Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم اور حقوق انسانی

19 Feb,2012

محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم  اور حقوق انسانی

حقوقِ انسانی کے نام پر قائم اداروں کے لئے بہترین نمونہ

رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم انسانیت کے محسن اعظم اور دین اسلام کی دعوت لیکر آنے والے انبیائے کرام علیہ السلام میں سے آخری نبی اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جنہوں نے اپنی واضح اور ابدی تعلیمات میں انسانیت کی عظمت ، احترام اور حقوق پر مبنی حقوق انسانی کے متعلق وہ دائمی تصور حقوق وفرائض پیش فرمائے جسے بلا مبالغہ انسانیت نوازی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ جو گذشتہ 14سوسال سے دائمی حیثیت کی مالک ہے۔

یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پوری حیات طیبہ اور سیرت مطہرہ انسانی حقوق کے تحفظ سےعبارت ہے۔ لیکن ان میں بے شمارمواقع میں سے چار مواقع ایسے ہیں جنہیں تاریخی اہمیت حاصل ہے اور موجودہ دنیا ان معاہدات اور خطبات کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

وہ چار مواقع درج ذیل ہیں :

۱۔ معاہدہ حلف الفضول :

ذوالقعدہ 37 قبل ہجری بمطابق دسمبر 586ء

۲۔ میثاق مدینہ :                    

یکم هجری بمطابق 623ء

۳۔ خطبہ فتح مکہ :        

10 رمضان 8 هجری بمطابق 630ء

۴۔ خطبہ حجۃ الوداع :   

9 ذو الحجہ 9هجری بمطابق مارچ 632ء

درج ذیل سطور میں سیرت طیبہ سے انہی چار جوانب کا تذکرہ وجائزہ پیش کیا جائے گا۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارکہ نہ صرف نبوت کے بعد بلکہ نبوت سے قبل بھی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے سرگرم اور مشعل راہ تھی۔

۱۔ معاہدہ حلف الفضول :

معاہد حلف الفضول سر زمین عرب بلکہ اگر کہا جائے کہ عرب کی تاریخ میں وہ پہلی کاوش ہے جس میں قیام امن وبنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور مظلوموں کی داد رسی کا تاریخ ساز واقعہ ہے۔تو غلط نه هوگا

معاہدہ حلف الفضول میں لفظ حلف ہے جس کے معنی قسم اور معاملہ کے بھی ہیں۔

علامہ فیروزآبادی معاہدہ حلف الفضول کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

قریش نے اس حلف کو حلف الفضول کے نام سے اس لئے موسوم کیا کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ کسی کے پاس کسی کا حق نہیں چھوڑیں گے کہ وہ کسی پر ظلم نہ کرسکے (یعنی کسی مظلوم کا حق ظالم کے پاس نہیں چھوڑیں گے) لیکن اسے ہر حال میں واگزارکرائیں گے۔

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اس معاہدہ کو حلف الفضول اس لئے کہا جاتاہے کہ اس معاہدہ کا خیال اوّل جن لوگوں کوآیا ان کے نام میں لفظ فضیلت کا مادہ داخل تھا یعنی فضیل بن حارث ، فضیل بن واعہ اور مفضل ۔

ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اس کی وجہ تسمیہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حلف الفضول کے بارے میں ایک توجیہہ یہ کی گئی ہے کہ عربی میں حق کو فضل بھی کہتے ہیں جس کی جمع فضول ہے اس لئے یہ معاہدہ حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا یعنی معاہدہ حقوق یا معاہدہ حفظ حقوق ۔

مشہور سیرت نگار اور ماہر اسلامی قانون ڈاکٹر محمد حمید مرحوم اپنی مشہور کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیاسی زندگی میں معاہدہ حلف الفضول کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’ سرزمین عرب بالخصوص مکہ کی ریاست میں عرب تاریخ میں پہلی مرتبہ قیام امن، بنیادی انسانی حقوق بالخصوص مظلوموں اور بے کسوں کی داررسی کا پہلا تاریخ ساز معاہدہ ہے جس میں شریک ہونے والے رضا کارانہ طور پر متحد ہوکر اپنے شہر مکہ میں ظالموں کا ہاتھ روکتے اور مظلوموں کو ان کا حق دلاتے۔

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کے نتیجہ میں بنو ہاشم، بنو عبد المطلب اور خاندان بنو زہرہ وبنو تیم نے متحد ہوکر معاہدہ کیا کہ خواہ مکے کے باشندے ہوں یا اجنبی آزادہوں یا غلام ، مکے کی حدود کے اندر ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی سے محفوظ رکھا جائے گا اور ظالموں کے ہاتھوں ان کے نقصانات کی پوری پوری تلافی کرائی جائے گی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس انجمن کے رکن اعلیٰ تھے اس کی بدولت کمزوروں اور مظلوموں کو بڑی حد تک امن وامان نصیب ہوگیا ۔

ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم لکھتے ہیں :

اس معاہدہ حلف الفضول میں ایک رضا کار جماعت شریک ہوئی جس کا مقصد حدودشیر یں پر مظلوم کی خواہ وہ شیری ہویا کہ اجنبی مدد کرنا اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھنا تھاجب تک ظالم حق رسانی نہ کرے۔

آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں اس معاہدہ کی حقوق انسانی کے تحفظ کے ضمن میں اس قدر اہمیت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے:

’’ اس معاہدہ کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دئیے جاتے تو میں نہ بدلتا اور آج بھی اس معاہدہ کے لیے کوئی بلائے تو میں شرکت کے لئے تیار ہوں۔‘‘

اس معاہدہ کی اہم دفعات درج ذیل تھیں:

۱۔ مکہ سے بدامنی دور کی جائے گی۔

۲۔ مسافروں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

۳۔ مظلوموں کی امداد کی جائے گی خواہ مکہ کے باشندے ہوںیا اجنبی ۔

۴۔ زبردست کو زیر دست پر ظلم وزیادتی سے روکا جائے گا۔

حلف الفضول کے شرکاء نے جو حلف لیا اس کے الفاظ کچھ یوں تھے:

اللہ کی قسم ہم سب مل کر ایک ہاتھ بن جائیں گے اور وہ مظلوم کے ساتھ رہ کر اس وقت تک ظالم کے خلاف اٹھا ہوا رہے گا تاآنکہ وہ ظالم اس مظلوم کا حق ادا نہ کردے اور یہ اس وقت تک جب تک کہ سمندر گھونگھوں کو بھگوتا رہے اور جراء وشبیر کے پہاڑ ، اپنی جگہ قائم رہیں اور ہماری معیشت میں مساوات رہے گی۔

معروف سیرت نگار قاضی سلیمان منصورپوری رحمہ اللہ اس معاہدہ کی اہمیت وافادیت اور عظمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’انگلستان میں’’نائٹ ہڈ‘‘ کا آرڈر جس کے ممبران قریباً یہی اقرار کیا کرتے تھے اس معاہدہ کے کئی صدیوں بعد قائم ہوا تھا۔

المختصر معاہدہ حلف الفضول رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ان مساعی کا نتیجہ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم زمانہِ جاہلیت میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کو انسانی حقوق کے تحفظ کا بانی، اس کے احیاء اور عملی نفاذ کے سلسلہ کا اوّلین معمار قرار دیاجاسکتاہے۔اور یہیں سے اسلام کی تحریک تحفظ انسانی حقوق کا آغازہوتاہے۔

۲۔ میثاق مدینہ 623ء

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نبوت کے بعد جب مدینہ ہجرت کی تو انہیں مختلف مذاہب اور اقوام وقبائل کا سامنا کرناپڑا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تمام قبائل واقوام سے معاہدہ امن کیاجسے تاریخ میثاق مدینہ کے نام سے جانتی ہے۔ میثاق مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیاسی بصیرت اور حسن تدبر کا مثالی شاہکار ہونے کے ساتھ ساتھ رواداری ، امن وسلامتی ، آزادی اور عدل وانصاف کے جوہر سے مزین ہے یہ وہ تاریخی معاہدہ ہے جس کی بدولت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ضابطہ مدون فرمایا جس سے شرکاء معاہدہ میں ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے عقیدہ ومذہب کے فلسفہ عدل وانصاف کی بناء پر آزادی اور حصول انصاف کا حق حاصل ہوا۔ انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی اور جس میں انسانی حقوق کا انتہائی جامع مثالی اور دائمی نظریہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے تحفظات کے لئے انتہائی واضح اور غیر مبہم حتمی یقینی اور مؤثر تعلیمات وہدایات شامل ہیں۔

معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ مرحوم نے تحقیق اور دلائل سے ثابت کیا ہے یہ دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور ہے۔

میثاق مدینہ کی 62 دفعات میں سے ابتدائی 23 دفعات انصار ومہاجرین کے متعلق قواعد پر مشتمل ہیں اور بقیہ 39 دفعات دیگر قبائل کے حقوق وفرائض سے متعلق ہیں۔

میثاق مدینہ ریاستی حقوق کی اہم دستاویز ہے جس میں حکمران اور رعایا کے حقوق وفرائض ودیگر تفصیلات کا تذکرہ شامل ہے۔

اس دستور نے ایک نہایت اہم اور عرب کے لئے انقلابی اصلاح یہ کی کہ لوگ اپنے حقوق خودیا زیادہ اپنے خاندان کی مدد سے حاصل کرنے کی بجائے حصول انصاف کو ایک مرکزی ادارے كے تحت حاصل كرنے اهمیت دینے لگے۔

الغرض: میثاق مدینہ انسانی حقوق کے حوالہ سے اہمیت کے حامل ہے کہ اس کی دفعات اپنی حقیقت پر آپ گواہ ہیں امن وسلامتی، آزادی، انصاف ومساوات حکمران ورعایا کے حقوق وفرائض کا ہر جو ہر اس میں موجودہے۔

۳۔ خطبۂ فتح مکہ 630ء:

محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کی روشن تعلیمات میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے خطبۂ فتح مکہ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ فتح مکہ کا عظیم واقعہ اسلامی حکومت کی تاسیس رواداری، عدل وانصاف اور انسانی مساوات کی حقیقی تاریخ کو ظاہر کرتاہے۔

اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ میں کعبۃ اللہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر بنیادی انسانی حقوق سے متعلق تین تاریخ سازا علانات کیے جن کا آوازہ عہد حاضر کے مہذب ملک فرانس کے یوم انقلاب 1852 ءکے موقع پر ٹھیک انسانی تاریخ کے اس بے نظیر اور تاریخ ساز دستور بنیادی حقوق خطبۂ فتح مکہ کے 1222 سال بعد سناگیا۔

جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنیادی انسانی حقوق کے اس تاریخ ساز چارٹر کا اعلان 630ء میں فرمادیاتھا نیز اقوام متحدہ کا نام نہاد انسانی حقوق کا منشور 1948ء میں جاری ہواجسے مغربی دنیا انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کا نقطۂ ارتقاء قرار دیتی ہے۔ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ و سلم كے اس اہم تاریخی خطبہ کی تین اہم دفعات درج ذیل تھیں۔

۱۔ اعلان امن           ۲۔ اعلان آزادی

۳۔ اعلان مساوات انسانی

۴۔ خطبۂ حجۃ الوداع :

انسانیت کا محسن اعظم سید عرب وعجم ، ہادی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خطبہ حجۃ الوداع بلا خوف تردید حقوق انسانی کا اولین جامع ترین ہمہ گیر اور رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لئے بلا تفریق رنگ ونسل اور مذہب وملت ، مثالی ، ابدی اور عالمی منشور ہے۔ محسن انسانیت کا یہ تاریخ ساز خطبہ نہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر تھا اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار۔ یہ حقوق انسانی کے اولین اور مثالی علمبردار انسانیت کے محسن اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا۔ جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط کی رہنمائی کرتے ہوئے انسانی حقوق کا وہ مثالی ابدی جامع وہمہ گیر منشور عطا کیاگیا جس پر انسانیت جتنا فخر کرے کم ہے۔

معلوم انسانی تاریخ میں حقوق انسانی کی تحریک کے آغاز وارتقاء کا سہرا انسانیت کے محسن اعظم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سرہے۔

خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا انسانی حقوق کے حوالہ سے انتہائی اہم، عملی اور مؤثر کردار خطبہ حجۃ الوداع ۹ ذی الحجہ ۱۰ھ 6مارچ 632ء میں نظر آتاہے۔

یہ انسانی تاریخ میں انسانیت کی صلاح وفلاح حقوق انسانی کی جدوجہد میں آغاز وارتقاء کے حوالہ سے تمام انسانی حقوق کے نام نہاد مغربی دانشوروں اور دستاویزات حقوق پر دائمی فوقیت اور تاریخی اولیت رکھتاہے۔ جو ایک تاریخی شہادت اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔

عہد حاضر کے معروف محقق اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ خطبۂ حجۃ الوداع کے مفید نکات کو اپنے الفاظ میں اسی طرح بیان کرتے ہیں ۔

بلا مبالغہ خطبۂ حجۃ الوداع انسانی حقوق کی تاریخ کا مبدا ومنتہی ہے۔

جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ جان،مال ،عزت وآبرو اوراولاد کے تحفظ کا حق۔

۲۔ امانت کی ادائیگی ، قرض کی وصولیابی اور جائیداد کے تحفظ کا حق۔

۳۔ سود کے خاتمہ کا تاریخی جو کہ اعلان انسانیت پر احسان عظیم ہے۔

۴۔ پر امن زندگی اور بقائے باہمی کا حق ۔

۵۔ ملکیت ، عزت نفس اور منصب کے تحفظ کا حق۔

۶۔ انسانی جان کے تحفظ اور قصاص ودیت میں مساوات کا قانونی حق۔

۷۔ انسانی مساوات کا حق اور انسانی تفاخر وطبقاتی تقسیم کے خاتمہ کا تاریخی اعلان ۔

۸۔ عورتوں کے حقوق کا تاریخی اعلان ۔

۹۔ غلاموں کے حقوق کا تاریخی اعلان ۔

۱۰۔ عالمگیر مساوات انسانی اور مواخات کا حق ۔

تلک عشرۃ کاملۃ

باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں محسنِ انسانیت کے بیان کردہ فرمودات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
Read more...

استبداد

26 Aug,2012

استبداد

(حصہ اول)

اسلام نے اپنے متبعین کو ایک مکمل نظام حیات دیا ہے انہی شعبہ جات میں سے ایک اہم شعبہ سیاست بھی ہے جس میں معاشرے کے معاملات کو مرتب اور منظم انداز میں وضع کیا جاتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے جو اصول و ضوابط اپنے ماننے والوں کو اس ضمن میں عطا کئے ہیں ان کی مدد سے جو زندگی کے تمام شعبہ جات پر محیط ہے۔

معاشرے کے سیاسی معاملات کو احسن انداز میں چلانا کہ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں اور انہیں اپنے فرائض کا کما حقہ شعور اور ادراک ہو تاکہ کسی بھی ممکنہ فساد سے بچا جاسکے۔

 اسلام کے سیاسی نظام کے تین اساسی پہلو حکمران، عوام اور نظام ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی حدود و اصول کا تعین کردیا گیا ہے۔لہٰذا جب بھی کوئی ان متعین کردہ اصول و حدود سے تجاوز کرتا ہے تو پھر اس کا ممکنہ نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں سامنے آتا ہے جس سے معاشرے کا حسن مسخ ہوجاتا ہے۔ اور معاشرے کے باسی اپنے فرائض کی ادائیگی سے غافل ہوجاتے ہیں اور پھر حقوق کے حصول کی غیر فطری جنگ شروع ہوجاتی ہے، نفسا نفسی کے اس عالم میں پھر اس معاشرے کا مقدور صرف تباہی و بربادی ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی انداز کی ہو۔

کسی بھی معاشرے میں مسائل کا وجود غیر منطقی نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل پر منفی ردِ عمل غیر فطری ہوتا ہے۔ اگر یہ مثلث اپنے افعال و اعمال میں ’’ عدل و توازن‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے میں ایسے غیر معمولی مسائل جنم ہی نہیں لیتے جن کے حل کے لئے اقدامات کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے۔

معاشرے میں موجود انہی غیر فطری اور غیر منطقی رویوں میں سے ایک رویہ جس کا تعلق سیاست سے ہے اسے ہم استبدداد کے نام سے جانتے ہیں۔ جو فطری اندازِ سیاست سے متضاد و مخالف اور منفی طرزِ عمل کا نام ہے۔ لہٰذا سیاست اگر معاملات کو عقل و دانائی کے ساتھ بغرض فلاح عوام چلانے کا نام ہے تو استبدداد معاملات کو ذاتی حرص اور خود غرضی کے ساتھ چلانے کا نام ہے۔

لہٰذا استبدداد کے عمومی معنیٰ ہوں گے:

’’فردِ واحد یا چند افراد معاملات کو کسی بھی قسم کی جواب دہی کے خوف سے بے پرواہ ہوکر انجام دیں‘‘

ان کا رویہ خود مختارانہ تصرفات پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا تعلق خود غرضی اور مفاد پرستی سے ہوتا ہے ۔ حاکم کی رغبت صرف اپنے اقتدار کے ساتھ ہوتی ہے کہ اسے کس طرح قائم رکھا جاسکے اور اسے کس طرح دوام دیا جاسکے اور اس میں اس کے ممکنہ معاونت عوام کی جہالت اور عسکری طاقت کرتی ہیں۔

 مستبد حکمراں کی منظر کشی اس طرح کی جاسکتی ہیں کہ:

مستبد حکمران معاملات کو اپنی خواہش و مفادات کے حصول کے لئے چلاتا ہے اس کے مد نظر عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہوتی اس کی سب سے بڑی وجہ ایسے قوانین کو وضع کرنے میں کامیاب ہوجانا جو حرص و ہوس پر مبنی ہوتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ مستبد حاکم اس امر سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ وہ غاصب ہے، لہٰذا مختلف طریقوں سے وہ عوام کی توجہ غیر اہم مسائل کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ صدائے حق نہ تو بلند ہو اور نہ عام ہو کہ ہر غاصب ہمیشہ حق کا دشمن، حریتِ فکر کا شدید مخالف ہوتا ہے، وہ ظلم کا ارتکاب کرنے میں اس لئے کامیاب ہوجاتا ہے کہ کوئی اس کو روکتا نہیں اور اگر وہ کسی روکنے والے سے واقف ہوجائے تو وہ اس کو ختم کرنے میں کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

مستبد حاکم کے معاشرے میں مختلف شعبہ جات کے افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جو اس کے معاون ہوتے ہیں جن کا ذکر درج ذیل ہے۔

استبداد اور مذہب:

استبدداد اور مذہب آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے کیونکہ مستبد حکمران جن امور کو اپنے اقتدار قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہے ان میں سب سے غالب حصہ مذہب کا ہے کیونکہ استبداد کے مختلف مظاہر ہیں ان میں سے ایک مظہر مذہبی بھی ہے اور ان تمام مظاہر کا گہرا باہمی ربط و تعلق ہوتا ہے کہ ان کا آغاز و اھداف ایک ہوتا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اور مذہبی استبدداد کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔ کہ دونوں انسان کی غلامی انسان کے لئے ثبت کرتے ہیں ایک دوسرے کے معاون ہیں کہ ایک جسم مسلط ہے تو دوسرا روح پر قابض ہے۔ سیاسی مستبد اپنے اقدار کو طول دینے کے لئے جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے ہیں تو مذہبی مستبد یہی کام اس صورت میں کرتے ہیں کہ لوگوں کو جہنم کی خوفناکیوں اور ہولناکیوں کی انتہائی شدید اذیت ناک منظر کشی سے خوف زدہ کرتے رہتے ہیں اور اس سے نجات کے لئے جو راستے بیان کرتے ہیں ان پر انہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوتی ہے، اور اس میں ان لوگوں کا سب سے بڑا اسلوب عام لوگوں کو اصل تعلیمات تک نہ پہنچنے دیتا کہ جہاں ضرورت ہو ان سے پوچھ لیا جائے اور اس ضمن میں وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں کہ

فَاسَئَلُوا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

جبکہ یہ آیت اس امر سے کہیں بھی نہیں روکتی کہ علم خود حاصل نہ کیا جائے اور اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ حصولِ علم میں کوئی ایسا مرحلہ آجائے جس کے بارے میں تم نہیں جاتے تو اہل علم کی طرف رجوع کرو پھر عوام کا مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم کیا جانا اس کے لئےمزید معاون ثابت ہوا ، عام لوگوں کی ان تعلیمات تک براہِ راست رسائی اس طبقے کی اجارہ داری کو ختم کردیتی ہے ہدف کے حصول میں چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل پر ضخیم تحقیقات اور تصنیفات نے اختلاف کی اس آگ کو مزید بھڑکایا۔

لہٰذا ان دونوں کی باہمی مشابہت کا نتیجہ عوام کی اکثریت حقیقی معبود اور ظالم حکمران کے مابین فرق کی تمیز کھو بیٹھی اور وہ عملاً دونوں کی تعظیم کرتے ہیں کیونکہ حقیقی معبود کی تعظیم میں اگر محبت کا جذبہ پنہاں ہے تو ظالم حکمران کی تعظیم میں خود و دہشت مضمر ہوتا ہے۔

سابقہ زمانوں میں جن حکمرانوں نے الوہیت کے دعوے کئے تھے غالبا اس کی وجہ یہی تھی کہ ہر مستبد حکمران نے اپنی ذات کے جھوٹے تقدس کے لئے کوئی نہ کوئی شان ضرور وضع کرلی تھی، تاکہ عوام اس کے سامنے سر نہ اٹھائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو عوام کے نزدیک برگزیدہ طبقے کا محبوب و مقرب بن سکے اور اس حوالے سے وہ ان مذہبی پیشواؤں کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے ساتھ ملا لیتا ہے جو اللہ اور مذہب کا نام لیکر مخلوق پر اس کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاریخ کے وسیع و عریض صفحات اس امر پر شاہد ہیں کہ شاہِ فلسطین، بانی قسطنطنیہ کا اپنی سلطنت میں مذہب کی اشاعت پر سرگرمی سےکمر بستہ ہونا، فلپ روم شاہ اسپین اور ہنیری ہشتم شاہِ برطانیہ کا مذہب کی حمایت میں محکمۂ احتساب قائم کرنا، حاکم بامر اللہ فاطمی اور دوسرے عجمی بادہاشوں کا صوفیاء کی تائید و اعانت، تکئے اور خانقاہیں قائم کرنا یہ سب محض اس لئے تھا کہ مذہبی طبقے کی ہمدردی حاصل ہو تاکہ اپنا ظلم و جور بے روک و ٹوک جاری رکھ سکیں۔

بسا اوقات دونوں طبقوں کے مابین تناقض بھی رونما ہوتا ہے جس کے بعد مذہبی طبقہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ سیاسی اصلاح کا سب سے زیادہ آسان اور قریبی راستہ مذہبی بنیادوں پر اصلاح ہے،

لہٰذا اس فکر کا آغاز یونان کے حکماء سے ہوا جنہوں نے اپنے ظالم اور سرکش حکمرانوں کو پابند کرنے کے لئے اور ان کا اقتدار توڑنے کے لئے توحیدِ الٰہی کی جگہ شرک کو رواج کردیا۔

جس کا سب سے بڑا ناقابلِ تلافی نقصان یہ ہوا کہ ہر طبقہ کے چالاک لوگوں کو الوہی صفات اور روحانی تصرفات میں بے ڈھڑک عمل دخل کا موقع مل گیا، لہٰذا جو استبداد صرف چند افراد تک محدود تھا وہ وسعت پاکر معاشرے  کے مختلف طبقات میں وجود پاگیا۔

اس مشرکانہ دور کے بعد توریت کا دور آیا جس نے شرک کی عمارت ختم کرنے کی کوشش کی، لہٰذا دیوتاؤں کی جگہ فرشتے اور شرک کی جگہ توحید کا تصور دیا لیکن بعض اسرائیلی حکمرانوں سے یہ برداشت نہ ہوا انہوں نے مختلف طریقوں سے اسے پھر مسخ کر ڈالا، پھر انجیل کا دور آیا جس نے از سرِ نو وحدانیت پر زور دیا لیکن یہ لوگ ’’باپ اور بیٹے‘‘ کے لفظوں میں پھنس کر گمراہی کے نئے صحرا میں گم ہوگئے۔

سب سے آخر میں اسلام آیا جس نے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا، اس کی سب سے بڑی امتیازی خوبی یہ تھی کہ اس نے سیاست اور مذہب کے مابین فرق ختم کردیا اور اس کے ابتدائی حکمرانی نے دنیا کے سامنے ایسی مثالیں پیش کی جس کی نظر چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی اور نہ دیکھ سکے گی۔

چونکہ اسلام میں حکمران کا منصب کسی ذاتی غرض یا مفاد پر مبنی نہ تھا بلکہ وہ احکامِ الٰہی کی تنفیذ کا حقیقی مسئول ہوتا ہے۔ اسلام نے ہر قسم کی روحانی اور مذہبی استبداد کی نفی کی ۔ پاپائیت، پروہیت، وغیرہ کی کوئی گنجائش نہ تھی۔  رسول اکرم ﷺ کے سوا کوئی معصوم نہ تھا، ہر کوئی ذمہ دار ہے، جس کا احتساب ہوگا، لیکن افسوس تمام مذاہب کی تعلیمات تو تبدیلی و تفسیر کے مراحل سے گزر کر مسخ ہوئیں ، دینِ توحید کی تعلیمات اور ہدایت کو بھی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ اس کو بھی مسخ کرنے کی کوشش ہر دور میں کی جاتی رہی۔ اور مستبد حکمران نے یورش کرکے اسے بھی مذہب کے حلیہ میں ڈھال کر قوم میں شقاق و نفاق،  تفریق و تقسیم، قتل و غارتگری کا ذریعہ بنالیا۔  اس میں مختلف اقسام کے اضافے کرکے اسے اس حد تک بگاڑ دیا کہ عوام تو عوام بسا اوقات خواص حق و باطل کی تمیز سے قاصر ہوتے ہیں اور مزید یہ ستم ہوا کہ فقہی اختلافات کے ذریعے اس قدر مشکل اور پیچیدہ بنادیا گیا کہ موجودہ ہئیت میں اس کے احکام و واجبات، فرائض و مستحبات اور آداب پر عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا ۔

یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ مذہبی استبداد کا قیام آج بھی فروعی مسائل پر اختلافات پر مبنی ہے جو کہ ہر مسلک کے ماننے والے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ طرح طرح کی بدعات و خرافات نے دینِ اسلام کے حسن کو مسخ کرکے استبداد کو مضبوطی دی اور غلامی کی زنجیروں میں انسان کو جکڑ دیا۔ اور اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ:

’’انسان کو استبداد کی بھاری زنجیروں کے ذریعے صرف اس کے جسم ہی کو نہیں بلکہ دل و دماغ کو بھی جکڑیں‘‘ کیونکہ آزاد دل و دماغ کسی حال میں بھی استبداد قبول نہیں کرسکتا اور جبکہ استبداد کی کار غلام قوموں میں مذہب صرف مفید مروجہ عبادات کی ادائیگی تک محدود ہوجاتا ہے ایسی مروجہ عبادات جو روح سے خالی ہوں، عادات بن جانے کے بعد کبھی بھی تزکیہ نفس کا کام نہیں دیتی، نہ جسم و عقل کو فحشاء و منکر کی رذالتوں سے بچاتی ہے یہ اس لئے کہ ان میں اخلاص باقی نہیں رہتا اور خود دل اخلاص سے خالی، ریاکاری کا حامل ہوتا ہے۔ دین اسلام و مذہب کے بہروپ میں بدلنے کے ذریعے یہی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور کسی حد تک یہ احداف حاصل بھی ہوئے۔

استبداد اور  علم

استبداد چونکہ ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ظلم کا وجود جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی علم کی عدم موجودگی ظلم کا سبب بنتی ہے۔ اور ظالم حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی رعایا جہالت کے اندھیروں میں ہی رہے کیونکہ اس کا استبداد ظلم پر مبنی ہوتا ہے اور وہ خوب واقف ہوتا ہے کہ اس کا اقتدار اس وقت تک ہے جب تک رعایا جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں پڑی ہے چونکہ علم انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورج کو سرچشمۂ حیات بنایا ہے اسی طرح علم کو جہالت ختم کرنے کے لئے اور آزادی و حریت کے جذبے فراہم کرنے والا بنایا ہے تو ایک مستبد حکمران کیونکر اسے برداشت کرسکتا ہے؟ ایک مستبد کو کبھی بھی ایسےعلوم سے خوف محسوس نہیں ہوتا جس میں عمل کا پہلو بالکل غائب ہو لیکن ایسے علوم سے وہ ہمیشہ خائف رہتا ہے جو ظلم و جہالت کے خلاف ہوتے ہیں۔ جو دماغوں کو روشن کرتے ہیں اور جھکے ہوئے سروں کو سر اٹھاکر جینے کا قرینہ سکھاتے ہوں۔

مستبد خیانت کو پسند کرتا ہے اور وہ بزدل ہوتا ہے جبکہ ایک حقیقی عالم حق کا بے باک ترجمان ہوتا ہے اگر مستبد خود غرض کا مجسمہ ہوتا ہے تو عالم صداقت کا پرچم بلند کرنے میں مشغول لہٰذا مستبد اور عالم کے مابین ایک وسیع خلیج ہے جو کبھی پر نہیں ہوسکتی بلکہ دونوں کا اجتماع اور آگ اور پانی کا اجتماع ہے۔

مستبد اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ علم کی عزت اور مقام اس سے کہیں بڑھ کر ہے لہٰذا اسے کبھی ضرورت محسوس ہوجائے تو کسی خوشامدی اور ذلیل النفس کو منتخب کرتا ہے جس نے برائے فروخت کا ٹیگ لگایا ہوا ہو اور ویسے بھی یہ جن برائے فروخت ہوسکتی ہے اور غالبا اسی لئے کہا گیا ہے کہ

’’مستبد حکمران جس کسی کی عزت افزائی کرے تو سمجھ لو کہ وہ انتہا درجے کا خوشامد پسند، چاپلوس اور ناکارہ ہے گوکہ ظاہر میں وہ کتنا ہی دانا اور علامہ کیوں نہ معلوم ہو کیونکہ اس کی صلاحیتیں مستبد حکمران کے اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔‘‘

ایک مستبد حکمران اپنی رعایا سے اتنا ڈرتا ہے جتنا خود رعایا اس سے نہیں ڈرتی اس کی وجہ یہ ہے کہ مستبد کو رعایا کی قوت کا صحیح علم ہوتا ہے اس لئے ڈرتا ہے لیکن رعایا چونکہ اپنی وقت سے بے خبر ہوتی ہے اس لئے وہ مستبد کے خوف میں مبتلا رہتی ہے اور یہ خوف اور وہم صرف جہالت کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اگر اپنی وقت سے واقف ہوجائیں گے تو پھر مستبد کا اقتدار ختم ہونے میں دیر نہیں لگےگی۔

یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مستبد ہی نہیں بلکہ معمولی درجے کے مستبد جیسے مذہبی پیشوا، کمزور جماعتوں کے سربراہ، علاقائی وڈیرے اور سردار کبھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے ماتحت لوگ علم سے روشناس ہوں کیونکہ علم انسان کو توحید پرست بناتا ہے اور یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کہ جس قوم میں توحید عام ہوگی وہ غلامی میںنہیں رہتی، کیونکہ مکمل توحید اور سچا موحد ہر قسم کی غلامی سے نجات حاصل کرسکتا ہے خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی و روحانی۔ اور یہ کیفیت پاکستان میں بدرجہ اتم نظر آتی ہے بالخصوص دیہاتی علاقے اس کی براہِ راست زد میں ہیں۔

استبداد اور عزت:

استبداد نے جو حشر مذہب اور علم کا کیا وہی حال عزت کے ساتھ بھی کیا۔ استبداد بلاشبہ ہر فساد کی جڑ ہے۔ جس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تباہی وبربادی کے گھاٹ اتاردیا ہے۔ عزت دنیا میں محبت اور احترام حاصل کرنے کا نام ہے جس کی جستجو ہر کوئی کرتا ہے اور یہ بات عزت کے مقام کو واضح کرنے کے لئے کافی ہےاور یہ بھی واضح ہے کہ آزادانسان عزت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔ جبکہ غلام زندگی کو عزت پر فوقیت دیتا ہے۔ لہٰذا وہی شخص احترام کا مستحق ٹھہرتا ہے جو اجتماعی فائدہ کو اپنے ذاتی فائدہ پر ترجیح اور فوقیت دیتا ہے کہ عزت ہی انسانیت کی معراج ہے کہ وہ اسے غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلاکر ایک ربِ وحید کا کلمہ بلند کرنے کی فکر عطا کرتی ہے اور اس کا حصول عدل و انصاف کے دور میں بہت آسان ہوتا ہے لیکن عہد ظلم میں اس کے حصول صرف ظلم کی مذمت اور قیام حق کی جدوجہد میں مضمر ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ ایک عزت اور بھی ہے جسے جھوٹی عزت کہتے ہیں جو کہ صرف مستبد حکمرانوں کی قربت سے حاصل ہوسکتی ہے جو مصاحبت اور ملازمت کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے یا اعزازی خطاب وعہدے کی صورت میں مستبد حکومت کے یہ مصاحبین اور ملازمین عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور ہماری عزت محفوظ ہے یہ سفید جھوٹ ہوتا ہے نہ تو یہ لوگ آزاد ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی عزت محفوظ ہوتی ہے اور اپنی اس جھوٹی عزت کو قائم رکھنے کے لئے مستبد حکمران کی ہر قسم کی اہانت برداشت کرتے ہیں صرف برداشت ہی نہیں بلکہ انہیں چھپاتے ہیں اور نہ چھپا سکیں تو سراہتے ہیں اور حقیقت کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ہر اس شخص کی مخالفت کریں گے جو حق کو ظاہر کرے بلکہ مستبد حکمران کی رضا جوئی کے لئے عوام پر جبر و تشدد سے بھی گریز نہ کریں اور یہ تصور بھی دماغ میں نہ دلائیں کہ مستبد حکمران اپنی جھوٹی عزت کو قائم رکھنے کے لئے ان مصاحبین کے ذریعے عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کبھی کبھار مستبد حکمران چند ایسے بے ضرر اور اچھے لوگوں کو بھی یہ جھوٹی عزت دیتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک دھوکہ باز تاجر اپنی دکان میں چند اچھے نمونہ بھی رکھتا ہے تاکہ خریداروں کو دھوکا دے سکے۔

اور ایسے ہی یہ مستبد حکمران کبھی عقلمند، لائق اور دیانت دار افراد کو بھی جھوٹی عزت دیتا ہے تاکہ انہیں خریدے اور ان کی عقل و تدبر سے فائدہ اٹھاسکیں اور اپنے استبداد کو دوام دے سکیں۔

مستبد حکومت ابتداء سے انتہاء تک ، اوپر سے نیچے استبدادی حربوں پر مشتمل ہوتی ہے کیا سربراہ، حکام کیا پولیس، کیا سرکاری دفاتر کے چپڑاسی تک سب اس عمل میں مصروف کار ہوتے ہیں تاکہ مستبد کو یقین دلاسکیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اس طرح مستبد ان لوگوں پر بھروسہ کرتا ہے اور یہ لوگ مستبد سے فوائد کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد کو تجاوز کرنے سے گریز نہیں کرتے اور یہ سب اپنی رذالتوں کے اعتبار سے مستبد کے دربار میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیںجو مستبد حکمران کے دربار میں رہ کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حق کے ساتھ ہیں ان کا در پردہ مقصد یا تو عوام کو دھوکہ دینا ہوتا ہے یا پھر مستبد کو ڈرادھمکا کر مزید فوائد کا حصول ہوتا ہے۔

اور بعض اوقات ان ہی میں سے کچھ لوگ جبہ و دستار میں ملفوف قوم کے سامنے نمودار ہوکر مستبد حکمران کے خلاف باتیں کرتے ہیں تاکہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں لیکن اندرونی خانہ ان ایک بھرپور تعاون مستبد حکمران کے ساتھ ہوتا ہے جس کے عوض ان کو بے حد و حساب فوائد حاصل ہوتے ہیں۔                    (جاری ہے)

Read more...

کوئی چارہ گر نہیں ہے !

15 Jun,2012

 

کوئی بھی چیز اپنی حد سے تجاوز کرجائے تو ہلاکت کا موجب بن جاتی ہے کہ یہی فطرت کا قانون ہے۔

ہم اس وقت جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں ، وہ بد مزاج، چڑچڑے، غصہ ور اور جھنجھلاہٹ کا شکار لوگوں کا معاشرہ ہے ، ہر شخص دوسرے کے لیے اپنے دل میں غصہ، کدورت اور نفرت کا الاؤ دہکائے پھرتاہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر چراغ پا ہوجانا، سودا سلف خریدتے ہوئے گاہکوں اور دکانداروں کی تو تکار ، سفر کےدوران مسافروں اور کنڈکٹروں کا دست وگریباں ہونا۔ سب سے زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات میں بھی حساسیت اتنی شدت اختیار کرچکی ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ گزرے وقتوں کی بات ہے کہ اگر خاندان میں کسی لڑکی کو طلاق ہوجاتی تھی تو لوگوں کی آنکھیں پھٹی اور منہ حیرت سے کھلے رہ جاتے تھے ، اور بزرگ مرد وخواتین کانوں کو ہاتھ لگا کر سرگوشیوں میں یہ بری خبر ایک دوسرے کو سناتے تھے مگر آج یہی طلاق گڑیا گڈے کا کھیل بن گئی ہے اور اسی پر کیا منحصر ہے۔ ہمارا معاشرہ تو بے حسی کا انمول شاہکارہے۔ شہر میں روزانہ قتل ہونے والوں انسانوں کی تعداد اس طرح معلوم کرتے ہیں جیسا کہ سبزی کے دام معلوم کررہے ہوں۔ اگر غصہ آتاہے تو صرف اپنی ذات کے حوالے سے آتاہےکہ اپنی ناک پر کہیں مکھی نہ بیٹھ جائے۔

غصہ دراصل ایک نفسیاتی اورہیجانی کیفیت کا نام ہے۔اس میں کچھ شک نہیں کہ وطن عزیز کے دگرگوں حالات وواقعات نے عام آدمی کی زندگی سے چین سکون چھین لیاہے۔ ہر وقت انجانے سے خوف کے مہیب سائے حواس پر سوار رہتے ہیں، پھر معاشی حالات کا بحران اس قدر شدید ہے کہ عوام الناس کی حیثیت حیوانوں سے بدتر ہوکر رہ گئی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی ، بجلی،پانی، گیس کی عدم دستیابی، اس پر مستزاد بھاری بھر کم یوٹیلیٹی بلز کا عذاب ، کولہو کے بیل کی طرح سارا دن جتے رہنے کے باوجود بھی بنیادی ضروریات کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جبکہ دوسری جانب ملک کا دولت مند طبقہ مزید دولت مند ہوتا جارہاہے۔ غریب کی اولاد کا پیٹ نہیں بھرتا اور ان بے فکروں کی اولادیں شہزادوں کی سی زندگی گزار رہی ہیں۔ یہ اندھیر نہیں تو کیا ہے ۔ اب ان روح فرسا حالات میں غریب اور مفلوک الحال آدمی غصہ ہی کرسکتاہے۔ پیچ وتاب کھاتا ہے اور اندر ہی اندر گھٹتا رہتاہے یاپھر کسی کا غصہ کسی پر اترتاہے۔ دودھ میں ابال آتے وقت اگر چولھا بند نہ کیاجائے تو وہ برتن سے باہر نکل جاتاہے۔ بپھرے ہوئے سمندر کی موجیں ساحل پر بیٹھے کھلونوں سے کھیلتے معصوم بچوں کو بھی بہالے جاتی ہیں۔ اس لیے کہ

ان نا مساعد حالات کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

’’ سونے چاندی کے انباروں سے زیادہ خطر ناک وہ طرز معاشرت ہے جو امیر غریب میں امتیاز قائم کرکے غریب کے دل میں سرمایہ کاری کی ہوس اور شاہ پرستی کا شوق پیدا کرتی ہے۔ سونے چاندی کے برتن، زرق برق ریشمی لباس، فیشن اور تکلفات، دولت مندوں کے دماغوں میں کبر وغرور اور تصور میں برتری پیدا کرتے ہیں۔ یہ طرز معاشرت ناداروں کے دلوں میں حرص وطمع کی خواہش پیدا کرتی ہے ، جو ان کو زیادہ رشوت ستانی چوری وخیانت، استحصال بالجبر اور عصمت فروشی پر آمادہ کردیتی ہے ۔ ( شعور وآگاہی از مولانا عبید اللہ سندھی)

انسان کا احساس محرومی، سیاسی اور معاشی جبر، اس کے غصہ اور نفرت میں بتدریج اضافہ کا سبب ہے۔ ظاہر بات ہےکہ ہر شخص کی قوت برداشت کا ایک مخصوص پیمانہ ہوتاہے ، جب وہ آخری کنارے تک بھر جائے تو چھلک پڑتاہے، جس طرح دل پر گہری ضرب لگنے سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں۔ یہ صورت حال پیدا ہوجائے ، تو پھر نہ رشتوں کا تقدس قائم رہ سکتاہے نہ انسانیت کا بھرم۔ پھر اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ والا معاملہ ہوجاتاہے پھر کسی فرد سے اچھے برتاؤ اور تحمل مزاجی کی توقع عبث ہے۔ مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اگر انگور پک جائے تو اسے واپس کچے پن پر لوٹایا نہیں جاسکتا۔

غصہ، نفرت اور باہمی تعلقات میں خلیج کا ایک بڑا سبب انسان کے باطن میں کھوٹ ہونا ہے ، وہ ہے اس کی اناپرستی کا شاخسانہ۔ ہر شخص اپنی بات، اپنی رائے اور صرف اپنی ذات کی برتری چاہتاہے ۔ ’’ جو میں کہہ رہا ہوں صرف اسی کو مانا جائے۔ کیونکہ اس میں سب کی فلاح اور بھلائی ہے۔‘‘ اور جب یہ نہیں ہوتا توپھر غصہ سر چڑھ کر بولنے لگتاہے۔ متعدد گھرانوں میں مزاج کے ٹکراؤ اور ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل جنم لے رہے ہیں حالانکہ مکمل ذہنی ہم آہنگی تخلیق کے مقاصد ہی میں نہیں ہے ۔ ہر دماغ کو قدرت نے مختلف لائحہ عمل دے کر دنیا میں بھیجا ہے، جس کے تحت وہ عمل کرتاہے۔

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق ! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

انسان کی اس معکوس سوچ کی اصل وجہ اس کی فکری اور نظری اٹھان ہے۔ یہ اس ماحول اور تربیت کا اثر ہے جس میں اس نے آنکھ کھولی اور جن خطوط پر اس کی نشوونما کی گئی۔

اب سوال یہ ہے کہ ان ناموافق ، غیر متوازن اور مایوس کن حالات کی درستگی کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اس کا بس ایک ہی حل ہے کہ تمام معاملات اور تعلقات کا مرکز محور صرف اللہ کی ذات کو بنایا جائے۔ اگر اللہ سے تعلق درست ہے تو دیگر تعلقات بھی از خود درست ہوجائیں گے۔ اگر اللہ سے رشتہ کمزور یا FAIR نہیں تو دوسرے تعلقات بھی کشیدہ منتشر اور پراگندہ رہیں گے۔

سقراط نے کہا تھا : ایک نیک آدمی کو شر کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتا، نہ اس دنیا میں اور نہ اُس دنیا میں ، اور نہ ہی کبھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے معاملات نظر انداز کیے جاتے ہیں۔

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول