یمن کے حوثی باغیوں نے عدن کے فوجی اور صدارتی محل پرقبضہ کرلیا اور ساحلی شہر میںداخل ہوگئے اور انہوں نے سعودی عرب میں جارحانہ کاروائی کرنےکی دھمکی دی ہے ، چنانچہ سعودی افواج توپ خانہ اور بھاری جنگی سازوسامان لے کر یمن کی سرحد پر پہنچ گئیں، سعودی عرب کی زیر کمان اتحادی طیاروں نے یمن میں حوثی باغیوں کے زیر کنٹرول ٹھکانوں پر بمباری کی ، کیاسعودی حکومت کا دفاعی اقدام درست فعل نہیں تھا؟

اہل مغرب کی تگ ودو سے مسلم دنیا میں قوم کی رائے کو اتھارٹی حاصل ہوگئی جبکہ سعودی عرب ایسا ملک ہے جہاں تاحال اللہ کے نظام کو اتھارٹی حاصل ہے ، حرمین شریفین کی حدود میں غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے طاغوتی چیلے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کوکھلا شہر قرار دینے کی سارشوں میں ملوث رہے ۔

پچیس سال قبل لندن میں منعقدہ حجاز کانفرنس کا اعلامیہ اس امر کا شاید ہے، اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ گریٹ اسرائیل کے نقشہ میں مدینہ منورہ شامل ہے صہیونی براہ راست حملہ کرنے سے پس وپیش کررہاہے کہ کہیں دنیا بھر کے مسلمان ایک پرچم تلے متحدنہ ہوجائیں چنانچہ اس نے مسلم دنیاکو مذہبی بنیاد پر دو بلاکوں میں تقسیم کرنےکی ٹھان لی ، مسلم ریاستوں میں شیعہ اور اہل سنت آباد تھے کافی عرصہ سے داخلی امن وامان تھا ، فرانس میں مقیم ملک بدر مذہبی لیڈر خمینی نے ایران میں انقلاب کی صداء بلند کی ، شاہ ایران جان بچا کر بھاگ گیا تو اہل ایران نے مجتہد خمینی کا بھر پور انداز میں استقبال کیاجس نے خود کو امام غائب کا نمائندہ ظاہر کرکے عوام کے دل جیت لیے ، اہل ایران کو انقلاب سے والہانہ عقیدت ہوگئی انہوں نے انقلاب کو دیگر مسلم علاقوں میں برآور کرنے کی تگ ودو شروع کردی، اسلامی دنیا کے دجس خطے میں ان کے عقیدت مندوں کو ضرورت محسوس ہوئی ایرانی پاسداران انقلاب بلاخوف وخطر ان کی مالی وعسکری امداد کی اور کر رہے ہیں۔

عراق میں اپنی حکومت قائم کرنے اور شام میں بشارالاسد اقتدار پر برقرار رکھنےمیں ایران کا کلیدی کردار ہے ، ایرانی حکمران نےخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ :

’’تہران کا فارن ڈیسک مشرق وسطی میں ایران کے فروغ پذیر سیاسی اور عسکری اثر ونفوذ کو جہاں خطے کے ممالک نہایت تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ،وہیں ایرانی حکام اس پرشاداں دکھائی دیتے ہیں اس کا اظہار حال ہی میں ایرانی صدر حسن روحانی کے مشیر علی یونس نے یہ کہہ کر کیا ہےکہ ایران ایک عظیم الشان سلطنت بن چکاہے اور اس سلطنت کا دارالحکومت بغداد ہے، بغداد میں ماضی اور حال میں ہماری تہذیب اور ثقافتی تشخص کی علامت ہے انہوں نے ایرانی تشخص کے عنوان سے تہران میں منعقدہ ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایران وعراق کو جغرافیائی طور پرتقسیم کرنا کسی طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ پورامشرق وسطی ایران کا حصہ ہے ہم خطے کی تمام اقوام کا دفاع کریں گے کیونکہ ہم انہیں ایران ہی کا حصہ سمجھتے ہیں ، ہم اسلامی انتہاپسندی ، تکفیری ، الحاد، عثمانیوں، وہابیوں اور مغربی صہیونیوں سے بیک وقت مقابلہ کریںگے ، انہون نے ترکی کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ہمارے مخالفین میں مشرقی رومیوں کی باقیات اور عثمانی ترک ہیں‘‘ (روزنامہ نئی بات 2015.03.10)

عربوں کانمائندہ صدام حسین عبرت کا نشان بن گیا عرب جہاد کے نام پر مشرق وسطیٰ کی مسلم ریاستوں میں ہلچل رونما ہوئی یہود ونصاریٰ مسلمانوں کے دوست نہیں انہیں ذاتی مفادعزیز ہے ہم کتنے بھولے ہیں اُن پر اندھا اعتماد کرتے ہیں ، مسلم دنیا میںکئی تنظیمیں قائم ہوئیں جو اصلاح کی بجائے شدت کی پالیسی پر گامزن ہوئیں مسلم دنیا خانہ جنگی سے دوچار ہوگئی امریکہ نےالقاعدہ، طالبان، اخوان المسلمون اور داعش کو دہشت گرد قرار دیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے آپریشن میں ان کا صفایا کردیا ۔ امریکہ نے داعش خود تیار کی ، سابق امریکہ جنرل ویزلی کلارک نے انکشاف کیا کہ ’’امریکہ واسرائیل نے حزب اللہ کے مقابلے میں داعش تیار کی اور یہ بنایا ہوا جن قابو میں نہیں رہا‘‘(نئی بات 2015.02.23)

مشرق وسطیٰ کے جذباتی نوجوان اس میں شامل ہوئے تو امریکہ اور مغربی ممالک عیار طیاروں نے ان کا کچومر نکال دیا، ایران کو بھی داعش سے نمٹنے کے لیے شام وعراق میں اعلانیہ عسکری مداخلت کرنے کا موقع مل گیا، ایرانی ملیشیاء سلطان صلاح الدین ایوبی کے آبائی شہر تکریت میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوگئی مقامی مسلمانوں کو داعش کا جنگجو قراردیکر اونچی عمارتوں سے زندہ پھینکا گیا اُن کے سر کاٹ کر فٹ بال کھیلتے رہے اُن کی لاشوں کو مسخ کیا گیا۔

’’ایران کے مزاحمتی کونسل کی خارجہ کمیٹی کے رکن حسین عابدی نے بتایا کہ انہیں ایران سے مصدقہ ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہےکہ عراق میں القدس کے جنگجو من پسند افراد کے تحفظ ، ایران مخالف افراد کی جبری ملک بدری ، جبری ہجرت، املاک کی لوٹ مار بالخصوص عراق میں موجود سنی مسلک کے شہریوں پر حملوں میں ملوث ہے‘‘

روزنامہ نئی بات:2014.12.28)

ایران نے لبنان ، عراق اور شام پر تسلط جمانےکے بعد اپنےعزائم ظاہر کردئیے ، جنرل کمانڈر ایرانی پاسداران انقلاب محمد جعفری نے ایک بار پھر دھمکی دی ہےکہ ’’اُن کا ملک خلیج عرب، بحر عمان اورآبناےے ہرمز پرقبضہ کرسکتاہے ، جنرل نے کہا کہ اُن کا ملک اس وقت ایک نمایاں دفاعی قوت بن چکاہے ، یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب ایران نے خلیج عرب میں بحری اورفضائی مشقیں شروع کررکھی ہیں۔ جنرل نے کہا کہ مشقوں میں ایرانی فوج نے اپنے ابتدائی اھداف حاصل کرلئے ہیں‘‘

(روزنامہ نئی بات:2015.02.27)

یمن کے حوثی باغی قبائل زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کا اعتراف کرتے تھے البتہ سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی دیگر صحابہپر فضیلت کے قائل تھے، ایرانی انقلاب کے بعد حوثی قبائل کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے تہران گئے انہون نے حصول تعلیم کے بعد حوثیوں میں اثناعشریہ کو فروغ دیا، جنہوں نے 1992ء میں شمالی یمن میں انصاراللہ نامی عسکری تنظیم قائم کی ، چونکہ اس میںحوثی شامل ہوئے اس لئے حوثی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی حسین الحوثی کے بعد عبدالمالک الحوثی نے اس تحریک کی قیادت سنبھال لی۔

حوثی قبائل نے غیر ملکی قوت کے تعاون سے 21دسمبر 2014ء کو یمن کے دارالحکومت صنعاء کا کنٹرول سنبھالا، پھر دیگر علاقوں پر قابض ہوتے رہے ، عبدالمالک الحوثی نےدھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یمن میں اٹھنے والا انقلاب سعودی عرب کو اپنی لپیٹ میں لےلے گا ، ہم نے سعودی عرب کے رڈر پر مشقیں شروع کردی ہیں ، جلد ہی سعودی عرب پر حملہ کردیں گے۔

یمن سعودی عرب کا پڑوسی ہے دونوں ممالک میں 1800کلو میڑ کامشترکہ بارڈر ہے ، سعودی عرب کا صوبہ قطیف جس میں اہل تشیع کی زیادہ آبادی ہے وہ اسی بارڈر پر واقع ہے ۔

ایران کے روحانی پیشوا خامنہ ای کے قریبی ساتھی علی رضا نے بھی کہاکہ تین عرب ملک عراق شام اور لبنان ہماری جیب میں آچکے ہیں یمن میںبھی ہمارا اقتدار قریب ہے جس کے بعد ہم سعودی عرب کی طرف بڑھیں گے انہوں نے یمن میںحوثی قبضہ کو ایرانی انقلاب کی فطری توسیع قرار دیا ۔ (روزنامہ نئی بات:2015.04.02)

حوثی قبائل کو ایران کے علاوہ امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ واشنگٹن : ’’پینٹا گون کے ترجمان ریر ایڈمرل جان کرلی نے کہا ہے کہ امریکہ نے حوثی باغیوں کے ساتھ روابط کی تصدیق کردی ہے‘‘ (روزنامہ نئی بات:2015.01.29)

اس کا عملی ثبوت باغیوں نے عدن پر قبضہ کیا تو اس کےالھند کے فوجی اڈے پر امریکی ومغربی فوجی ماہرین نفسیات تھے جو القاعدہ کے خلاف کاروائی میں یمن کی فوج کی راہنمائی کرتے تھے ، انہیں گذشتہ دنوں واپس بلالیا گیا تھا‘‘ (روزنامہ نئی بات: 2015.03.26)

ان کے اس فعل سے واضح پتہ چلتاہےکہ حوثی اور امریکہ کے درمیان خفیہ روابط ہیں دوسرا امریکی فوج کا مقصد یمن کا تحفظ نہ تھا بلکہ ان کا ھدف القاعدہ کی آڑ میں حوثی تحریک کو مدد فراہم کرنا تھی ۔

ان سنگین حالات کے تحت سعودی عرب فوری طور پر دفاعی پالیسی اختیار نہ کرتا تو حوثیوں کو پیش قدمی کا موقع مل جاتا، پھر یہی میڈیا اس امر کا واویلا مچاتا کہ سعودی حکمران تن آسان اور بزدل ہیںانہوں نے بروقت مداخلت کرکے اپنا دفاع کیوں نہ کیا؟

نجی ٹی وی پر ایک تجزیہ نگار کا یہ کہنا کہ سعودی عرب نے یمن پر حملہ کرکے اسرائیل کو تحفظ فراہم کیا ہے تاریخی حقائق کے سراسر منافی ہے، اسرائیل معرض وجود میں آیا تو ایران نے اسے تسلیم کیا لیکن سعودی عرب نے اس کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا امریکہ اور اسرائیل کو مردہ باد کہہ کر مسلم دنیا کا ھیرو بننے کی تگ ود کرنا آسان ہے تاہم ان کے خلاف مزاحمتی کاروائی سامنے نہیں آئی ، امریکہ اور ایران میں آنکھ مچولی کا کھیل جاری تھا اس وقت ایران اسرائیل سے مراعات ومفادات حاصل کرتارہا۔ ایران نے کس کو تحفظ فراہم کیا؟ خود ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے اعتراف کیا:’’ایران کا اسرائیل کو تباہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

امریکی ٹی وی چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے اسرائیلی وزیر اعظم کے کانگریس سے خطاب کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نتن یاہو تایخ کا ایک بار پھر مطالعہ کریںجہاں اُن کو معلوم ہوجائے گا کہ ایرانی بادشاہوں نے تین بار یہودیوں کو بچایا تھا، ایرانی وزیر خارجہ نے اسرائیلی وزیر اعظم کے الزامات کو قابل افسوس قرار دیا اور کہا کہ وہ اس قوم پر الزامات عائد کر رہے ہیں جس نے تین بار یہویوں کو بچایا ، انہوں نے کہا کہ اس وقت ایران میں مقیم یہودیوں کی تعداد 20 ہزار سے زائد ہے اور اُن کوپارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے‘‘ (روزنامہ نئی بات:2015.03.07)

ایران جب سے خلافت کے دائرہ کار سے آزاد ہوا تو اس نے مغرب سے مفاہمت او رخلافت عثمانیہ سے محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کی اب بھی اس کے روس دیگر اقوام مغرب سے گٹھ جوڑ کیا ہو ا ہے۔

امریکہ نے اہل سنت تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا لیکن ایران نواز تنظیموں پر دہشت گردی کا لیبل نہیں لگایا ، یہی وجہ ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے عراق ، شام کے بعد یمن میں مداخلت کر کے آئینی حکومت کو بحران سےدوچار کردیا۔

مخبر صادق ﷺ نے معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے پر یہودیوں کو مدینہ سے نکال دیا ان کی نسل آج بھی داخلہ کےلیے سازشوں میں مصروف ہے ۔ مدینہ منورہ ان کے نقشہ میںشامل ہے جبکہ ایران کے موقف ہےکہ اُن کے بارھویں امام قائم کا ظہور مدینہ میںہوگا وہ عالمی حکومت قائم کر کے دشمنوں سے انتقام لیں گے، وہ اس لیے حرمین شریفین پر قبضہ کرنے کےلیے بے قرار ہیں ، دشمن کو زیر کرنے کے لیے اس قدر مشترک وجہ نے ان کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے ۔ ان کی تگ ودو یہ ہےکہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ آزاد کراکر کھلاشہر قرار دیا جائے تاکہ ہر تہذیب وملت ، ہر ایک کو گھومنے پھرنے رسم ورواج ادا کرنےکی آزادی حاصل ہوجائے۔

ایران اور امریکہ میں جوہری توانائی کے متعلق معاہدہ ہوا توحوثی قبائل نے ایران پاسداران کی حمایت سےیمن کے دار الحکومت پر قبضہ کرلیا اور سعودیہ کو دھمکی دی تو عربوں کو اپنے تحفظ کا احساس ہواعرب لیگ کے سربراہی اجلاس نے چالیس ہرار مزید مشترکہ فورم کے قیام پر اتفاق کیا اور کہا کہ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں اس وقت تک فضائی کاروائیاں جاری ر ہیں گی جب تک حوثی باغی ہتھیارڈال کر پیچھے نہیں ہٹ جاتے ۔

مشترکہ فوج کسی بھی ملک کو درپیش سیکورٹی چیلنجز کی صورت میں استعمال کی جاسکے گی ، عربوں میں اسلامی حمیت جاگ اٹھی ہے سعودی طیارے کسی زمینی کاروائی سے قبل حوثیوں کو ملنے والے غیر ملکی اسلحہ کے ذخائر اور فوجی کمک کے راستوں پر بمباری کررہے ہیں یمن کے حوثی اور مقامی عرب قبائل میں اہم سرکاری مقامات پر قبضہ کے لیے جنگ جاری ہے۔

طاغوطی قوتیں سعودی عرب کو ھدف بنانے سے قبل اس کے سرحدی علاقوں پر تسلط جمارہی ہے تاکہ ممکنہ جارحانہ کاروائی کے دوران سعودی عرب کو کسی قسم کی بیرونی امداد نہ پہنچ سکے ان سنگین حالات میں سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی تعاون طلب کیا ہے تو پاکستان میں بحث شروع ہوگئی اور ایک صاحب نے اظہار کیا کہ فوری جنگ بندی کےلیے سلامتی کونسل کے دروازہ پر دستک دینی چاہیے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اقوام متحدہ نے کشمیر ، فلسطین سمیت مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں کیا ، ایران عراق جنگ بندی کےلیے اس نےکوئی موثر کردار ادا نہیں کیا، اس لیے سلامتی کونسل سے اپیل کرنا یہود ونصاریٰ کو فوجوں کی تعیناتی کو آئینی جواز مہیا کرنے کے مترادف ہے جو حرمین شریفین کی سلامتی کےسراسر خلاف ہوگا۔

پاکستان کو ایٹمی قوت کی بنا پر پاکستان کو عالم اسلام میںنمایاں مقام حاصل ہے اگر چہ اوآئی سی غیر موثر ادارہ ہے تاہم اس میں جان ڈالنے کی ضرورت ہے حکومت پاکستان کو اس مسئلہ کے حل کےلیے سربراہی اجلاس طلب کرنا چاہیے جو فریقین کو فوری طور پر جنگ بندی پر مجبور کرے اور یمن میں حالات سازگار کرنے کے لیے مشترکہ اسلامی فوج بھیجی جائے جس کے ذمہ ڈیوٹی لگائی جاے کہ وہ یمن میں القاعدہ کی نگرانی کی آڑ میںامریکی فوجی ماہرین ہوں یا یمن مین ایرانی و سعودی باشندے سے جو اپنے اپنے چیلوں کی نصرت کے لیے آئے ہوں ان کو انخلا کرنے پر مجبور کرے سابقہ آئینی حکومت کو عبوری طور پر بحال کیا جائے اور حالات سازگار کرنے کے بعد پر امن انداز میں غیر جانبدار انداز میں انتخاب کراکر اقتدار منتخب حکومت کو سونپاجائے حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ قائدانہ کردار ادا کرکے دو مسلم ملکوں کو خانہ جنگی سے بچایاجائے۔

خدانخواستہ مذاکرات سے مسئلہ حل نہ ہوا تو پھر دوسرے پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ و آزمودہ دوست ہے اس نے ہر آڑے وقت میں پاکستان سے تعاون کیا ہے 1965ء اور1971ء کی جنگوں میں سعودی عرب نے اعلانیہ پاکستان کا تعاون کیا ، وزیر اعظم ذوالفقار بھٹوکے دور میں پاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا تو سعودی عرب نے بھر پور مالی تعاون کیا جب میاں محمد نواز شریف کے دور میں پاکستان نے مئی1998ء میں ایٹمی دھماکے کئے تو سعودی عرب نے 5.5 ارب ڈالر کی امداد تیل کی شکل میں فراہم کی پاکستان اور سعودی عرب نے 8 فروری 2014ء کو اعلان کیا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کو فروغ دیاجائے گا۔

شرپسندوں کو حرمین شریفین تک رسائی سے قبل سرحد پر روکنا ضروری ہے۔ اس نازک صورت حال میں معاہدہ کی پاسداری کا تحفظ ضروری ہے حرمین شریفین کی بنا پر سعودی عرب سے ہمارا روحانی وقلبی تعلق ہے چنانچہ سعودی سرحدوں کے دفاع کے لیے فوجی کمک بھیجنا ایمان کا تقاضاہے، چونکہ پاکستان دہشت گردی کے علاوہ داخلی مسائل سے دوچار ہے پاکستان میں حوثی قبائل کا حامی طبقہ بھی موجودہے اس لیے پاکستان کو انتہائی محتاط پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ رب ذوالجلال یمن میں اتحاد و یکجہتی کی فضاء سازگار کرے اور سعودی عرب کو حوثی قبائل کے شر سے محفوظ رکھے۔

مسلم حکمرانوں کی نمایاں خوبی ہوتی ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا بندوبست کرتے ہیں مسلم حکمرانوں میں سے کون اس پر عمل پیرا ہے؟

ترقی پذیر ممالک کے سرابراہ امریکی صدر سے چند منٹ کے لیے ملاقات کرلیں تو پھولے نہیں سماتے، امریکی صدر انڈیا سے واپسی پر سعودی عرب گیا جب وہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ان کے محل ملنےگیاتو عین اسی وقت نماز عصر کی اذان کی آواز گونجی تو شاہ سلمان دنیاکے طاقت ور ترین انسان اوبامااور ان کی اہلیہ کو اکیلے چھوڑ کر مالک الملک کے دربار میں حاضر ہوئے وہاں موجود دیگر اعلی عہدیدار وں میں ولی عہد شہزادہ مقرن بھی شامل تھے وہاں نماز پڑھنے کے لیے رب کےدربار میں حاضر ہوئے، اللہ سبحانہ وتعالی عقیدہ توحید پر ثابت قدم رہنے والے کو آزمائش میں ضرور ڈالتا ہے لیکن مخلوق میں رسوانہیں کرتا بلکہ انکو دنیا وآخرت میں کامیابی کی نعمت سے نوازتاہے ۔

مسلم حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ یمن کی سلگتی آگ کو بجھانے کی ہر ممکن جدوجہد کریں ورنہ پھیلنے کا خطرہ ہے طاغوتی چیلوں نے سعودی عرب میں مذہبی وسیاسی خانہ جنگی کا جال پھیلا کر مداخلت کرنے کی سازش کی تو عرب فطری وعسکری محاذ پر بھر پور مذاحمت کریں گے خدانخواستہ صہیونی چیلوں نے مدینہ منورہ کی طرف میلی نظروں سے دیکھا تو عرب مردانہ وار مقابلہ کر کے اسلاف کی تاریخ زندہ کریں گے، اور قیصر وکسریٰ کے پجاریوں کو گرجاؤں اور آتش کدوں کے علاوہ کہیں اور جائے پناہ نہ ملے گی ۔ ان شاء اللہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے