Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

رُباعیّات الجامع الصحیح البخاری وہ روایات جن میں رسولِ اکرم ﷺ اور امام بخاری a کے درمیان صرف چار واسطے ہیں۔

10 Apr,2016

عَلَامَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ
انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے
3-17- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ
یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے شاہد کے طور پر ذکر کی جو کہ رباعی ہے۔
وروى بسند آخر حَد َّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِي اللَّه عَنْه به (کتاب مناقب الانصار باب حب الانصار، رقم الحديث: 3784 )
معانی الکلمات : 
آيَةُ : علامت ، نشانی
حُبُّ : محبت کرنا
الْإِيمَانِ : لغوی معنی تصدیق کرنا
الْأَنْصَارِ: مددگار ، رسول اکرم ﷺ کے وہ اصحاب جنہوں نے مدینہ منورہ میں آپ ﷺ اور مہاجر صحابہ کی مدد کی ۔
النِّفَاقِ : پھوٹ ، دشمنی ، ظاہر میں دوست باطن میں دشمن (إظھار الإيمان وإبطان الکفر)
بُغْضُ : نفرت کرنا ، عداوت رکھنا
ترجمہ : ہمیں حدیث بیان کی ابوالو لید، ان کو شعبہ نے، اُن سے عبداللہ بن جبرروایت کرتے ہیں کہ میں نے سنا سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم ﷺ سے (نقل کرتے ہیں) کہ آپ ﷺ نے فرمایا انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔
Translation:
The Prophet said, "Love for the Ansar is a sign of faith and hatred for the Ansar is a sign of hypocrisy."
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: ابو الوليدھشام بن عبد الملک الباھلی الطیالسی کبار حفاظ حدیث میں سے ہیں بصرہ سے ان کا تعلق ہے۔
کنیت: ابو الولید۔
محدثین کے ہاں رتبہ:امام ، حافظ، شیخ الاسلام
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابو الولید متقن تھے ۔ امام احمد بن عبد اللہ العجلی فرماتے ہیں کہ ابو الولید ثقہ اور ثبت سے متصف تھے۔امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نےابو زُرعہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابو الولید ’’ادرک نصف الاسلام کان إماماً فی زمانہ جلیلاً عند الناس (الجرح والتعدیل ۹/۶۶) نصف اسلام کے عالم ہونے کے باوجود وہ لوگوں کےہاں جلیل القدر امام بھی تھے۔
پیدائش:133ھجری ۔
وفات:227 ھجری میں ہوئی۔
2 نام ونسب : عبد اللہ بن عبد اللہ بن جابر بن عتيکاور کہا جاتا ابن جبر بن عتیک الانصاری المدنی اور ان کا تعلق بنی معاویہ سے ہے۔
محدثین کے ہاں رتبہ : اسحاق بن منصور اور عباس الدوری امام یحییٰ ابن معین سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور اسی طرح عبد الرحمن بن ابی حاتم اور امام نسائی بھی ان کی تعدیل کی ہے۔اور ابن حبان رحمہ اللہ انہیں کتاب الثقات میں ذکر کیاہے۔
(تہذیب الکمال فی أسماء الرجال للمزي)
3 شعبہ بن الحجاج
4اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارفحدیث نمبر 2 میں گزر چکا ہے۔
تشریح : 
انصار اہل مدینہ کا لقب ہے جو انھیں مکہ سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمانوں کی امداد واعانت کے صلہ میں دیاگیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور آپ کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادبھی مدینہ تشریف لے آئی تو اس وقت مدینہ منورہ کے مسلمانوں نے آپ کی اور دیگر مسلمانوں کی جس طرح امداد فرمائی۔ تاریخ اس کی نظیرپیش کرنے سے قاصرہے۔ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا جس کو اللہ کی طرف سے اس طرح قبول کیا گیا کہ قیامت تک مسلمان ان کا ذکر انصار کے معزز نام سے کرتے رہیں گے۔ اس نازک وقت میں اگراہل مدینہ اسلام کی مدد کے لیے نہ کھڑے ہوتے تو عرب میں اسلام کے ابھرنے کا کوئی موقع نہ تھا۔ اسی لیے انصار کی محبت ایمان کا جزو قرار پائی۔ قرآن پاک میں بھی جابجاانصار ومہاجرین کا ذکر خیرہوا ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 
اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَــصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ(سورۃ الانفال72)
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی یہ سب آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
اور فرمایا: 
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَالَّذِيْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ (سورۃ الأنفال : 74)
جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد پہنچائی۔ یہی لوگ سچے مومن ہیں، ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ 

انصار کے مناقب وفضائل میں اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں۔ جن کا ذکر موجب طوالت ہوگا۔ انصار کے فضائل کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے خود اپنے بارے میں فرمایا لَوْلاَ الهِجْرَةُ لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الأَنْصَارِ ( بخاری) اگر ہجرت کی فضیلت نہ ہوتی تومیں بھی اپنا شمار انصار ہی میں کراتا۔ اللہ پاک نے انصار کو یہ عزت عطا فرمائی کہ قیامت تک کے لیے رسول رحمت ﷺان کے شہرمدینہ میں ان کے ساتھ تشریف فرما رہے ہیں۔ ایک بار آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر سب لوگ ایک وادی میں چلیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصارہی کی وادی کو اختیار کروں گا۔ (صحیح البخاری 3779،صحیح مسلم 1059)اس سے بھی انصار کی شان ومرتبت کا اظہار مقصود ہے۔اسی لیے تو انصار سے محبت کو ایمان کا درجہ دیا گیاہے اور انصار سے نفرت کو نفاق کا نام ، نیک اور صالح لوگوں سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی علامت ہے اور صالح لوگوں سے نفرت،بغض اور عداوت بے ایمان ہونے کی پکی نشانی ہے۔
جیسا کہ فرمان نبوی ﷺ ہے : 
عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَنْصَارُ لَا يُحِبُّهُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُهُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ فَمَنْ أَحَبَّهُمْ أَحَبَّهُ اللَّهُ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ أَبْغَضَهُ اللَّهُ (صحیح البخاری :3783)
سیدنا براءرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا ۔ پس جو شخص ان سے محبت رکھے اس سے اللہ محبت رکھے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اس سے اللہ تعالیٰ بغض رکھے گا۔
معلوم ہوا کہ انصار کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان سے دشمنی رکھنا بے ایمان لوگوں کا کام ہے ۔

Read more...

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری مسلمان کی مثال کھجور کے درخت کی مانند

16 Sep,2018

 

بَابُ قَوْلِ المُحَدِّثِ: حَدَّثَنَا، وَأَخْبَرَنَا، وَأَنْبَأَنَا

محدث کا کہنا۔ہم سے بیان کیا اور ہم کو خبردی اور ہمیں بتلایا۔

10-61- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَوَادِي قَالَ عَبْدُاللَّهِ وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَاسْتَحْيَيْتُ ثُمَّ قَالُوا حَدِّثْنَا مَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ هِيَ النَّخْلَةُ .

قتیبہ بن سعید، اسماعیل بن جعفر، عبداللہ بن دینار، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ نے (صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا ہے) کہ اس کے پتے (خزاں کے سبب سے) نہیںجھڑتے اور وہ مسلمان کی مثال ہے فحدثونی ماھی (تو) تم مجھے بتاؤ کہ وہ کون سا درخت ہے تو لوگ جنگلی درختوں (کے خیال) میں پڑگئے۔ ( عبداللہ بن عمر) کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آگیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں (بڑوں کے سامنے پیش قدمی کرنے سے) شرما گیا، بالآخر صحابہ نے عرض کیا کہ حدثنا ماھی یا رسول اللہﷺ  (اے اللہ کے رسول) آپ ہی ہم سے بیان فرمائیے تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

Narrated Ibn 'Umar: Allah's Apostle said, "Amongst the trees, there is a tree, the leaves of which do not fall and is like a Muslim. Tell me the name of that tree." Everybody started thinking about the trees of the desert areas. And I thought of the date-palm tree but felt shy to answer the others then asked, what is that tree, O Allah's Apostle?"

He replied, "It is the date-palm tree."

نوٹ : اس حدیث کے دیگرتوابع و شواہد ہیں وہ بھی سارےرباعی الاسناد ہیں۔

وروى بسند آخرحدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دِينَارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وبه ( رقمه:62)

وروى بسند آخر حدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وبه وفى لفظ ُ قَالَ عَبْدُاللَّهِ فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي فَقَالَ لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا( رقمه:131  )

وروى بسند آخر حدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و به 

وعَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنَا خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ فَحَدَّثْتُ بِهِ عُمَرَ فَقَالَ لَوْ كُنْتَ قُلْتَهَا لَكَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا(له متابعة و شاهد رقمه 6122)

معانی الکلمات

شَجَرَةً: درخت

لَا يَسْقُطُ :نہیں جھڑتے

وَرَقُهَا:اس کے پتے

النَّخْلَةُ :کھجور کا درخت

فَاسْتَحْيَيْتُ:میں نے شرم محسوس کی

تراجم الرواۃ

1۔نام و نسب:قتیبۃ بن سعید بن جمیل بن طریق الثقفی البلخی البغلانی

کنیت:ابو رجاء

محدثین کے ہاں رتبہ:ابورجاء نے حصول علم کےلیے،مکہ المکرمہ ،مدینہ منورہ ،شام عراق اورمصر کے سفر کیے۔امام مالک بن انس ،اللیث بن سعید اور عبداللہ بن لھیفہ ،حماد بن زید اور سفیان بن عیینہ وغیرہم سے علم حاصل کیا ۔

ابو بکر الاثرم کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کو قتیبہ بن سعید کےبارےمیں تعریفی کلمات کہتے ہوئے سنا۔

امام ابو حاتم الرازی بھی قتیبہ بن سعیدکو ثقہ کہتے ۔امام ابن حجر کے ہاں رتبہ ثقۃ اور ثبت ہے۔

وفات:ابو رجاء قتیبہ بن سعید 150 ھجری میں پیدا ہوئے اور 90 سال کی عمر میں240 ھجری میں وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔

2۔نام و نسب:اسماعیل بن جعفر بن ابی کثیر الانصاری الرزقی المدنی القاری ۔

کنیت:ابو اسحاق

محدثین کے ہاں رتبہ:امام علی بن المدینی کہتے تھے کہ اسماعیل ثقہ تھے۔امام ابن الحجر کے ہاں رتبہ ثقۃ اور ثبت ہے۔

اسماعیل بن جعفر قاری اہل مدینہ تھے۔

وفات:اسماعیل بن جعفر کی ولادت 130ھجری میں ہوئی اور وفات 180ھجری  میں ہوئی۔

انا للہ وانا الیہ راجعون۔

3۔ نام و نسب:عبداللہ بن دینار العدوی العمری المدنی

کنیت:ابو عبدالرحمٰن

محدثین کے ہاں رتبہ:عبداللہ بن دینار کا شمار عبداللہ بن عمر اور انس بن مالک رضی اللہ عنھما کے شاگردوں میں ہوتا ہے۔

اما م ا بن الحجر کے ہاںان کارتبہ ثقۃ اور ثبت ہے۔

وفات:عبداللہ بن دینار کی وفات 127 ھجری میں ہوئی۔

امام الحافظ احمد بن علی الاصبھانی کہتے ہیں کہ ان کی ایک حدیث 20 حدیثوں کے برابر ہے۔

4۔سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا تعارف حدیث نمبر1 میں ملاحظہ فرمائیں۔

تشریح:

اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے مسلمان کی مثال کھجور کے درخت سے دی ہے کیونکہ اس درخت کے تمام اجزاء سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور اس کا ہر حصہ فائدہ مند ہوتا ہے اور یہ فائدہ ہر وقت جاری رہتا ہے اس سے حاصل ہونے والا پھل ہر وقت قابل استعمال ہوتا ہے ۔کھجور کو پکنے سے پہلے کھجی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ،پھر تیار ہونے کے بعد کھایا جاتا ہے اور سوکھ جانے کے بعد بھی قابل استعمال ہوتی ہے ،یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلی بھی فائدہ مند ہوتی ہے اورصحرامیں سفر کےدوران یہ پیاس بجھانے کا ذریعہ بنتی ہے ،اسی طرح مسلمانوں کی برکت بھی عام ہے ہر حال میں اس میں بھلائی ہے اوراس کا نفع اپنے لیے اور دوسروں کے لیے جاری دیتا ہے اور یہاں تک کہ اس کے مرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ (فتح الباری)

مسلمان کو کھجور کے درخت کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی گئی کہ اس میں بہت ساری بھلائیا ں پائی جاتی ہیں اور اس کا سایہ ہمیشہ رہتا ہے کیونکہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور اس کا پھل بھیخوش ذائقہ ہوتا ہے اور جب سے اگتا ہے تب سے لیکر اس کے خشک ہونے تک قابل استعمال رہتا ہے اور خشک ہونے کے بعد بھی اس سے کئی فوائد حاصل کیے جاتے ہیںاسی طرح تمام جاندارکھجور کے درخت اسکی لکڑی اس کے تنے اور اس کی ٹہنیو ں اس کے پتوں سے لوگ مستفیدہوتے رہتے ہیں اور اس کی گٹھلی جو اونٹ کے چار ے کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے اسی طرح مسلمان کہلانےوالےکی بھی مثال ایسی ہوتی ہےاور ہونی بھی چاہیے۔

اسکی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ دیکھنے میں یہ اور اسکا پھل بھی خوبصورت لگتا ہے اسی طرح مومن کی مثال ہے کہ اس کا ہر کام بھلائی ہی بھلائی ہے اسکی اطاعت مکارم اخلاق اور عبادات کی وجہ سے اور اس کے یہ اعمال ہمیشہ رہتے ہیں جس طرح کھجور کے پتے ہمیشہ لگے رہتے ہیں۔جس طرح کھجور کا پودا ہر طرح کے موسم گرمی سردی ، آندھی طوفان اور حالات کا صبر و استقامت سے مقابلہ کرتا ہے۔مسلمان کو بھی ایسا ہوناچاہیے کہ وہ بھی زندگی کے نشیب و فراز میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے۔کھجور کے درخت کی ایک اور خوبی بیان کی جاتی ہےکہ اس کے نیچے ہر طرح کا دوسرا پودا اُگ سکتا ہے مسلمان میں یہ صفت بدرجہ اتم ہونی چاہیے کہ وہ کسی دوسرےکی تعمیرو ترقی اور آگے بڑھنے میں ہر گز حائل نہیں ہوتا۔

اور بعض نے اسکی یہ تشبیہ بھی بیان کی ہے کہ اگر کھجور کے درخت کا سر کاٹ دیا جائےتو یہ باقی نہیں رہتا بخلاف دوسرے درختوں کے ۔اسی طرح مسلمان کی بھی مثال ہےکہ اگر اسکے اعمال ختم ہوجائیںتو اس کے ایمان میں روح باقی نہیں رہتی ۔(شرح البخاری لکرمانی)

اور بعض نے اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ اگر کھجور کے درخت کو پتھر ماراجائےتو اس سے پھل گرتے ہیں پتے نہیں گرتے اسی طرح اگر کوئی مسلمان سے برا ئی کرے تو مسلمان اس کے بدلے میں اچھائی کرتا ہے ۔

۔۔۔۔

Read more...

مسجد میں مسائل علمی کا بتانا جائز ہے

10 Jun,2018

18-133- حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنَ الْجُحْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم

قتیبہ بن سعید، لیث بن سعد، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم آپ ہمیں احرام باندھنے کا کس مقام سے حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مدینہ کے لوگ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اور شام کے لوگ حجفہ سے احرام باندھیں اور نجد کے لوگ قرن سے احرام باندھیں، (اور ابن عمر نے کہا) اور لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں، لیکن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سمجھ نہ سکا تھا۔

Narrated Nafi: 'Abdullah bin 'Umar said: "A man got up in the mosque and said: O Allah's Apostle 'At which place you order us that we should assume the Ihram?' Allah's Apostle replied, 'The residents of Medina should assure the Ihram from Dhil-Hulaifa, the people of Syria from Al-Ju,hfa and the people of Najd from Qarn." Ibn 'Umar further said, "The people consider that Allah's Apostle had also said, 'The residents of Yemen should assume Ihram from Yalamlam.' " Ibn 'Umar used to say, "I do not: remember whether Allah's Apostle had said the last statement or not?"

وروى بسند آخرحَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَّهُ أَتَى عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْهمَا فِي مَنْزِلِهِ وَلَهُ فُسْطَاطٌ وَسُرَادِقٌ فَسَأَلْتُهُ مِنْ أَيْنَ يَجُوزُ أَنْ أَعْتَمِرَ قَالَ فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا وَلِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ(رقمه: 1522)

 وروى بسند آخرحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْهمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنَ الْجُحْفَةِ وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ قَالَ عَبْدُاللَّهِ وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ  (رقمه:1525)

معانی الکلمات : 

مِنْ أَيْنَ  کس جگہ سے

تَأْمُرُنَا  آپ ہمیں حکم دیتے ہیں

نُهِلَّ  ہم احرام باندھیں (لبیک کہیں)

يُهِلُّ  وہ احرام باندھیں (لبیک کہیں)

يَزْعُمُونَ  وہ گمان کرتے ہیں

لَمْ أَفْقَهْ  میں نہیں سمجھا

تراجم الرواۃ :

1 قتیبہ بن سعید کا ترجمہ حدیث نمبر 10 میں ملاحظہ فرمائیں

2 اللیث بن سعد کا ترجمہ حدیث نمبر 15 میں ملاحظہ فرمائیں

3  نافع مولی ابن عمر القرشی العدوی

کنیت : ابو عبد اللہ المدنی

محدثین کے ہاں رتبہ : امام سعد انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور مزید فرماتے ہیں کہ یہ کثیر الحدیث راوی ہے۔ امام عجلی اور امام نسائی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ نافع مولی ابن عمر مدنی اور ثقہ تھے۔

وفات : 119ہجری

4 عبد اللہ بن عمر کا ترجمہ حدیث نمبر 1 میں ملاحظہ فرمائیں۔

تشریح : 

میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ لینا چاہئے اور وہاں سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھنا ناجائز ہے اور یہاں بر صغیر سے جانے جانے والوں کے لیے یلملم پہاڑ کے محاذ سے احرام باندھ لینا چاہیے۔ جب جہاز پہاڑوں سے گزرتا ہے تو کپتان خود سارے حاجیوں کو اطلاع کرادیتا ہے یہ جگہ عدن کے قریب پڑتی ہے۔ قرن منازل مکہ سے دومنزل پر طائف کے قریب ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے اور حجفہ مکہ سے پانچ چھ منزل پر ہے۔ قسطلانی نے کہا اب لوگ حجفہ کے بدل رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں۔ جو حجفہ کے برابر ہے ۔

اور اب حجفہ ویران ہے وہاں کی آب وہوا خراب ہے نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ اترتا ہے۔

واختصت الجحفۃ بالحمیٰ فلاینزلہا احد الاحم(فتح)

یعنی حجفہ بخار کے لئے مشہور ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں

18-133- حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا نَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنَ الْجُحْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم

 

قتیبہ بن سعید، لیث بن سعد، نافع، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم آپ ہمیں احرام باندھنے کا کس مقام سے حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مدینہ کے لوگ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں اور شام کے لوگ حجفہ سے احرام باندھیں اور نجد کے لوگ قرن سے احرام باندھیں، (اور ابن عمر نے کہا) اور لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں، لیکن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ بات سمجھ نہ سکا تھا۔

Narrated Nafi: 'Abdullah bin 'Umar said: "A man got up in the mosque and said: O Allah's Apostle 'At which place you order us that we should assume the Ihram?' Allah's Apostle replied, 'The residents of Medina should assure the Ihram from Dhil-Hulaifa, the people of Syria from Al-Ju,hfa and the people of Najd from Qarn." Ibn 'Umar further said, "The people consider that Allah's Apostle had also said, 'The residents of Yemen should assume Ihram from Yalamlam.' " Ibn 'Umar used to say, "I do not: remember whether Allah's Apostle had said the last statement or not?"

