’’اللہ‘‘ کی ذات رفعِ مکانی ،علوِّ مرتبت اورصفاتِ کاملہ کے اعتبار سے پوری مخلوق سے ارفع ،اعلیٰ اوربے مثال ہے ۔مخلوق میں کوئی بھی کسی اعتبار سے اس کا ہم مرتبہ نہیں۔یہاں تک کہ انبیائے کرامo اور نبی کریم u بھی رفعِ مکانی ،علوِّ مرتبت اورصفاتِ حسنہ کے حوالے سے ربِّ ذوالجلال کے ہم مثل اور ہم پلّہ نہیں ہیں۔جو شخص ذات ،صفات اوراختیارات میں نبی کریمuیا کسی ہستی کو ’’اللہ‘‘ کے ہم پلّہ ،ہم مثل اس کا جُز قرار دیتا ہے وہ اس ہستی کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے ۔جو کسی کو کسی اعتبار سے’’ اللہ تعالیٰ ‘‘ کی ذات ،صفات اور اختیارات میں شریک ٹھہرائے گا،وہ شرک کا مرتکب ہوگا۔شرک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہی نہیں بلکہ پَرلے درجے کا ظلم، جھوٹ، جہالت، تاریکی، حماقت ، انسانی فطرت اور کائنات کے پورے نظام کے خلاف بغاوت ہے ۔دنیا میں ذلّت کا باعث اورآخرت میں جہنم میں جانے کا سب سے بڑا سبب ہے ۔شرک کے مقابلے میں توحید ہے جو حقیقت کی سب سے بڑی گواہی،فطرت کی ترجمان اور عدل کی شہادت ،روشنی، دانائی ہے، گناہوں کاکفّارہ ہونے کے ساتھ اپنے رب کی رضا اورجنت کی چابی ہے ۔مشرک ہمیشہ کے لیے جہنم میں جلتارہے گا اورموحّد ہمیشہ ہمیش کے لیے جنّت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا۔ شرک کا انجام جاننے اورتوحید کا انعام پانے کے لیے ان آیات پر غور فرمائیں ! تاکہ آپ کے دل میں توحید سے محبت اور شرک سے نفرت پیدا ہو جائے۔
خالق کائنات نے زمین و آسمان بنانے کے بعد سیدنا آدم uکو پیدا فرمایا تو سیدنا آدم uکی پشت پر اپنا دست مبارک رکھا۔ جس سے قیامت تک پیدا ہونے والے انسان ’’ اللہ تعالیٰ‘‘ کی بار گاہ میں حاضر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے استفسار فرمایا کہ کیا میں تمھارا رب ہوں؟سیدنا آدمu اور اس کی ساری اولاد نے شہادت دی کیوں نہیں ! آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ ارشاد ہوا کہ اس پر قائم رہنا ۔قیامت کے دن یہ بہانہ پیش نہ کرنا کہ ہمیں تو اس عہد کا علم ہی نہیں یا یہ کہو کہ ہم اس لیے شرک کے مرتکب ہوئے کہ ہمارے آباء و اجداد شرک کیا کرتے تھے ، ہم تو ان کی اولاد اور ان کے بعد آنے والے تھے لہٰذا ہمارا کوئی گناہ نہیں جو کچھ کیا ہم سے پہلے لوگوں نے کیا ۔ (الاعراف: 172۔173)
’’توحید‘‘ فطرت کی آواز ہے
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًافِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ(الروم:30)
’’حکم ہوا کہ اپنے آپ کو دینِ حنیف پر قائم رکھیں یہی فطرت ہے اسی فطرت پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا فرمایا ہےاللہ کی تخلیق بدلی نہیں جا سکتی یہی مستقل دین ہے، لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔‘‘
شرک فطرت سے بغاوت ہے
فَلَمَّا اَنْجٰىهُمْ اِذَا هُمْ يَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلٰى اَنْفُسِكُمْ مَّتَاعَ
الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ اِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا
كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (یونس: 23)
’’جب وہ انھیں نجات دے دیتا ہے تو وہ زمین میں بلاوجہ سرکشی کرنے لگتے ہیں ۔ اے لوگو! تمھاری سرکشی کا تمہیں ہی نقصان ہوتا ہے ۔یہ دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے پھر تم نے ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔ ہم تمہیں بتائیں گے جو کچھ تم کیا کرتے تھے ۔‘‘
توحید سب سے بڑی سچائی ہے
اَللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِيْثًا (النساء:87)
’’اللہ وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، یقیناً وہ تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کس کی بات سچی ہوسکتی ہے؟‘‘
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا اَبَدًا رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ
’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ وہ دن ہے کہ سچے لوگوں کو ان کاسچ فائدہ دے گا۔ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ اللہ ان پر ہمیشہ کے لیے راضی ہوگیا اور وہ اللہ پر راضی ہوگئے ,یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ (المائدۃ:119)
شرک سب سے بڑا جھوٹ ہے
قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًايَّهْدِيْ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ وَلَنْ نُّشْرِكَ بِرَبِّنَا اَحَدًا وَّاَنَّهٗ تَعٰلٰى جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا وَّاَنَّهٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْهُنَا عَلَى اللّٰهِ شَطَطًا وَّاَنَّا ظَنَنَّا اَنْ لَّنْ تَقُوْلَ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا (الجن:1تا5)
’’اے نبی فرما دیں کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ (جنوں) کے ایک گروہ نے قرآن مجید کو غور سے سنا اور پھر جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور اب ہم اپنے رب کے ساتھ کسی کو قطعاً شریک نہیں کریں گے۔کیونکہ ہمارے رب کی شان شرکیہ خرافات سے بہت بلند و بالا ہے اس نے کسی کو اپنی بیوی یا بیٹا نہیں بنایا ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں خلاف حقیقت باتیں کرتے ہیں ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اورجن
اللہ کے بارے میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔‘‘
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اُولٰٓىِٕكَ يُعْرَضُوْنَ عَلٰى رَبِّهِمْ وَ يَقُوْلُ الْاَشْهَادُ هٰٓؤُلَآءِ الَّذِيْنَ كَذَبُوْا عَلٰى رَبِّهِمْ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰهِ عَلَى الظّٰلِمِيْنَ (ھود:18)
’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو ’’اللہ‘‘ پر جھوٹ بولے ؟یہ اپنے رب کے سا منے پیش کیے جائیں گے اور گوا ہ کہیں گے یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بولا سن لو !ظالمو ں پر اللہ کی لعنت برستی ہے ۔‘‘
توحید سب سے بڑی شہادت ہے
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (آل عمران: 18)
’’اللہ‘‘ شہادت دیتا ہےبلاشبہ اس کے سِوا کوئی معبود نہیں،فرشتے اور اہلِ علم بھی اس بات پر گواہ ہیں کہ وہ عدل کے ساتھ کائنات کو قائم رکھنے والا ہے اس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللّٰهُ شَهِيْدٌۢ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْ بَلَغَ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ اَنَّ مَعَ اللّٰهِ اٰلِهَةً اُخْرٰى قُلْ لَّا اَشْهَدُ قُلْ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَّاِنَّنِيْ بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ (الانعام:18۔19)
’’اور وہی اپنے بندوں پرغالب ہے اور وہ کمال حکمت والااور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔ان سے پوچھیں!کہ کونسی چیز گواہی سے بڑی ہے ؟فرما دیجیے اللہ ہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے اور میری طرف یہ قرآن وحی کیاگیا ہے تاکہ میں تمہیں اس کے ذریعے ڈرائوں اورجس تک یہ پہنچے ۔کیا واقعی تم گواہی دیتے ہو کہ بے شک اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے ؟اعلان کریںکہ یہ گواہی میں نہیں دیتا فرما دیجیے بلاشبہ وہ اکیلاہی معبود ہے یقینا میں تمہارے شریکوں سے الگ تھلگ ہوں ۔‘‘
شرک اس شہادت کو چھپانا ہے
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِي اللّٰهِ وَ هُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ وَلَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَ اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ وَ اِسْمٰعِيْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ كَانُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى قُلْ ءَاَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰهُ وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهٗ مِنَ اللّٰهِ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ (البقرۃ: 139۔140)
’’آپ فرما دیں کہ کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو جو ہمارا اور تمہارا رب ہے ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ‘ ہم تو اسی کے لیے خالص ہوچکے ہیں۔کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوبoاور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھے۔ بتاؤ کہ کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ۔ اللہ کے نزدیک شہادت چھپانے والے سے بڑا ظالم اور کون ہے؟ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں۔
توحید عدل ہے
شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْم
’’اللہ شہادت دیتا ہےبلاشبہ اس کے سِوا کوئی معبود نہیںفرشتے ،اہلِ علم بھی اس بات پر گواہ ہیں اور وہ عدل کے ساتھ کائنات کو قائم رکھنے والا ہے اُس غالب اور حکمت والے کے سوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ (آل عمران: 18)
شرک سب سے بڑا ظلم ہے
وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِهٖ وَ هُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللّٰهِ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (لقمان: 13)
’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے اپنے بیٹے سے فرمایاکہ بیٹا ’’اللہ‘‘ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا حقیقت یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعٰى اِلَى الْاِسْلَامِ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ
’’اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹ بولتا ہے حالانکہ اسے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہے،ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (الصف: 7)
’’توحید‘‘ دانائی ہے
ذٰلِكَ مِمَّا اَوْحٰی اِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتُلْقٰى فِيْ جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا
’’یہ حکمت سے بھرپور باتیں ہیںجو آپ کے رب نے آپ کی طرف وحی کی ہیں اور اللہ کے ساتھ دوسرا معبود نہ بنا نا ورنہ ملامت زدہ اور دھتکارا ہوا جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔‘‘ (بنی اسرائیل: 39)
شرک حماقت ہے
وَاَنَّهٗ كَانَ يَقُوْلُ سَفِيْهُنَا عَلَى اللّٰهِ شَطَطًا (الجن: 4)
’’جنات نے کہا ہمارے نادان لوگ اللہ کے بارے میں خلافِ حقیقت باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’توحید‘‘ سب سے بڑی نیکی ہے
لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓىِٕكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ(البقرۃ :177)
’’نیکی یہ نہیں کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا جائے حقیقتاً نیکی یہ ہے اللہ ، قیامت کے دن ، فرشتوں ، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان لاناہے ۔‘‘
شرک سب سے بڑا گناہ اوربہتان ہے
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰى اِثْمًا عَظِيْمًا (النساء :48)
’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کرنے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے اس نے بہت بڑا گناہ کیا۔ ‘‘
’’توحید‘‘’’اللہ ‘‘کی تابعداری کرنا ہے
اَوَ لَمْ يَرَوْا اِلٰى مَا خَلَقَ اللّٰهُ مِنْ شَيْءٍ يَّتَفَيَّؤُا ظِلٰلُهٗ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشَّمَآىِٕلِ سُجَّدًا لِّلّٰهِ وَهُمْ دٰخِرُوْنَ (النحل: 48)
’’اور کیا ان لوگوں نے ان چیزوں کو نہیں دیکھا جو اللہ نے پیدا کی ہیں ہر چیز کے سائے دائیں اور بائیں سے ہو کر اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے ڈھلتے ہیں اور وہ عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔‘‘
شرک ’’اللہ ‘‘ کی بغاوت کرنا ہے
وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَيَزِيْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ وَالْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ وَلَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ (الشوریٰ: 26۔27)
’’وہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعا قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے اُن کو مزید عطا کرتا ہے ۔ جو انکار کرنے والے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہے۔اگر اللہ اپنے بندوں کو کھلا رزق دے دیتا تو وہ زمین میں سرکشی کرتے مگر جتنا چاہتا ہے وہ حساب کے مطابق نازل کرتا ہے ،یقیناً وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور اُنہیں دیکھنے والا ہے۔‘‘
’’ توحید‘‘ امن کی بنیاد ہے
وَكَيْفَ اَخَافُ مَا اَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُوْنَ اَنَّكُمْ اَشْرَكْتُمْ بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ عَلَيْكُمْ سُلْطٰنًافَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ (الانعام:81۔82)
’’(سیدنا ابراہیم u نے فرمایا) میں ان بتوں سے کیوں ڈروں جنھیں تم نے شریک بنایا ہے جب کہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تم نے اللہ کے ساتھ ان کو شریک بنایا ہے جس کی تمہارے لیے اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اگر تم جانتے ہو تو بتاؤ کہ دونوں گروہوں میں سے امن کا زیادہ حق دار کون ہے ۔ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ خلط ملط نہیں ہونے دیا یہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور:55)
’’اللہ نے جوتم میںایمان لائیں ان لوگوں کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے اورنیک عمل کریں گے اللہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کوبنایا ہے۔ ان کے لیے ان کے دین کو مضبوط کرے گا جسے اللہ نے ان کے حق میںپسند فرمایا ہےاوران کے خوف کوامن میں بدل دے گا۔ بس وہ میری بندگی کریں اورمیرے ساتھ کسی کوشریک نہ بنائیںجواس کے بعد کفر کرے تووہ فاسق لوگ ہیں ۔‘‘
شرک فساد کی جڑ ہے
اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلُ كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّشْرِكِيْنَ فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهٗ مِنَ اللّٰهِ يَوْمَىِٕذٍ يَّصَّدَّعُوْنَ (الروم: 40تا43)
’’ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیتا ہے پھر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے بنائے ہوئے شریکوں میں کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرسکتا ہو ؟اللہ مشرکوں کے شرک سے پاک اوربہت بلند و بالا ہے ۔ لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے کیے کی وجہ سے خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا ہے تاکہ اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزا چکھایاجائے شاید کہ وہ باز آجائیں۔اے نبی ان سے کہو کہ زمین میں چل کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہوا ہے، ان میں سے اکثر مشرک تھے۔اے نبی اپنا رخ مضبوط دین پر قائم رکھو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی اللہ کی طرف سے کوئی صورت نہیںاُس دن لوگ جُدا جُدا ہو جائیں گے۔
عقیدۂ توحید انسان کو بلندیوں سے سرفراز کرتا ہے
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيْعًا اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُوْنَ السَّيِّاٰتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ وَمَكْرُ اُولٰٓىِٕكَ هُوَ يَبُوْرُ (فاطر: 10)
’’جو عزت چاہتا ہے عزت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے پاکیزہ کلمات اور نیک اعمال کو وہی اوپر اٹھاتا ہے جو لوگ جو بُری چال چلتے ہیںاُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے۔‘‘
شرک ذلّت اورپستی سے دوچار کرتا ہے
حُنَفَآءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ (الحج:31)
’’یکسو ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شریک بنائے گا گویا وہ آسمان سے گر پڑا۔اسے پرندے اُچک لیں گے یا آندھی اُسے ایسے گڑھے میں پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے۔ ‘‘
’’توحید‘‘ تمام نیکیوں کی بنیادہے
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ تُؤْتِیْٓ اُكُلَهَا كُلَّ حِيْنٍ بِاِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ (ابراھیم:24۔25)
’’کیا آپ نے غور نہیں کیا اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال بیان فرمائی ہے ، جو ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک ہیں وہ اپنے رب کے حکم سے اپنا پھل ہر وقت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔‘‘
شرک تمام گناہوں کامنبع ہے
وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ ا۟جْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (ابراھیم:26)
’’اور بُرے کلمہ کی مثال بُرے پودے کی طرح ہےجو زمین کے اوپر سے اکھاڑ لیا جائے اس کے لیے ٹھہرنا نہیںہے۔‘‘
’’توحید‘‘ روشنی ہے
اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰت اِلَى النُّوْرِ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا اَوْلِيٰٓـُٔهُمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ (البقرۃ:257)
’’اللہ ‘‘ایمان والوں کا دوست ہے وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور کفارکے ساتھی شیاطین ہیں وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں یہ لوگ جہنمی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
شرک اندھیرے ہیں
قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ قُلِ اللّٰهُ قُلْ اَفَاتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ اَوْلِيَآءَ لَا يَمْلِكُوْنَ لِاَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ اَمْ هَلْ تَسْتَوِي الظُّلُمٰتُ وَ النُّوْرُاَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖ فَتَشَابَهَ الْخَلْقُ عَلَيْهِمْ قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الرعد:16)
’’ان سے پوچھیں آسمانوں اور زمین کا رب کون ہے ؟فرما دیں اللہ ہے۔ فرمائیں پھر کیا تم نے اس کے سوا مددگار بنا رکھے ہیں جو اپنے نفع اور نقصان کے مالک نہیں؟ فرما دیں کیااندھااوردیکھنےوالابرابرہوتے ہیں ؟یا کیا اندھیرا اور روشنی برابر ہوسکتے ہیں ؟کیا انہوں نے اللہ کے ایسے شریک بنا رکھے ہیں جنہوں نے اُ س کے پیدا کرنے کی طرح کچھ پیدا کیا ہے اور وہ اُن پر گڈ مڈ ہو گئی ہے ؟ فرمادیجئے اللہ ہی ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے وہ اکیلا ہے اوربڑا زبر دست ہے ۔‘‘
’’توحید‘‘ انبیاء oکی دعوت ہے
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْهُمْ مَّنْ هَدَى اللّٰهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلٰلَةُ فَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِيْنَ (النحل:36)
’’اوریقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو ۔ ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی ثابت ہو گئی ۔پس زمین میں چل ، پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوںکا کیسا انجام ہوا۔‘‘
شرک شیطان کی دعوت ہے
اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ اِلَّا اِنٰثًا وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا لَّعَنَهُ اللّٰهُ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا وَّلَاُضِلَّنَّهُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰهِ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا (النساء:117تا119)
’’یہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر صرف دیویوں کی عبادت کرتے ہیں اور در حقیقت یہ صرف باغی شیطان کوپوجتے ہیں۔ جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس نے کہا تھا کہ میں تیرے بندوں میں سے مقرر حصہ لے کر رہوںگا اور انہیں ٹھیک راہ سے بہکاتا رہوں گا اور امیدیں دلاتا رہوں گا اور انہیں کہوں گاکہ جانوروں کے کان چیر دیں اور ان سے کہوں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑ دیں۔سنو جو اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا دوست بنائے گا وہ کھلم کھلا نقصان میں پڑ جائے گا۔‘‘
’’توحید‘‘ دل کا سکون ہے
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد:28)
’’و ہ لوگ جو ایما ن لا ئے اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے سکون پاتے ہیں ۔ سن لو ! اللہ کی یا د سے دل اطمینان پاتے ہیں ۔‘‘
کفر، شرک مایوسی اوربے قراری کا نام ہے
يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَ اَخِيْهِ وَلَا تَايْـَٔسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِنَّهٗ لَا يَايْـَٔسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ (یوسف:87)
’’(سیدنایعقوب u نے فرمایا) اے میرے بیٹو !جائو یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے مایو س نہ ہو ، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے کافر ہی مایوس ہوتے ہیں ۔ ‘‘
’’توحید‘‘ پاکیزگی ہے
اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ (ابراھیم:24)
’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے ایک پاکیزہ کلمہ کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی شاخیں آسمان میں ہے۔‘‘
شرک گندگی ہے
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ (التوبۃ: 28)
’’اے لوگو!جوایمان لائے ہو! بات یہ ہے کہ مشرک ناپاک ہیں پس وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں ۔‘‘
’’توحید‘‘ جنت کی ضمانت ہے
اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ (حمٓ السجدۃ: 30تا 32)
’’جن لوگوں نے کہا کہ’’ اللہ ‘‘ہمارا رب ہے اور اس پر ثابت قدم رہے یقینا اُن پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، اور نہ غم کرو، بلکہ اُس جنت کے بارے میں خوش ہو جاؤجس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم اس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی۔ وہاں جو چاہو گے تمہیں ملے گا اور جس چیز کی تمنا کرو گے اُسے پاؤ گے۔ یہ مہمان نوازی اُس ’’ رب ‘‘ کی طرف سے ہوگی جو غفور ورحیم ہے۔ ‘‘
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍt قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِe مَنْ کَانَ آخِرُ کَلَامِہِ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (رواہ ابوداؤد: کتاب الجنائز، باب فی التلقین)
’’سیدنا معاذ بن جبل tبیان کرتے ہیں رسول معظم eنے فرمایا جس کا آخری کلام لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ہو وہ جنت میںداخل ہو گا۔ ‘‘
شرک جہنم میں داخلے کا سبب ہے
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا (النساء:116)
’’اللہ ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے البتہ شرک کے علاوہ جس کے چاہے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں جا پڑا۔‘‘
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدۃ:72)
’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ اللہ مسیح ہی تو ہے جومریم کابیٹا ہی ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیںہو گا۔‘‘
عَنْ جَابِرٍt قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِe ثِنْتَانِ مُوْجِبَتَانِ قَالَ رَجُلٌ یَا رَسُوْلَ اللہِ مَاالْمُوْجِبَتَانِ قَالَ مَنْ مَّاتَ یُشْرِکُ بِاللہِ شَیْئًا دَخَلَ النَّارَ وَمَنْ مَّاتَ لَا یُشْرِکُ بِاللّٰہِ شَیْئًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ (رواہ مسلم: بَابُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَاتَ مُشْرِكًا دَخَلَ النَّارَ)
’’سیدنا جابرt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: دو باتیں لازم ہونے والی ہیں۔ایک آدمی نے عرض کیا وہ لازم ہونے والی کون سی دو باتیں ہیں؟ فرمایا جس نے اللہ کے ساتھ ذرہ برابرشرک کیا وہ جہنم میں داخل ہو گا اور جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنایا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ‘‘
۔۔۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِهٖ اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُتَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ وَ هُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ حَتّٰى اِذَا اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (الاعراف: 54 تا 57)
’’بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیداکیا، پھرعرش پرقائم ہوا ،وہ رات کو دن پراوڑھادیتا ہے جو تیز چلتاہوا اس کے پیچھے چلاآتا ہے اوراس نے سورج اور چاند اور ستارے پیداکیے ، اس حال میں کہ اس کے حکم کے تابع ہیں سن لو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ،بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خفیہ طور پر پکارو بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔اورزمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلائو اور اسے خوف اورامید سے پکارو، بیشک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔اور وہی ہے جو ہوائوں کو اپنی رحمت سے پہلے بھیجتا ہے۔ ہوائیں خوش خبر ی دینے والی یہاں تک کہ جب بھاری بادل اٹھالاتی ہیں تو ہم اسے کسی مردہ شہر کی طرف ہانکتے ہیں، پھر اس سے پانی اتارتے ہیں ،پھر اس کے ساتھ ہر قسم کے پھل پیداکرتے ہیں اسی طرح ہم مردوں کو نکالیں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے خالق ہونے کے حوالے سے الخالق، البدیع، الباری، الفاطر، المصور اور الخلّاق کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جن کا مختصر مفہوم یہ ہے:
’’الخالق ‘‘ کا نام لفظِ خُلِق سے ماخوذ ہے۔ اس کے تین معانی ہیں۔ عدم سے وجود میں لانا، کسی چیز اور کام کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرنا اور اس کی فطرت اور اس کے ماحول کے مطابق پیدا کرنا۔ جس طرح مچھلی کی فطرت پانی میں رہنا پسند کرتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی طبیعت اور فطرت میں ایسی حدّت رکھ دی ہے جو اسے انتہائی ٹھنڈک میں بھی زندہ رکھتی ہے۔ لہٰذا جو کسی چیز کو عدم سے وجود بخشے، اس کا سو فی صد ٹھیک اندازہ کرے اور اُسے فطرت اور ماحول کے مطابق پیدا کرے۔ اسے ’’الخالق‘‘ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی بھی کچھ پیدا نہیں کر سکتا۔ وہ ملائکہ، جِنّ ، انس، حیوانات، جمادات، نباتات گویا کہ ہر چیز کا اکیلا ہی خالق ہے۔ اس لیے یہ نام اور کام اسی کو زیبا ہے۔
اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ (الزمر: 62)
’’اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر نگہبان ہے۔‘‘
اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ
’’سنو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ،بہت برکت والا ہے اللہ جو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘(الاعراف: 54)
’’البدیع‘‘ وہ ہے جو پہلے سے موجود کسی میٹریل اور نمونے کے بنانے اور پیدا کرنے والاہے۔ زمینوں، آسمانوں میں اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی ہستی نہیں جو اس طرح کسی چیز کو بنائے یا پیدا کر سکے۔پیدا کرنا تو درکنار دنیا میں جو ایجادات ہوئی ہیں اور ہوں گی وہ اسی کے پیدا کردہ میٹریل اور بنائی ہوئی کسی ایک یا کچھ چیزوں کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہیں۔ از خود میٹریل تخلیق کرنا اور قدرت کے پیدا کیے ہوئے کسی نمونے سے فائدہ اٹھائے بغیر کوئی چیز بنانا بڑے سے بڑے سائنسدان کے بس کی بات نہیں لہٰذا ’’بدیع‘‘ نام اور صفت صرف اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان ہے۔اس لیے اس کا ارشاد ہے:
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (الانعام: 101)
’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے ۔‘‘
اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ
’’اللہ ہی مخلوق کوپہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ پیدا کرے گا پھر اسی کی طرف تم لُٹائے جاؤ گے۔‘‘(الروم: 11)
الباری کا مصدر براء ہے۔ جس کا معنٰی جُدا کرنا اور پھاڑنا ہے۔ یہ اس لئے ’’اللہ‘‘ کا نام اور اس کی صفت ٹھہرا کہ وہ اپنی منشا کے مطابق کسی چیز کا نقشہ بناتا اور پھر اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھلتا ہے۔ اسے صرف ’’کن ‘‘فرماتا ہے اور وہ چیز ’’فیکون ‘‘کے عمل سے گزر جاتی ہے۔یعنی اس کی عین مرضی اور حکم کے مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ ظاہر ہے مخلوق میں سے کسی کو یہ قدرت حاصل نہیں اس لیے البدیع کی شان اور اختیار رکھتا ایک اللہ ہے دوسرا نہیں۔
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ (الحشر: 24)
’’وہ اللہ ہے جو ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کرنے والا ۔‘‘
اِنَّمَآ اَمْرُهٗ اِذَا اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ
جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے حکم دیتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘(یٰس: 82)
الفاطر: پہلی مرتبہ پیدا کرنے والا یعنی جو چیز پہلے سے موجود نہ ہو بے شک وہ جاندار ہو یا غیر جاندار ۔ سیدنا ابن عباسw فرماتے ہیں۔ میرے پاس دو بدو آئے جن کا ایک کنویں کی ملکیت پر جھگڑا تھا۔ ایک نے کہا ’’اَنَا فَطَرْتُہَا‘‘ ’’میں نے یہ کنواں پہلے کھودا تھا۔‘‘ گویا کہ فاطر کا معنٰی کسی کام کی ابتدا کرنے والا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان اور ہر چیز کی ابتدا فرمائی ہے۔ اس لیے اس کا اسم مبارک فاطر ہے۔
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـًٔا مَّذْكُوْرًا (الدھر: 1)
’’انسان پر ایسا دور بھی گزرا ہے جب اس کا ذکر تک نہیں تھا؟‘‘
قَالَتْ رُسُلُهُمْ اَفِي اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
’’ان کے رسولوں نے فرمایا: کیا اللہ کے بارے میں شک کرتے ہو ؟جو آسمانو ں اور زمین کو پیدا کرنے والاہے ۔‘‘(ابراھیم: 10)
قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ
’’فرما دیں کیا میں آسمانوں اورزمین کو پیدا کرنے والے اللہ کے سوا کسی اور کو اپنامددگار بنالوں ؟ (الانعام: 14)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰٓىِٕكَةِ رُسُلًا (فاطر:1)
’’اللہ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جو آسمانوں اور زمین کا بنانے اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے۔‘‘
المصوّر:دنیا میں جو لوگ اپنے ہاتھ یا کیمرے کے ذریعے تصویر بناتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کو سامنے رکھ کر ہی کوئی نہ کوئی تصویر بناتے ہیں۔ کسی بھی سینری (senri)کو اپنے سامنے رکھیں وہ مصور حقیقی کا حصہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے کروڑوں ، اربوں، کھربوں صورتیں بنائی ہیں۔ انسانوں پر غور کریں ’’اللہ‘‘ نے ہی انسان کو عدم سے وجود بخشا ہے، وہی ہے جسم میں روح پھونکتا اور اسی نے انسان اور ہر چیز کو الگ الگ شناخت عطا فرمائی ہے۔ اربوں انسان اور کڑوروں جانور آپس میں نہیں ملتے۔ اس لیے کم سے کم عقل رکھنے والا انسان بھی پکارا اٹھتا ہے۔
فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ (المومنون:14)
’’بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ ‘‘
هُوَ الَّذِيْ يُصَوِّرُكُمْ فِي الْاَرْحَامِ كَيْفَ يَشَآءُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (آل عمران: 6)
’’وہی ہے جو جس طرح چاہتا ہے رحموں میں تمہاری صورتیں بناتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں وہ نہایت غالب خوب حکمت والا ہے۔‘‘
هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (الحشر: 24)
’’وہ اللہ ہے جو ہر چیز کو ابتدا سے پیدا کرنے والا اور صورتیں بنانے والا ہے ، اس کے لیے بہترین نام ہیں ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی ہے اور وہ زبردست اور خوب حکمت والا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں کئی مقامات پر تخلیق کے لیے ’’جَعَلَ‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جو تقریباً لفظ ’’خلق‘‘ کا مترادف ہے۔
هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ وَ النَّهَارَ مُبْصِرًا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّسْمَعُوْنَ (یونس: 67)
’’وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی۔تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور دن کوروشن بنایابیشک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور سے سنتے ہیں۔‘‘
وَهُوَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَهْتَدُوْا بِهَا فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان سے خشکی اورسمندر کے اندھیروں میں راستہ معلوم کرو بیشک ہم نے ان لوگوں کے لیے کھول کرآیات بیان کر دی ہیں جو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ (الانعام: 97)
وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِيْنَ وَ حَفَدَةً (النحل: 72)
’’اور اللہ نے تمہی سے تمہارے لیے تمہاری بیویاں بنائیں اور تمہاری بیویوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے بنائے ۔‘‘
الخلّاق: یہ خُلق سے(superdegre) کا صیغہ ہے۔ یہ نام قرآن مجید میں دو مرتبہ آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لئے ’’خلّاق ہے کہ اس نے ایک نطفہ سے انسان کو پیدا کیا اور ہر انسان کو الگ الگ شکل و صورت عطا کرنے کے ساتھ ایک دوسرے سے جدا صلاحتیں عطا کی ہیں۔ یہی حال دوسری مخلوقات کا ہے جو ایک جنس ہونے کے باوجود آپس میں نہیں ملتی۔
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ
’’بے شک آپ کا رب کما ل درجے کا پیدا کر نے اور سب کچھ جاننے والا ہے ۔‘‘ (الحجر: 86)
اَوَ لَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰى اَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلٰى وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُ (یٰس: 81)
’’کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے وہ انہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ؟کیوں نہیں وہ تو سب کچھ پیدا کرنے والا اورجاننے والاہے۔‘‘
مذکورہ بالا تمام اسمائے گرامی لغوی، معنوی اور توصیفی اعتبار سے ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود کوئی بڑے سے بڑا علّامہ ان کی ماہیّت اور لطافت کو پوری طرح بیان نہیں سکتا۔ تاہم سمجھنے کے لئے ان اسمائے مبارکہ میں خالق کا نام انسان کی فہم کے زیادہ قریب اور آسان ہے۔ اس لئے جن آیات میں اس کا خالق اور جاعل ہونا بیان کیا گیا ہے اور ان میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان ہوا یہاں انہیں آیات کا حوالہ دیا جائے گا تاکہ معلوم ہو کہ خالق نے ہمیں کیوں پیدا کیا اور ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے۔
يٰاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ اسی نے تمہارے لیے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی نازل فرما کر اس سے تمہارے لیے پھل پیدا کیے جو تمہارا رزق ہیں، حقیقت جاننے کے باوجود اللہ کے ساتھ شریک نہ بنائو۔ ‘‘ (البقرۃ: 21۔22)
اَنْدَادًا’’ند‘‘ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ہمسر اور شریک۔
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَااِلٰهَ اِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ (الانعام: 101تا 103)
’’وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی کیونکہ اس کی بیوی ہی نہیں ؟ اس نے ہرچیز پیدا کی اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والاہے۔ یہی اللہ تمہار ا رب ہے۔ اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ،ہرچیز کوپیداکرنے والا ہے، بس اسی کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز پرنگہبان ہے۔ اسے کوئی آنکھ نہیں دیکھ سکتی اور وہ ہر ایک کو دیکھتا ہے اور وہ نہایت باریک دیکھنے والا اورسب خبر رکھنے والاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ذات ہر قسم کی شراکت سے مبرّا اور اولاد کی ضرورت سے بے نیاز ہے۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا شریک ٹھہرانا مشرکوں کی ذہنی پستی اور فکری دیوانگی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطل تصورات اور ہر قسم کی یاوا گوئی سے پاک اور مبرّا ہے۔ کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس اللہ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسمان اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟ مقصد یہ ہے کہ ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مَا مِنْ شَفِيْعٍ اِلَّا مِنْ بَعْدِ اِذْنِهٖ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (یونس: 3)
’’یقیناً تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اورزمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر جلوہ نما ہوااور وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں ، وہی اللہ تمہارا رب ہے ، بس اسی کی عبادت کرو ۔ کیا تم نصیحت حاصل نہیںکرتے ؟‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس نے زمین ، آسمانوں کو بغیر کسی نمونے (Sample)کے چھ دن میں پیدا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ چاہتے تو وہ ایک لمحہ میں بھی زمین و آسمانوں کو پیدا کرسکتے تھے۔ لیکن اس میں یہ حکمت ظاہر فرمائی کہ ہر کام کو مناسب وقت دینا اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ جس کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہر چیز یا کام اپنے طبعی تقاضوں کے مطابق کما حقہ سر انجام پائے۔ ’’اللہ‘‘ ہی زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ زمین و آسمانوں کی پیدائش اور کائنات کا نظام سنبھالنے میں اس کا کوئی ساجھی، شریک اور مشیر نہ تھا، نہ ہے اورنہ ہوگا اورنہ اس نے اپنی خدائی میں کسی کو ذرہ برابر اختیار دیا ہے۔جب کائنات کی تخلیق اور نظام چلانے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک ، معاون اور مشیر نہیں تو اس کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے کی جرأت کیسے کرسکتاہے؟ لوگو اللہ ہی تمہارا رب ہے لہٰذا صرف اور صرف اسی ایک کی عبادت کیا کرو۔ اتنے بڑے حقائق اوردلائل کی موجودگی میں کیا تم نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار ہو؟ نصیحت سے مراد یہاں توحید کا عقیدہ اور خالصتاً اللہ کی عبادت ،تابعداری کرنا ہے۔ جو شخص اس کو نہیں مانتا وہ ہدایت یافتہ نہیں ہوسکتا۔ اس آیت مبارکہ میں تخلیق ِکائنات کا ثبوت دینے کے بعد اس بات کی پرزور تردید کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی سفارش کا محتاج اوراسے ماننے پر مجبور نہیںجب کہ مشرک کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بزرگوں سے خوش ہوکر انہیں اپنی خدائی میں کچھ اختیار دے رکھے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی سفارش مسترد نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بے خوف اور اس سے دور کردیتا ہے۔ جس سے اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور اعتقادی اور عملی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لیے ہر نبی نے اس عقیدہ کی تردید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ’’رب‘‘ ہونے کا تقاضا ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهٖ هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا (مریم: 65)
’’وہ آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور ان ساری چیزوں کا جو ان کے درمیان ہیں پس تم اسی کی بندگی کرو اور اسی کی بندگی پر قائم رہو۔ کیا ہے تمہارے علم میں اس کے ہم نام کوئی ہستی ہے ؟‘‘
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر رسول کریم eکی ڈھارس بندھانے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ جب کفار اور مشرکین آپ کی مخالفت کریں تو آپ بالخصوص نماز میں اپنے رب کو یاد کیا کریں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ ا ن لوگوں سے الجھنے اور پریشان ہونے کی بجائے۔ آپ اپنے رب کے ذکر و فکر میں مصروف ہو جایا کریں تاکہ آپ پر اُس کی رحمت نازل ہو جس سے آپ کا غم دور ہوگا، اسی اسلوب اور ضرورت کے پیش نظر یہاں بھی آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ اپنے رب کی عبادت کریں اور اس کی عبادت کرنے پر قائم رہیں، اسی کا نام لیتے رہیں۔ وہ ایسی لازوال اور بے مثال ہستی ہے جس کا ہمسر ہونا تو دور کی بات کوئی اس کاہم نام ہی نہیں۔
یہی بات سمجھاتے ہوئے سیدناابراہیم uنے اپنے باپ اور قوم سے بیک وقت یہ استفسار کیا کہ اے والد گرامی اور میری قوم کے لوگو! بتلائو جن پتھر اور مٹی کی بنی ہوئی مورتیوں کے سامنے مراقبے کرتے ہو ،اور جن سے مانگتے ہو۔ ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ قوم کا جواب تھا کہ ہم نے اپنے آباء واجداد کو اس طرح ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ سیدنا ابراہیم uنے اُنھیں باور کروایا کہ تم واضح طور پربہک چکے ہو۔ (الانبیاء : ۵۱ تا ۵۴ )
سیدنا ابراہیم uنے اپنی قوم کو یہ بھی سمجھایا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اُسی سے ڈرتے رہو اگر تم حقیقت جانتے ہوتو تمھارے لیے یہی بہتر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر تم بتو ں کی عبادت کرتے ہو اور پھر اُن کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہو یہ تمھیں کسی قسم کا رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ صرف ایک اللہ سے رزق مانگو اُسی ایک کی عبادت کرو اور اُسی کا شکریہ ادا کرو کیونکہ تم سب نے اُسی کی طرف پلٹ کر جاناہے۔
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْكًا اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ وَاِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ وَمَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ (العنکبوت: 17۔18)
’’تم اللہ کو چھوڑ کر جن کی عبادت کرتے ہو وہ تو محض بت ہیں اور تم جھوٹ بناتے ہو،حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے سوا تم جن کی عبادت کرتے ہو وہ تمہیںرز ق دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ ہی سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو۔ اسی کی طرف تم پلٹ کرجانے والے ہو۔ اگر تم جھٹلادو تو تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور رسول پر واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہے۔ ‘‘
يٰاَيُّهَاالنَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗ وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـًٔا لَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ (الحج: 73۔74)
’’اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو! اللہ کو چھوڑ کر جن معبودوں کو پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا تو نہیں کرسکتے اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے کمزور ہیں۔مددچاہنے والے بھی اورکمزور ہیں جن سے مدد مانگی جاتی ہے وہ بھی۔ ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں پہچانی جس طر ح پہچاننے کا حق ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ قوت اوربڑی عزت والا ہے۔ ‘‘
شرک کا عقیدہ اس قدر ناپائیدار اور کمزور ترین ہے کہ اگر اس پر معمولی سا غور کر لیا جائے تو اسے چھوڑنا انسان کے لیے نہایت ہی آسان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مشرک شرک کے بارے میں انتہائی جذباتی ہوتا ہے جس وجہ سے مثال بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے لوگو! تمھارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے۔ اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ یعنی اس سے بدکنے کی بجائے اس پرٹھنڈے دل کے ساتھ غور کرو۔بے شک جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے بے شک وہ سب کے سب اس کا م کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار ، اگر مکھی کوئی چیز اُڑا لے جائے تو وہ اُس سے چھڑا نہیں سکتے۔ مراد یں مانگنے والے اور جن سے مرادیں مانگی جاتی ہیں سب کے سب کمزور ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں جانی جس طرح اُس کی قدر جاننے کا حق تھا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بڑا طاقت ور اور ہر چیز پر غالب ہے۔ ان الفاظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ مشرک کو شرک سے بالفعل روکنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں وہ ہر قسم کی قدرت اور غلبہ رکھتا ہے لیکن اس نے اپنی حکمت کے تحت مشرک کو مہلت دے رکھی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے شرک کی بے ثباتی ثابت کرنے اور اس سے نفرت دلانے کے لیے ایسے جانور کی مثال دی ہے۔ جس سے ہر آدمی نفرت کرتا ہے۔ عام مکھی کی مثال اس لیے دی گئی ہے کہ یہ اس بات کا امتیاز نہیں کرتی کہ جس چیز پر بیٹھ رہی ہے وہ کس قدر غلیظ اور بدبو دار ہے یہی وجہ ہے کہ ایک وقت وہ گندگی کے ڈھیر پر بھنبھنا رہی ہوتی ہے اور دوسرے لمحہ کھانے والی چیز پر جا بیٹھتی ہے۔ مکھی اور کتاکسی چیز سے سیر نہیں ہوتے اس لیے مشرک کی مثال کتے کے ساتھ بھی دی گئی ہے۔ (الاعراف: ۱۷۳ تا ۱۷۶)
کردار کے اعتبار سے یہی مشرک کی مثال ہے کہ وہ عقیدہ توحید کی عظمت اور برکت کو چھوڑ کر جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے یہاں تک کہ ایسے لوگوں کے چرنوں میں جا بیٹھتا ہے جنہیں اپنی پاکی ،پلیدی کا بھی خیال نہیں ہوتا وہ ایسے لوگوں سے مانگتا ہے جو دربدر کی ٹھوکریں کھاتے اور مزارات پر آنے والوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں یہ تو کلمہ گو حضرات کا حال ہے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے وہ شرک کرنے کی وجہ سے انسانیت سے اس حد تک گر چکے ہیں کہ ان میں کچھ لوگ جانوروں اور مجذوبوں کے نفس کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ اس لئے کہ مشرک نے اپنے رب کی قدر نہیں پہچانی جس وجہ سے وہ غیروں کی عبادت کرتا اور جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ حالانکہ فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کی عبادت کرے اور دنیا، آخرت کی ذلّت سے مامون ہو جائے۔
----
میاں محمد جمیل
عربی ڈکشنری کے لحاظ سے لفظِ شرک کا مصدر (روٹ) ’’شرکۃ‘‘ اور اشراک سے بنا ہے جس کا معنٰی ہے ۔دو ملکوں یا دو چیزوں کا اکٹھا ہونا۔ برصغیر میں دینِ اسلام کے عظیم سکالر اور محدث شاہ ولی اللہa نے شرک کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
1ایک سے زیادہ خدائوں کا عقیدہ رکھنا۔
2 اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی جیسے نام رکھنا جیسے داتا،گنج بخش وغیرہ۔
3 ذاتِ کبریاء کی صفات جیسی کسی میں صفات سمجھنا اور اسے لجپال، عزت دینے والاجاننا۔یہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک شرک ہے جو سب سے بڑا جرم اور گناہ ہے۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا (النساء:116)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں معاف کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، شرک کے علاوہ جس کے چاہے گا گناہ معاف فرما دے گا، جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہو چکا۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اللہِ t قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللہِeأَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ (رواہ البخاری: کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ …)
’’سیدناعبداللہ(ابن مسعود) tبیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e سے سوال کیا گیا کہ کونسا گنا ہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے ؟آپ نے فرمایا: تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پید اکیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا۔ اس کے بعد ؟آپe نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی ۔میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ۔‘‘
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ tعَنِ النَّبِیِّ e قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ (رواہ مسلم: کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار)
’’نبی eسے سیدنا انس بن مالک tبیان کرتے ہیں، آپe فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والوں سے متعلق پوچھےگا اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو ۔کیا اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے ؟وہ کہے گا۔ جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ جب تو آدم کی پُشت میں تھا۔ میں نے تجھ سے اس سے چھوٹی بات کا مطالبہ کیا تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ حدیث بیان کرنے والا سمجھتا ہے کہ آپ eنے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں تجھے جہنم میں نہ ڈالتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا ۔ ‘‘
قرآن مجید اور حدیث رسولeسے ثابت ہوتا ہے کہ شرک کی ابتدا سیدنا نوحu کی قوم سے ہوئی۔ انہوں نےسیدنا آدمu کے پانچ بزرگوںکے نام پر بت بنائے اور ان کی پوجا شروع کر دی۔ علامہ ابن کثیر نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا آدمu کے بیس بیٹے اور بیس بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام ودّ تھا۔ مورخین نے ان کا نام شیث بھی بتلایا ہے۔ ان کے بھائیوں نے اُسے اپنا سردار تسلیم کیا اور یہ اپنے وقت کے نبی تھے۔ ان کے صاحبزادےسواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے۔ (تفسیر ابن کثیر: سورۃ آیت ولا تذرن وداً…)
فَلَمَّا مَاتُوا قَالَ أَصْحَابُهُمُ الَّذِينَ كَانُوا يَقْتَدُونَ بِهِمْ: لَوْ صَوَّرْنَاهُمْ كَانَ أَشْوَقَ لَنَا إِلَى الْعِبَادَةِ إِذَا ذَكَرْنَاهُمْ، فَصَوَّرُوهُمْ، فَلَمَّا مَاتُوا، وَجَاءَ آخَرُونَ دَبَّ إِلَيْهِمْ إِبْلِيسُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَبِهِمْ يُسْقَوْنَ الْمَطَرَ فَعَبَدُوهُمْ (تفسیر ابن جریر آیت ولا تذرن ودّاً…)
’’یہ بزرگ جب وفات پا گئے تو ان کے عقیدت مندوں نے کہا ہم ان کی تصویریں بنا لیں، تاکہ ہم ان کی صورتیں دیکھ کر ان کی یاد تازہ کریں۔ جس سے اللہ کی عبادت میں لذت اور شوق پیدا ہو گا، اس بنا پر انہوں نے ان کے مجسمے بنا لیے ۔ اس طرح عبادت کرنے اور مجسمے بنانے والے جب فوت ہو گئے تو ان کی اولاد کو شیطان نے سمجھایا کہ تمہارے بڑے ان کی عبادت کیا کرتے اور انہی کے صدقے بارش سے سیراب ہواکرتے تھے، چنانچہ انہوں نے ان بتوں کی پوجا شروع کر دی۔‘‘
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (التوبۃ:30)
’’اوریہودیوں نے کہاعزیراللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہامسیح اللہ کابیٹا ہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں۔ وہ ان لوگوں جیسی بات کر رہے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔اللہ انہیںغارت کرے، کدھربہکائے جارہے ہیں۔‘‘
یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناء پر یہ عقیدۃ بنایا کہ عزیرu اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ جس کے دو سبب مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب موسیٰu کی وفات کے بعد یہودیوں پر بختِ نصر نے حملہ کیا تو اس نے کلی طور پر تورات ختم کرنے کا حکم دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا میں تورات بالکل ناپید ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے دینِ موسوسی کی تجدید کے لیے عزیرu کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے وحی الٰہی کی روشنی میں تورات کو دوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ عزیرu سو سال تک فوت رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر زندہ فرمایا جب وہ اٹھے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھانا سیدناعزیر کے ساتھ تھا وہ سو سال گزرنے کے باوجود پہلے کی طرح تروتازہ رہا۔ اس کی تفصیل سورۃ البقرۃ آیت ۲۶۰ میں بیان کی گئی ہے ان معجزات کی بناء پر یہودیوں نے سيدنا عزیر u کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔
یہودیوں نے عقیدت میں آ کرسیدناعزیرuکو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا، ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نے سیدناعیسیٰuکو اللہ کا بیٹا اور سیدہ مریم کو اللہ تعالیٰ کی بیوی قرار دیتے ہیں۔ ان میں بے شمار عیسائی ایسے ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰu ہی ’’اللہ‘‘ ہیں۔ ان کے بقول ’’اللہ‘‘ عیسیٰu بن کر اُتر آئے ہیں۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (المائدۃ:72 تا75)
’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ ’’اللہ‘‘ مسیح ہی تو ہے جومریم کابیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا۔ اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے گا بلاشبہ اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیںہو گا۔ ’’یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ ’’اللہ‘‘ تین میں سے ایک ہے، حالانکہ ایک معبود کے سواکوئی معبودِ برحق نہیں ۔ اگر اس سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے کفرکیاانہیں ضرور دردناک عذاب ہو گا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کے حضور توبہ اور اس سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ، اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔مسیح ابن مریم ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ ہے، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح آیات کھول کر بیان کرتے ہیں پھروہ کیسے بہکائے جاتے ہیں۔ ‘‘
یہود و نصاریٰ نے صرف اس پر اکتفا نہیںکیا کہ عزیرu اور عیسیٰu ’’اللہ‘‘ کے بیٹے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے آپ کو ’’اللہ‘‘ کے بیٹے قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم ’’اللہ‘‘ کے محبوب اور لاڈلے ہیں ۔
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ (المائدۃ:18)
’’اوریہود ونصاریٰ نے کہا ہم ’’اللہ‘‘ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ان سے پوچھیں کہ پھروہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیںکیوں سزا دیتا ہے؟ بلکہ تم انسان ہو جو اس نے پیدا کیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتاہے اورجسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے، آسمانوں ، زمینوں اوران کے درمیان جو کچھ ہے اس کی بادشاہی ’’اللہ‘‘ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘
یہود، نصاریٰ کی طرح ایرانیوں نے قبل از اسلام کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا تو نہیں بنایا لیکن انہوں نے دو خدا بنا لیے ایک کا نام یزدان اور دوسرے کا نام اہرمن رکھا بقول ان کے یزدان خیر اور نفع دینے کا اور اہرمن سزا دینے اور نقصان سے دوچار کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے یوں تردید فرمائی ہے:
وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْا اِلٰهَيْنِ اثْنَيْنِ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ (النحل: 51۔52)
’’اور اللہ نے فرمایادومعبود نہ بنائو وہ صرف ایک ہی معبود ہے بس صرف مجھ ہی سے ڈرو،اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ عبادت ہمیشہ اسی کی کرنی ہے۔ کیا ’’اللہ ‘‘کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اے لوگو! دو الٰہ نہ بناؤ۔ یاد رہے کہ اسلام سے قبل ایرانیوں نے دو الٰہ بنا رکھے تھے حالانکہ اس حقیقت میں رائی کے دانے کے برابر بھی شبہ نہیں کہ کائنات کاخالق اورمالک ایک ہی اِلٰہ ہے۔ اس کا حکم ہے کہ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے۔ ’’اللہ‘‘ ہی ان کا دائمی مالک اور حقیقی خالق ہے، لہٰذا اسی سے ڈرنا ہے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ زمین وآسمان اور ہر چیز اسی کی مِلک ہے اور ہر چیز اسی کی عبادت اور اطاعت کر رہی ہے۔لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ کسی دوسرے کی عبادت کرنے کی بجائے صرف ایک رب کی عبادت کرے۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انسان اپنے نفع و نقصان اور ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھے۔ لیکن مشرک کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے بھی فائدہ دینے اور و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں ۔اسی لیے کوئی مزاروں کے سامنے جھکتا ہے اور کوئی بتوں، جنات اوردوسری چیزوں سے ڈرتاہے۔ایسے لوگوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو حالانکہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نہ صرف مِلک ہے بلکہ اس کی اطاعت اور بندگی میں لگی ہوئی ہے۔
اہل مکہ شرک کرنے میں سب سے آگے بڑھ گئے یہ ہر قسم کا شرک کرنے کے ساتھ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔
وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ اَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ (النحل: 57تا59 )
’’اور وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیا ں تجویز کرتے ہیں ، حالانکہ وہ پاک ہے اور ان کے لیے وہ ہے یعنی بیٹے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبر ی دی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا ہوتا ہے اور وہ پریشان ہوجاتا ہے اور اس خوشخبری کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کیا اس ذلت کو برداشت کر لے یا اسے زمین میں گاڑدے، خبردار ! برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں ۔‘‘
اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِيْنَ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ اَوَ مَنْ يُّنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِيْنٍ وَجَعَلُوا الْمَلٰٓىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْـَٔلُوْنَ (زخرف: 16تا19)
’’کیا اللہ نے اپنی مخلوق سے اپنے لیے بیٹیاں اور تمہارے لیے بیٹے پسند کیے ہیں ؟حالانکہ جن کو یہ لوگ الرّحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی پیدائش کی خبر ان میں سے کسی کو دی جاتی ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم زدہ ہو جاتا ہے۔ کیا ’’اللہ‘‘ کی اولادوہ ہے جو زیور میں پرورش پاتی ہے اور بحث وتکرار میں پوری طرح اپنا مدعا واضح نہیں کر سکتی اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی ۔‘‘
اہل مکہ کی طرح بے شمار لوگوں کا عقیدہ تھا اور ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیںجو اس کے نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ جس کی قرآن مجید نے عقلی اور فطری حوالے سے یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ یہ لوگ کس قدر ناعاقبت اندیش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں اور اپنے لیے بیٹے ۔حالانکہ ’’اللہ ‘‘کو اولاد کی حاجت نہیں اور وہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے ۔ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوتو انہیں خوشخبری اور مبارک دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ اور غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اس خوشخبری کو اپنے لیے ذلت اور عار سمجھتے ہیں ۔ اس ذلت کی وجہ سے سوچتے ہیں کہ بیٹی کود زندہ رہنے دیں یا زمین میں گاڑ دیں۔ غور کریں کہ یہ کس قدر بُرا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں پہلی بات یہ سمجھائی گئی ہے کہ بیٹی کو اس لیے ذلت کا باعث سمجھنا کہ وہ کمانے کی بجائے کھانے کے لیے پیدا ہوتی ہے یا اس کی وجہ سے دوسرا شخص اس کا داماد بن جاتا ہے۔ اس سوچ کی بنا پر بیٹی کو برا جاننا اور اسے زندہ درگور کر دینا بدترین فیصلہ ہے ۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی بتلا دی کہ مشرک اپنے لیے بیٹے پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتا ہے یہ سوچ اخلاقی اور اعتقادی طور پر بدترین ہے۔
مشرکین کی مردہ فطرت کو بیدار کرنے کے لیے ان کی نفسانی کیفیت اور فطری خواہش کا ذکر فرما کر سوال کیا ہے کہ کیااللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں جو زیور کو پسند کرتی ہیں یعنی نرم ونازک اور کمزور ہوتی ہیں اور بحث و تکرار کے دوران اپنا مؤقف کھول کربیان نہیں کر سکتیںکسی کے ساتھ جھگڑا ہو جائے تو حیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر رو پڑتی ہیں۔کیا انہیں ’’الرحمٰن‘‘ کے لیے پسندکرتے ہو اوراپنے لیے اُسے عار سمجھتے ہو ۔ غور کروکہ یہ کیسی سوچ اور فیصلہ ہے ؟ جس بنا پر تم نے ملائکہ کو ’’الرحمٰن‘‘ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے حالانکہ ملائکہ اس کے غلام ہیں کیا یہ بات کہنے والے اس وقت موجود تھے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا تھا کہ ان کی گواہی لکھ لی جائے ایسی بات ہرگز نہیں۔ یہ عقیدہ رکھنے اور ہرزہ سرائی کرنے والوں کو قیامت کے دن ضرور جواب دینا ہوگا۔
وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًااِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ (الزخرف: 15)
’’لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔‘‘
مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیّت کا اعتراف کرنے اوراس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود ’’اللہ‘‘ کے بندوں میں سے کچھ بندوں اور فرشتوں کو اس کا حصہ بناتے ہیں۔جوکفر اور اس کی ناشکری کی واضح نشانی ہے قومِ نوحuنے پانچ فوت شدگا ن کواللہ تعالیٰ کا جز بنایا، ابراہیمuکی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا ،فرعون نے اپنے آپ کو ’’رب الاعلیٰ‘‘ کے طورپر منوایا ،یہودیوں نے عزیرuکو اللہ کا بیٹا قرار دیا، عیسائیوں نے عیسیٰ u اوران کی والدہ مریمiکو رب کا جز بنایا۔ امتِ مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ اس میںایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کرتا ہے اورکثیر تعداد نبیu کو’’ نور من نوراللہ ‘‘کے طور پر مانتی اوریارسول اللہ کہہ کر آپ سے مدد مانگتی ہے۔
مذکورہ بالا آیت میں شرک کوپرلے درجے کی ناشکری قراردیا گیاہے شرک کرنے والا اس لیے ناشکرا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و عظمت کی خاطر صرف اپنے سامنے جھکنے اور دردر کی ٹھوکروں سے بچنے کا حکم دیالیکن مشرک اس بات پرراضی اوراس نعمت پر شکر گزارہونے کی بجائے دردر کی ٹھوکروں کوپسند کرتاہے۔ اس سے بڑھ کرانسا ن کی ناشکری کیا ہوسکتی ہے ؟
وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ(الانعام: 100تا102)
’’اورانہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک بنادیا، حالانکہ اللہ ہی نے انہیں پیداکیا ہے یہ لوگ بغیرعلم کے اللہ کے لیے بیٹے اوربیٹیاں بناتے ہیں ، وہ پاک ہے اور اس شرک سے بہت بلند و بالا ہے وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی کیونکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہرچیز پیدا کی اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔ یہی ’’اللہ‘‘ تمہار ا رب ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، ہرچیز کوپیداکرنے والا ہے سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز پرنگہبان ہے۔‘‘
کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس ’’اللہ‘‘ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسمان اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلبی سکون کا باعث ، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا ذریعہ ہے ۔ کسی کی اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے جبکہ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں ، بعض انبیاءo کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہو جاتا ہے، اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسی کمزوریوں اور تمثیلات سے پاک ہے۔ اس کا ارشاد ہے ’’لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئ‘‘ مشرک بتائیں کہ زمین و آسمانوں میں کون سی چیز اللہ تعالیٰ کے مشابہ اور ہم جنس ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پر حالات و واقعات کے منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم ودائم ہے وہ ضعف و کمزوری اور نقص و نقصان سے پاک ہے۔ نہ اس کی ذات سے کوئی چیز پیدا ہوئی اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے، وہ ہر چیز کا خالق و مالک اور ذمہ دار ہے ۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا جُز قرار دینا اس قدر سنگین گناہ اور جرم ہے کہ اس سے زمین و آسمان پھٹ سکتے ہیں۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا يَنْبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّا اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (مریم: 88تا 93)
’’کہتے ہیں کہ الرحمان کی اولاد ہے ۔تم لوگ بہت ہی بیہودہ بات کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ یہ کہ انہو ں نے الرّحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے ۔زمین اورآسمانوں میں جو ہے سب کے سب اس کے حضور غلام کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے ،کیونکہ نہ اس کی بیوی ہے نہ وہ محبت کرنے یا کسی سے خدمت کروانے کا محتاج ہے اور نہ اُسے سلسلہ نسب کی حاجت ہے، زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اس کا تابع فرمان اور اس کے سامنے عاجز غلام ہے ۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنااللہ کے ہاں سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں ۔
۔۔۔