Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

روزوں کے فضائل ومسائل

21 Jun,2015

 

  

روزوں کی فرضیت:

ہرمسلم، عاقل، بالغ اور صحتمند پر روزہ رکھنا فرض ہے۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۝۱۸۳ۙ  (البقرہ)

’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں‘ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘

نبی اقدس ﷺكا فرمانِ عالیشان هے :

’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: 1کلمہ ٔ شہادت : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (اللہ)اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ „2۔نماز قائم کرنا۔3۔ زکوٰہ ادا کرنا۔4۔ بیت اللہ کا حج کرنا۔5۔ رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الایمان،  باب دعائکم ایمانکم)

مذکورہ آیت وحدیث سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت مسلمہ ہے۔ اور جان بوجھ کر کوئی ایک روزہ چھوڑنا فسق (کبیرہ گناہ) اور اس کا انکار کرنا یا تمسخر اڑانا اور اسے غریبوں کا فاقہ قرار دینا کفر ہے۔

چاند دیکھنے کے مسائل:

ہر اسلامی مہینہ کی ابتدا ءچاند سے وابستہ ہے۔ اسی طرح رمضان المبارک کی ابتداء اور اختتام بھی چاند دیکھنے پر منحصرہے۔ نبی کریم ﷺكا فرمان هے:

’’چاند دیکھے بغیر روزے شروع نہ کرو اور چاند دیکھے بغیر رمضان ختم نہ کرو، اگر مطلع (آسمان) اَبر آلود ہو تو اندازہ کرلو۔(اگلی روایت: تیس دن پورے کرلو)‘‘

(صحیح بخاری:کتاب الصوم،  باب إذا رأيتم الهلال فصوموا، وإذا رأيتموه فأفطروا)

اللہ کے نبی ﷺجب چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے تھے:

اَللّٰهُمَّ اَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِاليُمْنِ وَالْاِيْمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْاِسْلَامِ، رَبِّيْ وَرَبُّكَ اللّهُ۔   (سنن ترمذی: ابواب الدعوات،  باب ما يقول عند رؤية الهلال)

’’الٰہی! ہم پر یہ چاند امن، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ (اے چاند!) میرا اور تیرا رب اللہ ہے‘‘

نیت کے مسائل:

امامِ کائنات ﷺكا ارشاد هے:

’’جس شخص نے فجر سے پہلے، رات کو ہی روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘

(سنن ابی داؤد: کتاب الصیام، باب النیۃ فی الصوم)

ہر عمل کی طرح روزے کی نیت بھی فرض ہے۔ نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ سوائے حج و عمرہ کے کسی بھی عبادت کیلئے کسی بھی صحیح حدیث اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہیں۔ نیت کا صرف اللہ کی رضا اور اسی کی خوشنوودی کے ساتھ خاص ہونا عمل کی قبولیت کے لئے لازمی اُمور میں سے ہے۔ نیت میں ذرہ برابر بھی ریاکاری یا دنیاداری پورے عمل کو برباد کردینے کا سبب بن سکتی ہے۔

رمضان المبارک اور روزوں کے فضائل

رمضان المبارک کی فضیلت:

ماہِ مقدسہ رمضان المبارک کو نزولِ قرآنِ مجید ، فرقانِ حمید کے اعتبار سے خصوصی فضیلت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ فَمَنْ شَہِدَ مِنْكُمُ الشَّہْرَ فَلْيَصُمْہُ۝۰ۭ (البقرہ: 185)

’’رمضان وہ مہینہ ہے‘ جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو تمام انسانوں کے لئے سراسر ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے‘ جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل میں فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے؛ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے، اس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘

نبی اکرمﷺنے فرمایا:

’’جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اورسرکش شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم: کتاب الصیام،  باب فضل شهر رمضان)

معلوم ہوا کہ ماہِ رمضان المبارک‘ ہدایت و رحمت کے طلبگاروں، حق کے متلاشیوں اور حصولِ جنت کے متوالوں کیلئے انتہائی سازگار،جبکہ سرکش اور باغی شیطانوں کیلئے قید و بند کا مہینہ ہے۔

روزوں کی فضیلت:

امام الانبیاء نے ارشاد فرمایا:

’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، ایمان کی حالت اور ثوب کی نیت سے تو اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الصوم، باب من صام رمضان)

حدیث ِقدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’ابن آدم کا ہر عمل اس کیلئے ہے، سوائے روزے کے۔ روزہ میرے لئے ہے اور اس کی جزا بھی میں ہی دوں گا۔ اور روزہ (آگ سے بچاؤ کی )ڈھال ہے۔‘‘

 (صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب هل يقول إني صائم إذا شتم)

روزہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں باقی تمام اعمال کے مقابلے میں اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ثواب کے اندراج کا معاملہ خالصتاً اپنی ذات تک محدود رکھا ہے، ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ براہِ راست اس عمل کا اجر دےگا تو وہ کس قدر زیادہ ہوگا؟ اس کا اندازہ لگانا عقل و شعور کی منزلوں سے بہت دور ہے۔

روزے کی تعریف:

’’صوم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ ’’رُک جانا‘‘ ہیں۔ شرعی اصطلاح میں یہ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی عبادت ہے ، جس کی بجا آوری میں ہر مسلمان اپنے آپ کو اللہ کے حکم سے طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک تمام ممنوعاتِ روزہ سے سے روک لیتا ہے۔

روزے کا بنیادی مقصد:

روزہ اپنے مقصد میں اپنی تعریف سے ہی ظاہر ہے کہ بندہ اپنے خالق کے حکم پر اور محض اسی کی خشیت کی بنیاد پر اپنے آپ کو اسی رب کی حلال کردہ چیزوں سے ایک مخصوص وقت کیلئے روک لیتا ہے تو کیا یہ بندہ اپنے آپ کو اسی رب کے حکم سے مستقل حرام کردہ، مشتبہ چیزوں اور کبیرہ گناہوں سے کیوں نہیں روک سکتا؟

اسی رکنے کا نام ’’تقویٰ ‘‘ ہے۔ اور روزوں کی فرضیت کا یہی وہ بنیادی مقصد ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے فرضیت ِ روزہ کی آیت مبارکہ میں بیان فرمایا ہے:( لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ)

تقویٰ درحقیقت دل کی گہرائیوں سے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہوں اور تمام محرّمات سے بچنے کا نام ہے۔ اس لئے نہیں کہ ’’گناہ کا موقع میسر نہیں‘‘ اس لئے نہیں کہ ’’لوگ کیا کہیں گے؟ اور اس لئے بھی نہیں کہ ’’بدنامی کا خوف ہے‘‘ بلکہ صرف اس لئے کہ: اللہ دیکھ رہا ہے اور اسے حساب دینا ہے۔

روزے کے دنیوی اور اُخروی فوائد

روزے کے بعض دنیوی فوائد:

روزہ‘ بلڈ پریشر، ذیابیطس، موٹاپا اور دیگر موذی امراض سے صحتیابی کیلئے بے انتہاء مفید علاج ہے۔

روزہ اور معاشرے کی اصلاح: 

روزہ اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے احساس کو عملی انداز سے اُجاگر کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کو اپنے کسی بھائی کی تکلیف کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ خود اس تکلیف کا شکار نہ ہو؛ لہٰذاغریبوں کے ساتھ ساتھ امیروں کو بھی بھوکا ، پیاسا اور بیوی سے دور رکھنا ایک ایسا عملی سبق ہے ، جو انہیں غریبوں کی امداد پر آمادہ کرتا ہے۔ امیروں کو احساس دلایا جاتا ہے کہ بھوک و افلاس کیسی ہوتی ہے؟ شادی کی قوت ہونے کے باوجود عدمِ استطاعت سے کیسی معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں؟ لہٰذا ان سب کے تدارک میں غریبوں کی خوب امداد کرو اور انہیں رمضان اور عید کی مبارک ساعتوں میں اپنی خوشیوں میں زیادہ سے زیادہ شریک کرو۔

روزہ اخلاق اور کردار کی درستگی: 

نبی اقدسﷺكا ارشادِ گرامی هے:

’’روزہ ڈھال ہے، جب تم میں کسی شخص کا روزہ ہو تو وہ فحش (خواہشاتِ نفسانی کو بھڑکانے والی) گفتگو نہ کرے اور نہ ہی شور و غل کرے، اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑنے کی کوشش کرے تو کہہ دے میں تو روزے سے ہوں۔ ‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب ھل یقول انی صائم اذا شتم)

غور کریں کہ روزہ کیسے بے شماردنیوی فوائد کا مجموعہ ہے۔کاش !کہ ہم اسے سمجھیں۔

روزے کے اُخروی فوائد و ثمرات:

نبی مکرم ﷺنے فرمایا:

’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن اپنے عاملین کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا ، اے میرے رب ! میں نے اس کو دن کے وقت کھانے، پینے اور جنسی خواہشات سے روک رکھا تھا۔ پس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول کرنا۔ قرآن کہے گا ، اے میرے رب! میں نے اسے رات کو سونے سے روک رکھا تھا، پس تو اسکے حق میں میری سفارش قبول فرما؛ چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ ‘‘ (صحیح الجامع الصغیر: 3882)

’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے ، اسکے اہل و عیال، مال اور پڑوسیوں کے بارے میں، ان آزمائشوں کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الصوم، باب الصوم کفارۃ)

روزہ دار کی فضیلت:

رحمۃ للعالمین ﷺنے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی‘ جس کے ہاتھ میں محمدﷺ كی جان هے۔ روزه دار كے منه كی بو، الله كے هاں كستوری كی خوشبو سے زیاده پاكیزه هے۔ روزه دار كیلئے دو خوشیاں هیں، جن سے وه خوش هوتا هے:

 1 ۔ جب وه روزه کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔

 2۔ جب اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کی وجہ سے خوش ہوگا۔‘‘(صحیح بخاری: کتاب الصوم، ھل یقول انی صائم اذا شتم)

’’جنت کے (آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ریان ‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزہ دار ہی داخل ہوںگے۔ ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوسکے گا۔ ‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب الریان للصائم)

رمضان و غیر رمضان میں بکثرت روزے رکھنا ان فضائل کے حصول کا سبب بنے گا۔

روزے کے احکام و مسائل

روزے کی بروقت ادائیگی سے مستثنٰی افراد:

1  نابالغ: وہ بچہ یا بچی جو ابھی سن بلوغت تک نہ پہنچے ہوں، ان پر روزہ فرض نہیں، البتہ تربیت اور عادت کی خاطر اگر ان سے وقتاً فوقتاً روزہ رکھوایا جائے تو یہ بہتر ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ                ۝(البقرہ)

 ’’اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمہارے حق میں بہتر ہے‘‘

2 وقتی مریض جو کسی وبائی مرض، مثلاً بخار وغیرہ کا شکار ہو اور روزے کی صورت میں کمزوری بڑھنے کا خدشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ کر اس کی قضا دے سکتا ہے۔

3  حاملہ اور دودھ پلانے والی عورتیں، اگر اپنے اندر جسمانی کمزوری یا بچہ کی خوراک پوری نہ ہونے کا اندیشہ رکھتی ہوں تو وہ بھی بعد میںروزوں کی قضا دے سکتی ہیں۔

4 حالت ِ حیض و نفاس میں مبتلا خواتین پر روزہ رکھنا منع ہے، ایسی خواتین ان ایام سے فارغ ہونے کے بعد رمضان کے بقایا روزوں کی گنتی پوری کریں اور متروکہ روزوں کی قضا بعد میں دیدیں۔ اگر ان میں سے کوئی عورت طلوع فجر سے پہلے ایام سے فارغ ہوگئی تو اس پر اس دن کا روزہ رکھنا فرض ہے۔

5  مسافر، اگر سفر میں کسی بھی قسم کی مشقت کا احتمال ہو تو مسافر کیلئے بحالت ِسفر روزہ چھوڑنا مستحب ہے۔ اسی طرح ایسے مسافر جو مستقل سفر میں رہتے ہیں، جیسے ہوائی جہاز کے پائیلٹس ، سمندری جہازکے کیپٹنز، شہروں کے درمیان چلنے والی بسوں اور ٹرینوں کے ڈرائیورز اور وغیرہ کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ اپنے روزوں کی قضا ضرور دیں، ان کے مستقل سفر سے روزوں کی فرضیت ساقط نہیں ہوتی۔

5۔ کسی شخص کو کوئی جزوقتی اور اچانک اضطراری کیفیت لاحق ہو جائے، جیسے کسی ڈوبتے ہوئے کو بچانا ، جلتی ہوئی آگ میں سے زندہ انسانوں کو نکالنا یا بحالت ِ روزہ کسی حادثے کا شکار ہوجانا ، اگر ایسی کیفیات میں روزہ توڑنا پڑے تو بلاتأمل توڑ دیں اور بعد میں اس کی قضا دیدیں۔  2 سے لیکر 5 تک کے افراد پر قرآنِ حکیم کا یہ حکم نافذ ہوتا ہے:

 وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ۝۰ۭ (البقرہ: 185)

’’اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دیگر کے ایام میں (متروکہ) گنتی کو پورا کرلے۔‘‘

6جو شخص کسی دائمی مرض کا شکار ہو اور روزہ رکھنے پر قادر نہ ہو۔ ایسے مریض کی دو صورتیں ہیں: جوان آدمی، جو کسی دائمی مرض کا شکار ہو اور صحتیابی کی کوئی امید نہ ہو۔ ایسا ضعیف العمر بزرگ جو کبر سنی کی وجہ سے روزہ رکھنے سے عاجز ہو۔ ان کیلئے اس بات کی رخصت ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے اپنی استطاعت کے مطابق ایک مسکین کو کھانا کھلائیں، یہی ان کا کفارہ ہے۔

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:

وَعَلَي الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَہٗ فِدْيَۃٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ۝۰ۭ 

’’اور جو لوگ استطاعت نہیں رکھتے، ان کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘(البقرہ: 184)

7مجنون (ذہنی معذور) یا وہ شخص جس کی عقل زائل ہو جائے، خواہ بڑھاپے کی وجہ سے ہو یا کسی حادثے کی وجہ سے، ایسے افراد پر نہ تو فدیہ ہے اور نہ ہی قضا۔

روزے کا وقت:

طلوع فجر سے لیکر غروبِ آفتاب تک۔

وَكُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۝۰۠ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّيَامَ اِلَى الَّيْلِ۝۰ۚ  (البقرہ: 187)

’’اور کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ سفید دھاگہ(سپیدۂ سحر) سیاہ دھاگے(رات کی سیاہی) سے (طلوعِ)فجر کے وقت نمایاں(نمودار) ہوجائے، پھر اپنے روزے کو رات (غروبِ آفتاب) تک پورا کرو۔‘‘

سحری کا وقت اور اس کی اہمیت:

سحری ضرور کھائی جائے۔ بلاوجہ سحری ترک کرنا اور اسے غیرضروری خیال کرنا یا رات کو تاخیر سے سونے سے پہلے کھالینا اور اسے ہی سحری سمجھ لینا، یہ سب غلط طریقے ہیں۔

رات کے آخری تہائی پہر کو سحر کہتے ہیں، جو اَذانِ فجر تک جاری رہتا ہے۔ یہ قبولیت دعا کا وقت بھی ہے،اس وقت زیادہ سے زیادہ استغفار کیا جائے۔ (آلِ عمران: 17)

سحری آخر وقت میں کرنا سنت ہے۔ (صحیح بخاری: كتاب مواقيت الصلاة، باب وقت الفجر)

نبی ﷺنے فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے درمیان فرق کرنے والی چیز سحری کھانا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم: کتاب الصیام، فضل السحور)

’’سحری ضرور کھاؤ، اسلئے کہ اس میں برکت ہے۔‘‘(صحیح بخاری: کتاب الصوم، بركة السحور)

مُفطرات سے بچنا:

بحالت ِروزہ جن کاموں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، انہیں مفطرات کہتے ہیں۔

افطار میں جلدی کرنا:

سورج غروب ہوتے ہی بغیر کسی اضافی منٹ کا احتیاطی انتظار کرنے کے فوراً روزہ افطار کرلینا سنت ہے۔ رحمت اللعالمین ﷺنے فرمایا:

’’لوگ اس وقت تک ہمیشہ بھلائی پر رہیں گے، جب تک کہ افطار میں جلدی کرتے رہیںگے۔‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب تعجیل الافطار)

روزہ کس چیز سے افطار کیا جائے؟

اللہ کے پیارے حبیب ﷺكا معمول تھا کہ آپ نمازِ مغرب سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطار کرتے تھے، اگر تازہ کھجوریں میسر نہ ہوں تو چھوہاروںسے ، اگر وہ بھی میسر نہ ہوں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد:کتاب الصوم، باب مایفطر علیہ)

اَفطاری قبولیتِ دعا کا وقت ہے:

جب بندہ اخلاصِ نیت سے اللہ تعالیٰ کیلئے سارا دن بھوکا، پیاسا اور شہواتِ نفسانی سے دور رہا ہے تو اب اللہ تعالیٰ نے اس وقت بندے کیلئے دو عظیم خوشیاں رکھی ہیں۔ ایک افطار کی خوشی اور دوسری دعا کی قبولیت کی خوشی۔ 

نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’افطار کے وقت اللہ تعالیٰ روزہ دار کی دُعا رد نہیں فرماتا۔‘‘

(سنن ابن ماجہ:کتاب الصیام،  باب في الصائم لا ترد دعوته)

افطاری کے وقت کی دعا:

اللہ کے حبیب ﷺافطاری كے وقت یه دعا پڑھتے تھے۔

ذَهَبَ الظَّمَاُ وَ ابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْاَجْرُ اِنْ شَاءَ اللّهُ۔

’’پیاس بجھگئی، رگیں تر ہوگئیں اور اگر اللہ نے چاہا تو اجر ثابت ہوگیا۔‘‘

(سنن ابی داؤد: کتاب الصوم، باب القول عند الافطار)

روزہ افطار کروانے کا اَجر:

نبی ٔ آخر الزماںﷺنے فرمایا:

’’جس نے کسی روزہ دار کو افطار کروایاتو اس (کروانے والے) کیلئے بھی اتناہی اجر ہے، جتنا روزہ رکھنے والے کا۔ بغیر روزہ دار کے اجر میں سے کچھ بھی کمی کئے ہوئے۔‘‘(سنن ترمذی: ابواب الصوم، باب ما جاء في فضل من فطر صائما)

افطاری کروانے والے کیلئے دعا:

جس کے ہاں روزہ افطار کریں، اسے ان مسنون الفاظ سے دعا دیں:

اَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ، وَاَكَلَ طَعَامَكُمُ الْاَبْرَارُ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ۔

(سنن ابی داؤد: کتاب الاطعمہ،  باب ما جاء في الدعاء لرب الطعام اذا اكل عنده)

’’تمہارے ہاںروزہ دار افطار کرتے رہیں اور نیک لوگ تمہارا کھانا کھاتے رہیں اور فرشتے تمہارے لئے رحمت کی دعا کرتے رہیں۔‘‘

روزے کے اجر کو ضائع کردینے والے اعمال

جھوٹ:

اَصدق الصادقین ﷺنے فرمایا:

’’جس نے جھوٹ بولا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ عزوجل کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص اپنا کھانا اور پینا چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح بخاری: کتاب الصوم، باب من لم یدع قول...)

بے ہودہ اور فحش گفتگو:

’’روزہ اس بات کا نام نہیں ہے کہ کوئی شخص کھانا اور پینا چھوڑ دے، بلکہ روزہ تو بے ہودہ اور جنسی خواہشات پر ابھارنے والی (فحش) گفتگو سے بچنے کا نام ہے۔‘‘

(صحیح ابن خزیمہ: کتاب الصیام، باب النهي عن اللغو في الصيام)

’’لغو‘‘ ہر بےکار، بے فائدہ اور وقت کی بربادی والے کام کو کہتے ہیں۔ ٹی وی دیکھنا، کھیل کود، فضول کتابوں کی ورق گردانی اور خوش گپیوں کی محفلیں وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔  ’’رفث‘‘ فحش کلام اور عمل ، خواہ بیوی کے ساتھ یا کسی دوسرے کے ساتھ، گالی اور جہالت کے مظاہرے وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔

ترکِ نماز:

جان بوجھ کر ایک نماز بھی چھوڑنا کفر ہے۔ (سنن ابی داؤد: کتاب السنۃ، باب في رد الرجاء)

جو شخص روزہ رکھے اور نماز نہ پڑھے تو اس کے روزے کا کیا فائدہ؟

بحالتِ روزہ جائز اُمور

vروزے کی حالت میں مسواک کرنا جائز ہے۔ (صحیح بخاری: الجمعہ، باب السواک )

vروزے کی حالت میں حجامہ لگوانا جائز ہے۔ (صحیح بخاری: کتاب الصوم، باب الحجامۃ )

v آنکھوں میں سرمہ، سر میں تیل اور کان یا آنکھ میں دوائی ڈالنا اور کھانا چکھناجائز ہے۔ (صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب اغتسال للصائم)

v رات کو اگر جنابت لاحق ہو چکی ہو اور انتہائے سحر قریب ہو تو پہلے سحری کرلیں، پھر غسل کرکے نماز پڑھ لیں۔ (صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب الصائم یصبح جنبا)

بحالتِ روزہ ناجائز اُمور

nجان بوجھ کر کھانا اور پینا۔ (صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب الصائم اذا اکل او شرب ناسیا)

nجان بوجھ ک قے کرنا۔ (سنن ابی داؤد: کتاب الصوم، باب الصائم یستقی عامداً)

nبیوی سے ہمبستری کرنا۔(صحیح بخاری: کتاب الصوم،  باب اذا جامع فی رمضان)

nبحالت ِبیداری میں مشت زنی یا بیوی سے بوس و کنار کرنے سے انزال ہوجانا، البتہ احتلام(خواب میں انزال) سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ صرف غسل فرض ہوتا ہے۔

nحیض و نفاس آنے سے، چاہے کسی بھی وقت آئے۔

nگلوکوز، خون یا کسی بھی غذا یا دوائی کوڈرپ یا سرنج کے ذریعے بطورِ طاقت جسم میں داخل کرنا، البتہ نکسیر پھوٹنے یا جسم کے کسی بھی حصے سے خون نکلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

ان تمام میں سے جو بھی معاملہ پیش آئے اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ایسے روزے کی قضا دینا فرض ہے۔ صرف جان بوجھ کر کی گئی ہمبستری کیلئے قضا کے ساتھ ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ کفارہ یہ ہے: غلام آزاد کرنا، دو مہینے کے مسلسل روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔(تفصیل کیلئے دیکھیں : فتاویٰ الصیام، فضیلۃ الشیخ صالح العثیمین)

رمضان المبارک کے خصوصی اعمال

روزہ:

روزہ تو ہے ہی رمضان المبارک کے بنیادی فرائض اور مقاصد میں سے ۔ روزے کو اللہ رب العالمین کے ہاں باقی اعمال کی بہ نسبت خصوصی اہمیت اور فضیلت حاصل ہے۔

نبی اقدسﷺنے فرمایا:

’’انسان جو بھی نیک عمل کرتاہے تو اس کا اجر اسے دس گنا سے لیکر (حسب ِ نیت) سات سو گنا تک بڑھا کر دیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(حدیث قدسی)سوائے روزے کے، یہ عمل خالص میرے لئے ہے، لہٰذا اس کی جزا بھی میں ہی دوںگا، میرا بندہ صرف میری خاطر ہی اپنی (جائز)جنسی ضرورت، کھانا اور پینا چھوڑتا ہے۔‘‘

(صحیح مسلم: کتاب الصیام،  باب فضل الصیام)

قیامُ اللیل:

یوں تو پورا سال ہی قیام اللیل‘ یعنی تہجد، جسے ہم خاص رمضان میں ’’تراویح‘‘ کہتے ہیں کی بہت اہمیت ہے، لیکن رمضان المبارک میں اس کی اہمیت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

شافع محشرﷺنے فرمایا:

’’جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں کا قیام کیا تو اسکے پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘ (صحیح بخاری: التراویح،فضل من قام رمضان)

رکعاتِ تراویح کا مسئلہ:

اللہ کے حبیب ﷺرمضان المبارك كے علاوه عام دنوں میں بھی قیام اللیل کا خوب اہتمام فرمایا کرتے تھے۔  عائشہ  rفرماتی هیں كه :

’’اللہ کے رسول ﷺرمضان هو یا غیر رمضان، گیاره ركعات سے زیاده نماز (قیام اللیل) نهیں پڑھتے تھے۔‘‘  (صحیح بخاری: کتاب التھجد، باب قيام النبي ﷺ بالليل ..)

اللہ کے آخری رسولﷺنے اپنی حیاتِ طیبه میں صحابهy  كے شوق و رغبت كو دیكھتے ہوئے رمضان المبارک میں قیام اللیل کی تین مرتبہ جماعت بھی کروائی، مگر پھر فرضیت کے خطرے کے پیش نظر جماعت ترک کردی۔ آپﷺكی وفات كے بعد سیدنا فاروقِ اعظمt كے دورِ خلافت میں صحابهy نے پھر اسے باجماعت اپنا معمول بنا لیا جو الحمدللہ آج تک جاری و ساری ہے۔ (صحیح بخاری: کتاب الاذان، باب اذا كان بين الامام وبين القوم حائط أو سترة  و صحیح بخاری: كتاب صلاة التراويح،  باب فضل من قام رمضان)

معلوم ہوا کہ تراویح کی اصل اور مسنون تعداد وتر کے علاوہ صرف آٹھ ہی ہے، البتہ اگر کوئی شخص بغیر سنت سمجھے محض ادائیگی ٔ  نوافل کے طور پر مزید پڑھنا چاہے تو وہ پڑھ سکتا ہے، مگر وتر سمیت گیارہ کے علاوہ کسی مخصوص تعداد، مثلاً ؛ بیس کو مقرر کرلینا اور اسے سنت سمجھنا خلافِ حقیقت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تراویح کی جماعت اللہ کے نبی ﷺسے ثابت هے؛ لہٰذا اسے بدعت كهنا جائز نہیں ہے۔

تلاوتِ قرآنِ کریم:

رمضان المبارک کو نزولِ قرآنِ مجید کے حوالے سے بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس لئے کہ اسی ماہِ مقدس میں قرآنِ مجید آسمان سے نازل کیا گیاتھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰى وَالْفُرْقَانِ۝۰ۚ  (البقرہ: 185)

’’رمضان وہ مہینہ سے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے، جو لوگوں کیلئے ہدایت، ہدایت کے دلائل اور حق و باطل میں فرق کی صلاحیت پر مشتمل ہے۔‘‘

اللہ کا یہ کلام پاک حکمتوں، نصیحتوں، عبرتوں، اصلاحِ  معاشرہ کے مؤثر طریقوں، انقلاباتِ زمانہ کے اصولوں، کامیابی کی حسین منزلوں اور ناکامی کے آتشیں دلدل کو واضح اور نمایاں کرنے والا کلام ہے۔ جسکے پاس دل کی بصیرت اور حواسِ خمسہ کی سلامتی ہوگی وہ ضرور اس سے مستفید ہوگا، البتہ مقفل دلوں کے حامل اس سے کوئی راہ نہیں پاتے۔

موجودہ دور کی ستم ظریفی یہ ہے کہ لوگوں نے اسے محض رسمی اور غیرشرعی امور کے ارتکاب کا ذریعہ بنالیا ہے، قرآن خوانی، تیجہ، چالیسواں، برسی، قل، تعویذاور ان جیسی دیگر باطل رسومات، جن کا شریعت اسلامیہ سے کوئی تعلق نہیں، قرآن سے منسوب کردی گئیں۔

قرآن اللہ رب العالمین سے براہِ راست ہم کلام ہونے کا سب سے آسان راستہ ہے، لیکن اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ پہلے اسے اچھی طرح سمجھا جائے اور اس کے معانی پر غور کیا جائے۔ اس ماہِ مقدس کے قیمتی لمحات کو اپنے حق میں کارگر بنانے کا ایک بہترین راستہ یہ بھی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ قرآنِ مجید کی تلاوت کی جائے اور کسی بھی عالم سے اس کے ترجمے اور تفسیر کی تعلیم حاصل کی جائے، تاکہ براہِ راست اللہ کا کلام ہمارے دلوں تک راہ پا سکے اور درمیان میں لوگوں کے فاسد اور باطل عقائد اِسے اپنے نظریات کی پراگندگی سے آلودہ نہ کرسکیں۔  نبی اقدسﷺنے فرمایا:

’’جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے دس نیکیاں ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ ’الف‘ ایک حرف ہے، ’لام‘ ایک حرف ہے اور ’میم‘ ایک حرف ہے۔‘‘ (سنن ترمذی: أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء فيمن قرأ حرفا من القرآن)

’’(کثرت سے) قرآن پڑھا کرو؛ ا س لئے کہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے حق میں شفاعت کرےگا۔‘‘

 (صحیح مسلم: كتاب صلاة المسافرين،  باب فضل قراءة القرآن)

صدقہ و خیرات:

یوں تو صدقہ و خیرات بھی سال کے تمام ایام میں کیا جانے والا عمل ہے، مگر رمضان المبارک میں سحر و افطار اور عید کی خوشیوں کی وجہ سے اس کی افادیت اور ضرورت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ  اکرمﷺ باقی دنوں میں بکثرت انفاق کرنے کے باوجود اس ماهِ مبارك میں انفاق فی سبیل اللہ کی رفتار تیز آندھی سے بھی زیادہ کردیا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری: كتاب فضائل القرآن،  باب كان جبريل يعرض القرآن علی النبیﷺ )

مالداروں کا یہ اسلامی و اخلاقی فرض ہے کہ وہ اپنےرشتہ دار، علاقے، شہر اور ملک کے غرباء و مساکین اور فقراء کو اپنی خوشیوں میں شریک کریں۔ ان کیلئے سحری و افطاری اور عید کے دن کے لباس اور اچھے کھانوں کا انتظام کرکے اپنے لئے صدقۂ جاریہ بنائیں۔

اعتکاف:

اعتکاف کو خاص اسی ماہ سے مناسبت حاصل ہے۔ الا یہ کہ کوئی شخص کسی دوسرے ماہ میں اعتکاف کی نذر مانے تو وہ پورا کرسکتا ہے۔ اعتکاف کا مقصد، دنیا ومافیہا سے بے گانہ ہوکر اپنے آپ کو مسجد کے ایک گوشہ ٔ عافیت میں صرف اور صرف اللہ کی عبادت کیلئے وقف کرلینا ہے۔ معتکف کیلئے اعتکاف کی حالت میں ہر وہ کام جو اللہ کے قرب اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنے اختیار کرنا لازمی ہے، وگرنہ اعتکاف کا مقصد فوت ہوجائے گا۔

ان امور میں کثرتِ نوافل، قرآنِ مجید کی تلاوت، ذکر و اذکار ، قیام اللیل بالخصوص لیلۃ القدر کا حصول اور انفاق فی سبیل اللہ سمیت تمام مجموعہ ہائے عبادات شامل ہیں۔

 افسوسناک صورتِ حال یہ ہے کہ موجودہ دور میں ناسمجھ لوگوں نے اعتکاف جیسی عظیم عبادت اور سنت ِ رسول ﷺكو بھی وقت گزاری، تفریح اور بے کار محفلوں کا ذریعہ بنا لیا ہے، جس میں مساجد کا تقدس بھی بے تحاشا پامال کیا جاتا ہے، ایسا اعتکاف یقیناً باعث ِ وبال ہے۔

اعتکاف کی حالت میں بلاضرورت مسجد سے باہر جانا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، کسی بھی قسم کے معاشرتی معاملے میں دخل دینا، بیوی سے ہم بستری کرنا، وغیرہ ناجائزاُمور میں سے ہیں۔

(سنن ابی داؤد: کتاب النکاح، باب المعتكف يعود المريض)

اگر مسجد میں انتظام نہ ہو تو قضائے حاجت کیلئے باہر جانا، بیوی سے رسمی ملاقات کرنا، غسل کرنا، کنگھی کرنا، ناخن کاٹنا، تیل لگانا اور کپڑے تبدیل کرنا جائز امور میں سے ہیں۔ (سنن ابی داؤد: کتاب النکاح، باب المعتكف يدخل البيت لحاجته)

اعتکاف کی جگہ صرف جامع مسجد ہی ہے، گھر میں اعتکاف کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اعتکاف کو مسجد کے ساتھ خاص فرمایا ہے:

وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ فِي الْمَسٰجِدِ

’’اور تم مسجدوں میں بحالت ِ اعتکاف عورتوں سے مباشرت مت کرو۔‘‘(البقرہ: 187)

نبی اکرمﷺكا فرمان هے كه : ’’روزے اور جامع مسجد کے بغیر اعتکاف نہیں ہے۔‘‘

(سنن ابی داؤد: کتاب النکاح،  باب المعتكف يعود المريض)

عورتوں کیلئے اگر مسجد میں کوئی محفوظ جگہ موجود نہ ہو تو ان کیلئے اعتکاف کرنا ضروری نہیں ہے۔وہ گھر میں رہ کر بغیر اعتکاف کی نیت کئے اپنی عبادات بجالا سکتی ہیں۔

اعتکاف رمضان کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے اور شوال کا چاند نظر آتے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک کی اکیس تاریخ شروع ہوتے ہی اعتکاف شروع ہوجاتا ہے، لیکن معتکف کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اعتکاف کے خیمے میں صبح، یعنی فجر کی نماز پڑھ کر داخل ہو؛ کیونکہ یہی سنت ہے۔

(صحیح مسلم:كتاب الاعتكاف، باب متى يدخل من أراد الاعتكاف)

لیلۃ القدر:

لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہاقدر و منزلت والی رات ہے، اس ایک رات کا رتبہ اللہ کے ہاں ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں مستقل ایک سورۃ بھی نازل فرمائی ہے، جس کا نام ’’القدر‘‘ ہے۔ اس کو بھی نزولِ قرآن کی وجہ سے یہ مقام عطا ہوا ہے۔ یہ رات بہت ہی بابرکت ہے۔ اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں(21، 23، 25،27،29)میں تلاش کرنےکا کا حکم ہے۔

(صحیح مسلم:كتاب الاعتكاف،  باب فضل لیلۃ القدر والحث علی طلبھا)

لیلۃُ القدر کی دعا:

اَللّٰهُمَّ اِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔

’’اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف کردے۔‘‘ (سنن ترمذی: ابواب الدعوات، باب، 3513)

رمضان کے آخری عشرے کی جد و جہد:

رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ اب رخصت ہونے کو ہے اور اپنا دو تہائی وقت گزار چکا ہے۔ نامعلوم کہ ہم اس کے دوبارہ آنے تک زندہ رہیں یا نہ رہیں؟ لہٰذا اس کے آخری عشرے میں پہلے دونوں عشروں کے مقابلے پر زیادہ سے زیادہ تمام مجموعہ ہائے عبادات کو بجالانے کی کوشش کریں۔

اللہ کے نبی ﷺكے بارے میں ام المؤمنین سیده عائشه رضی اللہ عنہا فرماتی هیں:

’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو اللہ کے رسولﷺراتوں كا بیشتر حصه بیدار رهتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار رکھتے ۔ اور عبادات میں خوب محنت کیلئے کمربستہ ہوجاتے۔‘‘

(صحیح بخاری: فضل ليلة القدر، باب العمل في العشر الاواخر من رمضان)

کثرتِ مناجات:

رمضان المبارک کو دعاؤں کے حوالے سے بھی بہت خصوصیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہِ مقدس میں قبولیت دعا کے اوقات کو مزید بڑھا دیا جاتا ہے، تاکہ بندہ اپنے رب سے کثرت سے مناجات کرسکے۔ اپنے گناہوں پر استغفار کرسکے، اپنی گردن کو جہنم سے آزاد کرواسکے اور اپنے آپ کو اللہ کی رحمت اور جنت کا مستحق بنوا سکے۔

قبولیت دعا کیلئے: توحید، اتباعِ سنت، اخلاصِ نیت، رزقِ حلال، حضورِ قلب، عاجزی و انکساری اور قبولیت کا یقین ہونا انتہائی ضروری ہے، ورنہ دعا رَد کردی جائے گی۔

صدقۃالفطر

صدقۃ الفطر یا زکوٰۃ الفطر فرض ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر t روایت كرتے هیں كه :

’’رسول اللہ ﷺنے زکوٰۃ الفطر کو فرض قرار دیا ہے۔ ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو، غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بڑا ، یہ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اور آپﷺنے اس بات كا بھی حکم دیا کہ اسے نمازِ عید کیلئے نکلنے سے پہلے ادا کرلیا جائے۔‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الزکوٰۃ، باب فرض صدقۃ الفطر)

صدقۃ الفطر زیر ِ استعمال کھانے کی کسی بھی چیز کا دیا جا سکتا ہے۔ اس کی مقدار ایک صاع حجازی، تقریباً ڈھائی کلو موجودہ وزن کے برابر فی کس ادا کرنا ضروری ہے۔

امیر اور غریب اپنی اپنی استطاعت مطابق ادا کریں۔ نمازِ عید کیلئے گھر سے نکلنے سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے، عیدگاہ پہنچنے کے بعد لوگوں کا اسے ادا کرنا اور انتظامیہ کا اسے قبول کرنا صحیح نہیں ہے۔ شوال کا چاند نظر آنے کے فوراً بعد اداکرنا بہتر ہے، البتہ عید سے ایک یا دو دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔ (صحیح بخاری، الزکوٰۃ، صدقۃ الفطر علی الحر)

صدقۃ الفطر جنس کی صورت میں دینا ہی مسنون ہے، اسکے مستحقین وہی ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں، اسے دینی اداروں کے مستحق طلباء کو دیا جاسکتا ہے، مگر تعمیر کے کاموں میں لگانا درست نہیں ہے۔ گھر کے سرپرست کا تمام کی طرف سے ادا کردینا کافی ہوگا۔

الله رب العزت همیں رمضان اور روزوں كا حق ادا كرنے كی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

Read more...

روزہ اور ایمان نجات کے لیے گیارہ چیزوں پر ایمان لانا لازم ہے۔

21 Jun,2015

 

ایمان کی اہمیت:

انسانی زندگی کے لیے غذا،لباس،مکان،علاج،معالجہ اور دیگر چیزیں بہت ضروری ہیں مگر ایمان ان سب سے زیادہ اہم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مادی اشیاء سے انسان کی حیات دنیاوی بہتر ہوتی ہے لیکن ایمان سے حیات دنیاوی اور حیات اُخروی دونوں بہتر بنتی ہیں اگر یوں کہہ دیا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا کہ انسان کی اپنی جان اتنی اہم نہیں جتنا ایمان اہم ہے ۔ اس لیے ایک مومن کو سب سے زیادہ اپنے ایمان کی فکر ہونی چاہیے اس لیے کہ اگر ایمان ہے تو سب کچھ ہے اگر ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اسی حقیقت کو اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ذکر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا : 

وَالْعَصْرِاِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا

’’قسم ہے زمانے کی یقیناً تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے اُن کے جو ایمان لائے۔‘‘

والعصر کی چونکا دینے والی صدا ایک حساس اور با شعور انسان کو جنجھوڑ کر خواب غفلت سے بیدار کر رہی ہے اور اسے یہ دعوت دے رہی ہے کہ وہ آفاق میں گم ہونے کی بجائے آفاق اور اس کی وسعتوں کا شعوری مشاہدہ کرے۔

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گُم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ  

سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سیاسی قوت، یہ معاشرتی حیثیت ، یہ مال ودولت کی فراوانی،یہ وسائل واسباب کی ارزانی، یہ اونچی اونچی ملازمتیں، یہ مستحکم اور مضبوط کاروبار ، یہ لمبی لمبی اور چمکیلی کاریں ، یہ خوشنما محلات، یہ برادری اور لیڈری کا غرور، یہ سوسائٹی اور معاشرے میں سٹیٹس (Status)یہ محض سراب نظر ہی نہیں بلکہ عذاب الٰہی کے مقدمات میں سے ہیں۔ اس ابدی خسران سے نجات کا سب سے پہلا راستہ’’ایمان ‘‘ ہے۔

لیکن افسوس جتنا یہ اہم راستہ تھا اسے اتنا ہی کم تر سمجھا گیا۔

ذیل میں ہم کتاب وسنت کی روسے ایک ایسا معیار پیش کر رہے ہیں جس کی بناء پر ہر ایمان کا دعوے دار اپنے ایمان کو بخوبی جانچ اور پرکھ سکتاہے۔

ایمان کے درجات:

استاذِ مکرم حجۃ الاسلام حافظ عبد المنان محدث نور پوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ایمان کے دل میں مختلف درجات ہیں جو صحیح بخاری میں بیان ہوئےہیں۔

يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه ، رقم:44)

جو شخص لا اله الا الله كهه دے اور اس کے دل میں جو کے دانے کے برابر خیر ہو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔

ایک دوسری حدیث میں خیر کی جگہ ایمان کے لفظ ہیں۔

فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ(صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب كلام رب عزوجل ، رقم:7510)

<’’جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو۔‘‘

وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه ، رقم:44)

’’ جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ دے اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر خیر یعنی ایمان ہو وہ دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔‘‘

وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب زيادة الإيمان ونقصانه ، رقم:44)

’’جو شخص لا الہ الا اللہ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لیا جائے گا۔‘‘

ایک دوسری حدیث میں لفظ ہیں :

فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ - أَوْ خَرْدَلَةٍ - مِنْ إِيمَانٍ (صحيح البخاري،كتاب التوحيد، باب كلام الرب عزوجل ... ، رقم:7510)

فرشتوں کو حکم ہوگا کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو ۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :

أَخْرِجُوا مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ(صحيح البخاري، كتاب الإيمان ، باب تفاضل أهل الإيمان في الاعمال، رقم:22)

اے میرے فرشتو! جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو اس کو دوزخ سے نکال لو۔‘‘

مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ ’’ اسلامی اوزان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ

’’ خردل ایک پودا ہے جس کا دانہ سرسوں کی طرح ہوتا ہے ’’غایۃ البیان‘‘ میں ہے کہ خردل کا وزن نصف چاول کے برابر ہوتاہے ۔ اعشاری اوزان کے مطابق ایک خردل 7059 ملی گرام کا ہوگا جبکہ ہندی برطانوی اوزان کے مطابق خردل کا ایک دانہ 16/1 رتی کا ہوگا۔ (اسلامی اوزان،صفحہ:22)

فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ(صحيح البخاري، كتاب التوحيد، باب كلام الرب عزوجل ..... ، رقم:7510)

حکم ہوگا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم ایمان ہو ان کو بھی دوزخ سے نکال لو ۔

خردل (رائی کے دانے) کی مقدار آگے بیان ہوچکی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرمائیںگے :

اذْهَبُوا، فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ(صحیح البخاری ، کتاب التوحید ، باب قول اللہ تعالیٰ :وجوہ یومئذ ناظرۃ ، رقم:7439)

’’جاؤ جس کے دل میں تم ایک دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے جہنم سے نکال دو ۔‘‘

مولانا فاروق اصغر صارم رحمہ اللہ ’’اسلامی اوزان‘‘ میں دینار کی مقدار کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اَلدِّيْنَارُ ضَرْبٌ مِنْ قَدِيْمِ النُّقُوْدِ الذَّهَبِيَّةِ

دینار سونے کا قدیم سکہ ہے۔(اسلامی اوزان، صفحہ:18)

دینار کا وزن ہندی اور برطانوی نظام میں 4 ماشے 4 رتی ہے اور اعشاری وزن کے مطابق 40374 گرام ہے۔ (اسلامی اوزان ، صفحہ :18)

اللہ تعالیٰ فرمائیں گے :

اذْهَبُوا فَمَنْ وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ فَأَخْرِجُوهُ(صحیح البخاری ، کتاب التوحید ، باب قول اللہ تعالیٰ :وجوہ یومئذ ناظرۃ ، رقم:7439)

جاؤ ! جس کے دل میں نصف دینار کے برابر ایمان پاؤ اسے بھی جہنم سے نکال دو ۔‘‘

دینار کا وزن ایمان کے چھٹے درجے کے ضمن میں بیان ہوچکاہے یہاں نصف دینار کا ذکر ہے دینار کے وزن کا نصف کرلیاجائے 2 ماشے 2 رتی بنے گا۔

ایمان کے سات درجات :

مندرجہ بالا مذکور ایمان کے سات درجات بنتے ہیں :

۱۔ جو کے دانے کے برابر ایمان

۲۔ گندم کے دانے کے برابر ایمان

۳۔ ذرہ برابر ایمان

۴۔ رائی کے دانے کے برابر ایمان

۵۔ رائی کے دانے سے بھی کم ایمان

۶۔ ایک دینار کے برابر ایمان

۷۔ نصف دینار کے برابر ایمان

ان سب درجات سے ایمان کا کم از کم درجہ ذرہ برابر ایمان ہے۔

میرے استاذ محترم جناب محدث نوری پوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے دل میں کم از کم ذرہ برابر ایمان پیدا کرنے کے لیے (جو نجات کے لیے ضروری ولازمی ہے) گیارہ چیزوں کو اپنانا لازمی وضروی ہے جن سے پانچ اسلام کے بنیادی ارکان جبکہ چھ چیزیں ایک دوسرے حدیث میں ذکر ہوئیں ہیں جو صحیح مسلم شریف میں ہے ۔

۱۔ اللہ پر ایمان

۲۔ فرشتوں پر ایمان

۳۔آسمانی کتب پر ایمان

۴۔رسولوں پر ایمان

۵۔ آخرت کے دن پر ایمان

۶۔تقدیر کے اچھے یا برے ہونے پر ایمان

۷۔توحید ورسالت کا اقرار

۸۔ نماز قائم کرنا ۹۔زکوٰۃ ادا کرنا

۱۰۔رمضان المبارک کے روزے رکھنا

۱۱۔ بیت اللہ کا حج کرنا

نجات کے لیے ذرہ برابر ایمان ہونا لازمی وضروری ہے ان گیارہ میں سے ایک چیز بھی کم ہونے کی صورت میں بندہ کے دل میں ایک ذرہ برابر ایمان بھی نہیں رہتا جو نجات کے لیے لازمی وضروری ہے جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں وہ جتنا مرضی صاحب ایمان مومن ہونے کا دعویٰ کرتا رہے وہ مومن نہیں رہتا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ   (البقرة:8)

اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہمارا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہے حالانکہ وہ مومن نہیں۔‘‘

روزہ اور ایمان

قارئین کرام! غور فرمائیں ان گیارہ چیزو ں میں سے ایک چیز روزہ بھی ہے اگر کوئی شخص باقی تمام چیزوں پر تو قائم ہے مگر وہ روزہ نہیں رکھتا وہ جتنا مرضی صاحب ایمان ہونے کا دعویٰ کرتا رہے درحقیقت وہ مومن نہیں نیز ایک روایت میں روزے کو ایمان باللہ میں شامل کیا گیا ہے ۔ وفد عبد القیس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا :

بِالإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ

اللہ پر ایمان لانے کا حکم پھر آپ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا : 

أَتَدْرُونَ مَا الإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ

تم جانتے ہو ایمان باللہ کیا ہے؟ پھر آپ ﷺ نے فرمایا:

شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصِيَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ المَغْنَمِ الخُمُسَ (صحيح البخاري، كتاب الإيمان، باب ادا ء الخمس من الإيمان ..... ، رقم:57)

’’گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں نماز قائم کرنا ، زکوۃ ادا کرنا،رمضان کے روزے رکھنا ، مالِ غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا۔

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں غور فرمائیں تو مسئلہ کس قدر واضح ہے کہ روزہ،ایمان باللہ میں شامل ہے جو شخص روزہ نہیں رکھتا گویا وہ اللہ پر بھی ایمان نہیں رکھتا۔

اللہ ہمیں حقیقی ایمان نصیب فرمائے۔آمین

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول