وحوش وطیور کو سدھارنا ، ان کو وقت اور کام کا پابند کرنا اتنا دشوار اور مشکل کام نہیں ہے جتنا کہ کسی انسان کو اس کے نظریات وعقائدسے دستبردا رکروانا ہے ، کیونکہ جب کوئی شخص اپنے عقائد پر پختگی سے کا ربند ہو تا ہے تو اس کے خلاف کسی قسم کی بات سننے پر آمادہ اور راضی نہیں ہو تا۔ لیکن اس کائنات رنگ وبو اور جہان آب وگل میں اللہ رب العزت نے کچھ ایسی ہستیاں بھی پیدا کی ہیں کہ جن کے نظریات سے متاثر ہو کرمتعصب ترین انسان بھی اپنے نظریات سے پہلو تہی کرتا ہوا نظرآتا ہے انہی برگزیدہ ہستیوں میں سے سب سے نمایاں ہستی تاجدار مدینہ ، ختم المرتبت ، نبی الفت ومحبت جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہستی بھی ہے انہوں نے اس وقت کہ جب عرب کے باسی تہذیب وثقافت سے نابلد ، اخوت ومحبت سے ناواقف ، خالص عبادت وریاضت سے کوسوں دور ، عقیدہ وحدت الٰہ سے یکسر محروم تھے ، فاران کی چوٹیوں سے دعوت توحید دی ، اس دعوت پر لبیک کہنے والے خوش بخت انسان ، انسانیت کے ماتھے کا جھومر بنے لیکن اپنی روایتی ہٹ دھرمی کا اظہار کرنے والے بدبخت لوگ قعر مذلت میں ڈوب گئے ۔
کیا کبھی ہم نے غوروفکر کیا ہے کہ پیغام محمدی صلی اللہ علیہ و سلم پر لبیک کہنے والوں پر آج بھی تاریخ رشک کر رہی ہے اور ہم اسی پیغام کو پس پشت ڈال کر اشک بہا رہے ہیں ۔ کیا کبھی ہم نے اپنے گریبانوں میں جھانکا ہے کہ ہم نے ختم الرسل صلی اللہ علیہ و سلم کے عطا کیے ہوئے سنہری اصول حیات کو بروئے کار لانے کیلئے کیا کیا ہے ؟ کیا ہم نے من حیث القوم دعوت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی زندگی میں جگہ دی ہے ؟ یقینا ہم سے کہیں بھول ہوئی ہے بلا شبہ ہم بھی دعوت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا مختلف حیلوں سے انکار کرتے ہیں ، کیا رسول ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں وحدت الٰہ کا درس نہیں دیا ، مگر ہم ہر دور میں مختلف چیزوں کو اس عظیم مرتبہ پر فائز کر تے ر ہے ، سیرت نے تو ہمیں ’’اَلا اِنَّ القُوَّۃَالرَّمَی‘‘ (قوت وطاقت تیر اندازی میں ہے )کا درس دیا لیکن ہم نے خواب خرگوش سے بیدار ہونا گوارا نہ کیا ، سیر ت طیبہ نے تو ہمیں ’’اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کَافَّۃ ‘ ‘(اسلام میں مکمل طور پر داخل ہو جاؤ)کی تلقین کی مگر ہم نے ’’یُؤمِنُون بِبَعضِ الکِتَابِ وَیَکفُرُونَ بِبَعض‘‘ (شریعت کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہیں اور بعض احکام کا انکار کرتے ہیں )کو ہی اپنا وطیرہ بنا لیا ، سیرت تو ہمیں ’’اِعتَصِمُوا بِحَبلِ اللّٰہِ جَمِیعًا‘ (تم سب اکٹھے ہو کراللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو) کی وصیت کرتی ہے مگر ہم ہیں کہ معمولی اختلاف پر ڈیڑ ھ اینٹ کی مسجد کو استوار کرنے کے لیے تیار ہیں ، پیغام محمدی صلی اللہ علیہ و سلم تو ’’اَلحَیَائُ مِنَ الاِیمَان‘ ‘(حیاء ایمان کا حصہ ہے )ہے مگرہم نے زبان حال سے ’’اِذَا لَم تَستَحیِ فاَصنَع ما شِئتَ ‘‘(جب حیاء رخصت ہو جائے تو جو جی میں آئے کرو) کو اپنا مطمع نظر بنا لیا ہے ، پیکر اخلاص صلی اللہ علیہ و سلم تو ہمیں ’’لا فَضلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی عَجَمِیٍ ‘‘(کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے )کی کسوٹی فراہم کرے مگر ہم ہیں کہ دوستی اور دشمنی کیلئے لسانی ، علاقائی ، جماعتی اور قومی وابستگی کو مد نظر رکھتے ہیں ، محسن انسانیت تو ’’یَضَعُ عَنہُم اِصرَھُم وَالاغلَالَ الَّتِی کَانَت عَلَیھِم ‘‘(رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ان بندشوں کو ختم کرتے ہیں جو لوگوں نے اپنے اوپر عائد کر لی ہیں اور اس بوجھ سے نجات دلاتے ہیں جو ان پر لاد دیا گیا ہے )خودساختہ رسوم ورواج سے آزاد کروانے آئے مگر ہم ہیں کہ دوبارہ سے انہی جاہلیت کے رسم ورواج کو اپنی گردنوں کا طوق بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ’’مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم ‘‘ (جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہی میں سے ہے ) کی وعید سنائیں اور ہم ہیں کہ اغیار کی نقالی کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’یَا فَاطِمَۃَ بِنتَ مُحَمَّدٍ : اِعمَلِی فَاِنِّی لَا اَغنِی عَنکِ مِنَ اللّٰہِ شَیئًا‘‘(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی : اعمال میں سبقت لے جاؤ میں قیامت کے دن تمہیں بچا نہیں سکتا ) کہہ کر طبقاتی کشمکش کا استحصال کیا مگر اسی پیغمبر کے ماننے والے اپنے عزیزواقارب کو بڑ ے بڑ ے مناصب سے نوازتے ہیں ۔ احترام انسانیت کی بنیادیں استوار کیں اور فرمایا:’’ کُلُّ المُسلِمِ عَلَی المُسلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہ وَعِرضُہ‘‘ (ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ، مال اور عزت وآبروحرام ہے )لیکن ہم ہیں کہ خون مسلم کے پیاسے ، مال غیر کو ہڑ پ کرنے کے رسیا اور عزت وآبرو کو سربازار تار تار کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں ۔
سیرت طیبہ نے ہمیں اعتماد علی النفس اور خود داری کی اعلیٰ صفات کو اجاگر کرنے کا درس دیا تاکہ ایک طرف ہر ہر فرد بذات خود قوت کی چٹان بن جائے تو دوسری طرف پوری امت و ملت قوت وطاقت کا ایسا ہمالہ بن جائے جو حوادث کے ہجوم اور جنگجوؤں کی شعلہ باری کے موقع پر غیروں کے در پر کاسہ گدائی کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات سے نکلنے والی ہو ۔
منتظم اعظم صلی اللہ علیہ و سلم نے تو ہمیں دنیا پر اعلاء کلمۃ اللہ کیلئے نظام حکمرانی عطا کیا مگر ہم نے مغربی جمہوریت کو ہی بہترین نظام سمجھا اور اختیار کیا رسول عربی صلی اللہ علیہ و سلم تو ہمیں غریب پروری ، انسانی ہمدردی ، غم خواری کا درس دیں مگر نسبت محمدی پر فخر کرنے والے متمول افراد ہی غریبوں کو نان شبینہ سے محروم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔والی اللہ المشتکی۔
نام محمد اور پیغام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہماری بے وفائی کا خمیازہ ہے کہ آج اغیار رحمت کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے توہین آمیز خاکے شائع کر رہے ہیں ایسے لمحے قوموں میں بیداری کا باعث بنتے ہیں ، بقول شاعر: ’’ مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفان مغرب نے ‘‘ضرورت اس بات کی ہے کہہ ہم ان لمحات کو غنیمت جانتے ہوئے اصلاح اعمال کیلئے کمر بستہ ہو جائیں ، اغیار اور دشمنوں کا یہ انداز ہمیں مجموعی طورپر اپنی اصلاح کی طرف متوجہ بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اہل اسلام میں بے حسی حد سے بڑ ھ گئی ہے ورنہ خبیث مزاج انسانوں کو اس کی جرأت نہ ہوتی ، آئیے اپنے دلوں میں داعی اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت وسیرت کے ساتھ وہ محبت وجذبہ پیدا کریں کہ ان کے بارے میں کسی کو بکواس کی جرأت پیدا نہ ہو ، یاد رہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ایمان کا جزو لا ینفک ہے لیکن یہ محبت اسی وقت باعث نجات ہو گی جب احکام محمدی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے گا ۔اس موقع پر ہمیں مثبت کام کرنے کی ضرورت ہے مثلاً:
٭اقتصادایک مؤثر اور سریع الاثر ہتھیار ہے ، معاشی بائیکاٹ خاکوں والوں کو خا ک میں ملا سکتا ہے ، مجرم ممالک سے سفارتی تعلقات کو ختم کرنا ہی محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا عملی مظاہر ہ ہے ۔
٭عرب ممالک کے پاس تیل کی صورت میں اللہ کا خزانہ ہے عرب ممالک تیل کے ذریعے عالمی منڈی سے یہودوہنود کو بھگا سکتے ہیں ۔
٭ اقوام متحدہ سے جان چھڑ انا ہو گی کیونکہ یہ امریکہ کے مفادات کی نگران اور اس کے جرائم کو سند جوا ز فراہم کرنے والا ادارہ بن چکا ہے ، ویسے بھی اقوام متحدہ صرف مسلمانوں کے مفادات کے خلاف ہی ’’متحد ‘‘ ہے اور اقوام سے مراد درحقیقت اقوام کفا رہے نہ کہ جملہ اقوام ۔
٭علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکمران طبقہ اورعوام الناس کو ناموس رسالت کے بارے میں مکمل رہنمائی فراہم کریں ۔ محض جذباتی نعرے اور دوچار ہزار افراد کا جلوس نکالنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔الغرض حالات کو سدھارنے اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کیلئے سیرت مدثر و مبشر صلی اللہ علیہ و سلم کا مطالعہ اوراس سے اخذ کردہ مسائل پر کما حقہ عمل پیرا کرنا ہو گا ۔ بقول امام مدینہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ: (لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا )
ترجمہ: ’’ اس امت کے آخری لوگوں کی اصلاح انہی اصول وضوابط کو بروئے کار لا کر ہو سکتی ہے جس کے ساتھ پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی ‘‘ یہی صاحب اسوہ حسنہ کا پیغام لازوال ہے اس کی پیروی میں ہی دنیا وآخرت کی کامیابی ہے ۔
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام yپر ڈھیروں درودو سلام ہوں۔
حمد اور درود و سلام کے بعد:
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، بہترین رَختِ سفر تقویٰ ہی ہے اور اخلاص سے بھرا ہوا عمل بہترین عمل ہے۔
مسلمانو!
اللہ تعالی نے جن و انس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا اور انہیں اپنے فرامین کی تابعداری کا حکم دیا، چنانچہ اطاعت گزاروں کیلئے سعادت لکھ دی۔
اِسی لئے عبادتِ الہی ہی ایک ایسا قلعہ ہےکہ اس میں داخل ہونے والا ہر شخص پُر امن اور نجات یافتہ ہوگا، عبادتِ الہی خیر ہی خیر ہے، اس میں کوئی نقصان والی بات ہی نہیں، اسی لئے تو بے عملوں کے متعلق فرمایا:
وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوْا بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللهُ
اور ان کا کیا بگڑتا تھا اگر وہ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آتے اور جو اللہ نے انہیں مال و دولت دیا تھا اس سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے۔ [النساء: 39]
اس زمین پر تمام خوشیاں اللہ اور اُسکے رسول کی اطاعت کے باعث ہیں، امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتےہیں:’’جو شخص بھی اس کائنات میں رونما ہونے والے مسائل اور نقصانات پر غور و فکر کریگا وہ اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کائنات کو پیش آنے والا ہر مسئلہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ہے‘‘
اور اس کائنات پر تمام خوشیاں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے باعث ہیں، بالکل اسی طرح کسی بھی شخص کو ذاتی طور پر پہنچنے والا رنج و غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندو ں پر رحم کرتے ہوئے دعوتِ الہٰی قبول کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:
اسْتَجِيْبُوْا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللهِ [الشورى: 47]
اس دن کے آنے سے پہلے پہلے اپنے رب کی بات مان لو جس دن کو اللہ کی طرف سے کوئی ٹال نہیں سکتا۔
چنانچہ مؤمنین نے اللہ تعالی کی بات کو دل سے قبول کیا اور کامیاب ہوگئے، جیسے کہ قرآن مجید نے بیان کیا:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ إِذَا دُعُوْٓا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَّقُولُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [النور: 51]
مومنوں کی تو بات ہی یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جائے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم نے سن لیا اور اطاعت کی‘‘ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
اس عمل کی وجہ سے انکے ضمیر بھی زندہ رہے، اور عالیشان مرتبہ بھی پایا، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اسْتَجِيْبُوا لِلهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ
اے ایمان والو! جب تمہیں زندگی بخش احکامات کی دعوت دی جائے تو فورا قبول کرو۔ [الأنفال: 24]
پھر جس نے بھی فوراً اطاعت گزاری کی اللہ تعالی نے اُسے مزید راہنمائی عطا فرمائی، اِسی لئے فرمایا:
وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ
اور جن لوگوں نے ہدایت پائی اُنہی لوگوں کو مزید راہنمائی عنائت کی اور انہیں تقوی بھی عطا فرمایا۔ [محمد: 17]
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتےہیں: "انسان جتنا زیادہ جنابِ محمد رسول اللہ ﷺکا پیروکار ہوگا، اسی بقدر تو حید پرست اور اخلاص کے ساتھ عبادت کریگا، اور اسکے برعکس جیسے اتباعِ محمد ﷺ میں کمی آئے گی بالکل اسی طرح دینداری میں بھی کمی آئےگی۔
اور جو شخص اپنے رب کی بات مانتا ہے، اللہ تعالی اسکی دعائیں بھی قبول فرماتا ہے، چنانچہ قرآن مجید میں فرمایا:
وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
اور اللہ تعالی اُن لوگوں کی دعائیں قبول فرماتا ہےجو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ [الشورى: 26]
مزید برآں کہ اللہ تعالی اُس سے محبت بھی فرماتا ہے، اور جنت کا داخلہ بھی نوازتا ہے، چنانچہ فرمایا:
لِلَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمُ الْحُسْنٰى
جن لوگوں نے اپنے رب کے احکامات کی تعمیل کی ان کیلئے حسنی ہے [الرعد: 18]
یہاں "حسنی" سے مراد جنت ہے۔
انبیاء کرام نے بھی اطاعت و فرماں برادری کرتے ہوئے فوراً حکم کی تعمیل کی، چنانچہ جب اللہ تعالی نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو فرمایا: أَسْلِمْفرمانبردار ہوجاؤ [البقرة: 131] تو ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا: قَالَأَسْلَمْتُلِرَبِّالْعَالَمِينَمیں رب العالمین کیلئے فرمانبردار بن گیا۔ [البقرة: 131]
اور جب اُنہیں اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل کو ذبخ کرنے کا حکم دیا گیا تو فوراً عمل کیلئے زمین پر لٹا دیا، اور انکے بیٹے نے بھی کیا کہا:
يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّابِرِينَ
ابا جی! آپ حکم کی تعمیل کیجئے! ان شاء اللہ مجھے آپ صبر کرنے والا پاؤ گے۔ [الصافات: 102]
سیدناموسی علیہ السلام نے بھی اپنے رب کو راضی کرنے کیلئے فوری طور پر عمل کرکے دیکھایا جسکا قرآن نے تذکرہ کیا:
وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى [طه: 84]
اور میں نے تیرے حضور آنے میں اس لئے جلدی کی تاکہ تو مجھ سے راضی ہوجائے ‘‘
اسی طرح جب اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام رضی اللہ عنہم سے جنابِ محمد ﷺکی بعثت کے متعلق میثاق لیا کہ آپ پر ایمان بھی لائیں گےاور مدد بھی کرینگے تو سب انبیاء نے کہا تھا: أَقْرَرْنَا ہم سب (اسکا )اقرار کرتے ہیں۔ [آل عمران: 81]
اور جب اللہ تعالی نے ہمارے پیارےنبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا:قُمْ فَأَنْذِرْ کھڑے ہوجاؤ اور اللہ سے ڈراؤ۔ [المدثر: 2] تو لوگوں کو توحید کی دعوت دینے کیلئے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے، اور جب اللہ تعالی نے حکم دیا:
قُمِ الليْلَ إِلَّا قَلِيلًا [المزمل: 2]
تھوڑے سے وقت کے علاوہ ساری رات قیام کرو۔ تو اتنا لمبا قیام کرنے لگے کہ آپکے قدم مبارک ہی سوج گئے۔
سیدناعیسی علیہ السلام کے حواریوں نے آپ علیہ السلام کی بات فوراً قبول کی جسکا ذکر قرآن نے بھی کیا:
مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ قَالَ الْـحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ آمَنَّا بِاللهِ ( آل عمران: 52)
(عیسی علیہ السلام نے کہا)اللہ کیلئے میرا کون مدد گارہے؟ حواریوں نے کہا: ہم اللہ کیلئے مدد گار ہیں، ہم اللہ پر ایمان بھی رکھتے ہیں
انسان تو کیا جنوں نے اللہ کی دعوت قبول کرنے کیلئے ایک دوسرے کو ترغیب دلائی چنانچہ قرآن نے انکی بات کو نقل کیا:
يَا قَوْمَنَا أَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللهِ وَآمِنُوْا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی بات مان لو، اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور درد ناک عذاب سے پناہ بھی دےگا۔[الاحقاف: 31]
صحابہ کرام y نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ، اخلاص اور احکام الٰہیہ و نبویہ پر فورا عمل کی وجہ سے بہت سے فضائل حاصل کئے؛ جسکی وجہ سے اللہ کے ہاں انکے درجات اور بلند ہوگئے، انہیں نماز کی حالت میں تحویلِ قبلہ کے متعلق بتلایا گیا تو وہ اُسی وقت بیت اللہ کی جانب مڑ گئے، انہوں نے اس حکم پر عمل آئندہ نماز تک مؤخر کرنا بھی گوارہ نہ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی تو انہوں نے نفیس ترین مال پیش کیا،سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آدھا مال پیش کیا، جبکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سارا مال پیش کردیا، اسی طرح جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس شخص نے جیشالعسرۃکو تیار کیا اُسکے لئے جنت ہے) تو عثمان رضی اللہ عنہ نے تیار کردیا، (بخاری)
اسی طرح جب فرمانِ باری تعالی نازل ہوا:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ
اس وقت تک کمال نیکی نہیں پاسکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کردو۔[آل عمران: 92]
تو سیدناابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺکو عرض کیا: "اللہ کے رسول! میرا محبوب ترین مال (بیرحاء) ہے اور میں اُسے اللہ کیلئے صدقہ کرتا ہوں" (بخاری)
چھوٹی عمر کے صحابہ کرام y بھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے پر پکے تہجد گزار بن جاتے تھے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو صغر سنی میں کہا تھا: (عبد اللہ تو بہت اچھا آدمی ہے، بس رات کو قیام کیا کرے!!) اِس کے بعد سےعبداللہ رات کو کم ہی سوتے تھے۔ (بخاری مسلم)
صحابہ کرام y نے اطاعتِ الہی کرتے ہوئے نبی اکرمﷺ پر اپنی جانیں نچھاور کردیں، چنانچہ سیدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسوقت آئے جب آپ مشرکین کے خلاف دعوتِ جہاد دے رہے تھے، تو مقداد نے آکر کہا: "ہم ایسے نہیں کہیں گے جیسے موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہا:
فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ
جاؤ تم اور تمہارا رب جا کر جنگ لڑو، ہم تو یہی بیٹھے رہے گے۔ [المائدة: 24] بلکہ ہم آپکے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہر طرف سے لڑائی کرینگے۔
سیدنا ابن مسعورضی اللہ عنہ اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا: آپکا چہرہ مبارک خوشی سے چمک رہا تھا۔ (متفق علیہ)
کسی بھی کام یا بات کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ممانعت سُن کر صحابہ کرام y بلا چوں چِراں اُس سے رک گئے، صرف اس لئے کہ آپکی بات پر فوراً عمل ہونا چاہئے، جاہلیت سے انکی زبانیں آباء واجداد کی قسمیں اٹھانے کی عادی تھیں، چنانچہ آپ ﷺنے فرمایا: (اللہ تعالی تمہیں اپنے آباء واجداد کی قسمیں اٹھانے سے منع کرتا ہے) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : اللہ کی قسم جب سے میں نے آپ ﷺکی یہ بات سنی ہے اُس وقت سے اب تک میں نے غیر اللہ کی قسم نہیں اٹھائی حتی کہ کسی کی بات کرتے ہوئے غیر اللہ کی قسم کی حکایت بھی نہیں کی۔ (مسلم)
ایک دن سب کو بھوک لگی ہوئی تھی اسکے باوجود انہوں نے کھانا پکانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کی وجہ سے کھانا ہی چھوڑ دیا، چنانچہ غزوہ خیبر کے موقع پر گھریلو گدھے حلال تھے انہوں نے ان کا کھانا پکایا، تو رسول اللہ ﷺکی طرف سے اعلان کرنے والے نے کہا: (اللہ اور اسکا رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں؛ یہ پلید اور شیطانی عمل ہے)سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ’’گوشت سے بھری ہانڈیوں کو سالن سمیت انڈیل دیا گیا‘‘( متفق علیہ)
شراب ابتدائے اسلام میں حلال تھی، صحابہ کرام y نے گلی میں چلتے پھرتے آدمی کی آواز سن کر شراب کو انڈیل دیا، چنانچہسیدنا ابو نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دن ابوطلحہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پیش کر رہاتھا، تو شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوگیا، اور کسی نے آواز لگائی، تو ابو طلحہ نے کہا: دیکھو یہ آواز کیسی ہے؟ ابو نعمان گئے، اور آکر کہا: "کوئی اعلان کر رہا ہے کہ شراب حرام کردگئی ہے"، تو انہوں نے مجھے کہا: جاؤ اورساری شراب کو انڈیل دو، ابو نعمان کہتے ہیں: "شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی" (متفق علیہ)
