سعودی عرب کے 84 ویں قومی دن پر قونصل جنرل کراچی عزت مآب جناب فالح محمد الرُحیلی کا خصوصی پیغام

سعودی عرب کا قومی دن 23 ستمبر ایسا درخشندہ باب ہے جو ہمارے ذہنوں میں اس تاریخی اعلان کو تازہ کر دیتا ہے جسکے ذریعے عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے17 جمادی الاولی 1351 ھجری بمطابق 23 ستمبر 1932 عیسوی کے روز تمام عرب قبائل کو باہم یکجاکرنے کا اعلان کیا تھا جسے آج ہم مملکت سعودی عرب کے نام سے جانتے ہیں۔

84 سالہ مسلسل ترقی کے دور کی بنیاد مرحوم شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے رکھی اور اسکے بعد انکے بیٹوں نے اس سیاسی ، اقتصادی کامیابیوں کے سفر کو جاری رکھا اور خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکے دور حکومت میں اس سفر کو مزید جلا بخشی۔وطن عزیزسعودی عرب صرف زمین کا ایسا ٹکڑا نہیں ہے جس میں ہم رہتے ہیں بلکہ یہ مسلمانوں کےدلوں میں رہنے والاوطن عزیز ہے ۔ آج اپنےقومی دن کی مناسبت سے میں سعودی قونصل خانہ کراچی ،اسکے زیر نگرانی کام کرنے والے ادارے اور پاکستان میں موجود سعودی طلباء کی جانب سے خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبد العزیز ،ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز اور نائب ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبد العزیز کے ساتھ تمام شاہی خاندان اور سعودی عوام کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتاہوں ۔

امسال 1435ہجری میں ہم اس باہمی اتحاد اور یگانگت کو الحمد للہ 84 ویں مرتبہ منا رہے ہیں جو قبائل کی صورت میں بٹی ہوئی قوم تھی اور غوروفکر کرنے سے ہمیں عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کی اس حکمت و دانائی کا اندازہ ہوتا ہے جسے بروئے کا رلاتے ہوئے انہوں نے باہم دست گریباں قبائل کو متحد و متفق کر دیا،اور اس اتحاد و اتفاق کی بنیاد قرآن کریم اور سنت نبویہ علیہ الصلاۃ و السلام پر قائم کی کیونکہ ہر مسلمان کی زندگی کا دارو مدار انہی دو اشیاء پر قائم ہے چاہے وہ کسی بھی مسلک ومذہب اور ملک و ملت سے تعلق رکھتا ہواس طرح ہمارے آباء و اجداد نے شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کے شانہ بشانہ قبائلی منافرت کو پیچھے چھوڑ کر توحید الہی کی بنیاد پر وطن عزیز کو قائم کیا جسکا شمار دنیا کے بڑے بڑےممالک میں ہوتا ہے اور اسکی حدود جزیزہ نما عرب کے 80 فیصد رقبے پر قائم ہیں، اور اس ملک میں قرآن وسنت کے نظام کو نافذ کیا گیا اور عدل و انصاف کو سر فہرست رکھا گیا۔ان کے بعد کی نسل نے اپنے اجداد کی قائم کردہ بنیادوں کو مزید مستحکم کیا اور وطن عزیز سعودی عرب کو اقتصادی اور سیاسی تعمیر و ترقی کا وہ مقام حاصل ہوا جسے نظر انداز کرنا دنیا کیلئے ممکن نہیں رہا۔

عرب و اسلامی دنیا میں کامیاب سیاسی پالیسیاں:

گذشتہ نو سال کے عرصے میں جب دنیا میں کافی سیاسی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں سعودی عرب اپنی اسی اعتدل پسندانہ اور دور رس سیاسی نہج پر قائم رہا جسے بانی مملکت سعودی عرب عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود نے اپنی حکمت و دانائی سے اختیار کیاتھا اس طرح سعودی عرب علاقائی و عالمی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے ایک غیر معمولی مضبوط ترقی یافتہ اسلامی ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔یہاں ہم خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کی اس مدبرانہ و دور اندیش سوچ کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں جسے انہوں نےاپنے مشہور خطاب میں سعودی عرب میں موجود تمام سفیروں کے سامنے رکھا اور عالمی امن و استحکام کو یقینی بنانے اور ہر قسم کی دہشت گردی اور شدت پسندی کے سدباب کیلئے ایک عالمی ادارے کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور اس کیلئے سو ملین ڈالر جیسی خطیر رقم ادا کی ،اسکے علاوہ خادم الحرمین الشریفین شاہ عبداللہ بن عبد العزیز نےہمیشہ دہشت گردی شدت پسندی اور اسکی تمام انواع و اقسام کے ساتھ مخالفت کی ۔

بیت اللہ کا توسیعی منصوبہ اور حجاج کرام کی خدمت:

حکومت سعودی عرب اور سعودی عوام بیت اللہ و مسجد نبوی حاجیوں اور عمرہ کرنےوالوں کی خدمت کو فخر سمجھتے ہیں   اورانکے لئے آسانی اور سہولیات مہیا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور مسجد الحرام کی توسیع کا جدید منصوبہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں حالیہ سعودی توسیع پر مزید ایک اورمنزل تعمیر کی جائے گی اور مطاف (طواف کی جگہ) کے اوپر ایک نیا صحن تعمیر کیا جائے گا جسے جب چاہیں ہٹا سکتے ہیں اور حالیہ مطاف کی جگہ میں مزید توسیع کی جائے گی جس سے طواف کرنے والوں کی گنجائش بڑھ کر ایک لاکھ پچاس ہزار فی گھنٹہ ہو جائے گی اور اس تعمیر میں معذور افراد کے طواف کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔اس مبارک تعمیر کے دوسرے مرحلے میں باب عمرہ اور باب فتح کے درمیان ایک اور دروازے کی تعمیر کی جائے گی اور مسجد الحرام کے شمال مشرقی حصے میں باب صفا تک کا منصوبہ مکمل کیا جائے گا جس سے طواف سے سعی کیلئے پہنچنا انتہائی آسان ہو جائے گا بلکہ مسجد الحرام کے اطراف میں موجود بھیڑ بھی کم ہو جائے گی، اس منصوبہ میںمسجد الحرام میں حجاج کرام کی سہولت کیلئے تمام تر جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے گا جس میں جدیدسائونڈ سسٹم، روشنی کا نظام اور ائیر کنڈیشننگ کا نظام بھی شامل ہے۔ دوسرے مرحلے کی تکمیل کے لئے آٹھ ہزار افراد دن رات کام میں مصروف ہیں، اور مسجد الحرام کی توسیع تین مرحلوں پر مشتمل ہے ہر سال تعمیر و توسیع کا ایک مرحلہ مکمل کیا جا رہا ہے۔پہلے مرحلے کا افتتاح رمضان المبارک میں کردیا گیا جسکے بعد نئے تعمیر شدہ حصے کو نمازیوں کیلئے کھول دیا گیا اس طرح رمضان المبارک۱۴۳۵ہجری میں تقریباً چار لاکھ افراد کی گنجائش پیدا ہو گئی۔

حجاج کرام کی مکہ و مدینہ آمدورفت کیلئے بھی تمام تر جدید وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے جس میں میٹرو بس سسٹم اور جدہ،مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ کو ریلوے نظام کے ذریعے ملا دیا جائے گااس طرح حجاج کرام کا جدہ ائیر پورٹ سے مدینہ منورہ تک کا سفر آرام دہ ہو جائے گا اور یہ ٹرین ۴۵۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر ے گی۔ یوں حجاج کے زیر استعمال ۳۰ ہزار بسوں کی ضرورت نہیں رہے گی جس ماحولیاتی آلودگی ۸۶فی صد تک کم ہو جائے گی۔

ایک ذہین رہنماکا نہایت منفرد پروگرام:

خادم الحرمین الشریفین نے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ایک لاکھ پچاس ہزارسے زائد سعودی طلبہ کو حکومتی اسکالر شپ سے دنیا بھر کے ممالک میں بھیجا گیا ہے جسکی بدولت کوئی ایسا سعودی خاندا ن نہیں ہے جس کا کوئی فرد یا رشتہ دار اس پروگرام کا حصہ نہ بنا ہو ، اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ اس پروگرام کا حصہ بننے والا ہر طالب علم سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔

پاک سعودی باہمی تعلقات:

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی اور خوشگوار تعلقات استوار ہیں جن کی بنیاد دینی و ثقافتی بھائی چارےپر مبنی ہے۔سعودی عرب کے ولی عہد ،نائب وزیر اعظم اور وزیر دفاع شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کا دورہ پاکستان اسی سلسلے کا حصہ ہے جس سے دونوں ملکوں کی قیادت کی ہم آہنگی اور برادرانہ تعلقات مزید مضبوط بنانے کا موقع ملے گا اور توقع کی جا رہی کہ دونوں ملکوں کی قیادت عالمی اور علا قائی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون جاری رکھیں گی اور باہمی رابطے اور مشاورت سے دونوں ملکوں کی ترقی اور امن و امان کی صورت حال کو یقینی بنایا جائے گا اور خاص طور پر اسلامی معاملات کو حل کرنے کیلئے تعاون اسلامی کی تنظیم (او آئی سی ) کے کردار کو فعال کیا جائے گا۔

وقت کے ساتھ ساتھ پاک سعودی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے ہیں اور ما ضی میں ایسے کئی مواقع آئے جس میں سعودی حکومت اور سعودی عوام نے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔پاکستانی اور سعودی حکومتوں کے درمیان ہر سطح پر تعلقات استوار ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے ان اسٹریٹیجک تعلقات کو قائم کرنے میں دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت کا بہت اہم کردار ہے جس نے ان تعلقات کو اپنے عوام کی امیدوں کےعین مطابق انتہائی مضبوط بنیادوںپر استوار کیاہے، اور ہماری یہ دعا ہے کہ پاکستانی قیادت اور عوام کو مزید ترقی اور امن و استحکام حاصل ہو۔

٭٭٭

رسالة السعادة القنصل الأستاذ فالح محمد الرحيلي

بمناسبة ذكرى اليوم الوطني 84

يطل علينا في كل عام ذكرى اليوم الوطني للمملكة العربية السعودية لتعيد إلى الأذهان هذا الحدث التاريخي الهام ويظل الأول من الميزان من كل عام. وهو يوم صدور مرسوم المغفور له بإذن الله الملك عبد العزيز بتوحيد المملكة العربية السعودية؛ حيث صدر في 17 جمادى الأولى, 1351هـ مرسوم ملكي بتوحيد كل أجزاء الدولة السعودية الحديثة تحت اسم المملكة العربية السعودية، واختار الملك عبدالعزيز يوم الخميس الموافق 21 جمادى الأولى من نفس العام 1932م الموافق 23 سبتمبر, لإعلان قيام المملكة العربية السعودية.

84 عاما حافلة بالإنجازات على هذه الأرض الطيبة التي وضع لبناتها الأولى الملك المؤسس وواصل أبناءه تحقيق الانجازات المتواصلة سياسيا واقتصاديا وتنمويا لتتجسد مسيرة البناء والرخاء وتواصلت الانجازات في عهد خادم الحرمين الشريفين الملك عبدالله بن عبدالعزيز _حفظه الله _ فهنيئا للوطن في يوم عيده فالوطن ليس أرضا نعيش به ولكن كيان يعيش فينا. وبهذه المناسبة أرفع بالأصالة عن نفسي ونيابة عن أعضاء القنصلية العامة للمملكة في كراتشي والمكاتب التابعة لها والطلبة السعوديين لمقام خادم الحرمين الشريفين الملك عبدالله بن عبدالعزيز حفظه الله وسمو ولي العهد نائب رئيس مجلس الوزراء وزير الدفاع صاحب السمو الملكي الأمير سلمان بن عبدالعزيز حفظه الله وولي ولي العهد والمستشار والمبعوث الخاص لخادم الحرمين الشريفين صاحب السمو الملكي الأمير / مقرن بن عبدالعزيز ال سعود والأسرة المالكة الكريمة والشعب السعودي النبيل أصدق وأرق التهاني بهذه المناسبة العزيزة على نفوسنا جميعا.

وها نحن في هذا العام 1435هـ نحتفل بالذكرى 84 لهذا التوحيد المجيد الذي قاده الملك المؤسس عبدالعزيز بن عبدالرحمن آل سعود، يرحمه الله، لتوحيد هذا الكيان الذي كان ممزقاً في كيانات قبلية متناحرة. ولو تأملنا بعمق دلالات هذه الملحمة لوقفنا على عبقرية رائد التوحيد، وكيف أنه استطاع أن يؤسس نظام حكم على مبادئ القرآن الكريم والسنة النبوية المطهرة، فهما الأساس الذي تقوم عليه حياة كل مسلم أياً كان المذهب الفقهي الذي ينتمي إليه أو يتبعه، وهما لحمة تماسك المجتمع المسلم أياً كان الوطن أو القومية التي ينتمي إليها. لقد وضع الأجداد أيديهم بيد الملك عبدالعزيز، وتمكنوا من تجاوز الأطر القبلية الضيقة وأسهموا في ملحمة التوحيد، فأصبح كيان كبير يضم مساحة 80% من جزيرة العرب بأكملها، ورسخوا نظام حكم شرعي احتل العدل قائمة أولوياته. وهذا باب واسع لا يمكن أن تستوعبه هذه المساحة.ثم جاء الآباء، فعملوا على ترسيخ ما أسهم الأجداد في غرسه من القيم، ثم أرسوا دعائم نهضة حقيقية عبر مشاريع التنمية والتحديث، مما منحنا بطاقة الدخول في قلب العصر، والتواجد الفاعل في الأحداث العالمية، فصارت المملكة لاعباً أساسياً على المسرح الدولي، ورقماً صعباً لا يمكن تجاوزه في السلم والحرب، وفي حركة الاقتصاد العالمية حتى أصبحت دولة عصرية تحظى بمكانة مرموقة إسلاميا وإقليميا وعالميا وهذا أيضاً باب واسع لا نستطيع تفصيله هنا.

إنجازات عربية وإسلامية :-

وقد شهدت المملكة تطورا ملحوظ في التسع السنوات الأخيرة في جميع المجالات ففي المجـال السياسي حافظت المملكة على منهجها الذي انتهجته منذ عهد مؤسسها الراحل الملك عبد العزيز طيب الله ثراه القائم على الاتزان والحكمة وبعد النظر وتبني سياسة الاعتدال في التعامل مع القضايا الإقليمية والدولية فأصبحت المملكة لاعبا أساسيا على المسرح الدولي ورقما صعبا لا يمكن تجاوزه في السلم والحرب وفي حركة الاقتصاد العالمية حتى أصبحت دوله عصريه تحظى بمكانه مرموقة إسلاميا وإقليميا وعالميا   ولأيمكن ان ننسى دعوته حفظه الله لأنشاء مركز دولي لمكافحة الإرهاب والذي تبنته الأمم المتحدة وتصديه الدائم للإرهاب بكافة اشكاله وانواعه ولعل اخرها ما ذكره – ايده الله – امام رؤساء البعثات المعتمدة لدى المملكة مؤخرا بالإضافة الى التطور في كافة المجالات وهذا باب واسع لا نستطيع ان تناوله بالتفصيل هنا .

إنجازات في خدمة ضيوف الرحمن :-

أن المملكة العربية السعودية ملكا وحكومة وشعبا تفخر بخدمة بيت الله الحرام في مكة المكرمة والمسجد النبوي الشريف في المدينة المنورة وخدمة قاصديها من الحجاج والمعتمرين الزوار وتوفير سبل الراحة لهم وما توسعة المطاف للحرم المكي الشريف إلا دليل على ذلك الاهتمام فهذا المشروع يشتمل على إنشاء مستويات فوق التوسعة السعودية الأولى وإنزال مستوى الأروقة الى مستوى صحن المطاف حالياً. وإيجاد مساحات خالية من العوائق داخل الأروقة ,كذلك يشتمل المشروع على منظومة متكاملة لطواف وسعى ذو الاحتياجات الخاصة,إضافة الى منظومة شبكة جسور المشاة الخارجية ,التي ستسهم في تنظيم حركة الحشود داخل المسجد الحرام . يشار الى أن المرحلة الثانية للمشروع ’ والتي جاءت من الناحية الشرقية تمثل عنق زجاجة الطواف حيث تحاذي المسعى، وتشمل النصف الشمالي الشرقي من المسجد الحرام , وتنتهي في الناحية الجنوبية مقابل باب وسلالم الصفا الكهربائية , وسيكون المطاف خاليا من العوائق والمخاطر , الى جانب رفع مستوى الخدمات باستخدام أحدث الأنظمة والتقنيات للارتقاء بالخدمة المقدمة لقاصدي المسجد الحرام. وتشمل الخدمات أنظمة الصوت والإضاءة والتكييف.

وقد تمت الاستفادة في هذا العام من 3 طوابق وذلك لاستيعاب أكبر عدد ممكن من الطائفين ، علما بأن نحو 8 ألاف عامل يواصلون العمل ليل نهار لإنجاز المرحلة الثانية من المشروع إلا أن الطاقة الاستيعابية ستصل الى 150 ألف طائف في الساعة في حال اكتمال المشروع . والمح الى أن المشروع يمر بثلاث مراحل,حيث سيتم الانتهاء في كل عام مرحلة منها.

كما ان مشروع النقل العام الذي يشمل النقل بالقطار والمترو وجميع وسائل النقل , إضافة الى مشروع قطار الحرمين الذي يربط المدينة المنورة بمكة المكرمة مروراً بمحافظة بجدة , سيختصر الوقت بين المدينة المنورة ومكة المكرمة الى ساعتين بسرعة 300 كيلو متر في الساعة ,فيما سيقطع المسافة بين مكة المكرمة ومحافظة جده في نصف ساعة , مشيراً الى ان قطار المشاعر المقدسة استطاع أن يستغنى عن 30 ألف حافلة كانت تجوب المشاعر , الامر الذي أدى الى انخفاض التلوث بنسبة 86 في المئة.

برنامجا عبقريا من رجل عبقري :-

برنامج خادم الحرمين الشريفين للابتعاث الخارجي برنامجا عبقريا من رجل عبقري حيث لا يوجد في المملكة اليوم عائلة سعودية إلا ولها ابن أو ابنة أو قريب مبتعث ضمن هذا البرنامج , وسوف يكون له الأثر الكبير خلال الأعوام المقبلة في دفع عجلة التنمية في المملكة من صنع أيدي أبنائها وسوف يبرهن على الرؤية الحكيمة للملك عبدالله في إقامة هذا البرنامج ودعمه . مشيرا الى أن أكثر من 150 ألف مبتعث في أنحاء العالم كفيلين بتمثيل المملكة خير تمثيل وهذا جاء من رؤية القائد الحكيم الملك عبدالله وانه يجب على كل مبتعث أن يثابر من اجل العودة بأفضل الشهادات لخدمة الوطن وهو ما ينتظره الوطن الغالي من أبنائه المبتعثين في الخارج حتى يرتقى وطننا الغالي وتستمر عجلة التنمية في ازدهاره في شتى المجالات .

العلاقات السعودية الباكستانية :-

العلاقات السعودية الباكستانية هي علاقات تاريخية ووثيقة وودية للغاية وتربط بين البلدين علاقات دينية وأخوية وثقافية. وكانت زيارة ولي العهد صاحب السمو الملكي الامير / سلمان بن عبدالعزيز ال سعود ولي العهد ورئيس مجلس الوزراء ووزير الدفاع مؤخرا للباكستان جسدت ذلك والتي اتت ايضا في إطار العلاقات بين البلدين، واعتبرتها الاوساط زياره تاريخيه وتأكيداً على الرغبة المشتركة لدى قيادتي البلدين في توطيد وتنمية كل أوجه العلاقة على الصعيد الثنائي بما يعزز المصالح المشتركة ويلبي تطلعات الشعبين والتشاور والتنسيق في القضايا ذات الاهتمام المشترك على الصعيدين الإقليمي والدولي لما يؤدي إلى خدمة البلدين وتعزيز دورهما في الحفاظ على الأمن والسلم ودعم التنمية إقليمياً ودولياً، وعلى وجه الخصوص خدمة القضايا والمصالح الإسلامية وتعزيز دور منظمة التعاون الإسلامي.

وقد تطورت هذه العلاقة مع مرور الوقت لتتجاوز حاجز الزمن. وكانت لوقفات المملكة حكومة وشعبا مع إخوانهم الباكستانيين وخصوصا وقت الأزمات اكبر الأثر في نفوس الباكستانيين ووجدوا في المملكة وقادتها خير معين لهم قولا وفعلا والتواصل بين المسئولين في كلا البلدين مستمر في كافة المجالات وعلى كافة المستويات ويمكن القول أن ما وصلت إليه العلاقات الباكستانية السعودية من تقدم وتنام في كافة الميادين يعود الفضل فيه للتوجيهات الصادقة للقيادتين السياستين الباكستانية والسعودية واللتين استطاعتا أن تسهما بشكل جاد في تعزيز الشراكة الاستراتيجية بين البلدين وان تحقق نجاحا ملحوظا ً في توسيع دوائر تلك العلاقات ترسيخاً لجذورها في اتجاه تحقيق تطلعات آمال شعبيهما ، كم نتمنى للشعب الباكستاني في ظل قيادته الأمن والأمان والمزيد من التقدم والازدهار .

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے