Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

تفسیر سورۃ النور قسط نمبر28

15 Jun,2012

 

توحید ربوبیت کے دلائل

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ يُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّيْرُ صٰۗفّٰتٍ ۭ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَتَسْبِيْحَہٗ ۭ وَاللّٰہُ عَلِيْمٌۢ بِمَا يَفْعَلُوْنَ ؀وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ وَاِلَى اللّٰہِ الْمَصِيْرُ   ؀اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَہٗ ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْہَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِہٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُہٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ ۭ يَکَادُ سَـنَا بَرْقِہٖ يَذْہَبُ بِالْاَبْصَارِ ؀ۭ يُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ ؀وَاللّٰہُ خَلَقَ کُلَّ دَاۗبَّۃٍ مِّنْ مَّاۗءٍ ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي بَطْنِہٖ ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰي رِجْلَيْنِ ۚ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰٓي اَرْبَعٍ ۭ يَخْلُقُ اللّٰہُ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰي کُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ   ؀ لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اٰيٰتٍ مُّبَيِّنٰتٍ ۭ وَاللّٰہُ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ؀

کیا تم دیکھتے نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے (اور فضا میں) پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی، یہ سب اللہ ہی کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ہر مخلوق کو اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ معلوم ہے اور جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ سب کچھ جانتا ہے۔نیز آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے۔

کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے پھر بادل (کے اجزاء) کو آپس میں ملا دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے درمیان سے بارش کے قطرے ٹپکتے ہیں اور وہ آسمان سے ان پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے پھر جسے چاہتا ہے ان سے نقصان پہنچاتا ہے اور جسے چاہتا ہے ان سے بچا لیتا ہے۔ اس کی بھی چمک آنکھوں کو خیرہ کردیتی ہے۔اللہ ہی رات اوٍر دن کا ادل بدل کرتا رہتا ہے۔ بلاشبہ اہل نظر کے لئے ان نشانیوں میںعبرت کا سامان ہے۔اللہ نے ہر چلنے والے جاندار کو پانی سے پیدا کیا۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، کچھ دو پاؤں پر اور جوکچھ چار پاؤں پر، اور جوکچھ وہ چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے اور یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

ہم نے صاف صاف حقیقت بتلانے والی آیات اتاری ہیں اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی تو اللہ ہی جسے چاہے کرتا ہے۔

معانی الکلمات : 

الطَّيْرُ :

ماخو ذ ہے طار، یطیر ،طیراناً پرندوں کا اپنے پروں کے ساتھ ہوا میں حرکت کرنا، اڑنا، الطیر ، طائر کی جمع ہے لیکن اس کا اطلاق واحد پر بھی ہوتا ہے اور جمع پر بھی، الطائر کے معنیٰ نحوست یا شامت اعمال کے لئے بھی لئے جاتے ہیں۔(تاج العروس)

صٰۗفّٰتٍ:

بازو پھیلائے ہوئے ، یعنی پرندے جو فضا میں پر پھیلائے ہوئے ہو ں۔ (تاج العروس، راغب اصفہانی)

عَلِمَ :

کسی چیز کو کما حقہ جاننا، پہچاننا، حقیقت کا ادراک، یقین حاصل کرنا۔ (ابن فارس)

عربوں میں یہ لفظ معرفت اور شعور سے زیادہ بلند ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے علم کا لفظ استعمال کرتے ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کوعلیم بھی کہتے ہیں، اور حصولِ علم کے تین ذرائع جو قرآن مجید نے بتائے، سمع، بصر اور قلب ۔ قرآن کریم نے وحی کوبھی علم کہا ہے، علم میں ایک تو وہ جو نبی یا رسول کو اللہ کی طرف سے براہِ راست ملتا ہے اور اس کو وحی کہتے ہیں اور دوسرا علم وہ ہے جس کی استعداد تمام انسانوں میں رکھ دی گئی ہے۔ اور جو انسان چاہے اسے حاصل کرسکتا ہے۔

صَلَاۃٌ :

لفظ صلوٰۃ(ص، ل، و) سے ماخوذ ہے، اس کے بعض مشتقات(ص، ل ، ی) سے ماخوذ ہیں۔ اس کا عام مفہوم نماز ہے، اور نماز بھی ذکر الٰہی کی ایک معروف صورت ہے جس کے معانیٰ دعا کے بھی آتے ہیں۔ چونکہ صلاۃ بذاتِ خود ایک دعا ہے جس میں انسان اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوکر اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کرتا ہے۔

نماز در حقیقت اللہ تعالیٰ کی محکومیت اور اطاعت کو کہتے ہیں۔ (قرطبی)

کتب لغات میں صلوٰۃ کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ یعنی یہ لفظ کثیر المعانی ہے اور ان میں سے چند معانی تو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔شرعی مفہوم میں مخصوص حرکات اور ھیئات پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، جو یہ مسلمان’’صلوا کما رأیتمونی أصلی‘‘ کی اتباع میں کرتا ہے۔

قرآن مجید نے ایمان والوں کی ایک اہم نشانی یہ بتائی ہے کہ ان پر نماز کے آثار نظر آتے ہیں۔(المؤمنون 1-2)

ایسے ہی اس کے آداب اور اقامت عمومی حالات میں اور خوف کے حالات میں بھی بیان کئے ہیں۔ اسلام نے نماز کی محافظت پر بہت زور دیا ہے اور اس کے منکر کو کفر کا مرتکب بھی ٹھہرایا گیا ہے۔

الْمَصِيْرُ:

لغت میں اس کا مطلب ہے جمع ہونے کی جگہ۔ (تاج المصیر، محیط)

اور ابن فارس نے اس کا مطلب مآل اور مرجع لکھا ہے یعنی لوٹنا، اور انجام پذیر ہونا۔

راغب اصفہانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز انتقال و حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے۔

يُزْجِيْ :

زجاہ، یزجوہ، زجوا، وازجی، إزجاء، کسی چیز کو نرمی اور آہستگی سے ہانکنا، نرمی سے چلانا(تاج و راغب)

اس آیت میں یہ مفہوم بنتا ہے کہ کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو آہستگی اور سہولت سے چلاتا ہے۔

يُؤَلِّفُ :

الالف کے معنیٰ ہیں ہم آہنگی، پیوستی یا گھل مل جانے والا ساتھی، ’’ألف بینھم‘‘ ان میں ہم آہنگی اور وحدت پیدا کردی ۔ایسی ہم آہنگی، جیسے بادل کے ٹکڑے آپس میں مل کر ایک دوسرے میں مدغم ہوجاتے ہیں۔

رُکَامًا :

الرکم، کسی چیز کو اوپر تلے رکھنا اور جمع کرنا حتیٰ کہ وہ تہہ بہ تہہ ڈھیر کی شکل اختیار کر جائے۔(تاج، محیط، راغب)

ثُمَّ يَجْعَلُہٗ رُکَامًا : پھر انہیں اوپر تلے رکھ کر دبیز بادل کی شکل دےدیتا ہے۔

الْوَدْقَ :

اس کے قریب ہوا اور آسمان سے آنے کی وجہ سے بارش کو ’’الودق‘‘ کہا جاتا ہے ہر قسم کی بارش خواہ زور دار ہو یا ہلکی ودق کہلاتی ہے، اس آیت میں الودق بارش کے لئے آیا ہے جب وہ بادلوں سے نکلے۔

خِلَا لُہُ : ان کے درمیان سے

بَرَدٍ :

ٹھندا ہونا یہ حرٌّ   گرم ہونا کی ضد ہے ۔اس کے علاوہ البرد اولے(ژالہ باری) کے مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے اور کمیسٌ بارد کے معنیٰ خوشگوار زندگی کے ہیں۔

سَنَا :

روشنی، یعنی چمک اور خیرگی پیدا کردینے والی روشنی کے ہیں۔ ابن فارس نے اس کے بنیادی معانیٰ بلندی اور ارتفاع بھی کئے ہیں۔

يُقَلِّبُ:

الٹنا پلٹنا، لوٹ پوٹ کرنا، کسی چیز کو ادلتے بدلتے رہنا اس میں مبالغہ بھی ہے۔

أُولِي الْأَبْصَارِ :

آنکھوں والے، عقل والے اصحاب، صاحبِ بصیرت و بصارت

دَابَّۃٍ:

دبَّ یدبُّ دبًّا خاموشی کے ساتھ آہستہ چلنا، الدابۃ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے، ہر رینگنے اور چلنے والا جاندار۔(تاج، لطائف اللغۃ)

قرآن مجید میں دابۃ کا لفظ رینگنے والے جانور، دو پاؤں پر چلنے والے اور چار پاؤں پر چلنے والے جانور سب کے لئے آیا ہے۔

دابۃ کی جمع دوّاب ہے، سورۃ الحج میں یہ لفظ انسانوں کے علاوہ باقی ذی حیات کے لئے آیا ہے۔ (الحج۱۸)

سورۃ فاطر میں یہ لفظ انسانوں اور مویشیوں کے علاوہ دیگر ذی حیات کے لئے آیا ہے۔ (فاطر۲۸)

سورۃ الانفال میں عقل و تدبر سے کام نہ لینے والے انسانوں کو شر الدوابّ کہا گیا ہے۔(انفال۲۲)

مختصراً یہ لفظ ہر ذی نفس کے لئے اور انسانوں کیلئے، جانوروں کے لئے وغیرہ استعمال ہوا ہے۔

يَخْلُقُ :

خلق کے بنیادی معانیٰ کسی چیز کو بنانے اور کاٹنے کے ہیں اور اسے ماپنا اس کا اندازہ لگانا اس کے تناسب و توازن کو دیکھنا ، کسی چیز کو نرم و ہموار بنانا۔ (تاج العروس)

نیز ایک چیز کو دوسری چیز سے بنانا۔ (راغب)

بدع اور فطر کے معنیٰ ہوتے ہیں کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا یعنی پہلی بار پیدا کرنا، ایجاد کرنا اس اعتبار سے خلق کے معانی ہونگے مختلف عناصر کو نئی نئی ترکیبیں دینا اور اس طرح اشیاء پیدا کئے چلے جانا جسے خَلَقَ الانسان من نطفۃ، یا خلق الانسان من صلصال وغیرہ

خلّاق اور خالق اللہ تعالیٰ کی دو عظیم صفات ہیں اور واضح رہے اولاد پیدا کرنا تخلیق نہیں بلکہ تولید ہے اس اعتبار سے اس کے معانی ہونگے پیدا کرنا، ایجاد کرنا بنانا وغیرہ۔

يَشَاءُ :

شاء ، یشاء ، شیئا و مشیئۃ کے معنیٰ ہیں ارادہ کرنا اور چاہنا۔ مشیئت الٰہی، مشیئت انسان پر حاوی ہے۔ اس آیت میں مشئیت الٰہی کا اثبات بھی ہے۔

یھدی:

ھدی، یھدی، اس کے بنیادی معنیٰ نمایاں اور روشن ہونے کے ہیں، اس لئے دن کو ھُدیً کہا جاتا ہے اور ہادیہ اس چٹان کو کہتے ہیں جو پانی میں دور سے نظر آجائے۔ (تاج العروس، المحیط)

ابن فارس نے اس کے دو معنیٰ لکھے ہیں ۔

۱۔راستہ بتانے کے لئے آگے بڑھ جانا۔

۲۔ ہدیہ اور تحفہ بھیجنا۔

اس طرح ھَدٰی کے معنیٰ راستہ واضح کردینا۔ راہنمائی کرنا۔ (تاج العروس)

قرآن مجید کی رو سے ہدایت صرف وحی میں ہے جو اللہ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو عطا کی گئی ہے اور اس میں خود نبی کریم ﷺ کی سنت بھی آجاتی ہے کہ

وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى ۝اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ۝

اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔(النجم:۳۔۴)

اور وحی الٰہی کے علاوہ انسانی تجویز کردہ راہنمائی نہیں بلکہ گمراہی ہے۔(البقرہ۱۶)

یہی راستہ سیدھا ہے اس کے علاوہ ہر راستہ ٹیڑھا ہے۔(اٰل عمران۷)۔ تمام انبیاء اس ہدایت کے ساتھ آئے۔ لیکن ایک فرق واضح رہے کہ رسولوں کے ذمّے اس ہدایت کا پہنچانا تھا لوگوں کو اس پر چلانا نہ تھا۔ سیدھے راستہ پر انسان خود چل سکتا ہے برضا و رغبت کہ دین میں کوئی اکراہ نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی انسانوں کی تخلیق کے بعد اس کو مجبور نہیں کیا بلکہ اختیار دیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا ۝

ہم نے یقینا اس(انسان) کو راہ دکھا دیااب خواہ وہ شکر گزار رہے یا ناشکرا بن جائے [الدھر:۳]

خود لفظ ہدایت اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ اس میں جبر نہیں راستہ اسی کو بتایا جاتا ہے جو منزل کا متلاشی ہو اور بھٹک جانے کی مصیبت سے بچنا چاہے۔ قرآن مجید نے ایسے لوگوں کو متقین کا لقب دیا ہے۔ اور انہی معانی میں قرآن مجید نے اپنا ایک نام ھدیٰ بھی بتایا ہے۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(متقین کے لئے ہدایت ہے)

صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ:

دو لفظوں کا مجموعہ ہے ’’صراط‘‘ کھلے اور واضح راستہ کو بھی کہتے ہیں۔ (تاج العروس)

المستقیم سیدھا اور واضح جس میں کوئی کجی یا ٹیڑھ نہ ہو،

قرآن مجید نے جماعت مومنین کے مسلک اور روشن زندگی کو الصراط المستقیم سے تعبیر کیا ہے۔ (الفاتحہ۵)

اس کی چند خوبیاں ہیں جو انسانی تجویز کردہ راستوں سے ممیز ہے

۱۔ اس کی بنیاد انسانی عقل پر نہیں ہے، بلکہ قرآن و سنت کے ازلی و ابدی قوانین پر ہے۔

۲۔ اس میں عالمگیریت پائی جاتی ہے۔

۳۔ اس کے حامل فلاحِ دارین کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔

۴۔ عقل بلا وحی گمراہی ہے۔

۵۔ الصراط المستقیم ہر دور اور ہر زمانہ میں ایک ہی رہا ہے اور قیامت تک ایک ہی رہے گا۔

إجمالی مفہوم :

اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اور سب کو ہدایت دینے والا ہے ۔ خلائق میں سے جو کوئی بھی اس نور سے مستفید ہونا چاہے اور اس کی عطا کی ہوئی ہدایت سے راہ ہدایت پر آجائے لیکن انہی خلائق میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو گمراہ ہوئے اور سیدھے راستے کو چھوڑ کر شیطانی راہوں کے مسافر ہوئے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان پر اندھیرے اور تاریکیوں نے غلبہ حاصل کرلیا اور یہ اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ وہ یا تو قریب ترین چیز بھی دیکھنے سے معذورتھے اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں موجود دلائل کا تذکرہ کیا ہے۔ جو اللہ کی وحدانیت پر دلالت کررہے ہیں کہ کائنات کی غیر ناطق اشیاء تک اللہ کی حمد اور اطاعت وتسبیح میں مشغول ہیں اس کے بر خلاف کفار اور جہال جو کہ شعور اور عقل رکھتے ہوئے گمراہیوں کا شکار ہوئے۔

’’اے ہمارے محبوب ﷺ کیا آپ نے نہیں دیکھا ‘‘ اس طرح باقی امت بھی مخاطب ہے کہ زمین آسمانوں اور اس کے درمیان تمام مخلوق اللہ کی حمد میں مشغول ہے۔ اور یہ حمد وتسبیح ایمان وہدایت اور نور الٰہی کی واضح دلیل ہے کہ کائنات ہر چیز انسان، حیوانات، جمادات، نباتات، چرند ، پرند کی تسبیح سے گونج رہی ہے یہ الگ بات کہ ہم ان کی تسبیح نہیں سمجھ سکتے کیونکہ یہ ساری اشیاء اپنی زبان حال سے انسان کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ بھی حمد وتسبیح میں ان کے ساتھ شامل ہوجائیں گویا جو شخص یا فرد اس حمد وتسبیح میں ان کا ساتھ نہیں دیتا وہ پوری کائنات کا مخالف بلکہ کائناتی سچائی کا مخالف ہے اور رب کی وحدانیت کا علم بلند کرنے والا اپنے آپ کوتنہا نہ سمجھے بلکہ پوری کائنات اس کے ساتھ ہے۔

کائنات ہر چیز کا تسبیح وحمد بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا خالق ومالک بھی وہی ہےاور اس سے کوئی امر مخفی نہیں ہے وہ عالم کل ہے ہر شئے اس کے علم واختیار میں ہے اور وہی معبود حقیقی ہے کہ ربوبیت کی طرح الوہیت بھی اسی کا حق ہے ۔ اور ربوبیت الٰہی والوہیت الٰہی کی تائید وتقریر کرنے والے اور نہ کرنے والے سب کا مرجع اور آخری مسکن وٹھکانا اللہ تعالیٰ کی طرف ہے کہ سب کو اس کی طرف لوٹناہے۔ اس لیے قرآن نے ’’المصیر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ آخری ٹھکانا جس کے بعد کوئی مسکن وٹھکانہ نہیں ہے۔ کہ (إلی اللہ المصیر )

إجمالی مفہوم :

اسلام کے تین بنیادی ستونوں میں سے ستون اول :

توحید یعنی وحدانیت ربانی کا بیان ۔ توحید اپنے تمام ممکنہ مفاہیم کے اعتبار سے ان آیات میں موجود ہے ۔ توحید ربوبیت پر کائنات کی سچائیاں دلیل ہیں اور توحید الوہیت اواخر آیات سے ثابت ہورہی ہے اور اسماء وصفات کا اثبات بھی اواخر آیات سے ہورہاہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید کو واضح کرنے کے لئے اور اس کی اہمیت بیان کرنے کے لئے ایک انتہائی بلیغ مثال استعمال کی ہے جو کہ اس کائنات میں تمام انسانوں کو فکر و عمل کے لئے دعوتِ عام ہے کہ وہ سوچیں اس بات پر کہ کائنات میں موجود ہر چیز اللہ کی حمد و تسبیح میں مشغول ہے تو انسان کو من باب اولیٰ یہ کام کرنا چاہئے کہ ان اشیاء کے مقابلے میں انسان کی تخلیق ہی اس امر کے لئے ہوتی ہے۔

یہ توحید پر ایک واضح دلیل ہے اور یہ مضمون قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف پیراؤں میں بیان ہواہے جیسا کہ سورۃ الحج آیت نمبر ۱۸ میں ہے

کیا نہیں دیکھتے کہ جو آسمان میں ہے اور جو زمین میں ہے سب اللہ ہی کے لئے جھکتے ہیں اور سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت اور چوپائے اور لوگوں سے بہت سے۔۔۔ الخ۔ اورتمام آیات اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات میں ہر چیز اپنی فطرت میں توحیدی مزاج رکھتی ہے اور ان میں سے کوئی بھی چیز ربّ العالمین کے مقرر کئے ہوئے قوانین سے ذرہ بھر بھی انحراف نہیں کرتی، کائنات میں موجود ہر چیز اپنے اعمال میں اس طرف گواہی دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور یہی دلیل سورۃ رعد میں یوں بیان ہوتی ہے اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمان اور زمین میں ہیں خواہ طوعاً یا کرہاًاور ان کے سائے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں صبح و شام۔(الرعد15)

اور سورۃ النحل میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کے اس پہلو پر غور نہیں کیا ان کے سائے داہنے اور بائیں سے لوٹتے ہیں اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہوئے اور وہ اس کے آگے سرفگندہ ہوتے ہیں اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں آسمانوں اور زمین میں جو جاندار بھی ہیں اور فرشتے بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے ۔ (نحل ۴۸،۴۹)

۔۔۔جاری ہے۔۔۔

Read more...

شرم و حیا

10 Jun,2018

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے،

 

شرم و حیا ایک ایسی خوبی ہے جس سے انسان اور حیوان میں فرق ہوتا ہے، حیوان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے حیا کی ضرورت نہیں ہوتی، چاہے وہ ضرورت اس کا جسمانی تقاضا ہو یا نفسانی، ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے شرم و حیا میں سے کسی بھی چیز کا لحاظ نہیں ہوتا،لیکن انسان جانوروں سے مختلف ہے انسان کو اللہ نے عقل اور شعور عطا کیا ہے، اور اس عقل و شعور کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حیا سے کام لے نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

اَلْاِيْمَانُ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَةً وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ اَلْاِيْمَانِ. (صحیح البخاری، رقم9)

”ایمان کی ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘

 اسی طرح ایک حدیث میں ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

مَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ(صحیح) (الأدب المفرد 601)

’’حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور بے حیائی جس چیز میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتی ہے۔‘‘

 ایک اور روایت میں ہے :

اَلْحَيَاءُ کُلُّهُ خَيْرٌ(صحیح مسلم، رقم37)

”حیا تو خیر ہی خیر ہے۔‘‘

یعنی حیا انسان کو نیکیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے، حیا انسان کے لیے نیکی کے دروازے کھولتی ہے، اور بے حیائی انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے اسی لیے آپ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :’’جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو ‘‘تو حیا ایک آڑ اوررکاوٹ ہے برائی کی طرف جانے سے رکنے کے لیے، اگر وہ اٹھ جاتی ہے رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے تو انسان ہر طرح کی برائیوں میں کھلے عام ملوث ہوسکتا ہے

حیا کا دائرہ بہت وسیع ہے، شرم و حیا صرف جنسی معاملات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے سارے اعمال چال ڈھال، گفتگو، رہن سہن، لباس، دوسروں کے ساتھ معاملات وغیرہ میں کسی نہ کسی طرح کام کر رہی ہوتی ہے؛

1 مثلاً گفتگو ہی کو دیکھ لیجیے، جو شخص گفتگو میں حیا سے کام نہیں لیتا وہ اپنی زبان سے برے الفاظ نکالتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتا، لڑائی جھگڑے کی بات ہو یا گالی گلوچ ہو دوسرے کے ساتھ بد تمیزی کرنا ہو بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا یہ سب وہی کر سکتا ہے جس کے اندر حیا نہیں، حیادار انسان کبھی بھی کوئی منکر ،ناپسندیدہ بات زبان سے نہیں نکال سکتا، وہ دوسروں کا دل توڑنے سے بھی حیا کرے گا، دوسروں کے ساتھ بدتمیزی برتنے سے بھی حیا کرے گا،

 اس کے برعکس بے حیا انسان کے جی میں جو چاہے آئے، وہ نہیں دیکھتا کہ وہ کسی چھوٹے سے معاملہ کررہا ہے یا کسی بڑے سے، جب حیا وشرم نہیں ہے تو پھر جو جی چاہے کرو، اسی طرح اگر نگاہ میں حیا نہیں تو انسان پروا نہیں کرے گا حلال دیکھ رہا ہے یا حرام دیکھ رہا ہے، حیا نہیں تو نہیں پروا ہوگی حرام کھا رہا ہے یا حلال، حیا ہوگی تو وہ اس کو حرام کی طرف جانے سے روک دے گی۔

2اسی طرح ایک کریم النفس آدمی دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اس سے اپنا حق وصول کرنے میں بھی حیا محسوس کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنْكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ (الاحزاب53)

”ہاں جب تمھیں (نبی کے گھر میں) کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو،یہ باتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ تم سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں نہیں شرماتا۔‘‘

یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کا خالق، رب اور معبود ہے، چنانچہ وہ اس سے بہت بالا ہے کہ کسی انسان کی عزت نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا کوئی حق بیان کرنے سے روک دے۔

3 حیا کا تعلق انسان کے لباس سے بھی ہے، عریانی حیا کی ضد ہے، اپنا ستر بلاوجہ کھولنا اور ایسا لباس پہننا جس سے حیا کے تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں، یہ ناپسندیدہ چیزوں میں سے ہے، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف : 26)

’’اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور تقوٰی کا لباس زیادہ بہتر ہے یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔‘‘

‏یعنی لباس کا مقصد جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپانا ہے اور اگر انسان لباس پہن کر بھی ننگا رہتا ہے، تو پھر حیا کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں۔

وریشا.... اور لباس پہننے میں زینت ہے۔

یعنی عریانی میں زینت نہیں ہے لباس "پہننے" میں زینت ہے، اور تقویٰ کا لباس یعنی ایسا لباس جس کو پہن کر انسان کے اندر خدا خوفی نظر آئے زیادہ بہتر ہے بنسبت اسکے کہ انسان ایسا لباس پہنے کہ جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ اس شخص کو نہ اللہ کا کوئی ڈر ہے اور نہ ہی بندوں سے شرماتا ہے۔

نوٹ : ایک بات یہاں پر سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ دین سیکھنے کے معاملے میں بلاوجہ حیا سے کام نہیں لینا چاہیے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا : ’’انصارِ مدینہ کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں کیونکہ ان کی "حیا" دین کی گہری سمجھ حاصل کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔‘‘(صحیح مسلم: 776، باب استحباب استعمال المغتسلة)

 نبی کریم  صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کی خواتین کی تعریف فرمائی کے انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں ہیں کہ دین حاصل کرنے سے ان کو حیا مانع نہیں ہوتی یعنی دین کا جب کوئی مسئلہ یابات آتی ہے تو وہ ہر طرح کا سوال کرلیتی ہیں کیونکہ دین ہماری صرف ظاہری زندگی سے متعلق نہیں، ہماری چھپی ہوئی زندگی کے متعلق بھی ہے، ان معاملات میں بھی ہمیں صحیح معلومات ہونی چاہئیں ورنہ ہم دین کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔

مثلا:اپنی نجی زندگی کے بارے میں بلاوجہ گفتگو کرنا درست نہیں بلا وجہ ایسی گفتگو مجلسوں میں کرنا معیوب اور حیا کے خلاف ہے، لیکن جس طرح انسان جسمانی بیماری کی صورت میں اپنے جسم کے بعض حصوں کو ایک مہربان معالج کے سامنے علاج کی غرض سے کھول سکتا ہے اسی طرح بعض اوقات انسان اپنی روحانی زندگی میں کسی الجھن کا شکار ہو تو کسی جاننے والے یا کسی اہل علم کے پاس جاکر کوئی ایسا سوال کیا جا سکتا ہے جو عام زندگی میں حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، دین کو جاننے کے معاملے میں، دین پر عمل کرنے کے معاملے میں شرم و حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، جہاں پوچھنے کی ضرورت ہو وہاں انسان بہت مہذب طریقے سے مناسب الفاظ میں ہر طرح کا سوال پوچھ لے اس میں غیر ضروری حیا سے کام نہ لے یا یہ سوچ کر کہ اگر میں نے پوچھا تو لوگ مجھے چھوٹا سمجھیں گے کہ اس کو یہ بھی نہیں پتہ، یہ رویہ مناسب نہیں، لہٰذا جہاں بھی کوئی الجھن ہو وہاں پر سوال کر کے اس الجھن کو سلجھا لینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی میں ملی مہلت کو جو صرف ایک بار ملی ہے سوچ بچار میں ضائع کردیں، اور جب اللہ کے ہاں پہنچیں تو عمل کی مہلت ختم ہو جائے اور پھر پلٹنے کا کوئی وقت بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس دنیامیں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لئے جس بنیادی علم کی ضرورت ہے اس کو بغیر کسی جھجھک اور شرم و حیا کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

۔۔۔

Read more...

حیا مسلمان کے کردار کا لازمی جزو

15 Jul,2018

اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن فطری خوبیوں سے مالامال کیا ہے ان میں سے ایک خوبی شرم وحیا ہے۔ شرعی نقطہٴ نظرسے شرم وحیا اس صفت کا نام ہے جس کی وجہ سے انسان قبیح اور ناپسندیدہ کاموں سے پرہیز کرتاہے،

شرم و حیا ایک ایسی خوبی ہے جس سے انسان اور حیوان میں فرق ہوتا ہے، حیوان کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے حیا کی ضرورت نہیں ہوتی، چاہے وہ ضرورت اس کا جسمانی تقاضہ ہو یا نفسانی، ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسے شرم و حیا  میں سے کسی بھی چیز کا لحاظ نہیں ہوتالیکن انسان جانوروں سے مختلف ہے انسان کو اللہ نے عقل اور شعور عطا کیا ہے، اور اس عقل و شعور کا تقاضا یہ ہے کہ انسان حیا سے کام لے نبی کریم ﷺ نے حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:

اَلْاِيْمَانُ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَةً وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِّنَ اَلْاِيْمَانِ. (بخاری، رقم9)

”ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘

 اسی طرح ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا

مَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ، وَلَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ(صحیح) ( الأدب المفرد 601)

’’حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور بے حیائی جس چیز  میں بھی ہو اسے بدنما بنا دیتی ہے۔‘‘

  ایک اور روایت میں ہے :

اَلْحَيَاءُ کُلُّهُ خَيْرٌ.(مسلم، رقم37)

”حیا تو خیر ہی خیر ہے۔‘‘

یعنی حیا انسان کو نیکیوں کی طرف متوجہ کرتی ہے، حیا انسان کے لیے نیکی کے دروازے کھولتی ہے، اور بے حیائی انسان کو برائی کی طرف لے جاتی ہے ۔اسی لیے آپ ﷺ نے فرمایا جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہو کرو تو حیا برائی کی طرف لپکنے میں ایک آڑ اوررکاوٹ ہے اگر وہ اٹھ جاتی ہے رکاوٹ ختم ہو جاتی ہے تو انسان ہر طرح کی برائیوں میں کھلے عام ملوث ہوسکتا ہے۔

حیا کا دائرہ بہت وسیع ہے، شرم و حیا صرف جنسی معاملات تک محدود نہیں بلکہ انسانی زندگی کے سارے اعمال چال ڈھال، گفتگو، رہن سہن، لباس، دوسروں کے ساتھ معاملات وغیرہ میں کسی نہ کسی طرح کام کر رہی ہوتی ہے۔

1 مثلاً گفتگو ہی کو دیکھ لیجیے، جو شخص گفتگو میں حیا سے کام نہیں لیتا وہ اپنی زبان سے برے الفاظ نکالتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتا، لڑائی جھگڑے کی بات ہو یا گالی گلوچ ہو دوسرے کے ساتھ بد تمیزی کرنا ہو، بداخلاقی کا مظاہرہ کرنا یہ سب وہی کر سکتا ہے جس کے اندر حیا نہیں، حیادار انسان کبھی بھی کوئی منکر ناپسندیدہ بات زبان سے نہیں نکال سکتا، وہ دوسروں کا دل توڑنے اوربدتمیزی برتنے سے بھی حیا کرے گا۔

 اس کے برعکس بے حیا انسان کے جی میں جو چاہے آئے، وہ نہیں دیکھتا کہ وہ کسی چھوٹے سے معاملہ کررہا ہے یا کسی بڑے سے، جب حیا نہیں ہے شرم نہیں ہے تو پھر جو جی چاہے کرو، اسی طرح اگر نگاہ میں حیا نہیں تو انسان پروا نہیں کرے گا حلال دیکھ رہا ہے یا حرام دیکھ رہا ہے، حیا نہیں تو نہیں پروا ہوگی حرام کھا رہا ہے یا حلال، حیا ہوگی تو وہ اس کو حرام کی طرف جانے سے روک دے گی۔

2 اسی طرح ایک کریم النفس آدمی دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے بعض اوقات اس سے اپنا حق وصول کرنے میں بھی حیا محسوس کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلٰکِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ يُؤْذِی النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْکُمْ وَاللهُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ (الاحزاب33: 53)

’’ہاں جب تمھیں (نبی کے گھر میں) کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ، پھر جب کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہو،یہ باتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں، مگر وہ تم سے کہتے ہوئے شرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ حق کے اظہار میں نہیں شرماتا۔‘‘

یہ شرمانا دراصل دوسرے کی عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے اس کا لحاظ کرنا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھی ایک کریم النفس آدمی کئی جگہوں پر شرم محسوس کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی ظاہر ہے کہ انسان کا خالق، رب اور معبود ہے، چنانچہ وہ اس سے بہت بالا ہے کہ کسی انسان کی عزت نفس اسے اپنا یا کسی دوسرے کا کوئی حق بیان کرنے سے روک دے۔

3 حیا کا تعلق انسان کے لباس سے بھی ہے، عریانی حیا کی ضد ہے، اپنا ستر بلاوجہ کھولنا اور ایسا لباس پہننا  جس سے حیا کے تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں، یہ ناپسندیدہ چیزوں میں سے ہے، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف - 26)

اے اولادِ آدم! بیشک ہم نے تمہارے لئے (ایسا) لباس اتارا ہے جو تمہاری شرم گاہوں کو چھپائے اور (تمہیں) زینت بخشے اور تقوٰی کا لباس زیادہ  بہتر ہے۔ یہ اﷲ کی نشانیاں ہیں تاکہ وہ نصیحت قبول کریں۔

یعنی لباس کا مقصد جسم کے قابل شرم حصوں کو چھپانا ہے اور اگر انسان لباس پہن کر بھی ننگا رہتا ہے، تو پھر حیا کے تقاضے کیسے پورے ہو سکتے ہیں،

وریشا.... اور لباس پہننے میں زینت ہے،

یعنی عریانی میں زینت نہیں ہے لباس "پہننے" میں زینت ہے،  اور تقویٰ کا لباس یعنی ایسا لباس جس کو پہن کر انسان کے اندر اللہ کا خوفنظر آئے زیادہ بہتر ہے بنسبت اسکے کے انسان ایسا لباس پہنے کہ جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ اس شخص کو نہ اللہ کا کوئی ڈر ہے اور نہ ہی بندوں سے شرماتا ہے۔

نوٹ :

ایک بات یہاں پر سب سے اہم ہے اور وہ یہ کہ دین سیکھنے کے معاملے میں بلاوجہ حیا سے کام نہیں لینا چاہیے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "انصارِ مدینہ کی عورتیں بہترین عورتیں ہیں کیونکہ ان کی "حیا" دین کی گہری سمجھ حاصل کرنے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔"(صحیح مسلم: 776، باب استحباب استعمال المغتسلة)

 نبی کریمﷺ نے انصار کی خواتین کی تعریف فرمائی کے انصار کی عورتیں کس قدر اچھی عورتیں ہیں کہ دین حاصل کرنے سے ان کو حیا مانع نہیں ہوتی یعنی دین کا جب کوئی مسئلہ آتا ہے دین کی کوئی بات آتی ہے تو وہ ہر طرح کا سوال کرلیتی ہیں کیونکہ دین ہماری صرف ظاہری زندگی سے متعلق نہیں، ہماری چھپی ہوئی زندگی کے متعلق بھی ہے، ان معاملات میں بھی ہمیں صحیح معلومات ہونی چاہئیں ورنہ ہم دین کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے۔

مثلا اپنی نجی زندگی کے بارے میں بلاوجہ گفتگو کرنا درست نہیں بلا وجہ ایسی گفتگو مجلسوں میں کرنا معیوب ہے حیا کے خلاف ہے، لیکن جس طرح انسان جسمانی بیماری کی صورت میں اپنے جسم کے بعض حصوں کو ایک مہربان معالج کے سامنے علاج کی غرض سے کھول سکتا ہے اسی طرح بعض اوقات انسان اپنی روحانی زندگی میں کسی الجھن کا شکار ہو تو کسی جاننے والے یا کسی اہل علم کے پاس جاکر کوئی ایسا سوال کیا جا سکتا ہے جو عام زندگی میں حیا کے منافی سمجھا جاتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، دین کو جاننے کے معاملے میں، دین پر عمل کرنے کے معاملے میں شرم و حیا مانع نہیں ہونی چاہیے، جہاں پوچھنے کی ضرورت ہو وہاں انسان بہت مہذب طریقے سے مناسب الفاظ میں ہر طرح کا سوال پوچھ لے اس میں غیر ضروری حیا سے کام نہ لے یا یہ سوچ کر کہ اگر میں نے پوچھا تو لوگ مجھے چھوٹا سمجھیں گے کہ اس کو یہ بھی نہیں پتہ، یہ رویہ مناسب نہیں، لہٰذا جہاں بھی کوئی الجھن ہو وہاں پر سوال کر کے اس الجھن کو سلجھا لینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی میں ملی مہلت کو جو صرف ایک بار ملی ہے سوچ بچار میں ضائع کردیںاور جب اللہ کے ہاں پہنچیں تو عمل کی مہلت ختم ہو جائے اور پھر پلٹنے کا کوئی وقت بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس دنیامیں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لئے جس بنیادی علم کی ضرورت ہے اس کو بغیر کسی جھجھک اور شرم و حیا کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

--------------

Read more...

بے حیائی کا لباس گمراہی کی ابلیسی جال

03 Aug,2014

 

انسان اشرف المخلوقات ہے اس کے اندر حیا فطری طور پر موجود ہے اور اسے دیگر جانداروںپر امتیاز حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہـــــ ’’حیا ایمان ہے‘‘۔ تخلیقِ آدم پر ابلیس نے تکبر کیا اور آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کر کے انسان سے کھلی دشمنی کا اظہار کیا اور خود کو برتر جانا۔جب اللہ تعالی نے اسے نافرمانی پر لعین قرار دیا تو یہ حسد کی بنیاد پر انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہو گیا۔ آدم و حوا علیہما السلام ابلیسی چال کی زد میں آئے اور جنت کے لباس سے دونوں میاں بیوی محروم کر دیئے گئے۔ زمین پر بھیجے جانے کے بعد آپ علیہما السلام اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرتے رہے جسے اللہ تعالی نے قبول فرما لیا۔ معلوم ہوا کہ شیطان کا پہلا حدف یہی ہے کہ انسان کا لباس اتروا کر اسے بے حیا کر دیا جائے اور وہ خود بخود جنت سے محروم ہو کر جہنم کا ایندھن بن جائے۔ سورۃ الاعراف کی آیت نمبر27 میں اللہ تعالی نے اولادِ آدم کو نصیحت فرمائی ہے:

يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۭاِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ  

اے بنی آدم! ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں فتنے میں مبتلا کردے جیسا کہ اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان سے ان کے لباس اتروا دیئے تھے تاکہ ان کی شرمگاہیں انہیں دکھلا دے۔ وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کا سرپرست بنادیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے ہمیں تنبیہ فرمائی کہ لباس کے تمام فتنے ابلیسی ہیں اور شیطان ہمیں ان فتنوں میں مبتلا کر کے جہنم رسید کروانا چاہتاہے ۔ شیطانی چیلے خوشنما طریقوں سے ایمان والوں کے درمیان بے حیائی پھیلاتے ہیں کہ انہیں اس کا احساس تک نہیں ہو تا اور صرف کمزور ایمان والے ہی متاثر ہو تے ہیں۔ شیطان نے آج ہمیں لباس کے جن فتنوں میں مبتلا کر رکھا ہے وہ تو بے انتہا ہیں اور آئے دن ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آئیے یہاں لباس سے متعلق چندمعاشرتی برائیوں کا ذکر کرتے ہیں۔

مردو زن میں عریاں لباس سب سے بڑا فتنہ ہے ۔ بعثتِ مبارکہ سے قبل مرد اور عورتیں بیت اللہ کا طواف عریاں ہوکر کرتے اور اسے باعثِ اجرو ثواب سمجھتے۔ اسلام نے اس عریانی کو ختم کیا اور بتایا کہ عریاں ہونا گناہ ہے اور اللہ تعالی کو نا پسند ہے۔ تاریخ کا طویل سفر طے کرنے کے بعد آج کا انسان جاہلیت کے اسی مقام پر آن پہنچا ہے جس مقام پر پتھر کے زمانے میں تھا۔ سنا ہے کہ قدیم دور میں انسان جاہلیت کی زندگی گزارتے تھے اور اکثر بے لباس ہوا کرتے تھے۔ بہت کم جسم کے مخصوص حصوں کو ڈھانپتے تھے اوریہ سب کم علمی اور غیر ترقی یافتہ ہونے کی وجہ سے تھا اس لیے اسے پتھر، جاہلیت اور غیر تہذیب یافتہ دور کہا جاتا ہے۔ یعنی اس وقت انسانی تہذیب توانا نہ تھی اور اس معاشرے کا انسان غیر مہذب تھا۔ پھر انسان نے ترقی کی۔ علم حاصل کیا اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مکمل لباس، رہائش اور دیگر آسائشو ں کو حاصل کیا اور پھر ایک دور آیا جو تہذیب یافتہ دور کہلایا۔ لوگ مکمل لباس پہنتے، صاف ستھرے رہتے اور مہذب کہلاتے اور ان کے مقابل کم لباس والے اور بے لباس غیر مہذب ہوتے۔ یعنی تاریخی طور پر بھی یہ ثابت ہوا جب انسان بے لباسی اور کم لباسی سے مکمل لباس کی طرف آیا تو غیر تہذیب یافتہ سے تہذیب یافتہ کہلایا لیکن آج افسوس سے کہناپڑ رہا ہے کہ شیطان نے مہذب اور غیر مہذب کی تعریف ہی کو بدل دیا ہے۔ آج حیادار، مکمل لباس پہننا دقیانوسی، جاہل، ان پڑھ اور گنوار ہونے کی علامت ہے جبکہ کم لباسی اور بے حیائی والا لباس جدید، ماڈرن اور مہذب ہونے کی علامت ہے۔ یعنی شیطانی چال نے مہذب کو غیر مہذب قرار دے دیا اور تاریخی حقیقت کو جھٹلا دیا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دین اسلا م تو شروع ہی سے تہذیب یافتہ معاشرے کا تصور دیتا ہے اور اگر کوئی بد تہذ یبی تھی بھی تو دین اسلام سے دوری اور جاہلیت کی بنیاد پر تھی۔ آج کی مہذب دنیا کے دعوے داروں کا حال الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے۔ایک حیا دار انسان کے لیے یہ زمین تیزی سے تنگ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ممالک کی طرزِ معاشرت تو بس۔۔۔۔

اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ (الاعراف 179)

یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ ۔

مغربی معاشروں میں رہنے والے مسلمان بھی کچھ پیچھے نہیں ۔ ایک چوبیس سالہ مسلمان لڑکی مس سائرہ کریم نے گلاسکو (یوکے) میں 19 ستمبر 2001 کو عریاں عورتوں کا مقابلہ حسن منعقد کروانے کا اعلان کیا کہ اس سے جرنل نالج میں اضافہ ہو گااور ان کی تصویریں آرٹ گیلری میں بطور فن پیش کر کے خواتین کو با عزت مقام دلائوں گی۔ (اردو ڈائجسٹ لاہور جولائی 2010 ص 139) نامعلوم یہ مقابلہ ہوا یا نہیں لیکن ایسی کوششیں شیطانی حکم سے اب بھی جاری رہتی ہیں۔ امریکہ میں بعض ساحلی مقامات پر ایسی جگہیں بھی ہیں (Nacked City) جہاں صرف بے لباس لوگ ہی داخل ہو سکتے ہیں۔ مہذب اور ترقی یافتہ کہلوانے والے ممالک میں عریانی عیب کی بجائے باقائدہ فن اور ثقافت کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔ آرٹ گیلریوں میں عریاں تصاویر کی نمائش اور عجائب گھروں میں عریاں مجسموں کی حفاظت کو عصر حاضر کی ثقافت میں بلند مقام حاصل ہے۔ بیوٹی پارلروں میں خواتین کا اپنے سارے جسم کے بال صاف کروانے اور مہندی سے پورے جسم پر بیل بوٹے بنوانے کے لیے عریاں ہونا قطعاً عیب شمار نہیں ہوتا۔

یہ حقیقت ہے کہ عریانی کو تمام مذاہب میں چاہے وہ الہامی ہوں یا غیر الہامی گناہ اور معیوب سمجھا جاتاہے لیکن دورِ حاضر کی تہذیب جدید اور روشن خیالی جیسے فلسفوں نے مذاہب سے انسان کا تعلق واجبی سا رہنے دیا ہے بلکہ ختم ہی کر دیا ہے ۔ آج پارکوں ، بازاروں میں عریاں بازو، کھلے گلے، بلند چاک، دوپٹہ تک غائب والی شیطان کی بہنیں تو آوارہ جانوروں کی طرح پھرتی ملیں گیں لیکن حجاب والی بمشکل ہی نظر آئے گی۔ وطنِ عزیز کے ائیر پورٹ، ساحل اور دیگر تفریحی مقامات اب لندن اور واشنگٹن سے کچھ کم نہیں۔ مزارِ قائد پر قوم کی بیٹیاں اور بیٹے بے خوف ہو کر سرِعام عریانی اور فحاشی پھیلاتے ہوئے بابائے قوم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ مختصر، تنگ جس سے جسم کے نشیب و فراز نمایاں ہوں یا باریک لباس جس سے جسم نظر آئے یہ سب عریاں لباس میں شمار ہوتے ہیںاور مردوں کے لیے جنسی ہیجان کا باعث بنتے ہیں اور معاشرے کو بے حیائی اور فحاشی کی طرف لے جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے ایسے لباس پہننے والی عورتوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے ’’ ایسی عورتیں قیامت کے دن جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی ‘‘ (صحیح مسلم شریف) اور دوسری حدیث میں ارشادِ مبارک ہے ’’ ایسی عورتیں قیامت کے روز ننگی ہوں گی‘‘ (صحیح بخاری شریف)

بے حیائی میں مرد بھی عورتوں کے دوش بدوش مختصر شرٹ اور پائوں میں گھسٹتی ہوئی پتلون، کولہوں کے نیچے نہ ٹکنے والے مقام پر بیلٹ باندھنے کی کوشش کرتے ہیں جو خطرے سے خالی نہیں لیکن شرم دور دور تک نہیں۔ نمازی طبقہ بھی کچھ کم نہیں۔ مساجد کے تقدس کا بھی لحاظ نہیں۔ نمازیں بھی خشوع و خضوع سے محروم ہوتی جارہی ہیں۔ نماز بھی بس ایک ایکسر سائز بن کر رہ گئی ہے۔ بازئو ں کے بغیر بنیان اور گھٹنوں تک نیکر نوجوانوں کا عام لباس بنتا جا رہا ہے۔ اس لباس میں نوجوان کھلے عام پھرتے حتی کہ مساجد میں نمازیں ادا کرتے نظر آتے ہیں، کیا ایسا لباس باوقار، مہذب اور زینت والا قرار دیا جا سکتا ہے؟ رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق ٹخنوں سے ازار (پاجامہ) اونچا رکھنا دشوار اور شرم کا باعث لیکن مغرب کی نقالی اور شیطان کی رضا کی خاطر گھٹنوں تک نیکر پہننا اور ازار اونچا رکھنا عین مہذب اور پھر اس کے اوپر دلائل؟ یہ فتنہ ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ایک وقت آئے گا مسلمان پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلیں گے اگر وہ ایک بالشت چلیں گے تو تم بھی ایک بالشت چلو گے اگر وہ دو ہاتھ چلیں گے تو تم بھی دو ہاتھ چلو گے حتی کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوں گے(جو کہ انتہائی دشوار ہے) تو تم بھی اس میں داخل ہو گے اگر کوئی ان میں سے اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرے گا تو تم بھی ایسا کرو گے۔ (بزار) اللہ تعالی ہمیں اس فتنے سے محفوظ فرمائے آمین!

رسول اللہﷺ نے عورتوں کو مردوں کی مشابہت اور مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اب مرد بھی عورتوں کی طرح پھولدار، منقش کڑھائی والے اور چکن ایمبرائیڈری والے لباس زیبِ تن کیے نظر آتے ہیںاور عورتیں جینز میں، بعض دفعہ برقعوں کے نیچے بھی جینز نظر آتی ہے۔ یاد رہے جینز کی پتلون مردوں کا لباس ہے اور چست پتلون ہے جس کی تراش خراش مردوں کو بھی زیب نہیں دیتی چہ جائیکہ عورتیں پہنیں۔ زری اور کامدار کرتے مرد اور عورتیں دونوں ہی پہنتے ہیں۔ بھری کڑھائی کی شیروانیاں تو اب شادی بیاہ پر عام پہنی جاتی ہیں۔ لباس کے علاوہ مرد عورتوں کی طرح سونے اور تانبے کے کڑے، انگوٹھیاں، گلے میں چین اور کانوں میں بالیاں تک پہننے لگے ہیں۔ عورتوں کی طرح بعض نوجوان پونیاں بھی کرتے ہیں اور عورتوں کے شانہ بشانہ بیوٹی پارلروں کا رخ بھی کرنے لگے ہیں۔

دوسری طرف مرد بننے کی شوقین خواتین کا فتنہ بھی کچھ کم نہیں۔ مردانہ طرز کی قمیض، شرٹ، ٹخنوں سے اونچی شلوار یا پتلون، چوڑی دار پاجامہ، پی کیپ، رنگین عینک، مردانہ ساخت کے جوتے، مردانہ بال، چال ڈھال، حرکات، مردانہ انداز گفتگو اور مخلوط محافل کے جنون نے اسلامی تہذیب و ثقافت اور غیرتِ ایمانی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ مشابہت کے اس فتنے میں دین دار حلقے بھی مبتلا نظر آتے ہیں۔ ارشادِ نبویﷺ ہے ’’ اللہ کی لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور اللہ تعالی کی لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں‘‘۔ (صحیح بخاری شریف)

شادیوں، پارٹیوں اور دیگر تقریبات کے موقعوں پر مال اور لباس کی نمائش، شہرت اور تکبر، بلند معیارِ زندگی اور امارت کے اظہار کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے ’’شہرت اور ناموری کا لباس پہننے والوں کو قیامت کے دن اللہ تعالی ذلت کا لباس پہنائیں گے اورپھر اسے آگ میں ڈالیں گے‘‘۔ (سنن ابن ماجہ) لیکن اس کے باوجود مادر پدر آزاد اسلامی معاشرہ ایک ایسی منزل کی طرف گامزن ہے جس کا انجام دنیا اور آخرت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سب شیطان کی پیروی ہی کا نتیجہ ہے۔ بے شک شیطان اپنے پیرو کاروں کوبے حیائی اور منکرات کا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ سبحانہٗ و تعالی بے حیائی اوربرائی کے کاموں سے روکتا ہے۔

انسان اپنے لباس میں ضرورت سے تجاوز کر گیا ہے۔ غریب سے غریب آدمی بھی کئی کئی جوڑے محفوظ رکھتا ہے اور گھروں میں سامان کے انبار ہیں۔ جنت کی بشارت پانے والوں نے ایسے لباس پہنے تو کیا دیکھے بھی نہ ہوں گے۔ تاریخ کے مطالعے سے قرونِ اولی میں آپ کو صحابیات میں سے کئی پیوند لگی لباس میں جنتی شہزادیا ں نظر آئیں گی۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے ’’گھر میں ایک بستر مرد کے لیے، دوسرا اس کی بیوی کے لیے، تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا (ضرورت سے زائد) شیطان کے لیے ہے‘‘ (صحیح مسلم شریف) دوسری حدیث میں ہے کہ انواع و اقسام کے لباس پہننے والے میری امت کے بد ترین لوگ ہوں گے۔ (طبرانی)

ضرورت سے زائد لباس بنانا دراصل شیطانی فعل ہے۔ شاہانہ زندگی گزارنے والے عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ (عمر ثانی) جب خلیفہ بنے اور مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبد الملک کے بھائی نے کہا بہن امیر المومنین کے کپڑے میلے ہو رہے ہیں اور لوگ بیمار پرسی کے لیے آ رہے ہیں انہیں تبدیل کر دیں تو وہ خاموش رہیں، بھائی کے دوبارہ کہنے پر فرمایا اللہ کی قسم! امیر المومنین کے پاس اس کے علاوہ کوئی دوسرے کپڑے نہیں ہیں۔

فتنوں کے اس دور میں ایمان والوں اور ایمان والیوں کو اپنے ایمان، شرمگاہوں اور دل و نظر کی حفاظت کرنی ہو گی اور یوم آخرت میں حصولِ جنت کے لیے بے حیائی، کم لباسی، مشابہت، لباس میںاسرف اور اس طرح کی گمراہ کن شیطانی چالوں سے کنارہ کش ہو کر قرآن و سنت کا دامن تھامنا ہو گا۔ شیطان تو چاہتا ہے کہ تمہیں اسی طرح بے لباس کر دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ (آدم ، حوا) کو کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں شیطانی چیلوں اور منافقین کی چالوں سے بھی ہوشیار رہنا ہو گاجو میڈیا کے زریعے ہمارے درمیان بے حیائی کاطوفان برپا کیے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے

اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور 19)

جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو قرآن و سنت کے مطابق اپنی معاشرت قائم کرنے اور بے حیا ئی چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو اسے ترک کرکے پاکیزہ زندگی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • Next
  • End

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول