رمضان المبارک احتساب اور امن و سلامتی

شاہ فیض الابرار صدیقی

اللہ کی نعمتوں میں رمضان المبارک کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ یہ وہ عظیم عبادت ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شدت سے انتظار رہتا تھا اور اس ماہِ مقدس کاآپ جس شوق وذوق کے ساتھ استقبال کرتے تھے، اس کا ذکر خود ایمان افروزاور مہمیز کا کام کرتا ہے اور پھر جب رمضان کا چاند نظر آجاتا تو لسان نبوی ﷺسے یہ الفاظ گوہر بن کر ضوفشاں ہوتے

: اَللّٰھُمَّ اَھْلِہٗ عَلَیْنَا بِالْامْنِ وَالْاِیمَانِ والسَّلَامۃِ والْاسِلَام ربّی وربَّک اللّٰہ (بخاری)

اے اللہ ! ہم پر یہ چاند امن و ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ (اے چاند) میرا اور تیرا رب اللہ ہی ہے۔رمضان کی برکتوں کے حوالے سے روزے کے دو اہم پہلوؤں کو بطور خاص مدنظر رکھنا چاہیے جو روزے کی روح اور مقصدکو سمجھنے میں مد د دیتے ہیں، یعنی صبراور صبر کا تعلق خواہشات نفسانی پر قابوکی صلاحیت پیدا کرنا اور اطاعت الہی اورراہ حق ثابت قدمی سے ہے،اور مواساۃ یعنی غریبوں اور دوسرے انسانوں کے لیے مالی ہمدردی اور امداد کا مہینہ۔ اور مواساۃ کا تعلق دوسرے انسانوں کے لیے رحمت اور اخوت کے جذبات کو پروان چڑھاکر ایک دوسرے کے لیے سہارا بننے اور انسانی معاشرے کو محبت، تعاون اور سلامتی کا گہوارا بنانے سے ہے۔ روزے کے باب میں قرآن نے تین چیزوں کی طرف خصوصیت سے ہمیں متوجہ کیا ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ، تاکہ تم صاحبِ تقویٰ بن جاؤ،

لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ، تاکہ تم اپنے رب کا شکر ادا کرو

، لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ ،

تاکہ تم اس انعام الٰہی اور عطاے ہدایت ربانی پر اللہ کی کبریائی بیان کرو اور قرآن کے پیغام کو پھیلااور بلند کرکے اس انعام کا شکر ادا کرو۔یہ بات واضح رہے روزے اور دیگر عبادات میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ان کی ادائیگی ایک قابلِ محسوس شکل رکھتی ہے، جب کہ روزہ ایک ایسی مخفی عبادت ہے جسے صرف وہ جس کی عبادت کی جارہی ہے، جانتا ہے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں: ابن آدم کا ہر عمل کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔ ایک نیکی ۱۰نیکیوں کے برابر، حتیٰ کہ ۷۰۰ گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔ اللہ کریم فرماتا ہے سواے روزے کے جو صرف میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔(مسلم)۔ تقوی ، صبر اور ہمدردی جیسی اعلیٰ صفات کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ ایک اور اہم پیغام بھی لے کر آتا ہے جو تمام عبادات اور معاملات کے مغز کی حیثیت رکھتا ہے، صادق الامین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

من صام رمضان ایماناًواحتساباً غفرلہ ما تقدم من ذنبہ ’’

جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے‘‘ (بخاری، حدیث ۱۹۰۱، مسلم، حدیث ۱۷۵)۔ اگر غور کیا جائے تو یہ جامع قولِ حق و صداقت، یعنی ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے کا رکھنا روزے کی روح ہے اور رمضان سے قبل پیش آنے والے تمام معاملات پر غور کرنے کی دعوت۔ ان کا تجزیہ کرکے اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنے کی تربیت ہے۔غرض کہ ضرورت ہے کہ ماضی کے ہرہرعمل کے بارے میں خود احتسابی اور دیانت و امانت اور ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اس رمضان کا استقبال کیا جائے۔ اس احتساب کا آغاز، اپنے آپ سے اس سوال کے ذریعے ہو گا کہ دعوتِ دین اور اقامتِ دین اور فرائض کی ادائیگی اس کا رویہ کیا رہا ، یا کام میں مصروف ہونے کے عذر نے اسے سستی پر آمادہ کردیا؟ کیا اس کی زبان سے اس کا پڑوسی، حتیٰ کہ اس کا نظریاتی اور سیاسی مخالف محفوظ رہا اور اُس نے حق کا اظہار اس طرح کیا کہ ’’دیکھو تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا ان پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہیں، ایمان لانے والوں کے لیے شفیق اور رحیم ہیں‘‘۔ (التوبہ ۹:۱۲۸)

ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس کا قول، قولِ لیّن ہو، اس کا میٹھا بول دل اور روح میں جاگزیں ہوجائے (طٰہٰ ۲۰:۴۴)۔ وہ مخالف کی تلخ کلامی، الزام تراشی، درشتی، غرض ہرہر غلط بات کا جواب مخالف کی زبان میں نہ دے بلکہ حکمت سے دے جس طرح ایک داعی کی زبان اظہار کرتی ہے۔ ’’اور اس شخص کی بات سے اچھی بات کس کی ہوگی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں۔ اور اے نبی ﷺنیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو، تم دیکھو گے کہ تمھارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے۔ یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوں کو جو بڑے نصیب والے ہیں۔ اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اُکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے‘‘

۔ (حم السجدہ ۴۱: ۳۳۔۳۶)

ان اہم قرآنی ہدایات کی روشنی میں اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہرشخص ذاتی طور پر اپنا احتساب کرے اور اس کے ساتھ ہرمسلمان، ہرپاکستانی موجودہ حالات کے تناظرمیں اپنا اپنے رویوں اور احساسات، اپنے مقاصد، اہداف اور سرگرمیوں کو، اور جو عہد اس نے اپنے اللہ سے کیا ہے اس کی روشنی میں احتساب کے ساتھ عزمِ نو کا عہد کرے، تاکہ رمضان کی برکتوں سے وہ خود بھی فیض یاب ہو اور ملک و ملت اور تحریک و دعوت کو بھی قوت حاصل ہو۔ ماہ رمضان کو ہم صرف عبادتوں کا مہینہ سمجھیں اور اپنی عبادتوں کا دائرہ کار اپنی مکمل زندگی پر پھیلا دیں تو ہمارے گھر ، بازار، تعلیمی ادارے اور کارخانے سب رمضان کی عبادتوں کو اس کے بعد بھی جاری رکھ سکیں۔ ارباب اقتدار اور وارثین منبر و محراب کے کاندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری ہے کہ درج ذیل امور پر اپنی توجہ مرکوز کریں : (۱) وسیع پیمانے پر عوامی رابطہ مہم جس کا پس منظر لوگوں کو دین توحید سے آگاہ کرنا۔ (۲) اسلام اُمید کا نام ہے نصرتِ الٰہی پر یقین کے ساتھ بہترین نتائج کی بشارت اور ان کے لیے کوشاں ہونے کا نام ہے۔ کیا لوگوں میں اُمید اور حالات کے قابلِ تبدیل ہونے کا احساس پیدا کیا جا سکا ہے کیا ملک کے عوام اور نوجوانوں پر طاری مایوسی کو ایک الگ، مثبت اور قابلِ عمل منصوبہ پیش کر کے دُور کیا گیا یا سودی قرضے دے کر منفی اور غیرتعمیری دائروں میں گردش کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اوراللہ کے ساتھ جنگ کو مضبوط معیشت کا نام دیا جا رہا ہے۔ (۳)قرآن کریم ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ کل تک جو ہمارا دشمن تھا ہم اسے اپنی بھلائی سے ولی حمیم میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی وضع کریں، اور پھر احتساب کریں کہ اللہ کی نصرت سے ہم کتنے مخالفین کو غیرجانب دار کرسکے۔ (۴) اس پہلو سے بھی احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم نے دعوت کی اشاعت کے لیے جن جن محاذوں پر کام کیا، کیا ان میں گھر بھی شامل رہا ، اور اگر شامل رہا ہے تو کس حد تک ابلاغی خلا دُور کیا جاسکا۔ (۵) اس بات کے بھی احتساب کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک برقی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا، مثلاً فیس بک یا ٹویٹر یا دیگر ویب کے ذرائع کو استعمال کرسکے یا محض ’عرب بہار‘ کے خودبخود واقع ہوجانے کی اُمید پر قانع رہے۔

رمضان میں جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اس کے تمام ماضی کے گناہ ، بھول، غیرشعوری طور پر غلطی سب کو رب کریم معاف کردیتا ہے۔ جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ قیام کیا اس کے تمام صغیرہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔جس نے رمضان میں ایمان و احتساب کے ساتھ رات کو قیام کیا اس کے نہ صرف ماضی بلکہ دو رمضانوں کے درمیان تمام صغیرہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔ اس ماہ کا ہرلمحہ مطالبہ کرتا ہے کہ اسے تعمیرسیرت، ضبطِ نفس، عوام الناس کی خدمت، ناداروں اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے اور ملک و ملّت میں عدل و انصاف کا نظام قائم کرنے کی کوششوں میں صرف کیا جائے، تاکہ یہ مہینہ قیامت میں ہماری شفاعت اور گواہی دے کہ ہم نے اس کا حق ادا کردیا۔

وطن عزیز اس وقت عالم کفر کی جس چہار اطراف یلغار کا نشانہ بن چکا ہے اس کے نتیجے میں انتشار ، مایوسی، بے مقصدیت ، بے سمت جیسے منفی عناصر ہماری قوم اور افراد قوم کے اندر سرایت کر گئے ہیں۔ اور ہمارے ارباب اقتدار ہر معاملہ کا حل محض اسباب اور مادیت کی بنیادوں پر تلاش کرنے میں مصروف عمل ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ : لا يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها(مسند احمد) اس امت کی اصلاح بھی امو ر میں ممکن ہے جس کے ذریعے پہلی امت نے اپنی اصلاح کی تھی اور پہلی امت کی اصلاح صرف اور صرف قرآن مجید کے ذریعے ممکن ہوئی تھی اور رمضان المبارک کو قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہر مسلمان قرآن کے ساتھ اپنے روابط کا اعادہ کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ یہ تعلق اب ٹوٹے گا نہیں ۔لیکن رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد مساجد ویران، قرآن طاق نسیاں پر، اور ہم اسی طرح روایت سیئۃ پر گامزن ہو جاتے ہیں جس میں ہماری دینداری کا تعلق صرف مسجد کے ساتھ اور وہ بھی جمعہ کے اجتماعات تک اور باقی زندگی زبان حال سے لا دینیت کی علمبردار بنتی ہوئی نظر آتی ہے۔

المیہ تو یہ ہے کہ ہم جیسے لمحاتی طور پر رمضان میں تبدیل ہوتے ہیں اسی طرح ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ ہر مسئلہ کا حل عارضی بنیادوں پر تلاش کیا جائے لہذا دہشت گردی کو صحیح طور پر اپنی اساسیات سے حل نہ کیا جائےتو تشدد وانتہاپسندی کا دائمی خاتمہ ہونا ناممکن ہے۔دہشت گردی کا یہ سارا منظر نامہ کم وبیش تین عشروں پرمحیط ہے۔ ہر مکتبِ فکر اپنے اپنے فہم کے مطابق اس مسئلہ کومختلف پہلووں سے زیر بحث لاتا ہےجیسے مسلم امت پر امریکی جارحیت وبربریت،افغانستان پرہونے والے امریکی ظلم کے جواب میں اُن سے دین ونسل کے رشتے میں بندھے مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری، ڈرون حملوں کی شکل میں خود مختار پاکستانی ریاست پر ہونے والی مسلّمہ زیادتی اور بین الاقوامی جرم، پاکستانی حکومت کی امریکہ نوازی اور اُس سے مالی مفادات کے حصول کی شرعی حیثیت، پاکستانی شہریوں بشمول شمالی علاقہ جات کے باشندوں کے جان ومال کی ریاستی ذمہ داری، فریقین کے مابین معاہدات اور اُن کی پاسداری،رواداری وامن پسندی اور اس کا قیام، بم دھماکوں کا شرعی جواز اور مسئلہ تکفیرو خروج غرض کئی پہلوؤں سے دیکھا جاسکتا ہے۔اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تشدد پسندی میں دونوں طرف سے بے شمار معصوم پاکستانیوں کا خون بہہ چکا ہے۔ ڈرون حملوں کی شکل میں مرنے والے معصوم بچے،عورتیں اورعام شہری ہوں یا بم دھماکوں میں مارے جانے والے پاکستانی مسلمان،دونوں صورتوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کا اس سارے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں اور وہ سب بزبانِ قرآن بأي ذنب قُتلت کا مصداق ہیں۔ چونکہ طالبان اس وقت بزبانِ حکومت مذاکرات کے لیے آمادہ نہیں ہورہے ،اس لیے ہمیں اُن کے موقف کو سمجھنا چاہیے۔موجودہ الم ناک صورت حال کا پس منظر یہ ہے کہ: امن وامان کا بلاجواز خاتمہ، پاکستانیوں کو امریکی عقوبت خانوں میں بھیجنے میں مدد، معاہدات کی خلاف ورزی اور اس کا راستہ بند کرنا، ڈرون حملوں کی صورت میں درندگی، پاکستان میں اسلامی نظریات اور مراکز پر حکومتی جارحیت، ان تمام معاملات نے حکومت کو ایک جانبدار فریق بنا دیا جس سے اس کی حیثیت بھی متاثر ہوئی۔لیکن ہر مسئلہ آخر کار کسی نہ کسی حل کی طرف ضرور جاتا ہے اور یہ حل اکثروبیشتر میز پر ہی ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں بھی معاہدات ومذاکرات کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ مسلمانوں کےمابین جاری اختلافات کو صلح وصفائی سے حل کرنے کا قرآن کریم ہمیں حکم دیتا ہے کہ اگر مؤمنوں کی دونوں جماعتیں لڑائی کا شکار ہوجائیں تو ان میں صلح کرواؤ۔ملت اسلامیہ بالخصوص پاکستان میں جنگ وجدل اورافتراق وانتشارکفار کی مسلّمہ سازش اور محکم تدبیر ہےجس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ امریکہ نے معاہدات کے موقع پر ہمیشہ صلح جو شخصیات کو ہلاک کرنے میں دیر نہیں کی۔ خود وہ افغانستان میں صلح ومعاہدہ کی پالیسی پر کاربند ہے اور پاکستان میں جنگ و افتراق اس کا ہدف ومقصد ہے۔ یہ امربہت قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں جنگ وجدل کو جواز دینے کے لئے ان میں سے اکثر دہشت گردں کا تعلق بھی امریکہ یا شیطانی اتحادِ ثلاثہ سے ہی ہو، کیونکہ ان کا منطقی نتیجہ مذاکرات کا خاتمہ اور جارحیت کا آغاز ہے جو امریکہ کا ایجنڈا ہے۔ اور ماضی میں بھی پاکستان میں ہمیشہ اس طرح تشدد وجارحیت پروان چڑھتی رہی۔ڈرون حملے اور امریکی جارحیت اس ظلم نامے کا آغاز بنتے رہے، پھر کبھی جواب دینے والے امریکی ایجنڈے اور لابنگ کا شکار ہوئے اور اکثر وبیشترغیرملکی دہشت گردوں کی بہیمانہ کاروائیوں کو میڈیا کے ذریعے طالبان کے کھاتے میں ڈال کرمسلمانوں میں باہمی قتل ومنافرت کو فروغ دیا گیا اور اسلام کوبدنام کیا گیا۔ پاکستان میں بعض لوگ طالبان کے موقف کو پرزور طریقے سے پیش کررہے ہیں اور بعض لوگ حکومت کے استدلال کو… ان دونوں کو پیش کرنا اور ان کی صحت پر اصرار کرنا لڑائی اور افتراق کو پانی دینے اور اُس کو جواز بخشنے کی تدبیر ہیں۔ اُمّتِ مسلمہ میں جنگ وجدل کو پروان چڑھانے والا ہرراستہ غلط او رناروا ہے۔واضح رہے کہ حکومت کے خلاف کاروائیاں کرنا، ان کو کافر قرار دینا، سرکاری عہدیداران اور عوام کے جان ومال کو اُن کا معاون سمجھتے ہوئے مباح سمجھنے کا موقف طالبان کی اکثریت کا نہیں بلکہ اُن میں چند ایک انتہاپسند گروہوں کا ہے۔ ملک وملت کا مفاد صرف اور صرف صلح وصفائی میں ہے اور اس بے نام جنگ سے نکلنے میں ہے۔ اسی پر پاکستانی قوم کا ‘سیاسی اجماع بھی ہوچکاہے، جس کےخلاف حالات پیدا کرکے، دوبارہ جنگ کا آغاز کیا جارہا ہے، خدارا قتل وغارت کے اس ظالمانہ سلسلے کو بند کیا جائے اور پاکستان کو اَمن کے راستے پر ڈالا جائے۔نواز حکومت مذاکرات کی پرزور داعی رہی ہے، یہی اس کا مینڈیٹ ہے، لیکن افسوس صد افسوس کہ انہیں بھی عالمی سیاست کا شکار کرکے، پاکستانی قوم کو نہ ختم ہونے والی جنگ میں دھکیلا جارہا ہے۔نواز حکومت اپنے اصولی موقف سے ہٹ رہی ہے۔یہ اسلام اور پاکستان، دونوں کے تقاضوں اورآل پارٹیز کانفرنس کے مینڈیٹ کے منافی ہے۔ حکومت اور طالبان دونوں کو آخرکار اعتدال ومفاہمت کا مظاہرہ کرنا ،تشدد کا خاتمہ کرنا اور صلح ومذاکرات کا راستہ اختیارکرنا ہوگا۔ البتہ دونوں طرف بہت سی غلطیاں موجود ہیں جن میں باہمی مفاہمت واعتماد ہی تدریجاًکمی لاسکتی ہے۔یہ راستہ مشکل ضرورہے، لیکن اس کا انجام امن واستحکام ہوگا۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک انعامِ خاص ہے کہ پاکستان کا قیام اس مبارک مہینے میں بلکہ ۲۷رمضان المبارک کو ہوا۔ آیئے رمضان المبارک کے نعمت الٰہی ہونے کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں اور پھر اس مبارک مہینے میں اپنے، اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے حالات پر ایمان اور احتساب کے ساتھ نظر ڈالنے کی کوشش کریں، اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی توفیق سے نوازے اور پاکستان، اُمت مسلمہ اور تحریکِ اسلامی کو بھی ان اخلاقی، مادی اور اجتماعی قوتوں کے حصول کی سعادت سے فیض یاب کرے جو دورِحاضر میں اسلام اور مسلمانوں کو درپیش چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے لائق بنائیں۔

 

 

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے