سب کہاں کچھ لالہ وگُل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا کیا صورتیں پنہاں ہوگئیں
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم ومغفور ایک کُھنہ مشق، سوانح نگار، درد مند دل کے مالک ،مثال مورخ ہونے کے ساتھ اہم مخلص ، محبت کرنے والے ، بےلوث اور محبوب علمی دوست بھی تھے یہ ان کا بڑا پن تھا کہ ان سے اختلاف رکھنے والے بھی ان سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے فن’’ یادرفتگان‘‘ درحقیقت ادبی نوحہ خوانی ہے جس میں بلاشبہ سلفی مرحوم نے اپنی جانی پہچانی شخصیات کے ہو بہو |||’’نقوش زندگی‘‘ ادبی رنگوں کے ساتھ اُبھار کر اپنے قارئین کرام تک پہنچائے، اس کے علاوہ سلفی صاحب نے توحید باری تعالیٰ ، سنت نبویﷺ ، سیرت رسولﷺ ، ختم نبوت، اخلاق حمیدہ، تاریخ اسلام،سفرنامے اور حالات حاضرہ پر بھی ناقابل فراموش علمی وادبی خدمات جلیلہ سرانجام دیں مگر
آں قدح بشکست وآں ساقیآنہ ھاند
اللہ تعالیٰ نے سلفی صاحب کو علم دوست اور خوبصورت خاکہ نگاری سے بڑی فیاضی سے نوازا تھا نہ صرف اتنا بلکہ آپ ایک بہترین کتب کے تبصرہ نگار بھی تھے۔ جو مصنفین کی تصانیفات لطیف پر جاندار تبصرہ نگاری میں بڑی محنت،عرق ریزی سے مطالعہ دیدہ ریزی اور دیانتداری سے کام لیتے تھے کتاب کے حسن وقبح مندرجات کا پورا جائزہ لے کر رائے دیتے تھے،خصوصاً سیرت وسوانح نگاری میں بڑی مہارت رکھتے تھے، اس لئے لوگ اُن کے خاکوں کو بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔
ورنہ کسی کے حالات زندگی کو سلیقے اور قرینے سے لکھنا کوئی آسان کام نہیں اس موضوع پر جو دسترس مولانا سلفی کو حاصل ہوئی وہ بہت کم لوگوں کو میسر آتی ہے مختصر وقت میں وہ اپنے حصہ کا بڑا کام کرگئے۔
ما و مجنوں ہم سبق بودیم در دیوان عشق
او بصحرا رفت و ما در کوچہ ہا رسوا شدیم
خوبصورت تحریر کے ساتھ آپ ایک اچھے ناصح،واعظ اور خطیب بھی تھے آپ بہت خلیق اور ملنسار آدمی تھے ان کے دوستوں اور جاننے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا بالخصوص پنجاب اور باب الاسلام سندھ کے علماء عظام سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے وہ جہاں کراچی میں مولانا عبید اللہ سلفی ا ور مولانا عبد العظیم حسن زئی سے باقاعدہ رابطہ رکھتے جماعت غرباء اہل حدیث کے زعماء کو یاد رکھتے وہاں پر اندرون سندھ فضیلۃ الشیخ افتخار احمد الازہری، عبد الحمید گوندل موالنا محمد خان محمد اور ناچیز راقم الحروف کو بھی ہمیشہ یاد کرتے رہتے تھے ۔
یاد نہیں ہم کو بھی رنگارنگ نرم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
آئے دل برصغیر کے بلند پایہ جماعتی جرائد میں ان کے رشحات قلم مستقل زینت بن گر بُوئے گُل کی طرح دولت شہرت سے ادب وصحافت کا دُبستان آباد کئے نظر آتے تھےوہ مختصر وقت میں سات سے زائد سوانحی علمی اور تاریخی کتب کے مصنف ومؤلف بن چکے تھے سیکڑوں کی تعداد میں ان کےباوقار مضامین معیاری جرائد ورسائل کی زینت بن چکے ہیں بقول ملک عبد الرشید عراقی حفظہ اللہ تعالیٰ مولانا سلفی تحریر ونگارش میں مولانا محمداسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی شخصیت سے بہت متأثر تھے اور ان کے عمل وفضل، اخلاص وللہیت ، اخلاق وکردار اور اُن کی علمی خدمات کے معترف اور اُن سے گہرے دوستانہ مراسم کئے اور مولانا بھٹی نے اپنی کتب، کاروان سلفی، حیات صوفی عبد اللہ ، قافلہ حدیث اور چمنستان حدیث میں تفصیل سے مرحوم کا تذکرہ فرمایا ہے۔
دراصل اُن کی باوقار تحریر کی خوشبو ہر سوپھیل چکی تھی چونکہ
عطر آں است کہ خود بیوید نہ کہ عطّار بگوید
نام ونسب : مولانا محمد رمضان یوسف سلفی رحمہ اللہ 4دسمبر 1967ء پیر کے روز بمقام فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں ’’پکی پنڈوری‘‘ چک نمبر RB267آلابی میں مرحوم محمد یوسف جیسے صُوفی منش، سادہ دل ، شریف النفس کے گھر میں پیدا ہوئے ان کے دادا مرحوم کا اسم گرامی ’’منشی‘‘ تھا ، مولانا سلفی چھ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ سلفی صاحب کے آباء واجداد ماضی کے لحاظ سے مشرقی پنجاب، ضلع ہوشیار پور بھارت کے گاؤں’’میانی پٹھانوں‘‘ والی کے مکین تھے ان کے والد ماجد کا 1979ء میں ایسے وقت پر انتقال ہوا جب مولانا سلفی صرف بارہ برس کے تھے اور وہ ابتدائی پرائمری تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کرچکے تھے اب آپ کے نازک کاندھوں پر پورے گھر کی ذمہ داریاں آن پڑیں۔ اُن کے خاندان نے 1978ء کو نقل مکانی کرکے فیصل آباد میں آکر مستقل سکونت اختیار کی ، جہاں آپ نے ایم۔ سی ہائی سکول سمن آباد میں داخلہ لے کر آگے پڑھنے کی کوشش کی مگر مختصر وقت کے بعد خاندان کی ذمہ داریوں کے باعث آپ آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے جس کا انہیں ہمیشہ ملال رہا، آپ نے ابتدائی اسلامی تعلیمات اپنے گاؤں کے پیش امام مولانا عماد الدین سے حاصل کی جس کے بعد پھر فیصل آباد میں آکر محمدی مسجد اہل حدیث نثار کالونی کے قاری منیر احمد سعید اور قاری احمد نواز صابر سے ناظرہ قرآن عظیم پڑھاجس کے بعد اسی مسجد کے خطیب مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب سے قرآن عظیم کا ترجمۃ القرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کی جس کے ساتھ آپ نے ان کے فاضلانہ دروس بخاری سے خوب استفادہ کیا اس کے ساتھ حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰۃ المصابیح سے بھی آپ نے بے حد علمی استفادہ کیا۔
جماعت اہل حدیث سے وابستگی :
مولانا سلفی کی مسلک اہل حدیث سے وابستگی میں ان کے ماموں جان مرحوم مولوی محمد شریف(متوفی 2005ء)کی خصوصی توجہ ،انہماک، تعلیم وتربیت کا بڑا حصہ تھا اس کے علاوہ ان کے اپنے وسیع مطالعہ، مشاہدہ کے اشتیاق میں مولانا حکیم ثناء اللہ ثاقب، مولانا عبد الجبار سلفی ، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا ارشاد الحق اثری اور قاری احمد نواز صابر جیسے اصحاب علم وعمل کی بابرکت مجالس اورتحریروں، تقریروں نے بھی سونے پے سھاگے کا کام کیا، جس کے نتیجہ میں آپ نے باقاعدہ مسلک اہلحدیث اختیار کیا۔ ان کی کم عمری ہی میں والد محترم کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے باعث آپ نے معاشی لحاظ سے شدید مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے، فٹ بُلٹ بنانے کے کارخانے اور پھر اُونی مفلر بنانے کی فیکٹری میں اٹھارہ برس تک محنت ومزدوری کی غربت کا اس قدر مردانہ وار مقابلہ کیا کہ فیصل آباد میں بجلیکا میٹر تک خریدنے کی طاقت نہ ہونے کے باعث آپ نے دن کو محنت ومزدوری کے بعد رات کو لالٹین پر اپنی تعلیمی مصروفیات جاری رکھیںایسے پُر آشوب حالات میں آپ نے 1988ء میں قرآن عظیم کے ناظرہ امتحان میں دوسری پوزیشن حاصل اور حسن اتفاق سے انہیں انعام میں بھی’’صلوۃ الرسول‘‘ مولانا محمد صادق سیالکوٹی رحمہ اللہ کی نادر روزگار کتاب تحفہ میں ملی جس کے مطالعہ سے ان کے ذہن میں اتباع الرسول ﷺ کی اہمیت مزید واضح ہوگئی اسی کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے آپ نے پہلا جامعہ اور جاندار مضمون بعنوان ’’فرضیت الصلوٰۃ‘‘ تحریر کیا جو ان کے پہلے مضمون کی حیثیت میں مؤقر صحیفہ اہل حدیث کراچی میں 1991ء کو شائع ہوا جس کے بعد آپ میں لکھنے پڑھنے کی دلچسپی مزید بڑھ گئی پھر ایسا وقت بھی تاکہ آپ ایک بہترین مصنف اورمؤلف ٹھہرے ان کی تحریریں تمام جماعتی جرائد کی زینت بنتی گئیں۔
تصنیفی خدمات :
آپ نے مختلف موضوعات پر سیکٹروں مضامین لکھے جو باقاعدہ مؤقر’’صحیفہ اہل حدیث کراچی۔ الاعتصام لاہور۔ ترجمان السنۃ لاہور۔ صدائے ہوش فیصل آباد۔ ترجمان الحدیث فیصل آباد۔ ہفت روزہ اہل حدیث لاہور۔تنظیم اہل حدیث لاہور ۔ الاخوۃ لاہور۔ دعوت اہل حدیث حیدرآباد سندھ۔ المنبر فیصل آباد۔ الواقعہ کراچی ۔الحرمین جہلم۔حدیبیہ کراچی۔ماہنامہ اسوئہ حسنہ کراچی۔تفہیم الاسلام احمد پور شرقیہ۔ترجمان دہلی۔ نوائے اسلام دہلی۔صراط مستقیم برمنگہم کے علاوہ روز نامہ پاکستان اور روزنامہ ایکسپریس میں بھی ان کے رشحات قلم باقاعدہ شائع ہوتے رہے۔ ان کے علاوہ ان کی حسب ذیل کتب باقاعدہ شائع ہوکر قارئین کرام سے داد تحسین حاصل کرکے مقبول عام بن گئیں۔
1۔ مولانا عبد الوہاب دہلوی اور ان کا خاندان
2۔ اللہ تعالیٰ کے چار اولیاء
3۔ مؤرخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی۔حیات وخدمات
4۔ پیکر اخلاص مولانا محمد ادریس ہاشمی رحمہ اللہ
5۔ عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ میں علماء اہل حدیث کی خدمات
6۔ منشی رام عبد الواحد کیسے بنے؟
7۔ فاتح قادیان مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری حیات وخدمات
ان کے علاوہ ان کی چند کتب ابھی اشاعت کی منتظر تھیں مزید یہ کہ ان کے متعدد مضامین ومقالات کثیر تعداد میں اپنے پیچھے یادگار چھوڑے ہیں ۔
اولاد:
آپ نے 2 اپریل 2001ء میں شادی کی مولانا محمد رمضان سلفی رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیںبڑے بیٹے کا نام ابو بکر چھوٹے بیٹے کا نام عبد اللہ ہے ان کی سب سے بڑی دختر کا نام حِراء ہے اللہ تعالیٰ ان کے پس ماندگان کی حفاظت کرے اور صبرجمیل کی توفیق بخشے۔ آمین
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اہل علم واہل قلم کی نظر میں :
ذہبی دوران مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ (متوفی ۲۰۱۵) مولانا محمد رمضان سلفی کے متعلق تحریر فرماتے ہیں، کہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی میانہ قد، مناسب خدوخال ، خوش اخلاق، خوش اطوار مہمان نواز ، اہل علم کے قدر دان ہم ذوق لو گو|ں سے میل ملاقات رکھنے والے سادہ مگر صاف ستھرا پہناوا، پڑھنے لکھنے کے شائق انہوں نے مختلف عنوانات پر کم وبیش ڈیڑھ سو مضامین لکھے جن میں سیرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے چند پہلو، شان ابو بکر صدیق،جمال مصطفیٰ ﷺ،فضائل عشرہ ذی الحج، سیرت النبی ﷺ کے چند پہلو، لباس خضر میں رہزق(سفرنامہ حرمین شریفین، فتاوی علماء اہل حدیث کی تاریخ) وغیرہ شامل ہیں ان کے علاوہ ایک سو کے قریب علماء کرام کے تراجم سپرد قلم کیئے۔آگے مولانا بھٹی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں کہ
الله تعالیٰ کے رنگ دیکھئے! ایک غریب گھرانہ سے غربت کی حالت میں محمد رمضان سلفی کی زندگی کا آغاز ہوا ایک کارخانے میں (اٹھارہ برس) تک آتش وآہن سے تعلق رہا نٹ بُلٹ بناتے رہے ہورزی میں اُونی مفلر تیار کرنے کاکام کے دوران میں رفتہ رفتہ کچھ تعلیم حاصل کی اور قلم وقرطاس سے رابطہ قائم کرلیا اور مقالہ نگار ومصنف کے طور پر شہرت پائی اللہ انہیں خوش رکھے اور دین اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کے مواقع فراہم کرے آپ کا تعلق (تنظیمی لحاظ سے) جماعت غرباء اہل حدیث سے ہے۔ ( 20اپریل 2013ء چمنستان حدیث ، ص:765)
جناب سلفی صاحب کے متعلق پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’محترم مولانا محمد رمضان یوسف سلفی حفظہ اللہ تعالیٰ ایک معروف نوجوان ، عالم دین، مقبول قلم کار، اعلیٰ اخلاق کے مجسمہ ہیں اصحاب علم وقرطاس ان سے بخوبی واقف ہیں آں محترم مختلف علمی، تحقیقی اور اصلاحی موضوعات پر خاکہ فرسائی کرتے رہتے ہیں بالخصوص بزرگ علمی شخصیات کی سیرت وسوانح لکھتے ہیں انہیں قدرت کی طرف سے ملکہ ودیعت کیاگیا ہے۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری ص 9)
جناب پروفیسر مسعود الرحمن صاحب مزید لکھتے ہیں کہ
الحمد للہ میرے پیارے دوست ہم پیالہ وہم نوالہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری (متوفی 15 مارچ 1948ء) کی باغ وبہار شخصیت پر قلم اٹھایا اور عقیدت کے پھول نچھاور کردیئے آج سے بہت عرصہ پہلے جب میری پہلی ملاقات (جولائی 1990ء) مولانا سلفی سے ہوئی تو وہ پہلے ہی مولانا ثناء اللہ امرتسری کی محبت وعقیدت سے سرشار تھے ۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری ص 12)
محترم ضیاء اللہ کھوکھر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا سلفی کے ماہنامہ ترجمان الحدیث میں مولانا ثناء اللہ امرتسری کی سیرت وخدمات پر خوبصورت مربوط، رواں تحریر شائع ہوئی بلاشبہ یہ مضمون افادیت کے لحاظ سے کتابی صورت میں منظر عام پر لانے کے لائق ہے۔
(ابتدائیہ مولانا ثناء اللہ امرتسری )
فاضل نوجوان مولانا عبد العظیم صاحب حسن زئی مدیر مؤقر صحیفہ اہل حدیث کراچی تحریر کرتے ہیں کہ
رمضان یوسف سلفی نے کم عرصہ میں جتنا تحریری اور تصنیفی کام کیا ہے یہ ہر لحاظ سے دادتحسین وتعریف کے لائق ہے(ان کے حق میں) ان کی والدہ محترمہ کی دعائیں (جو کہ کچھ عرصہ قبل انتقال فرماگئیں) مولانا عبد الرحمن سلفی مدظلہ العالی کا دست شفقت اور حوصلہ افزائی، اپنی ذات میں لگن ، محنت مطالع کے شوق نے انہیں تحریر کی ایسی صلاحیت مہیا کردی ہے کہ آج بحمد للہ جماعت اہل حدیث کے معتبر مؤلفین اور ملک کے نامور اہل قلم میں شمار ہوتے ہیں ۔ ( مولانا محمد ادریس ہاشمی ص 13)
مولانا محمد زاہد الہاشمی الازہری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان سلفی اپنے مخصوص اسلوب نگارش کی بناء پر علمی،دینی اور تعلیمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ انتہائی مخلص ،مشفق اور محنتی انسان ہیں کام کی لگن اور دلچسپی آپ کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔(مولانا محمد ادریس ہاشمی ص:12)
محترم عبد الرشید صاحب عراقی ختم نبوت اور علمائے اہل حدیث کی مثالی خدمات میں لکھتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی جماعت اہل حدیث پاکستان کے معروف قلمکار ہیں ان کے مضامین ومقالات مختلف موضوعات پر ملک کے مؤقر رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں اُ ن مضامین ومقالات سے سلفی صاحب کے بتحر علمی، ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اندازہ ہوتاہے۔ محترم مولانا عراقی صاحب ، مولانا عبد الوہاب محدث دہلوی اور اُن کا خاندان کے صفحہ 15 پر مزید تحریر فرماتے ہیں کہ سلفی صاحب بڑے با ادب ، با اخلاق ، مہمان نواز، منکسر المزاج اور سادہ طبیعت کے انسان ہیں علمائے اہل حدیث سے بے پناہ عقیدت ولگاؤ رکھتے ہیں ۔ مولانا عبد الرحمن سلفی حفظہ اللہ ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ
مولانا محمد رمضان یوسف سلفی ہماری جماعت کے مشہور اور معروف لکھنے والے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان کو تحریر وتصنیف کی صلاحیتوں سے خوب نوازا ہے ، اُن کے علمی ، ادبی اور اصلاحی مضامین پاک وہند کے اکثر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ ( مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص : 16)
محترم مولانا بشیر احمد انصاری تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ہمارے فاضل دوست مولانا محمد رمضان یوسف سلفی اہل حدیث کے ممتاز اہل قلم، سنجیدہ، فکر صحافی،صاحب مطالعہ اچھے مقالہ نویس اور معروف شخصیت نگار ہیں ایک عرصہ سے ان کے مضامین ملک وبیرون ملک مؤقر رسائل وجرائد کی زینت بن رہے ہیں ۔ ( مورخ اہل حدیث مولانا محمد اسحاق بھٹی ص : 20)
مولانا محمد اسحاق بھٹی کو اُن سے اس قدر محبت، یگانگت تھی کہ جس وقت ان کو اپنی مطبوعہ کتاب قصوی خاندان بطور تحفہ عنایت کی تو مولانا بھٹی رحمہ اللہ نے ابتدائی سادہ صفحہ پر ان کو ان الفاظ سے یادفرمایا ’’عزیز القدر محمد رمضان سلفی کا شوق مطالعہ ، اسلوب نگار اور بزرگان دین سے پُر خلوص محبت ان کے اوصاف حمیدہ ہیں جو ان کے بہتر مستقبل کے آئینہ دار ہیں ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ ان کا حامی وناصر ہو۔ ( محمد اسحاق بھٹی 6۔4۔1999)
آہ ۔۔۔
ایک ایک کرکے سب تنکے
ہوئے منتشر آشیانے کے
بلاشبہ برصغیر کے علمائے اہل حدیث کی خدمات جلیلہ کے حوالے سے ذہبی دوراں مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی خدمات اپنی مثال آپ تھیں لیکن ان کے معتمد قابل فخر تلمیذ رشید مولانا سلفی نے انہی کے اسلوب نگارش کو آگے بڑھاتے ہوئے جو خدمات جلیلہ سرانجام دیں وہ بھی ناقابل فراموش تھیں، لیکن ان کے اس قدر جلد بچھڑ جانے سے جماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہےآپ عرصہ سے شوگر،گردہ اور دیگر امراض کے مریض تھے مگر بظاہر چہرے سے مریض نہ لگتے تھے وہ بڑی محنت اور جانفشانی سے اپنے بچوں کی روزی کماتے تھے۔ باقی جو بھی وقت ملتا تھا بالخصوص صلوٰۃ الفجر سے آٹھ بجے تک اس میں لکھنا ،پڑھنا ان کی زندگی کا جز بن گیا تھا آپ انتہائی متواضع، سلجھا ہوا ذہن رکھتے تھے ان کو ویسے تو جملہ علماء سلف مگر خصوصاً جماعت غرباء اہل حدیث کے سلفی علماء کرام، مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا عبد اللہ گورداس پوری اور ان کے خانوادہ کو ہمیشہ اپنا روحانی استاد مانتے تھے۔
فکر معاش،عشق بتاں ، یادرفتگان
اتنی سی عمر میں کوئی کیا کیا کیا کرے
جب اچانک مولانا سلفی کے سانحہ ارتحال کی خبر برادم مکرم مولانا محمد خان محمدی صاحب نے فون پر دی تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا،احساسات وجذبات پر ایک سکتہ طاری ہوگیا دراصل گزشتہ ایام ہمارے لیے ایام الحزن کی حیثیت میں گزرے۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی، مولانا محمد ادریس سلفی، مولاناعبد المجید ازہر،مولانا عبد العزیز حنیف، مولانا بشیر احمد سیالکوٹی اور اب تازہ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی مرحوم ومغفور کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔
درد کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے
میں نے سلفی صاحب کو دیرینہ اخوۃ اسلامی کے گھر سے تعلقات کے تحت ان کی بلند ظرفی،بے غرضی،وسیع القلبی، معاملہ فہمی، خودداری، نیک نیتی جیسے اوصاف کریمہ سے متصف پایا بے انتہا خوبیوں کے مالک تھے۔
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
علالت کے آخری ایام میں ان سے وقفے،وقفے سے فون پر رابطہ ہوا کرتا تھا ، ان کی گفتگو کا محور میری زیر طبع کتاب تذکرہ مشاہیر سندھ ہوا کرتی تھی جو ان کو بہت پسند تھی چونکہ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اور مولانا سلفی نے ابتداء میں اپنے تاثرات بھی تحریر فرمائے تھےلیکن افسوس یہ دونوں بزرگ یہ کتاب دیکھ نہ پائے انسان کتنا کمزور ہے
یہ زندگی زندگی نہ سمجھ کہ زندگی سے مراد ہیں
وہ عمر رفتہ کی چند گھڑیاں جو ان کی محبت میں کٹ گئیں
بلاشبہ مرحوم کی شخصیت مادی وسائل کی کمی کے باوجود،عزم ہمت،مقصد سے لگن کے جذبے سے سرشار تھی آپ خوش اخلاق، خوش گفتار ، اعلی کردار، شگفتہ مزاج اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے بلاشبہ علمائے کرام مشاہیر عظام کی روزانہ داغ مفارقت کی خبریں سن کر بھی کوئی ہم جیسا غافل انسان عبرت نہ پکڑے اور اپنی عاقبت کا فکر نہ کرے تو ایسے عقل ودانش پر اللہ تعالیٰ ہزار بار استغفار
ہم نے دنیا کی ہر چیز کو بدلتے دیکھا
پر مقدر کے نوشتہ کو نہ ٹلتے دیکھا
بہر حال مولانا سلفی بات چیت میں انتہائی سادہ دل اور سنجیدہ ، فہمیدہ قول وعمل کے اعتبار سے دیندار، حقوق اللہ وحقوق العباد ادا کرنے میں مخلص ومستعد، زبان میں بَلا کی مٹھاس لیکن موت قدرت کا اٹل قانون ہے ۔ جہاں عقل وخرد، فہم وبصیرت کی کوئی گنجائش نہیں اس آب وگل سے ایک دن سب کی جدائی یقینی ہے مگر مرحوم سلفی صاحب کی جدائی ہم ایک مخلص ساتھی سے ہمیشہ محروم ہوگئے۔ فیصل آباد کا مکتبہ رحمانیہ امین پور مارکیٹ کی رنگینی اور رونق جاتی رہی ، دوستی،ملنساری، تواضع ومیزبانی کی روشن روایات کا باب ہمیشہ بند ہوگیا۔
وكُنَّا كَنَدْمَانَيْ جَذِيمةَ حِقْبَةً
مِنَ الدَّهْرِ حَتَّى قِيلَ لَنْ يَتَصَدَّعَا
اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو اپنی رحمت کی شبنم سے پُر بہار رکھے اور ان کی اولاد کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اس گھر پر اپنی عنایات بے پایاں کا نزول کرے تاکہ ان کی تعلیم وتربیت اعمال صالحہ میں کوئی کمی نہ آسکے آخرت کی منازل مرحوم پر آسان کرے ۔
آدمی بُلبُلا ہے پانی کا کیا بھروسہ زندگانی کا
یہ شہر تیں ، ناموریاں،سیم وزر اسی جہاںفانی میں رہ جائے گا ساتھ جو چیز جاتی ہے وہ ہے اخلاص اور عمل صالحہ یہ زاد راہ اور توشۂ منزل ہے آؤ اس یقینی منزل کے لیے ہم بھی کچھ کرکے جائیں ۔ والعاقبۃ للمتقین
اللہ تعالیٰ مرحوم سلفی پر اپنی رحمتیں نازل کرے ان کی مغفرت کرے اور جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حاصل یہ زندگانی کا ہم کو ملا شميم
دنیا سے چل بسے غم عقبیٰ لیے ہوئے
حضرت میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی تحدیث:
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی (1966ء) لکھتے ہیں :
’’شاہ اسماعیل شہید کے اس مسابقت الی الجہاد وفوز بہ شہادت کے بعد ہی دہلی میں الصدر الحمید مولانا شاہ محمد اسحاق صاحب کا فیضان جاری ہوگیا جن سے شیخ الکل میاں صاحب السید نذیر حسین محدث دہلوی مستفیض ہوکر دہلی ہی کی مسند تحدیث پر متمکن ہوئے۔
میاں صاحب کا یہ درس 60 برس تک قائم رہا ابتداء میں آپ تمام علوم پڑھاتے رہے مگر آخری زمانہ میں صرف حدیث وتفسیر پر کاربند رہے ۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات، ص:19۔20)
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ( م 1999ء) لکھتے ہیں کہ
’’ حضرت شاہ محمد اسحاق کے تلامذہ میں تنہا مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) نے دہلی میں سالہا سال حدیث کا درس دیا اور آپ کے درس سے متعدد جلیل القدر ناشرین وشارحین حدیث پیدا ہوئے جن میں مولانا عبد المنان وزیرآبادی( جن کی کثیرتعدادِ تلامذہ پنجاب میں مصروف درس وافادہ تھے) عارف باللہ سید عبد اللہ غزنوی امرتسری اور ان کے فرزند جلیل مولانا سید عبد الجبار غزنوی امرتسری (والد مولانا سید داؤد غزنوی) مولانا شمس الحق ڈیانوی مصنف غایۃ المقصود ، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا غلام رسول قلعوی ، مولانا محمد بشیر سہوانی، مولانا امیر احمد سہوانی، مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ، ابو محمد مولانا ابراہیم آروی مصنف طریق النجاۃ، مولانا سید امیر علی ملیح آبادی، مولانا عبد الرحمان مبارک پوری صاحب تحفۃ الاحوذی اور (علمائے عرب میں سے) شیخ عبد اللہ بن ادریس الحسنی السنوسی، شیخ محمد بن ناصر النجدی، شیخ سعد بن احمد بن عتیق النجدی کے نام اس درس کی وسعت وافادیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔(سید ابو الحسن علی ندوی،تاریخ دعوت وعزیمت، 5/359۔360 مطبوعہ کراچی)
مولانا محمد عزیر سلفی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ
’’میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی (م1320ھ) نے شاہ محمد اسحاق (م 1262ھ) کی ہجرت 1258ھ کے بعد مسند درس سنبھال رکھا تھا اور مکمل 62 سال تک کتاب وسنت کی تدریس وتعلیم میں یک سوئی کے ساتھ مشغول رہے اسی عرصے میں بلامبالغہ ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے اور ہندوستان کے کونے کونے میں پھیل گئے بیرون ہند سے بھی لوگ جوق درجوق آتے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بلا اختلاف مسلک ومشرب بعد کی کوئی بھی شخصیت ہندوستان میں ایسی نظر نہیں آتی جو ان کے سلسلہ تلمذ میں منسلک نہ ہو ہندوستان کیا پورے عالم اسلام میں اس صدی کے اندر کثرت تلامذہ میں میاں صاحب کی نظیر نہیں ہے میاں صاحب کے تلامذہ نے ہندوستان میں پھیل کر خدمت
اسلام کا ایک ایک میدان سنبھال لیا اور پوری زندگی
اشاعت کتاب وسنت میں گزاردی ۔ (محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 مطبوعہ کراچی 1984ء)
ذرائع :
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ نے دین اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں جو ذرائع اختیار کیے ان کی تفصیل حسب ذیل ہے :
1 درس وتدریس
2دعوت وتبلیغ
3تصوف وسلوک کی راہوں سے آئی ہوئی بدعات کی تردید اور صحیح اسلامی زہد وعبادت اور روحانیت کا درس
4 تصنیف وتالیف
5باطل افکار ونظریات کی تردید اور دین اسلام اور مسلک حق کی تائید
6 تحریک جہاد(محمد عزیر سلفی، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، حیات وخدمات ، ص:21 ۔22مطبوعہ کراچی 1984ء)
شمائل وخصائل :
حضرت میاں صاحب عادات واخلاق کے اعتبار سے بہت اعلی وارفع تھے خوش اخلاق ، خوش اطوار، خوش گفتار اور خوش کردار تھے ۔قناعت پسند اور درویش مشن عالم دین تھے بے حد متحمل مزاج اور حلیم الطبع تھے ان کی تمام زندگی مجاہدہ نفس سے تعبیر تھی ان کے قلب میں اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی محبت راسخ ہوچکی تھی ان کی زندگی کے لیل ونہار حسنات سے عبارت اور اعمال خیر کے حسین ترین قالب میں ڈھلے ہوئے تھے طہارت وپاکیزگی ان کا شیوہ اور عبادت الٰہی ان کا معمول تھا زہد وورع کے پیکر تھے صبر وتحمل ان کا جزءحیات اور اعتدال ان کا رفیق سفر تھا ۔ (ماخذ از: دبستان حدیث ، محمد اسحاق بھٹی)
ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات :
شیخ الکل حضرت میاں صاحب علوم عالیہ وآلیہ کے بحرزخّار تھے اور تمام علوم پر ان کی وسیع نظر تھی مولانا محمد اسحاق بھٹی ( م 2015ء) لکھتے ہیں کہ
’’شیخ الکل میاں صاحب تمام علوم متداولہ میں عمیق نگاہ رکھتے تھے قرآن وحدیث،فقہ وکلام،صرف ونحو، اصول حدیث ، اصول فقہ ، ادب وانشاء، معانی وبیان، منطق وفلسفہ، حساب وریاضی غرض جو علوم اس زمانے میں مروج ومتداول تھے میاں صاحب کو ان سب میں عبور حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حفظ واتقان کی بے پناہ دولت سے نوازا تھا ۔ فقہ حنیفہ تو یوں سمجھیے کہ انہیں پوری ازبر تھی اور اس کی تمام جزئیات ان کے خزانہ ذہن میں محفوظ تھیں فتاوی عالمگیری کئی ضخیم جلدوں پر محیط ہے اور اسے فقہ حنیفہ کے تمام مسائل کے دائرۃ المعارف کی حیثیت حاصل ہے میاں صاحب اس کے تمام گوشوں سے باخبر تھے اس کا انہوں نے شروع سے آخر تک تین مرتبہ دقتِ نظر سے مطالعہ کیا تھا۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:41 مطبوعہ لاہور 2008ء )
میاں صاحب میں اطاعت رسول ﷺ کا جذبہ صادقہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس کے خلاف کوئی بات سننا گوارا نہ تھا حدیث نبوی ﷺ کے مقابلہ قول امام کی ان کے نزدیک کوئی وقعت اور حیثیت نہ تھی جب کوئی حدیث بیان فرماتے اور اس حدیث کے برعکس کوئی شخص کسی امام فقہ کا قول پیش کرتا تو برہمہ ہوکر فرماتے ۔ سنو
یہ بزرگ جن کا تم نے قول پیش کیا ہے ہم سے بڑے ، میرے باپ سے بڑے، میرے دادا سے بڑےلیکن رسول اللہ ﷺ سے ہرگز بڑے نہیں ہیں۔(محمد اسحاق بھٹی،دبستان حدیث ،ص:72 مطبوعہ لاہور 2008ء )
1857ء کی جنگ آزادی :
برصغیر (متحدہ ہندوستان پاکستان،بھارت ، بنگلہ دیش) میں 1857ء میں جب تحریک آزادی کا آغاز ہوا تو علمائے اہلحدیث نے اس تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا خاص طور پر علمائے صادق پور نے جو قربانیاں پیش کیں برصغیر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مولانا یحییٰ علی صادق پور( م 1284ھ) مولانا عبد الرحیم صادق پوری (م 1341ھ) مولانا حمد اللہ صادق پوری(م1298ھ) مولانا ولایت علی عظیم آبادی (م 1269ھ) اور مولانا عنایت علی عظیم آبادی (م 1374ھ) کی خدمات آب زریں سے لکھنے کے قابل ہیں ان علمائے کرام میں سے کئی ایک نے جام شہادت نوش کیا کئی ایک کو تختہ دار پر لٹکایا گیا کئی ایک کو جزائر انڈیان میں جلاوطن کیاگیا جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے دن پورے کئے اور وفات پائی ۔ (عبد الرشيد عراقي،حيات نذير ، ص:23 مطبوعه لاهور 2007ء)
بغاوت کے مقدمات :
1857ء کی تحریک آزادی کے سلسلہ میں علمائے صادق پور پر بغاوت کے مقدمات مختلف شہروں میں قائم کئے گئے یہ مقدمات پٹنہ اور انبالہ وغیرہ میں قائم کئے گئے ۔
مقدمہ انبالہ :
انبالہ کے مقدمہ میں شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کا بھی مؤاخذہ ہوا حکومت کو پولیس کے اہل کاروں نے رپورٹ دی کہ مولوی سید محمد نذیر حسین دہلوی کے پاس بہت خطوط آتے ہیں چنانچہ میاں صاحب کے مکان کی تلاشی لی گئی جو خطوط برآمد ہوئے وہ تمام کے تمام فتاویٰ اور دینی مسائل کے بارے میں تھے یا مختلف کتابوں کے بارے میں دریافت کیاگیا تھا کہ کہاں اور کس شہر سے دستیاب ہیں۔
حضرت میاں صاحب سے دریافت کیاگیا کہ
آپ کے پاس اتنے خطوط کیوں آتے ہیں ۔
حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ
یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کیا جائے نہ کہ مجھ سے بہر حال آپ کو گرفتار کرکے راولپنڈی جیل میں نظر بند کردیاگیا۔
مولانا غلام رسول مہر ( م 1971ء) لکھتے ہیں کہ
شیخ الکل میا ںنذیر حسین محدث دہلوی بھی ہدف ابتلاء بنےتھے میاں صاحب مرحوم اہل حدیث کے سرتاج تھے اہل حدیث اور وہابیوں کو مترادف سمجھا جاتا تھا مخبروں نے میاں صاحب کے خلاف بھی شکایتیں حکومت کے پاس پہنچائیں ان کے مکان کی تلاشی ہوئی بہت سے خط پائے گئے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے رہتے تھے ان میں یا تو مسئلے پوچھے جاتے تھے یا مختلف دینی کتابوں کے متعلق دریافت کیاجاتا تھا میاں صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اتنے خط کیوں آتے ہیں انہوں نے بے تکلف جواب دیا کہ یہ سوال خط بھیجنے والوں سے کرنا چاہیے نہ کہ مجھ سے ۔
ایک خط میں مرقوم تھا کہ نخبۃ الفکر (اصول حدیث کی ایک کتاب) بھیج دیجیےمخبر نے کہا کہ یہ خاص اصطلاح ہے جس کا مفہوم کچھ اور ہے اور یہ لوگ خطوں میں اصطلاحی الفاظ سے کام لیتے ہیں میاں صاحب نے سنا تو جلال میں آگئے تو فرمایا
نخبۃ الفکر کیا توپ ،
نخبۃ الفکر کیا بندوق،
نخبۃ الفکر کیا گولہ بارود
بہر حال آپ کو دہلی سے راولپنڈی لے گئے اور وہاں کم وبیش ایک سال جیل خانے میں نظر بند رکھا دو آدمی ساتھ تھے ایک میر عبد الغنی ساکن سورج گڑھ جو بڑے عابد ، زاہد بزرگ تھے انہوں نے جیل خانے ہی میں وفات پائی میاں صاحب نے خود ہی تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی ۔ دوسرے صاحب عطاء اللہ تھے جنہوں نے اس زمانے میں پوری صحیح بخاری سبقاً سبقاً پڑھی اور قرآن مجید بھی حفظ کیا ۔ میاں صاحب نے سرکاری لائبریری سے کتابیں منگوانے کی اجازت لے لی تھی اور ان کا بیشتر وقت مطالعے میں گزرتا تھا۔ راولپنڈی جیل میں مجاہدین کے متعلق بہت سے کاغذات جمع کردیئے گئے تھے جن میں اکثر فارسی میں تھے ۔ شمس العلماء مولوی محمد حسین آزاد ان کاغذات کی جانچ پڑتال پر لگائے گئے تھے وہ بھی دیر تک راولپنڈی میں مقیم رہے۔ ذوق کے دیوان کی ترتیب انہوں نے وہیں شروع کی تھی میاں نذیر حسین کے خلاف کوئی الزام پایۂ ثبوت کو نہ پہنچ سکا تو تقریباً ایک سال بعد انہیں ابتلاء سے نجات ملی ۔ (غلام رسول مہر، سرگزشت مجاہدین، ص: 382، مطبوعہ لاہور)
مولوی ابو یحییٰ امام خان نوشہروی ( م 1966ء) لکھتے ہیں کہ
ایک سال تک راولپنڈی جیل میں محبوس رہے روزانہ پھانسی کی دھمکیاں دی جاتیں مگر پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ ہوئی۔ (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:149 مطبوعہ دہلی 1938ء)
انگریز آپ کو رہا کرنے پر مجبور تھا اس لیے کہ اس نے بہت کوشش کی کہ آپ کے خلاف کوئی ثبوت مل جائے لیکن وہ اس میں ناکام ہوا ۔پروفیسر عبد الحکیم اپنی انگریزی کتاب Wohhabi Trial of 1863-1870میں لکھتے ہیں :
It will be difficult to obtain evidence against him.
ان (مولوی نذیر حسین) کے خلاف ثبوت مہیا ہوجانا بہت مشکل ہوگا۔ (پروفیسر محمد مبارک، حیات شیخ الکل سید محمد نذیر حسین دہلوی)
وفات :
حضرت میاں صاحب نے 10 رجب 1320ھ / 13 اکتوبر 1902ء دہلی میں رحلت فرمائی آپ کے پوتے مولوی عبد السلام ( م 1916ء) نے نماز جنازہ پڑھائی اور شیدی پورہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا إلیہ راجعون (ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، تراجم علمائے حدیث ہند ، ص:155)
حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے تلامذہ
حضرت میاں صاحب کے تلامذہ میں بہتوں نے صادق پوری خاندان کے ساتھ مل کر تحریک جہاد کو منظم کیا اس سلسلہ میں بڑی بری قربانیاں پیش کیں اور ہمیشہ برطانوی سامراج کی نظروں میں کھٹکتے رہے مثلاً
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
3مولانا شاہ عین الحق پھلواروی ( م 1333ھ)
4 شیخ پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی ( م 1334ھ)
5 مولانا عبد العزیز رحیم آبادی ( م 1336ھ)
6 مولانا حافظ عبد اللہ محدث غازی پوری (م1337ھ)
7 مولانا فقیر اللہ مدراسی ( م 1341ھ )
8 مولانا محمد اکرم خان آف ڈھاکہ ( م 1968ء )
حضرت میاں صاحب کے ان تلامذہ کے بارے میں جنہوں نے تحریک جہاد کو منظم کیا اورمالی تعاون بھی کیا ۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی ( م 1968ء) فرماتے ہیں کہ
حضرت شیخ الکل مولانا سید نذیر حسین ( جو شاہ محمد اسحاق کی ہجرت حجاز کے بعد ان کی علمی جانشینی کے سبب’’میا ں صاحب‘‘ کے لقب سے مشہور تھے) کی سیاست سے کنارہ کش اور مشاغل درس کے باوجود میاں صاحب سے ایک جماعت استخلاص وطن اور حکومت الٰہیہ کے قیام اور استحکام کے لیے بدستور سرگرم عمل رہی جن میں حضرت شیخنا الاکرم مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، حضرت شاہ عین الحق پھلواروی صاحب خلق سواھم وحمھم اللہ اجمعین خاص طور پر قابل ذکر ہیں جن کا تمام عمر یہی مشغلہ رہا اپنے ذاتی اموال نیز زکوۃ وصدقات وغیرہ سے مجاہدین کی اعانت فرماتے رہے ۔
ثبت امت بر جریدئہ عالم دوام ما
’’جریدہ عالم پر ہمارا نام مستقل طور پر نقش ہے یعنی ہمارا نام زندہ جاوید ہے ۔‘‘(مقدمہ کالا پانی از محمد جعفر تھانسیری، ص: 20 مطبوعہ طارق اکیڈمی فیصل آباد 2004ء)
1 مولانا غلام رسول قلعوی ( م 1291ھ)
مولانا غلام رسول قلعوی کا شمار اہل اللہ میں ہوتاہے آپ جلیل القدر عالم، محدث اور صاحب کرامات بزرگ تھے آپ کا سن ولادت 1228ھ/1813ء ہے بچپن ہی سے نیکی اور ورع طبیعت پر غالب تھا تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا ابتدائی تعلیم مولانا نظام الدین بگوی رحمہ اللہ سے حاصل کی حدیث کی تحصیل عارف باللہ شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) کے ہمراہ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م 1320ھ) سے کی ۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی ( م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وأخذ الحديث عن الشيخ المحدث نذير حسين الحسيني الدهلوي مشاركاً للشيخ الأجل عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي (عبد الحی الحسنی ، نزهة الخواطر 8/348)
20 سال کی عمر میں علوم عالیہ وآلیہ سے فراغت پائی جب حج بیت اللہ کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ میں مولانا شیخ عبد الغنی مجددی (م 1296ھ) سے حدیث کی سند واجازت حاصل کی۔
مولانا غلام رسول بہت بڑے مبلغ اور واعظ تھے ہزاروں غیر مسلم آپ کے وعظ اور تبلیغ سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ 1857ء کے ہنگامہ میں تقلیدیان احناف نے انگریزی حکومت سے شکایت کی کہ اس ہنگامہ میں مولانا غلام رسول قلعوی کے وعظوں کا بڑا دخل ہے چنانچہ ایک طرف انگریزی حکومت نے آپ کے وعظوں پر پابندی لگادی۔(نزھۃ الخواطر 8/348) دوسری طرف آپ کو گرفتار کرکے لاہور میں سیشن جج مسٹر منٹگمری کی عدالت میں پیش کیاگیا۔
لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ مولوی غلام رسول کو پھانسی کا حکم ہوگا چنانچہ ہزاروں آدمی مسٹر منٹگمری کی عدالت کے باہر جمع ہوگئے ۔ مسٹر منٹگمری کو پتہ چلا تو اس نے دریافت کیا کہ یہ لوگ یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں تو اس کو بتلایا گیا کہ
’’مولوی غلام رسول جید عالم دین اور اہل پنجاب کا استاد اور پیر ہے یہ لوگ اس لیے جمع ہوئے ہیں کہ اگر ہمارے پیر کو پھانسی ہوگئی تو ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے چنانچہ منٹگمری نے پھانسی کا ارادہ بدل دیا اور کچھ عرصہ کے لیے نظر بند کردیا۔ (محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ، تاریخ اہلحدیث ، طبع اول ، ص:428)
مولانا غلام رسول نے 15 محرم الحرام 1291ھ / 4 مارچ 1874ء قلعہ مہان سنگھ میں رحلت فرمائی عمر 63 سال تھی۔ ( محمد اسحاق بھٹی ، فقہائے ہند 6/483، مطبوعہ لاہور 2013ء)
2 مولانا ابو محمد حافظ ابراہیم آروی ( م 1319ھ)
مولانا حافظ ابو محمد ابراہیم بن عبد العلی بن رحیم بخش علمائے فحول میں سے تھے آپ بلند پایہ خطیب،مقرر،واعظ اور مبلغ تھے ان کی وعظ اور تبلیغ سے ہزاروں لوگ ( جو بدعات اور محدثات میں ہمہ تن مشغول رہتے تھے) صراط مستقیم پر آگئے ان کا وعظ بڑا جامع اور پُر تأثیر ہوتا تھا علامہ سید سلیمان ندوی ( م 1373ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وعظ کہتے تو خود بھی روتے اور سامعین کو بھی رلاتے۔ (سید سلیمان ندوی، حیات شبلی ، ص:308)
حدیث کی تحصیل شیخ الکل حضرت میاں صاحب سے کی جب حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لیے حرمین شریف تشریف لے گئے تو مکہ مکرمہ شیخ عبد الجبار مکی اور مدینہ منورہ میں شیخ عبد الغنی مجددی(م 1296ھ) سے حدیث میں سند واجازت حاصل کی شیخ عبد اللہ غزنوی ( م 1298ھ) سے بھی مستفیض ہوئے۔
مولانا حکیم سید عبد الحی الحسنی (م 1341ھ) لکھتے ہیں :
وسافر إلى أمرتسر وصحب الشيخ الكبير عبد الله بن محمد أعظم الغزنوي، واستفاض منه (نزهة الخواطر 8/4)
’’ آپ نے امرتسر کا سفر کیا اور شیخ کبیر عبد اللہ محمد اعظم غزنوی کی مصاحبت اختیار کی اور اکتساب فیض کیا۔‘‘
فراغت تعلیم کے بعد آرہ میں مدرسہ احمدیہ کے نام ایک دینی درسگاہ قائم کی اس مدرسہ میں مولانا حافظ عبد اللہ غازی پوری ( م 1337ھ) اور مولانا محمد سعید محدث بنارسی ( م 1322ھ) جیسے اساطین فن نے تدریس فرمائی۔
مولانا بدر الزمان محمد شفیع نیپالی لکھتے ہیں کہ
’’مدرسہ احمدیہ اس اعتبار سے منفر د تھا کہ اس میں انگریزی تعلیم بھی دی جاتی تھی اوراس کے ساتھ ساتھ جہاد کی تیاریوں کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔ (بدر الزمان محمد شفیع، الشیخ عبد اللہ غزنوی، ص:138)
مدرسہ احمدیہ اپنے عہد میں اہلحدیث کی یونیورسٹی تھی۔(ابو یحییٰ امام خان نوشہروی، ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ، ص: 158)
حافظ ابراہیم صوفی،واعظ،مبلغ،مقرر،خطیب،مدرس، مصنف،ماہر تعلیم، منتظم، مجاہد،علوم اسلامیہ میں بحرزخّار، تفسیر،حدیث،فقہ،تاریخ وسیر میں یگانہ روزگار اور عربی ادب میں کامل دسترس رکھتے تھے۔
حافظ ابراہیم آروی نے 6 ذی الحجہ 1319ھ بحالت احرام مکہ مکرمہ میں انتقال کیا اور جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ (سید عبد الحی الحسنی ، نزھۃ الخواطر 8/5)
جب جزیرۃ العرب میں شرک و بدعت کا دور دورہ تھا اور جزیرۃ العرب کے عوام غیر اللہ کے پجاری بنے ہوئے تھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی صورت میں ایک ایسا عظیم مجاہد اور داعی الی اللہ کو پیدا فرمایاانہوں نے اس معاشرے میں توحید کا پرچم، علمی جہاد کی صورت بلند کیا اور ان کے شانہ بشانہ آل سعود نے جہاد بالسیف سے توحید کی راہ میں حائل ہونے والے ہر شجر خبیثہ کو کاٹ پھینکا اور پھر ایک طویل جدو جہد کے بعد ان کی محنتیں رنگ لائیں اور جزیرہ ایک بار پھر توحید کا گہوارہ بن گیا ، اسی طرح بلوچستان میں بھی جب مختلف قسم کی خرافات و بدعات اور جاہلیت کی رسوم کا ہر طرف راج تھا تو اللہ نے اس اندھیرے میں بھی ایک روشنی کا مینار پیدا فرمادیا جس نے اس گمراہی کے اندھیروں میں ڈوبی قوم کو جادہ مستقیم کی طرف دعوت دی اور اپنی شبانہ روز محنتوں سے توحید کے چراغ روشن کیےاحیاء سنت کا علم بلند کیا وہ ہیںعلامہ عبدالغفار ضامرانی رحمہ اللہ، آج ہم آپ کے سامنے ان کا مختصر تعارف پیش کرتے ہیں۔
خاندانی پس منظر:
فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالغفار ضامرانی رحمہ اللہ بلوچستان میں مکران ڈویژن کے ضلع کیچ(تُربت) کے جنوبی پہاڑی سلسلوں میں واقع ضامران کے ’’سورگ‘‘ نامی گاؤں میں علاقہ کی معروف ومعزز رہنما کہدہ داد محمد بلوچ کے گھر پیدا ہوئے کہدہ داد محمد بلوچوں کے معروف قبیلے آسکانی کے ایک راہنما تھے۔
لفظ ’’کہدہ‘‘ بلوچی علاقے یا قبیلے کے راہنما کے لیے استعمال کیا جاتاہے، مولانا ضامرانی رحمہ اللہ کے والد محترم چونکہ اپنے قبیلے کے سرکردہ راہنما اور علاقے کے معززین میں سے تھے اسی لیے وہ ’’کہدہ‘‘ کے لقب سے ملقب و مشہور ہوئے۔
علامہ کے تعلیمی سفرکا آغاز:
ضامران چونکہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اور اُس زمانے میں وہاں تعلیم کا بالکل نام ونشان نہیں تھا اور وہاں کے لوگ مال مویشی اور زمین داری کیا کرتے تھے اور ہر کسی کے ہاں بکریوں کا ایک ریوڑ تھا اور وہ انہیں چراتے تھے اسی طرح جب مولانا چھوٹے تھے تو بکریوں کو چرانے لے جاتے ، اسی دوران ’’ذکری فرقہ‘‘ (یہ فرقہ ختم نبوت، نماز اوردیگر ارکان اسلام کا منکر ایک باطل فرقہ ہے اس کے حولے سےآئندہ ان شاء اللہ ایک مستقل مضمون میں بحث کریں گے) اس فرقے کے مشہور راہنما مُلّا مولاداد کے فرزند علامہ نور محمد اللہ کے حکم سے اسلام لائے اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے دارالعلوم دیوبند گئے اور وہاں کے کبار علماء سے اسفادہ کرنے کے بعد اپنے علاقے ضامران آئے تو عبدالغفار ضامرانی نے انہی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، مولانا کے شاگرد خاص اور آپ کے جانشین استاذ محترم فضیلۃ الشیخ حافظ اسماعیل ضامرانیرحمہاللہ لکھتے ہیں کہ علامہ ضامرانی نے اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے فرمایاکہ:
’’میںدن میں بکریاں چراتا اور رات کے وقت قرآن مجید ناظرہ پڑھتا تو اس سے مجھے تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا‘‘ تو مولانا گھر میں بتائے بغیر نکل گئے اور کیچ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک مدرسے پہنچ گئےوہاں سے فراغت کے بعد ایک قریبی عزیز کے ساتھ روزگار کے لیے مسقط روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے مسقط آرمی جوائن کی کچھ عرصہ بعد مسقط کو خیرباد کہہ کر دوبارہ کیچ چلے آئے اور ایک مقامی عالم دین قاضی بشیر رحمہ اللہ سے کچھ وقت پڑھ کرکر اچی آگئے اور یہاں مولانا عثمان کے مدرسہ احرار الاسلام میں پڑھنا شروع کیا اس کے بعد سندھ کے شہر ٹنڈو اللہ یار میں مولانا قصر قندی کے مدرسہ میں گئے وہاں مختصر وقت رہنے کے بعد پھر کراچی آئے اور جامعہ مظہرا لعلوم کھڈہ میں پڑھنے کے بعدا پنے آبائی علاقے ضامران آئے جہاں لوگوں نے انہیں نہیں پہچانا کیونکہ مولانا ضامرانی ایک طویل مدت سے تعلیم کے حصول کی وجہ سے اپنے علاقے نہیں آئے تھے، یہاں آکر مولانا نے شادی کی اور پھر کراچی کی ایک معروف جامعہ علوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں دورہ حدیث میں داخلہ لیا اور امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوئے یہاں انہوں جن اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ، مفتی ولی حسن ، مولانا عبدالغنی جاجروی، مولانا عبدالستار دہلوی ودیگر۔
یہاں سے فراغت کے بعد اپنے علاقے میں دعوت الی اللہ کا آغاز کیااور پھر وہاں سے اعلی تعلیم کے لیے جامعۃ لاسلامیہ المدینۃ المنورہ تشریف لے گئے جہاں انہوں نے دنیائے اسلام کے نابغہ روزگار علماء ومشائخ سے علم حاصل کیا جن میں عالم اسلام کی معروف شخصیات جن میںمفتی اعظم سعودیہ عربیہ فضیلۃ الشیخ ابن بازرحمہ اللہ ۔
محدث العصر فضیلۃ الشیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ۔
مفسر قرآن فضیلۃ الشیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ۔
فضیلۃ الشیخ العلامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ۔
فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد ودیگر مشائخ کرام سے قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کی۔
یاد گار ضامرانی رحمہ اللہ
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم کے دوران علامہ عبدالغفار ضامرانی رحمہ اللہ نے اپنے علاقے سے کھجور کا ایک چھوٹاپود ا لیجاکر مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ میں لگایا جوکہ آج تناور درخت کی صورت میں اب بھی سرسبز وشاداب ہے، یہ پودا گویا جامعہ اسلامیہ میں بلوچ طلبہ کی آمد کی داغ بیل ثابت ہوا آج بھی پاکستانی طلبہ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی کثیر تعداد جامعہ اسلامیہ میں ہےجن میں ایک بڑی تعداد پاکستان کی عظیم درس گاہ جامعۃ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے متخرجین کی ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ اس سلسلے کو تا قیامت جاری وساری رکھےاور ہم سب کو صحیح معنوں میں توحید کے پر چم کو سر بلند کرنے کی توفیق خاص عنایت فرمائے، آمین۔
علامہ کی دینی وملی خدمات:
فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالغفار ضامرانی رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ سے فراغت پانے کے بعد اپنے استاذ محترم فضیلۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ کے کہنے پر چند سال امارات میں بطور داعی خدمات نجام دیں اور پھر بلوچستان میں شرک وبدعات کے اندھیرے کو دیکھتے ہوئے شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے اپنے علاقے میں کام کرنےکی اجازت مانگی اور پھر بلوچستان چلےآئے، اور پھر قریہ قریہ بستی بستی توحید کی دعوت لیکر اٹھے اور اس راہ میں مصائب وآلام برداشت کیے لیکن حالات کی سازگاری کے انتظار میں وقت ضائع نہیں کیا بلکہ دعوت الی اللہ کے کام میں اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائےاور اپنے شاگردوں کو بھی یہی درس دیا اور آپ ہی نے بلوچستان میں سب سے پہلےاہل حدیث مساجد ومدارس کا قیام عمل میں لائے اور عوامی فلاح وبہبود کے لیے خدمات انجام دیں۔
جمعیت انصار السنہ المحمدیہ کے نام سے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا، جس کے تحت دور دراز علاقوں میں کنویں کھودوائے مساجد کی تعمیر، مبلغین کی تنخواہیں اور عید میں غریبوں کے درمیان راشن اور گوشت کی تقسیم کا انتظام کیا۔
اتحاد واتفاق کے داعی:
علامہ عبدلغفار ضامرانی رحمہ اللہ اتحاد واتفاق کے علمبردار تھے اور اس بات کی گواہی وہ لوگ ضرور دیں گےجنہوں نے ضامرانی رحمہ اللہ کو دیکھا ہے اور ان کیمجلس میں شریک ہوئے جب مکران ڈویژن کےہیڈ کوارٹر تربت میں ضامرانی رحمہ اللہ نے جلسہ بعنوان’’ قرآن وسنت کا نفرنس‘‘ منعقد کیا تو اس میں اہل حدیثوں کی تمام جماعتوں کے علماء کرام کو شرکت کی دعوت دیتے کیونکہ وہ اہل حدیثوں کو یکجا دیکھنا چاہتے تھےاسی لیے کسی جماعت سے بغض نہیں رکھتے تھے اور اپنے جلسے میں علمائے دیوبند کو بھی دعوت دیتے اور خود بھی ان کے اجتماعات میں شرکت کرتے اسی لیے آج بھی اپنوں اور غیروں کے دلوں میں زندہ ہیں اپنی اچھی یادوں کے ساتھ۔
ذکری فرقہ اور تحریک ختم نبوت:
بلوچستان خصوصا مکران میں ذکری فرقہ بہت طاقتور تھا اور کسی کو یہ ہمت نہ تھی کہ ان کے خلاف کام کرسکے تو علامہ عبدالغفار ضارمرانی نے مکران میں ’’تحریک تحفظ ختم نبوت مکران‘‘ شروع کی اور علمائے دیوبند کو بھی ساتھ ملا کر اس فرقہ باطلہ کے خلاف کام شروع کیا تو اس راہ میں شدید مصائب برداشت کیے یہاں تک کہ اس جرم کی پاداش میں پابند سلاسل بھی ہوئے، مگر یہ مشکلات اُن کے پایہ ثبات میں تزلزل نہ لاسکے اور ہر میدان میں ذکری فرقہ کو شکست دی، عربی ، اردو اور بلوچی میں اس فرقے کے خلاف کتابیں لکھیں اور ان کے مکروہ چہرے سے نقاب کشائی کی، اسی طرح ضامرانی رحمہ اللہ اور دیگر علماء کرام کی قربانیاں رنگ لائیں اور مکران سے ذکری فرقہ ایک جگہ محدود ہوکررہ گیا ، جو ذکری مسلمان ہوگئے ان کے خاندانوں نے مظالم کے پہاڑ ڈھائے اور انہیں گھروں سے نکال دیا تومولانا ضامرانی نے انہیں پناہ دی ،اوران کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا۔
تصنیف تالیف و:
علامہ ضامرانی رحمہ اللہ نے تالیف وتصنیف کے شعبہ میں بھی خد مات سرانجام دیں جن میں سب سے بڑا کام انہوں نے قرآن مجید کا بلوچی میں ترجمہ اور تفسیر کی صورت میں کیا ۔ اس کے علاوہ نماز کے احکام ومسائل پر بلوچی زبان میں ایک جامع کتاب ’’بیائے نماز رسول ﷺ وانیں‘‘ تحریر فرمائی اور اس کتاب کو بڑی پذیرائی نصیب ہوئی، اس کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اب تیسرا ایڈیشن زیر طبع ہے، ذکری فرقے کے حوالے سے ان کی عربی اور بلوچی زبان میں کتاب تحریر فرمائی جس کا نام ’’الفئۃ الذکریہ و فتنھا فی مکران‘‘ اور بلوچی میں ’’ذکریاں گوںقرآن ءَ دلگوش ئے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔
ان کتابوں کے علاوہ ایک اردو تصنیف ’’المسئلۃ الصفوف‘‘اور جمہوریت ایک نظام کفری، جوکہ جمہوری نظام کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے مگر چند وجوہات کی بناپر زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکی اس کا عربی ترجمہ بھی ہوچکا ہے بنام’’الجمہوریہ نظام کفریۃ‘‘ جو کہ عنقریب شائع ہوگا ان شاء اللہ۔
وفات:
عظیم مفسر و شیخ الحدیث علامہ عبدالغفار ضامرانی رحمہ اللہ آخری عمر میں شوگر کے مرض میں مبتلاء ہوکر2004ء کو اس دار فانی سے رحلت فرماگئے ان کی آخری آرام گاہ بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں واقع ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کے شاگردوں اور فرزندوں کو جوکہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ سے متخرج ہیں اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کررہے ہیں حافظ عطاء الرحمٰن ضامرانی وحافظ فداء الرحمٰن ضامرانی کو اپنے والد محترم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین۔
--------
علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ
1926ء - 1996ء
درمیانہ قد، ہلکا پھلکا معتدل جسم، تیکھے نقوش، کشادہ جبیں پر علم و فضل کا آفتاب جلوہ گر،خوبصورت گنجان مسجّع چہرے پر پھیلی پوری داڑھی،بڑی بڑی جھیل سی جہاندیدہ ملّت مسلمہ کے دکھ میں متفکر آنکھیں،سفید شلوار قمیص اور سر پر ٹوپی،علم و ادب کا بحر ذخار، تقلید سے کوسوں دور ، کتاب و سنت کے شیدائی، علم و حلم کا مجسّمہ، دیکھنے میں تو دبلا پتلامگر ذات و صفات میں کسی کوہ گراں سے کم نہیں ‘ تکلفات و تصنعات سے ناآشنا، حاضر جواب، بذلہ سنج،معاملہ فہم،مہمان نواز، اور وضع دار یہ تھے شیخ العرب و العجم علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ (۱۹۲۶ ۔ ۱۹۹۶ء)
آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے سیّد بدیعُ الدین شاہ بن سیّد احسانُ اللہ شاہ بن سیّد رُشدُ اللہ شاہ راشدی بن سیّد رشید الدین شاہ بن سیّد یاسین شاہ راشدی رحمھُم اللہ تعالیٰ بلاشبہ آپ فولادی اعصاب کے مالک تھے، مصائیب و آلام سے کبھی نہ گھبراتے، ملّت مسلمہ کے پاکیزہ ماضی کے امین تھے، آپ بلند پایہ مفسر قرآن، فن رجال کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بلند پایہ خطیبوں میں بھی شمار ہوتے تھے، ان کا انداز خطاب بڑا دلکش، دلنشین اور دل آویز ہوا کرتا تھا، ان کا ہر ہر جملہ کتاب و سنت کی تعلیمات عالیّہ سے مزیّن اور ادبی شہّ پارہ محسوس ہوتا تھا، میری خوش نصیبی کہیے کہ تقریباً ہر سال وادی ریگستان تھرپارکر کے تبلیغی دوروں میں اس ناچیز کو انکی معیّت حاصل ہوتی تھی، تھرپارکر کی رات بڑی پُر سکون اور ٹھنڈی ہوتی ہے ایسے میں دل چاہتا تھا کہ آپ پوری شب بولتے رہیں اور قرآن سنت پڑھتے جائیں حوالے دیتے جائیں ، توضیح و تشرح کرتے جائیں ، آپ قرآن عظیم پڑھتے وقت پارہ اور رکوع کا بالعموم حوالہ دیا کرتے تھے،جی چاہتا تھا کہ شاہ صاحب بولتے رہیں، اور انکی فصیح زبان سے ایک مخصوص انداز میں پھول جھڑتے رہیں اور ہم جیسے سامعین چُنتے رہیں، شاہ صاحب کے مزاج میں بے انتہا تنوّع تھا، آپ جب ملت مسلمہ کی بے اعمالی و بدحالی کا تذکرہ یا فکر آخرت کا نوحہ چھیڑتے تو لوگوں کی آنکھیں اشکبار، اور جذبات پر قابو پانا بڑا مشکل ہوتا ، کئی بار تقریر کرتے ہوئے رات کے دو بج جاتے تھے، شب کی تنہایوں میںمیں نے شاہ صاحب کو تقریر کرتے سنا پھر انکی اثر انگیزی سے زارو قطار لوگوں کو روتے ہوئے پایا۔ آہ
از دل خیزد بر دل ریزد
انکی زبان شائستہ شسّتہ اور شگفتہ تھی، بعض اوقات جب وہ پیروں فقیروں ، صوفیوں اور سجادہ نشینوں کے کشف و کرامات کے زدہ عام محیّر العقول قصے چھیڑتے تو سامعین کے چہروں پر مسکراہٹ سج جاتی تھی، شاہ صاحب ساری زندگی صلہ ،ستائش اور شہرت سے بے نیاز ہوکر دور افتادہ گوٹھوں اور قصبوں میں اونٹوں گھوڑوں پرجاکر کتاب و سنت کی دعوت پیش کرتے، سوز و تڑپ کے ساتھ فکر عالم عقبیٰ کی باتیں کر کے لوگوں تک حق اور سچ پہنچایا کرتے تھے، مجھے کئی بار عزیزالقدر ڈاکٹر پروفیسر عبدالعزیز نہڑیو کے ساتھ انکو بار بار قریب سے دیکھنے اور سننے کے مواقع ملے پھر کبھی شا ہ صاحب سے خط و کتاب کا سلسلہ بھی باقائدہ نکل آتا ، میں نے انکو بلند ظرّف، وسیع القلب، حسّاس اور محبت کرنے والا شخص پایا،
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند این عاشقاں پاک طنیت را
آپ خورد نوازی، ہمت افزائی، نیک نیتی، دینداری اور
تقویٰ و طہارت جیسے کئی اوصاف حمیدہ کے مالک تھے، انہونے پوری زندگی شرک و بدعت کی بیخ کُنی، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج میں کمی آنے نہ دی اور انہوں نے ہمیشہ فرقہائے باطلہ کا قرآن و سنت کی روشنی میں علمی تعاقب کیا، انکو تفسیر، حدیث، فن رجال اور مذاہب اربعہ کی فقہ میں مہارت تامہ تھی، آپ کا مطالعہ و مشاہدہ بے انتہا وسیع تھا، آپ انسان دوست مردم شناس بھی تھے، آپ بلند پایہ زود نویس مصنف تھے، انہوں نے عربی، اردو اور سندھی مین ایک سو سے زائد معیاری و مثالی تصانیف اپنے پیچھے یادگار چھوڑی ہیں جن میں عربی ’۶۰‘ سندھی ’۲۸‘ اور اردو ’۱۹‘ شامل ہیں، {جن میں کافی علمی کُتب فضیلۃ الشیخ مولانا افتخار احمد تاج الدین الازہری حفظہ اللہ کی مرتب کردہ کتاب ’مقالات راشدیہ کی گیارہ جلدوں میں اشاعت پذیر ہو چُکی ہیں} علامہ بدیع الدین شاہ راشدی نادر روزگار شخصیت کے مالک تھے، آپ کی تصانیف لطیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفور معلومات، تبحر علمی، وسعت مطالعہ ومشاہدہ، تحقیق و تدقیق کے بادشاہ تھے، حق گوئی، حق شناسی اور حق پسندی کی علاوہ سنجیدگی وقار توسط واعتدال شاہ صاحب کی تصانیف کی سطر سطر سے پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے، ویسے بھی جو وقت انکی قربت میں گذارا اُس میں آپ کی شخصیت عُلوّ ھمّت ، وسعت ظرف ذھانت و فراست کے ساتھ انکی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی میں میں نے انکو یکتا پایا، تحمل و برداشت کے ساتھ دلربا شخصیت کے مالک تھے، انکی فقیہانہ بلند نگاہی، اسماء والرجال پر عبور، متکلمانہ بصیرت، مناظرانہ اسلوب ، استدلال بیان جیسی سب چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے انکو سرفراز کیا تھا، باقی کتب چھوڑ کر صرف انکی ایک تالیف ’بدیع التفاسیر‘ گیارہ جلدوں کا بغور مطالعہ کریں تو انکی بلند نگاہی اور جرّــأت گفتار و کردار میں آپ اپنے اور غیروں کی ماتھے کا جھومر نظر آتے ہیں۔
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جِسے
علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی وادی سندھ کے سرسبز و شاداب خِطّہ ہالا کے قریب بمقام گوٹھ فضلُ اللہ پیر آف جھنڈو میں ۱۲ مئی ۱۹۲۶ء کو نابغہ روزگار علامہ سیّد احسانُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(متوفی۱۹۳۸ء) کے گھر میں پیدا ہوئے جنہیں اپنے دور کا فن رجال کا امام کہا جاتاتھا۔(علامہ سیّد سلیمان ندوی، یاد رفتگان)گویا کہ قائدہ کُلیّہ نہیں چونکہ آئے دن اکثر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ اکابرین علم و ادب کی اولاد اپنے والد کے کمالات عالیہ سے محروم بلکہ یکسر مخالف نظر آتی ہے، ایسے میں علامہ سیّد احسانُ اللہ شاہ راشدی کا یقینا خو ش نصیب گھرانہ ہے جس میں علامہ سیّد محبُ اللہ شاہ راشدی اور علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی جیسے علم و ادب کے باکمال بیٹے پیدا ہوئے ہوں یہ اللہ تعالی کی خاص مہربانی ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزندوں ۱۔ محمد شاہ راشدی ، ۲۔نور اللہ شاہ راشدی، ۳۔رشد اللہ شاہ راشدی اور ۴۔ خلیل اللہ شاہ راشدی سے نوازا تھا۔
انکی ابتدائی تعلیم انکے آبائی مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈو میں ہوئی، تین ماہ کی مختصر مدت میں آپ نے قرآن عظیم حفظ کر لیا، پھر تیرہ کے قریب بلند پایہ باوقاراساتذہ کرام سے تحصیل علم کیا، شاہ صاحب کا مزاج خالص علمی و تحقیقی تھا، آپ کی پوری زندگی علمی تلاش و جستجو تحقیق ، بحث و نظرسے عبارت تھی، بلاشبہ راشدی برادران علامہ سید محبُ اللہ شاہ راشدی رحمه الله(متوفی ۱۹۹۵ء) اور علامہ بدیع الدین شاہ راشدی صاحباں اس بے آب و گیاہ صحرا میں تن تنہاچل پڑے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سرسبز و شاداب باغ و بہار کا پورا قافلہ عظیم اپنے ساتھ لائے، علامہ سید بدیع الدین شاہ بے مثال قوت حافظہ، پاکیزہ ذھن و فکر کے مالک تھے انہوں نے ساری زندگی کتاب و سنت کی آبیاری میں پوری طرح وقف کردی بڑی بات کہ ان کی طبیعت میں کسی کے لئے کبھی کینہ نہ آیا نسب نامہ کے لحاظ سے آپ چالیسویں پشت میں سیدنا حسین رضي الله عنه سے ملتے ہیں، آپ نے کے مختلف ممالک جن میں امریکا، برطانیہ اور ڈینمارک شامل ہیں ہزاروں مواعظ حسنہ اور محاظراتِ علمیہ پیش کیے۔
خاک کوئے تو ہر گھ کہ دم زند حافظہ
نسیم گلشن جان در مشام افتد
آپ نے جن عُلماء سے علمی استفادہ کیا ان میں ابو الوفاء ثنائُ اللہ امرتسری رحمہ اللہ (م۱۹۴۸ء) حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ(م۱۹۶۴ء)شیخ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ (م۱۹۷۰ء) علامہ ابو اسحٰق نیک محمدرحمہ اللہ (م۱۹۵۴ء) مولانا شرف الدین محدث دھلوی رحمہ اللہ (م۱۹۶۱ء)سیّد محبُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(۱۹۹۵ء) وغیرھُم شامل تھے۔آپ نے اپنی علمی استعداد بڑھانے کی غرض سے اپنی خاندانی لائبریری میں ہزاروں نادر و نایاب قلمی مخطوطات اور شاہکار کتب کا اضافہ کیا یہ سب چیزیں انکی ذاتی دلچسپیوں، صلاحیتوں اور بلند نگاہی کا مظہر تھیں، انکی مجالس علمیّہ، پند و وعظ، تبلیغ و تلقین سننے کے لئے آج بھی دل اور آنکھیں ترستی ہیں۔
ھنوز آرزم باشد کہ یکبار دگر بینم
مختصراً آپ رسوخ فی العلم، اخلاص عمل، جہد پیہم کے پیکر تھے، ہر لمحہ تحقیق و جستجو، مشغولیت و مصروفیت، استغناء و توکل کے بحر بے کنار تھے۔
آں قدح بشکست و آں ساقی نماند
شاہ صاحب کے قریبی احباب شاہد ہیں کہ آپ کبھی حالات سے مرعوب نہ ہوئے، ان پر کبھی گبراہٹ طاری ہوتے نہیں دیکھی گئی، وہ ہر حال میں اپنے رب کے شکر گذار رہتے تھے، بلاشبہ شا ہ صاحب بھی گوشت پوشت کے انسان تھے، وہ فرشتہ نہیں تھے، بشری خطائوں سے کون مبّرأ؟ لیکن جب موجودہ ماحول میںایک اچھا ،سچا، مخلص، جادہ حق پر چلنے والا، مہربان انسان بننا بھی بڑی عظمت کی بات ہے، ایسے میںوہ کبھی حالات کے ہاتھون قدرے دکھی بھی ہو جایا کرتے تھے، لیکن ہم نے انکوروٹھے ہوں کو مناتے بھی دیکھا، انہوں نے غیروں کو اپنا بنانے کی کئی مثالیں بھی قائم کر دکھائیں، انکے انداز بیان میں کبھی ایک محبت بھری تیزی بھی آجاتی تھی جس سے انکا اندازِ بیان مزید مخلصانہ ہوجایا کرتا تھا، وہ بڑی سعادت مندقوم کے بیٹے تھے کہ انہوں نے اپنی حیات مستعار کے کئی سال ’حرمین شریفین‘ میں کتابُ اللہ و سنت رسولُ اللہ ﷺکی تبلیغ و تلقین میں گذارے جہاں خانہ کعبہ میں انکے چاہنے والوں کی کثیر تعدادآکر ان کے محاضرات علمیّہ سے استفادہ کرتی تھی، جس میں بے شمار علماء و مشاہیر بھی شامل تھے، انکو سعودی عرب میں بھی بفضل اللہ تعالیٰ محبت بھری پذیرائی ملی، برصغیر کے علاوہ عرب ممالک میںبھی انکے تلامذہ کی فہرست طویل ہے بہرحال شاہ صاحب نے ۷۲ سالہ زندگی کتاب و سنت کی دعوت دیتے ہوئے گذار دی انکی زندگی کے آخری لمحات بھی قابلِ رشک تھے جب وہ موسیٰ لین کراچی میں کسی تبلیغی کام کی غرض سے گئے ہوئے تھے ، عشا ء کی نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ درد دل کے ہاتھوںرب کائنات کا حکم آیااور چند ہی منٹ میں دارِ فانی سے دارِ الخُلد کی جانب ۸ جنوری ۱۹۹۶ء کو مراجعت ہوئی اور علامہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی امامت میں نمازہ جنازہ ادا کی گئی، پھر اپنے آبائی گائوں درگاہ شریف نزد نیو سعیدآباد میں اپنے والد مکرم اور بڑے بھائی علامہ سید محبُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پہلو میں ابدی آرام ہوئے، اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرکے اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے ، آپ عمر عزیز کے آخری حصّے میںمال و اسباب، دنیاوی امور سے کلیۃ دستکش و بے نیاز ہو چکے تھے اوربہت ہی تھکے تھکے نظر آتے تھے۔
دامان نگھ تنگ و گل حسن تو بسیار
گلچین بھارِ تو زد امان نگھ دارد
۔۔۔