وروى بسند آخرحَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ قَالَ حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَّهُ أَتَى عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْهمَا فِي مَنْزِلِهِ وَلَهُ فُسْطَاطٌ وَسُرَادِقٌ فَسَأَلْتُهُ مِنْ أَيْنَ يَجُوزُ أَنْ أَعْتَمِرَ قَالَ فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا وَلِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ وَلِأَهْلِ الشَّأْمِ الْجُحْفَةَ(رقمه: 1522)

 وروى بسند آخرحَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْهمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنَ الْجُحْفَةِ وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ قَالَ عَبْدُاللَّهِ وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ  (رقمه:1525)

معانی الکلمات : 

مِنْ أَيْنَ

کس جگہ سے

تَأْمُرُنَا

آپ ہمیں حکم دیتے ہیں

نُهِلَّ

ہم احرام باندھیں (لبیک کہیں)

يُهِلُّ

وہ احرام باندھیں (لبیک کہیں)

يَزْعُمُونَ

وہ گمان کرتے ہیں

لَمْ أَفْقَهْ

میں نہیں سمجھا

تراجم الرواۃ :

1 قتیبہ بن سعید کا ترجمہ حدیث نمبر 10 میں ملاحظہ فرمائیں

2 اللیث بن سعد کا ترجمہ حدیث نمبر 15 میں ملاحظہ فرمائیں

3  نافع مولی ابن عمر القرشی العدوی

کنیت : ابو عبد اللہ المدنی

محدثین کے ہاں رتبہ : امام سعد انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں اور مزید فرماتے ہیں کہ یہ کثیر الحدیث راوی ہے۔ امام عجلی اور امام نسائی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ نافع مولی ابن عمر مدنی اور ثقہ تھے۔

وفات : 119ہجری

4 عبد اللہ بن عمر کا ترجمہ حدیث نمبر 1 میں ملاحظہ فرمائیں۔

تشریح : 

میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ لینا چاہئے اور وہاں سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھنا ناجائز ہے اور یہاں بر صغیر سے جانے جانے والوں کے لیے یلملم پہاڑ کے محاذ سے احرام باندھ لینا چاہیے۔ جب جہاز پہاڑوں سے گزرتا ہے تو کپتان خود سارے حاجیوں کو اطلاع کرادیتا ہے یہ جگہ عدن کے قریب پڑتی ہے۔ قرن منازل مکہ سے دومنزل پر طائف کے قریب ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے اور حجفہ مکہ سے پانچ چھ منزل پر ہے۔ قسطلانی نے کہا اب لوگ حجفہ کے بدل رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں۔ جو حجفہ کے برابر ہے ۔

اور اب حجفہ ویران ہے وہاں کی آب وہوا خراب ہے نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ اترتا ہے۔

واختصت الجحفۃ بالحمیٰ فلاینزلہا احد الاحم(فتح)

یعنی حجفہ بخار کے لئے مشہور ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں عمالقہ نے قیام کیا تھا جب کہ ان کو یثرب سے بنو عبیل نے نکال دیا تھا مگر یہاں ایسا سیلاب آیا کہ اس نے اس کوبرباد کر کے رکھ دیا۔ اسی لئے اس کا حجفہ نام ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عمرہ کے میقات بھی وہی ہیں جو حج کے ہیں۔

 

حج وعمرہ کے لیے جانے والوں کے اِحرام باندھنے کے مقامات یہ ہیں :مدینہ سے ہوتے ہوئے آنے والوں کے لیے ذوالحلیفة (بئر علی)،اہلِ شام اور اس راہ (اندلس، الجزائر،لیبیا، روم،مراکش وغیرہ ) سے آنے والوں کے لیے جُحفه (رابغ)، اہلِ نجد اور براستہ ریاض۔ طائف گزرنے والوں کے لیے قرن المنازل (السیل الکبیر یا وادیٔ محرم)، اہل یمن اور اس راستے سے (جنوبِ سعودیہ،انڈونیشیا،چین،جاوہ،انڈیا اور پاکستان سے)آنے والوں کے لیے یَلَمْلَمْ (سعدیہ) اور ان مقامات سے اندرونی جانب رہنے والوں کے لیے ان کے اپنے گھر ہی میقات ہیں ۔

اہل ِ عراق اور اس راستہ سے (ایران اور براستہ حائل) آنے والوں کا میقات ذات ِعرق نامی مقام ہے۔

مصر کے لیے بھی شام والوں کا ہی میقات ہے۔

حج وعمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جانے والا اگر اِحرام باندھے بغیر میقات سے گزر جائے تو واپس لوٹ کر میقات سے احرام باندھ کر جائے یا پھر اندرہی کہیں سے احرام باندھ لے تو دَم(فدیہ کا بکرا) دے اور اس کا حج و عمرہ صحیح ہوگا۔

کسی ذاتی غرض،تجارت،تعلیم،علاج وغیرہ سے جائے اور حج وعمرہ کا ارادہ نہ ہو تو بلا احرام حدود ِ حرم میں داخل ہوسکتا ہے۔

پاک وہند سے ہوائی جہاز سے آنے والے لوگ اِحرام کی چادریں اور خواتین احرام کے کپڑے پہن کر چلیں اور جہاز کے عملے کے یہ بتانے پر کہ میقات سے گزرنے لگے ہیں ، وہاں سے لَبَّـیْکَ پکارنا شروع کردیں ۔ ہوائی مسافروں کا جہاز میقات سے گزر کر جدہ آتا ہے، لہٰذا ان کے لئے جدہ میقات نہیں ہے۔

Read more...

سِلسلةُ رُباعیّات الجامع الصحیح للبخاری کیا ایمان میں کمی وزیادتی ہوتی ہے؟ قسط 6

21 Aug,2016

بَاب زِيَادَةِ الْإِيمَانِ وَنُقْصَانِهِ
وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ( وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ) ( وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ) وَقَالَ ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ) فَإِذَا تَرَكَ شَيْئًا مِنَ الْكَمَالِ فَهُوَ نَاقِصٌ
ایمان کی کمی زیادتی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ثابت ہے اور ہم نے ان کی ہدایت زیادہ کر دی اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے (یہ بھی فرمایا ہے) کیونکہ کامل چیز میں سے کمی کی جائے گی تو اس کا نام نقصان ہے
6-44- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ شَعِيرَةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ بُرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ وَيَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَفِي قَلْبِهِ وَزْنُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ قَالَ أَبو عَبْد اللَّهِ قَالَ أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِيمَانٍ مَكَانَ مِنْ خَيْرٍ .
معانی الکلمات : 
وَزْنُ : مقدار
شَعِيرَةٍ : جَو
خَيْرٍ:نیکی ، بھلائی ، مدار ایمان \\
بُرَّةٍ : گندم
ذَرَّةٍ : ذرہ برابر
مسلم بن ابراہیم، ہشام، قتادہ، سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے اور اس کے دل میں گندم کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهکہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان نے بروایت قتادہ، انس، نبی ﷺسے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے۔
Narrated Anas: The Prophet said, \"Whoever said \"None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a barley grain will be taken out of Hell. And whoever said: \"None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of a wheat grain will be taken out of Hell. And whoever said, \"None has the right to be worshipped but Allah and has in his heart good (faith) equal to the weight of an atom will be taken out of Hell.\"
تراجم الرواۃ:
1نام ونسب: مسلم بن إبراهيم الأزدي الفراهيدي محدث البصرۃ، البصری
کنیت : ابو عمرو
ولادت : 133ہجری ۔
محدثین کے ہاں رتبہ :
ابو اسمعیل ترمذی کہتے ہیں کہ میں نے مسلم بن ابراہیم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میںنے 800 مشائخ سے حدیث لکھی ہیں۔ امام یحییٰ بن معین کے ہاں ثقہ مامون ہیں، عبد الرحمن بن ابی حاتم کہتے ہیں کہ میں نےاپنے والد سے مسلم بن ابراہیم کے بارے سوال کیا تو جواب میں عرض کیا کہ وہ ثقہ صدوق تھے۔
وفات : 222 هہجری ۔
2 ھشام بن أبی عبد اللہ الدستوائی البصری الربعی ھو الحافظ الحجۃ الإمام
کنیت : ابو بکر
محدثین کے ہاں رتبہ :
امام علی بن المدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام ثبت ہیں ، امام العجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہشام بصری حدیث میں ثقہ ثبت ہیں۔
وفات :ہشام بصری رحمہ اللہ کی وفات 152 ہجری یا 153 ہجری میں ہوئی ۔
3 قتادہ بن دعامہ کا تعارف حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔
4 سیدناأنس بن مالک رضی اللہ عنہ کا تعارف بھی حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔
تشریح : 
اس حدیث میں واضح طور پر بیان ہوا ہےکہ جس کسی کے دل میں ایمان کم سے کم ہوگا۔ کسی نہ کسی دن وہ مشیت الٰہی کے تحت اپنے گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان پر نجات کا دارومدار ہے مگر اللہ کے یہاں درجات اعمال ہی سے ملیں گے۔ جس قدر اعمال عمدہ اور نیک ہوں گے اس قدر اس کی عزت ہوگی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں اور یہ کہ کچھ لوگ ایمان میں ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض کے قلوب میں ایمان محض ایک رائی کے دانہ برابر ہوتا ہے۔ حدیث نبوی میں اس قدر وضاحت کے بعد بھی جو لوگ جملہ ایمان داروں کا ایمان یکساں مانتے ہیں اور کمی بیشی کے قائل نہیں ان کو اس قول کا خود اندازہ کرلینا چاہئیے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ووجہ مطابقۃ ھذا الحدیث للترجمۃ ظاہر واراد بایرادہ الرد علی المرجئۃ لما فیہ من ضرر المعاصی مع الایمان وعلی المعتزلۃ فی ان المعاصی موجبۃ للخلود یعنی اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے اور حضرت مصنف رحمہ اللہ کا یہاں اس حدیث کے لانے سے مقصد مرجیہ کی تردید کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میں ایمان کے باوجود معاصی کا ضرر ونقصان بتلایا گیا ہے اور معتزلہ پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ گنہگار لوگ دوزخ میں ہمیشہ رہیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً (الانفال 2)
قرآن مجید کی آیات سن کر مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے ۔ جب قرآنی آیات پڑھنے یا سننے میں آپ کو لطف آرہا ہو ، آیات میں دیے گئے پیغام کی سمجھ آرہی ہو ، عمل کرنے کا عزم پیدا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان میں اضافہ ہوا ہے ۔
جب اذان ہورہی ہو ، اور ہم سن کر بھی کروٹ بدل کر سو جائیں ، تو اس کا مطلب ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے ، جس کی وجہ سے شیطان ہم پر حاوی ہورہا ہے ۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایمان کے کم اور زیادہ ہونے سے متعلق پوچھا گیا ، تو آپ نے درج ذیل موقوف حدیث بیان کی :
حدثنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حدثنا حماد بن سلمة، عن أبي جعفر الخطمي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ عُمَيْرِ بْنِ حَبِيبٍ قَالَ: الإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، فَقِيلَ: وَمَا زِيَادُهُ وَمَا نُقْصَانُهُ؟ فَقَالَ: إِذَا ذَكَرْنَا اللَّهَ فَحَمِدْنَاهُ وَسَبَّحْنَاهُ؛ فَذَلِكَ زِيَادَةٌ، وَإِذَا أَغْفَلْنَا وَضَيَّعْنَا وَنَسِينَا، فَذَلِكَ نُقْصَانُهُ.(حديث السراج 3/ 81)
عمیر بن حبیب نے کہا : ایمان کم اور زیادہ ہوتا ہے ، پوچھا گیا : یہ کمی بیشی کیسے ہوتی ہے ؟ فرمایا : جب ہم اللہ کا ذکر کرتے ہیں ، اللہ کی حمد اور تسبیح بیان کرتے ہیں تو یہ ایمان میں اضافہ ہے ، اور جب ہم اللہ کے ذکر سے غافل ، لا پرواہ رہتے ہیں تو یہ ایمان کی کمی کے باعث ہوتا ہے ۔
یہ اثر مصنف ابن ابی شیبہ ، السنۃ للخلال ، الشریعہ للآجری ، الابانۃ لابن بطہ ، شعب الایمان للبیہقی سمیت کئی ایک کتابوں میں بھی موجود ہے ۔ایمان کا اتار چڑھاؤ۔
ایک مومن کا ایمان کب بڑھتا ہے اور کب گھٹتاہے ۔
ایک مومن مرد وعورت کیلئے انتہائی ضروری ہےکہ وہ ہمیشہ اپنے ایمان کو کتاب و سنت کے ترازو میں تولتا رہے اور یہ دیکھتا رہے کہ اسکا ایمان اس دنیا کی خطرناک مارکیٹ میں کس قدر گراوٹ کا شکار ہورہا ہے ، وہ اپنے ایمان کو کتنے وائرس سے بچا پارہا ہے ، یقینا آج ہماری نظریں دنیاوی کاروبار پر لگی ہوتی ہیں کہ جانے کب اور کس لمحہ ہمارے کاروبار کمزور ہوجائے اور ہمیں یہ فکر تو لاحق ہوتی ہے کہ ہم اپنے گرتے کاروبارکیسے کھڑا کریں ، لیکن عجیب سی بات ہے کہ ہمیں اپنے سب سے قیمتی سرمایہ اپنے ایمان کے کمی و زیادتی کی فکر نہیں ہوتی جبکہ سیرت رسول r کے ذریعہ یہ بتایا گیا کہ خبردار ایمان یہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ اسے ایک مرتبہ خرید لیا جائے اور اسے اپنے کھاتے میں خاندان در خاندان فکس کردیا جائے ، بلکہ ایمان کیلئے ضروری ہےکہ ایک مسلمان ہمیشہ اپنی توجہ اسکی طرف مائل رکھے ، اور اس بات کا علم رکھے کہ کونسی چیزیں اسے نقصان پہنچاتی ہیں اور کن چیزوں سے اسے قوت ملتی ہے اس علم کے ساتھ وہ ان چیزوں کو اختیار کرے جن سے ایمان کو جلا ملتی ہے اور ان چیزوں سے کنارہ کشی اختیار کرلے جن سے ایمان پارہ پارہ ہوجاتا ہے ، لہذا اس حدیث مبارک کی روشنی میں اسی بات کو پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیںکہ وہ کونسے اسباب ہیں جو ایمان میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں اور کونسے ایسے اسباب جو ایمان کیلئے خطرہ اور اس میں کمی کا باعث بنتے ہیں :
ایمان میں زیادتی کے اسباب :
پہلا سبب :
اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرفت ، بلا شک انسان کو اللہ تعالی کے اسماء وصفات کی معرفت جتنی زیادہ ہو گی اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا اسی لئے آپ اہل علم کو جنہیں اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے انہیں ایمان میں دوسروں سے قوی الایمان پائیں گے۔
دوسرا سبب :
اللہ تعالی کی کونی اور شرعی نشانیوں میں غور وفکر تو انسان جتنا زیادہ جہان کے اندر مخلوقات میں غور وفکر کرے گا اتنا ہی اس کا ایمان زیادہ ہو گا ۔
فرمان باری تعالی ہے :
وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِلْمُوقِنِينَ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلا تُبْصِرُونَ (الذاریات 20 – 21 )
اور یقین والوں کے لئے تو زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں اور خود تمہاری ذات میں بھی تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو
تیسرا سبب :
کثرت اطاعت : کیونکہ انسان جتنی اطاعت زیادہ کرے گا اس کا اتنا ہی ایمان بھی زیادہ ہو گا چاہے یہ اطاعت قولی ہو یا فعلی تو اللہ کا ذکر ایمان کی کیفیت اور کمیت کو بھی زیادہ کرتا ہے نماز روزہ اور حج بھی ایمان کی کیفیت اور کمیت کو زیادہ کرتا ہے ۔
ایمان میں کمی کے اسباب :
پہلا سبب :
اللہ تعالی کے اسماء وصفات سے جہالت کی بنا پر ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالی کے اسماء وصفات میں انسان کی معرفت کم ہوتی ہے تو اس کا ایمان بھی ناقص ہو جاتا ہے ۔
دوسرا سبب :
اللہ تعالی کی کونی اور شرعی نشانیوں میں غور و فکر اور تدبر سے اعراض کیونکہ یہ نقص ایمان کا سبب بنتا ہے یا پھر کم از کم اسے وہیں ٹھرا دیتا اور اسے بڑھنے نہیں دیتا ۔
تیسرا سبب :
معصیت اور گناہ کا ارتکاب کیونکہ گناہ کا دل اور ایمان پر بہت بڑا اثر ہے اسی لئے نبی ﷺکا فرمان ہے: (زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا)۔
چوتھا سبب :
اتباع واطاعت نہ کرنا ترک اطاعت یقینی طور پر نقص ایمان کا سبب ہے لیکن اگر اطاعت واجب ہو اور اسے بغیر کسی عذر کے ترک کیا جائے تو وہ ایسا نقص ہے جس پر سزا اور ملامت بھی ہو گی اور اگر اطاعت واجب نہیں یا پھر واجب تھی لیکن اسے کسی عذر کی بنا پر ترک کیا گیا تو وہ ایسا نقص ہے جس پر سزا اور ملامت بھی ہو گی اور اگر اطاعت واجب نہیں یا پھر واجب تھی لیکن اسے کسی عذر کی بنا پر ترک کیا گیا تو وہ ایسا نقص ہے جو کہ ملامت والا نہیں تو اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو ناقص العقل اور دین قرار دیا او اس کے نقص دین کی علت یہ بیان فرمائی کہ جب اسے حیض آتا ہے تو وہ نماز نہیں پڑھتی اور نہ ہی روزہ رکھتی ہے حالانکہ حالت حیض میں نماز اور روزہ چھوڑنا ملامت کا کام نہیں بلکہ اسی کا حکم ہے لیکن وہ فعل جو کہ مرد کرتا ہے جب اس سے وہ چھوٹ گیا تو اسی وجہ سے وہ ناقص العقل ہوئی ۔( مجموع فتاوی ورسائل الشیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ)
اوراللہ تعالی کا ذکر ایمان میں زیادتی اور دل کے اطمینان کا سبب ہے –۔
جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :
أَلا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (سورة الرعد 28)
\" خبردار اللہ تعالی کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں \"
اور نماز اور روزوں اور باقی ارکان اسلام کی پابندی کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی رحمت کی امید اور اپنے معاملات میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے سے ایمان قوی اور مضبوط ہوتاہے۔
فرمان باری تعالی ہے :
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (سورة الأنفال2۔4)
\" ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر آتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ تعالی کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس بڑے درجے اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے\"
اوراللہ تعالی کی اطاعت سے ایمان زیادہ اور معصیت سے اس میں کمی واقع ہوتی ہے تو آپ پر جو اللہ تعالی نے نماز کی ادائیگی بروقت اور مسجد میں واجب کی اس کی حفاظت کرنےاور اسی طرح دلی لگاؤ سے زکوۃ کی ادائیگی آپ کے گناہوں سے پاکی اور فقراء اور مساکین کے لے رحمت کا باعث ہو گی –
آپ اہل خیر اور اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں جو کہ آپ کے لئے شریعت کی تطبیق میں معاون ثابت ہو گی اور وہ دنیا وآخرت کی سعادت کی طرف آپ کی رہنمائی کریں گے –اور برے بدعتی اور گناہ گار لوگوں سے دور رہیں تا کہ وہ آپ کو کہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں اور آپ میں خیر و بھلائی کے عزم کو کمزور نہ کر دیں –۔
اور کثرت سے نوافل اور خیر وبھلائی کے کام کرتے رہیں اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے رہو اور اس سے توفیق طلب کرتے رہو۔
اگر آپ نے یہ کام سر انجام دئے تو اللہ تعالی آپ کے ایمان کو زیادہ کر دے گا اور جو آپ سے بھلائی کے کام چھوٹ گئے ہیں آپ انہیں حاصل کر سکیں گے اور اللہ تعالی اسلام کی راہ پر آپ کے احسان اور استقامت میں زیادتی فرمائے –۔
آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے
يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَی دِينِکَ
’’اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ۔‘‘

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول