Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

قرآنِ کریم کی اُصولی باتیں

08 Feb,2016

الحمد للّٰہ الذی انزل علٰی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا، وصلّی اللّٰہ وسلّم علٰی من کانت حیاتہ واخلاقہ للقرآن تطبیقا قولا وعملا وخُلقا
امّا بعد: الحمدللہ ۱۴۳۲ھ کے بعدمیری کتاب ’’قواعد ِقرآنیہ‘‘ کئی بار شائع ہو چکی ہے۔ زیرنظر کتاب اسی کا خلاصہ ہے، جسے میں قارئین ِ کرام کی خدمت ُمیں پیش کر رہا ہوں۔ کیونکہ کئی حضرات نے بار بار مطالبہ کیا کہ اصل کتاب کو مختصر کیاجائے،تاکہ اِسے مساجد میں پڑھنے میں آسانی ہواور جو زبانیں مسلمان بولتے ہیں اُن زبانوں میں اِس کا ترجمہ کیا جا سکے۔ اور اس لیے بھی اختصار کر دیا کہ اصل کتاب میںبعض لمبی لمبی تفصیلات ہیں، مثلاً لغت اور بلاغت سے متعلقہ بحثیں ہیں، جسے صرف عربی کاماہر ہی سمجھ سکتا ہے، یا پھر جو شخص معانی میں تفصیلات کا خواہش مند ہو وہ سمجھ سکتا ہے۔ البتہ قواعد ِقرآنیہ میں بیان ہونے والی مثالوں میں سے چند ایک کو ضرور ذکر کردیا ہے۔
جو شخص حوالوں کے بارے میںتسلی کرنا چاہے میں اُسے اصل کتاب دیکھنے کامشورہ دوں گا، زیر نظر کتاب میں تفصیلی حوالوں کو بھی حذف کر دیا ہے، البتہ احادیث کے حوالوں کو اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی جناب میں التجا کرتا ہوں کہ میری محنت کو قبول فرمالے اور جو بھی اس کو پڑھے اور اس کو عام کرنے میں حصہ ڈالے،ان سب کو نفع پہنچائے ۔ والحمد للّٰہ ربّ العالمین
پہلا اصول:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا [البقرة: 83]
’’اور لوگوں سے اچھی بات کرو!‘‘
جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے ‘مل جل کررہنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے اور روزانہ مختلف قسم کے معاملات کو نمٹانے کی خاطر لوگوں سے ملنا اس کی مجبوری ہے۔ اور ان لوگوں کی عقل وسمجھ اوراخلاق بھی مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ کبھی اچھی بات سنتا ہے اور کبھی برُی،اور کبھی ایسی بات سننی پڑتی ہے جس سے اس کو غصہ آجاتا ہے۔ ایسے موقع پر زیرنظر اصول کی ضرورت پیش آتی ہے (اور لوگوںسے اچھی بات کرو) تاکہ زبان سے متعلقہ معاملات کو قابو میں لایا جا سکے۔
اس اصول کو قرآنِ کریم میں کئی جگہ تکرار کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَقُل لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُـوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ
’’اور میرے بندوںسے کہہ دیجئے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالیں۔‘‘(بنی اسرا ئیل:۵۳)
اوراسی کے قریب ترین اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ اہل ِ کتاب سے بھی بحث و مباحثہ ہو تو عمدہ طریقے سے کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا تُجَادِلُوْا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ (العنکبوت:۴۶)
’’اوراہل کتاب کے ساتھ بحث و مبا حثہ نہ کرو،مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو، سوائے ان کے جوان میں ظالم ہیں۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرۃ:۸۳)
’’اورلوگوںسے اچھی بات کرو۔‘‘بنی اسرائیل کو جو متعدد احکام دیے گئے اس ضمن میں یہ حکم آیا تھا ۔
سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے، جبکہ اس سے پہلے مکی سورت میں یہ عمومی حکم بایں الفاظ آچکا تھا:
وَقُل لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ
’’اور میرے بندوںسے کہہ دیجیے کہ وہ بہت ہی اچھی بات منہ سے نکالیں۔‘‘ (بنی اسرا ئیل:۵۳)
اب ہمارے سامنے مضبوط اور واضح احکام ہیں، اِن میں سے کسی چیز کو مستثنیٰ نہیں کیا جاسکتا، البتہ اہل ِ کتاب کا معاملہ الگ ہے کہ بحث و مباحثہ کی صورت میں ان سے سخت بات کی جاسکتی ہے، جس کی تفصیل ودلیل گزر چکی ہے۔
ہمیں اس قاعدے کی اکثر ضرورت رہتی ہے، بالخصوص جب ہمیں معاملات نمٹانے میں مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے،اِن میں مسلمان بھی ہوتے ہیں اورکافر بھی، اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، کوئی بڑا ہوتا ہے اور کوئی چھوٹا۔ بلکہ اچھی بات کی تو ہمیں اپنے قریبی رشتہ داروں سے معاملہ کرتے وقت ہمیشہ ضرورت رہتی ہے، جیسے کہ والدین، خاوند، بیوی اور اولاد، حتیٰ کہ جوملازم وغیرہ ہماری خدمت کر رہے ہوتے ہیں ان کے ساتھ بھی اچھی بات کی ضرورت رہتی ہے ۔
اے مؤمن ! جب تم قرآن کا مطالعہ کرو گے تو تمہیں بہت سارے مواقع پر نظر آئے گا کہ قرآن نے اس امر کی تاکید کی ہے۔ اس قاعدے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1 والدین کے ساتھ معاملہ کرتے وقت :
وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلاًكَرِيمًا [الإسراء: 23]
’’اورنہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا،بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام کے ساتھ بات چیت کرنا۔‘‘
2 ضرورت مند مانگنے والے سے بات چیت کرتے وقت:
فرمایا: وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَر [الضحى: 10]
’’اور نہ سائل کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔‘‘
3جب انسان کے پلے ایسے لوگ پڑجائیں جن میں ادب واحترام کی کمی ہو:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوْا سَلٰمًا
’’اور جب کم علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگیں تو وہ کہہ دیتے ہیںکہ سلام ہے!‘‘[الفرقان: 63]
یعنی وہ لوگ اہل جہالت اور کم عقل لوگوں سے منہ پھیر لیتے ہیں، یا پھر اچھے لفظوں سے جواب دیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے، بلکہ اس طرح کی بحثوں میں پڑ کر اپنی محنت اوروقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
جب انسان دیکھتا ہے کہ قرآنِ حکیم کو ماننے والی امت اس قاعدے پر عمل کرنے میں شدید کوتاہی کا شکار ہے تو اسے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اور اس کوتاہی کی بہت ساری شکلیں ہوتی ہیں:
۱)غیر مسلموں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت: قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے پرلازم ہے کہ وہ اپنے دل سے پوچھے کیا ہم مسلمان اس بات کے زیادہ حق دار نہیں کہ عیسائیوں سے زیادہ اس قاعدے پر عمل کریں؟ یہ لوگ اچھی بات کی بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنے دین کی طرف کھینچ کر لے آئیں، جسے اللہ تعالیٰ نے اسلام کے آنے کے بعد منسوخ کر دیا ہے۔ کیا اہل اسلام اس قاعدے پر عمل کے زیادہ حق دار نہیں ہیں تاکہ لوگوں کو اس عظیم دین کی طرف لے آئیں جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے پسند فرما لیا ہے؟
۲)والدین کے ساتھ معاملہ کرنے میں ۔
۳)زندگی کے ساتھی(خاوند /بیوی)کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔
۴)اولاد کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔
۵)ملازمین اور خدمت گاروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں۔
دوسرا اصول:
یہ ایک عظیم اصول ہے جس کاہر مسلمان کی زندگی میں خاصا بڑا اثر ہے بشرطیکہ اسے یہ بات سمجھ آجائے کہ ایمانیات کا اِس اصول سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ جان لیں اس کا نام ہے ’’قضاوقدر‘‘ پر ایمان لانا۔
یہ اصول اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں بیان ہوا ہے،جو سورۃ البقرہ میں آیا ہے۔ فرمایا:
وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَشَرٌّ لَكُمْ [البقرة: 216]
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُری جانو، اوردراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو،اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کواچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لیے برُی ہو۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو۔‘‘
اسی قسم کی بات سورۃ النسا ء میں عورتوں سے جدائی کے حوالے سے بھی بیان ہوئی ہے،فرمایا:
فَاِنْ کَرِہْتُمُوْہُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّیَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا كَثِيرًا [النساء: 19]
’’گو تم انہیںناپسندکرو،لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کوبُراجانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے۔‘‘
اس اصول کی مختصرسی وضاحت:
ہوتا یہ ہے کہ بسا اوقات انسان پر تکلیف دہ تقدیر کا فیصلہ آجاتا ہے، جو اس کے دل کو ناپسند ہوتا ہے ۔چنانچہ کبھی تو وہ گھبرا جاتا ہے یا غمگین ہو جاتا ہے۔ اس کا گمان ہوتا ہے کہ اس کی ساری اُمیدوں کا جنازہ نکل گیا ہے یا اس کی زندگی ہی ختم ہو گئی ہے۔ اچانک حالات پلٹا کھاتے ہیں اور یہی تکلیف دہ تقدیر اس کے حق میں رحمت بن جاتی ہے، اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی۔
اور اس کا اُلٹ بھی ہو جاتا ہے۔ کتنے ہی انسان ایسے ہوتے ہیں جو کسی مقصد کی خاطر محنت کرتے ہیں کہ بظاہر اس میں خیر ہے اور اس کو پانے کے لیے آخری حد تک کوشش بھی کرتے ہیں، قیمتی سے قیمتی چیزکوحصولِ مقصد کے لیے خرچ کر ڈالتے ہیں اور نتیجہ بالکل اُلٹ نکلتا ہے۔
جب یہ بات واضح ہو گئی تو دل کو اس بات پر پختہ کر لوکہ اس قرآنی اصول پر زندگی گزارنے سے انسان کا دل اطمینان اور سکون سے بھر جاتا ہے، اور جس بے قراری نے لوگوں کی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے یہ اس کو ختم کردیتا ہے، یہ پریشانی خواہ کسی حادثے کی وجہ سے آئی ہو یا کسی بھی دن کی تکلیف دہ تقدیر کی وجہ سے ہو ۔
اگر ہم قرآنِ کریم میں مذکور واقعات پر غور کریں یا تاریخ کے اوراق پلٹیں یا اپنے ارد گرد کے حالات کا جائزہ لیں تو بہت سارے عبرت ناک واقعات ملیں گے۔ ہم چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں تاکہ ہر غمگین آدمی کے لیے تسلی کا سامان ہو جائے اور ہر غم زدہ دل کے زخم کے لیے مرہم بن جائے۔
1سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی والدہ ماجدہ کااپنے بیٹے (سیدنا موسیٰ علیہ السلام)کو سمندر میں ڈالنے کا واقعہ: جب آپ اس معاملے پر غورکرو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے فرعونیوں کے ہاتھ لگنے کی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو کس قدر تکلیف ہو سکتی تھی۔ اس سب کے باوجود کہ اس کے نتائج کس قدر اچھے تھے اورمستقبل میں اس کے کتنے فائدے سامنے آئے۔
یہ قاعدہ بیان کرنے کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ [البقرة: 216]
’’اور اللہ کو خوب پتا ہے اور تمہیں کچھ معلوم نہیں!‘‘
2سیدنا یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کا واقعہ : غور کرو گے تو معلوم ہو گا کہ مذکورہ بالا آیت سیدنا یوسف علیہ السلام اور آپ کے والد گرامی سیدنا یعقوب علیہ السلام کے واقعہ پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
3 اُس لڑکے کا واقعہ جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سےسیدنا خضر علیہ السلام نے قتل کر دیا تھا: اُنہوں نے قتل کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے فرمایا:
وَاَمَّا الْغُلٰـمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَا اَنْ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًافَاَرَدْناَ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّہُمَا خَیْرًاً مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا [الكهف: 81]
’’اور اُس لڑکے کے ماںباپ ایمان والے تھے، ہمیںخوف ہوا کہ کہیںیہ انہیں اپنی سرکشی اور کفرسے عاجزوپریشان نہ کر دے۔ اس لیے ہم نے چاہا کہ انہیں اِن کا پروردگار اِس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت اورپیاروالا بچہ عنایت فرمائے۔‘‘
یہاں کچھ دیر ٹھہر کر ہم غور کر لیںکتنے ہی لوگ ایسے ہیں جن کی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے اولاد نہیں لکھی۔ اس وجہ سے اُن کو پریشانی بھی ہوتی ہے اور یہ فطری بات ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا غم ان کو نڈھال کیے رکھے اور محرومی کا احساس غالب رہے اور اس طرح وہ دنیا کا کوئی کام نہ کر پائیں۔
جس شخص کے ہاں اولادنہ ہو وہ اس آیت پر غور کر لے،صرف اس لیے نہیں کہ اس کا غم دور ہو جائےبلکہ اس لیے کہ اس کے دل کو اطمینان آجائے اور اسے انشراحِ صدر ہو جائے، اور وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیرکو اپنے حق میں رحمت سمجھے اور اسے دل سے مان لےاور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کی وجہ سے اسے اس نعمت سے محروم کیا ہے۔ اسے کیا خبراگر اس کے ہاں اولاد ہو تی تو یہ اولاد اپنے والدین کی بدبختی کا سبب بن جاتی اور انہیں پریشان کرتی ان کی زندگی کو اجیرن بنا دیتی اور ان کی نیک نامی کو بٹہ لگا دیتی!
4 حدیث میں آیا ہے کہ جب سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند کا انتقال ہو گیا، تو اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ، فَیَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللّٰهُ:[إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ][البقرة: 156]
اللهُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی، وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللهُ لَهُ خَیْرًا مِنْهَا
’’جس مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچے، پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم مطابق کہے:
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا
ہم سب اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ اے اللہ ! میری مشکل پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کے بدلے میں بہتر عطا فرما!) تو اللہ تعالیٰ اسے اس (گم ہونے والی چیز) سے بہتر عطا کر دیتا ہے۔‘‘
سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو میں نے ( دل میں) کہا : کونسا مسلمان ابو سلمہ سے بہترہو سکتا ہے؟ ابو سلمہ کا گھرانہ سب سے پہلے ہجرت کرکے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔پھر میں نے آپ ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا کہہ لی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو میرے نصیب میں لکھ دیا۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز:ح ۹۱۸)
اس احساس پر غور کریں جو سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو لاحق ہوا۔ اور اس طرح کا احساس اُن عورتوں کو پریشان کرتا ہے جو ایسے رشتوں کو کھو بیٹھتی ہیں جن سے اُن کا اسی دنیوی زندگی میں گہرا رشتہ ہوتا ہے اور زبانِ حال سے کہہ رہی ہوتی ہیں کہ میرے خاوند سے بہتر کون ہوسکتا ہے؟ جب سیدہ اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے شریعت کے حکم کے مطابق صبر کیا۔
اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ [البقرة: 156]
پڑھا اور مسنون دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے اتنا خوبصورت نعم البدل عطا فرمایا، جس کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہ دیکھا تھا ہر مؤمن عورت کا یہی کردار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی خوش قسمتی کوچھوٹا نہ کر لے اور نہ ہی اسے زندگی کے دروازوں میں سے کسی ایک دروازے یا چوکھٹ کے ساتھ باندھ لے۔ یہ بات صحیح ہے کہ وقتی غم اور مصیبت سے سب کو سابقہ پیش آتا ہے، انبیاء و رُسل علیہم السلام اس سے محفوظ نہیں رہے۔ نامناسب بات صرف یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اور اس کی خوشیوں کو کسی ایک چیز کے ساتھ جوڑ لے، یا کسی مرد، عورت یا استاد سے نتھی سمجھ لے۔
5ارد گرد میںپھیلے ہوئے واقعات کو دیکھیں، اگرچہ وہ بہت زیادہ ہیں، بر سبیل ِ مثال ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں کہ ایک آدمی ایئر پورٹ پر آیا۔ وہ تھکا ہوا تھا اور سو گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ جہاز پرواز کر گیا۔ اس جہاز میں تین سو سے زیادہ مسافر تھے۔ جب اس مسافر کی آنکھ کھلی تو جہاز تھوڑی دیر پہلے جا چکا تھا اور اس کا سفر رہ گیا۔ اسے سخت پریشانی اور شدید شرمندگی ہوئی۔ اس صورتِ حال پر چند ہی منٹ گزرے تھے کہ اس جہاز کے گرکر تباہ ہونے کی خبر آگئی، جس میں تمام لوگ جل کر مر گئے۔
یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے : کیا پرواز کا نکل جانا اس آدمی کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوا؟ لیکن عبرت حاصل کرنے والے اور نصیحت پانے والے کہاں ہیں؟
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھر پور توکل کرے اور جائز اسباب کا ممکنہ حد تک استعمال بھی کرے۔ اس کے باوجود اگر نتیجہ مرضی کے خلاف نکل آئے تو قرآنِ کریم میں بیان ہونے والے اس اصول کو یاد کر لے:
وَعَسٰی اَنْ تَکْرَہُوْاْ شَیْئًا وَّہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْج وَعَسٰی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ [البقرة: 216]
’’اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بُری جانو اوردراصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو،اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم کسی چیز کواچھی سمجھو،حالانکہ وہ تمہارے لیے برُی ہو۔ حقیقی علم اللہ ہی کو ہے، تم محض بے خبر ہو۔‘‘
تیسرا اصول
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ [البقرة: 237]
’’تم آپس میں اعلیٰ اخلاق کو مت بھولو!‘‘
یہ آیت ِ کریمہ اخلاقیات کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول کو بیان کر رہی ہے اور اس دین کی عظمت کو بیان کر رہی ہے اور بتارہی ہے کہ یہ دین ہر چیز کو شامل ہے اور اس کے اصول بہت عظیم ہیں۔ سورۃ البقرہ میں احکام ِ طلاق کے ضمن میں یہ آیت آئی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ یَعْفُونَ أَوْ یَعْفُوَ الَّذِی بِیَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ [البقرة: 237]
’’اور اگر تم عورتوں کو اس سے پہلے طلاق دے دو کہ تم نے ’’انہیںہاتھ لگایا ہو،اور تم نے ان کا مہر بھی مقرر کر دیا ہو،تومقررہ مہر کا آدھا مہر دے دو۔یہ اوربات ہے کہ وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ تمہارا معاف کر دینا تقویٰ کے بہت قریب ہے، اور آپس میں اعلیٰ اخلاق کو مت بھولو، یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے ۔‘‘
اس اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو حکم دے رہا ہے جن کو ایسے رشتے نے آپس میں جوڑ دیا تھا جو انسانی تعلقات میں سب سے زیادہ پاکیزہ رشتہ ہے،یعنی میاں بیوی کا رشتہ،کہ وہ جدائی اور دوری کے موقع پر بھی اپنے سابقہ تعلقات اور رشتہ کو مت بھولیں۔
پہلے ترغیب دی کہ معاف کر دیا جائے، چنانچہ فرمایا:
اِلاَّ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَ الَّذِیْ عُقْدَةُ النِّكَاحِ
’’یہ اور بات ہے کہ وہ خود معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے‘‘ اور اس کے بعد مذکورہ بالا قاعدہ بیان کیا، اور یہ سب ا س لیے کیا کہ معاف کرنے کی تر غیب ہواور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے ۔ (البقرة: 237)
عام طور پر میاں بیوی کے رشتے میں روشن پہلو غالب رہتے ہیں اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کی خاطر قربانی دیتے ہیں۔ پھر اگر کسی موڑ پر پہنچ کر معاملہ طلاق تک آجائے تو اب یہ نہیں بھول جانا چاہیے کہ اس میاں بیوی کے جوڑے میں وفا شعاری اور اعلیٰ اخلاق کا رشتہ بھی تھا۔ اگرچہ بدن ایک دوسرے سے دور ہو گئے ہیں، لیکن اخلاقی تعلق تو باقی ہے، اور اس قسم کے پیش آنے والے حالات ان اخلاقی قدروں کو ختم نہیں کر سکتے ۔
معاف کر دینے کا نتیجہ کس قدرعظیم ہے کہ وہ دور ہونے والے کو نزدیک کر دیتا ہے اور دشمن کو دوست بنا دیتا ہے۔
جب لوگوں میں اعلیٰ اخلاق کی عادت پڑ جائے تو خطا کار کے لیے اپنے گناہ کا اعتراف کر لینا آسان ہو جاتا ہے اور حقدار کے لیے معاف کر دینا آسان ہو جاتا ہے۔ اور جب لوگ اپنے حقوق معاف نہ کریں تو نتائج بھی اُلٹ ہی نکلتے ہیں۔اگر میاں بیوی کے درمیان اس قاعدے کو اپنا لیا جائے یا ہر اُس شخص کے درمیان اختیار کر لیا جائے جس کے ساتھ ہمارا کسی بھی قسم کا تعلق ہے، تو زندگی خوبصورت ہو جائے۔وفا اوراعلیٰ ترین تعلقات کی چندجوڑوں نے نادرمثالیں چھوڑی ہیں، اگرچہ ان کے درمیان طلاق یا وفا ت کی وجہ سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
ایک مثال پیش کرتا ہوں جو مجھے معلوم ہے،ممکن ہے نادر مثال ہو۔ ایک آدمی کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، اُس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی جو اُس کے بچوں کی ماں بھی تھی۔ اُس نے اس طلاق یافتہ بیوی کو بچوں سمیت اوپر کی منزل میں رہائش دے دی اور خود نیچے والی منزل میں رہنے لگا، خود ہی بجلی اور ٹیلیفون کا بل دیتا، سارے گھر کا خرچہ برداشت کرتا۔ (معاملات اس قدر مثالی تھے کہ) اہل محلہ میں سے اکثر کو خبر ہی نہیں ہوئی کہ ان کے درمیان طلاق ہوچکی ہے۔ میرے خیال میں اس شخص نے قرآنِ کریم کے اس حکم کی عظیم مثال قائم کر دی ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَكُمْ [البقرة: 237]
’’اور آپس میں اعلیٰ اخلاق کو مت بھولو!‘‘
سیرت النبی ﷺ میں ایک عظیم مثال موجود ہے، اور آپﷺ کا توسارا کردار ہی قرآنِ کریم کی زندہ تفسیر تھی،کیونکہ آپ ﷺ نے قرآنِ کریم کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کر کے دکھایا تھا۔ ہوا یوں کہ آپﷺ طائف گئے اور وہاں کے لوگوں کو مہینہ بھر اسلام کی دعوت دیتے رہے، لیکن سوائے تکلیف اور پریشانی کے کچھ ہاتھ نہیں لگا، بالآخر مکہ مکرمہ تشریف لے آئے اور مطعم بن عدی کی پناہ میں مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر مطعم بن عدی نے اپنے چاروں بیٹوں کو حکم دیا، وہ مسلح ہو کر خانہ کعبہ کے چاروں کونوں پر کھڑے ہو گئے۔ جب قریشیوں کو اس بات کی خبر ہوئی تو انہوں نے مطعم سے کہا : ’’تم اس مقام کے آدمی ہو کہ جس کی پناہ کوتوڑانہیں جاسکتا۔‘‘
مطعم بن عدی حالت ِ شرک پر ہی مر گیا تھا، لیکن آپ ﷺ اس کا احسان نہیں بھولے، کیونکہ مطعم نے آپ ﷺ کو اُس وقت پناہ دی تھی جب چند لوگوں کو چھوڑ کر سارا مکہ آپ کا دشمن تھا۔ آپﷺ نے اس کے احسان کا اعتراف اُس وقت کیا جب غزوۂ بدر ختم ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’آج اگر مطعم بن عدی زندہ ہوتااور وہ ان غلیظ لوگوں (کافر قیدیوں) کے بارے میں سفارش کرتا تو میں اُس کی خاطر اِن سب کو چھوڑ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاری؍۳۹۷۰)
حدیث کا معنیٰ یہ ہے کہ اگر مطعم مجھ سے بغیر کسی معاوضے اور بدلے کے ان لوگوں کو چھوڑنے کا کہتا تو میں انہیں چھوڑ دیتا، کیونکہ اُس نے مجھے اپنی پناہ میں قبول کیا تھا تو میں اس کے احسان کا بدلہ چکا دیتا۔ لوگوں کو بھلائی سکھانے والی ذات (محمدﷺ) پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزاروں صلاۃ وسلام ہوں۔
ہماری روزانہ کی زندگانی میں اس قاعدے کو نافذ کرنے شکلیں:
1 کام کے مقام پر لوگوں سے تعلقات: سرکاری نوکری ہو یا نجی اداروں میں ملازمت یا اپنی ذاتی تجارت،ہر شکل میں ہمیں دوسروں کے ساتھ اکٹھا ہونا ہوتا ہے۔ ایسا اتفاق ہوتا رہتا ہے کہ کوئی ساتھی کام سے فارغ کر دیا جاتا ہے،یا اپنی مرضی و اختیار سے وہ کام چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے۔ اِن حالات میں مذکورہ بالا قاعدے پر عمل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ چنانچہ دونوں فریقوں کو اعلیٰ اخلاق کو فراموش نہیں کر دینا چاہیے۔ کیا ہی خوبصورت بات ہو کہ اگر ایک ساتھی یہ بات برملا کہہ دے کہ ایک وقت تک مل جل کر کام کرنے کے بعد اگرچہ ہم دور ہو گئے ہیں، لیکن اس جدائی کا یہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ ہم باہمی محبت واحترام بھی بھول جائیں اور مشترکہ مفادات میں تعاون کو ترک کر بیٹھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو افراد یا ادارے جانے والے ساتھی کے احترام میں اعزازی یاالوداعی پارٹی دیتے ہیں اور اس اصول پر عمل کر کے دکھاتے ہیں یقینا تم انہیں عظیم کہتے ہو۔ یہ ایسی خوشگوار یادیں ہوتی ہیں جو جانے والا بھول نہیں پاتا۔ اگر تم اس خوبصورت واقعے کے اثرات کو محسوس کرنا چاہتے ہو تو جو لوگ سرکاری محکموں میں یا نجی اداروں میںلمبے عرصے تک کام کرتے رہے ہوں اور جب وہ جا رہے ہوں اور کوئی ان کے بارے میں ایسا اہتمام نہ کرے، حتیٰ کہ شکریے کا سر ٹیفکیٹ تک نہ دیا جائے تو ان کی نفسیاتی حالت میں جو ٹوٹ پھوٹ آتی ہے اس کا ذرا اندازہ کر لیں۔
2 اپنے اساتذہ کے ساتھ وفا کرنا،اور طالب علم کے دل میں اچھے جذبات کا محفوظ رہنا۔ میں ذاتی طور پر ایک استادکو جانتا ہوں جو سعودی عرب کے ایک علاقے میں خدمات انجام دے رہا ہے، اُس نے وفا کی مثال قائم کی ہے۔ اُس نے نا صرف اپنے اساتذہ کے ساتھ حسن ِ معاملہ رکھا، بلکہ جب اُس کے استاد فوت ہوگئے تو آگے بڑھ کر ان کی اولاد کے ساتھ بھی حسن سلوک کیا۔ تمہاری خوشگوار حیرت میں اضافہ ہوگا جب تمہیں یہ معلوم ہوگاکہ اس نے سعودی عرب سے باہر سے آنے والے اساتذہ سے بھی رابطہ رکھا، خواہ ان اساتذہ کا تعلق مصر،شام یا کسی دوسرے ملک سے تھا۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا بھلا کرے،اور امت میں اس جیسے وفا شعاروں کا اضافہ کرے۔
3 پڑوسیوں اور اہل مسجد کے ساتھ اعلیٰ اخلاق سے پیش آنا۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگوں ہیں کہ ہمیں اچھے اخلاق اوراچھے اعمال کی ہدایت دے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی اچھائی کی ہدایت نہیں دے سکتا، اور ہمیں برے اخلاق سے محفوظ رکھے، اور وہی برے اخلاق سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ (جاری ہے)

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول