قرآن کریم نے ہدایت یافتہ ، فلاح پانے والے لوگوں کا تعارف جن صفات کے ذریعے سے کروایا ان میں اول صفت ایمان بالغیب ہے ، غیب ہر اس شے کو کہاجاتا جو انسانی حواس محسوس نہ کرسکیں اور انسان اس کا ادراک نہ کرسکے۔ امورِ غیب میں اللہ کا وجود ، فرشتوں پر ایمان، آخرت پر ایمان جنت و جہنم پر ایمان وغیرہ شامل ہیں۔ یہی دین اسلام کی اساس ہے جبکہ جن قوموں نے انکار کیا ان کا نکتہ انکار اسی گرد گھومتا تھا جیسا کہ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں بیان فرمایا : ﴿ وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا ﴾
’’ اور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں، ہم پر فرشتے کیوں نہیں اترے یا ہم ہی اپنے پروردگار کو (آنکھوں سے) دیکھ لیں؟ یہ اپنے دل میں بہت بڑے بن بیٹھے ہیں اور بہت بری سرکشی میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔‘‘ [الفرقان: 21]
بلکہ ان کی سرکشی کو دیکھتے ہوئےاللہ رب العالمین نے بیان فرمایا کہ اگر ان امورِ غیب کا ادراک بھی انہیں ہوجائے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہیں چنانچہ فرمایا: ﴿ وَلَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَآ اِلَيْهِمُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْٓا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ﴾’’اور اگر ہم ان کی طرف فرشتے بھی نازل کردیتے اور ان سے مردے کلام بھی کرتے اور ہر چیز کو ان کے سامنے لا اکٹھا کرتے تو بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے مگر جس کے متعلق اللہ چاہتالیکن ان میں سے اکثر نادانی کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘ [الأنعام: 111]
اللہ رب العالمین کی طرف سے ان امور کو ہم سے پوشیدہ رکھنا اور دنیاوی امور کا علم دے دینا یہ حکمت سے خالی نہیں بہرحال یہ ایک مسلمان جب ان ایمانیات کوتسلیم کرتا ہے تو اس وجہ سے نہیں اس کے حواس کے ذریعے وہ ان کی حقیقتوں کو جان چکا ہے اور نہ ہی اس وجہ سے کہ سائنسی علوم ان اعتقادات کی تائید کرتے ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ قرآن و سنت اس کا حکم دیتے ہیں البتہ اگر سائنسی تائید حاصل ہوجائے تو یہ اس طبقہ کو سمجھانے میں ممد و معاون ثابت ہوسکتی ہے جو سائنسی اصولوں کی روشنی میں دین اسلام پر اعتراضات کرتا ہے۔ لہذا اس مضمون میں جدید سائنسي حیثیت کو بیان کرتے ہوئے اس کی مدد سے عقیدہ آخرت کا اثبات کیا جائے گا اور اس کی صحت کو بیان کیا جائے گا۔
منکرینِ آخرت کی ایک جھلک
ایک طرف دہریت ، بے دین قسم کے وہ لوگ ہیں جو کفار کی فہرست میں شمار ہوتے ہیں یہ لوگ سرےسے عقیدہ آخرت کا انکار کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ افراد بھی ہیں جو بظاہر کلمہ گو تو ہیں لیکن محض عقلانیت کی بنیاد پر عقیدہ آخرت کا یا اس کے بہت سے احوال کا انکار کرتے ہیں مثلاً سرسید نےجنت و جہنم کے وجود کا سرے سے انکار کیا۔بلکہ جنت و جہنم کا سرے سے انکار کرنے والوں کو تربیت یافتہ دماغ اور اس کے وجود کے قائلین اور اس پر کما فی النصوص ایمان لانے والوں کو کوڑ مغز ملااور شہوت پرست زاہد قرار دیتے ہیں، جس کی تفصیل آئینہ پرویزیت میں دیکھی جاسکتی ہے۔سرسید ہی کی سوچ اور وہی نظریہ پرویز اور ان کے پیروکار افراد میں نظر آتا ہے۔ پرویز نے آخرت کا سرے سےانکار کیا اور من مانی تاویلات گھڑیں اور قرآن مجید میں تفسیر بالرائے کی ،جوکہ تحریفِ معنوی کے مترادف ہے۔اس کے نزدیک یوم القیامۃ سے مراد انقلابی دور ، حق و باطل کی آخری جنگ ہےاور جنت و جہنم کیفیات کا نام ہے۔
چنانچہ قیامت کے بارے میں لکھتا ہے:
’’یوم القیامۃسے مراد ہوگا وہ انقلابی دور جو قرآن کی رو سے سامنے آیا تھا۔‘‘ (جہانِ فردا:ص 133)
اپنی کتاب لغات القرآن میں سورہ طہ کی آیت نمبر 15 [اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ ]کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اس کا یقین رکھو کہ حق و باطل کی آخری کشمکش کا وقت اب آیا ہی چاہتا ہے۔ یہ آکر ہی رہے گا۔ ‘‘ (لغات القرآن : 1/919)
سورۃ الحجر کی آیت نمبر 85 [وَ اِنَّ السَّاعَةَ لَاٰتِيَةٌ] کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’آخری انقلاب کا وقت آنے والا ہے۔ وہ ضرور آکر رہے گا۔ یہ مخالفین ضرور تباہ ہوکر رہیں گے۔‘‘(ایضا)
جنت و جہنم کے بارے میں پرویز صاحب کا کیا نظریہ ہے؟ اس حوالے سے ایک جگہ اپنے باطل نظریہ کا اظہار کرتے ہوئے پرویزلکھتاہے:
’’مرنے کے بعد کی جنت اور جہنم مقامات نہیں ہیں انسانی ذات کی کیفیات ہیں ، جن کی حقیقت ہم آج سمجھ نہیں سکتے۔‘‘(1/449)
پرویز نے اپنی کتاب جہانِ فردا میں عنوان قائم کیا ’’ جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے ‘‘(جہان فردا: 231)
اور پھر اگلے ہی عنوان ’’ جہنم کی تفاصیل ‘‘ کا آغاز کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جہنم انسان کی قلبی کیفیت کا نام ہے، لیکن قرآنِ کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ غیر محسوس، مجرد حقائق کو محسوس مثالوں سے سمجھاتا ہے۔‘‘(جہان فردا: 235)
قرآنِ کریم میں آخرت کا بکثرت تذکرہ
قرآن کریم میں 115 مرتبہ عقیدۂ آخرت کا تذکرہ ہوا ہے ، اور کم و بیش اتنی بار دنیا کا تذکرہ ہوا ہے ، اس کے ساتھ موت اور آخرت کے دیگر احوال کا تذکرہ علیحدہ ہوا ہے ، متعدد مقامات پر دنیا کی زندگی کو دھوکے کا سامان کہا گیا اور اس کے مقابلے میں اصل زندگی آخرت کو قرار دیا گیا ، چنانچہ ایک مقام ملاحظہ فرمائیں :
[وَمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ۭ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَھِىَ الْحَـيَوَانُ ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ ] (العنکبوت : 64 )
’’یہ دنیا کی زندگی ایک کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں۔ اصل زندگی تو آخرت کا گھر ہے۔ کاش! وہ لوگ یہ بات جانتے ہوتے۔‘‘
ایک مقام پر دنیا کی بدمستیوں میں مست لوگوں کو کچھ یوں بھی جھنجھوڑا گیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
[فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَـنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ] (البقرة:200-201)
’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں سب کچھ دنیا میں ہی دے دے۔ ایسے لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور کچھ ایسے ہیں جو کہتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘
قرآن کریم میں بیان کردہ یہ آخرت کا تذکرہ پڑھنے والے پراثر کرجاتا تھا یہی وجہ ہے کہ احادیث میں کہیں نبی کریم ﷺ قرآن کریم کو پڑھتے، سنتے ہوئے رورہے ہیں تو کہیں صحابہ کرام کے رونے کے واقعات موجود ہیں بلکہ یہی خشیت دیگر سلف صالحین کی سیرتوں میں بھي نظر آتی ہے ، فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے نماز میں تلاوت کے دوران جب سورہ الحاقہ کی آیت پڑھی [خُذُوْهُ فَغُلُّوْهُۙ۰۰۳۰] یعنی اسے پکڑ لو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو ۔ زارو قطار روتے رہے حتی کہ بے ہوش ہوگئے۔(سیر اعلام النبلاء )
ایک موقع پر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ان آیات کی تلاوت کررہے تھے جن میں آخرت کا تذکرہ ہے تو صبح تک ان آیات سے آگے نہ بڑھ سکے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی کئے گئے تو اس موقع پر انہوں نے یہ کلمات کہے تھے : وَاللہِ لَوْ أَنَّ لِي طِلَاعَ الْأَرْضِ ذَهَبًا لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ قَبْلَ أَنْ أَرَاهُ (صحیح بخاری : 3692) اللہ کی قسم ، اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سامنا کرنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات کی کوشش کرتا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا رو رو کر داڑھی تر کرلینا تو معروف ہے۔
یہ وہ پاکباز ہستیاں تھیں ، اور ان کا تعلق باللہ اور آخرت کے حوالے سے فکر مندی کا معاملہ تھا اور آ ج دنیا کی محبت میں اندھا انسان آخرت کے حوالےسے ایسا پختہ ایمان اور پھرآخرت کا ایسا ڈر پیدا نہیں کرسکتا۔ کیونکہ دنیا کی چاہ اور محبت اس کے دل کا ایمان چھین چکی ہے۔
عقیدۂ آخرت کے انکار کا ایک بڑا سبب :
عقیدہ ٔآخرت کے انکار کے کئی اسباب ہیں ، بہرحال ان میں سے ایک بڑاسبب عقل پرستی ہے، بعض لوگ عقل پرستی کی روش کا شکار ہوتے ہیں اور لولی لنگڑی توجیہات و تاویلات کا سہارا لے کر عقیدہ آخرت کا انکار کرتے ہیں ، کبھی تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دیتے ہیں تو کبھی ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ ایسا عقل سے بعید تر فلسفہ ہے ، جو کئی دینوی و سائنسی امور پر سوالیہ نشان کھڑا کردیتا ہے ، جیساکہ آگے تذکرہ ہوگا۔
سائنس کی حیثیت :
سب سے پہلے یہ بنیادی بات قابل فہم ہے کہ سائنس کی اپنی حیثیت کیا ہے ؟ سائنس کی دنیا کو جس قدر بھی ضرورت ہو ، اس کے دائرۂ کار اور حدود سے کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا ، یہ حد بندی ہی ہے کہ سائنس اور فنون میں فرق کیا جاتا ہے ، ورنہ سائنس اگر علم کا نام ہے تو فنیات سمیت دیگرامور بھی اس میں داخل ہوجائیں گے ، گویا کہ انسان اپنی قدرتی صلاحیتوں کی بنیاد پر جو کرے وہ بھی سائنس کا جزو ہے ؟؟؟
دوسری اہم بات سائنس کے حوالے سے ذہن نشین رکھی جائے کہ سائنس کی ابتدا مفروضے سے ہوتی ہے اور مراحل طے کرتی ہوئی نتیجہ تک پہنچتی ہے ۔ لہذا اسے طے شدہ یقینی امورکے لیے معیار بنانا بے وقوفی ہوگا ۔
مثال کے طور پر ثابت شدہ یقینی چیز آسمان کا محض کوئی مفروضے کی بنیاد پر انکار کردے اور کہے کہ جسے آسمان سمجھا جارہا ہے وہ زمین اور زمین دراصل آسمان !! تو اس قسم کی بات کو سائنسی بات قرار دے کر اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے علاج کی ضرورت ہوگی۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ سائنس مفروضے سے لے کر جب نتیجہ تک کے مراحل طے کرتی ہے اس کے فورا بعد ہی وہ حتمی سائنسی اصول نہیں بنتا بلکہ اب بھی ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے قبول کرلیں ہاتھوں ہاتھ قبول کریں ، مزید تجربے کریں ، یا اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیں اور کسی فرد واحد کے مفروضے سے نتیجے تک کے مراحل پر مشتمل کسی فلسفے کو قبول کرلیں۔یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں مفروضے نتائج کی صورت اختیار نہیں کرپائے اور سینکڑوں طے شدہ نتائج ہونے کے باوجود خود سائنسدانوں کے اختلاف کی نظر ہوچکے ہیں۔ ایسے میں انسانوں کیش بنائی گئی ان تجربہ گاہوں کو رب العالمین کے احکامات پر فیصل بنایاجانا کون سا انصاف ہے ؟؟
اس حوالے سے چوتھی اہم بات یہ ہے کہ سائنس کی مختلف اقسام، اور مختلف شاخوں کے مختلف اصول ، تجربات وغیرہ کو ایک دوسرے پر لاگو نہیں کیا جاسکتا ، یعنی ہر ایک شاخ یا نوع کا دائرہ ٔکار ہے ، جن کے مابین یہ فرق بتلاتا ہے ان شاخوں یا اقسام کو جب باہمی طور پر خلط ملط کردینا سراسر غلط ہوگا ،کیونکہ ہر ایک شاخ کا ایک دائرہ ٔ کار ہے بالکل اسی طرح سائنس کا بھی ایک دائرہ کار ہے اگر دیگر امور کے ساتھ اسے خلط ملط کردیا گیا تو خود سائنس ہی اس کی زد میں آجائے گی۔ کیونکہ یہ عملاً ممکن ہی نہیں بھلا کیسے فلکیات کے ماہر شخص سے جرثوموں کے ثبوت کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے یا کسی فزکس دان سے فلکیات کے بارے میں مطالبہ کرنا سراسر بروئے سائنس ہی غلط ہوگا۔ کیونکہ ہر شعبہ کے آلات علم اور میدانِ مہارت مختلف ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ نکات قطعاً سائنس کے انکار پر مشتمل نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ جو سائنس کا راگ الاپ کر اپنی باطل فکر کو آوارہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں یہ بنیادی بات سمجھانا مقصود ہے کہ ان نکات کی روشنی میں سائنس کے دائرہ ٔ کار کو سمجھا جائے۔ لہذا بنیادی طور پر وہ تمام امور جو شرعی اصطلاح میں ایمان بالغیب کا حصہ ہیں یا امرِ الہی ہیں ، ایسے تمام امور سائنس کی رسائی سے باہر ہیں۔ لہذا ایسے امور میں قطعا ًسائنس کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے دائرے سے باہر گفتگو کرے یا اسے ہم معیار بنالیں۔ بلکہ اہلِ سائنس کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس حقیقت کا اعتراف کریں کہ یہ امور سائنس کی آنکھ سے نہیں دیکھے جاسکتے۔
عقیدہ ٔآخرت اور جدید سائنس :
سائنس کی حیثیت اور دائرہ ٔ کار کے حوالے سے گذشتہ سطور میں بنیادی باتیں ہوچکی ہیں ، جس کی روشنی میں یہ دو نکات قابل بیان ہیں ۔
اولاً : سائنس و عقلیات کے ذریعے عقیدہ ٔآخرت کو تختہ مشق بنانا ہی بے جا ہے۔
ثانیاً : اگر کوئی سائنس کی بات کرتا بھی ہے تو خوش قسمتی ہے آج سائنس بہت سی ایسی ایجادات یا دریافتیں کرچکی ہے جو عقیدہ ٔآخرت کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً
nعلم فزکس کی روسے رنگ سات اقسام سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، جبکہ ہزاروں رنگ ایسے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے یا ہماری آنکھ انہیں نہیں دیکھ سکتی۔
عرض یہ ہے کہ جب دنیا میں ہی سائنس تمام تر رنگوں کا احاطہ نہیں کرسکتی اور یوں اپنے دائرہ ٔکار کا اقرار کرتی ہے تو پھر امورِ آخرت میں اس کا دخل کیوں؟
nسائنس یہ کہتی ہے کہ ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے،جسے عام آدمی دیکھ یا محسوس نہیں کرسکتا۔
بس سائنس کے اسی علم کی روشنی میں عقیدہ ٔآخرت کو دیکھیں تو انکار کی کوئی راہ نہیں ملتی۔
nگلیلیلو اور پاسکال سے پہلے تو یہ معلوم نہ تھا مگر اب سائنس یہ کہتی ہے کہ ہوا اس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے ۔ عام آدمی اس وزن کو محسوس کرتا ہے نہ واقف ۔
بس سائنس کے اسی علم کی روشنی میں عقیدہ ٔآخرت کو دیکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا انکار کیونکر!!
nجدید ٹیکنالوجی میں مخفی کیمر و ں ، سیکورٹی کیمروں کے ذریعے نگرانی اور عند الطلب بنائی گئی ویڈیو کو بطور شہادت پیش کرنا اور عدالتوں کو اسے ایک مسلّمہ گواہی تسلیم کرنا ، فرشتوں کے نامہ ٔ اعمال کےلکھنے اور یوم آخرت اسے پیش کرنے اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ کئے جانے کو ثابت کرتا ہے۔
nدوربین کے ذریعے دور کی چیز کو دیکھنا ممکن ہوجاتا ہے جو عام آدمی کی حدِ نگاہ سے دور ہوتی ہے۔ مائیکرو اسکوپ کے ذریعے ان جانداروں کا دیکھنا ممکن ہے جن کے وجود کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ جب ہمارے محسوس نہ کرنے سے کسی چیز کامعدوم ہونا لازم نہیں آتا ۔ بس یہی اصول آخرت کے بارے میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
nبجلی کے وجود کا انکار نہیں کیا جاسکتا مگر اسے دیکھا بھی نہیں جاسکتا، عقیدہ ٔآخرت کو سمجھنے میں مدد د دیتا ہے۔
n ہوا ، بارش ، پانی ، بجلی ، درجہ حرات ، بخار ، سمیت سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جنہیں ماپا تولا جاسکتا ہے ، ان سب کو تسلیم کرتے ہوئےآخرت کے وزنِ اعمال کو خلافِ عقل سمجھنا یا خلافِ سائنس سمجھنا کہاں کی دانشمندی ہے؟
nموبائل ،انٹرنیٹ نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا ، دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونے کی مکمل خبر گیری ممکن ہے ۔ جسے کچھ عرصہ قبل تک عقل قطعاً تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی ، دنیا کا یہ سکڑجانا کیا ہماری عقلوں کو دستک دینے کے لیے کافی نہیں کہ جب دنیا میں ایک کونے کا ڈیٹا دوسرے کونے میں منتقل ہونا ممکن ہے تو قیامت کے دن دنیا کی تمام تر خبریں منتقل ہونا کیونکر ممکن نہیں اور ان کا حساب و کتاب کیونکر ممکن نہیں ۔
nمصنوعی ذہانت (آٹی فیشل انٹیلی جینس ) 1956ء سے پہلے تک اسے کوئی جانتا تک نہ تھا اب اس سے وہ کام لیے جارہے ہیںجو انسان کے کرنے کے ہیں ، جس کی ایک شکل روبورٹ ہے ، جس سے سرجری تک کے کام لیے جارہے ہیں ، بعض پیشین گوئیاں کرنے والے یہ پیشین گوئی تو کرتے ہیں کہ 2029ء تک مشینیں انسانی سطح جیسی مصنوعی ذہانت کے حصول میں کامیابی ممکن ہے ، لیکن اس قسم کی نشانیوں سے یہ بات بھی تو سمجھنے کی ہے کہ جس طرح آٹی فیشل انٹیلی جینس نامی مشینوں سے آج بہت کچھ ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی فرشتوں کی صورت میں اسپیشل انٹیلی جینس رکھی جو آخرت کے لیے نامہ اعمال تیار کر رہی ہے ، یہ بات ناقابل فہم کیونکر ہے۔ بلکہ حیرت ہوتی ہے اس دور کے سائنسدانوں پر جو آٹی فیشل انٹیلی جینس کو انسانیت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں ، اس کی وجہ یہ بتلاتے ہیں کہ ‘‘انسان نے ایک بار مصنوعی ذہانت تشکیل دے لی تو پھر وہ خود بخود اپنے آپ میں بہتری لاتی جائے گی، وہ خود کو زیادہ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ خود کو ری ڈیزائن کرتی چلی جائے گی۔ ‘‘ان کا مزید کہنا ہے، ’’انسان اپنے سست حیاتیاتی ارتقاء کے باعث اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور نتیجتاً مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت سے کہیں آگے نکل جائے گی۔‘‘ کس قدر قابل حیرت بات ہے کہ اس انٹیلی جینس پر اس قدر اعتماد و یقین اور کائنات کے بنانے والے رب العالمین اور کاریگر پر کوئی یقین نہیں۔
nبی بی سی کے مطابق موبائل کے ذریعے گوگل صارف کی معلومات حاصل کرلیتا ہے ، اس کے لیے خواہ لوکیشن سیٹنگ بند ہو اور خواہ موبائل میں سم نہ بھی ہو۔
اس سے ہمارا عقیدہ ٔآخرت اور مضبوط ہوجاتا ہے کہ جب دنیا میں یہ سب ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ بالاولیٰ قیامت کے دن ہمارے نامہ ٔ اعمال کے جمع پر قادر ہے۔
nدنیا بھر سے مختلف ممالک خلا میں سیٹلائٹ بھیج رہے ہیں تاحال یہ سلسلے جاری ہیں ، ان سیٹلائٹ کے ذریعے شہری منصوبہ بندی، دیہی وسائل اور انفراسٹرکچر میں پیش رفت اور ساحلی زمین کے استعمال سمیت مختلف امور میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔اس سے بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہیے کہ جب دنیا میں اس حد تک نگرانی کے وسائل دستیاب ہیں اور خفیہ نگرانی ممکن ہے تو اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے۔
nآج سائنسدان یہ نظریہ رکھتے ہیں کائنات ہر لمحہ بدل رہی ہے اور اس کے اندر تمام آبجیکٹس پیدائش ، موت اور دوبارہ پیدائش کے چکر میں لگے رہتے ہیں ۔ یہ مسلسل پھیل رہی ہے یہ نظریہ جسے ایدون ہبل نے پیش کیا اور hubblwes constant کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اور یہ وہی بات کہ جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ قرآن میں یہ دعوت دیتا ہے کہ جو اللہ تمہیں عدم سے وجود میں لاسکتا ہے وہ دوسری بار بھی پیدا کرسکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ ۚ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ (البقرۃ : 28 )
’’(لوگو! ) تم اللہ کا انکار کیسے کرتے ہو ۔ حالانکہ تم مردہ (معدوم) تھے تو اس نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہی تمہیں موت دے گا، پھر زندہ کر دے گا۔ پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔‘‘
nسائنسدان اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کائنات کا 95 فیصد حصہ اس وقت تاریک مادہ ہے یعنی نامعلوم کائنات سے لیکن اس کے باوجود وہ اسے مانتے ہیں تو پھر آخرت کا کیونکر انکار کرسکتے ہیں۔
یہ تمام تر مثالیں مشت از خروارے کے طور پر ہیں ، سائنس کے طلبہ کے پاس یقیناً اس سے کہیں زیادہ اس حوالے سے مثالیں ہوں گی ۔ ان سب کے بعد ضروری سمجھتا ہوں کہ سورۃ المومنون کی یہ آیات یہاں پیش کی جائیں، جو یقیناً ایسے دلوں پر دستک دینے کے لیے کافی ہیں۔
وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ لَـكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ وَهُوَ الَّذِيْ ذَرَاَكُمْ فِي الْاَرْضِ وَاِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ وَهُوَ الَّذِيْ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ وَ لَهُ اخْتِلَافُ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ قَالُوْٓا ءَاِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَّعِظَامًا ءَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَاٰبَاۗؤُنَا ھٰذَا مِنْ قَبْلُ اِنْ ھٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ (المؤمنون:78تا 89)
’’وہی تو ہے جس نے تمہیں کان، آنکھیں اور دل عطا کئے (تاکہ تم سنو، دیکھو اور غور کرو) مگر تم لوگ کم ہی شکرگزار ہوتے ہو ۔ اور وہی ذات ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلا دیا اور اسی کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے۔ اور وہی ہے جو زندہ کرتا اور مارتا ہے اور رات اور دن کا باری باری آتے رہنا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کیا تم کچھ بھی نہیں سمجھتے؟ بلکہ انہوں نے بھی وہی کچھ کہہ دیا جو ان کے پہلے لوگ کہہ چکے ہیں کہ: جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو ہمیں پھر زندہ کرکے اٹھایا جائے گا ؟یہ بات تو ہمیں اور اس سے پیشتر ہمارے آباء و اجداد کو بھی کہی گئی تھی۔ یہ تو محض پرانے افسانے ہیں ۔آپ ان سے پوچھئے کہ: اگر تمہیں کچھ علم ہے تو بتلاوو کہ زمین اور جو کچھ اس میں ہے وہ کس کا ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ ‘‘اللہ کا‘‘آپ کہیے پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟ پھر ان سے پوچھئے کہ: سات آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے؟ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ یہ (سب کچھ) اللہ ہی کا ہے۔ آپ کہئے پھر تم اللہ سے ڈرتے کیوں نہیں؟پھر ان سے پوچھئے کہ اگر تم جانتے ہو ۔ ۔۔ حکومت کس کی ہے؟ اور وہ کون ہے جو پناہ دیتا ہے مگر اس کے مقابلہ میں کسی کو پناہ نہیں مل سکتی؟ وہ فوراً کہیں گے اللہ ہی ہے۔ آپ کہئے پھر تم پر کہاں سے جادو چل جاتا ہے؟
واقعتاً قرآن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سائنسی نشانیاں جب دیکھتے ہیں تو پھر نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پروفیسر فلپ ہٹی کو بھی ماننا پڑا اس نے لکھا :
The most impressive parts of the Koran deal with eschatology.
’’قرآن کریم کے سب سے زیادہ پر اثر حصے وہ ہیں جو آخرت کے حوالے سے بحث کرتے ہیں۔ ‘‘
یہی وجہ ہے کہ جس کے دل میں عقیدہ ٔآخرت صحیح طور پر راسخ ہووہ معاشرے کے لیے ایک بہترین فرد ثابت ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عقیدے پر قائم و دائم رکھے ۔ آمین واللہ ولی التوفیق
اکیسویں صدی کے معروف ماہر طبیعیات ،جنھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا زیادہ تر کام بلیک ہول، نظریاتی کونیات (کونیات) کے میدان میںتھا ۔ ان کی ایک کتاب’’ وقت کی مختصر تاریخ‘‘ A brief History of Time ایک مشہور کتاب ہے ۔ یہ آسان الفاظ میں لکھی گئی ایک کاوش ہے جس سے ایک عام قاری اور اعلیٰ ترین محقق بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ وہ ایک خطرناک بیماری سے دو چار تھے اور کرسی سے اٹھ نہیں سکتے تھے۔ ہاتھ پاؤں نہیں ہلا سکتے اور بول نہیں سکتے تھے۔ لیکن وہ دماغی طور پر صحت مند رہے اور اپنا کام جاری رکھا۔ وہ اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور اسے صفحے پر منتقل کرنے کے لیے ایک خاص کمپیوٹر کا استعمال کرتے تھے۔ ان کی يہ بیماری ان کو تحقيقی عمل سے روک نہ سکی۔شاید وہ شخص جس نے اپنے آپ کو بلیک ہول اور ٹائم مشین سے متعلق ریاضی کی موٹی موٹی مساوات سے سب سے زیادہ ممتاز حیثیت اختیار کر گئے تھے وہ ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ ہے۔ اضافیت کے دوسرے طالبعلموں کی طرح جنہوں نے اکثر اپنے آپ کو ریاضیاتی طبیعیات میں اپنے عہد شباب میں ہی ممتاز منوا لیا تھا، ہاکنگ اپنی جوانی میں کوئی خاص قابل ذکر طالبعلم نہیں تھا۔ بظاہر طور پر وہ انتہائی روشن ہونے کے باوجود اس کے استاد اکثر اس بات کو نوٹ کرتے تھے کہ وہ اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے اس نے کبھی بھی اپنی پوری قابلیت کا استعمال نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر 1962ء میں نقطۂ انقلاب آیا۔ اس نے آکسفورڈ سے جب سند حاصل کی اسکے بعد پہلی دفعہ اس نے بغلی دماغ کی خشکی یا لو گیرگ بیماری(Amyotrophic lateral sclerosis, or Lou Gehrig’s Disease) کی علامات کو محسوس کیا۔ اس خبر نے ان پر بجلی گرا دی جب اس کو معلوم ہوا کہ وہ موٹر نیوران جیسے ناقابل علاج مرض کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ مرض ان عصبانیوں کو تباہ کر دے گا جو اس کے جسم کے تمام حرکت دینے والے افعال کو قابو میں رکھتے ہیں نتیجتاً وہ حرکت کرنے کے قابل نہیں رہے گا اور جلد ہی دار فانی سے کوچ کر جائے گا۔ شروع میں تو یہ خبر انتہائی دل گرفتہ تھی۔ پی ایچ ڈی کرنے کا کیا فائدہ ہوگا جب اس نے جلد ہی مر جانا تھا؟
اسٹیفن ہاکنگ 21 سال کی عمر میں ایک انتہائی کم یاب اور مہلک بیماری 'موٹر نیورون کا شکار ہونے کے بعد عمر بھر کے لیے معذور اور وہیل چیئر تک محدود ہوگئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر میں اس معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔ تو تم لوگ جن کے سارے اعضا سلامت ہی، جو چل سکتے ہیں اور جودونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے،جوکھا پی سکتے ہیں، اورجو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں؟
مگر اسٹیفن ہاکنگ رب کے وجود کا انکاری ،انسان کے وجود کا پجاری اور خود اپنے نفس پر بھاری جو علم تخلیق کائنات اور سائنس کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتا تھا جو مقام کبریائی کو سائنس کے ذریعے زیر کرنے کی لگن میں مگن رہتا تھا وہ جو بس ایک سانس کے رک جانے کی وجہ سے موت کی وادی میں چاپہنچا جس کہ خود ساختہ دعووں کی سوئی پچاس سال سے بھی زیادہ عرصہ تک اٹکی رہی وہ اسٹیفن جسے موجودہ دور کا آئن اسائنEiensteinسائنسدان کہا جاتا تھا جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے ہاں البتہ یہ ضرور تھا کہ وہ ایک معذور انسان تھا اس نے معذوری کے باوجود وہ اپنی ریسرچ جاری رکھی اور یہی اس کا میزہ خاص تھا جو دوسروں سے اسے ممتاز کرتا تھا کیونکہ ہ بول اور چل نہیں سکتا اور نہ کوئی چیز پکڑ سکتا تھا اس مجبوری اور محرومی کی حالت میں رب کے قریب ہونے کی بجائے رب تعالی کے وجود کے تصور ہی سے وہ دور ہوگیا۔اسٹیفن کا یہ نظریہ تھا کہ یہ کائنات کو کسی ما ورائی طاقت یعنی رب نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ خودبخود تخلیق ہوگئی ہے۔
اسٹیفن کی علم طبیعات میں بے شک خدمات ہوگی لیکن رب کے وجود کا انکار کرنا صرف ایک دعویٰ ہے جس کی تائید ایک ملحد ہی کرسکتاہے۔ ابو جہل عرب کا ایک بہت بڑا شاعر اور ادیب مانا جاتا تھا مگر رب کو نہ ماننے کی وجہ سےابو جہل کہلوایا، باوجود اس کے کہ اس نے ہزار ہا مرتبہ اپنے اردگرداللہ تعالی کی نشانیاں بھی دیکھیں اس طرح اسٹیفن باکمال سائنسدان تو ہوسکتاہے مگر وہ دورِ حاضر کا ابو جہل ہی تھا کہ جسے اپنے جسم میں پوشیدہ لاکھوں نشانیاں نظر نہ آئیں جو اس کے خالق کا پتہ دیتی ہیں۔مگر قرآن کریم ہر انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ
﴿ بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰي نَفْسِهٖ بَصِيْرَةٌ ،(القیامۃ:14) "بلکہ انسان خود اپنے اوپر آپ حجت ہے ۔"
انسان کا ضمیر اس کے اپنے حق میں بالکل جائز اور درست فیصلہ کرسکتا ہے بشرطیکہ انسان اس ضمیر کو مسخ کرکےڈھیٹ پن کا ثبوت نہ دے۔ کائنات میں ہر سو بکھری ہوئی بے شمار نشانیاںہیں اور قرآن کریم میں بار بار ان میں غورو فکر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وَفِيْٓ اَنْفُسِكُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (الذاریات 21)
یہ گردش لیل و نہار ، یہ مو سموں کی تبدیلی اور ان میں تدریج کا دستور ،یہ بارش کا نظام ،اس سے مردہ زمین کازندہ ہونا۔
مختلف قسم کی نباتات ، غلے اور پھل اگانا اور اسی پیدا وار سے ساری مخلوق کے رزق کی فراہمی زمین کےاندر مدفون خزانے ،سمندر وں اور پہاڑوں بلکہ کائنات کی اکثر چیزوں اورچوپایوں پر انسان کا تصرف اور حکمرانی ۔غرض ایسی نشانیاں ان گنت اور لا تعداد ہیں ،ان سب میں قدر مشترک کے طورپر جو چیز پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب چیزیں انسان کےفائدے کے لیے بنائی گئی ہیں اور ان سب میں ایک ایسا نظم و نسق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ انسان کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں اگر ان میں ایسا مر بوط نظم و نسق نہ پایا جاتا تو ایک ایک چیز انسان کو فنا کرنے کے لیے کافی تھی ،یہی بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ ان سب کا خالق و مالک صرف ایک ہی ہستی ہوسکتی ہے اور دوسرے اس بات پر کہ کائنات کے اس مربوط نظم و نسق کا کوئی مفید نتیجہ بھی بر آمد ہو نا چاہیے اور وہ نتیجہ آخرت ہے ۔
انسان کا اپنا وجود اور اس کے اند رکی مشینری کائنات اصغر ہے اور اس میںجود نشانیاں ہیں وہ کائنا ت اکبر کی نشانیوںسے کس طرح کم نہیں ۔ انسان کامعدہ ایک چکی کی طرح دن رات کام میں لگا رہتا ہے جو غذ اکو پیس کر ایک ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف رہتا ہے جب یہ فا رغ ہوجائے تو اور غذا طلب کرتا ہے جسے ہم بھوک کہتے ہیں اس ملغوبہ کی تیاری میں اگر پانی کی کمی ہو تو ہمیں پیاس لگ جاتی ہے اور ہم کھانے پینے پر مجبور ہوجاتے ہیں ،پھر اس کے اندر چھلنی بھی ہے جس سے چھن کر یہ ملغوبہ جگرمیں چلا جاتا ہے جہاں اچھالنے والی ،دفع کرنے والی ،صاف کرنےوالی ، کھنچنے والی مشینیں اور قوتیں کا م کر رہی ہیں ،یہیں دوسری اخلاط بنتی ہیں ،فالتو پانی کو گردے پیشاب کے راستے سے خارج کر دیتے ہیں ۔قوت دافعہ فالتو مواد یا فضلہ کو خارج کرنے کا کام کرتی ہے اور جس طرح انسان کھانے پینے پر مجبور ہوجاتا ہے اسی طرح رفع حاجت پر بھی مجبور ہوجا تا ہے اور اگر روکے تو بیمار پڑ جاتا ہے پھر انسان کے جسم میں اتنی باریک نالیاں ہیں جن کا سوراخ خوردبین کے بغیر نظر ہی نہیں آسکتا ،انہی کے ذریعے انسان کے جسم کے حصے کو خون پہنچتا ہے اس سلسلہ میں انسان کا دل پمپ کا کام کرتا ہے جو ایک منٹ بھی ٹھہر جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے ۔پھر انسان کا سانس لینا بھی ایک الگ پورا نظام ہے سب سے زیادہ باریک آنکھ کے طبقے اور جھلیاں ہیں جو ایسی لطافت کے ساتھ بنائی گئی ہیں کہ اگر ذرا سا بھی فتور آجائے تو بینائی جواب دے جاتی ہے انسان کا جسم ابتدا سے ہی حکیموں اور ڈاکٹروں کی تحقیق کا مرکز بنا ہو ہے مگر اس کے بیشتر اسرار آج تک پردہ راز میں ہیں ۔ان جسم کی نشانیوں میں بھی غور کرنے سے وہی دو نتائج حاصل ہوتےہیں جو کائنات کے نظام میں غور کرنے سے حاصل ہوتے ہیں ۔مگر یہ مشہور اور کامیاب سائنسدان اپنے وجود پر غور کرنے میں ناکام رہا اگر اپنے آپ پر غور کرتا تو اسے رب تعالی پتہ مل جاتا۔جیسا کہ شاعر مشرق نے کہا ۔
بلند بال تھا ، لیکن نہ تھا جسور و غیور حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا
پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہیں وار شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا
دو مذہبی جماعتوں کا انضمام ایک خوش آئند اقدام :
14 سال بعد مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے حافظ ابتسام الہی ظہیرحفظہ اللہ کی قیادت میںفضیلۃ الشیخ پروفیسر ساجد میرحفظہ اللہ کی غیر مشروط امارت قبول کرتے ہوئے ساتھ چلنےاور اپنے تمام اختلافات ختم کرکےاپنی جماعت جمعیت اہل حدیث کو مرکزی جمعیت اہل حدیث میں ضم کردیا،سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی طرف سے زبردست خیر مقدم کیا ۔تفصیلات کے مطابق علامہ احسان الہی ظہیر شہیدرحمہ اللہ کے صاحبزادے عرصہ14 سال قبل مرکزی جمعیت اہل حدیث سے الگ ہوگئے تھے اب انہوں نےاپنے بھائیوں حافظ معتصم الہی ظہیر، حافظ ہشام الہی ظہیر ،علما ء اور کارکنوں سمیت مرکزی جمعیت اہل حدیث میں شمولیت کا اعلان کردیا ہ، لاہور پریس کلب میں پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ اور ڈاکٹر سینیٹرحافظ عبدالکریم حفظہ اللہ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ ابتسام الہی ظہیر نے کہا کہ ہمارا مسلک، ہمارا عقیدہ ایک ہے ، ملک میں قرآن وسنت کی بالادستی اور ملکی استحکام بھی ہمارا مشترکہ نعرہ ہے ،بعض تنظیمی امور اور معاملات پر رائے کا اختلاف تھا جو الحمد للہ آج دور ہو گیا ہے، ہم پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ کو اپنا بزرگ اور امیر تسلیم کرتے ہیں، ہم نے ماضی کی تمام رنجشیں بھلا کر متحدہو کر چلنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ ہم حافظ ابتسام الہی ظہیر انکے بھائیوں ،علما ء اور کارکنوں کو دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں ، ا ن شا ء اللہ انہیں جماعت میں باوقار اور باعزت مقام دیں گے، جیسا کہ حافظ ابتسام نے بھی کہا کہ ہمارا عقیدہ اور فکر ایک ہے سیاسی امور میں اختلاف رائے کا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے ،جس اخوت اور بھائی چارگی کے جذبے اور بغیر کسی شرط کے ساتھ انہوں نے ہمارے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کااعلان کیا ہے ہم اس کا خیر مقد م کرتے ہیں ۔ پروفیسر ساجد میرصاحب نے مزید کہا کہ ہماری جماعت کے دروازے باقی لوگوں کے لیے بھی کھلے ہیں،ہم قرآن وسنت کے حاملین کو ملک کی بڑی طاقت بنائیں گے، اعلائے کلمۃ اللہ کی سربلندی کے لیے سب کو ایک صف میں لائیں گے،یہ مارچ کا مہینہ شہید اسلام علامہ احسان الہی ظہیررحمہ اللہ اور انکے رفقا ء کی قربانیوں کا مہینہ ہے ،ہم شہادتوں کے اس مہینے میں عزم کرتے ہیں کہ ان کا مشن آگے لیکر چلیں گے،اسلام کے پرچم کو سربلند رکھیں گے، ملکی سلامتی اسکے دفاع اور استحکام پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے،فرقہ واریت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، تحفظ حرمین شریفین کے لیے ہر قسم کی قربانی دیں گے،سیکولر قوتوں کامقابلہ کریں گے، ملک میں دینی اقدار کے تحفظ کے لیے دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر چلیں گے ۔
ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ،دوہم عقیدہ جماعتوں کے متحد ہونے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مبارک باد پیش کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ رب العزت اس اتفاق و اتحاد کو اسلام ،ملک وملت کی کما حقہ خدمت کرنے کا ذریعہ بنائے ۔آمین ،یا رب العالمین ۔
حکیم و علیم کی پیدا کردہ یہ کائنات بلاشبہ اسرار و رموز اورآیات و حقائق کا عظیم الشان بھنڈار ہے،اسکا چپہ چپہ رب تعالیٰ کی معرفت کا نشان ہے ،ضرورت صرف ان میں غور و فکر کرکے عرفان پالینے کی ہے،گویا معارف کا بحر بے کراں ہے جو ہر نگاہ رکھنے والے کو دعوت غوص و خوض دے رہا ہے،لیکن جذب و کش کے باوصف اس صدائے بے آواز پر کان دھرنے والے کم ہیں ،جیساکہ ذوالجلال والاکرام کا فرمان ہے:
وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ (یوسف:105)
آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی آیات ہیں جن پر سے لوگ توجہ دیئے بغیر گزر جاتے ہیں۔
بلکہ بات صرف اعراض اور عدم توجہی تک نہیں رہتی انسان کی بےحسی اس قدر بڑھی ہوئی ہے،کہ جب کوئی داعی اسے توجہ دلاتا ہے تو وہ توجہ کئے اور نظر ڈالےبغیر ہی آیات کو جھٹلادیتا ہے،اسی بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
بَلْ کَذَّبُوْا بِمَالَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَاْتِہِمْ تَاْوِیْلُہُ (یونس:39)
انہوںنے ایسی بات کو جھٹلایا جس کو انہوں نے جانا نہیں، اورابھی تو اسکی حقیقت ان تک پہنچی ہی نہیں۔
لیکن جو توجہ کرتے ہیںپھرمانتے ہیں ،تسلیم کرتے ہیں،انکے شب و روز خالق کائنات کی محبت و جستجومیں بسر ہوتے ہیں،انکی زندگی اطمینان و سکون کے ساتھ گزر جاتی ہے،نہ انہیں کسی کی ملامت کی پرواہ ہوتی ہے نہ کسی کا خوف ان پر طاری ہوتا ہے،بس ایک ہی دھن ان پر سوار ہوتی ہے کہ :
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران:192)
ہمارے مالک،یہ سب تونے بیکار میں پیدا نہیں کیا،ہم تجھے (ہر عیب سے )پاک مانتے ہیںپس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لینا۔
انسانیت کا آغاز،مقصد حیات، انجام اور علم
اسلامی نقطہ نگاہ:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جتنی مخلوقات پیدا کی ہیں ان میں سب سے باکمال انسان ہے،اور اسکے عروج کی بنیاد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے پہلے اسے عطا کیا،جسکا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا،ارشاد فرمایا:
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَاآدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرۃ:30-33)
یاد کرو جب آپکے رب نے فرشتوں سے کہا:میں زمین پر خلیفہ بنانے والا ہوں،تو انہوں نے کہا:کیا تو اِس پر اُسے پیدا کرے گا جو اِس میں فساد مچائے گااور خون بہائے گا،اللہ نے فرمایا:جو میں جانتا ہوں تم نہیں جان سکتےاور ُاس نے آدم کو سبھی ناموں کا علم سکھادیا پھر اسے فرشتوں پر پیش کیا اور کہا کہ:اگر تم سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتاؤ؟انہوں نے کہا:تو پاک ہے،ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا،توہرشے کو جاننے والا اور حکمت والا ہے،اللہ تعالی نے فرمایا:اے آدم تم اِنہیں اُنکے نام بتاؤ سو جب انہوں نے انہیں انکے نام بتادیئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں وہ کچھ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔
پھر سند علم ملنے کے بعد اسے مسجود ملائکہ بنادیا،یعنی روحانی (علمی)وجسمانی(سجدہ)دونوں طرح انسان کودیگر خلائق پر فضیلت بخشی۔
اس دلیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انسانیت کا آغاز جہالت کے اندھیروں کے ساتھ نہیں بلکہ علم کی روشنی سے ہوا،چنانچہ انسان کبھی بھی وحشی یا جنگلی نہیں رہا بلکہ وہ اپنے آغاز سے ہی متمدن و مہذب ہے۔
اس آیت میں بیان کردہ علم ”اسماء کا علم“ہے،یعنی تمام اشیاء و موجودات کی معلومات پر مشتمل علم،اب تک صرف علم ہی حاصل تھا،بابا آدم علیہ السلام کو جنت میں بسائے جانے کے بعد عمل(پریکٹیکل)کا آغاز ہوا (جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے)پھر مشیئت باری تعالیٰ کے تحت انہیں انکی پوری نسل سمیت زمین پر ایک اور امتحان کی تیاری کے لئے بھیج دیا گیا۔
گویا انسان کا آغاز ،اسکا مقصد حیات اور اسکا انجام سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔
زمین پر بھیج دیئے جانے کے بعد علم کی قدر میں اور اضافہ ہوا،اور انسان کے مقصد حیات (امتحان کی تیاری)کو سامنے رکھتے ہوئےیہاں علم سے مراد اللہ تعالیٰ کی معرفت کا علم اور اسکے مطابق عمل ہےیعنی عقائد و شرائع کا علم اور ان پر عمل کرنا،جو انسان اس علم کے نور سے منورہوئے انہیں دیگر انسانوں پر برتر قراردیا،جن میں سرفہرست انبیاء و رسل علیہم السلام ہیں،انکے بعد دیگر علماء کرام،چنانچہ ارشاد فرمایا:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
اے نبی ﷺ کہہ دیں کہ کیا جولوگ علم رکھتے ہیں اور جو علم نہیں رکھتے برابر ہوسکتے ہیں؟دراصل عقل والے نصیحت پکڑ لیتے ہیں۔(الزمر:9)
دوسرے مقام پراس سوال کا جواب مزید وضاحت سے بیان ہوا ارشاد فرمایا:
يَرْفَعِ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
تم میں سے اللہ ان لوگوں کو بلند درجات عطا کرے گا جو ایمان لائے اور ان لوگوں کو جنہیں علم دیا گیا،اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ خبر رکھ رہا ہے۔(المجادلہ:11)
اسکے بعد یہ ضابطہ بھی بیان کردیا کہ :
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
لوگ آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں ،آپ کہیں کہ روح میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں جو بھی علم دیا گیا وہ نہایت کم ہے۔(الاسراء:85)
یہ اس انسان کے متعلق ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دیگر خلائق پر برتری عطا کی جبکہ دیگر خلائق کا علم اور بھی کم ہے،اور اس آیت میں تقابل اللہ تبارک و تعالیٰ کے علم سے ہے، جیسا کہ موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ میں خضر علیہ السلام (جو راجح قول کے مطابق فرشتے تھے اورجنکے پاس اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کو حصول علم کے لئے بھیجا )نے فرمایا:
مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا العُصْفُورُ مِنْ هَذَا البَحْرِ
میرا علم اور آپکا علم اللہ کے علم کےسامنے اتنا ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر سے لیا۔(صحیح بخاری:4725)
جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم” ازلی“ ہے ،اور ہر نقص و عیب سے پاک ہے،اور ذرے ذرے کو محیط ہے۔
سائنسی نقطہ نگاہ:
عام طور پر سائنسدان یہ مانتے ہیں کہ انسان آغاز میں چیمپیزین (لنگور)تھا،پھر ارتقاء کے مراحل سے گزرتا ہوا انسان بنا،جس نے جنگلوں اور غاروں میں رہائش اختیار کی پھر طویل عرصہ گزرنے کے بعد متمدن ہوا، متمدن ہونے کے بعد یہ صرف جیتا ہے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ خوشگوار بنانے کی تگ و دو میں لگا ہے اور اسکا انجام(اب تک کی ریسرچ کے مطابق) عدم/فنا (موت)ہے۔
”سائنس“لاطینی زبان کا لفظ ہے جسکا معنی ”علم“ہے، سائنٹسٹ یا سائنسدان سے مراد” عالم“ ہے،اور علم سے مراد فطری و طبیعی حقائق کا وہ علم ہے جو غور و فکر،تجربے اور مشاہدے سے حاصل ہو،یہ علم تاریخ رکھتا ہے،اپنی ابتدائی تاریخ کے اعتبار سے یہ صرف فلسفے تک محدود تھا،پھر (مسلم سائنسدانوں کی آمد کے )بعد اس میں عقل کی وسعت کے ساتھ تجربے و مشاہدے کے دروازے بھی کھل گئے،دور حاضر سائنسی علوم کی معراج کا زمانہ ہے،اسکے باوجود آسمان کی وسعتیں تو کجا یہ زمین پر موجود سمندر کو بھی پانچ فیصد سے زیادہ نہ جان سکے۔
گویا سائنس کے مطابق انسانیت کا آغاز جہالت کے اندھیروں کے ساتھ ہوا،اسکا مقصد حیات صرف زندگی گزارنا اور اسے خوشگوار بنانےکی کوشش کرنا ہے اور اسکا انجام”کچھ نہیں“ہے،اور علمی اعتبارسےیہ”حقائق کائنات“ کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔
عقائد و رسوم،سلوک و طریق
اسلامی نقطہ نگاہ:
٭عقائد یاایمانیات:
دین اسلام فطرت انسانی کے عین مطابق ہے،دنیا کے تمام مذاہب میں یہ اعزاز صرف دین اسلام کی تعلیمات کو حاصل ہے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس آپ یکسو ہوکراپنا چہرہ دین کی جانب متوجہ رکھیں، یعنی اللہ کی اس فطرت کی جانب جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا،اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی یہی درست دین ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔(الروم:30)
یعنی اللہ تعالیٰ نے جس شے کو جس طرح پیدا کیا اسلامی تعلیمات ان کی حیثیت و ماہیت میں کوئی تبدیلی نہیں کرتیں،جبکہ دیگر مذاہب کبھی کسی انسان کو اسکے مرتبے سے اٹھاکر معبود کے رتبے تک پہنچادیتے ہیں ،کبھی کسی مظہر قدرت کو،کبھی کسی اور شے کو،جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق :
توحید:”الوہیت“و ”ربوبیت“کے مناصب صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لئے ہیں،جو اَزَل سے ہے، جسکو فنا نہیں،اور وہ ہرشےکا خالق و مالک و مدبّر و مربّی ہے۔
تقدیروتخلیق:ہر شے کی تخلیق سے پہلے اس نے اسکی ہر ہر حرکت و سَکنَت ،ماہیت و کیفیت،آغاز و انجام کو پہلے سے ہی جان لیا، پھر اس نے انسان کو مٹی و پانی سے پیدا کیا۔
روح و حیات:اس میں روح ڈالی،اسے عارضی زندگی دے کر امتحان کے لئے زمین پربسایا۔
ارسال و ارشاد:اسکی رشد و ہدایت کے لئے انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا سلسلہ چلایا،جسکی آخری کڑی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
ملائک و کتب:ان انبیاء و رسل علیہم السلام پر اس نے اپنی نورانی مخلوق فرشتوں کی وساطت سے وحی (کتب و صحف)نازل کی۔
موت و آخرت و انجام:عارضی مدت کے اختتام (موت)کے بعد روز قیامت جزا و سزا کے لئےجن و انس کو دوبارہ زندہ کرنے کا وعدہ کیا،نیکو کاروں کے لئے جنت بنائی اور بدکاروں کے لئے جہنم کی سزا تجویز کی۔
٭رسوم یا اسلامیات:
یعنی دین اسلام کے خاص شعائر عبادات جو اسے دیگر مذاہب سے ممتاز بناتے ہیں، بہت سے ہیں ،جن میں سرفہرست یہ ہیں:
الشھادتین:اس بات کی زبانی و عملی شہادت دیناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اور محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
الصلوات الخمس:دن و رات میں پانچ وقت صلاۃ (نماز) ادا کرنا۔
صیام رمضان:ہر سال ماہ رمضان کے روزے رکھنا۔
حج بیت اللہ:زندگی میں ایک بار بیت اللہ کا حج کرنا۔
زکاۃ المال:نقدی پر ہر سال اور فصلوں پر ہر بار زکاۃ ادا کرنا،ان میں سے ہر ایک کی جنس اور اسکا نصاب مقرر ہے،جسکی تکمیل پر زکاۃ ادا کی جائیگی۔
نوافل:ان پانچ فرائض کے علاوہ بقیہ تمام عبادات نفل (یعنی جنکی ادائیگی فرض نہ ہو)ہیں۔
نوٹ:دین اسلام میں ہر عمل استطاعت کے ساتھ مشروط ہے،اور استطاعت کی صورتیں ہر عمل کے لئے مختلف ہیں،البتہ عاقل و بالغ ہونا سب کے لئے ضروری ہے۔
٭سلوک وطریق یا اخلاقیات و معاملات:
عائلیت و زوجیت،معاشرت و معیشت،تجارت و اقتصاد، سیاست و حکومت،اور امن و جنگ،محاسبہ ومجازاۃ و معاقبہ وغیرہ ان تمام پہلوؤں میں اسلامی نظام و سلوک سب سے عمدہ اور مبنی بر اعتدال ہے،دین اسلام میں صدق، امانت،عدل،اصلاح،نصیحت وغیرہ اوصاف حسنہ کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں،اور انہیں اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے جبکہ کذب،خیانت، ظلم، فساد،فضیحت وغیرہ اوصاف سیّئہ کی مذمتیں بیان کی گئی ہیںاور ان سے روکا گیا ہے،دین اسلام کےمعتدل و فطری ہونے کی ایک چھوٹی سی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں جانوروں تک کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔
سائنسی نقطہ نگاہ:
آج تک جتنے سائنسی نظریات مقبول ہوئے ہیں،وہ سب خالق کے تصور سے خالی ہیں ،ان کے مطابق یہ کائنات اور اسکی ہر شے حادثاتی طور پر ازخود وجود میں آگئے،اور موجودہ صورت تک پہنچنے میں وقت کو لامحدود سفر کرنا پڑاجو اَب بھی ختم نہیں ہوا ،وہ دھماکہ جو بگ بینگ کے نام سے موسوم ہےاسکے اثرات اب تک جاری ہیںاور نامعلوم کب تک جاری رہیں،جب اس کائنات کے پھیلاؤ کا عمل رک جائے گا تو اسکے سکڑنے اور سمٹنےکا عمل شروع ہوجائے گا،یہ عمل بھی طویل زمانوں تک جاری رہے گا،حتی کے ساری کائنات دوبارہ ایک ذرے میں سما جائے گی،جیسا کہ اس سے پھوٹی تھی،گویا آغاز و انجام ایک ذرہ(ایٹم)ہے،مگر وہ ذرہ کہاں سے آیا ،کس روحانی طاقت نے اسے پھوڑا، اور کون اسے پھر سے ایک ذرہ بنادے گا،(یہاں آکر سائنس کی علت و معلول کا بنیادی اصول نہ جانے کہاں چلا جاتا ہے)بہت سے سوالوں کی طرح اس سوال کا بھی سائنس آج تک جواب نہیں دے سکی،شاید مستقبل میں وہ اسکا جواب معلوم کرلیں جو خالق کے وجود کو مستلزم ہو،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ أَلَا إِنَّهُمْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَاءِ رَبِّهِمْ أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ (فصّلت:53)
ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں اور انکے اپنے نفوس میں دکھاتے رہیں گے حتی کہ ان پر عیاں ہوجائے کہ وہ حق ہے ،کیا یہ کافی نہیں کہ آپکا رب ہر شے پر حاضر ہے،سنو انکا حال یہ ہے کہ وہ اپنے رب سے ملاقات میں شک کرتے ہیں،سنو وہ ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
بہر حال سائنس کا سارا زور صرف ایٹم تک محدود ہے اسکے پیچھے کارفرما روحانیت و مشیئتِ رب العالمین سے اسے مطلق انکار ہے،سو جب سائنس نے خالق کے وجود کا ہی انکار کردیاتوایمانیات و اسلامیات کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔
البتہ سائنسدانوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تواس میں تفصیل ہے،دور حاضر کے سائنسدان عام طور پر جن مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں وہ غیر فطری ہیں اور ان میں مظاہر قدرت کو پوجا جاتا ہے،جبکہ ایک سائنٹسٹ ان مظاہر کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے،لہذا وہ مذہب سے بیزار ہوجاتا ہے،بلکہ مذہبی عناصر بھی ان سے شدید بیزار اور انکی جان کے دشمن بن جاتے ہیں جیسا کہ چرچ کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
لیکن اگر وہ سچا(پریکٹیکل) مسلمان ہوتو صورت حال اسکے بالکل برعکس ہوتی ہے،یعنی وہ دین اسلام کےاور نزدیک آجاتا ہے،کیونکہ دین اسلام دین فطرت ہے،اسلامی اور سائنسی تاریخ گواہ ہے کہ حالیہ سائنس کی بنیادمسلم سائنسدانوں نے رکھی اور نامور مسلم سائنسدان فراہم کئے جبکہ عیسائی دنیا میں سائنسدانوں اور سائنسی علوم پر مکمل پابندی تھی۔
٭سائنسی علوم کا نقص یا عیب کہہ لیں کہ ان میں دینیات کو تو بالکل ہی خارج از بحث کردیا جاتا ہے، اخلاقیات و معاملات سے بھی چنداں بحث نہیں کی جاتی جبکہ دین اسلام کا کمال یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا مادی یا معنوی وجود نہیں جسکے متعلق اس میں رہنمائی نہ دی گئی ہوخواہ وہ کتنا ہی جدید یا ماورائی ہو،یہاں یہ بھی ثابت ہوگیا کہ سائنس کوئی مذہب یا شریعت نہیں محض ایک فن ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
تحقیقات حقائق وتحلیل مسائل
اسلامی طریقہ کار:
فطری حقائق کے اثبات اورانسانیت کو درپیش مسائل کی تحلیل کے سلسلے میں اسلامی طریقہ کار بالکل واضح اور معتدل ہے۔
تحلیل مسائل سے مراد انسان کو درپیش جسم،نفسیات، روح،خاندان،ازدواج،معیشت،معاشرہ،سیاست،جنگ
و امن وغیرہ سے متعلق مسائل ہیں کہ انکا صحیح حل کیا ہے، اس سلسلے میں دین اسلام تو سبھی پہلوؤں پر رہنمائی بالتفصیل فراہم کرتاہے جبکہ سائنس صرف جسمانی اور بعض نفسیاتی پہلوؤں پر رہنمائی فراہم کرتی ہے جبکہ بقیہ تمام مسائل سے لاتعلق رہتی ہے۔
فطری حقائق کی تحقیق سے مرادکائنات میں بکھرے ہوئےاسرار و رموز تک رسائی ہے،ہر ایک رازتک رسائی صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خاصّہ ہے کیونکہ وہ”لَطِيفٌ خَبِيرٌ“اور”الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ“ہے،چنانچہ کتاب اسلام قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً إِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (الحج:63)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا تو زمین زرخیز ہوگئی،یقینا اللہ باریک بین اور خوب باخبر ہے۔
مشہور مفکر ودانشور حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:
يَابُنَيَّ إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (لقمان:16)
اے میرے بچے،اگر رائی کے دانے برابر کوئی شے کسی چٹان پر ہویاآسمانوں یا زمین میں کہیں ہو تو اللہ اسے ڈھونڈ لائے گا،کیونکہ اللہ باریک بین اور خوب باخبر ہے۔
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ
ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ انکے مابین ہے واقعتاً پیدا کیا ہے،اور قیامت بھی واقع ہوگی،سوآپ خوبصورتی کے ساتھ درگزر کرتے رہیں،آپکا رب بہت بڑا خالق،بہت بڑا عالم ہے۔(الحجر:85-86)
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ (یس:81)
کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ (دوبارہ ان انسانوں)جیسا بنانے پر قادر نہیں،کیوں نہیں؟وہ تو بہت بڑا خالق ،بہت بڑا عالم ہے۔
اثبات حقائق بذریعہ صراحت نص
(٭)البتہ بعض حقائق واسرار ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں صراحتاًیا اشارتاًبیان کیا ہے،مثلاً:
عظیم دھماکہ(big bang)سے متعلق اسلامی نظریہ
قرآن پاک کی درج ذیل آیات میں ابتدائے کائنات کے متعلق بتایا گیا ہے:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا (الانبیاء:30)
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ساتوں آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔
نیز فرمایا:
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
کہہ دیجیئے کہ میں پناہ میں آتا ہوں فلق کے رب کی ،ہر اس شے کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔(الفلق:1-2)
”فلق“کسی شے کے اچانک پھٹ جانے کو کہتے ہیں، اسکے فوراً بعد مخلوق کا تذکرہ اشارہ کرتا ہے کہ اس سے مراد گذشتہ آیت میں بیان کردہ ”فتق“کے نتیجے میں ہونے والا دھماکہ ہے،نیز اس آیت میں ”فلق کے رب“ یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ بگ بینگ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا۔واللہ اعلم
عظیم دھماکہ(big bang)سے متعلق سائنسی نظریہ:
ماہرین فلکیات کی کئی عشروں پر محیط تحقیقات کے مطابق ہماری کائنات ابتداء میں ایک بڑی کمیت کی شکل میں تھی(جسے Primary nebula بھی کہتے ہے) پھر بگ بینگ یعنی بہت بڑا دھماکہ ہواجس کا نتیجہ کہکشانوں کی شکل میں ظاہر ہوا، پھر یہ کہکشائیں تقسیم ہو کر ستاروں، سیاروں، سورج، چاند وغیرہ کی صورت میں آئیں، کائنات کی ابتداء اس قدر منفرد اور اچھوتی تھی کہ اتفاق سے اس کے وجود میں آنے کا احتمال صفر (کچھ بھی نہیں) تھا۔
پھیلتی ہوئی کائنات
اسلامی نظریہ:
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ
اور آسمان کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں۔(الذاریات:47)
سائنسی نظریہ:
1925ء میں امریکی ماہر طبیعیات ایڈون ہبل (Edwin Hubble) نے اس امر کا مشاہداتی ثبوت فراہم کیا کہ تمام کہکشائیںایک دوسرے سے دور ہٹ رہی ہیں، جس کا مطلب یہ ہو اکہ کائنات پھیل رہی ہے، یہ بات آج مسلمہ سائنسی حقائق میں شامل ہے جسکے متعلق سوا چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں اس وقت بیان کیا گیا جب انسان نے دوربین تک ایجاد نہیں کی تھی۔
زمین کا انتہائی مربوط و مستحکم نظام
اسلامی نظریہ:
اللہ تعالیٰ نے زمین پربسنے والی جملہ مخلوقات کی ضرورت کی ہر شے کو ٹھیک ٹھیک اندازے کے مطابق پیدا کیا تاکہ کسی شے کی کمی یا زیادتی سے زمین کا نظام فساد کا شکار نہ ہوچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ
اور ہم نے زمین کو پھیلادیا،اور ہم نے اس میں میخیں (پہاڑ) گاڑھ دیں،اور ہم نے اس پر ہر شے ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار میں پیدا کی۔(الحجر:19)
1۔اس آیت میں زمین کے پھیلاؤ (امداد)کا ذکر ہے،اس میں زمین کی ساخت اور بناوٹ کی جانب اشارہ ہے کہ زمین پیاز کی تہوں کی طرح تہہ بہ تہہ بچھائی گئی ہے۔
2۔اس میں میخوں یعنی پہاڑوں کے گاڑھے جانے کا ذکر ہے،جسطرح خیمے کو روکے رکھنے کے لئے زمین میں میخیں گاڑھی جاتی ہیں اسی طرح زمین کی حرکت کو متوازن بنانے کے لئے اس میں پہاڑ گاڑھ دیئے گئے جیسا کہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:
وَأَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (النحل:15)
اور اس نے زمین پر میخیں گاڑھ دیںکہیں تمہیں لئے ڈولتی نہ رہے،اور نہریں چلادیں اور راستے بنادیئے تاکہ تم راہ پالو۔
3۔اس میں ہر شےکی نپی تلی مقدار پیدا کئے جانے کا ذکر ہے،جسکی زمین پر بسنے والی مخلوق کو ضرورت ہوسکتی ہے، خواہ وہ کوئی بھی شے ہو مثال کے طور پر آکسیجن جو کبھی بھی 20 فیصد سے نہیں بڑھتی ۔
نیز فرمایا:
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِلسَّائِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (فصّلت:9-11)
آپ پوچھیں:کیا تم اس کا انکار کرتے ہو اور اس کے شرکاء مقرر کرتے ہوجس نے زمین کو دو دنوں میں بنادیا ،وہ رب العالمین ہے،اور اسی نے چار دنوں میں اس میں اسکے اوپر سے میخیں بنادیں،اور اس میں برکت رکھ دی،اور اس میں اسکی قوتیں چھپادیں،پھر وہ آسمان کی جانب متوجہ ہوا تو وہ دھواں تھا،اس نے اس (دھویں) سے اور زمین سے کہاآؤ دل سے یا بادل نخواستہ،انہوں نے کہا :ہم آئے خوشدلی سے۔
4۔اس آیت میں زمین کے دو دن میں پیدا کئے جانے کا ذکر ہے۔
5۔زمین میں پہاڑوں کے گاڑھے جانے،اس میں برکت رکھے جانے،اور اس میں طاقتوں (powers) کے رکھے جانے اور یہ سب کام چار دنوں میں کئے جانے کا ذکر ہے۔
6۔زمین کے بعد آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے،جبکہ سورہ النازعات میں ہے:
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا (النازعات:30)
اسکے بعد اس نے زمین کو بچھایا(ہموار کیا)۔
تو اس سے مراد زمین کی پیدائش یا پھیلاؤ نہیں بلکہ اسے بیضوی شکل عطا کرنا ہے ،جیساکہ لفظ” دحی“ سے معلوم ہوتا ہے،یعنی پہلے زمین کا مٹیریل پھیلا دیا پھر اسے بیضوی شکل عطا کی۔واللہ اعلم
سائنسی نظریہ:
زمین کا متناسب پھیلاؤ
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین اپنے محور پر23.5 ڈگری جھکی ہے،اگر یہ جھکاؤ 25 ڈگری پر ہوتا تو قطبین کے سرے چند سالوں میں پگھل جاتے،اور اگر یہ جھکاؤ 22ڈگری پر ہوتا تو قطب شمالی کی برف سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی،اور زمین پر انسانی آبادی کے لئے بہت کم جگہ بچتی۔
زمین کی متناسب گردش
زمین اپنے محور پر 24 گھنٹوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے،اگر یہ گردش 30 گھنٹوں پر محیط ہوتی تویہ زندہ مخلوق کے لئے طوفان زدہ صحرا بن کر رہ جاتی،اور اگر یہ گردش 20 گھنٹوں میں پوری ہوتی تواکثر نباتات اپنی حیاتیاتی سرگرمیاں پوری نہ کر پاتیں اور زمین خشک سالی کا شکار ہوجاتی۔
زمین پر آکسیجن کامحدود مقدار میں قائم رہنا
ہر قسم کا دھواں اور خارج ہونے والی چیزیں پودوں کے ذریعے آکسیجن میں تبدیل ہوجاتی ہیں،اور زمین پر آکسیجن کی مقدار 20 فیصد سے تجاوز نہیں کرتی،اگر آکسیجن کا یہ تناسب کم یا زیادہ ہوجائے تو زمین پر بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوں،اور انسان بھی ڈائنوسارز کی طرح ختم ہوجائیں۔
درختوں اور جنگلات کی متناسب مقدار
سو سال پہلے تک توانائی کے حصول کا ایک ہی ذریعہ تھا یعنی آگ جو لکڑی سے سلگائی جاتی،چند عشرے قبل قدرت نےزمین میں کڑوڑوں سال سے ذخیرہ کردہ کوئلے اور تیل کو ظاہر کردیا اور توانائی کے متبادل ذرائع عین وقت پر فراہم کردیئے،اگر ایسا نہ ہوتا توحالیہ انسانی آبادی کی ضروریات پوری کرتے کرتے زمین سے جنگلات اور درختوں کے وجود کا خاتمہ ہوچکا ہوتا۔
الغرض زمین میںہر شے دھاتیں،یورنیم،کاربن ، پانی، ہوا،روشنی،سردی،گرمی،جانور،پرندے،حشرات وغیرہ مناسب مقدارمیں پائی جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا اور اس پر زندگی ناپید یا دشوار ہوجاتی۔
پہاڑوں کا زمین میں میخوں کا کام دینا
ماہرین ارضیات نے تسلیم کیا ہے کہ زمین کی سطح جس پر انسان آباد ہے تقریباً 70 کلو میٹر موٹی ہے اور ٹھنڈی ہے لیکن زمین کی اندرونی تہیں نہایت گرم اور پگھلی ہوئی حالت میں ہیں سو اگر پہاڑ اوپری سطح پر گڑھے ہوئے نہ ہوتے تو زمین کی سطح اندرونی تہوں پر پھسلتی رہتی اور زمین کی سطح پر کچھ باقی نہ رہتا۔
قرآن پاک میں یہ حقائق کئی صدیاں قبل بیان کئے گئے،جو اسکے کلام اللہ ہونے کا ثبوت ہیں۔
سمندر کی گہرائیوں میں اندھیرا
اسلامی نقطہ نگاہ:
اللہ تعالیٰ نےکفار کے اعمال اور انکے انجام کی مثال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ
یا گہرے سمندر کے اندھیروں کی مانند ،جسے موج نے ڈھانپا ہو،اسکے اوپر ایک موج اور ہو،اسکے اوپر بادل ہو، اندھیرے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے،جب وہ اپنا ہاتھ اٹھائے تو اسے دیکھ نہ پائے،اللہ جسکے لئے روشن نہ کرے اسکے لئے روشنی ہو ہی نہیں سکتی۔(النور:40)
یہ آیت اس حقیقت کو بیان کررہی ہے کہ سمندر میں کئی طرح کے اندھیرے ہوتے ہیں،بادلوں کا گھٹاٹوپ اندھیرا،پھر لہروں کا ایک دوسرے پر سوار ہونے کا اندھیرا،پھر سمندر کے اندر گہرائیوں کا اندھیرا،سمندر کے اندر موجوں کا اندھیرا،الغرض گہرے سمندر میں اسقدر اندھیرا ہوتا ہے کہ انسان کواسکا اپنا وجود تک دکھائی نہ دے۔
سائنسی نقطہ نگاہ:
جدید سائنسی نظریات اس آیت کے ایک حرف سے بھی انکار نہیں کرتے جسکا تعلق سمندر کے اندھیروں سے ہے،سائنس کے مطابق روشنی کے ساتوں رنگ سمندر کی مخصوص گہرائیوں میں ایک ایک کرکے ختم ہو جاتے ہیں تقریباً 1000 میٹر کے بعد اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔
نکتہ:اللہ تعالیٰ نے سمندر میں اندھیروں کے متعلق جو کچھ بیان کیا وہ کفار کے اعمال کی مثال وتشبیہ کے ضمن میں بیان کیا،حالانکہ مثال صرف تفہیم کے لئے دی جاتی ہے نہ کہ تحقیق کے لئے،اسکے باوجود یہ مثال اپنی ذات میں خود بہت بڑی ایسی حقیقت ہے جسکا اس زمانے کے لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے،قرآن پاک میں بیان کردہ دیگر امثال کا بھی یہی حال ہے جو اسکے کلام اللہ ہونے کی بین دلیل ہیں۔
زمین پر پانی کا وجود،زمین کے اندر پانی کے راستے،بادلوں میں پانی کا وجود
اسلامی نقطہ نگاہ:
قرآن مقدس میں آبیات کے متعلق متعدد آیات ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ زمین پر پانی آسمان سے آیااور اللہ تعالیٰ نے اس پانی کو زمین کے اندر دریاؤں اور چشموں کی صورت میں جاری کیا،
وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّا عَلَى ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ
اور ہم نے آسمان سے طے شدہ مقدار میں پانی اتارا،پھر اسے ہم نے زمین میں چلادیا،اور ہم اسے واپس لے جانے پر بھی قادر ہیں۔(المومنون:18)
نیز فرمایا:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ (الزمر:21)
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا پھراسے زمین کے اندرونی راستوں، خزانوں میں بہادیا۔
اور بادلوں میں پانی زمین سے آبی بخارات کے ذریعے پہنچتا ہے،جیسا کہ درج ذیل آیت اس جانب بلیغ اشارہ کرتی ہے:
وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ
قسم ہے آسمان کی لوٹانے والا،اور قسم ہے زمین کی شگاف والی۔(الطارق:11-12)
یعنی بادل جو زمین سے حاصل کردہ پانی واپس زمین کو لوٹادیتے ہیں ،اور دراڑ والی زمین سے مراد ہے کہ ان دراڑوں کے ذریعے بارش کا پانی زمین کے اندر تک داخل کیا جاتا ہے۔
سائنسی نقطہ نگاہ:
پانی دو عناصر سے مل کر بنا ہے،ہائیڈروجن اور آکسیجن، لیکن انہیں ملانے کے لئے جو درجہ حرارت درکار ہے وہ زمین پر ممکن نہیں ،لہذا پانی کی تخلیق زمین سے باہر کہیں ہوئی ہے ،پانی فضا میں تیرتا رہا پھر زمین پر اچانک اس پانی کی آمد ہوئی۔
سائنس کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ پانی کو ذخیرہ نہیں کیا جاسکتا،یہ پانی ہمیشہ سرکل میں رہتا ہے،سمندر سے بادلوں میں ،بادلوں سے زمین پر موجود جھیلوں ، جوہڑوں تالابوں، ڈیموں،زمین کی درزوں،دراڑوں کے ذریعے زیر زمین جھیلوں ،نہروں،چشموں ،کنوؤں،وغیرہ میں پھر زمینی راستوں پر چلتا ہوا سمندر میں جاگرتا ہے،یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔
بادلوں میں پانی آبی بخارات کے ذریعے آتا ہے جو جھیلوں یا سمندر کی سطح پر دھوپ لگنےکی وجہ سے بنتے ہیں،یہ بخارات جب بادلوں کے بالائی سرد حصوں سے ٹکراتے ہیں تو عمل تکثیف کی وجہ سے بادلوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں ،پھر اس طرح کے بہت سے بادل جمع ہوتے رہتے ہیں یہاںتک کہ بادلوں کا ایک پہاڑ سا بن جاتا ہے،اور اگر ان بادلوں کا واسطہ ایسی ہوا سے پڑجائے جسکا درجہ حرارت وہی ہو جو بادلوں کا ہے تو یہ بادل پانی کو روکے رکھتے ہیں،اور اگر یہ گرم ہوا سے ٹکرا جائیں تو ان میں جمع شدہ پانی پھر سے بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور اگر یہ سرد ہوا سے مل جائیں تو برسنا شروع ہوجاتے ہیں۔
یہ حقائق جو سائنسدانوں نے کثیر سرمایہ خرچ کرکے اور کڑی محنت کرکے،اور بہت سے تجربات سے گزر کر معلوم کئے 1400 سال قبل قرآن پاک میںاللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بیان کردیئے تھے۔
جانوروں،پرندوں اور حشرات کا منظم ہوکر رہنا
اسلامی نقطہ نگاہ:
قرآن پاک میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور بھی انسانوں کی طرح منظم ہو کر،غول بناکر رہتے ہیں،اور ایک دوسرے سے بات بھی کرتے ہیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ
جو بھی جانور زمین پر چلتا ہے یا پرندہ فضا میں اپنے پروں سےاڑتاہے وہ تمہاری طرح جماعتیں ہیں،ہم نے کتاب میں کمی نہیں رکھی،پھر انہیں اپنے رب کی جانب جمع کیا جائے گا۔(الانعام:38)
سیدنا سلیمان علیہ السلام جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسان کے علاوہ دیگر جنات،جانوروں اور ہواؤں پر بھی بادشاہت عطا کی تھی ان کے متعلق ارشاد فرمایا:
وَحُشِرَ لِسُلَيْمَانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ حَتَّى إِذَا أَتَوْا عَلَى وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَاأَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (النمل:17-18)
اور سلیمان کے روبرو اسکے انسان،جن اور پرندوں پر مشتمل لشکر جمع کئے جاتے پھر انہیں بانٹ دیا جاتا،پس ایک بار وہ چیونٹیوں کی وادی سے گذرے تو ایک چیونٹی نے کہا:اے چیونٹیوں اپنے بلوں میں گھس جاؤ کہیں سلیمان اور انکا لاؤ لشکرانجانے میں تمہیں روند نہ دے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ”ہد ہد“نامی پرندے کی پوری گفتگو نقل کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ پرندے بھی شعور رکھتے ہیں ، پہچانتے ہیں،جائزہ لیتے ہیں،فیصلہ کرتے ہیںاور عمدہ گفتگو کرتے ہیں،ارشاد فرمایا:
فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ أَلَّا يَسْجُدُوا لِلهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
پس ہد ہد نے کہا:میں وہ جان آیا جو آپ نہیں جانتے،میں آپکے پاس سبا کی پکی خبر لایا ہوں،میں نے ایک عورت کو انکی سربراہی کرتے دیکھا ہے جو ہر شے سے مالا مال ہے،اور اسکا بڑاتخت ہے ،میں نے اسے اور اسکی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ کے سواسورج کو سجدہ کررہے ہیں،اور شیطان نے انکے اعمال انکے سامنے خوبصورت بنادیئے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روک رکھا ہے،سو وہ راہ راست پر نہیں چل رہے کہ اللہ کو سجدہ نہیں کررہے جو آسمانوں اور زمین میں دانہ اگاتا ہے،اور تم جو چھپاتے یا دکھاتے ہو جانتا ہے،اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔(النمل:22-25)
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک اونٹ نے نبی کریم ﷺکے پاس آکر اپنے مالک کی شکایت کی(سنن ابی داؤد:2549،صحیح مسلم:باب ما یستتر بہ لقضاء الحاجۃ)کنکریوں اور کھانے کے لقمے نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی،مکہ کا ایک پتھر آپکو سلام کیا کرتا تھا۔
نیزنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک چرواہا اپنی بکریوں کے ریوڑ میں تھا کہ اس پر بھیڑیئے نے حملہ کیا اور ایک بکری لے بھاگا،چرواہے نے اسے تلاش کرلیا تو بھیڑیا اسکی جانب منہ کرکے کہنے لگا:درندوں کے دن اسے کون بچائے گا جس دن انکا میرے سوا کوئی چرواہا نہ ہوگا؟اور ایک آدمی گائے لے جارہاتھاوہ اس پر سوار تھا تو گائے نے اسکی طرف رخ کرکے کہا:میں اس لئے پیدا نہیں کی گئی لیکن میں کھیتی باڑی کے لئے پیدا کی گئی ہوں،یہ حدیث سن کر لوگوں نےتعجب سے کہا:سبحان اللہ تو نبی ﷺ نے فرمایا:میں اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہمااس حدیث پر ایمان لائے۔(صحیح بخاری:3663)
سائنسی نقطہ نگاہ:
جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق جانور ریوڑ یا غول بناکر منظم انداز میں رہتے ہیں ،ایک دوسرے سے بات کرتےہیں،ہر ریوڑ یا غول کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو پورے ریوڑ یا غول کی رکھوالی کرتا ہے،سارا ریوڑ مل جل کر کام کرتا ہے،اسی طرح چیونٹیاں اور شہد کی مکھیاں انتہائی منظم انداز میں مل جل کر رہتی ہیں،ہر مکھی اور ہر چیونٹی کی ذمہ داری مقرر ہوتی ہے جو وہ ہر حال میں ادا کرتی ہے،شہد کی مکھیاں آپس میں بات بھی کرتی ہیں ، اسی طرح چیونٹیاں بھی،انکی باقاعدہ کالونیاں ہوتی ہیں جسکی وہ حفاظت کرتی ہیں،موسم سرما کے لئے یہ پلاننگ کرتی ہیں اور خوراک ذخیرہ کرتی ہیں،چیونٹیاں تو بازار تک بناتی ہیں اور ان میں اشیاء کا باہم تبادلہ کرتی ہیں اور اپنے مُردوں کو دفناتی ہیں،ان کے علاوہ بھی ان میں بہت سی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جب انہیں قرآن و حدیث میں بیان کیا گیاتو لوگ مذاق اڑاتے لیکن آج یہی حقائق سائنس بیان کرتی ہے تو لوگ ایمان لے آتے ہیں۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں ،وگرنہ اس سلسلے میں بہت کچھ بیان کیا جاسکتا ہے،تفصیل کے لئے درج ذیل کتب ملاحظہ ہوں:
قرآنی آیات اور سائنسی حقائق از ڈاکٹر بلورک نور بائی(ترکی)
قرآن اور جدید سائنس از پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم
قرآن اور جدید سائنس ازڈاکٹر ذاکر عبدالکریم نائیک
اثبات حقائق بذریعہ تدبر و تفکر
٭اور بعض حقائق ایسے ہیں جنہیں سرسری غور و فکر کرنے سے معلوم کیا جاسکتا ہے،مثلاً:آسمان کی بلندی اور اسکی وسعت،کائنات میں پایا جانے والا حُسن، اجرام فلکیہ کا مربوط و مستحکم نظام،ستاروں کا طلوع و غروب،زمین پر انسانی ضرورت کی ہر شے کا وافر مقدار میں مہیا ہونا، انسانی جسم کی عظیم کاریگری،پہاڑ ،دریا،سمندر، چرند، پرند،شجر،حجر،سمندری حیوانات ومعدنیات،زمین و آسمان کی ہر شے کا انسانوں کے لئے مسخر ہونا،انسان کا مخدوم جبکہ ان سب کا خادم ہونا،وغیرہ،انکے لئے صرف مشاہدہ اور تدبر کافی ہے تجربہ کی ضرورت نہیں۔
اثبات حقائق بذریعہ تجربہ ومشاہدہ
٭اور بعض حقائق ایسے ہیں جن تک رسائی کے لئے تجربات و مشاہدات کے مختلف مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، کتاب و سنت میں اسکی بہت سی مثالیں ہیں ،مثلاً:
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں شہد کو شفا کا باعث قرار دیا ہے(النحل:69) اور بعض پھلوں اور میوؤں کی قسم اٹھائی ہے،جیسے انجیر اور زیتون،(التین:01) خالص دودھ کو انسان کے لئے نفع بخش قراردیا (النحل:66) مردارکو،بہتے خون کو،خنزیر کے گوشت کو انسان کے لئے حرام قرار دیا (البقرۃ:173) جو اسکے مضر صحت ہونے کا ثبوت ہے، لیکن اس سب کا انحصار تجربے و مشاہدے پر ہےکہ انکے نفع یا نقصان کی کیا صورتیں ہیں،اور یہ دونوں اپنی جگہ مسلّم ہیں ،جیسا کہ قرآن پاک میں ابراہیم علیہ السلام کی بابت ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مشاہدے کی درخواست کی اور کہا:
رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي
اے میرے مالک مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے،اللہ نے پوچھا:کیا تیرا ایمان نہیں ؟انہوں نے کہا:کیوں نہیں،لیکن میرا دل مطمئن ہوجائے(عین الیقین کے ساتھ)۔(البقرۃ:260)
ایسے ہی موسی علیہ السلام کی بابت ہے کہ جب وہ کوہ طور پر گئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ:
رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ
اے میرے مالک مجھے دکھا میں تجھے دیکھوں گا،اللہ نے فرمایا:تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا،لیکن پہاڑ کو دیکھ اگر وہ ٹکا رہا تو مجھے تو دیکھ سکے گا ،پھر جب اس نے پہاڑ پر تجلی ڈالی اس نے اسے پیس ڈالااور موسی بے ہوش ہوکر گر پڑا، جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا:تو پاک ہے میں تیری جانب لوٹتا ہوںاور میں ایمان لانے والوں میں پہلا ہوں۔(الاعراف:143)
نبی کریم ﷺ نے مشاہدے کے متعلق ارشاد فرمایا:
لَيْسَ الْخَبَرُ كَالْمُعَايَنَةِ , إِنَّ اللهَ - عز وجل - أَخْبَرَ مُوسَى بِمَا صَنَعَ قَوْمُهُ فِي الْعِجْلِ , فَلَمْ يُلْقِ الْأَلْوَاحَ فَلَمَّا عَايَنَ مَا صَنَعُوا , أَلْقَى الْأَلْوَاحَ فَانْكَسَرَتْ
زبانی خبر آنکھوں دیکھے کی مانند نہیں ہوتی،اللہ عز و جل نے جب موسی علیہ السلام کو بتایا کہ اسکی قوم نے بچھڑے کے ساتھ کیا کیا انہوں نے تختیاں نہیں پھینکیں لیکن جب اپنی آنکھوں سے انکے کرتوت دیکھے تو تختیاں پھینک دیں پس وہ ٹوٹ گئیں۔(مسند احمد:2447-صحیح الجامع:5374)
ایسے ہی تجربہ بھی دلیل ہے،جیسا کہ ایک حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا جس نے کہا کہ اسکے بھائی کا پیٹ خراب ہے،نبی کریمﷺ نے اسکے لئے شہد تجویز کیا،جب اسکے بھائی نےشہد استعمال کیا تو اسکا پیٹ مزید خراب ہوگیا،وہ نبی ﷺ کے پاس آیا اور اپنے بھائی کا حال بیان کیا تو آپ ﷺ نے اسکے لئے اس بار بھی شہد ہی تجویز کیا،اسکا بھائی شہد استعمال کرنے سے مزید بیمار ہوگیا،آخر کار تیسری یا چوتھی بار میں اسے شفا ہوئی تو نبی ﷺ نے فرمایا:
صَدَقَ اللَّهُ، وَكَذَبَ بَطْنُ أَخِيكَ (صحیح بخاری:5684)
اللہ نے سچ فرمایا لیکن تیرے بھائی کا پیٹ خراب ہے۔
اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے ،سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَوْمٍ يُلَقِّحُونَ، فَقَالَ: لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا لَصَلُحَ، قَالَ: فَخَرَجَ شِيصًا، فَمَرَّ بِهِمْ فَقَالَ: مَا لِنَخْلِكُمْ؟قَالُوا: قُلْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (صحیح مسلم)
نبی کریم ﷺ کچھ لوگوں پر سے گزرے ،آپ نے دیکھا کہ وہ کھجوروں کی تلقیح کررہے تھے،آپ نے فرمایا اگر ایسا نہ کرو تو بہتر ہو،انس نے کہا کہ:انہوں نے آپ کی بات مانی تو ردی پیداوار ہوئی،آپ نے پوچھا کہ تمہاری کھجور کیسی رہی تو انہوں نے کہا کہ:ایسی اور ایسی تو آپ نے فرمایا:تم اپنی دنیا کو بہتر جانتے ہو۔
یعنی دنیا کے وہ امور جن کا تعلق شریعت سے نہ ہو ان میں تم بااختیار ہو جو تمہارا تجربہ کہے ویسا کرلو بشرطیکہ شریعت کی مخالفت نہ ہو۔
اسی طرح ایک اورحدیث میں آتا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:
أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَاجْتَوَوْهَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:إِنْ شِئْتُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَى إِبِلِ الصَّدَقَةِ، فَتَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، فَفَعَلُوا، فَصَحُّوا
عرینہ قبیلے کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ آئے تو انہیں وہ راس نہ آیا(یعنی مدینہ میں وہ بیمار پڑگئے)رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا:اگر تم چاہو تو زکاۃ کے اونٹوں کا دودھ و پیشاپ پی لو،انہوں نے ایسا کیا تو تندرست ہوگئے۔(صحیح مسلم)
نیزکچھ لوگ اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہما کی ولدیت میں شک کرتے تھے،تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ:
دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ مَسْرُورٌ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا المُدْلِجِيَّ دَخَلَ عَلَيَّ فَرَأَى أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَزَيْدًا وَعَلَيْهِمَا قَطِيفَةٌ، قَدْ غَطَّيَا رُءُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ
ایک دن رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور آپ بہت خوش تھے،فرمانے لگے:عائشہ تجھے معلوم نہیں کہ مجزز مدلجی میرے پاس آیا ،تو اس نے اسامہ بن زید کو دیکھا،ان دونوں نے اپنے سر چادر سے ڈھانپ رکھے تھے،اور ان کے قدم باہر کو نکلے ہوئے تھے تو وہ کہنے لگا:یہ قدم ایک دوسرے سے ہیں۔(صحیح بخاری:6771)
یعنی یہ دونوں باپ بیٹے ہیں،یہ شخص قائف تھا یعنی قیافہ شناس جو محض قدم دیکھ کر نسب جان لیا کرتے تھے اور ان کا اندازہ کم ہی غلط ہوتا تھا،اور اسکا یہ فن مہارت اور تجربہ پر قائم تھا،نبی کریم ﷺ نے اسکے تجربے سے فائدہ اٹھایا۔
اسی طرح قیلولہ،حجامہ،آب زم زم،اثمد سرمہ،عجوہ کھجور کلونجی ،رقیہ ،اسلامی طریقے پر ذبح شدہ گوشت،کتے کے سانے برتن کو سات بار پانی سے ایک بار مٹی سے دھونا، مشروب میں گرجانے والی مکھی کو نکالنے سے پہلے ڈبونا وغیرہ ایسے امور ہیں جنکی افادیت تجربے کی محتاج ہے،اور اسکے لئے مسلمان ہونا ضروری نہیں ،غیر مسلم بھی ان سے برابر مستفید ہوسکتے ہیں۔
٭اور بعض حقائق تک سائنس کی رسائی اب تک ممکن نہیں ہوسکی،انکی تفصیل آگے آرہی ہے۔
نکتہ:کتاب و سنت میں بیان کردہ مذکورہ حقائق ایک جانب کتاب و سنت کی حقانیت کے دلائل ہیں تو دوسری جانب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں ان حقائق کو اس طرح نہیں سمجھا جاسکتا تھا جس طرح دور حاضر میں سمجھا جاتا ہے ،تو یہ اس زمانے میں کیوں بیان کئے گئے،اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے کہ قرآن و سنت صرف اس زمانے کے لئے ہدایت ، حجت اورمعجزہ نہ تھا بلکہ دور حاضر کے لئے بھی ہے اور قیامت تک اسکا یہ اعجاز وارشاد باقی رہے گا۔
خلاصہ کلام:
اثبات حقائق کے سلسلے میں اسلامی طریقہ کارکتاب و سنت کے نصوص پر ایمان و تدبر اور تجربے و مشاہدے دونوں قسم کے دلائل پر مشتمل ہے ،اصل اعتماد نصوص شرعیہ پر ہے،جبکہ تجربہ و مشاہدہ تبعی دلائل ہیں،کیونکہ کتاب و سنت کے نصوص میں خطا کا امکان صفر ہے اس لئے کہ وہ خالق کائنات کی وحی پر مشتمل ہیں جو وحی ہمارے پاس اپنی اصل حالت میں محفوظ و موجود ہے،اور خالق کائنات خطا تو درکنارامکان خطا سے بھی پاک ہے، جبکہ تجربہ و مشاہدہ کا تعلق انسانی افعال سے ہے جو انسان مجسم خطا ہے،لہذا جب تجربہ یا مشاہدہ کتاب و سنت کے نصوص سے متضاد ہو تو اس صورت میں کتاب و سنت کو ہی ترجیح دی جائے گی،جبکہ تجربہ و مشاہدہ کی تاویل کی جائے گی اگر ممکن ہو یا اسے خطا قرار دیکر یکسر مسترد کردیا جائے گا۔
جبکہ اس سلسلے میںسائنسی علوم کا کلی انحصار مادی دلائل پر ہے،یعنی تدبر،تجربہ،مشاہدہ،ان میں سے تدبر کا تعلق عقل سے ہے،جبکہ مشاہدہ کا تعلق حواس خمسہ سے ہے، حواس سے حاصل شدہ نتائج پر تجربات کئے جاتے ہیں، اگر تجربہ نتیجہ حسیہ کے مطابق ہو تو اسے اصول یا حقیقت قرار دیا جاتا ہے،اور اگر مطابق نہ ہو تو مزید تجربات کئے جاتے ہیں تاآنکہ خاص نتیجے تک پہنچا جائے،پھر بھی غلطی کا امکان بہر حال رہتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ہر دس سال بعد نئی سائنسی تحقیقات پرانی تحقیقات کی جگہ لے لیتی ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ چند موٹے موٹے سائنسی نظریات کو چھوڑ کر اکثر نظریات خود سائنسدانوں کے مابین مختلف فیہ رہتے ہیں،کیونکہ ہر ایک اپنے تجربے، مشاہدے اور تدبر کو ترجیح دیتا ہے،جبکہ اس نوع کا اختلاف تضاد کتاب و سنت کے بیان کردہ حقائق میں نہیں پایا جاتا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء:82)
کیا وہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے ،اگر وہ اللہ کے سوا کسی کی جانب سے ہوتا تو وہ اس میں اختلاف پاتے۔
اختلافات
سائنس کے بیشتر نظریات اسلامی نظریات کے مطابق ہیں،کیونکہ دونوں ہی فطرت سے تعلق رکھتے ہیں،دین اسلام تو ہے ہی دین فطرت اسکا کوئی نظریہ فطرت سے متصادم نہیں لیکن سائنس فطرت کی تلاش میں رہتی ہے، سو جن امور میں وہ فطرت کو تلاش نہ کرسکی ان میں سائنسی نظریات اسلامی نظریات سے ٹکرا جاتے ہیں، ایسا اختلاف عام طور پر ان امور میں ہے ،جو اسلامی عقائد یا عبادات سے متعلق ہیں،جبکہ وہ امور جنکا تعلق مادیت سے ہے یا آفاقیت ،یا طبعی حقائق سے تو ان میں اختلاف نہ ہونے کے برابر ہے ،اور جہاں اختلاف ہے تو یہ تضاد نہیں بلکہ تنوع ہے اور اگر دو چار نظریات میں تضاد بھی ہے تو اس لئے کیونکہ سائنس حتمی نتیجے تک نہیں پہنچی،جب پہنچ جائے گی تو یہ اختلاف بھی ختم ہو جائے گا،مثلاً:
وجود باری تعالیٰ، روح ، معجزات، جنات ،فرشتوں کا وجود،تقدیر،آخرت،عالَم جن،مقام یاجوج ماجوج، جزیرہ دجال، آسمانوں اور زمین کے دروازے،آسمانوں اور زمینوں میں سے ہر ایک کا سات کی تعداد میں اوپر تلےہونا،آسمانی خبریں چرانے والے جنات کی سزا کے لئے شہاب ثاقب کا مقرر کیا جانا،ہر ہر شے کاخواہ وہ جاندار ہو یا بے جان تسبیح بیان کرنا، عبادات کے روحانی و طبی فوائد،وہ امور جنکا تعلق خالصتاًعلم غیب سے ہے، مثلاً:عالم برزخ،عالم ارواح،عالم آخرت،جنت، جہنم، میزان،صراط،لوح و قلم،عرش، انزال وحی ،سورج کا ہرروز عرش کے نیچے سجدہ کرنا،وغیرہ۔
دین سےبیزاربعض سیکولر و لبرل حضرات دین اسلام کے عقائد کو سائنسی نظریات سے متصادم قرار دیتے ہیں ، حالانکہ عقائد کا تعلق ”ایمان“سے ہے،اس میں تجربے یا مشاہدے کا اس طور پر دخل نہیں،جس طور پر سائنس دان تجربہ یا مشاہدہ کو تحقیق کا معیار گردانتے ہیں۔
دین اسلام میں عقائد کا اثبات تجربے یا مشاہدے سے نہیں ہوتا بلکہ دین کے بنیادی مآخذ سے ہوتا ہے،یعنی کتاب و سنت سے،جبکہ کتاب و سنت کی حقانیت کا اثبات تجربہ یا مشاہدہ سے ہوتا ہے،یعنی بارہا کے تجربات جو کتاب و سنت کے صداقت میں اضافہ کرتے آئے ہیں اور معجزات کے مشاہدات جو اس امت کے نبی کے ہاتھوں صادر ہوئے اور اس امت کے پہلے اور صالح ترین گروہ صحابہ کرام نے انکا مشاہدہ کیا اور انہوں نے اپنا مشاہدہ پوری صداقت کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل کیا اسی طرح یہ محدثین تک پہنچا جنہوں نے اسے کتابوں میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلیا۔
مثلاً: شق القمر کا واقعہ ایک حقیقت ہے،جسکا بیان قرآن مجید میں ہے(القمر:1) لیکن سائنس اسے ماننے کے لئے تیار نہیں،کیونکہ انہوں نے اسکا مشاہدہ نہیں کیا،جبکہ مسلمانوں تک اس واقعہ کی خبر تواتر کے ساتھ ان لوگوں سے پہنچی ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اس منظر کا مشاہدہ کیا،لیکن امید واثق ہے کہ آئندہ کسی زمانے میں وہ اسے حقیقت تسلیم کرلیں۔یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح شاید ہی کسی نے اپنے دسویں داداکو دیکھا ہو لیکن اس کے کسی زمانہ میں موجود ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔
نیزبہت سے ایسے امور ہیں جن میں پہلے اختلاف تھا لیکن اب نہیں رہا،اور فتح دین اسلام کو حاصل ہوئی، سائنس نے بھی آخر کار وہی بات کہی جو اسلام 1400 سالوں سے کہتا آرہا تھا،مثلاً:سورج کی حرکت،کائنات کا وسیع ہونا،ایٹم کا قابل تقسیم ہونا،وغیرہ۔
ترجیحات و تصدیقات
اب تک کی تحریر سےیہ بھی معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کے پیش کردہ نظریات سائنسی تصدیق و تائید کے محتاج نہیں کیونکہ ان میں حقیقت کو خود حق تعالیٰ بلاواسطہ تجربہ و مشاہدہ بیان کردیتا ہےبلکہ سائنسی نظریات کتاب و سنت کی تائید و تصدیق کے محتاج ہیں کہ یہ مفروضے و خیال سے حقیت بننے کے سفر کے دوران بہت سے مقامات پر بھٹک چکا ہوتا ہے۔
وہ تمام حقائق جنکا جاننا انسان کے لئے مفید ہوسکتا ہے سب کے سب قرآن مقدس اور حدیث مقدس میں بیان کردیئے گئے ہیں البتہ صحیح وقت پر وہ خودبخود آشکار ہوجاتے ہیں،جیسے ہی کوئی ماڈرن نظریہ پروان چڑھتا ہے یا کوئی نئی تحقیق سامنے آتی ہےعلماء اسلام اسکے متعلق کتاب و سنت میں تحقیق شروع کردیتے ہیں،اور اسکے صدق یا کذب کا فیصلہ کرلیتے ہیں،عام طور پر اسکے بارے میں کوئی نہ کوئی واضح آیت پائی جاتی ہے،یا کسی حدیث میں اسے بیان کیا گیا ہوتا ہے،یا اسکی جانب کوئی نہ کوئی اشارہ مل جاتا ہے،آج تک سائنس ایسی کوئی حقیقت پیش نہیں کرسکی جسکے متعلق کتاب و سنت مکمل اندھیرے میں ہوں،اور ہمارا دعویٰ ہے کہ آئندہ بھی ایسا نہ ہوسکے گا،یہ اس بات کا بڑا واضح ثبوت ہے کہ کتاب و سنت ہی تمامتر حقائق کے اصل ماخذ و مصدر ہیں،تمامتر علوم نافعہ کا منبع و سرچشمہ یہی کلام ہے اور یہ انسانی کلام نہیں بلکہ خالق کائنات کا کلام ہے۔
جب ایسا ہے تو لازماً ترجیح و فوقیت کتاب و سنت کو حاصل ہے ،اور مصدّق یعنی تصدیق یا تکذیب کرنے والا بھی کلام اللہ ہے،نہ کہ سائنس،جبکہ کتاب و سنت سائنس کی تصدیق یا تکذیب کی قطعاً محتاج نہیں،نہ ہی سائنسی نظریات کتاب و سنت کی معتبر تشریح کہلائے جانے کے مستحق ہیں،کیونکہ کوئی بھی تشریح اصل متن کی مبادیات و اساسیات کی مخالف نہیں ہوسکتی،جبکہ سائنس کتاب و سنت کے بنیادی عقائد کی منکر ہے،سو جب سائنس کتاب و سنت کے مصروحہ عقائد کو ہی نہیں مانتی تو اسے کتاب و سنت کی پیش کردہ فروعات کے سلسلے میں کس طرح حجت یا مہیمن مانا جاسکتا ہے؟۔
نیز سائنسی نظریات کی عدم ترجیح کی ایک علمی وجہ یہ بھی ہے کہ سائنسی نظریات تجربات و مشاہدات کے بہت سے مراحل در مراحل سے گزر کر حاصل ہوتے ہیں،باالفاظ دیگر بعض امور مظنونہ کو بعض امور معلومہ کے ساتھ ترتیب دے کر نتیجے تک پہنچا جاتا ہے،اور خاص نتیجے تک پہنچ کر بھی غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے،اس اعتبار سےاس نوع کے تمامتر سائنسی حقائق فی الحقیقت ”حقیقت“ کہلائے جانے کے مستحق نہیں ، زیادہ سے زیادہ اسے” ظن غالب“ یا ”امر راجح “یا ”نظریہ “کہا جاسکتا ہے۔
جبکہ کتاب و سنت میں بیان کردہ کردہ حقائق کا تعلق روایت سے ہے،اور روایت کے متعین اصولوں اور شروط کے کڑے معیار سے گزر کر جو خبر ہم تک پہنچتی ہے (خواہ وہ عقیدے سے متعلق ہو یا کسی اور شے سے متعلق)علمی طور پر وہ ”علم“یا” حقیقت“کہلائے جانے کی مستحق ہوتی ہے۔
دعوت دین بذریعہ سائنسی نظریات
دین اسلام سچا دین ہے اور اسکی سچائی کتاب و سنت میں منحصر ہے،اور یہ ہمارا سرمایہ افتخار ہے،لیکن جو شخص اسلام کو سچا دین نہیں مانتا اُسے سمجھانے کے لئے اسلامی عقائد و تعلیمات کی خوبیاں اور انکا فطری ہونا،اور عقل کے مطابق ہونا بیان کرنا چاہیئے،اس ضمن میں اگر کوئی سائنسی نظریہ بطور ثبوت یا تائید کے پیش کرنا پڑے تو ایسا کرنا بالکل جائز ہےبشرطیکہ:
٭دعوت” دین اسلام“ کی طرف ہو نہ کہ سائنس کی طرف۔
٭سائنسی نظریہ صرف تائیدی شہادت کے طور پر پیش کیا جائے ،نہ کہ اصلی دلیل کے طور پر۔
٭صرف ضرورت پڑنے پر سائنس کو دلیل بنایا جائے، بلا ضرورت ایسا نہ کیا جائے۔
٭سائنسی نظریے کےساتھ اسلامی نظریہ بھی ترجیحاً پیش کیا جائے۔
٭سائنسی شہادت پیش کرنے کا مقصد دعوت دین یا دفاع دین اسلام ہو،نہ کہ سائنسی معلومات کا اظہار کرنا۔
٭سائنسی نظریات کو کتاب و سنت کی تفسیر کے طور پر نہ پیش کیا جائے۔
٭ کسی سائنسی نظریے کے اثبات کی خاطر یا کسی آیت یا حدیث کو سائنسی نظریے کے مطابق کرنے کی خاطرکسی آیت یا حدیث کی باطل تاویل نہ کی جائے۔
٭کسی طرح کی مرعوبیت کی بنا پر ایسا نہ کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ دین اسلام کا صحیح فہم عطا فرمائے۔آمین
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی ذات، صفات ، اختیارات کے ثبوت اور اپنی عبادت کے استحقاق کیلئے درجنوں الہامی، عقلی اور مشاہداتی دلائل دیئے اور انسان کو اپنے انعامات یاد دلا کر بار بار متوجہ کیا ہے کہ ’’ اے انسان میری قدرت کے نشانات اور میرے احسانات پر غور کر‘‘ تاکہ تجھے علم سے بڑھ کر عین الیقین ہو جائے کہ ’’اللہ‘‘ ہی تجھے اور زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کو پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے والا ہے۔ اس نے انسان کی فہم اور صلاحیت کا خیا ل رکھتے ہوئے اپنی قدرت کی اُن نشانیوں اور مظاہرات کی طرف توجہ دلائی ہے جنہیں ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے اور ان سے اپنی استعداد اور قوّت کار کے مطابق استفادہ کرتا ہے ۔ قدرت کاملہ کی بڑی نشانیوں میں سات آسمانوں کا کسی ستون اور سہارے کے بغیر اوپر نیچے تنے رہنا، لاتعداد سال گزرنے کے باوجود اپنی جگہ سے نہ ہلنا اور نہ جھکنا ہے۔
اَن گنت مدّت بیت جانے کے باوجود آسمان کی رنگت میں فرق واقع نہ ہونا ، دن کے وقت سورج کا چمکنا اور رات کے وقت چاند ستاروں کا جگمگانا، یہ خالق کائنات کی ایسی نشانیاں ہیں جن کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں لہٰذا ان کے خالق کا حکم مانا جائے اور صرف اسی کی بندگی کی جائے۔ ان حقائق کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے ایسے دلائل دیئے کہ ایک ان پڑھ بھی بات کو پوری طرح سمجھتا ہے اور علم و آگہی رکھنے والا یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اور پیدا کیا ہے وہ اپنے جمال و کمال کی انتہاء تک پہنچا ہوا ہے۔ اس لیے ہر شخص یہ کہنے پر مجبور ہے :’’ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ ‘‘ اسی خالق نے ہی زمین و آسمانوں کو بغیر پہلے سے موجود نمونے کے پیدا کیا ہے۔
بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ(البقرۃ: ۱۱۷) (انعام:۱۰۱)
’’ اللہ ‘‘ نے زمین و آسمان کو بغیر کسی نمونے کے پید اکیا، جب وہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُسے حکم دیتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ وہ کام اس کی مرضی کے مطابق ہو جاتا ہے ۔ ‘‘
’’بدیع ‘‘کا لفظ استعمال فرما کر واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے کے، اوپر نیچے سات آسماں اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کیے ہیں ۔جبکہ اس سے پہلے زمین وآسمان آپس میں ملے ہوئے تھے۔
أَوَ لَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْئٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ (الانبیاء:۳۰)
’’کیا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات صفات اور بات کا انکار کرتے ہیں انہوں نے غور نہیں کیاکہ آسمان اور زمین آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ ہم نے انہیں الگ الگ کیا اور ہرزندہ چیز پانی سے پیدا کی۔ کیا پھربھی وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟‘‘
’’رَتْقًا‘‘کا معنی ہے آپس میں خلط ملط اور جڑے ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو حکم دیا کہ تم اوپر نیچے سات آسمان بن جائو اور زمین کو حکم ہوا کہ تو تہہ بہ تہہ سات زمینوں کی شکل اختیا رکر لے چنانچہ ایسا ہو گیا۔
قرآن مجید کے الفاظ سے یہ بظاہر عمل بڑا سادہ معلوم ہوتا ہے لیکن اب تک اس کی جو جزئیات سامنے آئی ہیں اُن پر غور کیا جائے تو آدمی کی عقل نہ صرف دنگ رہ جاتی ہے بلکہ اس عمل کا احاطہ کرنے سے پہلے ہی سوچ کی حد ختم ہو جاتی ہے ۔
ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَاء ِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ (حم السجدہ:۱۱)
’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اُس نے آسمانوں اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم تابع فرمان ہو کر
حاضر ہوگئے۔
آسمان بنانے کے بعد انہیں یوں ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس میں مسلسل توسیع کی جارہی ہے ۔آسمانوں کو دو دن میں بنایا اور پھر ہر آسمان کو اس کے متعلقہ امور کے بارے میں احکام صادر فرمائے پھر پہلے آسمان کو چاند ستاروں سے مزیّن کیا اور شیاطین سے اسکی حفاظت کا بندوبست فرمایا۔
وَالسَّمَاء بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [سورۃ الذاریات:47]
’’ ہم نے آسمان کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور ہم اس کو وسعت دیئے جا رہے ہیں ۔ ‘‘
’’اَیْدِیَ‘‘ ’’ید ‘‘کی جمع ہے جس کے بارے میں اہل علم کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے بارے میں ید کا لفظ بولتا ہے تو اس کا مطلب ا س کا ہاتھ ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں قیاس آرائی اورکوئی تاویل کرنے کی اجازت نہیں۔ اللہ تعالیٰ جب اپنے لیے ’’اَیْدِیْ ‘‘کا لفظ استعمال فرماتا ہے تو اس کا معنٰی قوت اورطاقت ہوتاہے۔ یہاں ’’اَیْدِیْ‘‘ کا معنٰی یہ ہوگا کہ ہم نے آسمانوں کو بنایا اورہمیں اس پر پوری قوت اور اختیار حاصل تھا اور ہے اور ہم اسے وسعت دئیے جا رہے ہیں۔
اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ (الرعد:2)
’’اللہ وہ ہے جس نے آسما نوں کو بغیر ستونوں کے بلند کیا جنہیں تم دیکھتے ہو ،پھر وہ عرش پرجلوہ افروز ہوا۔‘‘
وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَکَانَ عَرْشُہُ عَلَی الْمَاء ِ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا(ھود:7)
’’اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘
فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاء ٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاء َ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ
(حم السجدہ:12)
’’ اُس نے دو دن میں سات آسمان بنا ئے اور ہر آسمان کے لیے اس سے متعلقہ قانون جاری کیا، اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے خوبصورت بنایا اور اسے محفوظ کر دیا۔ یہ سب کچھ جاننے والی زبردست ہستی کا بنایا ہوا ہے۔‘‘
{أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ وَالْفُلْکَ تَجْرِی فِی الْبَحْرِ بِأَمْرِہِ وَیُمْسِکُ السَّمَائَ أَنْ تَقَعَ عَلَی الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِہِ إِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُفٌ رَحِیمٌ} (الحج:65)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے اور اسی نے کشتی کو پابند کیا ہے جو اس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے اور وہی ذات آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گر سکتا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں پر نہایت شفقت کرنے اور مہربانی فرمانے والاہے۔ ‘‘
آسمان کی طرف دیکھیں نہ معلوم کتنی مدّت سے بغیر سہارے کے کھڑا ہے ۔ نہ اس میں کوئی دراڑ واقع ہوئی ہے اور نہ وہ کسی طرف سے جھکا ہے ۔ یہ اللہ کے حکم کے مطابق تنا ہوا ہے اور نیچے گرنے کا نام نہیں لیتا ۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آسمان زمین پر دھڑان آگرے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شفقت و مہربانی ہے کہ وہ لوگوں کے کفرو شرک اور ہر قسم کی نافرمانی دیکھ کر بھی آسمانوں کو تھامے ہوئے ہر چیز کو انسان کی خدمت میں لگائے ہوئے ہے لیکن اس کے باوجودانسان اس کو معبودِ برحق ماننے کے لیے تیار نہیں،غور کریں کہ انسان کس قدر ظالم ہے اور اللہ تعالیٰ کس قدرمہربان ہے ۔
إِنَّ اللہَ یُمْسِکُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا وَلَئِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَکَہُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِہِ إِنَّہُ کَانَ حَلِیمًا غَفُورًا(فاطر:41)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو ٹل جانے سے روکے ہوئے ہے اور اگر وہ ٹل جائیں تو اللہ سوا کوئی اُنہیں تھامنے والا نہیں ہے، بے شک اللہ بڑے حوصلے والا اور درگزر فرمانے والا ہے۔‘‘
یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ نے ہی زمین و آسمانوں کوپیدا فرمایا اور وہی انہیںتھامے ہوئے ہے ۔تاکہ اپنے مقام سے ہلنے نہ پائیں اگر وہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو کون ہے جو اُسے اصل جگہ پر لے آئے؟ آسمان کو تھامنا تو درکنار ،پوری دنیا کے حکمران اورعوام مِل کرزمین کوہلنے یعنی زلزلہ سے نہیں بچا سکتے ۔زلزلہ سے بچانا تو دور کی بات، ارضیات کے سائنسدان اب تک یہ پتہ نہیں چلا سکے کہ زمین میں کہاں اورکب زلزلہ واقع ہوگا ۔تاریخِ انسانی میںکتنی بار زلزلہ آیا جس نے چند لمحوں کے اندر نہ صرف ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ اس علاقے کا نقشہ بدل کررکھ دیا۔اب تک نہ ہوا ہے او ر نہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے سِوا کوئی زلزلوں کوروک سکے اس کی قوت و قدرت کی کوئی انتہا نہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک حد تک اختیار دے رکھا ہے۔ جس وجہ سے انسان زمین و آسمانوں کے خالق اورمالک کو بھول کراس کی مخلوق میں دوسروں کو اس کا شریک بنا لیتاہے ۔
أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ یَعْیَ بِخَلْقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَی أَنْ یُحْیِیَ الْمَوْتَی بَلَی إِنَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ (الاحقاف:33)
’’ کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اللہ نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا اور ان کو بنانے میں اسے کوئی تھکاوٹ نہیں ہوئی، وہ پوری قدرت رکھتا ہے کہ مُردوں کو زندہ کرے ،کیوں نہیں؟ یقینا وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ‘‘
جو لوگ ’’اللہ تعالیٰ ‘‘کی ذات پر اس کے حکم کے مطابق ایمان نہیں لاتے، کیا وہ غور نہیں کرتے کہ ’’اللہ ‘‘وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا ہے اوران کے پیدا کرنے میں اسے کوئی تھکان محسوس نہ ہوئی ۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ مردوں کو دوبارہ زندہ کرے ۔کیوں نہیں ! بلاشبہ وہ کائنات کے ذرہ ذرہ پر اقتدار اور پورا اختیار رکھنے والا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود لوگ اللہ کی ذات ،صفات ،اس کے احکام اور اس کی بات پر یقین نہیں رکھتے ،وہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ’’اللہ‘‘ مردوں کو زندہ نہیں کرسکتا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ
’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور جوکچھ ان کے درمیان ہے اُسے چھ دن میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔‘‘(ق:38)
جہاں تک اللہ تعالیٰ کے زمین و آسمان پیدا کر نے کے بعد تھکان نہ ہونے کا مسئلہ ہے اس بارے میں یہودیوں اوران سے متاثرین کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمانو ں اورہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد تھکان محسوس کی۔ اس لیے ہفتہ کے دن آرام فرمایا جس وجہ سے ہم بھی ہفتہ کے دن کام کاج سے چھٹی کرتے ہیں۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس بات کی واضح نفی فرمائی ہے کہ زمین وآسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد اسے کوئی تھکان نہیں ہوئی تھی۔ اس نے زمین وآسمانوں اور مخلوق کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ ہر وقت پوری مخلوق کی نگرانی اور حفاظت بھی فرما رہا ہے اور اسے کوئی تھکان نہیں ہوتی۔
وَلَا یَؤُدُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیمُ
’’وہ ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اکتاتاہے وہ بہت ہی بلند وبالا اور بڑی عظمت والا ہے۔‘‘(البقرہ:255)
الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَی فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَی مِنْ فُطُورٍ٭ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ
’’اُسی نے اوپر نیچے سات آسمان بنائے، تم الرّحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہیں پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو، کیا تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟بار بار نظر دوڑاؤ تمہاری نظر تھک کرپلٹ آئے گی لیکن تم آسمان میں کوئی شگاف نہیں پاؤ گے۔‘‘ (الملك:3۔4)
أَفَلَمْ یَنْظُرُواإِلَی السَّمَائِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَاوَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوجٍ (ق: 6)
’’کیا پھر انہوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھاکہ ہم نے اسے کس طرح بنایا اور مزیّن کیا اور اس میں کہیں شگاف نہیں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر زمین و آسمان پر غور کرنے کی دعوت دی ہے ۔ہرمقام پر چند الفاظ کے تکرار کے سوا نئے الفاظ کے ساتھ نیا استدلال پیش کیا ہے اسی اصول کے تحت قیامت کے دن جی اٹھنے کاانکار کرنے والوں کو توجہ دلائی ہے کہ کیا وہ اپنے اوپر تنے ہوئے آسمان کی طرف غور نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کس طرح بنایا اور سجایا ہے اور اس میں کسی قسم کا شگاف نہیں پایا جاتا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟ فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: هَذَا العَنَانُ هَذِهِ رَوَايَا الأَرْضِ يَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْكُرُونَهُ وَلَا يَدْعُونَهُ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ، سَقْفٌ مَحْفُوظٌ، وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ. ثُمَّ قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءَيْنِ، مَا بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ عَامٍ حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءَيْنِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ(رواہ الترمذی:بَابٌ وَمِنْ سُورَۃِ الحَدِیدِ قال الترمذی ھذا حدیث غریب من ھذا الوجہ)
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبیؐ اکرم اور آپ کے صحابہؓ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اچانک موسم ابرآلود ہوگیا۔آپؐ نے صحابہؓ سے پوچھا کیا تم اس کے بارے میں جانتے ہو؟ صحابہ نے جواب دیا: اللہ اوراس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا: یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہیں،اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو ان لوگوں سے دور لے جاتا ہے جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے دعا کرتے ہیں۔ آپؐ نے پھر پوچھا تمہارے اوپر کیا چیز ہے؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اوراس کا رسول زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ہے یہ محفوظ اورمضبوط چھت اور بند موج ہے۔ آپ نے پھر پوچھا: تمہارے اورآسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔صحابہ نے عرض کی: اللہ اوراس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارے اورآسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہوکہ اس کے اوپر کیاہے ؟ صحابہ نے پھر کہا اللہ اوراس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا اس کے اوپر ایک اور آسمان ہے اورہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سوسال کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سات آسمان بتلائے اورہر دو آسمانوں کے درمیان اتنی ہی مسافت بیان فرمائی۔‘‘
وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاء بُرُوجًا وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ وَحَفِظْنَاہَا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ رَجِیمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ (الحجر:16۔18)
’’او ریقینا ہم نے آسمان میں برج بنائے او راسے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنایا ہے اور اس کی ہر شیطان مردود سے حفاظت کی ہے جو کوئی سُنی ہوئی بات چرا لے تو ایک بھٹکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے ۔‘‘
خالقِ کائنات کا ارشاد ہے کہ ہم نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے آسمان کو خوبصورت بنایا اور شیطان مردود سے اسے محفوظ کر دیا۔ اگر کوئی شیطان چوری چھپے سننا چاہے تو ایک روشن اور بھڑکتا ہوا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔پرانے زمانے کے اہل ہئیت یعنی فلکیات کا علم رکھنے والوں نے آسمان ِدنیا کے بارہ برج متعین کیے ہیں مگر قرآن مجید کے بروج سے مراد وہ بُرج نہیں ہیں۔ بروج سے مراد کچھ اہل علم نے پہلے آسمان کے دروازے لیے ہیں۔ جن دروازوں کے ذریعے ملائکہ زمین پر اترتے ہیں اور پھر آسمان میں داخل ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کرنے کی گنجائش موجود ہے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بروج سے مرادوہ مقام ہوں جہاں ملائکہ شیاطین پر شہابِ ثاقب پھینکتے ہیں۔اکثر اہلِ علم نے بروج سے مراد ستارے اور سیارے لیے ہیں جن سے آسمان کو خوبصورت اور محفوظ کیا گیا ہے۔
’’شہاب مبین ‘‘ کے لغوی معنی ’’ روشن شعلہ‘‘ ہے ۔ دوسرے مقام پر قرآن مجید میں اس کے لیے ’’شہابِ ثاقب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، یعنی ’’اندھیرے کو چیرنے والا شعلہ ۔ ‘‘ اس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارہ ہی ہو جسے ہماری زبان میں شہاب ِثاقب کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ شعاعیں ہوں ، یعنی کائناتی شعائیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی زیادہ شدید قسم کی کوئی چیز جو اب تک سائنس دانوں کے علم میں نہ آئی ہو۔ ممکن ہے کہ یہ شہاب ثاقب وہ ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں ۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے معلوم ہوا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہاب ِثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے ہیں، ان کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب یومیہ ہے جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتے ہیں اور ان میں بمشکل ایک آدھ زمین تک پہنچتا ہے ۔ ان کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے جو بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے ۔ کئی دفعہ ایساہواہے لوگوں نے اپنی آنکھوں سے ٹوٹنے والے ستاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے ۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصف شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہاب ِثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے ۔ (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ) ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف سے شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ المَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ - قَالَ عَلِيٌّ: وَقَالَ غَيْرُهُ: صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ - فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ، قَالُوا لِلَّذِي قَالَ: الحَقَّ، وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ - وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ، وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ اليُمْنَى، نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ - فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ المُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَيُحْرِقَهُ، وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ، إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ، حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الأَرْضِ - وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الأَرْضِ - فَتُلْقَى عَلَى فَمِ السَّاحِرِ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُصَدَّقُ فَيَقُولُونَ: أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا، يَكُونُ كَذَا وَكَذَا، فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا؟ لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاءِ [رواہ البخاری باب قَوْلِہِ إِلاَّ مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَہُ شِہَابٌ مُبِینٌ ]
’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُنہیں نبی ﷺکی یہ حدیث پہنچی کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتے عاجزی کے ساتھ اپنے پر ہلاتے ہیں جس طرح چٹان پر کوئی چیز گھسٹنے سے آواز نکلتی ہے۔ سیدناعلی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے بارے میں یوں فرماتے ہیں ملائکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا نفاذ کرتے ہیں جب اُن کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں: آپ کے رب نے کیا فرمایا؟ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ جو فرمایا حق فرمایا وہ سب سے بلند و بالا ہے۔ شیاطین اس سے چوری چھپے کچھ سُن لیتے ہیں۔ اُن کے سننے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہوتے ہوئے آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بیان کرنے والے راوی سفیانؒ نے اپنے ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھتے ہوئے یہ ذکر کیا۔ کئی مرتبہ سننے والے شیطان پر شہاب ثاقب پڑتا ہے اس سے پہلے کہ وہ اُس بات کو اپنے ساتھی تک پہنچائے وہ اس کو جلا دیتا ہے اور بسااوقات شہاب ثاقب اُسے نہیں لگتا۔اس وقت تک وہ شیطان اُسے نیچے والوں تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ یہ بات چلتے چلتے زمین والوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تابعی حضرت ابو سفیانؒ کہتے ہیں اُسے شیاطین جادو گر کے دماغ میں القاء کرتے ہیں ۔ وہ اُس کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے، اُس کی ایک سچی بات کی وجہ سے اُس کی تصدیق کی جاتی ہے۔ وہ لوگوں سے کہتا ہے میں نے فلاں فلاں موقع پر تمھیں فلاں فلاں بات نہیں بتلائی تھی؟ جو سچ ثابت ہوئی تھی اس لیے کہ وہ بات اسے شیاطین کے ذریعے آسمان سے پہنچی تھی ۔ ‘‘
وَأَنَّا لَمَسْنَا السَّمَائَ فَوَجَدْنَاہَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِیدًا وَشُہُبًا وَأَنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہُ شِہَابًا رَصَدًا
’’اور بے شک ہم نے آسمان کو ٹٹولا ، دیکھا کہ وہ پہرے داروں اور شہابوں سے بھرا پڑا ہے۔اس سے پہلے ہم کچھ سننے کے لیے آسمان کے قریب بیٹھنے کی جگہ پالیتے تھے مگر اب جو سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے شہابِ ثاقب پاتا ہے۔‘‘(الجن8۔9)
نبیؐ کی بعثت سے پہلے جِنّات آسمان کے دروازوں کے قریب جاکر کوئی نہ کوئی بات سن لیا کرتے تھے پھر وہ باتیں کسی کاہن کے دل میں ڈالتے تھے۔اس بنا پر کاہن غیب دانی کا دعویٰ کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب نبی علیہ السلام کونبوت عطا فرمائی تو آسمان کی حفاظت کا خصوصی بندوبست فرمادیا تاکہ جِنّات کسی طرح بھی آسمان کی باتیں نہ سن سکیں۔ اس بنا پر مسلمان ہونے والے جِنّات نے اپنے ساتھیوں کو بتلایا کہ اب آسمان کی حفاظت کے لیے پہرے دار بٹھادیئے گئے ہیں اورشہابِ ثاقب ہمارا تعاقب کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کوزمین میں حکمرانی عطا فرمائی اورزمین و آسمانوں کی ہر چیز کواس کی خدمت پر لگایا۔ (الجاثیۃ:۳۱)
اوراسے حکم دیا کہ میرے سوا تونے کسی کے سامنے نہ جھکنا ہے اورنہ ہی کسی کواپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھنا ۔مگر بے شمار لوگوں نے ’’ اللہ تعالیٰ‘‘پر ایمان لانے اورصرف اُس کی عبادت کرنے کی بجائے اس کے شریک بنائے اوراس کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے اپنی فریادیں، رکوع وسجود اورنذر ونیاز پیش کرتے ہیں۔
قُلْ أَرَأَیْتُمْ شُرَکَاء َکُمُ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَیْنَاہُمْ کِتَابًا فَہُمْ عَلَی بَیِّنَتٍ مِنْہُ بَلْ إِنْ یَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا (فاطر:40)
’’اے نبی ان سے فرمائیں کہ کبھی تم نے اپنے اُن شریکوں کے بارے میںغور کیا ہے جنہیں تم ’’ اللہ‘‘ کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہو؟ مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے یا آسمانوں میں ان کی کیا شراکت ہے یاہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ دی ہے ؟جس بنا پر یہ واضح ثبوت رکھتے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ ظالم ایک دوسرے کو دھوکہ دیئے جا رہے ہیں۔‘‘
ایسے لوگوں کو چیلنج کے انداز میں مخاطب کیا گیا ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کے سواپکارتے ہو،دکھائو انہوںنے پور ی دھرتی میںکونسی چیز پیدا کی ہے ؟ یا آسمانوں کی بناوٹ اوران کے درمیان بسنے والی مخلوق میں سے کس کی تخلیق میں وہ شامل تھے اور ہیں ؟ یا ان کے پاس کوئی ایسی آسمانی کتاب ہے جس میں ان کے عقیدہ اور طریقہ کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ دلیل ہو ؟اگر کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کرو۔ ظاہرہے کہ ان کے شریکوں نے زمین وآسمانوں اور پوری مخلوق میں سے نہ کسی چیز کو پیدا کیا ہے اورنہ ہی یہ آسمانوں کی ساخت اور پرداخت میں شریک تھے اور نہ ہی ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کی کوئی دلیل ہے۔
ان کے شرکیہ عقائد اوراعمال کااس کے علاوہ کوئی وجودنہیں کہ یہ جھوٹی داستانوں ،من گھڑت کہانیوں اور بناوٹی کرامات کے ساتھ ایک دوسرے کودھوکادیتے ہیں۔ چنانچہ بتوں کے پجاری اپنے اپنے بتوں اور قبروں کے مجاور مزارات کے بارے میںجھوٹی کرامات اور مشکل کشائی کے من گھڑت واقعات بیان کرتے ہیں۔ تاکہ بتوں کے پوجنے والوں اور قبروں کے پرستاروں سےاپنے اپنے انداز میںنذر و نیاز وصول کرتے رہیں۔یہاں تک کہ آخرت کے بارے میںبھی دھوکا دیتے ہیںکہ یہ بزرگ ’’ اللہ ‘‘ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ باربار یہ حقیقت بتلائی اور سمجھائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کائنات کا کوئی خالق اور مالک نہیں۔ چاہیے تو یہ کہ لوگ اپنے خالق اور مالک کی بندگی کریں اور اس کا حکم مانیں لیکن بے شمار لوگ ’’اللہ‘‘ کو خالق اور مالک ماننے کے با وجود دوسروں کی بندگی اورغلامی کرتے ہیں ۔ان لوگوں کے کان کھولنے کے لیے مزید فرمایا :
قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللہِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ ائْتُونِی بِکِتَابٍ مِنْ قَبْلِ ہَذَا أَوْ أَثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ (الاحقاف:4)
’’اے نبیﷺ! ان سے فرمائیںکبھی تم نے غور کیا ہے کہ جنہیں تم ’’اللہ‘‘کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کیا حصہ ہے ؟اس سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب یا تمہارے پاس کوئی علمی دلیل ہے اگر تم سچے ہو تو اُسے پیش کرو ۔‘‘
ظاہر بات ہے کہ ان کے پاس کسی آسمانی کتاب کا حوالہ اور کوئی عقلی اور علمی ثبوت نہیں۔ مگر پھر بھی ذاتِ کبریا کے سوا دوسروں کے سامنے جھکتے اور انہیں پکارتے ہیں۔ان کے باطل عقیدہ کی کلی کھولتے ہوئے یہاں یہ بات سمجھائی ہے کہ دین اللہ کی کتاب ،نبی کی سنت اور ٹھوس علمی ثبوت پر مبنی ہے۔ اس کے سوا کسی کی رائے دین کی تشریح میں معاون تو ہوسکتی ہے مگر دین کہلوانے کی حقدار نہیں ہو سکتی۔ جہاں تک کفّار سے اس سوال کا تعلق ہے کہ جن کی وہ عبادت اورغلامی کرتے ہیں انہوں نے زمین و آسمان میں کیا پیدا کیا ہے تو ہر مشرک اورکافر اس کا اقرار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ زمین وآسمان اور ہر چیز کو صرف اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا ہے۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جسے دماغ کی حاضری اور دل کی حضوری کے ساتھ سنا جائے تو انسان کا کلیجہ کانپ اٹھتا ہے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي المَغْرِبِ بِالطُّورِ، فَلَمَّا بَلَغَ هَذِهِ الآيَةَ: {أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الخَالِقُونَ، أَمْ خَلَقُوا السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ بَلْ لاَ يُوقِنُونَ، أَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبِّكَ أَمْ هُمُ المُسَيْطِرُونَ} " قَالَ: كَادَ قَلْبِي أَنْ يَطِيرَ (رواہ البخاری:باب و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب)
’’ محمدرحمہ اللہ اپنے والد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے مغرب کی نماز میں اللہ کے رسول ﷺ سے سورۃ طور سنی جب آپ اس آیت پر پہنچے۔ ’’کیا وہ کسی خالق کے بغیر پیدا ہوگئے ہیں؟ یا وہ خود اپنے آپ کے خالق ہیں؟ یا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ یقین نہیں رکھتے ۔کیا تیرے رب کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟ یا اُن پر ان کا کنٹرول ہے؟‘‘ یہ آیات سنتے ہوئے قریب تھا کہ میرا کلیجہ پھٹ جاتا۔‘‘
وَلَئِنْ سَأَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَیَقُولُنَّ خَلَقَہُنَّ الْعَزِیزُ الْعَلِیمُ (الزخرف:9)
’’اگر تم ان لوگوں سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ کہیں گے کہ انہیں زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔‘‘
قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ سَیَقُولُونَ لِلہِ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ (المؤمنون:86۔87)
’’ان سے پوچھیں ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے وہ ضرور کہیں گے اللہ ہی مالک ہے فرمائیں پھر تم شرک کرتے ہوئے ڈرتے کیوں نہیں ہو؟‘‘
اہلِ مکہ رسمی طور پر مانتے تھے کہ انہیں اورزمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے لیکن حقیقی طور پر ان کااللہ تعالیٰ کی ذات اور فرمان پر ایمان نہیں تھا۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ُاسے بلا شرکتِ غیر مانا جائے اور خالص اسی کی عبادت کی جائے اور اسی کے حضور ہاتھ پھیلائے جائیں اور اسے تمام اختیارات کا مالک سمجھتے ہوئے اس پر بھروسہ کیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کے اثبات اور وضاحت کے لیے شمس وقمر، لیل و نہار اور آفاق و افلاک کو ثبوت کے طور پر پیش فرما کر انسان کو سمجھایا اور مطالبہ کیا ہے کہ شمس وقمر اور کائنات کے خالق و مالک کی خالص عبادت کی جائے ۔کسی اور کی عبادت کرنا شرک اور جرم ہے اس سے ہر صورت بچنا ہو گا۔
فَادْعُوااللّٰہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ (المؤمن:14)
اے لوگو! صرف ایک اللہ ہی کو پکارو اپنی اطاعت اس کے لیے خالص کر تے ہوئے ۔بے شک یہ کام کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْأَمْرَ مَا مِنْ شَفِیعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِہِ ذَلِکُمُ اللَّہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ أَفَلَا تَذَکَّرُونَ (یونس:3)
’’یقینا تمھارا رب ’’اللہ‘‘ ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر بلند ہواوہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کی اجازت کے بغیرکوئی سفارش کرنے والا نہیں ، اللہ ہی تمھارا رب ہے ، بس اس کی عبادت کرو ، کیا تم نصیحت حاصل نہیںکرتے ؟‘‘
إِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبُّ الْعَالَمِینَ اُدْعُوا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ (الاعراف:54۔55)
’’بے شک تمہارا رب ’’اللہ‘‘ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیداکیا، پھرعرش پرجلوہ افروز ہوا ،وہ رات کو دن پراوڑھاتا ہے جو تیز چلتاہوا اس کے پیچھے چلاآتا ہے ۔سورج ، چاند اور ستارے پیداکیے ، اس حال میں کہ اس کے حکم کے تابع ہیں۔ سن لو پیدا کرنا اور حکم دینا اللہ ہی کا کام ہے ،اللہ بہت برکت والا ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔اپنے رب کو گڑگڑا کر اور خفیہ انداز میں پکارو ،بے شک وہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
---