس دور کے بعد یونانی قوم کو زندگی کا کوئی دوسرا دور پھر نصیب نہیں ہوا اور بہیمی خواہشات سے اس قدر مغلوب ہو جانے کے بعد روم کا قصر عظمت ایسا متزلزل ہو کر گرا کہ پھر اس کی ایک اینٹ اپنی جگہ پر قائم نہ رہی۔(۱۷)
آج یورپ بھی اسی ہولناک بربادی کی طرف رواں دواں ہے فرق صرف یہ ہے کہ یونان اور روم کی تباہی قومی اورعلاقائی تھی لیکن یورپ اپنی تباہی کے ساتھ دنیا کے ایک بڑے خطے کو بھی ساتھ پیوند خاک کرے گا، اسی لیے برربادی کی اسی عظیم فتنہ میں پڑنے سے بچنے کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو آگاہ کر کے ارشاد فرمایا کہ میں کو ئی فتنہ اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں چھوڑ رہا۔ (۱۸)
مطبوعہ ذرائع ابلاغ میں اخبارات اور رسائل عورتوں کی بڑی بڑی غیر خبری تصاویر شائع کر کے بے مقصدیت کو فروغ دے رہے ہیں شیونگ کریم، بلیئرڈ، چائے، سگریٹ، ٹوتھ پیسٹ اور کھاد کے اشتہار میں بھی خواتین کی موجودگی کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی ہے، ذرائع ابلاغ کے ذریعے عورتوں کی نمائش ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اس قبیح اور پر خطر و شر انگیز فعل میں حسن خلق اور عصمت و عفت سے عاری سرمایہ دار گروہ کا ہاتھ ہے جو متاع قلیل کے عوض میں اپنی عاقبت تباہ کر رہے ہیں جن کے بارے میں سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتےہیں:
خود غرض سرمایہ داروں کا ایک لشکر ہے جو ہر ممکن تدبیر سے عوام کی شہوانی پیاس کو بھڑکانے میں لگا ہوا ہے اور اس ذریعے سے اپنے کاروبار کو فروغ دے رہا ہے روزانہ اور ہفتہ وار اخبارات، مصور جرائد اور نصف ماہی اور ماہوار رسالے انتہا درجے کے فحش مضامین اور شرمناک تصویریں شائع کرتے ہیں کیونکہ اشاعت بڑھانے کا یہ سب سے مؤثر ذریعہ ہے اس کام میں اعلیٰ درجہ کی ذہانت فنکاری اور نفسیات کی مہارت صرف کی جاتی ہےتاکہ شکار کسی طرف سے بچ کر نہ جاسکے۔ (۱۹)
حالانکہ تصویر کی قباحت، نحوست اور اس کی تحریم کے بارے میں شریعت میں واضح احکامات موجود ہیں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیںکہ تین چیزیں اگر کسی گھر میں موجود ہوں تو فرشتہ اس گھر میں کبھی نہیں جاتا ان میں سے ایک کتا دوسری جنبی اور تیسری ذی روح کی تصویر۔ (۲۰)
مزید ستم بالائے ستم یہ کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے عورتوں کی طرف سے بازؤوں، سینے، پنڈلیوں اور زلفوں کی کھلی نمائش سے معاشرے میں بد نظری اور جنسی راہ روی کو فروغ ملا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بدکاری کی ترغیب فرنگی تہذیب کی بھونڈی نقل ہے جو مسلم معاشروں میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے جان بوجھ کر ایک سوشے سمجھے منصوبے کے تحت فروغ دی جا رہی ہے نیز ذرائع ابلاغ پر عورتوں کے جسمانی حسن کی نمائش سے ایک طرف تو عورتوں کے فطری شرم و حیا کے تقاضوں کو دبایا جا رہاہے اور عیش و آرام پوشی کو مقصد تخلیق آدم بتایا جا رہا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں بد نظری کے ساتھ ساتھ بدکاری بد اعتقادی معاشرتی و نفسیاتی مسائل اور جنسی بیماریاں بھی پیدا ہو رہی ہیں لہذا عورت کو مغربی ذرائع ابلاغ جیسے صنفی جذبات کے استحصال سے بچانے اور اسے باوقار حسن و خوبی اور عزت و تکریم کی زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اسلام کی عطا کردہ سنہری اصولوں پر کار بند رہنے کی جدوجہد کرنی ہوگی تاکہ ان کے اپنانے سے موجودہ ہولناک تباہی سے بچنے کی کوئی کارگر صورت نکل آئے اور یہ مظہر من الشمس ہے کہ عورت کو یہ سعادت اسلامی معاشرے ہی سے نصیب ہو سکتی ہے۔
عورت اسلامی معاشرے میں:
تاریخی نقطہ نظر سے یہ امر واضح ہے کہ طلوع اسلام سے قبل عورت کو معاشرے میں باعزت مقام حاصل نہ تھا بلکہ عورت کو نفرت و حقارت سے دیکھا جاتا تھا یہاں تک کہ لڑکی کے پیدا ہوتےہی اسے زندہ دفنا دیا جاتا تھا جس کا قرآن میں یوں ذکر ہے۔
وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ،بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ
اور زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا،کہ وہ کس جرم میں ماری گئی تھی؟(۲۱)
علامہ شبلی نعمانی اس بارے میںلکھتےہیں: کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں انسان اور حیوان کےدرمیان ایک مخلوق سمجھی جاتی تھی جن کا مقصد صرف نسل انسانی کی ترقی اور مرد کی خدمت کرنا تھا اس لیے لڑکیوں کی پیدائش باعث ندامت سمجھی جاتی تھی اور ان کے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔(۲۲)
بازاروں میں جانوروں کی طرح اس کی خرید و فروخت ہوتی وہ مرد کے تابع تھی اس کی کوئی مستقل حیثیت نہ تھی اور نہ ہی اس کے کوئی معاشرتی حقوق تھے اسلام نے سب سے پہلے عورت کی محکومی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا اور عورت کو معاشرے میں عزت و احترام بخشا اور کہا کہ سارے انسان ایک اللہ کے بندے اور ایک ماں باپ کی اولاد ہیں لہذا بحیثیت انسان مرد اور عورت یکساں عزت و احترام کے مستحق ہیں۔(۲۳)
اسلام نے مالی، دیوانی، جوجداری اور قانونی حقوق میں عورت کو مرد کے برابر رکھا ہے عورت مرد کی طرح مال و جائیداد کی مالک بن سکتی ہے اور اسے فروخت بھی کر سکتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ ۠ وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۭ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا
مردوں کے لیے اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں (اسی طرح) عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں ۔ خواہ یہ ترکہ تھوڑا ہو یا زیادہ ہو ۔ ہر ایک کا طے شدہ حصہ ہے۔ (۲۴)
اسی طرح قصاص لے سکتی ہے ہر قسم کا دعویٰ دائر کر سکتی ہے اسے خلع کا حق دیا گیا ہے غرض اس میں کوئی شک نہیںکہ عورت اپنے انسانی حقوق میں مرد کے برابر ہے عورت ایک علیحدہ مستقل شناخت رکھتی ہے لیکن صنفی اعتبار سے فطرت نے اسے مرد سے جدا کر دیا ہے چنانچہ اسلام نے خاندانی زندگی میں مرد کو برتری دے کر عورت کو نان نفقہ، رہائش، مہر، حفاظت اور تعلیم و تربیت وغیرہ کے بہت سے حقوق دیئے ہیں۔ ان حقوق کی ادائیگی میں مرد کوتاہی کرے تو عورت عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ
اور عورتوں کے بھی مناسب طور پر مردوں پر حقوق ہیں جیسا کہ مردوں کے عورتوں پر ہیں ۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور (یہ احکام دینے والا) اللہ تعالیٰ صاحب اختیار بھی ہے اور حکمت والا بھی۔ (۲۵)
دستور کے مطابق یعنی جو شریعت سے معلوم ہو مثلاً نکاح وغیرہ کے حقوق ادا کرنا اور حسن سلوک سے رہنا اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے یعنی مردوں کا حق اور مرتبہ زیادہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کےاخلاق سب سے اچھے ہوں اور جو اپنے بچوں سے زیادہ لطف و محبت سے پیش آئے۔ (۲۶)
اسلامی نظام معاشرت میں عورت کو گھر کی اور مرد کو باہر کی ذمہ داری اٹھانی ہے اس لیے دونوں کے دائرہ کار اور ذمہ داریوں میں بڑا فرق ہے عورت پر گھریلو اخراجات کی ذمہ داری ڈالنے کی بجائے اسلام میں اسے معاشی ضمانت دی ہے اور سماجی و معاشرتی لحاظ سے اسے بہت اعلیٰ مقام عطا کیا ہے وہ گھر کی مالکہ اور منتظم ہے اسے باہر کی دنیا آباد کرنے کی فکر میں گھر نہیں اجاڑنا چاہیے اسلام کے نزدیک عورت شمع محفل نہیں چراغ خانہ ہے اور اسکا نبیادی فریضہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان میں اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا کرنا ہے اسلام کہتا ہے کہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد عورت اپنے حالات اور ذوق کے لحاظ سے زندگی کے دیگر میدانوں میں بھی دلچسپی لے سکتی ہے لیکن اسلام کے متعین کردہ حدود و قیود کے ساتھ۔
اسلام نے ایک طرف تو عورت کے تما م حقوق ازروئے قانون محفوظ کر دئے ہیں اور دوسری طرف پورے معاشرے کو اس سے بہتر سے بہتر سلوک کا حکم دیا ہے اسلام معاشرے میں ایسی فضاء پیدا کرنا چاہتا ہے جس سے عورت جس حیثیت سے بھی زندگی بسر کرے وہ عزت و احترام کےساتھ رہے معاشرے میں عورت کی چار نمایاں حیثیتیں ہیں ماں، بیوی، بہن اور بیٹی اسلام نے ان سب حیثیتوں کو نمایاں اور اہم مقام دیاہے اور ان تمام میں ماں کو سب رشتوں سے افضل قرار دیاہے سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ مجھے کس کے ساتھ حسن معاملہ اور محبت کرنا بہتر ہے فرمایا ماں کے ساتھ اس نےکہا پھر کس کے ساتھ فرمایا کہ ماں کے ساتھ اس نے کہا پھر کس کے ساتھ فرمایا ماں کے ساتھ اس نے کہا پھر کس کے ساتھ فرمایا باپ کے ساتھ۔(۲۷)
غرض اسلام نے عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام دیا ہے اور ان پر گھریلو امور اور تربیت اولاد کی ذمہ داری ڈالی ہے تاکہ وہ ایسے بااخلاق افراد تیار کریں جو معاشرے کےلیے بہترین افراد ثابت ہو سکیں۔
اسلام میں مخلوط تعلیم یا معاشرے میں آزادانہ اختلاط مرد و زن کی قطعاً گنجائش نہیں، کیونکہ جہاں بھی یہ اجازت دی گئی ہے ان معاشروں میں بھیانک نتائج سامنے آئے ہیں مثلاً تحفظ نسب، جس کی اسلام نے ضمانت دی ہے یورپی معاشروں میں اس کی کوئی گارنٹی نہیں رہتی ڈاکٹر اسپنسر گزشتہ صدی کا بہت بڑا فلاسفر ہوا ہے اب تو یورپ کی آبادی بہت زیادہ ہے اس وقت صرف چالیس، پینتالیس لاکھ تھی وہ کہتا ہے کہ یورپی قانون پر لعنت ہو کہ پینتالیس لاکھ میں سےیقین کے ساتھ پینتالیس آدمی بھی حلال نہیں نکالے جا سکتے یہاں کا قانون ایسا گندہ ہے مگر اسلام نسب کی حفاظت کرتا ہے قرآن و سنت میں اس کے متعلق بہت سے قانون موجود ہیں۔ (۲۸)
اسلام عورت کی عفت و عصمت کے بارے میں بڑا حساس واقع ہوا ہے اسی لیے اسلام نے عورت و مرد کے لیے علیحدہ میدان کا ر تجویز کیے ہیں کیونکہ دونوں کی قوتیں صلاحیتیں اور مزاج ایک دوسرے سے مختلف ہیں عورت کے مزاج رجحان اور نفسیات کا تقاضا ہے کہ اس پر مرد کے کم بوجھ ڈالا جائے سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں کہ ’’عورت گھر کی مالکہ ہے وہاں اسے باپ بھائی، شوہر، اولاد اور خاندان والوں کی محبت بھی حاصل ہوتی ہے اور اس کے حقوق و اختیارات بھی محفوظ ہوتے ہیں عورت اگر گھر کی ذمہ داری نہ اٹھائے تو وہ ان حقوق کا دعویٰ نہیں کرسکتی اس کے بعد اسے زندگی گزارنے کے لیے ایک ایسے میدان میں کام کرنا ہو گا جو حقیقت میں اس کا میدان نہیں ہے اور جہاں سے اپنے سے زیادہ طاقتور حریف کا قدم قدم پر مقابلہ کرنا پڑے گا۔‘‘(۲۹)
اسی لیے اسلام کہتا ہے کہ عورت کے لیے عزت و احترام کا مقام باز ارنہیں بلکہ گھر ہے، کیونکہ گھر ہی ایسی جگہ ہے جہاں عورت کی عزت و آبرو محفوظ ہوتی ہے اسلام عورتوں کو ایسا احترام فراہم کرتا ہے کہ انہیں ترقی اور جدیدیت کے نام سے فریب دے کر مختلف تفریحوں آرٹ، ثقافتی مجلسوں، شوبزنس اور قومی اداروں میں مردوں کی تفریح اور نگاہ ہوس کی تسکین کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
محترمہ ام زبیر لکھتی ہے ’’ عورت کو جن مصلحتوں کے تحت اسلام نے حجاب شرعی میں رکھا ہے ان میں ایک بڑی مصلحت یہ بھی ہے کہ کم از کم وہ سینہ تو نور ایمان سے منور رہے جس سے ایک مسلمان بچہ دودھ پیتا ہے کم از کم وہ گود تو کفر اور فساد اخلاق و اعمال سے محفوظ رہے جس میں ایک مسلمان پرورش پاتا ہے۔ مگر افسوس کہ اب یہ قلعہ بھی ٹوٹ رہا ہے۔فرنگیت کی وبا(ٹی وی کی صورت) گھروں کےاندر بھی پہنچ رہی ہے۔ (۳۰)
یہی وجہ ہے جہ مغرب کی عورت نے جب گھر سےقدم باہر رکھا تو اس نے اپنی گھریلو زندگی اور اپنے گھریلو اقتدار کو بھی کھو دیا اور باہر کی دنیا میں بھی ایک ’’ شو پیس‘‘ بن کر رہ گئی، نتیجہ یہ ہے کہ وہ تباہی اور ذلت کے اس موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہے۔ اس نے نہ صرف اپنی ذات کو نقصان پہنچایا بلکہ معاشرے کو بھی تباہ و برباد کر دیا ہے اب اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ رب ذوالجلال کے عطاءکردہ حدود و قیود کو اپنا لیں کیونکہ اسلام عورت کو وہ مقام دیتا ہے جس کا بدل دنیا کے کسی مذہب اور نظام میں نہیں اور اس ارفع و اعلیٰ مقام کے حصول کے لیے اسلام نے اسے واضح احکام دیئے ہیں جن میں سے چند ذیل ہیں:
مسلمان عورتوں سے متعلق قرآن و حدیث کے احکامات:
قرآن پاک اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں متعدد بار مسلمان عورتوں کے لیے احکامات بیان کیے گئے ہیں جن میں انہیں ان تمام فرائض سے سبکدوش کر دیا گیا ہے جو بیرون خانہ کےامور سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ہے اور کسب مال کی ذمہ داری شوہر پر ہے جیساکہ مذکور ہوا لیکن بعض صورتوں میں جبکہ معاشی قلت، بیماری، معذروی یا سر براہ خاندان کی وفات و مفلسی کی صورت ہو اور عورت باہر کام کرنے پر مجبور ہوجائے تو ایسی صورت میں گنجائش ہے کہ عورت گھر سے باہر کام کر سکتی ہے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو۔ (۳۱)
ساتھ ہی باہر نکلنے کی صورت بھی بتادی :
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہوں کو باز رکھیں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں۔(۳۲)
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا
اے نبی! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں اور انھیں ستایا نہ جائے اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔(۳۳)
اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا
اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو تو (کسی نامحرم سے) دبی زبان سے بات نہ کرو، ورنہ جس شخص کے دل میں روگ ہے وہ کوئی غلط توقع لگا بیٹھے گا لہذا صاف سیدھی بات کرو۔(۳۴)
وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى
اور اپنے گھروں میں قرار پکڑے رہو، پہلے دورِ جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرتی پھرو۔(۳۵)
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۭ
اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو ۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوںکے لئے بھی۔ (۳۶)
وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ
اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو از خود ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں اور اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں۔ (۳۷)
وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ
اور اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔ (۳۸)
ان آیت کریمہ کے علاوہ اس ضمن میں چنداحادیث کا حوالہ بھی ملاحظہ ہو: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عورتیں کپڑے پہن کر بھی ننگی رہیں (یعنی کپڑے تنگ اور باریک ہوں) وہ جنت میں ہرگز داخل نہیں ہونگی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی۔ (۳۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ عورت سراپا پردہ ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھورتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب اپنے گھر میں ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جو عورت عطر لگا کر مردوں کے درمیان سے گزرے وہ آوارہ قسم کی عورت ہے۔ (۴۰)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ بلا خاوند یا کسی محرم مثل باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ کے حج کرے۔ (۴۱)
کیونکہ حج کی ادائیگی میں طویل سفر پر جانا پڑ جاتاہے جس کی وجہ سے خرابی پڑنے کا قوی احتمال ہے لہذا اس سے بچنے کی خاطر یہ شرط عائد کی گئی، شیخ ولی الدین کے مطابق حدیث میں سیدنا جابررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ خبردار کوئی مرد کسی جوان عورت کے ساتھ تنہائی میں رات بسر نہ کرے بجز شوہر اور محرم کے۔ (۴۲)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کو مساجد جانے سے مت روکو لیکن ان کے لیے گھر بہترین جگہ ہے۔ (۴۳)
غرض ان قرآنی آیات اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کا حقیقی دائرہ کار گھر کی چار دیواری ہے جہاں اس نے سکون و اطمینان سے اپنے فرائض انجام دینے ہیں گویا عورتوں کا بن ٹھن کر باہر نکلنا چست اور عریاں لباس پہننا مخلوط مجالس میں شرکت کرنا اور پری پیکر بن کر مردوں کو دعوت نظارہ دینا اسلام کےنزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کا اخلاق اور عصمت محفوظ رہے۔
مندرجہ بالا احکامات کسی انسانی فکر و فلسفہ کی پیداوار نہیں بلکہ رب کائنات کے نازل کردہ ہیں لہذا ان پر عمل کرنا ایک سچے مسلمان کا فرض ہے کیونکہ ان احکامات کے بغیر ایک منظم خاندان پاکیزہ معاشرے اور اعلیٰ تہذیب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
المراجع والمصادر
(۱) المنجد عربی اردو ص 691 دارالاشاعت کراچی
(۲)نفیس الدین، ابلاغ عامہ اور دور جدید کراچی
(۳)شیخ ولی الدین محمد الخطیب التبریزی، المشکوٰۃ المصابیح، ج 2 ص 431 جامع مسجد دہلی
(۴)القرآن (الاحزاب 32)
(۵)صحیح مسلم باب اباحۃ الخروج للنساء القضاء حاجۃ الانسان، ج2،ص 215 آرام باغ کراچی
(۶)القرآن (النساء 34)
(۷)سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ، ج 1 ، ص 84 کراچی
(۸)القرآن ( النساء31)
(۹)مشکوٰ ۃ المصابیح ،ج 2، ص 43
(۱۰)القرآن (آل عمران 110)
(۱۱)القرآن (البقرۃ 143)
(۱۲)القرآن (المائدۃ 82)
(۱۳)سید ابوالاعلیٰ مودودی، عورت اسلام کی نظر میں، ص 1 مکتبہ منصورہ لاہور
(۱۴)مشکوٰۃ المصابیح کتاب اللباس ، ج 2 ، ص 377
(۱۵)سنن ابی داؤد ، ج 1 ص 92
(۱۶)سید ابوالاعلیٰ مودودی ، پردہ، ص 17 لاہور
(۱۷)سید ابوالاعلیٰ مودودی ، پردہ، ص 18 لاہور
(۱۸)صحیح بخاری ، کتاب النکاح، باب الاکفاء فی المال، ج 2،ص 763 قدیمی کتب خانہ کراچی
(۱۹)سید ابوالاعلیٰ مودودی ،عورت اسلام کی نظر میں، ص1 7 لاہور
(۲۰)صحیح مسلم ، ج 2، ص 119
(۲۱)القرآن ( التکویر 9)
(۲۲)شبلی نعمانی، سیرت النبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج4،ص 286
(۲۳)شبلی نعمانی، سیرت النبوی صلی اللہ علیہ وسلم ، ج4،ص 286
(۲۴)القرآن (النساء 7)
(۲۵)القرآن ( البقرۃ 228)
(۲۶)مشکوٰۃ المصابیح ، ج 2 ، ص 282
(۲۷)تجرید الصحیح البخاری ، ص 487، محمد سعید اینڈ سنز تاجران کتب مولوی مسافر خانہ کراچی
(۲۸)صوفی عبد الحمید سواتی، معالم القرآن فی دروس القرآن، ج 2، ص 169 گجرانوالہ
(۲۹)سید جلال الدین عمری، عورت اور اسلام ص 24
(۳۰)ماہنامہ فاران، امہ زبیر ، ص 49 کراچی
(۳۱)صحیح مسلم باب اباحۃ الخروج النساء بقضاء الحاجۃ الانسان، ج2،ص1 25
(۳۲)القرآن ( النور 31)
(۳۳)القرآن ( الاحزاب 59)
(۳۴)القرآن ( الاحزاب 32)
(۳۵)القرآن ( الاحزاب33)
(۳۶)القرآن ( الاحزاب 53)
(۳۷)القرآن ( النور 31)
(۳۸)القرآن ( النور 31)
(۳۹)صحیح مسلم ،ج 2، ص 205
(۴۰)سنن الترمذی ،ج 2، ص 102
(۴۱)صحیح بخاری، ج 1، ص 434
(۴۲)مشکوٰۃ المصابیح، کتاب النکاح باب النظر وبیان العورات ، ج 2، ص 268
(۴۳)سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ ،ج 1، ص 84
ابتدائیہ:
اسلام میں نکاح ایک مقدس با برکت خوبصورت عہد و پیمان ہے جس کی وجہ سے مردوزن زوجین ایک دوسرے کے لئے حلال ہوجاتے ہیں ان میں سے ہر ایک دوسرے سے سکون قلب جنسی تسکین سکون وآرام راحت ، سچی محبت اور لذت پاتا ہے۔ یہی وہ مضبوط ترین قلبی تعلق ہے جس کے ذریعے دو فریق محبت کی ڈور میں بندھ جاتے ہیں ۔
ایک مومنہ صالحہ خاندان کی بنیاد رکن رکین ہوتی ہے اور اپنے شوہر کے لئے سب سے قیمتی متاع اس کی عزت ہوتی ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دنیا سامان زیست ہے اور اس کی بہترین متاع ایک نیک بیوی ہے ‘‘
یہ نیک بیوی اپنے شوہر کے لئے سب سے قیمتی متاع ہوتی ہے ۔ وہ سکون دل اور راحت ہے کہ مرد دن بھر کی مشقت کے بعد اس کے پاس جنسی و روحانی سکون حاصل کرتا ہے ۔ راحت کی وہ کیفیت جو اس کی قربت میں پاتا ہے اس کا دنیا کی کسی چیز سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی نیک صالحہ بیوی ہوگی جو بہترین متاع ثابت ہو درج ذیل میں سنت نبوی ﷺ کی راہ نمائی میں وہ صفات بیان کی جارہی ہیں جو ایک نیک صالحہ بیوی بننے میںمددگار ہونگی۔
صالح جوان کا انتخاب:
اسلام نے عورتوں کو جو اعزاز دیا ہے ان میں سے ایک قانوناً اس کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے شوہر کا انتخاب کر سکتی ہے اور جس طرح اللہ رب العالمین نے مردوں کے لئے بہترین بیوی شریک حیات کا میزان رکھا ہے وہی میزان ایک مومنہ صالحہ عورت اپنے لئے بھی رکھتی ہے ۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک عورت سے چار بنیادوں پر شادی ہوتی ہے۔ اس کی دولت، اس کے حسب نسب، اس کے حسب و جمال اور اس کے دین کے باعث، تم دیندار کا انتخاب کرو۔ تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ (یعنی تم خود کو کامیابی سے ہمکنار کرو ۔
( متفق علیہ)
اسلام عورتوں پر یہ ناقابل برداشت بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا کہ ان پر کوئی دباؤ ڈال کر وہاں شادی کرے جہاں اس کو ناپسند ہو لیکن جیسے اللہ رب العالمین نے مردوں کے لئے شادی کیلئے درج بالا حدیث میں ایک میزان مخصص کیا ہے اسی میزان کو مومنہ عورت اپنی زندگی میں بھی لائحہ عمل میں لے کر آتی ہے ۔ مسلمان عورت جو دین کی تعلیمات سے واقفیت رکھتی ہے وہ ظاہری حسن، آرائش، شان و شوکت، معاشرتی مرتبہ اس قسم کی کسی کشش میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کا یہ اہم فیصلہ نہیں کرتی۔ وہ شوہر کی دین کے ساتھ وابستگی ، اخلاق و معاملات کو دیکھتی ہے ۔ کیونکہ یہی عائلی زندگیوں میں کامیابی کے ستون ہیں اور یہی اچھے شوہر کے اعلیٰ اخلاق ہیں اسلام ایک عورت کو ایسے شخص سے نکاح پر ابھارتا ہے جو ان اوصاف کا حامل ہوں۔ نبی محترم ھادی و نذیر محمد رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جب تمہارے پاس تمہاری بیٹی کے لئے ایسے نوجوان کا پیغام آئے جس کے دین و اخلاق کی طرف سے تم مطمئن ہو تو تم اس سے نکاح کردو۔ (ترمذی)
جس طرح اللہ رب العالمین نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ صالح نوجوان کا انتخاب کرے اسی طرح ان والدین کو جو زبردستی اپنی بیٹیوں کی جائز خواہشات کا گلہ گھونٹ کر اپنی مرضیاں ان پر تسلط کرتے ہیں انہیں رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان واقعات سے نصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ثابت بن قیس بن شعاس کی بیوی جمیلہ رسول محترم ﷺ کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھے ثابت کے دین سے اخلاق سے کوئی شکایت نہیں لیکن میں اسے پسند نہیں کرتی اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں مسلمان ہوتے ہوئے کفر میں مبتلا نہ ہوجاؤں تو آپ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: کہا تم اس کا باغ ( مہر) واپس کرنے کے لئے تیار ہو( جو اس نے تم کو دیا تھا) جمیلہ نے کہا: ہا ں میں تیار ہوں آپ مکرم رسول اللہ ﷺ نے ثابت سے فرمایا: اپنا باغ واپس لے لو اور اعلانیہ ایک طلاق دے دو۔ ( صحیح بخاری)
عظیم خواتین میں اپنے کردار کی مضبوطی اور اپنے شوہر کے انتخاب کے لئے دور اندیشی میں بہت سی خواتین معروف و قابل بیان ہیں ان ہی میں سے ایک ام سلیم بنت ملحان رضی اللہ عنھا بھی ہیں جو انصاری خواتین میں پہلے پہل اسلام قبول کرنے والیوں میں سے ہیں ان کی شادی مالک بن نضر سے ہوئی لیکن قبول اسلام ان کا مالک کو بہت گراں گزرا اور اس نے ان کو چھوڑ دیا آپ اپنا دس سال کا بیٹا لے کے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے بیٹے کو آپ نبی کریم ﷺ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا۔ مدینہ کے ایک رئیس خوبرو نوجوان جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے بار ہاں آپ کو شادی کا پیغام دیا۔ ان عظیم عورت نے جواب میں ابو طلحہ کو صاف انکار کیا اور کہا: اے ابو طلحہ کیا تم نہیں جانتے جس معبود کی تم پرستش کرتے ہو وہ ایک درخت ہے جو زمین سے اگتا ہے اور جس کو کاٹ کر جس شکل میں بنانا چاہیں بنا ڈالتے ہیں۔ تم ایک ایسے آدمی ہو جس کی پیشکش ٹھکرائی نہیں جاسکتی لیکن تم کافر ہو اور میں مومنہ ہوں میرے لئے ایسا کرنا جائز نہیں لیکن اگر اسلام قبول کر لوتو یہی میرا مہرا ہوگا۔ ابو طلحہ نے بیش قیمت تحا ئف کی پیشکش کی لیکن آ پ نے انکا ر کر دیا اور آخر یہی انصا ری نو جو ا ن ابو طلحہ مسلمان ہو ئے اور اللہ نے اس گھر انے پراپنی بے تحا شا ر حمتیںنا ز ل کیں ۔
مرد قوام ہیں :
اللہ رب العا لمین نے ایک عو رت کو اپنے گھر کی ملکہ بنا یا جو کے اپنے والد کی بیٹی بن کر شہزادی ہو تی ہے اور وہا ں سے رخصت ہو کر جا تی ہے تو اپنے شو ہر کے گھرکی ملکہ ہو تی ہے ۔اللہ رب العا لمین نے معا شی ذمہ داریوں سے اسکو پاک کر دیا ہے اور یہ شو ہر کے سپر د کیں اسی وجہ سے مرد کا ایک درجہ فضیلت میں رکھا کہ اس فضیلت کے اعزاز میں وہ بھی خوشی خو شی اپنا حق ادا کر ے ایک نیک بیو ی بخو بی سمجھتی ہے کہ مر د کو قو امیت کا حق ہے گھر کے اخر اجا ت کی ذمہ داری حاصل ہے اسی لیئے ایک درجہ اللہ کی طر ف سے فضیلت حا صل ہے :تر جمہ :’’مر د عو رتو ں پر قو ا م اور حا لم ہیں اس میں کہ اللہ نے بعض کو بعض پر افضلیت دی ہے اور اس لئیے بھی کہ مرد اپنا ما ل خر چ کر تے ہیں تو جو نیک بیویاں ہیں وہ مر دوں کے حکم پر چلتی ہیں اور انکی پیٹھ پیچھے اللہ کی حفا ظت میں خبر داری کر تی ہیں ۔(انسا ء 34)
ایک مسلما ن عو رت یہی چا ہتی ہے کہ وہ اپنے بچو ں کی پر ورش کر کے ایک با شعو ر نسل پر و ان چڑھا ئے اور با ہر کی معا شی ذمہ داریا ں شو ہر اٹھا ئے یو ں دونوں شا ہراہ حیات پر ایک ساتھ قدم بہ قدم چلیں۔
شوہر کی اطاعت گزار:
ایک مومنہ عورت شوہر کی اطاعت گزار ہوتی ہے وہ ہر صورت اس کو خوش کرنے کا جتن کرتی ہے ان مثالی عورتوں میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھا افضل عورتیں صحابیات رضی اللہ عنھن تھیں۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے رسول اکرم ﷺ سے پوچھا عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے آپ نے فرمایا اس کے شوہر کا۔( مستدرک حاکم)
ایک خاتون نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے اس سے پوچھا: تمہاراشوہر ہے انہوں نے فرمایا ہاں آپ نبی کریم ﷺ نے پوچھا:تم اس کے ساتھ کیسے پیش آتی ہو اس نے جواب دیا: میں کبھی اپنی ذمہ داری سے منہ نہیں موڑتی الایہ کہ وہ میری طاقت سے باہر ہو تو آپ نے فرمایا: اس بات کا خیال رکھوکہ تم اس کے ساتھ کیسا رویہ رکھتی ہو وہ تمہارے لئے جنت ( میں داخلہ کا سبب بن سکتا) ہے اور جہنم ( میں تھکانے کا) بھی۔ ( مسند احمد)
مومنہ عورت ایک بوجھ نہیں اٹھا تی بلکہ گھر کی ملکہ کی حیثیت سے اپنا فریضہ سر انجام دیتی ہے کیونکہ وہ اس اعزاز کو بخوبی جانتی ہے جو آپ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی عورت نماز پنچ گانہ ادا کرتی ہے ، رمضان کے روزے رکھتی ہے اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے اور اپنے عصمت کی حفاظت کرتی ہے تو اس سے کہا جائے گا، جنت کے جس دروازے سے تو داخل ہونا چاہتی ہے داخل ہوجا۔ ( طبرانی کبیر)
ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی عورت مرجاتی ہے اور اسکا شوہر اس سے راضی اور خوش ہے تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ نے نہایت واضح اور روشن تصویر ایک خوش اخلاق ، خوش مزاج اور خوش اطوار نیک مسلمان بیوی کی پیش فرمائی ہے۔ جو دنیااور آخرت دونوں جہاں میں فلاح پائے گی۔ آپ کے الفاظ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ وہ خوب پیار کرنے والی اور خوب بچے دینے والی ہیں وہ ناراض ہوتی ہے یا اس کا شوہر اس پر غصے ہوتا ہے تو وہ کہتی ہے میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے اس وقت تک آرام کی نیند نہیں ہونگی جب تک تم کو راضی نہ کرلوں۔ ( طبرانی کبیر)
وہ بخوبی واقف ہوتی ہے کہ اسلام نے شوہر کی اطاعت پر کئی گناہ اجر کا مستحق بنایا ہے اس کے لئے جنت میں داخلہ کا سبب ہے اور اس کی اطاعت سے روگردانی پر عظیم گناہ کی مرتکب بنے گی اور اس پر فرشتوں کی اللہ کی لعنت ہوگی۔ ایک مرد کو گناہوں سے محفوظ رکھنا، اور اس کی پاکدامنی کی حفاظت اس قدر اہم ہے کہ اس کی بیوی کے لئے اس کی اطاعت ہر صورت لازم ہے شادی کا ایک اہم مقصد عورت اور مرد کی عصمت کی حفاظت ہے اس لئے اس معاملے میں بھی شوہر کی اطاعت نہایت ضروری ہے اس حوالے سے کثرت سے احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں عورتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے شوہر کی بھر پور اطاعت کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جب ایک مرد اپنی بیوی کو ضرورت سے بلائے تو وہ فوراً آجائے چاہے وہ تندر کے پاس ہو۔ ( ترمذی)
ایک اور جگہ آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے ’’ اگر ایک مرد اپنی بیوی کو مباثرت کے لئے بلاتا ہے اور وہ نہیں آتی اور وہ ناراض ہو کر سوتا ہے ( تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ( بخاری)
اسی طرح شوہر کی خوشی کا بھرپور خیال رکھنا بھی بیوی کی اہم ترین ذمہ داری ہے آپ ﷺ نے فرمایا مسلمان عورت کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنے گھر میں کسی ایسے آدمی کو داخلہ کی اجازت دے جس کا آنا اس کے شوہر کو پسند نہیں اور ایسی جگہ جائے جہاں اس کا جانا شوہر کو گوارا نہیں یا شوہر کے مقابلے میں کسی دوسرے کی بات مانے یا اس کے بستر سے الگ رہے یا شوہر کو اذیت دے اگر شوہر غلطی پر ہو تو بھی اس کے اس جائے یہاں تک کہ وہ اس سے خوش ہوجائے۔ (مستدرک حاکم )
الایہ کہ اگر شوہر اللہ کی نافرمانی کا حکم دے تو شریعت کا اہم اصول ہے اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔
شوہر کا بھرپور خیال رکھنا:
ایک مومنہ عورت بہترین بیوی ہوتی ہے اپنے شوہر کا بہت خیال رکھنے والی مسلمان عورتوںمیں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سیرت بہترین نمونہ ہے حج کے سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھیں اور آپ کی خدمت میں مستعد تھیں۔
خود فرماتی ہیں:
’’ میں سب سے عمدہ قسم کا عطر جو دستیاب ہوتا تھا وہ رسول ﷺ کو لگانے کے لئے استعمال کرتی تھی جب آپ احرام باندھنا چاہتے اور جب طواف افاضہ سے قبل احرام سے باہر آتے ۔ (مسلم)
ایک اور جگہ فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کا سردھویا کرتی تھی حالانکہ میں ماہواری (حیض) سے ہوتی۔ ( بخاری)
’’ رسول ﷺ اعتکاف میں ہوتے تو اپنا سر آپ اندر حجرے کی طرف کر دیتے اور صدیقہ رضی اللہ عنھا اسے دھودیتیں اور اس میں کنگی کر دیتیں ( متفق علیہ )
ام المومنین رضی اللہ عنھما نے عورتوں کی جماعت سے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت اگر تمہیں اس کا علم ہوجائے کہ شوہر کے حقوق کیا ہیں تو تم میں سے ہر ایک اپنے شوہر کے پاؤں کی دھول اپنے چہروں سے صاف کروں گی۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ )
شوہر کو محبوب رکھنا:
رسول اللہ ﷺ ایک ماہ مسلسل اپنی بیویوں سے الگ رہنے کے بعد جب دوبارہ واپس آئے تو سب سے پہلے عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس تشریف لے گئے عائشہ رضی اللہ عنھما نے فرمایا میں دن گنتی رہی ہوں ابھی صرف انتیس دن ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے کبھی تیس کا۔ (بخاری)
آپ رضی اللہ عنھما کا ارشاد ہے کہ وہ دن گنتی رہیں اس بات کی واضح علامت کہ اپنے شوہر سے کس قدر محبت کرتی تھیں وہ کتنی زیادہ آپ کی مشتاق تھیں پل پل انتظار کی گھڑیاں گنتی رہیں کہ آپ کب واپس آئیں گے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے کیسی والہانہ محبت کرتی تھیں آپ کی غیر موجودگی کتنی شاق تھی ان پر اسی بے پناہ والہانہ محبت نے رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں اس کو بے حد محبوب بنادیا تھا جبھی آپ سب سے پہلے عائشہ رضی اللہ عنھما کے پاس تشریف لائے۔
شوہر کی راز دار:
ایک سنجیدہ مسلمان خاتون اپنے شوہر کا راز کبھی فاش نہیں کرتی اپنے اور اپنے شوہر کے معاملات فحش کلامی میں برباد نہیں کرتی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن اللہ کی نظر میں بد ترین لوگوں میں وہ مرد ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ لطف اندوز ہوتا ہے اور اس کی بیوی اس کے ساتھ لطف اندوز ہوتی ہے اور پھران میں سے کوئی اپنے شریک حیات کی باتوں کو لوگوں میں پھیلا دیتا ہے۔ ( مسلم)
شوہر کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہونا اور مناسب مشورہ دینا:
جس طرح اسلام ایک مرد سے توقع کرتا ہے کہ وہ بیرونی معاملات کی ذمہ داری اٹھائے اور گھریلو معاملات اور کام کاج میں بھی بیوی کی مدد کرے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عملاً پیش کیا اسی طرح عورت سے بھی توقع رکھتا ہے کہ وہ رائے اور مشورے دے گی اپنے شوہر کے ساتھ شاہراہ حیات پر اس کے ہر دکھ درد میں اس کا ساتھ دے گی۔ اس کے معاملات میں تعاون کرے گی۔ تاریخ شاہد ہے عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ جہاد فی سبیل اللہ میں بھی شریک رہیں اس کی سب سے بڑی مثال خود نبی مقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ خدیجہ صدیقہ رضی اللہ عنھا تھیں ابتداء اسلام میں آپ نے نبی کریم ﷺ کی کس قدر ہمت بندھوائی کتنا عظیم سلوک کیا کیسا سلجھا ہوا انداز اپنایا ابن ھشام اپنی کتاب اسیرہ میں لکھتے ہیں:
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا اس بات پر ایمان رکھتی تھیں جو رسول اکرم ﷺ پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا تھا۔ ان کے ذریعے اللہ نے اپنے پیارے نبی کی مدد کی جب کبھی کفار کی نفرت آمیز باتیں آپ کے دل کو چھلتی کرتیں اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کے روحانی سکون کا انتظام خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے تو وہ آپ کا سارا غم دور کر دیتیں آپ کا حوصلہ بڑھاتیں صبر کی تلقین کرتیں آپ کے اندر خود اعتمادی بڑھائیں کہ آپ کے لئے ان تکلیف دہ باتوں کو جھیلنا آسان ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں ہوں ان پر۔ ( سیرۃ ابن ھشام)
بہت گہرائی کے ساتھ سوچ کر شوہر کو بر وقت مشورہ دنیا ایک اہم ترین سلوک ہے اس کا واقعہ صلح حدیبیہ میں ملتا ہے جب معائدہ طے پایا اور عمر ادانہ کرنے کا غم دکھ مسلمانوں کے دلوں میں اتنا رچ گیا کہ آپ ﷺ نے کہنے پر بھی مسلمانوں نے جانورذبح نہ کئے تو آپ ﷺ پریشان ہو کرام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس آئے اور ان کو یہ بات بتائی تو آپ کی ذہانت سامنے آئی آپ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! آپ باہر تشریف لے جائیے اور اس سے پہلے لوگوں سے بات نہ کیجئے جب تک اپنا جانور ذبح نہ کر دیجئے اور اپنے بال نہ منڈھوا لیجئے۔
رسول اللہ ﷺ نے آپ مشورے کو قبول کیا اور ایسا ہی کیا جیسا کہ ام المومنین نے مشورہ دیا تھا جب صحابہ اکرام نے ایسا کرتے دیکھا تو وہ تیزی کے ساتھ اپنے جانور زبح کرنے لگے اور ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے۔ ( بخاری)
اللہ کی بندگی میں مددگار:
یہ صفات حمیدہ اخلاق کریمہ میں سے ہے کہ ایک نیک بیوی اپنے شوہر کو اللہ کی اطاعت اور رضا کے کاموں میں مددگار بن جائے فضول خرچی نمود ونمائش سے روکے اور اپنے شوہر کی اللہ کی اطاعت کے راستوں میں مختلف طریقوں ے مدد کرے۔ زوجین دونوں اللہ کی اطاعت کرنے والے اور نیک کاموں میں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ’’اللہ کی رحمت ہو اس مرد پر جو خود رات کو عبادت کے لئے بیدار ہوتا ہے اور اپنی اہلیہ کو بھی بیدار کرتا ہے کہ وہ نماز پڑھے اور جب وہ بیدار نہیں ہوتی تو اس کے چہرے پر چھینٹے مارکر اس کو جگاتا ہے ۔ اللہ کی رحمت ہو اس پر جو خود رات کو عبادت کے لئے بیدار ہوتی ہے اور اپنے شوہر کو بھی بیدار کرتی ہے کہ وہ نماز پڑھے اور جب وہ بیدار نہیں ہوتا تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر اس کو جگاتی ہے ۔ ( ابو داؤد)
شوہر کے لئے تزئین و آرائش کرنا:
وہ شوہر کو خوش کرنے کے لئے اچھی زیبائش اختیار کرتی ہے قرون اولیٰ کی مومنات صالحات کا طریقہ دیا ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ خود پر بھی توجہ دینا اور شوہر کی کشش کے لئے خوشنما لباس اور زیورات کا اہتمام کرنا۔ ’’ایک خاتون نے عائشہ رضی اللہ عنھما سے جسم کے بال صاف کرنے کے لئے دریافت کیا تو آپ نے کہا اگر تمہارا کوئی شوہر ہے اس کے لئے تم اپنی آنکھوں کو نکال کر ان کی جگہ ان سے بہتر لگاسکتی ہو تو پھر ایسا بھی کر سکتی ہو۔ ( احکام النساء: ابن الجوزی)
بجائے اس کے کہ ایک عورت اپنی زیب و زینت دنیا کے ہر فرد کے سامنے ظاہر کرے اور شوہر کے حقوق میں حد سے زیادہ کاہلیت کا ثبوت دے۔
شوہر سے مل کر خوش اور شکر گزار:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا۔ ( بخاری)
جب تھکا ماندہ گھر میں شوہر داخل ہو تو نیک بیوی خندہ پیشانی سے ملتی ہے وہ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ اس کا استقبال کرتی ہے اور شوہر کے حسن سلوک پر کلمات شکر ادا کرنا نہیں بھولتی۔
وہ نامحرم کو نہیں دیکھتی:
ایک مومنہ اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے مرد کی طرف نگاہ غلط نہیں ڈالتی وہ اللہ کے حکم پر عمل کرتی ہے۔ اور مومنات سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں۔ (النور)
کسی دوسری عورت کا حلیہ بیان نہ کرنا:
ایک عقل مند دانش مند بیوی کی ایک اہم خصوصیت کہ وہ اپنے شوہر کے سامنے کسی دوسری عورت کا حلیہ بیان نہیں کرتی۔ جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ۔ ’’ کوئی عورت دوسری عورت کے بارے میں اپنے شوہر کو کچھ نہ بتائے کہ اس کے دل میں اس کو دیکھنے کا اشتیاق پیدا ہوجائے۔ ( بخاری)
خطائیں معاف کرنا:
خطائیں معاف کرنا شوہر کی خطاؤں سے درگزر کرنا کوتاہیوں کو بھول جانا اس نیک بیوی کی صفات حمیدہ میں سے ہے۔ ہر مسلمان چاہتا ہے کہ اللہ اس کو معافی کا نذرانہ دے دے اسی طور پر ایک بیوی بھی در گزر کرتی جاتی ہے کیونکہ وہ اللہ کے اس ارشاد مبارک سے واقف ہوتی ہے ۔ ’’ ان کو چاہیے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ ( النور ۲۲)
حرف آخر:
اسلام نے ایک مسلمان عورت کو جو حقوق اعزاز احترام، قدر ، عزت منزلت عطا کی اس پر مغرب کی عورتیں رشک کرتی ہیں جب وہ ان حقوق کے بارے میں سنتی ہیں ۔ اسلام پھر ان مومن عورتوں سے بھی کچھ حقوق کا تقاضہ کرتا ہے کیونکہ ان سے ہی نسلوں کی پرورش ہوتی ہے ان ہی کے ہاتھوں میں مستقبل کا سب سے قیمتی خزانہ ہوتا ہے اور یہی ایک عورت اپنے والد بیٹے بھائی شوہر کو جنت میں لے جانے کی مستحق بنتی ہے یاپھر جہنم۔ اللہ رب العالمین ہمیں ان 3نیک بختیوں سے ہمکنار کرے جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 3 باتیں ابن آدم کو نیک بختی سے ہمکنار کرتی ہیں وہ یہ ہیں اچھی بیوی، اچھا گھر، اور اچھی سواری ( مسند احمد )
اللہ رب العالمین ہمیں ہماری ماؤں ، بیٹیوں کو ان تمام صفات حامل بنادے آمین اور درود ہوں نبی کریم محمد رسول اللہ ﷺ پر جن کی وجہ سے یہ تعلیمات ہم تک پہنچیں۔ والحمد للہ رب العالمین ۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
----
اس کو پختہ کامل یقین تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کائنات میں اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے ۔ ان کو یقین تھا کہ اللہ رب العالمین کی ذات انہیں ضائع نہ کرے گی جو حالات گزرہے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی قضا و قدر کے تحت ہو رہے ہیں انسان پر اس کی دنیاوی زندگی میں اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ خیر کی راہ میں کوشش کرتا جائے اور عمل صالح اختیار کرے دین و دنیا کے ہر معاملے میں اللہ پر توکل کرے اللہ رب العالمین کے ذمہ اپنے تمام معاملات سپرد کر دے اس محترم لڑکی نے دنیا کی حقیقت کو پالیا تھا وہ دنیا کی ہر چیز کو اس طرح دیکھتی تھی جیسی وہ تھی۔ وہ چاہتی تو اس کے والد موجود نہ تھے وہ غلط راستہ اختیار کر لیتی اور میری اور آپ کی طرح حیلے سازی کرتی کہ میرے پاس وسائل نہ تھے میں مجبورتھی اسی لئے میں نے اللہ کے حکم کو توڑا۔ لیکن نہیں وہ اللہ تعالیٰ کا ڈراپنے دل میں لئے یہ سوچتی تھی جو اللہ رب العالمین نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المومنون:115)
’’ہاں تو کیا تم نے خیال کیا تھا کہ ہم نے تم کو یونہی خالی از حکمت پیدا کر دیا ہے اور یہ (خیال کیا تھا) کہ تم ہمارے پاس نہ لائے جاؤ گے‘‘
وہ کسی نبی کے گھر پیدا ہونے والی لڑکی نہیں تھی۔ وہ کسی صحابی کے گھر میں پرورش پانے والی لڑکی بھی نہ تھی۔ لیکن جب اس کی ماں نے اس کو معاشی تنگی سے تنگ آکر چھپ کر گناہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے اللہ کے ڈر سے انکار کردیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ( الملک :1)
’’وہ (اللہ) بڑا عالی شان ہے ، جس کے قبضے میں تمام سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون شخص عمل میں زیادہ اچھا ہے اور وہ زبردست اور بخشنے والا ہے ‘‘
ارشاد باری تعالیٰ:
الْيَوْمَ تُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ( المومن: 17)
’’آج ہر شخص کو اس کے کئے کا بدلہ دیا جائے گاآج کسی پر ظلم نہ ہوگا اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والا ہے ‘‘
وہ ایک عام گھر میں بغیر باپ کے رہنے والی ایک لڑکی تھی لیکن قرآنی آیات کی رشدو ہدایات سے بہرہ ور تھی۔ آج اس کی والدہ نے اس سے کہا تھا دودھ میں تھوڑا پانی ملادو زیادہ نفع ہوگا۔ لڑکی نے کہا امی آج آپ نے امیر المومنین کا حکم نہیں سنا انہوں نے منادی کرائی ہے کہ کوئی دودھ میں پانی نہ ملائے۔ ماں نے حکم دیا اٹھو اور دودھ میں پانی ملاؤ۔ لیکن لڑکی نہ اٹھی وہ جانتی تھی ماں کے حکم پر اللہ کا حکم مقدم ہے۔
اللہ کے سامنے حاضری کے ڈر و خوف نے یہ نہ کرنے دیا ماں نے کہا: اٹھو تم ایسی جگہ ہو جہاں امیر المومنین تمہیں نہیں دیکھ رہے لڑکی نے ماں وہ نہیں دیکھ رہے ان کا رب تو دیکھ رہاہے نا!!!
آدھی رات گزرچکی تھی ماں بیٹی نا واقف تھیں دیوار سے ٹیک لگائے گشت کے دوران تھکن محسوس کرتے ہوئے کب امیر المومنین نے ان کی باتیں سنیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فوراً حکم دیا جاؤ جا کر دیکھ کر آؤ یہ لڑکی کون ہے کس سے باتیں کر رہی ہے شادی شدہ ہے یا نہیں۔ وہ ایک غیر شادی شدہ لڑکی تھی جس کا باپ نہیں تھا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹوںکو بلایا اور کہا: تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے تو میں تمہاری شادی کا انتظام کر دیتا ہوں اگر میری شادی کی خواہش ہوتی تو سب سے پہلے اس لڑکی کو نکاح کا پیغام دیتا۔ آپ نے اپنے بیٹے سے اس کی شادی کر دی اور یہ لڑکی جس کی پرہیزگاری اور نیکی اعلانیہ بھی تھی پوشیدہ بھی اس کی جلوت خلوت یکساں تھے۔ اس ایمان کے ثمرات تھے کہ یہ خلیفہ راشد عمر بن عبد العزیزرحمہ اللہ کی نانی تھیں۔
ضمیر کی بیداری ایک نعمت ہے خلوتیں جلوتیں یکساں ہونا صحیح مومن کی علامتیں ہیں اللہ کا ڈر اور ایسا خوف کہ معاشی تنگی دنیا کی خاطر اس کو بھول کر اپنی آخرت خراب نہ کی۔ امت مسلمہ میں بلندی ایسی ہی عورتوں کی حیاتِ مبارکہ کے باعث یقینی بنی تھی اور امت مسلمہ میں زوال بھی عورتوں کی بے حیائی کے باعث یقینی بنا۔ آج میری ہم ماؤں بہنوں کی جلوت اور خلوت میں کتنا فرق ہے ایسی بے مثال پاکیزہ عورتیں ہمارا رول ماڈلز ہیں؟
لمحہ فکریہ ہے جو مجھے اور آپ کو دعوت دیتا ہے کہ یہ تو ایک منظر تھا ہماری معاصیت کے کتنے منظر ہیں جو بہت افسوس ناک ہیں ایک منظر تھا جس پر اس کی والدہ نے حکم دیا لیکن اس کے ایمان کے ثبات نے اس کو وہ کرنے نہ دیا میرا اور آپ کا ایمان کتنا کمزور ہے ہمارے پاس ہر گناہ کے کرنے کے کتنے حیلے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے جب کہیں شادیوں میں تصویریں اور مووی بنوانے لگیں۔ جب مردوں کے سامنے کیپریز پہن کے جانے لگیں ۔ جب ساتھی طلباء اور کولیگز کے ساتھ بے تکلف ہونے لگیں۔ اجنبی مردوں سے کمپیوٹر پر چیٹنگز کرتے ہوئے ۔ اشتہاروں میں پوز دیتے ہوئے۔ دوپٹے سے بے پرواہی برتتے ہوئے کہ ہماری رول ماڈلز کون ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: دنیا سامان زیست ہے اور اس کی بہترین متاع نیک عورت ہے وہ نیک عورت جو ہر معاملے میں اللہ کی پسند او ر نا پسند دیکھے گی وہ ہر لمحہ اللہ کی پسند کو اختیار کرے گی۔
جب آپ بازار جائیں:
تو اس نیک عورت کی طرح ضرور سوچیں کہ مجھے کونسا لباس پہننا ہے وہ نہ پہنیں جس کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’عنقریب میری امت میں ایسی عورتیں ہونگی جو بظاہر لباس پہنیں گی لیکن اصل میں وہ ننگی ہونگی ان کے سروں پر بختی اونٹ کے کوہان کی مانند چوڑا ہوگا۔ ان پر لعنت بھیجو کیونکہ یہ لعنت ذدہ ہیں یہ ہر گز جنت میں داخل نہ ہوں گی اور نہ جنت کی خوشبو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنے اور اتنے فاصلے سے آئے گی‘‘ ( بخاری)
رسول اللہ ﷺ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو مردوں جیسا لباس پہنیں اور ان مردوں پر لعنت کی جو عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ ( ابو داؤد)
جب آپ کپڑے سلوائیں:
تو ایک مومنہ عورت کی طرح سوچیں یہ آپ کے پہننے کے لائق ہے یا نہیں اس سے آپ کا ستر چھپے گا یا نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس مصر سے ایک دفعہ کپڑے آئے کچھ تو آپ نے ان میں سے ایک صحابی ’’ دحیہ رضی اللہ عنہ‘‘ کو عنایت فرمایا اور ارشاد کیا:
’’ اس کو پھاڑ کر دو ٹکڑے کرلو ایک کا کرتا بنا لو اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دے دو تاکہ وہ اس کی اوڑھنی بناے۔ پھر جب رحیہ رضی اللہ عنہ ( جانے کے لئے) مڑے تو آپ ﷺ نے فرمایا اپنی بیوی سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگائے تاکہ ( جسم کی ساخت) ظاہر نہ ہو۔‘‘ (ابو داؤد)
جب آپ تیار ہوں:
ایک مومنہ عورت کی طرح لازمی سوچیں کہ اس تیاری کا پس منظر بے حیائی کی طرف دعوت دینا تو نہیں ہے یا اس کا مقصد تفاخر و غرور ہے کہ میرا لباس بہت قیمتی ہو لوگ اس کے بارے میں اور میری خوبصورتی کے بارے میں تبصرے کریں ، میری تعریف کریںمجھے سراہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو دنیا میں نمائش کی خاطر لباس پہنے گا، اسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائیں گے‘‘
( ابود اؤد، مسند احمد، ابن ماجہ)
جب آپ کسی پارٹی، محفل، ملاقات کے لئے کہیں جائیں:
تو ایک مومنہ عورت کی طرح ضرور سوچیں کیا وہاںمرد و زن کا اختلاط تو نہیں اگر ہو تو بخوشی خود سے وہاں جانے کی قربانی دے دیں اور اللہ کی رضا حاصل کرلیں۔ کیونکہ ’’ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ مسجد نبوی کے باہر دیکھا کہ راستے میں مرد و عورت گڈ مڈہیں تو آپ نے فرمایا: اے عورتو، ٹہر جاؤ، تمہارے لئے سڑک کے بیچ چلنا ٹھیک نہیں کنارے پر چلو‘‘ یہ سنتے ہی عورتیں دیواروں سے لگ کر چلنے لگیں۔ ( مشکوٰۃ، ابو داؤد)
جب آپ بناؤ سنگھار کریں:
ایک عورت کی طرح ضرور سوچیں کہ یہ کس کے لئے ہے کس نیت سے ہے یا اغیار کی طرح کہیں کسی کو پوز دینے کے لئے کسی کی نظر تحسین کی وصولی کے لئے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ( النور 31)
’’مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں سے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ نجات پاؤ ‘‘
جب کسی غیر مرد سے بات کریں:
ایک مومنہ عورت کی طرح سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس حد میں رہ کر اس سے بات کرنے کی اجازت دی ہے وہ کونسی شرط ہے کس کو پورا کرنے کے بعد آپ کو اجازت ہے کہ ضروریات کے لئے غیر مرد اجنبیوں سے آپ بات کرسکیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:
فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(الاحزاب32)
اور دبی زبان سے (Softly) بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی میں مبتلا شخص لالچ میں پڑجائے۔
جب آپ ستائی جائیں:
تو ایک مومنہ عورت کی طرح ضرور سوچیں اس طرح غیر محرموں کا ستانا کیوں کر حقیقت کا رخ اختیار کر گیا کونسا حکم ہے جو اللہ کا میں نے توڑا تو غیر محرموں کی گندی نظروں کا رخ مجھ پر پڑ گیا۔
ارشاد باری تعالیٰ:
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا(الاحزاب: 59)
اے نبی ﷺ: اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے‘‘
جب آپ بیوٹی پارلر یا سوئمنگ پول جائیں:
ایک مومنہ عورت کی طرح یاد رکھیں اللہ رب العالمین نے آپ کا مردسے حجاب ہی نہیں رکھا صرف بلکہ ایک حجاب پردہ عورت کا عورت سے بھی ہے مرد کا مرد سے بھی جس حد کو توڑنے پر بھی بہت و حشتناک نتائج سامنے آتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ مرددوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کی ستر کی طرف نظر نہ کرے۔ ( مسلم)
خلاصہ کلام:
آپ تنہائی میں ہوں یا مجلس میں خلوت میں ہوں یا جلوت میں آپ کا ایمان اس کا ثبات آپ کے قدم ڈگمگانے نہ دے شرط ہے آپ کا ایمان رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قل امنت باللّٰہ ثم استقم: کہو میں اللہ پر ایمان لایاپھر اس پر ثابت قدم رہو۔ ( مسلم)
یہ ایمان پر ثابت قدمی زندگی کے بڑے سے بڑے معاملات ہوں یا چھوٹے سے چھوٹا ایمان کا نور آپ کو کہیں ظلمت کی تاریکیوں اور ان دلدلوں میں گرنے نہ دے گا۔ اللہ آپ کو تھام کے رکھے گا۔ درودوسلام ہوں اس مقدس ہستی محمد رسول اللہ ﷺپر جنہوں نے عورت کو حیا کا پیکر بنا کر اہل دنیا کے سامنے تسلیم کرایا اپنی تعلیمات سے اپنے عمل سے اور تمام تعریفات اللہ وحدہ لا شریک کے لئے ۔ وہ اللہ جو میری اور آپ کی خلوتیں اور جلوتیں نیک اور صالح کر دے آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