ایک روایت میں ہے: "کسی نے بھی اس شخص کی آواز لگانے کے بعد شراب کے متعلق کوئی تبصرہ کیا اور نہ ہی پوچھا "صحابہ کرام y نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لبا س میں بھی دیوانہ وار پیروی کرتے تھے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ : "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے کیلئے بنوائی ،آپ انگوٹھی کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا کرتے تھے، آپ ﷺکو دیکھ کر لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں، پھر آپ ﷺنے ایک دن منبر پر بیٹھ کر فرمایا: (میں یہ انگوٹھی پہنا کرتا تھا، اور اسکا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتا تھا) اور پھر آپ ﷺنے اُسے پھینک دیا، اور فرمایا: (اللہ کی قسم! آج کے بعد کبھی بھی نہیں پہنونگا) تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں‘‘(متفق علیہ)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی وقت اپنے پاس وصیت لکھ کر رکھ لی جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا: (مسلمان شخص کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی اس حالت میں گزارے کہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہو جس کے متعلق وصیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہو) (متفق علیہ)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : "جس وقت سے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے، اس وقت سے ایک رات بھی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت لکھی ہوئی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے زبان کی حفاظت کیلئے نبوی نصیحتوں پر عمل کی بھی عمدہ مثالیں پیش کیں، چنانچہ سیدناجابر بن سلیم tکہتے ہیں: میںنبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ!میں گاؤں کا باشندہ ہوں اور مجھ میں انہی جیسی سختی ہے، چنانچہ مجھے کوئی نصیحت کردیں، آپ نے فرمایا: (کسی کو گالی نہیں دینی) سیدناجابر کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺکی اس نصیحت کے بعد کسی بکری ، یا اونٹ کو بھی گالی نہیں دی۔(احمد )
صحابہ کرام y نے اپنی حرکات و سکنات کو بھی نبی مکرم ﷺ کے فرامین کے تابع کردیا تھا، چنانچہ غزوہ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےسیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا تھمایا، اور فرمایا: (چل پڑو، جب تک اللہ تعالی تمہارے لئے فتح نہ لکھ دے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا) چنانچہ حکم کے مطابق آپ چل پڑے کچھ دور جا کر کھڑے ہوگئےاور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دور ہونے کی وجہ سے اونچی آواز کے ساتھ چلا کر بولے:’’کس چیز پر یہود سے قتال کروں؟‘‘لیکن اپنا چہرہ نہیں موڑا، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا’’مڑ کر نہیں دیکھنا۔‘‘(مسلم)
صحابہ کرام y آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممنوع کردہ اشیاء سے کوسوں دور ہوگئے، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرنے پر مسلمانوں کی فتح کیلئے ظاہری مصلحت ہی کیوں نہ نظرآئے؛ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ کو غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا: (حذیفہ کھڑے ہوجاؤ، مشرکین کے متعلق خبر لیکر آؤ، اور اُنہیں میرے خلاف مت بھڑکانا) چنانچہ جب حذیفہ مشرکین میں داخل ہوئے تو ابو سفیان کو جو اسوقت کفار کا قائد تھا، اپنے قریب ہی کمر کو آگ سے سینکتے ہوئے دیکھا، حذیفہ کہتے ہیں: ’’ میں نے کمان میں تیر تان کر اُسے مارنا چاہا، لیکن مجھے رسول اللہ کی بات یاد آگئی، (اُنہیں میرے خلاف مت بھڑکانا) اگر میں تیر چلا دیتا تو عین نشانے پر جاتا اور اُسے قتل کر دیتا۔(مسلم)
صحابہ کرام yنبی اکرم ﷺ کی اوامر و نواہی میں اتباع ایمان اور راسخ یقین پر مبنی ہوتی تھی، چنانچہ سیدنا رافع بن خدیج tکہتے ہیں کہ: ’’ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک مفید کام سے روک دیا، لیکن اللہ اور اُسکے رسول کی اطاعت ہمارے لئے زیادہ مفید ہے‘‘ (مسلم)
مؤمن خواتین بھی اللہ کی اطاعت میں فورا عمل کرتی ہیں، چنانچہ سیدہ ہاجرہ علیھا السلام نے اپنے رب پر توکل کرتے ہوئے اپنے خاوند کی اطاعت کی اور بے آب وگیاہ وادی میں قیام کر لیا، اسوقت مکہ میں کوئی بھی نہیں تھا، چنانچہ زبانِ حال ہاجرہ کے بیٹے کی موت بتلا رہی تھی، تو انہوں نے اپنے خاوند ابراہیم علیہ السلام سے کہا:’’کیا اللہ نے تمہیں اسکا حکم دیا ہے؟‘‘ تو انہوں نے اشارہ کیا:’’ہاں‘‘ تو پھر ہاجرہ علیھا السلام نے کہا: ’’تو پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کریگا‘‘ (بخاری)
جس وقت صحابیات کیلئے پردے کا حکم نازل ہوا تو اسوقت انکے پاس پردہ کرنے کیلئے کپڑے نہیں تھے، تو انہوں نے تعمیل حکمِ الہی کیلئے اپنی چادروں کو پھاڑ کر آپس میں تقسیم کرلیا، اور اپنے چہرے ڈھک لئے، چنانچہسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "ابتدائی مہاجر خواتین پر اللہ تعالی رحم فرمائے، جب فرمانِ باری تعالی
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ [النور: 31]
اپنی اوڑھنیوں سے اپنے سینے ڈھانپ کر رکھیں۔ نازل ہوا تو انہوں نے اپنی اونی چادروں کو پھاڑ کرآپس میں تقسیم کیا اور انہیں اپنا حجاب بنایا‘‘(بخاری)
مسلمانو!مذکورہ تمام واقعات کے بعد، کلمہ شہادت کا اثبات اور کمال بندگی اطاعتِ الہی اور اطاعتِ نبوی میں ہی پنہاں ہے، چنانچہ اگر کانوں میں کسی حکم کی آواز پڑے تو تعمیل کیلئے فورا خوشی خوشی تیار ہوجاؤ، اور اگر کوئی ممانعت کان میں پڑے تو رضائے الہی کیلئے ممنوعہ کام سے رک جاؤ، اور یہ یقین ہو کہ منع کردہ کام تمہارے لئے ضرر رساں ہے۔
جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْفَائِزُوْنَ [النور: 52]
’’جو بھی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت خشیت اور تقوی الہٰی کیساتھ کریگا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں‘‘
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام y پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرمائے۔
مسلمانو!
اسی شخص کی زندگی کامل ہے جو کامل فرامین الٰہیہ کو قبول کرتا ہے، چنانچہ جس قدر فرامین کو تسلیم کرنے میں کمی ہوگی اُسی قدر زندگی میں نقص آئےگا، اور جو شخص اللہ کی بات نہ مانے وہ مخلوق کے پیچھے لگ کرذلیل وخوار ہوگا، اسی لئے اللہ تعالی نے اپنی نافرمانی سے خبردار بھی کیا اور فرمایا:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ [النور: 63]
احکاماتِ الٰہیہ کی مخالفت کرنے والے لوگ ڈر جائیں کہ کہیں انہیں کوئی فتنہ یا درد ناک عذاب اپنی لپیٹ میں نہ لے لے
سیدناابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "جن چیزوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمل کیا کرتے تھے میںنے اُن سب پر عمل کیاہے، کسی ایک چیز کو بھی نہیں چھوڑا، کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں نے آپ کی کسی چیز کو ترک کردیا تو کہیں میں گمراہ نہ ہوجاؤں" (متفق علیہ)
اطاعت گزاری میں تردد کا شکار ہونا، یا ادائیگی میں سستی کرنا، کمال تعمیل حکم کے منافی ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر کسی کی بات کو مقدم کرنے والا آپکے احکامات کی تعمیل نہیں کرسکتا، اور آخرت میں محمدﷺکی ساری امت جنت میں جائے گی، سوائے ان لوگوں کے جو جنت میں داخلے سے انکار کردینگے، صحابہ کرام y نے پوچھا: یا رسول اللہ! جنت سے کون انکاری ہے؟ آپ نے فرمایا: جو میری اطاعت کریگا وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے میری نافرمانی کی در حقیقت اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔ (بخاری)
قیامت کے دن دنیاوی زندگی میں اطاعت گزاری سے اعراض کرنے والے لوگ دنیا میں واپس آنا چاہیں گے، اور ساتھ میں سزا سے بچنے کیلئے زمین سے دگنا جرمانہ دینا چاہیں گے :
وَالَّذِينَ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُ لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ
اور جن لوگوں نے فرامین الٰہیہ پر عمل نہ کیا ہوگا، (قیامت کےدن)اگر انہیں زمین سے دگنامال بھی مل جائے تو اِسے جرمانے کے طور پر دے دیں ۔[الرعد: 18]
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الاحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد
یا اللہ !خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اجمعین اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہوجا؛ یا اللہ !اپنے رحم وکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہوجا۔
یااللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنادے۔
یا اللہ! ہمیں تمام فتنوں سے بچا، جو ظاہر ہوچکے ہیں ان سے بھی اور جو ابھی مخفی ہیں ان سے بھی محفوظ فرما۔
یا اللہ! تیرے راستے میں جہاد کرنے والے مجاہدین کی ہر جگہ مدد فرما، یا اللہ! توں ہی انکا والی ، وارث ، پشت پناہ، اور مدد گار بن ، یا اللہ! حق اور ہدایت پر انکا اتحاد پیدا فرما، یا رب العالمین۔
یا اللہ! مجاہدین پر ظلم ڈھانے والوں پر اپنی پکڑ نازل فرما،یا اللہ! انکے دشمنوں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! انہیں نیست ونابود فرما، یا قوی یا عزیز۔
یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، ان کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ [الأعراف: 23]
ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر خوب ظلم ڈھالیا ہے، اور اگر اب تو ہم پر رحم کرتے ہوئے معاف نہ کرے تو ہم یقینی طور پر خسارے میں چلے جائیں گے۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔
-------
نوٹ: یہ تحریر جس وقت ادارہ کو موصول ہوئی تھی، مؤرخ اہل حدیث فضیلۃ الشیخ محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ حیات تھے، وقتِ اشاعت بھٹی صاحب کی رحلت کا عظیم سانحہ رونما ہوچکا تھا، اس لئے کچھ مقامات پر صیغوں کی تبدیلی کی گئی ہے۔ (ادارہ)
چمنستان حدیث میں ہی ہے کہ کونسا کام کس آدمی نے کس وقت پہ کرنا ہے اس نظام میں کسی کی خواہش پر تبدیلی نہیں آ سکتی،ورنہ تاریخ اہل حدیث کو وسیع پیمانے پر مرقوم کرنے کی خواہش تو اس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کے دلوں میں تھی اور بعض نے اس پر کام بھی شروع کیا مگر یہ سعادت اللہ تعالیٰ نے ہمارے محترم و مکرم اور شفیق بزرگ علامہ محمد اسحاق بھٹی کو نصیب فرمائی۔ یوں تو تاریخ نویسی میں بڑے بڑے بلند نام موجود ہیں لیکن جو شرف اللہ تعالیٰ نے مورخ اہل حدیث، ذہبی دوراںمحترم علامہ مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو عطا کیا اس برصغیر کی سرزمین پر وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا کہ انہوں نے خالصتاً محدثین اور ورثۃ الانبیاء کے حالات و واقعات ایک خاص ترتیب اور انداز سے امت کے سامنے رکھ دیئے ہیں جن کے تادیر لوگ ناصرف کہ مداح رہیں گے بلکہ اس سے علمی اور عملی راہنمائی بھی حاصل کرتے رہیں گے اس سے پہلے بھی محترم بھٹی صاحبرحمہاللہ تعالیٰ کی اس سلسلہ کی کئی کتب قارئین کے دل و دماغ پر انمٹ نقوش ثبت کر چکی ہیں مثلاً کاروان سلف، قافلہ حدیث، دبستان حدیث اور گلستان حدیث وغیرہ جن میں جناب محترم بھٹی صاحب نے خالصتاً محدثین اور سلف صالحین کا تذکرہ کیا ہے زیر نظر کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘بھی اسی سلسلۃ الذہبیہ کی ہی ایک کڑی ہے جس میںمحترم بھٹی صاحب نے ایسی 100شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جنہیں اپنے اپنے فن میں کمال حاصل ہے ان میں ذی وقار محدثین عظام بھی ہیں اور جلیل القدر مشائخ کرام، نامور اساتذہ بھی ہیں تو انتظام و انصرام کا وسیع تجربہ رکھنے والے حضرات بھی شامل ہیں ۔ ہر ایک کی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایسا پہلو ضرور ہوتا ہے جو دوسروں کے لیے راہنمائی کرتا ہے خواہ نصیحت کے لحاظ سے یا عبرت کے طور پر۔ اور پھر اسلاف کے واقعات بیان کرنے کا ایک بہت بڑا مقصد یہ بھی ہے کہ بعد میں آنے والے لوگ ان سے راہنمائی لے کر اپنی زندگیوں میں نکھار پیدا کریں اور یہ راہنمائی مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ۔ میں اس قابل تو نہیں ہوں کہ محترم بھٹی صاحب کے متعلق کوئی تعارفی کلمات کہوں کہ بھٹی صاحب اب عرب و عجم میں شہرت کی بلندیوں پر ہیں اور ان کی خوبیوں، حافظے، حوصلے، ادب و خاکہ نویسی اور سوانح نگاری کا ایک زمانہ ناصرف معترف بلکہ نغمہ سرا ہے۔اللہم اغفرلہ
اسی طرح بھٹی صاحب کی تصانیف کے متعلق بھی کچھ کہتا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ آج کے دور میں سوانح نگاری کے لحاظ سے کسی بھی کتاب کے معتبر اور مقبول ہونے یا اس کی عظمت و رفعت کے لیے بس ’’مولانا محمد اسحاق بھٹیرحمہاللہ تعالیٰ‘‘ کا نام ہی کافی ہے۔ (فللّٰہ الحمد)
میں تو صرف ان سطور میں بھٹی صاحب کی نئی کتاب ’’چمنستان حدیث‘‘ سے چند ایسے مقامات کی نشاندہی کرناچاہتا ہوں، جن میں علماء کرام، طلباء اور مدارس کے اصحاب انتظام اور معاونین کے لیے درس و موعظت و نصیحت موجود ہے تاکہ آج کے اس پُر فتن اور پُر آشوب دور میں کہ جب دینی مدارس اور علماء کرام خصوصاً اور مذہب سے متعلق رکھنے والے لوگ عموماً پُر خطر حالات سے گزر رہے ہیں۔ تو آئیے جو شخص بھی دین اسلام کا عالم اور داعی ہے اس کو سراپا وقار اور استقامت ہونا چاہئے بڑی سے بڑی آزمائش بھی اسے دین اسلام کی خدمت سے نہ روک سکے۔ اور کسی بھی مصیبت میں وہ اپنے عقیدے اور منہج کے معاملے میں ناتو شکوک و شبہات کا شکار ہو اور نہ ہی وہ اس میں کسی قسم کی لچک دکھائے۔ ایسے ہی ایک عالم ربانی کا واقعہ بھٹی صاحب زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 95 پر تحریر فرماتے ہیں۔ اور یہ عالم ربانی ہیں مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی رحمتہ اللہ علیہ ایک دفعہ ریاست مزید کوٹ کے راجا بکرم سنگھ نے ایک مناظرے کا اہتمام کیا جس میں اہل حدیث کی طرف سے مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی بھی شامل تھے مولانا بھٹی صاحب فرماتے ہیں’’راجا فرید کوٹ باقاعدگی سے مناظرے میں شامل ہوتا اور بڑے غور سے پوری کاروائی سنتا۔ علماء کرام کی گفتگو اور ان کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا۔ مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کے دو عمل خاص طور پرراجا فرید کوٹ کے مرکز توجہ رہے۔ (1)ایک یہ کہ تمام علماء کرام کو کھانا راجا صاحب کی طرف سے دیا جاتا تھا اور وہ اسی کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی اور ان کے کوٹ کپورہ کے رہنے والے ایک مرید حاجی نور الدین وہ کھانا نہیں کھاتے تھے اس وقت فرید کوٹ میں موضع بڈھیمال کا ایک حجام رہتا تھا۔ ان دونوں نے کھانے کے پیسے اسے دے دیئے تھے وہی ان کا کھانا تیار کرتا تھا۔ اور یہ اس کے گھر میں اپنی گرہ سے کھانا کھاتے ۔
(2)دوسری بات یہ کہ جب مجلس مناظرہ میں راجا صاحب آتے تو علماء کرام سمیت تمام حاضرین اس کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ راجا صاحب نے مولانا سے کھڑے نہ ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا ہمارے مذہب میں غیر مسلم کی تکریم کرنا اور ادب سے اس کے لیے کھڑے ہونا جائز نہیں۔ مولانا کے یہ الفاظ سن کر راجا خاموش ہو گیا۔ اور اس کے بعد وہ لوگوں کو اکثر یہ واقعہ سنایا کرتا اور کہا کرتا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک عالم دین مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی کو دیکھا ہے جو صحیح معنوں میں اپنے مذہب پرعامل تھے۔‘‘
اس واقعہ میں ان علماء کرام کے لیے بہت بڑی نصیحت موجود ہے کہ انسان کی عزت و احترام اس کے اپنے عقیدے اور منہج پر ڈٹے رہنے اور استقامت اختیارکرنے میں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر یا ان کے سامنے اپنے آپ کو انہی جیسی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں مشابہت اختیار کرنے میں
اسی طرح ایک مقام پر مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی زندگی کے بہت سے نصیحت آموز واقعات ذکر کرتے ہیں مولانا بھٹی صاحب مولانا مختار احمد ندوی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’مولانا نذیر احمد دہلوی کی وفات کا سب سے بڑا اثر جماعت اہل حدیث ہند کے تنظیمی اور تعمیری منصوبوں پر پڑا ہے جماعت ایک ایسے مخلص اور فعال راہنما سے محروم ہو گئی ہے جن کا بدل اب ملک میں کوئی نظر نہیں آ رہا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو مولانا کی وفات کی خبر پا کر سر تھام کر بیٹھ گئے (آج کل تو لوگ جماعتوں اور تنظیموں پر قابض لوگوں کی موت کی خود خواہش کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب بھی ’’چمنستان حدیث ‘‘کے صفحات سے ہی پڑھیں۔ ناقل) ’’مولانا (نذیر احمد) رئیس (چودھری) نہیں تھے۔ اور نہ انہوں نے کبھی اپنی عملی زندگی کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور نہ جاننے والوں کو جان لینا چاہئے کہ مولانا نے اپنا دل و دماغ، علم و فکر، جذبات و احساسات کے سارے گنج ہائے گراں مایہ کو اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی اور ہندوستان میں جماعت موحدین کی ترقی کے لیے نثار کر دیا اور تمام عمر معمولی مشاہرے پر ہنس ہنس کر گزار دی۔ اس تھوڑے سے مشاہرے کا بھی خاصا حصہ وہ جماعتی امور کی نگرانی پر کسی نہ کسی حیثیت سے خرچ کرتے رہتے اور اس پر خوش ہوتے‘‘ (ص 260)
آج جو لوگ اپنے علمی یا دینی و مذہبی مقام و مرتبے کو دنیا طلبی اور جاہ پرستی کا ذریعہ بناتے ہیں اور دنیا داروں کی چوکھٹ پر اپنی علمی عظمتوں اور مذہبی شان و شوکت کو رسوا کرتے ہیں انہی یہ واقعات بار بار پڑھنے چاہئیں اور ان سے درس عبرت لینا چاہئے۔ انہی مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دو واقعات کی مزید نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جن سے ان کی اپنے عقیدے پر پختگی اور کلمہ حق کہنے میں جرات مندانہ کردار ادا کرنے کی زبردست دلیل ہے۔
مولانا بھٹی صاحب، مولانا آزاد رحمانی کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں’’مولانا لکھنؤ کی دینی تعلیمی مجالس کے ممبر تھے۔ علی میاں، مولانا منظور نعمانی، قاضی عدیل عباسی اور دوسرے نامور اہل علم کے ساتھ آپ بھی اس کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔ بچوں کے لئے ابتدائی نصاب تعلیم کی ایسی کتابوں کی تصنیف کا مسئلہ درپیش تھا جو سب کے لیے قابل قبول ہو بات یہ چل رہی تھی کہ دینیات کی تصنیف کس ڈھنگ سے کی جائے۔ کسی ممبر نے مشورہ دیا کہ دیو بندی عقائد کے مطابق انہیں لکھوا دیا جائے۔ مولانا نے فرمایا اس میں تمام فقہی مسالک کی نمائندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ کتابیں دوسروں کے لیے قابل قبول نہ ہونگی۔ اس پر یہ ترمیم پیش ہوئی کہ دوسرے مسالک کی باتیں حاشیہ پر لکھ دی جائیں۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ کتابیں قرآن و سنت کے مطابق لکھوائی جائیں اور دیوبندی اور دوسرے مکاتب فکر کی وضاحت اس کے حاشیہ پر کر دی جائے۔ بالآخر بات اس پر ختم ہوئی کہ ہر مکتبہ فکر کو آزادی دی جائے کہ وہ اپنے مسلک کے مطابق اپنی کتابیں تصنیف کر کے داخل نصاب کریں۔ (ص 282)
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو اجتماعی کمیٹیوں یا مشاورتی مجلسوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں لیکن دوسروں کی ہاں میں ہاں ملا کر صرف تعلق داری یا TADA کی خاطر اپنے مسلکی نظریات اور جماعتی مفادات قربان کر کے گھر آ جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں میں یہ کہnh تو چاہتا تھا لیکن میں نے بھری مجلس میں مناسب نہیں سمجھا۔ ارے اللہ کے بندوں جن کی نمائندگی کے لیے تم گئے ہو اگر ان کی نمائندگی نہیں کرنی ان کے مسلک و منہج کی ترجمانی نہیں کرنی تو پھر آپ کو یہ حق کیسے مل گیا کہ آپ اہلحدیث جماعت کے کوٹے سے کسی بھی مجلس یا کمیٹی کے رکن اور ممبر بنیں۔ یا پھر وقتی اور عارضی طور پر ہی کسی مشترکہ کانفرنس یا جلسے میں شریک ہوں آپ کا حق بنتاہے کہ آپ اپنے ذاتی تعلقات بنانے کی فکر نہ کریں اور اپنے ذاتی یا خاندانی مفادات کو مدنظر نہ رکھیںبلکہ مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے اپنی نمائندگی کا حق ادا کریں مولانا املوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہی ایک واقعہ مولانا آزاد رحمانی کے حوالے سے مولانا بھٹی صاحب نے نقل کیا ہے ۔فرماتے ہیں۔
’’مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی کے انتقال پر بنا رس میں ایک تعزیتی جلسہ ہوا۔ صدر مولانا عبدالمتین صاحب مرحوم رئیس بنارس تھے۔ مقررین میں ہر طبقہ اور ہر خیال کے لوگ موجود تھے اس لیے یہ جلسہ ہر فرقے کا نمائندہ جلسہ تھا۔ ایک مقرر نے مولانا حفظ الرحمن کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جنگ آزادی سے متعلق دارالعلوم دیوبند کی طرف کچھ غلط باتوں کا انتساب کیا اس کے بعد مولانا کی باری تھی۔ آپ نے جنگ آزادی کی پوری تاریخ ادھیڑ کر رکھ دی اور اچھی طرح واضح کر دیا کہ فرط عقیدت میں لوگ کتنی غلط بیانیاں کرتے ہیں آپ کی تقریر سے جلسے کی فضا بدل گئی اور لوگوں کو جنگ آزادی کی صحیح تاریخ معلوم ہو گئی‘‘ (ص 283)
یہ ہوتی ہے نمائندگی اور اپنی قوم یا جماعت کی ترجمانی رحمۃ اللہ رحمۃ واسعۃ وجزاہ عن سائر اہل الحدیث۔ اس واقعہ کی مناسبت سے مجھے یاد آیا کہ ایک مرتبہ گجرات میں مولانا عنایت اللہ شاہ گجراتی کی مسجد میں اہل حدیث اور دیوبندیوں کا مشترکہ جلسہ تھا جس میں آزاد کشمیر کے اس وقت کے صدرسردار عبدالقیوم بھی شامل تھے۔ سیاسی لوگوں کا طریقہ ہوتا ہے کہ جس کی مجلس میں جاتے ہیں ان کے قصیدے پڑھنے اور جائز و ناجائز تعریفیں شروع کر دیتے ہیں ۔ سردار عبدالقیوم نے بھی یہی کیا کہ علماء دیوبند کی جنگ آزادی اور تحریک پاکستان میں خدمات کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا ۔ ان کے بعد شہیداسلام بطل حریت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ نے خطاب شروع کیا تو سردار عبدالقیوم اٹھ کر جانے لگے علامہ صاحب نے خطاب روک کر فرمایا سردار صاحب آج کی تقریر میں نے آپ کو سنانی ہے لہٰذا آپ واپس آجائیں۔ سردار عبدالقیوم واپس اسٹیج پر آ گئے تو علامہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے جنگ آزادی میں انگریز کے خلاف اہل حدیث کی جدوجہد اور قربانیوں کو بیان کیا اور تحریک پاکستان میں اہل حدیث کی خدمات کا بالتفصیل تذکرہ کیا کہ حق ادا کر دیا۔ علامہ صاحب کے خطاب کے بعد مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری دیوبندی مائک پر آئے اور فرمانے لگے علامہ صاحب نے جو کچھ فرمایا ہے بالکل صحیح اور درست ہے اگر اسلام کی تاریخ سے اہل حدیث کی خدمات کو نکال دیا جائے تو اسلام کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ یہ ہے جرات ۔ حق نمائندگی اور اپنی جماعت کی ترجمانی ۔ اسی طرح ربوہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمتہ اللہ علیہ کی اس تاریخی تقریر کی گونج اب تک فضا میں موجود ہے جب آپ نے دیو بندیوں کے اسٹیج پر عقیدہ ختم نبوت کی وضاحت فرماتے ہوئے تحفظ ختم نبوت کے لیے اہلحدیث کی خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ کیا تو یوں تھا کہ جیسے سارے دیوبندیوں کو سانپ سونگھ گیا ہو اور پھر اس کے بعد انہوں نے علامہ صاحب کو کبھی دعوت نہ دی تھی حالانکہ ان کا دعویٰ تھا اور ہے کہ یہ کانفرنس مشترکہ ہوتی ہے۔ تو بہرحال مجھے ان مثالوں سے صرف اپنے ان مقتدر عطاء و اصحاب جبہ و دستار سے عرض کرنا مقصود ہے جو محرم الحرام یا ربیع الاول کے سلسلہ میں منعقدہ امن کمیٹیوں میں شامل و شریک ہوتے ہیں یا صوبائی و قومی سطح پر کسی سیاسی یا انتظامی فورم پر انہیں اہل حدیث کی نمائندگی کا موقعہ ملتا ہے تو انہیں ببانک دھل ڈنکے کی چوٹ پر اپنے مسلک و عقیدے کا اظہار کرنا چاہئے کسی قسم کی مصلحت کا شکارنہیں ہونا چاہئے۔ یہ ان کا فرض بھی ہے اور ان کے لیے عزت و وقار کی علامت بھی۔
اسی طرح مولانا عبدالروف جھنڈانگری والا مضمون بھی اپنے اندر بہت سی نصیحتیں سموئے ہوئے جس سے طلباء اساتذہ، خطباء، و علماء اور اصحاب وارباب مدارس بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں خصوصاً ان کے مدرسے کے انہدام اور دوبارہ تعمیر کا واقعہ جو بھٹی صاحب نے زیر تذکرہ کتاب کے صفحہ نمبر 384تا 390پر تفصیل سے بیان کیا ہے اس میں ان کا جذبہ دینی اور اپنے ادارے سے محبت اور اس کے لیے قربانی کا جذبہ پھر اللہ تعالیٰ کے قدرت کے اور مدد کے بہت سے مظاہر قارئین کے سامنے آ جاتے ہیں۔
طلباء کرام کے لیے بھی بہت سے مضامین میں نصیحت موجود ہے صرف ایک مضمون سے مختصر اقتباس نقل کرتا ہوں۔ ماضی قریب کے علمائے اہل حدیث کی فہرست میں سید مولابخش کوموی رحمۃ اللہ علیہ کا نام بہت نمایاں ہے سید صاحب بہت بڑے عالم، فاضل اور متقی پرہیز گار اور بڑے منجھے ہوئے درد دل رکھنے والے شفیق استاد تھے ان کے حصول علم کے متعلق مولانا بھٹی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ نمبر308 پر رقمطراز ہیں’’سید مولابخش حصول علم کے لئے نہایت بے تاب تھے۔ لیکن انہیں اس کا موقعہ نہیں مل رہا تھا وہ نوجوانی کی حدوں کو چھو رہے تھے مگر بے علم تھے اور دل میں اس کے حصول کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ پھر ایک دن ایسا آیا کہ اس خواہش کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کر لیا دل میں یہ جذبہ شدت سے ابھرا کہ کسی نہ کسی طرح علم ضرور حاصل کرنا چاہئے لیکن معاملہ یہ تھا کہ نہ کسی درس گاہ کا پتہ تھا اور نہ کسی قصبے یا شہر کی راہ معلوم تھی اب انہوں نے اپنی والدہ کے عطا کردہ بھنے ہوئے چنوں کے تھوڑے سے دانے صافے کے پلو میں باندھے، کسّی کندھے پر رکھی اور حسب معمول کھیتوں میں پہنچ گئے۔ پھر کسّی کھیت میں رکھی اور کسی کو بتائے بغیر انجانی راہوں پر روانہ ہو گئے۔ کچھ پتہ نہیں کہ کدھر کا رخ ہے اور منزل کونسی ہے زاد راہ وہی بھنے ہوئے چنوں کے چند دانے ہیں کوئی پیسہ پلے نہیں، خالی ہاتھ اور خالی جیب، بالکل یہی حالت کہ ۔
خرچ نہ بنھدے پنچھی تے درویش
جنہاں تقویٰ رب دا اونہاں رزق ہمیش
ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور دوسرے سے تیسرے گاؤں چلے جا رہے ہیں بھوک نے بھی زور باندھ رکھا ہے مگر یہ کہیں ٹھہرتے نہیں اور نہ کسی سے روٹی کا ٹکڑا مانگتے ہیں ۔ بالاخر ایک گاؤں کی مسجد میں جا رکے اور نمازیوں سے کہا کہ وہ انہیں مسجد کے طہارت خانوں کی صفائی اور نمازیوں کے پانی بھرنے کے لیے بطور خادم رکھ لیں نمازیوں نے ان کے نام اور خاندان کے بارے میں پوچھا توانہوں نے اپنا تعارف کرایا اس پر جواب ملا کہ ہمیں خادم کی ضرورت تو ہے لیکن آپ سید زادے ہیں اور ہم سید زادے سے یہ خدمت نہیں لے سکتے۔
اب پھر وہاں سے چل پڑے اور روپڑ کے قریب موضع ’سنانا‘‘ جاپہنچے۔ وہاں ایک عالم دین مولوی دین محمد رہتے تھے ان سے دینیات کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ اسی دوران میں موضع ملک پور کے مولوی عبدالجبار سے کچھ کسب فیض کیا وہاں ایک فائدہ یہ ہوا کہ گردوپیش کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں۔ اور یہ بھی پتا چلا کہ ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں کے لکھو کے میں ایک مدرسہ جاری ہے جس میں بہت بڑے عالم مولانا عطاء اللہ لکھوی طلباء کو تعلیم دیتے ہیں۔ اب یہ موضع ’’سنانا‘‘ سے نکلے اور چلتے پھرتے کسی نہ کسی طرح لکھوکے جا پہنچے۔ وہاں انہیں داخل تو کر لیا گیا اور تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا لیکن کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہ طلباء کے بچے کھچے ٹکڑے اکٹھے کرتے اور پانی میں بھگو کر ان سے اپنی بھوک مٹاتے اور استاد سے علمی پیاس بجھاتے۔ چونکہ علم کے لیے گھر سے بھاگ گئے تھے۔ لہٰذا اس صورت حال سے ہم آہنگی پیدا کر لی تھی اور دونوں طرف سے صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا ۔
الغرض اسی قسم کے نصیحت آموز واقعات سے بھرپور یہ حدیث کا چمنستان مہک رہا ہے اب جس کے جی میں آئے وہ اس کی خوشبو سے اپنے قلوب و اذہان کو معطر کر لے اور جس کا جی چاہے وہ انہیں محض ایک واقعہ یا تاریخ کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دے۔ ہم تو بزبان شاعر یہیں کہیں گے۔
اب جس کے جی میں آئے پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کر سر عام رکھ دیا
اللہ تعالیٰ محترم بھٹی صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے ہمیں ہمارے بزرگوں سے ملا دیا اور ان کے حالات و واقعات کی شکل میں ہمارے لیے نصیحت و راہنمائی کا سامان کر دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ خوش رکھے مکتبہ قدوسیہ کے قدوسی برادران محترم ابو بکر قدوسی اور محترم عمر فاروق قدوسی کو کہ جنہوں نے اپنی تما م تر روایات (خوبصورتی، معیار اور تاخیر) کو برقرار رکھتے ہوئے ’’چمنستان حدیث ‘‘ قارئین کی خدمت میں پیش کی۔ اور یہ اعزاز ہے جامعہ سلفیہ فیصل آبادکا کہ یہ کتاب سب سے پہلے 3مئی 1215ء کو جامعہ سلفیہ میںمحترم اس تقریب کے لیے خصوصی طور پر محترم عمر فاروق قدوسی صاحب نے چند نسخے تیار کروا کے بھجوائے تھے۔
عزیز قارئین… آج جن حالات سے ہمیں واسطہ پڑا ہے کہ لوگ دوستی کے نام پر دشمنیاں پالتے اور انتقام لیتے ہیں، سازشوں کے جال بنتے اور حسد کی آگ بھڑکاتے ہیں اور حاسدین کی حوصلہ افزائی پر فتح و خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں ضروری ہے کہ علماء کرام اور طلباء حضرات خصوصی طور پر بھٹی صاحب کی کتب کا مطالعہ کریں اور اپنے اسلاف کے حالات و واقعات کو پڑھ کر حوصلہ و ہمت حاصل کریں کہ انہوں نے کس طرح اپنے حاسدین اور سازشی عناصر کے حسد و بغض کو برداشت کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کس طرح اپنی رحمت سے نوازا ۔
اللھم اغفرلہم وارحمہم
آج ہمارا معاشرہ عجیب افرا رتفری کا شکار ہے،نفسا نفسی کا عالم ہے ، کوئی بینک بیلنس اورا سٹیٹس بنانے کی لگن میں مگن ہے،تو کوئی دھوکہ دہی کا بازار گرم کیٔے ہویٔے ہے۔ کوئی بھیڑبکریوں کی طرح انسانوں کی بلیاں چڑھا رہا ہے،تو کوئی نفسانی خواہش کی تسکین کے لیٔے بری راہ پر گامزن ہے،والدین و اساتذہ اپنی عزت کھو بٹیھے ہیں تہذب وتمد ن و ثقافت خط تذلیل کو عبور کو کر چکی ہے۔
آج بھائی بھائی کا نہیں،والدین تنگدستی کی بنیاد پر بچوں کے گلے گھونٹ رہے ہیں ،خود سوزی عام بات ہو چکی ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کے افراد معاشرہ اپنے رب سے بھی بے گانے ہو چکے ہیں ،وہ جانتے ہی نہیں کہ ان کا مالک، رازق،خالق کون ہے؟کون ا ن کا مشکل کشا ہے؟ کون ان کی پکا رکو سننے والا ہے؟کون ان کے درد دل کو راحت میں بدلنے والا ہے؟کون آسمان سے باران رحمت برسانے والا ہے ؟وہ کون ہے جو طوفانوں کو بنانے اور تھامنے والا ہے؟کون ہے جو اس کار یزدانی کو بہت خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے ہے؟کیا وہ پتھر کی بنی ہوئی کوئی مورت ہے؟یا پھر مٹی کی بنی ہوئی کوئی قبر؟کیا وہ زمین سے اگتا ہوا کوئی درخت ہے؟ یا پھر آسمان میںچمکتا چاند سورج؟کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں ہیں یا بہتے پانی کی لہریں؟ چرند وپرند ہیں یا جن و انس؟
یقینا ذہن میں صرف ایک ہی جواب امنڈ رہا ہوگا ، اور وہ ہے ــــــــ(اللہ رب العالمین) تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے رب سے رو گردانی برتےہوئے ہیں؟اور اپنے ڈھائی گز کے بت بنائے ہوئے ہیں؟ اس کی مختلف صورتیں اور نام ہمارے ہی وضع کرد ہ ہیں ۔
اس حالت بے قراری اور بد حواسی سے نکلنے کا کوئی راستہ ہے کیا؟اگر ہے تو وہ صرف نبی آخر الزماں احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی حیات مبارکہ سے آگاہی ہے او ر پھر اپنی زندگی کو اس کے مطابق گزارنا، کیونکہ نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل لوگ ان ہی خرافات کا شکار تھے آپﷺ نے آکر انکا قلع قمع کیا، خود اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیںـ:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(الممتحنۃ: 4)
’’تحقیق تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ اسوئہ حسنہ ہیں ‘‘ اور اسی اسوئہ حسنہ کو اجا گر کرنے کے لئے ہمیں رسول اللہﷺ کی سیرت مطہرہ سےآگاہ ہونا ضروری ہے، ذیل میں رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کو اختصارا درج کیا جا رہا ہےجس سے مستفید ہو کر ہم اپنی زندگی کی ڈگرکوراہ راست سےمزین کرسکتےہیں ۔واللہ المستعان
قبل از اسلام عرب معاشرہ:
قبل ازاسلام عرب معاشرہ دور حاضر کے معاشرہ سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھا ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دورحاضر اس سے زیادہ بد تر ہو چکا ہے ، عرب کا وہ معاشرہ قتل و غارت، دھوکہ دہی ، لوٹ مار ، دھنگا فساد، زنا و بد کا ری ، عزتوں کی پاما لی ، بچیوں کو زندہ درگور کرنا جیسی برائیوں سے بھرا پڑا تھا اور ان تمام سے بڑھ کر ملت ابراہیمی سے رو گردانی کر کے اپنے خود ساختہ معبودوں کی پوجا میں مگن تھے ایک طرف ان کی پوجا کی جا تی جنہیں وہ اپنے ہاتھوں سے دفناتے دوسری طرف ان کی جن کی وہ مورتیاںبنانتے۔ خلاصتاًیہ کہ وہ قوم ظلم و زیادتی، شرک و بدعات، آباء واجداد کے دین سے رو گردانی، اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی، نئے سورج کے طلوع ہونے اور دن چڑھنے کی انہیں کوئی تمنا نہیں تھی، مگر اس کائنات کے رب کو اس قوم پر ترس آگیا اور اس نے نئے سورج کی کرنوںکو بلند کیا، جس کی روشنی سے جہالت کے اندھیروں میں پڑے لوگوں کی آنکھیں چندیا گئیں، اور وہ ان کرنوں کو برداشت نہ کر سکے اور اس سے بچنے کی کوشش میں لگ گئے ۔
رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت اور قبل از ہجرت کے حالات:
بروز پیر ۹ربیع الاول عام الفیل مکہ مکرمہ کے شعب بنی ہاشم صبْح کے وقت آپﷺ کی ولادت با سعادت ہوئی، جو اس بات کی علامت تھی کہ اب ظلم و زیادتی کے بادل چھٹ چکے اور اب ایک نئی صبح کی ابتداء ہو چکی ہے، آپ ﷺ کا نام گرامی آپ کے دادا سردارمکہ عبدالمطلب نے محمد رکھا، آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے آپ کے والد عبداللہ اس دار فانی سے رحلت فرما چکے تھے، اس لئے آپ کی پروش کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ بی بی آمنہ پر تھی۔
ابھی آپ نے اپنی زندگی کی چھ بہاریں ہی دیکھی تھیـں کہ اتنے میں ان کی والدہ بھی انھیں اکیلا چھوڑگئیں، پھر آپﷺ کی ذمہ داری آپ ﷺکے دادا کے بوڑھے کندھوں پر آگئی جسے انہوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے نبھایا مگر زندگی نے ان کا بھی ساتھ نہ دیا اور وہ صرف دو ہی سال بعد اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پوتے کی ذمہ داری اپنے بیٹے ابو طالب بن عبد المطلب کو سونپ گئے، انہو ں یہ ذ مہ داری کچھ یوں پوری کی گویا اپنی زندگی آپﷺ کی پرورش کے لئے وقف کردی۔
آپﷺ نے اپنی زندگی کے ابتدائی چالیس سال لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی، درد مندوں کا بوجھ اٹھانے، تہی دستوں کا بندوبست کرنے، مہمانوں کی میز بانی کرنے اورحق کے مصائب پر اعانت کرنے میں گزاری، بدی، برائی،شر اور شرک و خرافات سے بھرے معاشرے میں رہتے ہوئے بھی کبھی کوئی برائی کا کام نھیں کیا، نہ کبھی جھوٹ بولا۔ نہ امانت میں خیانت کی،اور نہ کبھی خود ساختہ بتوں کی عبادت کی بلکہ ہمیشہ اس ماحول سے دوری اختیار کی یہاں تک کہ نور نبوت کے طلوع ہونے سے چند عرصہ پہلے آپ ﷺ اپنی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے ہمراہ جبل نور میں کئی کئی دن گزارتے اور حق کے متلاشی رہتے اور کائنات کی تخلیق میں غور و فکر کرتے رہتے جسے اللہ رب العزت نے یوں بیان فرمایا ہے:
{وَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَهَدٰى} کاش ہم بھی ان اوصاف سے مزین ہو جائیںاسی دوران آپ ﷺ صادق و امین کے لقب سے ملقب ہوئے پچیس سال کی عمر میں آپ ﷺنے سیدہ خدیجہ بنت خویلد سے شادی خانہ آبادی کی جن سے اللہ رب العزت نے آپﷺ کو چار بیٹیاں اور دو بیٹے عنایت کئےجن کے نام درج ذیل ہیں : زینب ِ، أم کلثوم ، رقیہ ، فاطمہ، عبداللہ اور طاہر۔
آپ ﷺ نے ملک شام کا تجارتی سفر بھی کیا آپ ﷺ نےاہل مکہ کی بکریاں بھی چرائیں اسی طرح صبح وشام گزر رہے تھے حسب معمول آپ ﷺ غار حرا میں موجود تھے کہ اچانک ایک فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے کہا ـ محمد :اقرا! آپ ﷺ نے فرمایا :ما أنا بقاریٔ ! یہ سلسلہ تین بار رہا پھر اس فرشتہ نے آپ ﷺ کو اپنے سینے سے لگایا اور زور سے دبایا اور کہا:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۰خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۰اِقْرَاْوَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۰ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ
تو آپﷺ نے ان کلمات کو دہرایا پھر آپ ﷺ کو شدید سردی لگنا شروع ہوگئی اور کپکپی طاری ہوگئی اور آپﷺدوڑتے ہوئے گھر واپس لوٹے اور فرمایا : زملونی زملونی!مجھے چادراڑھاؤ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا نے آپﷺ کو چادر اوڑھائی اور آپﷺ سے اصل ماجرے کی بابت دریافت کیا جب آپ ﷺنے انہیں مکمل واقعہ سنایا تو انہوں نے فرمایا: اللہ آپ کو رسوا نہ کرے گا،آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، درد مندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ،تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں ،مہمان کی میز بانی کرتے ہیں،اور حق کی مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔
اس کے بعد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاآپﷺ کو اپنے چچیرے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیںاور انہیں سارا واقعہ بتلایا ۔ انہوںنے فرمایا:یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسی uکے پاس بھیجا تھا ، کاش میں اس وقت توانا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا جب آپﷺ کی قوم آپ کو نکال دے گی، رسول اللہﷺ نے فرمایا: اچھا! تو کیا لوگ مجھے نکال دیں گے؟ورقہ نے کہا : ہاں!جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا کہ تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور میں نے تمہارا زمانہ پایا تو تمہاری زبردست مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہو گئے،اور وحی رک گئی۔(بخاری ، باب کیف بدأ الوحی)
دورحاضر میں ہمارا حال اس سے کچھ مختلف نہیں ہے کیونکہ جو شخص حق اور سچ کی بات کرتا ہے تو بجائے اس کی بات ماننے کے اسے سبّ و شتم اور استہزاء کا نشانہ بنایا جاتا ہے،اس واقعہ کے چند دنوں بعد آپﷺ نے اپنے گھر والوں اور اپنے دوستوں کو اسلام کی دعوت دی جسے سب سے پہلےسیدہ خدیجہ بنت خویلد ، سیدنا علی بن ابی طالب، سیدنازید بن حارثہ اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کیا پھر چند عرصے بعد آپ ﷺ پر آیت نازل ہوئی:
{وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ} [الشعراء: 214]
’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ‘‘
تو آپﷺ کوہ صفا پر چڑہے اور اہل عرب کو مخاطب کر کے بلایا اور انہیں کہا :اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس وادی سے شہسواروں کی ایک جماعت تم پرحملہ کرنا چاہتی ہے تو کیا تم مجھے سچا مانو گے ؟لوگوں نے کہا ہاں! ہم نے آپ پر سچ ہی کا تجربہ کیا ہے ،آپ نے فرمایا :تو میں ایک سخت عذاب سے پہلے خبردار کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں ۔اس پر ابو لہب نے کہا :تو سارے دن غارت ہو تونے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا اس پر سورۃ لہب نازل ہوئی (بخاری ۲۔۲۰۷ ۔۳۴۷)
در حقیقت یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سورج کی پہلی کرن جیسے ہی نمودار ہوئی تو اندھیروں کے عادی لوگوں کی آنکھیں چندیانا شروع ہو گئیں اور انھوں نے اپنے گھروں کی دیواروں کو بلند و بالا کردیا کہ یہ روشنی ان کے گھروں میںداخل نہ ہو جائے مگر سورج کی روشنی سے کون بچ سکا ہے ۔
جیسے جیسے دین کی دعوت بڑھنا شروع ہوئی ویسے ہی دین کے ماننے والوں کو اذیت کا نشانہ بنایا جانا شروع ہوگیا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو ان کا مالک دن رات ظلم و زیادتی کا نشانہ بناتامگر ان کی زبان سے احد، احد کے علاوہ اور کوئی جملہ نہیں نکلتا تھا ظلم و زیادتی کی حدیں اس وقت پار ہوئیں جب جناب رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک پر نماز کی حالت میں مٹی ڈالی گئی آپ پر اونٹ کی اوجھڑی پھینکی گئی، اور دوسری بہت سی تکالیف سے آپ ﷺکو دوچار کیا گیا۔
مگر آپﷺ نے ہمت نہ ہاری اور نہ ہی آپﷺ کے ساتھیوں نے ، بلکہ یہ لوگ ان جاہلوں اور کفر وعنا د کے پجاریوں کے عذاب جھیلتے رہے اور راہ حق سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے، اس دعوت کو وسعت دینے کے لئے آپﷺ نے طائف کا سفر کیا آپ کے ساتھ آپﷺ کے آزاد کردہ غلام سیدنازیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے جب آپ ﷺنے وہاں دعوت حق کو پیش کیا تو جہالت اور کفر و عناد کے پجاریوں کی آنکھیں یہاں بھی چندیانا شروع ہوگئیں اور انہوں نے اس دعوت کو دبانے کے لئے آپ کا مذاق اڑایا ، سب وشتم کا نشانہ بنایا اور وہاں کے آوارہ لڑکوں نے پتھرائو بھی کیا آپ لہولہان ہوئے مگر دعوت حق سے ایک پل کے لئے بھی پیچھے نہ ہٹے یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا کہ نبوت کے گیارہویں سال ایام حج میں یثرب کے چند افراد حج کی نیت سے مکہ آئے ، اور ایک رات ان کی ملاقات نبی کریمﷺ سے ہوئی آپ ﷺ نے انہیں دین حق کی دعوت دی انہوں نے اسے قبول کیا اور اس عزم کا اظہا ر کیا وہ اپنے علاقو ں میںجا کر اور لوگوں کو بھی اس دین کی دعوت دیں گے ، ان افراد کی کل تعداد چھ(6) تھی اگلے برس یہ افراد اپنے ساتھ سات(7) نئے افرا د کو لائے جن کی کل تعداد بارہ(12) تھی اور وہ مشرف بااسلام ہوئے اور نبی کریمﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر نبی کریم ﷺ نے اپنا قاصد ان کے ہمراہ بھیجا جن کا نام سیدنا مصعب بن عمیر t تھا یہ واقعہ بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے موسوم ہے اور یہ اس بات کی دلیل تھی کہ اب ظلم و زیادتی کے بادل چھٹنے والے ہیں ،اور سورج کی آب وتاب ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لینی والی ہے۔
نبی کریم ﷺ کے بھیجے ہوئے نوجوان مبلغ کی محنت رنگ لے آئی اور نبوت کے تیرہویں سال بیعت لینے والوں کی تعداد بارہ سے بڑھ کر پچھتر(75) ہو گئی جن میں دو (2)خواتین بھی شامل تھیں ، یہ دوسری بیعت تھی جو عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے ، اس کے بعد آپ ﷺ نے مکہ کے مسلمانوں کو ہجرت عام کا حکم فرمایا اور خود اللہ رب العزت کی طرف سے اجازت ملنے کے بعد اپنے رفیق ابو بکرالصدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ یثرب کی جانب سفر شروع کیا اس سفر میں آپ ﷺ کفار سے بچنے کے لئے تین(3) دن غار ثور میں پناہ لی، جونہی حالات سازگار ہوئے تو آپ ﷺ نے صدیق اکبر رضی اللہ کے ہمراہ دوبارہ سفر شروع کیا۔
بعد از ہجرت کے حالات:
نبوت کےچودہویں سال،12ربیع الاول بروز پیر آپﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قباء میں داخل ہوئے اور چند روز قیام کے بعد آپﷺ وادئ یثرب میں داخل ہوئے، آپﷺ کی آمد سےاس وادی کا مقدر ہی بدل گیا اور وہ یثرب سے مدینۃ الرسول میںتبدیل ہو گئ نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے مدینہ منورہ میں مسجد کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر کر وائی کیونکہ اسلامی معاشرے میں مسجد اسمبلی کی مانند ہوتی ہے اور خلیفہ وقت اپنے تمام احکامات مسجد میں سے جاری کرتا ہے اور تمام سیاسی، اقتصادی ،اور جنگی معاملات ، مسجد میں ہی ہوا کرتے ہیں ۔ مگر افسوس ہائے افسوس!دور حاضر میں ہماری مساجد کی حیثیت صرف پنجگانہ نمازوں کے لئے ہی رہ گئی ہے مگر نمازی کہاں سے آئیں؟!
ٓاس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ایک اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل پر کام شروع کیا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے آس پاس کے عرب قبائل سے امن معاہدے کئے اور ساتھ ساتھ مدینہ میں بسنے والے یہودیوں سے بھی ، جس کی رو سے جو مسلما نوںکا حلیف ہوگا وہ چاہے کسی بھی مذہب پر ہو ان میں فیصلہ رسول اللہ ﷺ کا چلے گا اگر مدینہ پر کوئی حملہ کرتا ہے تو انہیں مسلمانوں کا ساتھ دینا ہوگا، پھر رسول اللہ ﷺنےمہاجرین و انصار کے مابین اخوات و بھائی چار گی کی بنیاد ڈالی ، ہر ایک مہاجر کو ایک انصاری کے ساتھ اسلامی بندھن میں جوڑ دیا یہ تاریخ عالم کی وہ اخوت و بھائی چارگی ہے جس کی مثال نہ پہلے کبھی ملی اور نہ ہی قیامت تک ملے گی ۔
ادھر ابھی مسلمانو ں کو سکھ کا سانس ملا ہی تھا کہ ہجرت کے دوسرے ہی سال مکہ کے کفر و عناد کے پجاریوںنے اس چمکتے سورج کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ، ایک ہزار افراد پر مشتمل گروہ خیمہ زن ہوگیا کہ بس آج مسلمانو ں اور اسلام کا سلسلہ ختم کر کے ہی جائیں گے ، اور دوسری طرف رسول اللہ ﷺ اور ان کے ساتھی جن کی تعداد ۳۱۳تھی ، جو آلات جنگ سے آراستہ بھی نہ تھے میدان جنگ میں اللہ رب العزت پر توکل کرتے ہوئے اتر آئے ، بڑے زوروں کی جنگ ہوئی اور آخر کار مسلمانوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مدد و نصرت کی بناء پر اس غزوہ میں کامیابی نصیب ہوئی ۔ یہ وہ پہلا معرکہ تھا جو حق و باطل کے درمیان ہوا اور حق کو فتح ملی ، اس معرکہ میں کفار کے ستر(70) افراد مارے گئے اور ستر ہی قید ہوئے۔ اس معرکہ کو تاریخ میں غزوہ بدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
کفر و عناد کے پجاریوں کا کلیجہ اب بدلہ کی آگ میں جلنا شروع ہوگیا اور اگلے ہی سال یعنی 3 ہجری کو وہ اپنا ایک عظیم الشان لشکر لے کراحد کے مقام پر خیمہ زن ہوئے اور وہاں دوسری طرف مسلمان بھی تیار تھے۔ جنگ شروع ہوئی جس میں ابتدامیں مسلمانوں کاپلڑا بھاری تھا ، پھر یکدم بازی پلٹ گئی اورمشرکین حاوی ہوگئے جس کے نتیجے میں ستر(70)مسلمان شہید ہوئے۔
اس جنگ میں مجموعی طور پر مسلمانوںکانقصان زیادہ ہوا۔ مگر مسلمانوں کے جوابی حملے کی بناء پر کفار ایک بار پھر پلٹ گئے۔ اس غزوہ میں رسول اللہ ﷺ کے چچا حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور رسول اللہ ﷺ بذات خود بھی زخمی ہوئے، آپ ﷺ پر کفار نے با قاعدہ حملہ کیا مگر آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے آپ کا مکمل دفاع کیا، اور کفار کو آپ پر حاوی نہ ہونے دیا۔ اور اس کے ساتھ اللہ رب العزت نے مسلمانوں کی جماعت میں بسنے والے منافقین کی نشاندہی بھی فرمادی منافقین کا سلسلہ ہر دور میں چلتا رہا ہے جیسا کہ عیسی علیہ السلام کے حواریوں میں منافقین تھے۔ اسی طرح موسی علیہ السلام کی جماعت میں بھی اور یوں ہی مسلمانوں میں بھی منافقین کی ایک بڑی جماعت قائم ہو گئی جنہوں نے یہودیوں سے اندرونی طور پر اپنے تعلقات کو اسطوار کر لیااور اسی بناء پراگلے 2سال بعد یعنی5 ہجری میں یہودیوں اور منافقین کی آپس کی چالبازی کی بناء پر کفر و عناد کے پجاریوں کا 10ہزار کا لشکر تیار ہوگیا جس میں تمام کے تمام عرب کے کفر و عناد کے پجاری جمع تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو جب اس بات کی خبر ملی تو مجلس شوریٰ بٹھائی گئی جس میں سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ کےارد گرد خندق کھدوانے کا مشورہ دیاجسے تسلیم کرلیا گیا اور پھر نبی کریم ﷺ سمیت تمام صحابہ نے خندق کھودی اور مدینہ میں سکونت اختیار کرلی جب کفار کا لشکر مدینۃ الرسول ﷺ کی جانب بڑھا تو وہ خندق کو دیکھ ہکہ بکہ رہ گیا کیونکہ یہ عرب کے لوگوں کے لئے نیا جنگی حربہ تھا کفر و عناد کے پجاریوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن رہا مگر وہ اس خندق کو عبور نہ کر سکے اور اللہ رب العزت نے آ ندھی چالائی اور کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور اس آندھی نے ان کے خیموں کو اکھاڑ پھینکا اور اس طرح مسلمان اس غزوہ میں فتح سے ہم کنار ہوئے اور یوں سارے عرب معاشرہ کو پتہ چل گیا کہ اب وہ اس سورج کی آ ب تاب سے نہیں بچ سکتے۔ اور پھر رسول اللہ ﷺیہودیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں مدینہ سے بے دخل کر دیا۔ اور ان کے قبیلہ بنو قریظہ کے600 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا، کیونکہ انہوںنے عہد شکنی کی اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑی سازش رچائی تھی۔
اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اب ہم ان (کفار)پر چڑھائی کریں گے وہ ہم پر چڑھائی نہ کریں گے اب ہمارا لشکر ان کی طرف جائےگا ۔(بخاری590/2)
اور اس کے اگلے ہی سال6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ مکہ مکرمہ کی طرف اپنے اصحاب کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے نکلے کفار سمجھے کے ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیںمگر رسول اللہ ﷺ نے اس کی وضاحت کے لئے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر مکہ مکرمہ کی طرف بھیجا ،جب وہ مکہ پہنچے اور وہاں کے سرداروں سے بات چیت کی تو وہ صلح پر رازی ہو گئے مگر ادھر مسلمانوں میں ہی بات مشہور ہوگئ کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جس کی بنا ء پر رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ایک درخت کے نیچے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے موت پر بیعت لی۔ اور آخر میں اپنا ایک ہاتھ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف سے رکھ کر فرمایایہ عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہے کہ اتنے میں سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئےاور سارا معاملہ بتایا کہ کفار صلح پر رازی ہوگئے ہیں اس واقعہ کو اللہ رب العزت نے یوں ذکر فرمایا :
لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِيباً
(الفتح:18)
’’یقیناً اللہ تعالٰی مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی‘‘
اس کے بعد مسلمانوں اور اہل مکہ کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا جس کی بناء پر اگلے10سال تک دونوں فریقوں میں کوئی جنگ نہ ہوگی اور جو جو قبائل ان دونوں فریقوں میں سے کسی کے بھی حلیف ہیں اگر ان کے درمیان جنگ کی کوئی صورت حال پیش آتی ہےاور مسلمانوں یا اہل مکہ میں سے کوئی بھی اپنے حلیف کی مدد کرتا ہے تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔اس بناء پر دوسرا فریق پہلے فریق پر حملہ کا جواز رکھے گا ۔اور ساتھ ہی ساتھ یہ معاہدہ بھی طے پایاکہ اگر کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ جائے گا تو اسے واپس لوٹا دیا جائے گا مگر اگر کوئی شخص مدینہ سے مکہ آ ئےگاتو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایک دستاویزاتی معاہدہ تھا جس کی بنا ء پر مسلمانوں کوعرب سے باہر بھی دین اسلام کی نشرو اشاعت کا ایک سنہری موقع میسر آیااورآپﷺ نے قیصر، کسریٰ، مصر، عراق،یمن اور حبشہ کی طرف اپنے قافلے روانہ فرمائے جس کا مقصد دین اسلام کی دعوت و تبلیغ تھی اور ساتھ ہی ان کے ہاتھ خطوط بھی روانہ فرمائے۔
اسی طرح 7ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے ایک لشکر موتہ کی جانب روانہ کیا جو کہ سلطنت قیصر کا حصہ تھا اس جنگ میں آپ ﷺ نے امیر لشکرسیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنا کر بھیجااور یہ وصیت کی کہ اگر امیر کو کچھ ہو جائے تو امارت سیدناجعفر بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سنبھالیں گے اور اگر انھیں کچھ ہو جائے تو سیدناعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ سنبھالیں گے۔اس جنگ میں جب مسلمانوں کے یہ تینوں سپہ سالار شہید ہو گئےتو لشکر کی قیادت سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے سنبھال لی جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب لشکر کی قیادت اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کر رہی ہے۔اور پھر سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس لشکر کو بچاتے ہوئے مدینہ واپس لے آئے تب آپ ﷺ نے فرمایا ہم دوبارہ حملہ کرنے کے لئے پیچھے ہٹے ہیں ۔
اس واقعے کے اگلے ہی سال سنہ 8ہجری میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو مکہ کی فتح نصیب فرمائی وہ پہلا موقع تھا جس میں خون بہے بغیر ایک ریاست کو فتح کیا گیا تھا ۔ اور پھر آپ ﷺ نے معافی عام کا حکم صدر فرمایا جس کی بناء پر اہل مکہ مسلمان ہو گئے اور جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہوگئے اس مہم کے اگلے چند دنوں بعد آپ ﷺ حنین کی طرف متوجہ ہوئے وہاں شروع میں مسلمانوں پر شدید ترین حملہ ہوا اور مسلمان پیچھے ہٹ گئے مگر پھر اللہ سبحانہ و تعالی نے سکینت نازل فر مائی اور مسلمانوں نے بھرپورحملہ کیا اور حنین کے لوگ قلع بند ہوگئے اور جوابی کار وائی نہ کر سکے اور اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک بار پھر مسلمانوں کو کامیابی نصیب فرمائی اس معرکہ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہونے کے با وجود شروع جنگ میں شکست سے دو چار ہونا اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ کثرت کوئی معنیٰ نہیں رکھتی اصل چیز خالق کائنات پر ایمان اور توکل ہے اور اس کی مدد کی ہمیشہ امید رکھنا ہے۔
اس مہم سے فراغت کے بعد جب رسول اللہ ﷺ مدینہ لوٹے تو چند دنوں بعد یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ قیصر روم مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر جرار تیار کر رہا ہے جو کہ تبوک میں جمع ہو رہا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کو خبر پہنچادی کہ جنگ کے لئے روانہ ہونا ہے جس کے پاس جو مال ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے یہ سنتے ہی تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے گھر کے تمام اثاثے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیئےسیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ تقریبا 700اونٹ اللہ کی راہ میں دیئے ،سیدناابوبکررضی اللہ عنہ اپنے گھرکاتمام مال، عمرسیدنا فاروق رضی اللہ عنہ آدھا مال اور اسی طرح ہر صحابی نے صدقہ کیا ۔ یہ معرکہ تاریخ میں غزوہ تبوک اور غزوہ عسر کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اس غزوہ میں سفر بہت لمبا تھا، گرمی کے ایام تھے اور خرد ونوش کی اشیاء اور پانی کی بہت کمی تھی حتیٰ کہ صحابہ رضی اللہ علیہم نے اونٹوں کو ذبح کر کے ان کی آنتوں میں سے پانی پیا ،پتے اور گھاس کھائی پھر آپﷺ نے اللہ سے دعاء کی اور باران رحمت نازل ہوئی تمام صحابہ اور ان کے مویشیوں نے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور جمع بھی کر لیا جب مسلمانوں کا یہ لشکر تبوک کے مقام پر پہنچا تو رومی ہکے بکے رہ گئے اور پیچھے ہٹ گئے اس مہم کے نتیجے میں تمام سرحدی علاقوں میں بسنے والے عرب قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور بیرونی طاقتوں کو مسلمانوں کی طاقت کا بھی اندازہ ہو گیا اور جو سورج ۵۲سال قبل طلوع ہوا تھا آج اس نے اپنی لپیٹ میں تمام عرب کو لے لیا ۔ بلکہ اب اس کی کرنیں عرب کی حدود کو بھی پار کر رہی تھیں ۔
حجۃ الوداع اورنبی اکرم ﷺکا حج:
یہ غزوہ حنین آپﷺ کی زندگی کا آخری غزوہ تھا اس غزوہ سے واپسی کے بعد آپﷺ نے حج کا ارادہ کیا، آپﷺ کے حج کی خبر جب عرب میں پھیلی تو تمام کے تمام مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہو ئے۔آپ ﷺنے قربانی کے جانوروں کو قلادہ پہنایا اور مقام ذوالحلیفہ میں احرام باندھا اور دو (2) رکعت ظہر کی نماز ادا کی اور پھر
لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ (صحيح البخاري (2/ 138)
کی صدائیں بلند کرتے ہوئے مسلمان مکہ کی طرف روانہ ہوئے، کیونکہ آپ ﷺ نے حج قران کی نیت کی تھی آپﷺ نے مکہ پہنچ کر عمرہ ادا کیااور پھر احرام اتارے بغیر ہی 8ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہوئے جہاں آپ ﷺنے پنج گانہ نماز ادا کی اور9 ذی الحجہ کو عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور نمرہ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا جو خطبۃ الوداع کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپﷺ نے جاہلیت کے تمام خون معاف فرمادیئے جاہلیت کا تمام سود ختم کروادیا ،عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرنے کاحکم دیا اور فرمایا کہ میں تم میں ایک ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر اسے مضبوطی سے پکڑے رکھوگے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے پھر آپ نے فرمایا لوگوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا اور نہ تم جیسی کوئی امت۔ اپنے رب کی عبادت کرنا ،پنج گانہ نماز کی پابندی کرنا ،روزے رکھنا زکوٰۃ ادا کرنا ، بیت اللہ کا حج ادا کرنا اور اپنے حکمرانوں کی حلال کاموں میں اطاعت کرنا اگر ایسا کروگے تو جنت میں داخل ہوگے۔
اور تم سے میرے متعلق پوچھا جائےگا تو تم لوگ کیا کہوگے؟ صحابہ نے کہا کہ ہم شہادت دیں گے آپ ﷺ نے پیغام پہنچادیا اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا۔ یہ سن کر آپﷺ نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اورپھر تین (3) بار فرمایا :اے اللہ گواہ رہ۔
اور جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدة: 3]
’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا‘‘
پھر آپﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز ایک اذان اور دو (2)اقامت کے ساتھ جمعاً وقصراً ادا فرمائی پھر جبل رحمت پر چڑہے اور سورج غروب ہونے تک اللہ سے دعائیں کرتے رہے ، سورج غروب ہونے کے بعد آپﷺ مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے وہاں پہنچ کر مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو(2) اقامت کے ساتھ جمعاً وقصراً ادا فرمائی اور رات کو آپﷺ نے آرام فرمایا اور صبح فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد آپﷺ مشعر الحرام پر چڑھے اللہ سے دعائیں کی اور جب خوب اجالا ہوگیا تو آپﷺ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے وہاں جمرہ عقبہَ اولی پر سات (7)کنکریاں ماریں پھر قربان گاہ میں اپنے ہاتھ سے63اونٹ ذبح کئے باقی 37اونٹ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے قربان کئے اور یوں100اونٹ کی تعداد پوری ہوئی پھر آپﷺ مکہ روانہ ہوئے طواف افاضہ ادا کیا اور ظہر کی نماز ادا کی پھر دوباہ منی تشریف لے گئے اور ایام ِ تشریق 11-12-13 ذی الحجہ وہیں قیام فرمایا مناسک حج ادا کئے اور لوگوں کو احکامِ حج بتائے۔
وصال سے پہلے کے حالات:
حج کی ادائیگی کے بعد آپﷺ جب مدینہ پہنچے تو آپﷺ کی طبیعت نا ساز ہو گئی ، اور دن بدن آپﷺ کی طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی آپﷺ نے اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں قیام فرمایااور وصال سے پانچ دن پہلے آپﷺ نے کنویں سےٹھنڈا پانی منگوا کر اپنے اوپر ڈلوایااور طبیعت میں جب کچھ افاقہ ہوا تو آپﷺ مسجد میں منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا :یہود ونصاریٰ پر اللہ کی لعنت کہ انھوں نے انبیاء کی قبر کو مسجد بنایا ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ تم لوگ میری قبر کو بت نہ بنانا کےاس کی پوجا کی جائے ۔ پھر آپﷺ نے ظہر کی نماز ادا فرمائی اور دوبارہ منبر تشریف فرما ہوئے اور آپﷺ انصار کے بارے میں وصیت فرمائی ، پھر آپﷺ نے فرمایاایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ وہ یا تو دنیا کی چمک دھمک اور زیب و زینت میں سے جوکچھ چاہے اللہ اسے دے دےیا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کرے تو اس بندے نے اللہ کے پاس والی چیز کو اختیار کرلیا ۔ یہ سن کرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: ہم ماں باپ سمیت آپﷺ پر قربان۔ وصال سے چار دن پہلے آپﷺ نے عشاء کی نماز کی امامت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپ دی اور پھر تقریبا دو دن پہلے جب آپ ﷺ کی طبیعت بحال ہوئی تو آپ دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے مسجد تشریف لائے اس وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے تو آپ ﷺسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ کرنماز شروع کی اورسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر تے رہے اور صحابہ کو تکبیرات سناتے رہے ۔ مگر آج ہم صحیح اور صحت یابی کے باوجود نماز ادا نہیں کرتے اپنا تمام وقت کاروبار، میل جول، کھیل کود اور آوارہ گردی میں گزار دیتے ہیں ۔
اللہ اکبر! نبی اکرم ﷺ بیماری کی حالت میں بھی دوسروں کے کاندھو ں کا سہارا لے کر مسجد میں نماز ادا کرنے آتے ہیں ہم محبت رسولﷺ کے دعوے دار تو بنتے ہیں مگر اطاعت رسول ؟اور وصال سے چند ساعات پہلے آپ ﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے کان میں سر گوشی کی تو ایک بار وہ روئیں اور دوسری بار وہ مسکرائیں، پہلی بار آپ نے وصال کے بابت فرمایا تو وہ روئیں اور دوسری بار آپﷺ نے فرمایا کہ تم میرے اہل وعیال میں میرے پیچھے سب سے پہلے آؤ گی تو آپ مسکرائیں۔ پھرآپ ﷺنے صحابہ اکرام کو وصیت فرمائی:
الصلاۃ ، الصلاۃ وماملکت ایمانكم۔
(نماز ، نماز اور جن غلاموں کے تم مالک ہوان سے حسن سلوک سے پیش آنا) مسواک کی جسے اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے دانتوں سے نرم کر کے دیا اور پھر آپﷺ نے اپنا ہاتھ یا انگلی اٹھائی اور نگاہ چھت کی طرف بلندکی اور دونوں ہونٹوں پر حرکت ہوئی آپﷺ نے فرمایا: ان انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا ، اے اللہ مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلی میں پہنچادے، اے اللہ رفیق اعلیٰ۔ آخری جملہ تین مرتبہ دہرایا اور اسی وقت ہاتھ جھک گیا اورآپﷺ رفیق اعلیٰ سےجا ملے
إنا لله وإنا إليه راجعون ۔
نبی کریم ﷺ کی تکفین و تدفین:
یہ واقعہ ۱۲ربیع الاول ۱۱ھ بروز پیر چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔ اس وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ(63) سال چار دن ہو چکی تھی۔ یہ وہ غمگین لمحات تھے کہ صحابہ کرام y غم کے مارے ہوش و ہواس کھو بیٹھے تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہاتھ میں تلوار لئے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ آپﷺ وصال فرما گئے ہیں تو میں اس کی گردن اس کے تن سے جدا کر دونگا۔ مگر جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے اور آپﷺ کےحجرے میں گئے اور آپﷺ کے ماتھے پر بوسہ دیا اور فرمایا ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان، اللہ آپ پر دو موت جمع نہیں کرے گا، جو موت آپﷺ پر لکھ دی گئی تھی وہ آپﷺ کو آچکی‘‘۔ پھر آپ مسجد میں گئے ،لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
من كان يعبد منكم محمدا فإن محمدا قد مات، ومن كان منكم يعبد الله فإن الله حي لا يموت قال الله: وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓى اَعْقَابِكُمْ ۭ وَمَنْ يَّنْقَلِبْ عَلٰي عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَّضُرَّ اللّٰهَ شَـيْـــًٔـا ۭ وَسَيَجْزِي اللّٰهُ الشّٰكِرِيْنَ [۱۴۴/۳]
’’تم میں سے جو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتاتھا جان لے کہ بے شک محمد ﷺ وفات پا چکے ہیں اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتاتھا تو بے شک اللہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی(پھر آیت) پڑھی:’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیںاس سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا شہید ہوجائیں تو اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو اللہ تعالٰی کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالٰی شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا ‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :واللہ ایسا لگتا تھا گویا لوگ جانتے ہی نہیں تھے اللہ نے یہ آیت نازل کی ہے ، یہاں تک کہ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی تو لوگوں نے ان سے یہ آیت اخذ کی‘‘۔ سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر t نے فرمایا : واللہ میں نے جوں ہی ابوبکر t کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا تو انتہائی متحیر اوردہشت زدہ ہوکر رہ گیا ،حتی کی میرے پاوں مجھے اٹھا ہی نہیں رہے تھے اور یہ آیت سن کر زمین پر گر پڑا کیونکہ مجھے یقین ہو گیا کہ نبیﷺ کی واقعی موت واقع ہو چکی ہے۔[صحیح بخاری۲/۶۴۰،۶۴۱]
پھر نبی کریمﷺ کی تدفین سے پہلے جانشینی کی بحث چھڑ گئی تو سقيفہ بنی ساعد میں بڑے بحث و مباحثہ کےبعد سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسولﷺمقرر کر لیا گیا۔ اور پھر آپﷺ کو بروز منگل اسی لباس میں ہی غسل دیا گیا اور آپﷺ کی قبر مبارک سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے بستر کو ہٹا کر اس کے نیچے کھو دی جو کہ لحد والی {بغلی} کھو دی گئی تھی۔
پھر باری باری دس دس صحابہ حجرے میں داخل ہوتے اور نماز جنازہ پڑھتے جاتے اس جنازے میں امام کوئی نہیں تھا ، سب سے پہلے بنو ہاشم نے نماز جنازہ پڑھی پھر مہاجرین نے ، پھر انصار ، پھر عورتوں،اور آخر میں بچوں نے پڑھی منگل کا پورا دن نماز جنازہ میں گزر گیا اور بدھ کی رات آپ ﷺکو سپرد خاک کر دیا گیا ۔
خاتمہ:
تریسٹھ (63)برس پہلے مکہ کی وادی میں جو سورج طلوع ہوا تھا آج اس نے پورے عرب کو اپنے لپیٹ میں لے لیا جس کا جسد خاکی تو سپرد خاک ہوا مگر نور نبوت نے پوری دنیا کو منور کر دیا اور دنیا کےہر چپے سے ‘‘
أشهدان لَّا اِلٰہ إلَّا الله وأشهد أن محمدا رسول الله
کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔
مگر افسوس صدافسوس! جس دین کو آپﷺ لے کر آئے تھے آج ہم نے اسے فراموش کر دیا اور اپنے خود ساختہ عقائد و مذاہب کے پیرو کار بن گئے ، جن چیزوں سے آپﷺ نے پوری زندگی لوگو ں کو منع فرمایا آج ہم نے انہیں چیزوں کو اپنا لیا ، آج ہم بھی قبروں کے پجاری ، وہم اور توہم پرستی ہماری عادت بن چکی ہے نماز، روزہ کی فرضیت کی اہمیت ہمارے لئے کچھ بھی نہیں ، ہماری زندگی کا مقصد تو صرف کاروبار ، ناچ گانا، انجوئے منٹ اور دین کی خلاف ورزی ہے۔اللہ کی کتاب ہمارے درمیان ہے اگر ہم اسے پڑھیں ،سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو ہماری زندگیاں بدل جائیں اور اللہ رب العزت ہمیں ہدایت سے سرفراز کرے تو کیا دور ہے مسلمان جو آج دنیا کی دوسری سب سے بڑی قوم ہے اور ذلت و رسوائی سے ہم کنار ہے اللہ اسے کامیابی اور کامرانی عطا کرے اور اس کی کھوئی ہوئی شوکت اسے دوبارہ لوٹادے اور اسلام کا بول بالا ہوجائے ۔
اللہ رب العزت قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ
’’کسی قوم کی حالت اللہ تعالٰی نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ‘‘(الرعد: 11)
بے شک اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم اپنی حالت نہ بدلنا چاہتی ہو۔ اللہ رب العزت ہمِیں محبین رسولﷺ کے ساتھ ساتھ اطاعت گزار بھی بنائے اور ہماری تمام عبادات کو اپنی بارگاہ میںشرف قبولیت عطا فرمائے ۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب