رسول اکرمﷺ انسانوں کی فلاح اور ان کی اخلاقی تربیت کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں نبی اکرمﷺ ایک ایسے وقت میں مبعوث ہوئے جس کے ساتھ نبوت کا دروازہ بند ہو گیا اور انسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے آخری پیغام عطا کیا گیا حضور اکرمﷺ کی تعلیمی حکمت عملی کے نتیجے میں ایک طرف صفات المومنین کے حامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت تیار ہوئی تو دوسری طرف ایک مہذب معاشرہ تشکیل پایا جس کے نتیجے میں متمدن ریاست وجود میں آئی جو ایک اعلیٰ تہذیب و تمدن کی نمائندہ تھی مدینہ منورہ کی چار مربع کلومیٹر میںقائم ہونے والی ریاست دیکھتے ہی دیکھتے پہلے حجاز میں اپنے قدم مضبوط کرتی ہے پھر شمال کی طرف بڑھ کر قیصر کی سلطنت اپنے زیرنگیں کرتی ہے اور شمال مشرق کی طرف رخ کر کے کسریٰ ایران کی حکومت کے برج گرا دیتی ہے خلافت راشدہ کے ختم ہونے تک اس تہذیب کا علم کئی ملکوں پر لہرا رہا تھا پہلی صدی ہجری کے اختتام تک تین براعظموں میں عقیدہ توحید کے ماننے والے موجود تھے اس طرح سے پہلی مرتبہ عقیدہ توحید کو ایک عالمی برتری حاصل ہوئی اوریہ سب کچھ نبی اکرمﷺ کی معلمانہ حکمت علمی کے باعث نظر آتا ہے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’انما بعثت معلماً‘‘ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو معلم کتاب و حکمت اور مزکی قرار دیا ہے۔ اور تعلیم کے سلسلے میں زبان رسالت سے یہ فرمان جاری ہوا کہ ’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘ علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اس حکم میں مرد یا عورت۔ آزاد یا غلام، چھوٹے یا بڑے، امیر یا غریب الغرض کسی قسم کی کوئی تخصیص نہ تھی۔ مفید علم دراصل وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے رسول اکرمﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا اور نبی اکرمﷺ اس علم کو سکھانے اور اس کے مطابق انسانوں کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ کرنے کے لیے مبعوث ہوئے قرآن مجید میں پہلی وحی کی آیات توجہ مبذول کرنے کے لائق ہیں کہ ان میں فروغ علم اور تحصیل علم کی اساس کو واضح کیا گیا ہے کسی اور پیغمبر پر اس درجہ شاندار اسلوب میں وحی کا آغاز نہیں ہوا فرمان الٰہی ہے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق: 1 – 5)

ان آیات مبارکہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں تعلیم و تعلم، درس و تدریس اور قلم و کتابت کی کیا اہمیت ہے۔

آپﷺ کے تعلیمی اسوہ میں بلا کی جاذبیت تھی حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ روم کے صہیب اور فارس کے سلمان بھی اس درس حیات سے مستفید ہوئے مکہ کی سرزمین پر دار ارقم رضی اللہ عنہم گہوارہ تعلیم اور دبستان ہدایت تھا مگر جب آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو صفہ کا چبوترہ ایک ایسی جامعہ اور درسگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا جس میں صرف علوم پڑھائے ہی نہیں جاتے بلکہ ان کی وساطت سے بلند سیرت و کردار کے حامل انسان بنائے جاتے تھے جہاں علم تربیت کے آہنگ میں ڈھل کر شخصیت کی نشوونما کرتا دکھائی دیتا۔ یہاں ایسے افراد اور رجال کار تیار ہوئے کہ جن سے بہتر صلاحیتوں کے افراد کا تصور بھی نہیں ہو سکتا۔ آپﷺ کے طریقہ تعلیم سے مستفید ہونے والے حضرات کو اللہ تعالیٰ نے راشدون ، صادقون ، فائزون اور مفلحون کے القاب سے نوازا۔

آپﷺ لفظوں کی تاثیر سے اس قدر آگاہ تھے کہ آپﷺ کے فرمودات تاریخ میں ’’جوامع الکلم‘‘ کہلاتے ہیں۔ آپﷺ گفتگو فرماتے تو سننے والے ہمہ تن گوش ہو جاتے شاگردوں کا یہ حسن عقیدت تاریخ میں کسی اور کو میسر نہیں آیا۔ خطبہ حجۃ الوداع میں عرفات کے صحرائی اور میدانی کلاس روم میں ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب سامعین تھے اور سب کے سب آپﷺ کے خطبہ سے مستفید ہو رہے تھے۔ سننے والوں نے اس کی داد دی۔ ریاستوں کے حکمرانوں نے اس کے لکھوانے کی فرمائش اور استدعا کی۔ ایسا تعلیمی نصاب اور ایسا طریقہ تعلیم اور اسلوب تربیت تاریخ کا سب سے بڑا علمی، اخلاقی اور روحانی ورثہ ہے۔ نبی اکرمﷺ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں انسان ایک ایسے شعور سے آگاہ ہوئے جس نے علوم وفنون کے تمام دائروں کو متاثر کیا اب تجارت و معیشت کے پیمانے بدل گئے عدل و انصاف نے اپنی حقیقی روح کو پالیا۔ جنگ و جدل، صلح و آشتی میں بدل گئی حرب و ضرب کے مقاصد بدل گئے تاریخ نے یہ منظر کبھی نہ دیکھا تھا کہ غزوہ بدر میں جس طرح دشمن کے قیدیوں کو تعلیم کی خدمات ادا کرنے کے عوض رہائی نصیب ہوئی اس طرح دنیا کی کسی اور جنگ میں قیدیوں کے ساتھ ہوا ہو۔ وہ خواتین جو کل تک زندہ گاڑی جاتی تھیں جنہیں ایک جنس تجارت بنا کر منڈی میںسجایا جاتا تھا اور وہ وراثت میں بھی تقسیم ہوتی تھیں ان کے لیے حقوق کا ایک ایسا ضابطہ عطاکیا گیا کہ وہ تہذیب و تمدن کی اساس بن گئیں ان کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی تعلیم نسواں کے دروازے کھول دیئے گئے اور خواتین علم و ہنر میںممتاز ہوئیں آپﷺ نے ہفتے میں نہ صرف ان کے لیے ایک دن مقرر کر دیا بلکہ ایک مقام کا بھی تعین کر دیا جہاں خواتین آپﷺ سے سوالات کرتیں اور آپﷺ ان کے جوابات ارشاد فرماتے تھے۔ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے شفاء بنت عبداللہ سے جو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رشتہ داری بھی تھیں کتابت کا فن سیکھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دین و شریعت کے فہم میں سب سے ممتاز تھیں ذخیرہ احادیث میں آپﷺ سے 2210 احادیث روایت کی گئیں ہیں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے 76 اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے 65 روایت منقول ہیں۔ ابن حزم الاندلسی نے اپنی کتاب ’’جوامع السیرۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ صحابیات میں کم از کم بیس کے قریب ایسی ممتاز خواتین تھیں جو صاحب فتویٰ فقہیہ تھیں خلافت راشدہ میں خواتین کی الگ درسگاہیں تھیں جن میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا تعلیم دیتی تھیں۔ ان درسگاہوں میں مرد حضرات بھی حاضر ہوتے تھے اور پردے کی آڑ میں مسائل پوچھتے تھے۔ یہ سب اس تعلیم نسواں کے حق کا نتیجہ اور ثمر تھا جو نبی اکرمﷺ نے عطاء فرمایا تھا۔ آپﷺ نے طلبہ سے حسن سلوک کا پیغام اپنے صحابہ کو بھی دیا۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: کہ عنقریب تمہارے پاس مختلف قومیں علم حاصل کرنے کے لیے آئیں گی پس جب تم انہیں دیکھو تو انہیں ’’رسول اللہﷺ کی وصیت کے مطابق خوش آمدید، خوش آمدید اور انہیں تعلیم دو۔‘‘

اتباع رسالت کا تقاضہ ہے کہ ہم آج پھر سے اپنے بچوں، خاندان معاشرے اور ریاست کی تعمیر و تشکیل اسی تعلیمی حکمت عملی پر استوار کریں جسے قرآن مجید نے اصولی طور پر پیش کیا ہے اور اس کی تفصیلات کو نبی اُمّیﷺ نے واضح کیا۔ اکیسویں صدی کے جدید ماحول میں بھی آپﷺ کے اسلوب تدریس اور طریق تعلیم وہ عمدگی، جاذبیت، افادیت اور صلاحیت موجود ہے جس سے قوموں کے درمیان پُر امن بقائے باہمی حاصل کی جا سکتی ہے کون ذی شعور نہیں جانتا کہ آج کی تعلیم خود ایک بحران سے دوچار ہے۔ اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ پیغمبر اعظم و آخرﷺ کی وہ تعلیمی تحریک ہے جس نے علم کا سب سے روشن باب فراہم کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے