Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

عقیدہ آخرت اور سائنس

17 May,2020

قرآن کریم نے ہدایت یافتہ  ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے سے کروایا ان میں اول صفت ایمان بالغیب ہے ، غیب ہر اس شے کو کہاجاتا جو انسانی حواس محسوس نہ کرسکیں اور انسان اس کا ادراک نہ کرسکے۔ امورِ غیب میں اللہ کا وجود ، فرشتوں پر ایمان، آخرت پر ایمان جنت و جہنم پر ایمان  وغیرہ شامل ہیں۔ یہی دین اسلام کی اساس ہے جبکہ جن قوموں نے انکار کیا ان کا نکتہ انکار اسی گرد گھومتا تھا جیسا کہ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں بیان فرمایا : ﴿ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا  فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا            ؀﴾

 

’’ اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے یا ہم ہی اپنے پروردگار کو (آنکھوں سے) دیکھ لیں؟ یہ اپنے دل میں بہت بڑے بن بیٹھے ہیں اور بہت بری سرکشی میں مبتلا  ہوچکے ہیں ۔‘‘ [الفرقان: 21]

 بلکہ ان کی سرکشی کو دیکھتے  ہوئےاللہ رب العالمین نے بیان فرمایا کہ اگر ان امورِ غیب  کا ادراک بھی انہیں ہوجائے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہیں چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ    ۝﴾’’اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے بھی نازل کردیتے اور ان سے مردے کلام بھی کرتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا اکٹھا کرتے تو بھی یہ ایمان  لانے والے نہ تھے مگر جس کے متعلق اللہ چاہتالیکن ان میں سے اکثر نادانی کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ [الأنعام: 111]

اللہ رب العالمین  کی طرف سے ان امور کو ہم سے پوشیدہ رکھنا اور دنیاوی امور کا علم دے دینا یہ حکمت سے خالی نہیں بہرحال یہ ایک مسلمان جب ان ایمانیات کوتسلیم کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں اس کے حواس کے ذریعے وہ ان کی حقیقتوں کو جان چکا ہے اور نہ ہی اس وجہ سے کہ سائنسی علوم ان اعتقادات کی تائید کرتے ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ قرآن و سنت اس کا حکم دیتے ہیں البتہ اگر سائنسی تائید حاصل ہوجائے تو یہ اس طبقہ کو سمجھانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے جو سائنسی اصولوں کی روشنی میں دین اسلام پر اعتراضات کرتا ہے۔ لہذا اس مضمون  میں جدید سائنسي حیثیت کو بیان کرتے ہوئے اس  کی مدد سے عقیدہ آخرت کا اثبات کیا جائے گا اور اس کی صحت کو بیان کیا جائے گا۔

منکرینِ آخرت کی ایک جھلک

ایک طرف دہریت ،  بے دین قسم کے وہ لوگ ہیں جو  کفار کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں یہ لوگ  سرےسے عقیدہ آخرت کا انکار کرتے ہیں جبکہ  دوسری  طرف وہ افراد بھی ہیں جو بظاہر کلمہ گو تو ہیں لیکن محض عقلانیت کی بنیاد پر عقیدہ  آخرت کا یا اس کے بہت سے احوال کا انکار کرتے ہیں  مثلاً سرسید نےجنت و جہنم کے وجود کا سرے سے انکار کیا۔بلکہ جنت و جہنم کا سرے سے انکار کرنے والوں کو تربیت یافتہ دماغ اور اس کے وجود کے قائلین اور اس پر کما فی النصوص ایمان لانے والوں کو کوڑ مغز ملااور شہوت پرست زاہد قرار دیتے ہیں، جس کی تفصیل آئینہ پرویزیت میں دیکھی جاسکتی ہے۔سرسید ہی کی سوچ اور وہی نظریہ پرویز اور ان کے پیروکار افراد میں نظر آتا ہے۔ پرویز نے آخرت کا سرے سےانکار کیا اور من مانی تاویلات گھڑیں اور قرآن مجید میں تفسیر بالرائے کی ،جوکہ تحریفِ معنوی کے مترادف ہے۔اس کے نزدیک یوم القیامۃ سے مراد انقلابی دور ، حق و باطل کی آخری جنگ ہےاور جنت و جہنم کیفیات کا نام ہے۔

چنانچہ قیامت کے بارے میں لکھتا ہے:

’’یوم القیامۃسے مراد ہوگا وہ انقلابی دور جو قرآن کی رو سے سامنے آیا تھا۔‘‘  (جہانِ فردا:ص 133)

اپنی کتاب لغات القرآن میں سورہ طہ کی آیت نمبر 15 [اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ ]کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اس کا یقین رکھو کہ حق و باطل کی آخری کشمکش کا وقت اب آیا ہی چاہتا ہے۔ یہ آکر ہی رہے گا۔ ‘‘ (لغات القرآن : 1/919)

سورۃ الحجر کی آیت نمبر 85 [وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ] کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’آخری انقلاب کا وقت آنے والا ہے۔ وہ ضرور آکر رہے گا۔ یہ مخالفین ضرور تباہ ہوکر رہیں گے۔‘‘(ایضا)

جنت و جہنم کے بارے میں پرویز صاحب کا کیا نظریہ ہے؟ اس حوالے سے ایک جگہ اپنے باطل نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے پرویزلکھتاہے:

’’مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں ہیں انسانی ذات کی کیفیات ہیں ، جن کی حقیقت ہم آج سمجھ نہیں سکتے۔‘‘(1/449)

پرویز نے اپنی کتاب جہانِ فردا میں عنوان قائم کیا ’’ جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے ‘‘(جہان فردا: 231)

اور پھر اگلے ہی عنوان ’’ جہنم کی تفاصیل ‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے، لیکن قرآنِ کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ غیر محسوس، مجرد حقائق کو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے۔‘‘(جہان فردا: 235)

قرآنِ کریم میں آخرت کا بکثرت تذکرہ

قرآن کریم میں 115 مرتبہ عقیدۂ آخرت کا تذکرہ ہوا ہے ، اور کم و بیش اتنی بار دنیا کا تذکرہ ہوا ہے ، اس کے ساتھ موت اور آخرت کے دیگر احوال کا تذکرہ علیحدہ ہوا ہے ، متعدد مقامات پر دنیا کی زندگی کو دھوکے کا سامان کہا گیا  اور اس کے مقابلے میں اصل زندگی آخرت کو قرار دیا گیا ، چنانچہ ایک مقام ملاحظہ فرمائیں :

[وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ    ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ       ۘ   لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ               ؀]  (العنکبوت : 64 )

’’یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ یہ بات جانتے ہوتے۔‘‘

ایک مقام پر دنیا کی بدمستیوں میں مست لوگوں کو کچھ یوں بھی جھنجھوڑا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :

[فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ     ؁       وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ         ؁      ] (البقرة:200-201)

’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں سب کچھ دنیا میں ہی دے دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘

قرآن کریم میں بیان کردہ یہ آخرت کا تذکرہ پڑھنے والے پراثر کرجاتا تھا یہی وجہ ہے کہ احادیث میں کہیں نبی کریم ﷺ قرآن کریم کو پڑھتے، سنتے ہوئے رورہے ہیں تو کہیں صحابہ کرام کے رونے کے واقعات موجود ہیں بلکہ یہی خشیت دیگر سلف صالحین کی سیرتوں میں بھي نظر آتی ہے ، فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے نماز میں تلاوت کے دوران  جب سورہ الحاقہ کی آیت پڑھی   [خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُۙ۰۰۳۰] یعنی اسے پکڑ لو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو ۔ زارو قطار روتے رہے حتی کہ بے ہوش ہوگئے۔(سیر اعلام النبلاء )

ایک موقع پر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ان آیات کی تلاوت کررہے تھے جن میں آخرت کا تذکرہ ہے تو صبح تک ان آیات سے آگے نہ بڑھ سکے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی کئے گئے تو اس موقع پر انہوں نے یہ کلمات کہے تھے : وَاللہِ لَوْ أَنَّ لِي طِلَاعَ الْأَرْضِ ذَهَبًا لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ قَبْلَ أَنْ أَرَاهُ (صحیح بخاری : 3692)  اللہ کی قسم ، اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات کی کوشش کرتا۔ سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ کا رو رو کر داڑھی تر کرلینا تو معروف ہے۔

یہ وہ پاکباز  ہستیاں تھیں ، اور ان کا تعلق باللہ اور آخرت کے حوالے سے فکر مندی کا معاملہ تھا اور آ ج دنیا کی محبت میں اندھا انسان  آخرت کے حوالےسے ایسا پختہ ایمان اور پھرآخرت  کا  ایسا ڈر پیدا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ دنیا کی چاہ اور محبت اس کے دل کا ایمان چھین چکی ہے۔

عقیدۂ آخرت کے انکار کا ایک بڑا سبب :

عقیدہ ٔآخرت کے انکار کے کئی اسباب ہیں ، بہرحال ان میں سے ایک بڑاسبب عقل پرستی ہے، بعض لوگ عقل پرستی کی روش کا شکار ہوتے ہیں اور لولی لنگڑی توجیہات و تاویلات کا سہارا لے کر عقیدہ آخرت کا انکار کرتے ہیں ، کبھی  تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دیتے ہیں تو کبھی ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایسا  عقل سے بعید تر فلسفہ ہے ، جو کئی دینوی و سائنسی امور پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے ، جیساکہ آگے تذکرہ ہوگا۔

سائنس کی حیثیت :

 سب سے پہلے یہ  بنیادی بات قابل فہم ہے کہ سائنس کی اپنی حیثیت کیا ہے ؟ سائنس کی دنیا کو جس قدر بھی ضرورت ہو ، اس کے دائرۂ کار اور حدود سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا ، یہ حد بندی ہی ہے کہ سائنس اور فنون  میں فرق کیا جاتا ہے ، ورنہ سائنس اگر علم کا نام ہے تو فنیات سمیت دیگرامور بھی اس میں داخل ہوجائیں  گے ، گویا کہ انسان اپنی قدرتی صلاحیتوں کی بنیاد پر جو کرے وہ بھی سائنس کا جزو ہے ؟؟؟

دوسری اہم بات سائنس کے حوالے سے ذہن نشین رکھی جائے کہ سائنس کی ابتدا مفروضے سے ہوتی ہے اور مراحل طے کرتی ہوئی نتیجہ تک پہنچتی ہے ۔ لہذا اسے طے شدہ  یقینی امورکے لیے معیار بنانا بے وقوفی ہوگا ۔

مثال کے طور پر ثابت شدہ یقینی چیز آسمان کا محض کوئی مفروضے کی بنیاد پر انکار کردے  اور کہے کہ جسے آسمان سمجھا جارہا ہے وہ زمین اور زمین دراصل آسمان !! تو اس قسم  کی بات کو سائنسی بات قرار دے کر  اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے علاج کی ضرورت ہوگی۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ سائنس مفروضے سے لے کر جب نتیجہ تک کے مراحل طے کرتی ہے اس کے فورا بعد ہی وہ حتمی سائنسی اصول نہیں بنتا بلکہ اب بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے قبول کرلیں  ہاتھوں ہاتھ قبول کریں ، مزید تجربے کریں ،  یا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں اور کسی فرد واحد کے مفروضے سے نتیجے تک کے مراحل پر مشتمل کسی فلسفے کو قبول کرلیں۔یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں مفروضے نتائج کی صورت اختیار نہیں کرپائے اور سینکڑوں طے شدہ نتائج ہونے کے باوجود خود سائنسدانوں کے اختلاف کی نظر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں انسانوں کیش بنائی گئی ان تجربہ گاہوں کو رب العالمین کے احکامات پر فیصل بنایاجانا کون سا انصاف ہے ؟؟

اس حوالے سے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ سائنس کی مختلف اقسام، اور مختلف شاخوں کے  مختلف اصول ، تجربات  وغیرہ کو ایک دوسرے پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ، یعنی ہر ایک شاخ یا نوع کا دائرہ ٔکار ہے ، جن کے مابین یہ فرق بتلاتا ہے  ان شاخوں یا اقسام کو جب باہمی طور پر خلط ملط کردینا سراسر غلط ہوگا ،کیونکہ ہر ایک شاخ کا ایک دائرہ ٔ کار ہے بالکل اسی طرح سائنس کا بھی ایک دائرہ  کار ہے اگر دیگر امور کے ساتھ اسے خلط ملط کردیا گیا تو خود سائنس ہی اس کی زد میں آجائے گی۔ کیونکہ یہ عملاً ممکن ہی نہیں بھلا کیسے  فلکیات کے ماہر شخص  سے  جرثوموں کے  ثبوت کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یا کسی فزکس دان سے  فلکیات کے بارے میں مطالبہ کرنا سراسر بروئے سائنس ہی غلط ہوگا۔ کیونکہ ہر شعبہ کے آلات علم اور میدانِ مہارت مختلف ہے۔

واضح رہے کہ  مذکورہ نکات قطعاً سائنس کے انکار پر مشتمل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ جو سائنس کا راگ الاپ کر اپنی باطل فکر کو  آوارہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ بنیادی بات سمجھانا مقصود ہے کہ ان نکات کی روشنی میں سائنس  کے دائرہ ٔ کار کو سمجھا جائے۔ لہذا بنیادی طور پر  وہ تمام امور جو شرعی اصطلاح میں ایمان بالغیب کا حصہ ہیں یا امرِ الہی ہیں ، ایسے تمام امور سائنس کی رسائی سے باہر ہیں۔  لہذا ایسے امور میں قطعا ًسائنس کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے دائرے سے باہر گفتگو کرے یا اسے ہم معیار بنالیں۔ بلکہ اہلِ سائنس کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ یہ امور سائنس کی آنکھ سے نہیں دیکھے جاسکتے۔ 

عقیدہ ٔآخرت اور جدید سائنس :

سائنس کی حیثیت اور دائرہ ٔ کار کے حوالے سے گذشتہ سطور میں بنیادی باتیں ہوچکی ہیں ، جس کی روشنی میں یہ دو نکات قابل بیان ہیں ۔

اولاً  : سائنس و عقلیات  کے ذریعے عقیدہ ٔآخرت کو تختہ مشق بنانا  ہی بے جا ہے۔

  ثانیاً : اگر کوئی سائنس کی بات کرتا بھی ہے تو خوش قسمتی ہے آج سائنس بہت سی ایسی ایجادات یا دریافتیں کرچکی ہے جو عقیدہ ٔآخرت کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً

nعلم فزکس کی روسے  رنگ  سات اقسام سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، جبکہ ہزاروں رنگ  ایسے ہیں جنہیں  ہم نہیں جانتے یا ہماری آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی۔

عرض یہ ہے کہ جب دنیا میں ہی سائنس تمام تر رنگوں کا احاطہ نہیں کرسکتی اور یوں اپنے دائرہ ٔکار کا اقرار کرتی ہے تو پھر امورِ آخرت میں اس کا دخل کیوں؟ 

nسائنس یہ کہتی ہے کہ  ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے،جسے عام آدمی دیکھ یا محسوس نہیں کرسکتا۔

بس سائنس کے اسی علم کی روشنی میں عقیدہ ٔآخرت کو دیکھیں تو انکار کی کوئی راہ نہیں ملتی۔

nگلیلیلو اور پاسکال سے پہلے تو یہ معلوم نہ تھا مگر اب سائنس یہ کہتی ہے کہ  ہوا اس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے ۔ عام آدمی اس وزن کو محسوس کرتا ہے نہ واقف ۔

بس سائنس کے  اسی علم کی روشنی میں عقیدہ ٔآخرت کو دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا انکار کیونکر!!

nجدید ٹیکنالوجی میں  مخفی کیمر و ں ، سیکورٹی کیمروں کے ذریعے نگرانی اور عند الطلب  بنائی گئی ویڈیو کو بطور شہادت پیش کرنا اور عدالتوں کو اسے ایک مسلّمہ گواہی تسلیم کرنا  ، فرشتوں کے نامہ ٔ اعمال کےلکھنے اور یوم آخرت اسے پیش کرنے اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ کئے جانے کو ثابت کرتا ہے۔

nدوربین کے ذریعے دور کی چیز کو دیکھنا ممکن ہوجاتا ہے جو عام آدمی کی حدِ نگاہ سے دور ہوتی ہے۔ مائیکرو اسکوپ کے ذریعے ان جانداروں کا دیکھنا ممکن ہے جن کے وجود کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جب ہمارے محسوس نہ کرنے سے کسی چیز کامعدوم ہونا لازم نہیں آتا ۔ بس یہی اصول آخرت کے بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 

nبجلی کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اسے دیکھا بھی نہیں جاسکتا، عقیدہ ٔآخرت کو سمجھنے میں مدد د دیتا ہے۔ 

n ہوا ، بارش ، پانی ، بجلی ، درجہ حرات ، بخار ، سمیت سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جنہیں ماپا تولا جاسکتا  ہے ، ان سب کو تسلیم کرتے ہوئےآخرت  کے وزنِ اعمال کو خلافِ عقل سمجھنا یا خلافِ سائنس سمجھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟

nموبائل ،انٹرنیٹ نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ، دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے کی مکمل خبر گیری ممکن ہے ۔ جسے کچھ عرصہ قبل تک عقل قطعاً تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی ، دنیا کا یہ سکڑجانا کیا ہماری عقلوں کو دستک دینے کے لیے کافی نہیں کہ جب دنیا میں ایک کونے کا ڈیٹا دوسرے کونے میں منتقل ہونا ممکن ہے تو قیامت کے دن دنیا کی تمام تر خبریں منتقل ہونا کیونکر ممکن نہیں اور ان کا حساب و کتاب کیونکر ممکن نہیں ۔

 nمصنوعی ذہانت  (آٹی فیشل انٹیلی جینس  )  1956ء سے پہلے تک اسے کوئی جانتا تک نہ تھا اب اس سے وہ کام لیے جارہے  ہیںجو انسان کے کرنے کے ہیں ، جس کی ایک شکل روبورٹ ہے ، جس سے سرجری تک کے کام لیے جارہے ہیں ، بعض پیشین گوئیاں کرنے والے یہ پیشین گوئی تو کرتے ہیں کہ 2029ء تک مشینیں انسانی سطح جیسی مصنوعی ذہانت کے حصول میں کامیابی ممکن ہے ، لیکن اس قسم کی نشانیوں  سے یہ بات بھی تو سمجھنے کی ہے کہ جس طرح آٹی فیشل انٹیلی جینس نامی مشینوں سے آج بہت کچھ ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی فرشتوں کی صورت میں اسپیشل انٹیلی جینس رکھی جو آخرت کے لیے نامہ اعمال تیار کر رہی ہے ، یہ بات ناقابل فہم کیونکر ہے۔ بلکہ حیرت ہوتی ہے اس دور کے سائنسدانوں پر جو آٹی فیشل انٹیلی جینس کو انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ، اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ ‘‘انسان نے ایک بار مصنوعی ذہانت تشکیل دے لی تو پھر وہ خود بخود اپنے آپ میں بہتری لاتی جائے گی، وہ خود کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ خود کو ری ڈیزائن کرتی چلی جائے گی۔ ‘‘ان کا مزید کہنا ہے، ’’انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاء کے باعث اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور نتیجتاً  مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل جائے گی۔‘‘  کس قدر قابل حیرت بات  ہے کہ اس انٹیلی جینس پر اس قدر اعتماد و یقین اور کائنات کے بنانے والے رب العالمین اور کاریگر پر کوئی یقین نہیں۔

nبی بی سی کے  مطابق موبائل کے ذریعے گوگل صارف کی معلومات حاصل کرلیتا ہے ، اس کے لیے خواہ لوکیشن سیٹنگ بند ہو اور خواہ موبائل میں سم نہ بھی ہو۔

اس سے ہمارا عقیدہ ٔآخرت اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ جب دنیا میں یہ سب ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ بالاولیٰ قیامت کے دن ہمارے نامہ ٔ اعمال کے جمع پر قادر ہے۔

nدنیا بھر سے مختلف ممالک خلا میں سیٹلائٹ بھیج رہے ہیں تاحال یہ سلسلے جاری ہیں ، ان سیٹلائٹ کے ذریعے شہری منصوبہ بندی، دیہی وسائل اور انفراسٹرکچر میں پیش رفت اور ساحلی زمین کے استعمال سمیت مختلف امور  میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔اس سے بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ جب دنیا میں اس حد تک نگرانی کے وسائل دستیاب ہیں اور خفیہ نگرانی ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔

nآج سائنسدان یہ نظریہ رکھتے ہیں کائنات  ہر لمحہ بدل رہی ہے اور اس کے اندر تمام آبجیکٹس پیدائش ، موت اور دوبارہ پیدائش کے چکر میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے یہ نظریہ جسے ایدون ہبل نے پیش کیا اور hubblwes constant   کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اور یہ وہی بات کہ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ دعوت دیتا ہے کہ جو اللہ تمہیں  عدم سے وجود میں لاسکتا ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ   ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ               ؀(البقرۃ : 28 )

’’(لوگو! ) تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو ۔ حالانکہ تم مردہ (معدوم) تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر زندہ کر دے گا۔ پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘

nسائنسدان اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کائنات کا 95 فیصد حصہ اس وقت تاریک مادہ ہے یعنی نامعلوم کائنات سے لیکن اس کے باوجود وہ اسے مانتے ہیں تو پھر آخرت کا کیونکر انکار کرسکتے ہیں۔

یہ تمام تر مثالیں مشت از خروارے کے طور پر ہیں ، سائنس کے طلبہ کے پاس یقیناً اس سے کہیں زیادہ اس حوالے سے مثالیں ہوں گی ۔ ان سب کے بعد ضروری سمجھتا ہوں کہ سورۃ المومنون کی یہ آیات یہاں پیش کی جائیں، جو یقیناً ایسے دلوں پر دستک دینے کے لیے کافی ہیں۔

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ  ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ ؀ وَهُوَ الَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَاِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ؀ وَهُوَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ؀ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ ؀ قَالُوْٓا ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ  ؀ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ  ؀ قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ  ؀ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ  ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ ؀ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ؀ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ  ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ؀  قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ؀  سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ      ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ  ؀ (المؤمنون:78تا 89)

’’وہی تو ہے جس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل  عطا کئے (تاکہ تم سنو، دیکھو اور غور کرو) مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو ۔ اور وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے  جاؤ گے۔ اور وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور رات اور دن کا باری باری آتے رہنا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کیا تم کچھ بھی نہیں سمجھتے؟ بلکہ انہوں نے بھی وہی کچھ کہہ دیا جو ان کے پہلے لوگ کہہ چکے ہیں کہ: جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو ہمیں پھر زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ؟یہ بات تو ہمیں اور اس سے پیشتر ہمارے آباء و اجداد کو بھی کہی گئی تھی۔ یہ تو محض پرانے افسانے ہیں ۔آپ ان سے پوچھئے کہ: اگر تمہیں کچھ علم ہے تو بتلاوو کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کا ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ ‘‘اللہ کا‘‘آپ کہیے پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ پھر ان سے پوچھئے کہ: سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے۔ آپ کہئے پھر تم اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں؟پھر ان سے پوچھئے کہ اگر تم جانتے ہو ۔ ۔۔ حکومت کس کی ہے؟  اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟ وہ فوراً کہیں گے اللہ ہی ہے۔ آپ کہئے پھر تم پر کہاں سے جادو چل جاتا ہے؟

واقعتاً قرآن کو سامنے  رکھتے ہوئے یہ سائنسی نشانیاں جب دیکھتے ہیں تو پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پروفیسر فلپ ہٹی کو بھی ماننا پڑا اس نے لکھا :

 The most impressive parts of the Koran deal with eschatology.

’’قرآن کریم کے سب سے زیادہ پر اثر حصے وہ ہیں جو آخرت کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ ‘‘

یہی وجہ ہے کہ جس کے دل میں عقیدہ ٔآخرت صحیح طور پر راسخ ہووہ معاشرے کے لیے ایک بہترین فرد ثابت ہوتا ہے۔  دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عقیدے پر قائم و دائم رکھے ۔ آمین واللہ ولی التوفیق

Read more...

انسان تخلیق اول سے بعثت بعد الموت تک

31 May,2020

کن فیکون (Immediat result)کے تحت معاملات عالم امر(آسمانوں) میں طے کیے جاتے ہیں۔عالم امر میں زمان و مکاں (Time and Space) کی کوئی قید نہیں ہوتی۔اسی لیے وہاں اپنے وجود کی تکمیل پانے والی ہستیاں ، ملائکہ اور ارواحِ انسانیہ بھی زمان ومکاں کی محدودیت سے ماوراء ہیں۔ ان کے لیے شرق و غرب و عرش سے فرش اور فرش سے عرش تک کا سفر کرنے کے لیے وقت اور فاصلہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔

 

اسی عالم امر میںروز ازل سے روز ابد تک آنے والی تمام انسانی ارواح کو تخلیق کیا گیا۔ جو اس وقت چیونٹیوں کی صورت میں لشکروں کی مانند تھیں ۔ان کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت زندگی، شعور اور گویائی عطا کی ، ازروئے قرآن حکیم:

 اور اے نبی! لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے ربّ نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالااور انھیںخود ان پر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ’’ کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں؟‘‘ انھوں نے بیک وقت کہا: ’’ ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔‘‘( الاعراف 172)

یہ سب سے پہلا دور وہ ہے جب روح انسانی کو پیدا کیا گیا جو مادی جسم سے محروم تھیں۔وہاں صرف روحانی زندگی تھی۔رسول کریمﷺ سے روح کے بارے میں سوال کیا گیا۔ارشاد ربانی ہوا:

وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ

’’یہ آپ ﷺ سے روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں، آپ فرمادیجیے ، روح میرے ربّ کا امر ہے۔‘‘(الإسراء:85)

اسی عالم امر میںتمام ارواح انسانی سے بندگی کا عہد لے کر…انھیںطویل نیندسلادیا گیا۔اور یہ نیند کا وقفہ ہماری دوسری زندگی ہے۔ نیند اور موت میں زیادہ فرق نہیں ہے ، نیند کی حالت میں انسان کا شعور سلب کر لیا جاتا ہے، جان تو باقی رہتی ہے مگر روح نکل جاتی ہے۔ اسی لیے نیند کو موت کی بہن کہا جاتاہے۔چنانچہ رسول اکرمﷺ نے سو کر اٹھنے پر یہ دعا تلقین فرمائی ہے:

الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

’’ تمام شکر اور تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے زندہ کیا، اس کے بعد کہ مجھے مردہ کردیا تھا۔ اور اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ ( صحیح البخاری:6312)

زندگی موت اور نشاۃ ثانیہ (بعث بعد الموت) کو سمجھنے میں لوگوں کو اکثر الجھن ہوتی ہے کہ دوبارہ کیسے زندہ کیے جائیں گے، اور اگر ہو بھی گئے تو مادی جسم کے جذباتی غدودوں کے بغیر جذباتی کیفیتوں کا احساس اور عمر ِ رفتہ کے ذہن کے بغیر گزشتہ یادوں کا شعور کیسے ہوگا۔ان دونوں باتوں کو قابل فہم بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نیند اور بیداری کی دو کیفیتیں پیدا کیںتاکہ انسان ایک کمتر درجہ کی موت و حیات کے اعادہ کا مشاہدہ رات دن کرتا رہے۔کسی ذی حیات کو نیند سے بے نیاز اور ہمیشہ بیدار رہنے والا بنانا کچھ مشکل نہ تھا۔انسان کے جسم میں بے شمار ایسے عمل جاری ہیں کہ کہیں آرام کرنے کی ذرا مہلت نہیں، ان میں سے اگر کوئی تھوڑی دیر کے لیے بھی رک جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے۔

حیات کے پہلے سانس سے لے کر موت کی آمد تک انسان کے اعضاء رئیسہ اور دیگر اعضاء مسلسل اپنے فرائض کی ادائیگی میں منہمک رہتے ہیں، پھر دوسرے چند اعضاء کے لیے یہ ضروری نہ تھا کہ وہ لازمی تھکن محسوس کریں اور آرام کے محتاج ہوں، وہ بھی ایسے بنائے جاسکتے تھے کہ مسلسل مصروف کار رہیں اور آرام کے محتا ج نہ ہوں۔موت کی ایجاد دراصل اللہ تعالیٰ نے اس لیے فرمائی کہ موت کے بعد حیات کو قابل فہم بنایاجائے اور یہ مشاہدہ کرایا جائے کہ موت کے بعد جس حس و شعور کا تجربہ نا قابل تصور خیال کیا جارہا ہے، نیند میں حس و شعور سے محروم انسان وہ سب کچھ خواب کی دنیا میں محسوس و مشاہدہ کر لیتا ہے۔عین اسی طرح جس طرح وہ بیداری میں مشاہدہ کرتا ہے۔

چار ماہ بعد جو روح عالم ارواح سے لا کر ماں کے پیٹ میں پروان پاتے بچہ کے جسم میں پھونک دی جاتی ہے ، تو وہ حیوانی وجود انسان کا روپ دھار لیتا ہے۔روح ایک نورانی چیز ہے اور وہی اسے حیوان سے انسان بناتی ہے۔اور اسی تبدیلی یا تخلیقی مرحلے کو قرآن حکیم میں ’’ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ‘‘ (ایک نئی تخلیق) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ارشاد خداوندی ہے:

اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠

’’ اللہ لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو مرے نہیں ( ان کی روحیں) سوتے میں( قبض کر لیتا ) ہے پھر جن پر موت کا حکم کر چکتا ہے ان کو روک لیتا ہے اور باقی روحوں کو ایک وقت مقرر کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ جو لوگ فکر کرتے ہیں ان کے لیے ان میں نشانیاں ہیں۔‘‘( سورۃ الزمر 42)

سورۃ الانعام کی آیت 60میں فرمایا:

وَهُوَالَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بِالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰۤى اَجَلٌ مُّسَمًّى١ۚ ثُمَّ اِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ

’’ اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے ۔ اور جو کچھ تم دن میں کرتے ہو اس کی خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھا دیتا ہے تاکہ (یہی سلسلہ جاری رکھ کر زندگی کی) مدت معین پوری کر دی جائے پھر تم (سب) کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے(اس روز) وہ تم کو تمہارے عمل جو تم کرتے رہتے ہو(ایک ایک کر کے) بتائے گا۔‘‘

فلاسفہ اور حکمائے اسلام کے خیال کے مطابق اصل روح کی تین قسمیں ہیں ۔ روحِ حیوانی، روحِ طبیعی اور روحِ انسانی۔ اطبّا نے جس روح کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ ان لطیف بخارات کا نام ہے جو اخلاط کی بخاریت اور لطافت سے عالم وجود میں آتے اورانسان کی حیات کا موجب بنتے ہیں، یہ ’’ روحِ حیوانی ‘‘ ہے۔اور فیثا غورث اور اس کے پیرو جس کو روح کہتے ہیں وہ’’ روحِ طبعی ‘‘ ہے۔ حکمائے اسلام اور صوفیاء کرام جس کو روح کہتے ہیں وہ ’’ روحِ انسانی ‘‘ ہے اور افعال و اوصاف کی وہی ذمہ دار ہے۔ معاد کا عذاب و ثواب اسی سے متعلق ہے۔ اور قرآنِ کریم میں اسی کو خطاب کیا گیا ہے، وہی دراصل انسان ہے اور اسی کو ’’روحِ انسانی ‘‘کہا جاتا ہے۔

آج کے جدیدیت اورمادہ پرستی کے دور میں جو چیزیں ہمارے مادہ پرستی کے سانچے میں ڈھل نہیں پاتیں ، ہم انھیں قابل اعتنا ہی نہیں سمجھتے اور انھیں رد کر دیتے ہیں۔روح کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ حالانکہ روح عالم خلق (دنیا) کی شے ہے ہی نہیں۔ یہ تو عالم امر کی چیز ہے ، جبکہ مادی قوانین( Physical Laws) عالم خلق سے متعلق ہیں۔اس دنیا میں ہمیں جو زندگی ملی ہے یہ روح اور جسم کا مرکب ہے۔  جب کہ اس سے پہلے کی زندگیاں صرف روح کی زندگیاں تھیں۔

عالم امر میں اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ مگر عالم خلق میں یہ انسان اللہ تعالیٰ کا سب سے قابل اعتماد شریک بن کر ابھرتا ہے۔روح ہمارے جسم کو اس طور متصرف بنائے لگتی ہے جس طرح تمام عالم فطرت اللہ کے تصرف میں ہوتا ہے۔کائنات کا فعّال عنصر اللہ ہے تو ہمارے پیکر کا فعّال عنصر روح ہے۔روح انسانی وجود کا ایک نقطہ ارتکاز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرح ابدی ہے۔بقول اقبال  ؎

نظر  اللہ  پہ  رکھتا   ہے  مسلمان  غیور

موت  کیا  ہے ؟  فقط  عالم  معنی  کا  سفر

اس کے بعد انسان کی زندگی کا یہ دنیاوی دور شروع ہوتا ہے۔ جس میں ہر انسان ایک مخصوص عمر گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے۔اب یہاں سے اس کی چوتھی زندگی کی شروعات ہوتی ہے۔یہ قبر اور عالم برزخ کی زندگی ہے۔عذاب قبر بر حق ہے ، جو انسان کو اس کے برے اعمال کی بنا پر دیا جاتا ہے۔اور یہ قرآن اور احا دیث سے بھی ثابت ہے۔ اس کےبعد اگلا مر حلہ عالم بر زخ کا ہے۔اس کی صحیح کیفیت کو ہم اس دنیا میں رہ کر نہیں جان سکتے۔

موت دراصل ایک نئی حیات میں داخل ہونے کا ایک دروازہ ہے جو ہمیں اس سکوتی وقفہ کے طور پر نظر آتی ہے۔ حا لانکہ یہ واقعتا سکوت نہیں بلکہ یہ تو ایک زندگی کا دوسری زندگی میں خاموشی کے ساتھ سرک جانا ہے۔گویا یہ اسرار ساکت ایک نوع کا ہنگامِ بقا ہے۔جو انسانی ایغو (Human Ego) کے تکملے کے لیے ہرلمحہ مصروفِ عمل ہے۔

موت اور زندگی کے اس عمل کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موت کے معنی فنائے محض کے نہیں ہیں۔بلکہ محض تبدیلی جسم کے ہیں ۔روح اس جسم سے مفارقت کر نے کے بعد کوئی دوسرا جسم اختیار کر تی ہے، اور وہ دوسرا جسم یا صحیح الفاظ میں دوسرا قالب اس قابلیت کی مناسبت سے ہوتا ہے جو انسان نے اپنی پہلی زندگی میں اپنے اعمال اور اپنے رجحانات سے بہم پہنچائی ہے۔اگر اس کے اعمال برے رہے ہیں اور اس کے اثر سے اس کے نفس میں بری قابلیتیں پیدا ہوگئی ہیں تو اس کی روح ادنیٰ درجہ کے حیوانی یا نبا تی طبقات میں چلی جاتی جائے گی۔اور اگر اچھے اعمال سے اچھی قابلیتیں اس نے بہم پہنچائی ہیں تو روح اعلیٰ طبقوں کی طرف ترقی کرے گی۔غرض اس نظریے کی رو سے جزا اور سزا جو کچھ بھی ہے اس دنیا اور ان ہی اجسام کے عالم میں ہے۔

گویا اس عقیدے کی روح سے ایک شخص جو اس قت انسان ہے وہ اس لیے انسان ہوگیا کہ جب وہ جانور تھا تو اس نے اچھے عمل کیے تھے۔اور ایک جانور جو اس وقت جانور ہے وہ اس لیے جانور ہوگیا کہ انسان کی جون(undergo a change ) میں اس نے برے عمل کیے تھے۔دوسرے الفاظ میں انسان و حیوان او ر درخت ہونا سب دراصل پہلے جنم کے اعمال کا نتیجہ ہے! اور یہی عقیدہ ٔ تناسخ(Metempsychosis )کہلاتا ہے۔مگر عقل سلیم اس نظریے کو قبول نہیں کر سکتی، اور یہی وجہ ہے کہ انسان عقل او ر علم میں جتنی ترقی کرتا گیا، تناسخ کا اعتقاد باطل ہوتا چلا گیا۔

بہرحال اس کے بعد ایک ہولناک زندگی کا آغاز ہوگا اور وہ ہے آخرت کی زندگی (Day of Judgement ) اس کا آغاز صور کے پھونکے جانے سے ہوگا اور اس کی آواز پر سب مرے ہوئے لوگ زندہ ہو جائیں گے۔ہر مردہ انسان اپنی اسی حالت پر اٹھے گا جس حالت میں اس کی موت واقع ہوئی تھی۔ہر انسان کو ایسا محسوس ہوگا کہ اس پر مدہوشی کی سی کیفیت چند گھنٹوں تک طاری رہی ہے۔  اور پھر سب کو ہانک کر میدان حشر میں لایا جائے گا۔اور ہرایک کا حساب و کتاب اور اعمال کا وزن کیا جا ئے گا۔ارشاد باریٔ تعالیٰ ہے:

وَ كُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا

’’ یہ سارے کے سارے قیامت کے دن اکیلے اُس کے پاس حاضر ہوں گے۔‘‘( مریم 95 )

اور اپنے اعمال کے نتیجے میں ہر شخص کے دو ہی انجام ہوں گے ، جنت کی سکون آمیز اور راحت بخش زندگی یا جہنم کی ہولناک سزائیں!

ہماری یہ دنیا کی زندگی دو موتوں کے درمیان ہے۔ایک وہ موت جب ہم سے ’’ عہد الست‘‘ لینے کے بعد ہمیں گویا ایک طویل عرصے تک سُلادیا گیا ۔ اور دوسری موت وہ جو اس دنیا کی زندگی کے خاتمہ پر آتی ہے۔ہماری یہ زندگی ہماری طویل سفر حیات کا ایک مختصر سا وقفہ ہے۔اور یہ وقفہ ہماری آزمائش کا دورانیہ ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

ا۟لَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا

’’ اسی نے موت اور زندگی کو پید اکیا تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔‘‘(الملک 2)

ہرانسان زندگی میں ان پانچ ادوار سے گزرتا ہے۔چنانچہ برے اعمال کی بناپر دوزخ کی آگ میں ڈالے جانے والے اللہ سے فریاد کریں گے:

رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَ اَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَهَلْ اِلٰى خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِيْلٍ

’’ اے ہمارے پروردگار! تونے ہمیں دو بار مارا اور دو بار ہی زندہ کیا، اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں،تو کیا اب کوئی نکلنے کی را ہ بھی ہے؟ (المؤمن 11)

ان کے اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ:

’’ اللہ پر ایمان اسی وقت ایمان ہوتا ہے جب وہ غیب میں ہو۔ اب مرنے کے بعد سب باتوں کا مشاہدہ کرلیا، اب آخرت اور قیامت سب کچھ نظروں کے سامنے آچکا، تو اب ایمان کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں رہی۔ درحقیقت نصیحت صرف وہی حاصل کرتا ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرے اور جب تم نے اپنی زندگی میں اللہ  کی طرف کبھی رجوع ہی نہیں کیا ، تو بتاؤ تمھیں کس طرح ہدایت مل سکتی ہے۔‘‘

انسان کی اخروی زندگی میں محاسبہ کی پانچ بنیادیں ہیں، کیونکہ اس کو جن صلاحیتوں سے نواز کر دنیا میں بھیجا گیا تھا اس بنا پر وہ مکلف ہے اپنی پوری زندگی کے محاسبہ کا!

محاسبہ کی پہلی بنیاد یہ ہے کہ ، اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت و بصارت عطا کی۔

اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ١ۖۗ نَّبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا

’’ بے شک ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے امتحان کے لیے پیدا کیااور اس کو سنتا دیکھتا بنایا۔‘‘ (الدھر 2)

دوسری بنیاد یہ ہے کہ اسے عقل و فہم اور شعور و بصیرت سے نوازا:

وَ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْـُٔوْلًا

’’ جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ، کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سےپوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘ ( بنی اسرائیل 36)

تیسرے یہ کہ ہر نفس انسانی کے اندر نیکی اور بدی کا شعور ودیعت کیا گیا ہے۔نیکی اور بدی کی پہچان فطرت انسانی میں رکھ دی گئی ہے۔

فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا

’’ پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی۔‘‘ ( الشمس 8)

ہر شخص بنیا دی طور پر یہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا بر اہے اور سچ بولنا اچھاہے۔ ہمدردی اچھی شے ہے اور ظلم بری شے۔یہ چیزیں بنیادی اخلاقیات میں سے ہیں جو انسان کی فطرت میں شامل ہیں۔ اسی لیے قرآن نیکی کو معروف کہتا ہے، یعنی یہ لوگوں کے نزدیک جانی پہچانی چیز ہے۔ اور برائی اور گناہ کو منکر کا نام دیتا ہے۔یعنی اس سے انسان کی فطرت نفرت کرتی ہے ، اگر فطرت مسخ نہ ہو گئی ہو۔

محاسبہ کی چوتھی بنیاد روح میں اللہ کی معرفت ہے۔اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں سب سے عہد لیا تھا، جب ان سے پوچھا تھا ، کیا میں تمھارا ربّ نہیں ہوں ؟ تمام ارواح نے اقرار کیا تھا ، کیوں نہیں ، تو ہی ہمارا ربّ ہے،( ہم تیری ہی بندگی کریں گے)

محاسبۂ اخروی کی پانچویں بنیا د وہ جذبۂ محبت ہے جو روح میں رکھا گیا ہے۔یہ معرفت اور محبت خوابیدہ ہے، اس کو بیدار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام ِربانی کی بارش ہوتی ہے۔روح کو کلامِ ربانی کی غذا ملتی ہے تو اس کی صلاحیت ابھر تی ہے۔

انسان کو اللہ نے زمین پر اپنا نائب بنایا اور فرشتوں سے بڑھ کر علم عطا کیا، اور اس کے علم کو فرشتوں کی تسبیح و تقدیس پر ترجیح دی۔

ازروئے قرآن حکیم:

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ

’’ اور جب تیرے ربّ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں ، تو انھوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح اور ہم تیری حمداور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ 30)

سورۃ الحجر کی آیات 28تا31میں ارشاد ربانی ہوا:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ

فَسَجَدَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ١ؕ اَبٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِيْنَ

’’ اور جب تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں۔ تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا، مگر ابلیس کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف ) انکار کردیا۔‘‘

اللہ کے حکم کے مطابق فرشتوں نے سجدہ کیا،اور اس طرح ملکوتیت بشریت کے آگے سجدہ ریز ہوئی۔مگر ابلیس نے انکار کیا اور اس طرح شیطانی قوتیں انسان کے آگے نہ جھکیں۔اصل میں تو انسان مٹی کا ایک حقیر سا ٹکڑا تھا، مگر اللہ نے اس میں جو روح پھونکی اور اس کو جو علم بخشا تھا اس نے اسے نیابت الٰہی کا اہل بنا دیا۔

یہ ہے وہ مقام جہاں سے اسلام اور مغرب کے فلسفہ کی راہیںایک دوسرے سے جدا ہوجاتی ہیں۔مغربی فلسفہ کی رو سے انسان ایک حیوان ناطق ہے۔مگر اسلا م میں وہ نائب اللہ تعالیٰ کا ہے۔خالق کائنات نے جو کچھ بھی پید ا کیا وہ سب کچھ انسان کی ذات کے لیے ہی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا

’’ یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انھیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انھیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں دیں، اور بہت سی مخلوق پر انھیں فضیلت عطا کی۔‘‘ (بنی اسرائیل 70)

 سورۃ الحج کی آیت 65میں ارشاد فرمایا:

اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ وَ الْفُلْكَ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ١ؕ وَ يُمْسِكُ السَّمَآءَ اَنْ تَقَعَ عَلَى الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ

’’ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ ہی نے زمین کی تمام چیزیں تمھارے بس میں کر دی ہیں۔اور اس کے فرمان سے پانی میں چلتی ہوئی کشتیاں بھی، وہی آسمان کو تھامے ہوئے ہے کہ زمین پر اس کی اجازت کے بغیر گر نہ پڑے، بے شک اللہ لوگوں پر شفقت و نرمی کرنے والا اور مہر بان ہے۔‘‘

ان آیات میں انسان کو بتایا گیا کہ زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ تیرے فائدے کے لیے ہی مسخر کی گئیں ہیں اور یہی حال آسمانوں کی بہت سی چیزوں کا بھی ہے۔ بقول اقبال :

نہ تو زمیں کے  لیے  ہے  نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ اسلامی تعلیمات میں کوئی فرد واحد یا کوئی گروہ نائب الٰہی نہیں ہے، بلکہ پوری نوع انسانی کو یہ فضیلت عطا کی گئی ہے۔گویا اس روئے ارضی پر بسنے والا ہر انسان اللہ تعالیٰ کا ہونے کے اعتبار سے مرتبے میں برابر ہے۔

یہاں جو کچھ بھی ہے اسے اللہ نے انسان کے لیے پیدا کیاہے۔اور انسان چونکہ براہِ راست خالق کے لیے پیدا کیا گیا ہے اس لیے اس کا یہ فرض قرار دیا گیاہے کہ انفرادی اور اجتماعی جس رنگ میں بھی انسانیت پائی جائے اس کے تکریمی اور اکرامی حقوق کو ادا کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ کے لیے بناتا چلا جائے، تب وہ پائے گا کہ اللہ بھی اس کے لیے بنا ہوا ہے۔اسی سے ہم آہنگی اور توافق کا دائرہ بن جاتا ہے۔لیکن انسان اللہ کے لیے اپنے آپ کو نہ بنائے بلکہ تصادم و تخالف اور ٹکراؤ ہی کے مشغلوں میں زندگی گزار کر مرے گا تو اللہ، اللہ کے ارادے، اللہ کے قوانین کو بھی پائے گا کہ اس کے ہر ارادے اور اس کی ہر خواہش سے ٹکرا رہے ہیں۔

خلیفہ بن کر بندہ بن جانے یعنی سب کچھ رکھتے ہوئے اسی سب کچھ کو اللہ کی مرضی کا تابع بنالینے کی وجہ سے اب اللہ اور اس کی قوتیں بندے کی ہم نوا بن جاتی ہیں، جو آثار و ثمرات و برکات اس راہ سے حاصل ہوتے ہیں ان کے مقابلے میں فرشتہ بنانے والی ریاضتوں اور مجاہدوں کے کارناموں کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں رہتی ہے۔اسلامی نظامِ زندگی کی دعوت دینے والے بزرگوں میںجن کو اس راہ کا سب سے پہلا داعی اور ہادی سمجھا جاتا ہے ، یعنی سیدنا نوح علیہ السلام کی طرف بھی قرآن میں یہ فقرہ منسوب کیا گیا ہے:

وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ اِنِّيْ مَلَكٌ

’’ میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب کی باتوں کو جانتا ہوںاور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ یعنی ملک ہوں۔‘‘ (سورۃ ہود 31)

اور اسی راہ کی آخری ہستی نبوتوں کے خاتم محمد رسول اللہ ﷺ کو بھی یہی حکم دیا گیا ہے کہ:

قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَلَاۤ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّيْ مَلَكٌ

’’ کہہ دو! میں نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، اور نہ میں غیب کی باتوں کو جانتا ہوں، اور نہ میں کہتا ہوں کہ میں فرشتہ یعنی ملک ہوں۔‘‘ ( سورۃ الانعام 50)

انسان کے وجود میں اللہ نے نسیان(بھول) کا مادہ بھی رکھا ہے۔جو انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والی ناخوشگوار یادوں، حادثات اور دلخراش سانحات کو بھلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اگر نسیان کا یہ مادہ نہ ہوتا تو انسان کی زندگی اجیرن ہوجاتی، اوروہ بے اختیار پکار اٹھتا، بقول غالب :

یادِ ماضی عذاب ہے یا ربّ       چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

زندگی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دنیا سے سدھار جاتے ہیں ، تو انھیں دل سے بھلا دینا محال ہوتا ہے۔ان کے ساتھ گزارے ہوئے روز وشب انسان کو پل پل ستا تے ہیں رلاتے ہیں، زندگی بے کیف اور بے معنی لگنے لگتی ہیں اور لاکھ جتن کے باوجود ذہن سے ان کی یادوں کو بھلا دینا مشکل ہوجاتا ہے۔ یادوں کی یہ بارات ذہن و دل کے افق پر بار بار اپنے جلوے بکھیرتی ہے تو دل کی دنیا اُتھل پَتھل ہوکر رہ جاتی ہے۔ ۔ایسے حالات میں ربّ کائنات نے ایک عظیم نعمت سے انسان کو نوازا، جسے’’ نسیان‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔نسیان وہ قوت محرکہ ہے جو انسان کے بکھرے جذبات اور یادوں کے گہرے نقوش کو دھندلا دیتی ہے، وقت کا مرہم ہر رستے زخم کو مندمل کر دیتا ہے۔اور انسان پھر سے اس دنیا کی ہوش ربا اور دلفریب رنگینیوں میں کھو جاتا ہے۔ بقول فیض  ؎

دنیا  نے  تیری  یاد  سے  بیگانہ کردیا

تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے

چنانچہ انسانوں کی اکثریت دنیا کی ان رنگینیوں اور رنگ ونور کی چکاچوند میں گم ہو کر اپنے ربّ سے کیے ہوئے اس عہد کو بھی بھول جاتی ہے جو اس نے اس وقت کیا تھا جب وہ عالم ارواح میں تھے ۔جس طرح نو زائیدگی کی عمر کا ایک بڑ ا حصہ بچے کے ذہن میں نہیں رہتا اسی طرح ایک بالغ انسان کا کیا ہوا وہ ’’عہداَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ‘ ‘ ذہن کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جا تا ہے۔اس بھولی ہوئی داستاں کو شعور و ادراک کی سطح پر لانے کے لیے ٖصرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ کے کلام کو گہرائی میں اتر کر سمجھنا۔قرآن جب دل و دماغ کی پہنائیوں میں جگہ بنالے تو انسان پر تمام عقدے کھلتے چلے جاتے ہیں اور نسیان کا وہ غبار جس نے ذہن کی سطح کو ڈھانپا ہوتا ہے، ہوا بن کر اڑ جاتا ہے۔

اور جونہی انسان معصیت اور اس کے غلط اثرات کو اپنے ذہن و قلب سے دھولیتا ہے، پھر انابت الی اللہ کے مراحل طے کر نے لگتا ہے۔تطہیری عمل جس کے ذریعے ایک عاصی انسان اپنے نفس کو پاک کرتا ہے وہ توبہ یا رجوع الی اللہ کہلا تا ہے۔

خالق حقیقی کی صفاتِ حسنہ پر تجدید ایمان اور اس حقیقت کا یقین کہ اس کا مربی اور اس کی خودی کو بالیدگی اور نشو و نما دینے والا سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی اور نہیں ہے ، تو وہ اسی سے عفو و درگزر کا خواستگارہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کی خوشنودی اور رضاکے ساتھ ہر شخص اپنی اگلی زندگی میں اپنی ذہنی سطح ور کیفیت کے مطابق اپنی جنت اور دوزخ خود بنائے گا۔ اس سلسلے میں اصل اہمیت اِس مادی دنیا میں کمائے ہوئے اعمال کی ہوگی جس کے اثرات اِ س کے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور جس کی پوٹلی باندھ کر وہ اگلی زندگی میں قدم رکھے گا۔اس ابدی زندگی میں اسے اپنے کسب شدہ اعمال کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔یا تو مثبت طور پر وہ اس کے کام آئیں گے یا پھر سخت تکلیف دہ عواقب برداشت کر نا ہوں گے۔وہاں پر اسے ان تمام لوگوں سے واسطہ پڑے گا جن کے حقوق اس دنیا میں اس نے غصب کیے ہوں گے، خود اس کے اعضاء و جوارح کو زبان دے دی جائے گی جو اس کے خلاف شہادت دیں گے۔ گویا وہی معاملہ ہوگا کہ

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں

ان کو زباں ملی تو ہم ہی پر برس پڑے

اگر دنیا میں انسان کے اعمال اس کی فطرت ِ سلیمہ اور خالق کائنات کی مر ضیّات کے مطابق ہوں گے تو اسے اگلی دنیا میں نہایت خوشگوار لوگوں کی معیّت اورنہایت دیدہ زیب اور دل فریب مناظر و اشیا ء سے نوازا جائے گا۔کسی شخص نے جس درجے میں اپنے خالق حقیقی کی صفت حسن کو اپنے اخلاق و اعمال میں اپنایا ہوگا وہ اسی قدر نعمتوں کا مستحق ہوگا۔ اور آخرت کی زندگی میں بھی اس کی خودی کی بالیدگی اور ترفع کا عمل جاری رہے گا۔ارشاد ربانی ہے:

وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوْٓءًا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا

’’ اور جو شخص کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرےتو وہ اللہ کو بڑا مغفرت کرنے والا اور بڑا رحم والا پائے گا۔‘‘ ( سورۃ النساء 110)

اور اگر اِس زندگی میں کسی شخص کے اعمال اس کی فطرتِ سلیمہ اور خالق کائنات کے احکام کے خلاف ہوں گے تو اسے اپنے اعمالِ بد کو انتہائی کریہہ صورتوں میں متشکل دیکھنا پڑے گا۔ مثلاً آگ کی لپٹ، انتہائی گندہ اور نا پسندیدہ پانی، ناکارہ اور بد ذائقہ غذا ، جسمانی تعذیب ، سانپ ، بچھو وغیرہ۔جنت اور دوزخ اور ان کی تفاصیل صرف استعارے نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی مقامات ہیں۔جو اگرچہ متشکل ان اعمال کے نتیجے میں ہوں گے، جو ہم اس دنیوی زندگی میں کرتے ہیںاور جن کے اثرات ہمارے لا شعور میں جمع ہوتے رہتے ہیں، یہی اعمال حیاتِ اخروی میں معروضی کیفیات اور مقامات کا روپ دھار لیں گے جو یا تو انتہائی آرام دہ اور خوش کن ہوں گے یا انتہائی تکلیف دہ اور مضرت بخش۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓىِٕرَهٗ فِيْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا اِقْرَاْ كِتٰبَكَ١ؕ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا مَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا١ؕ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى١ؕ وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا۰

’’ اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کو (بصورت کتاب) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے اور قیامت کے روز (وہ) کتاب اسے نکا ل کر دکھائیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا، (کہا جائے گا کہ) اپنی کتاب پڑھ لے تو آج اپنا خود ہی محاسب کافی ہے۔جو شخص ہدایت اختیار کر تا ہے تو اپنے لیے اختیار کر تا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا۔اور کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا ئے گا۔اور جب تک ہم پیغمبر نہ بھیج لیں عذاب نہیں دیا کرتے۔‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل 13.14.15)

نفس اور روح کی مکمل تطہیر اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک انسان ان تمام خواہشات، تمناؤں اور افعال سے اجتناب نہیں کر لیتا جو اس کی فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہیں ۔اورہر طرف سے منہ موڑ کر اس حسنِ ازلی کی طرف رخ نہیں کرلیتا جس کی عبادت و محبت کی

خواہش اس کے وجود کی گہرائیوں سے پھوٹ رہی ہے۔ازروئے قرآن حکیم:

وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا

’’ اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو‘‘(سورۃ المزمل 08)

خدا فروشی انسان کو خود فراموشی کے ذہنی عذاب میں مبتلا کردیتی ہے۔ازروئے قرآنِ حکیم:

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (سورۃ الحشر 19)

’’ اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انھیں ایسا کر دیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ یہ بد کردار لوگ ہیں۔‘‘

انسان کے جسمانی وجود کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں ؟ مٹی اور پانی سے گندھا گارا جو بدبو دار اور لیسدار تھا اور جو خشک ہوکر بجنے لگاتھا۔ اس اعتبار سے انسان کوئی قابل ذکر چیز تھا ہی نہیں۔ مگر جب خالق کائنات ربّ عظیم نے اپنی روح اس وجود خاکی میں پھونکی ، اسی لمحہ وہ قابل ذکر شے بن گیا ، اور اس کو مسجود ملائک کا اعزاز بھی حاصل ہوگیا۔پھر اسی ربّ کائنات نے اسے اختیار و ارادے کی آزادی دے کر اس فانی اور ناپائدار دنیا میں بھیج دیا۔مقصد صرف ایک تھا ، اس بدن و روح سے مرکب وجود کا امتحان لیناکہ وہ اپنے ربّ اور خالق کی وفاداری کس حد تک نبھاتا ہے۔اس کے اس امتحان کے لیے مرغوبات نفس، شہوات و لذات ، جام و مینا کی گردشیں ، اور گمراہیوں کے جال ہر سو پھیلادئے گئے… تو دوسری طرف ربّ کائنات نے سماعت، بصارت، عقل و فہم کے ہتھیار بھی انسان کو ودیعت کر دیے کہ جب دنیا کی رنگینوں کے خوابیدہ ماحو ل میں اس کے قدم لڑ کھڑانے لگیں، ہوش و خرد کی دنیا تہ و بالا ہونے لگے تو وہ ان ہتھیاروں سے اپنا د فاع کر سکے۔ان ہتھیاروں کو متحرک کرنے کے لیے اللہ نے اپنی ہدایت کو بھی انسان کے ساتھ ساتھ کر دیا۔ ارشاد ہوا:

فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ

’’ جب تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو ( اس کی پیروی کرنا کہ) جنھوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور وہ غمناک ہوں گے‘‘ (سورۃ البقر ہ 38)

دنیا کی زندگی کا راستہ خواہشات و ترغیبات اور نفس کو مغلوب و مائل کرنے والی خاردار جھاڑیوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ ربّ چاہتا ہے انسان اس راستہ پر اپنا دامن بچاکر اُس تک پہنچنے کی سعی و جہد کرے۔اور اپنے اس عہد کو پورا کرنے کی فکر کرے جو وہ اپنے ربّ سے کر چکا ہے ۔ انسان جب مادیت کی سطح سے بلند ہوکر اپنی عبادات و معاملات میں تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی روح میں بیداری پیدا ہوتی ہے، جو اس کی بد اعمالیوں کے سبب اضمحلال کا شکار ہوچکی تھی ۔ اور دنیوی لذتیں اور طاؤس و رباب کی حلاوتو ں کا احساس نیم جان ہونے لگتا ہے، آسودگی اور احساس طمانیت حاصل ہوجاتا ہے۔خدا شناسی ، خود فراموشی کے احساس کو زائل کردیتی ہے۔ ربّ کی معرفت ہی اپنی ذات کی معرفت کے حصول کا واحد راستہ ہے۔کلام الٰہی کا گہرا مطالعہ علوم و معرفت کے وہ تمام در کھول دیتا ہے جو انسان زیغ و ضلال کی روش اختیار کر کے خود اپنے لیے بند کر چکا ہوتا ہے۔اور آفاق و انفس میں بکھری حق و صداقت کی نشانیوں کا شعور و ادراک بھی ان آیات قرآنیہ کے بین السطور اسے نمایاں طور پر نظر آجاتا ہے۔اس لیے کہ ان آیات بینات میں اسی(انسان) کا تو ذکر ہے۔ ارشاد ربانی ہے:

’’ہم نے تمھاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمھارا تذکرہ ہے، کیا تم نہیں سمجھتے؟ ‘‘ (سورۃ الانبیاء10)

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

کتابیات

1۔قرآنِ حکیم ترجمہ: مولانا فتح محمد خان جالندھریؒ

2۔اسلامی نظریہ ٔ حیات ازپروفیسر خورشید احمد

3۔تفسیرمعار ف القرآن ازمفتی محمد شفیع ؒ

4۔سیرتِ خیر الانام ﷺازڈاکٹر اسرار احمد ؒ

5۔منشور اسلام ازڈاکٹر محمد رفیع الدینؒ

6۔رسولِ عربی ؐ اور عصر جدیدازسید محمد اسماعیل

7۔تفسیر معارف القرآن (جلد پنجم)مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ

8۔حجۃ اللہ البالغہ (حصہ اول)ازشاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

Read more...

قیامت کے دن مجرمین کی آپس میں بحث و تکرار

05 May,2019

 

میاں محمد جمیل

انسان اُنس سے ہے۔ اس لیے انسان درجہ بدرجہ ایک دوسرے سے محبّت کرتے ہیں اور کرنی چاہئے۔ دینِ اسلام انسانی فطرت کا ترجمان ہے۔ اس نے کسی سے جائز محبت کرنے سے منع نہیں کیا، مطالبہ بس یہ ہے کہ کسی کی محبّت میں حد سے نہیں بڑھنا۔ ربِ کریم کی طرف سے جو درجہ بندی کی گئی ہے، اس کا ہر صورت خیال رکھنا چاہئے۔ سب سے پہلے دنیا وما فیہا سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کرنی ہے ۔ نبی کریمe،  اہلِ بیت، صحابہ کرام y  اور اولیائے عظام s  غرضیکہ تمام محبتیں اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہونی چاہئیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو تمام عقیدتوں اور محبتوں میں سب سے پہلے رکھا ہے۔

اسی لئے سرورِ دو عالم e کی زبان سے کہلوایا گیا ہے کہ آپ واشگاف الفاظ میں اعلان فرمائیں کہ اے مسلمانو! ’’اگرتمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان اور جو اموال تم کماتے ہو، تجارت جس کے خسارے سے تم ڈرتے ہو اور مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو۔اگر تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں توانتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لے آئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘(التوبہ: ۲۴)

یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ محبت ایک فطری جذبہ ہے جو انسان اور ہر جاندار میں پایا جاتاہے۔ اس لئے جائز محبت سے منع نہیں کیا گیا۔ تاہم محبت کرنے کے کچھ اسباب اوروجوہات ہواکرتی ہیں۔ جن وجوہات سے دوسروں کے ساتھ جائز محبت کرنے سے منع نہیں کیا گیا۔ تقاضا یہ ہے کہ تم ’’رب کی ذات‘‘ اور اسکی بات کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کرنے کی کوشش کرو ۔

اگر تم کسی کے احسان کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا سب سے زیادہ محسن ہے، کسی سے قرابت داری کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو وہ سب سے بڑھ کر تمہارے قریب ہے ،اگر تم کسی سے اس کے جمال وکمال کی وجہ سے محبت کرتے ہو تو کائنات کا سار اجمال وکمال اسی کی وجہ سے ہے اور وہ سب سے زیادہ اجمل واکمل ہے۔اگر کسی کے اقتدار اور اختیار کی بناپر اس سے تعلق رکھتے ہو تو اس سے بڑھ کر کسی کے پاس اختیار اوراقتدار نہیں۔ غرضیکہ کسی سے صحیح محبت کرنے کے جو بھی محرکات اوراسباب ہو سکتے ہیں ان سب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، پھر اس کے ساتھ سب سے زیادہ محبت کیوں نہ کی جائے؟

اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اس کے رسول محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ eکے ساتھ پوری مخلوق سے بڑھ کر محبت ہونی چاہیے تب جا کر آدمی کا ایمان مکمل ہوتا ہے۔

البتہ قرآن مجید کے ارشاد اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ سچی اور حقیقی محبّت کا معیار اور مدار ’’اللہ‘‘ کی محبت ہے۔ باوجود اس کے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دوسروں بالخصوص اپنے معبودوں اور بزرگوں سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ تعالیٰ سے کرنی چاہیے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ  وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا اِذْيَرَوْنَ الْعَذَابَ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا وَّ اَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ(البقرۃ: 165)

’’ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو اللہ کا شریک بنا کر ان سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی محبت اللہ سے کرنی چاہیے جبکہ ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ کاش کہ مشرک لوگ وہ دیکھ لیں جو وہ عذاب کے وقت دیکھیں گے کہ ساری ، ساری قوت ’’اللہ‘‘ ہی کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘

قیامت کے دن رب ذوالجلال کا عذاب دیکھ کر غلط پیروںاوران کے مریدوں، لیڈروں اور ان کے ورکروں، علمائے سُو اور ان کے عقدت مندوں کے درمیان بحث و تکرار بلکہ جھگڑا ہو گا اور جہنم میں جانے کے بعد ایک دوسرے پر لعنت ، پھٹکار کریں گے ۔مرید اپنے پیروں، ورکرز اپنے لیڈروں اور گمراہ مقتدی علمائے سوء کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مطالبے پر مطالبہ کریں گے کہ اے ہمارے رب ان لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا اس لئے انہیں ہم سے د گنا عذاب دیں اور ہمیں اختیار دیں کہ ہم انہیں اپنے قدموں تلے روند یں اس لئے کہ ان کی وجہ سے آج ہم اس حال میں پہنچیں ہیں۔

اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ لَوْ كَانَ هٰٓؤُلَآءِ اٰلِهَةً مَّا وَرَدُوْهَا وَكُلٌّ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّهُمْ فِيْهَا لَا يَسْمَعُوْنَ (الانبیاء: 98تا 100)

’’(اے مشرکو) تم اور جن بتوں کی تم عبادت کیا کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سب جہنم کا ایندہن ہوں گے۔ تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔ (سوچو!) اگر یہ خدا ہوتے تو نہ داخل ہوتے جہنم میں، اور(جھوٹے خدا اور ان کے پجاری) سب اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ وہ جہنم میں (شدتِ عذاب سے) چیخیں گے اور وہ اس میں اور کچھ نہ سُن سکیں گے۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی محبت عارضی ہے اور اللہ اور اس کے حکم کے مطابق کی گئی محبت سچی اور دائمی ہے اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے سیدنا ابراہیمu جب مشرکین کی آگ سے باہر نکلے تو انہوں نے عراق کی زمین پر اپنی قوم کو آخری خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ تمہاری آپس کی محبتیں ختم ہو جائیں گی اور تم ایک دوسرے پر لعنتیں برسائو گے اور اس دن صرف متقین کے درمیان سچی اور دائمی محبت ہو گی۔

اَلْاَخِلَّآءُ يَوْمَىِٕذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ

’’گہرے دوست اس روز ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے بجز ان کے جو متقی اور پرہیزگار ہیں۔‘‘(الزخرف: ۶۷)

عقیدے کے حوالے سے عقیدت رکھنے والے حضرات اپنے معبودوں اور بزرگوں کے ساتھ محبت کرنے میں بہت آگے ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اپنے بزرگوں اور علماء کے سِوا کسی کی بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان حضرات کے یقین اور خیر خواہی کے لئے ہم انہیں کے مکتبہ فکر کے عالم دین پیر کرم شاہ صاحب کا ترجمہ پیش کرتے ہیں تاکہ بھائی اس بات پر غور فرمائیں! عقیدے اور عقیدت میں فرق نہ کرنے کا کیا انجام ہو گا۔

اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّاَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوْا مِنَّاكَذٰلِكَ يُرِيْهِمُ اللّٰهُ اَعْمَالَهُمْ حَسَرٰتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنَ النَّارِ (البقرۃ: 166۔167)

’’(خیال کرو) جب بیزار ہو جائیں گے وہ جن کی تابعداری کی گئی ان سے جو تابعداری کرتے رہے اور دیکھ لیں گے عذاب کو اور ٹوٹ جائیں گے ان کے تعلقات۔ اور کہیں گے تابعداری کرنے والے کاش! ہمیں لَوٹ کر جانا ہوتا (دنیا میں) تو ہم بھی بیزار ہو جاتے ان سے جیسے وہ (آج) بیزار ہو گئے ہم سے۔ یونہی دکھائے گا انہیں اللہ تعالیٰ ان کے (بُرے) اعمال کہ باعثِ پیشمانی ہوں گے ان کے لئےاور وہ (کسی صورت میں) نہ نکل پائیں گے آگ (کے عذاب ) سے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ ہی معبودِ حقیقی ہے اوروہی کائنات کا خالق ومالک اورکائنات کے نظام کو چلا رہا ہے۔ اس کے نظام میں کوئی ذرّہ برابر بھی دخل انداز ہونے کی طاقت نہیں رکھتا ۔اس نے نظامِ کائنات میں کسی کو اپناہمسر اورشریک ِکار نہیں بنایا اورآخرت میں بھی کوئی اس کے اختیارات اورنظام میں دم مارنے کی ہمت نہیں پائے گا ۔ جو لوگ دنیا میں پیروں، فقیروں ، حکمرانوں اورباطل معبودوں کے ساتھ دنیاوی مفادات کی خاطر اللہ تعالیٰ کی ذات اوراس کی بات سے بڑھ کر ان سے محبت کرتے اور تعلق جوڑتے ہیں قیامت کے دن ربِ ذوالجلال کی جلالت وجبروت اورعذاب کودیکھیں گے تو ان کے تمام واسطے اور رابطے کٹ جائیں گے۔ یہاں تک کہ پیرمُرید سے ،طالب مطلوب سے ،حاکم محکوم سے بیزاری کا اظہار کریں گے ۔جو مذہبی پیشوا اورسیاسی رہنما اپنی ذات اورمفاد کی خاطر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے فرمان سے دور رکھتے تھے جب وہ پوری طرح جان جائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ کی قوت وطاقت کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں اور نہ کوئی وسیلہ کار گر ثابت ہوسکتا ہے تو وہ ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجیںگے۔متبوع لوگ اللہ تعالیٰ سے آرزو کریں گے کہ اِلٰہی! ہمیں دنیا میں جانے کا موقع دے تاکہ ہم ان ظالم رہنمائوں اور مشرک پیروں اور علماء سو سے اسی طرح نفرت کااظہار کریں جس طرح آج وہ ہم سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔ حکم ہو گا کہ اب تم نے ہمیشہ یہیںرہنا ہے۔اس دن سے ان کی پریشانیوں اورحسرتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا اوران کو عذاب سے کوئی نکالنے والا نہیں ہوگا ۔دنیا کے تما م اعمال ضائع اور رہنمائوںکے وعدے اورسہارے جھوٹے ثابت ہوں گے۔ واپسی کے تمام راستے بند اورہر قسم کی آہ و زاریاں بے کارثابت ہوں گی، یہ لوگ مایوس ہو کر دوسری درخواست پیش کریں گے کہ اے ربِ ذوالجلال! تو پھر ان ظالم اور جھوٹے سیاسی اورمذہبی رہنمائوں کودُگنے عذاب میں مبتلا کیجیے ۔

قَالَ ادْخُلُوْا فِيْ اُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّةٌ لَّعَنَتْ اُخْتَهَا حَتّٰى اِذَا ادَّارَكُوْا فِيْهَا جَمِيْعًا قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ رَبَّنَا هٰٓؤُلَآءِ اَضَلُّوْنَا فَاٰتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِّنَ النَّارِ قَالَ لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَعْلَمُوْنَ وَقَالَتْ اُوْلٰىهُمْ لِاُخْرٰىهُمْ فَمَا كَانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُوْنَ (الاعراف: 38۔39)

’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا داخل ہو جائو ان امتوں میں جو گزر چکی ہیں تم سے پہلے جِنّوں اور انسانوں سے (ان کے پاس) دوزخ میں (داخل ہو جائو) جب بھی داخل ہو گی کوئی امت تو وہ لعنت بھیجے گی دوسری امت پر یہاں تک کہ جب جمع ہو جائیں گی اس میں سب امتیں تو کہے گی آخری امت پہلی امتوں کے متعلق اسے ہمارے رب! انہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا پس دے ان کو دگنا عذاب آگ سے اللہ تعالی فرمائے گا ہر ایک کے لئے دُگنا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے۔اور کہیں گی پہلی امتیں پچھلی امتوں سے کہ نہیں ہے تمہیں ہم پر کوئی فضیلت پس چکھو عذاب بوجہ اس کے جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘

’’قَالَتْ اُخْرٰىهُمْ لِاُوْلٰىهُمْ ‘‘کی تفسیر کرتے ہوئے امام فخر الدین الرازی اپنی تفسیر اور علامہ سید محمود آلوسیS تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں:

’’اخری‘‘ سے مراد کم درجے والے لوگ ہوں گے اور یہ پیروکار اور معاشرہ کے نچلے درجے کے لوگ ہوں گے۔ ’’اولیٰ‘‘ سے مراد اونچے درجہ والے لوگ یہ قائدین اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔‘‘

متکبرین اور مکذبین گروہ درگروہ جہنم میںپھینکے جائیں گے۔ جہنم میں ڈالا جانے والا ہرگروہ اپنے سے پہلے گروہ پر لعنت اور پھٹکار بھیجتے ہوئے کہے گا کہ ہم تمہاری وجہ سے اس انجام کو پہنچے ہیں اگر تم ہدایت کا راستہ اختیار کرتے تو ہم تمہارے بعد کبھی گمراہ نہ ہوتے۔ وہ جواب دیں گے کہ تم نے خود ہی ایمان کا راستہ اختیار نہیں کیا جبکہ ہم نے تم پر کوئی جبر نہیں کیا تھا۔ جب جہنمی جہنم کی آگ سے منہ باہر نکالیں گے تو اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری کرتے ہوئے فریاد کریں گے اے ہمارے رب !ہمیں ہمارے بُرے رہنمائوں اور بڑوں نے گمراہ کیا اس لیے انہیں دوگناعذاب دے  اور ان پر بڑی سے بڑی پھٹکار ڈال  یہاں یہ بیان ہوا ہے کہ جب گروہ در گروہ جہنم میں جمع ہوں گے تو بعد میں آنے والے پہلوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے فریاد کریں گے کہ انہیں آگ کادگنا عذاب دیجیے۔حکم ہوگا تم میں سے ہر ایک دوگنے عذاب میں مبتلا ہے جس کا تمہیں علم نہیں۔ پیچھے آنے والوں کی بددعائوں کے جواب میں پہلے والے کہیں گے کہ تمہیں ہم پر برتری حاصل نہیں لہٰذا تم بھی اپنے کیے کے بدلہ میں عذاب پاتے رہو یہاں جہنمیوں کے عذاب کے بارے میں ’’ضِعْف‘‘ کالفظ استعمال ہوا ہے جس کا معنیٰ دگنا ہے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ برے کی سزا اس کی برائی کے برابر ہوگی ۔

لیکن یہاں دگنا عذاب بیان کیا جا رہا ہے اس کا مفہوم حدیث میں اس طرح بیان ہوا ہے جوگناہ پہلے لوگوں کی وجہ سے دوسری نسل میں منتقل ہوں گے گناہ ایجاد کرنے والوں کو ان کے بعد آنے والے لوگوں کے گناہوں کاحصہ بھی ملے گا۔ اکثر یہی ہوتا آرہا ہے کہ نہ صرف ایک نسل کے گناہ کسی نہ کسی صورت میں دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں بلکہ پہلے لوگوں کے گناہوں کے نتیجہ میں نئی نسل اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ اس طرح ہر نسل اپنے بعد آنے والی نسل کے لیے پہلے سے زیادہ گناہ چھوڑتی ہے۔ نتیجتاً مجرموں کی غالب اکثریت اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے گناہوں کے ذمہ دار بنتے ہیں ۔اسی بناء پر انہیں دگنا عذاب دیا جائے گا کیونکہ ان کے گناہوں کی نوعیت بھی دوگنی ہو گی۔ جہنمیوں کا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانا ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا لہٰذا جہنمیوں کے پیشوا اپنے سے پیچھے آنے والوں کو کہیں گے تمہارا اپنے گناہوں کا ذمہ دار ٹھہرانا تمہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا اور تم سزا کے حوالے سے ہم پر کوئی امتیاز نہیں رکھتے لہٰذا اپنے کیے کی سزا بھگتتے رہو ۔ اس طرح جہنمی عذاب میں مبتلا رہ کر ایک دوسرے پر پھٹکار بھیجتے رہیں گے ۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا مَكَانَكُمْ اَنْتُمْ وَ شُرَكَآؤُكُمْ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ وَقَالَ شُرَكَآؤُهُمْ مَّا كُنْتُمْ اِيَّانَا تَعْبُدُوْنَ فَكَفٰى بِاللّٰهِ شَهِيْدًۢا بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ هُنَالِكَ تَبْلُوْا كُلُّ نَفْسٍ مَّا اَسْلَفَتْ وَ رُدُّوْا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ (یونس: 28 تا 30)

’’اور (ان کی پشیمانی کا تصور کرو) جس روز ہم جمع کریں گے ان سب کو (میدانِ حشر میں) پھر ہم حکم دینگے مشرکوں کو اپنی اپنی جگہ پر ٹھیر جائو تم اور تمہارے جھوٹے معبود پھر ہم منقطع کر دینگے ان کے باہمی تعلقات اور کہیں گے ان کے معبود (اے مشرکو!) تم ہماری تو عبادت نہیں کیا کرتےتھے۔ پس کافی ہے اللہ تعالیٰ گواہ ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان کہ ہم تمہاری پرستش سے بالکل بے خبر تھے۔وہاں آزما لے گا ہر شخص جو اس نے آگے بھیجا تھا اور انہیں لوٹا دیا جائے گا اللہ تعالیٰ کی طرف جو ان کا مالک حقیقی ہے اور گم ہو جائے گا ان سے جو وہ افترا باندھا کرتے تھے۔‘‘

شرکاء کے بارے میں مفسرین فرماتے ہیں:

والمراد بالشرکاء ھنا الملائکۃ وقیل الشیاطین وقیل الاصنام وان اللہ سبحانہ ینطقہا فی ھذا الوقت، وقیل المسیح وعزیر، والظاھر انہ کل معبود للمشرکین کائناً ماکان (تفسیر فتح القدیر)

’’شرکاء سے یہاں مراد فرشتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ شیاطین مراد ہیں اور بعض کا خیال ہے اس سے بت مراد ہیں، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو بلوائے گا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے معبود مراد ہیں خواہ کوئی بھی ہوں۔‘‘

لوگوں کے درمیان جب عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ صادر ہوجائے گا تو جنتیوں کو جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ وہ شاداں و فرحاں اور خراماں خراماں جنت میں داخل ہوں گے اور ملائکہ انہیں ہر مقام پرسلام کریں گے۔ ان کے مقابلے میں جب جہنمیوں کو جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا تو لمحہ لمحہ اور قد م قدم پر ان پر اللہ کی پھٹکار اور ملائکہ کی جھڑکیاں ہوں گی۔ جہنم کے کنارے کھڑا کرکے ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم ان معبودوں کی عبادت کرتے تھے؟ جہنم کی ہولناکیاں اور اللہ تعالیٰ کے غضب کو دیکھتے ہوئے مشرکین کے معبود واشگاف الفاظ میں انکار کرتے ہوئے مریدوں سے کہیں گے تم کب ہماری عبادت کرتے تھے؟

جہنمی بتوں کے علاوہ جن کی عبادت کیا کرتے تھے وہ تین قسم کے معبود ہوں گے۔

انبیاء عظامo، اولیاء کرامS، ملائکہ اور نیک جنات اور یہ سب کے سب مشرکین کی عبادت اوراپنی طرف منسوب شرکیہ اعمال کا انکار کریں گے۔ جب مشرکین اپنی جان بچانے کی خاطر بار بار اصرار کریں گے تو صالح لوگ کہیں گے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ ہی گواہ ہے۔ ہمیں تو کوئی خبر نہیں کہ تم مارے بعد ہماری عبادت کرتے تھے۔

اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِ وَ قِفُوْهُمْ اِنَّهُمْ مَّسْـُٔوْلُوْنَ مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُوْنَ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ وَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ قَالُوْا اِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْيَمِيْنِ قَالُوْا بَلْ لَّمْ تَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ وَمَا كَانَ لَنَا عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ بَلْ كُنْتُمْ قَوْمًا طٰغِيْنَ فَحَقَّ عَلَيْنَا قَوْلُ رَبِّنَا اِنَّا لَذَآىِٕقُوْنَ فَاَغْوَيْنٰكُمْ اِنَّا كُنَّا غٰوِيْنَ فَاِنَّهُمْ يَوْمَىِٕذٍ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُوْنَ اِنَّا كَذٰلِكَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِيْنَ (الصافات: 22 تا 34)

’’( اے فرشتو! ) جمع کرو جنہوں نے ظلم کیا تھا اور ان کے ساتھیوں کو اور جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پس سیدھا لے چلو انہیں جہنم کی راہ کی طرف۔ اور (اب ذرا) روک لو انہیں ان سے باز پرس کی جائے گی۔ تمہیں کیا ہو گیا تم ایک دوسرے کی مدد کیوں نہیں کرتے۔ بلکہ آج تو وہ سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔ اور متوجہ ہوں گے ایک دوسرے کی طرف (اور) سوال جواب کریں گے۔ (پیروکار سرداروں سے) کہیں گے کہ تم آیا کرتے تھے ہمارے پاس بڑے کرّدفر سے (اور ہمیں کفر پر مجبور کرتے تھے) وہ جواب دینگے بلکہ تم ایمان ہی کب لائے تھے (کہ ہم نے تم کو گمراہ کر دیا) اور نہ ہمیں تم پر کوئی غلبہ حاصل تھا۔بلکہ تم بذات خود سرکش لوگ تھے۔ پس لازم ہو گیا ہم سب پر اپنے رب کا حکم۔ اب (خواہ مخواہ) ہم اس عذاب کو چکھنے والے ہیں پس ہم نے تم کو بھی گمراہ کیا ہم خود بھی گمراہ تھے۔ پس وہ (سب) اس روز عذاب میں حصہ دار ہوں گے۔ ہم اسی طرح سلوک کرتے ہیں مجرموں کے ساتھ۔‘‘

وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ وَلَا بِالَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَوْ تَرٰى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ يَرْجِعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِ ا۟لْقَوْلَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لَوْ لَا اَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِيْنَ قَالَ الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا اَنَحْنُ صَدَدْنٰكُمْ عَنِ الْهُدٰى بَعْدَ اِذْ جَآءَكُمْ بَلْ كُنْتُمْ مُّجْرِمِيْنَ وَقَالَ الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا بَلْ مَكْرُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِذْ تَاْمُرُوْنَنَا اَنْ نَّكْفُرَ بِاللّٰهِ وَنَجْعَلَ لَهٗ اَنْدَادًا وَاَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْاَغْلٰلَ فِيْ اَعْنَاقِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَلْ يُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (سبا: 31 تا 33)

’’کفار (اب تو) کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے اس قرآن پر اور نہ ان کتابوں پر جو اس سے پہلے نازل ہوئیں۔ کاش! تم (وہ منظر) دیکھو جب یہ ظالم کھڑے کیے جائیں گے اپنے رب کے روبرو اس وقت یہ ایک دوسرے پر الزام دھریں گے۔ کہیں گے وہ لوگ جو (دنیا میں) کمزور سمجھے جاتے تھے ان سے جو بڑے بنا کرتے تھے۔  اگر تم نہ ہوتے تو ہم ضرور ایماندار ہوتے۔جواب دینگے متکبر ان کمزوروں کو کیا ہم نے تمہیں روکا تھا ہدایت (قبول کرنے) سے جب (نورِ ہدایت) تمہارے پاس آیا تھا، درحقیقت تم خود مجرم تھے۔ کہیں گے وہ کمزور لوگ ان مغروروں سے (یوں نہیں) بلکہ تمہارے شب و روز کے مکرو فریب نے ہمیں ہدایت سے باز رکھا جب تم ہمیں حکم دیتے تھے کہ ہم اللہ کو ماننے سے انکار کر دیں اور (بتوں کو) اس کا ہمسر بنائیں۔ اور دل ہی دل میں پچھتائیں گے جب دیکھیں گےعذاب کو اور ہم ڈال دیں گے طوق ان لوگوں کی گردنوں میں جنہوں نے کفر کیا (خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے) کیا انہیں بدلہ دیا جائے گا بجزا اس کے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘

هٰذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ لَا مَرْحَبًۢا بِهِمْ اِنَّهُمْ صَالُوا النَّارِ قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ لَا مَرْحَبًۢا بِكُمْ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْهُ لَنَا فَبِئْسَ الْقَرَارُ قَالُوْا رَبَّنَا مَنْ قَدَّمَ لَنَا هٰذَا فَزِدْهُ عَذَابًا ضِعْفًا فِي النَّارِوَقَالُوْا مَا لَنَا لَا نَرٰى رِجَالًا كُنَّا نَعُدُّهُمْ مِّنَ الْاَشْرَارِ اَتَّخَذْنٰهُمْ سِخْرِيًّا اَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْاَبْصَارُ اِنَّ ذٰلِكَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ (ص: 59 تا 64)

’’یہ (لو) دوسری فوج گُھسنا چاہتی ہے تمہارے ساتھ کوئی خوش آمدید نہیں انہیں یہ ضرور آگ تاپنے والے ہیں۔ وہ کہیں گے (ظالمو!) تمہیں کوئی خوش آمدید نہ ہو تم نے ہی آگے کیا اس عذاب کو ہمارے لئے سو بہت بُرا ٹھکانا ہے کہیں گے اے ہمارے رب! جس (بدبخت) نے آگے کیا ہے ہمارے لیے یہ عذاب پس بڑھا دے اس کا عذاب د گنا آگ میں۔ اور کہیں گے کیا وجہ ہے کہ ہمیں نظر نہیں آرہے (یہاں) وہ لوگ جنہیں ہم شمار کرتے تھے بُرے لوگوں میں ہم جن کا تمسخر اڑایا کرتے تھے یا پھر گئی ہیں ان کی طرف سے ہماری آنکھیں۔ یقیناً یہ سچ ہے۔ دوزخی آپس میں جھگڑیں گے۔ ‘‘

يَوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ يَقُوْلُوْنَ يٰلَيْتَنَا اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا وَقَالُوْا رَبَّنَا اِنَّا اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا رَبَّنَا اٰتِهِمْ ضِعْفَيْنِ مِنَ الْعَذَابِ وَالْعَنْهُمْ لَعْنًا كَبِيْرًا

’’جس روز وہ منہ کے بل آگ میں پھینکے جائیں گے تو (بصدیاس) کہیں گے اے کاش! ہم نے اطاعت کی ہوتی اللہ تعالیٰ کی اور ہم نے اطاعت کی ہوتی رسول اکرم کی اور عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم نے پیروی کی اپنے سرداروں کی اور اپنے بڑے لوگوں کی پس ان (ظالموں نے )ہمیں بہکا دیا سیدھی راہ سے ۔ اے ہمارے رب! ان کو دگنا عذاب دے اور لعنت بھیج ان پر بہت بڑی لعنت۔‘‘ (الاحزاب: 66 تا 68)

وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا رَبَّنَا اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ (حٰم السجدۃ: 29)

اور کافر کہیں گے اے ہمارے رب! ہمیں دکھا وہ دونوں (شیطان) جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا جنوں اور انسان سے ہم انہیں روند ڈالیں گے اپنے قدموں کے نیچے تاکہ وہ ہو جائیں پست ترین لوگوں سے۔‘‘

وَ بَرَزُوْا لِلّٰهِ جَمِيْعًا فَقَالَ الضُّعَفٰٓؤُا لِلَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا اِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ اَنْتُمْ مُّغْنُوْنَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ قَالُوْا لَوْ هَدٰىنَا اللّٰهُ لَهَدَيْنٰكُمْ سَوَآءٌ عَلَيْنَا اَجَزِعْنَا اَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَّحِيْصٍ

’’اور (روزِ حشر) اللہ تعالیٰ کے سامنے (سب چھوٹے بڑے)حاضر ہوں گے تو کہیں گے کمزور (پیروکار) ان (سرداروں) سے جو متکبر تھے (اے سردارو!) ہم تو (ساری عمر) تمہارے فرمانبردار رہے پس کیا (آج) تم ہمیں بچا سکتے ہو عذابِ الٰہی سے وہ کہیں گے اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دیتا تو ہم بھی تمہاری رہنمائی کرتے، یکساں ہے ہمارے لیے خواہ ہم گھبرائیں یا صبر کریں۔ ہمارے لئے آج کوئی راہِ فرار نہیں ہے۔‘‘ (ابراھیم: 21)

۔۔۔

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول