اسلامی نظام کی اساس حکمت و دانائی اور انسانیت کی دنیاوی اور اخروی بھلائی پر رکھی گئی ہے شریعت اسلامیہ سراپا عدل و انصاف ا ور منبع خیر و برکت ہے اسلام ہی کامیزۂ خاص ہے کہ اس کے تمام تر احکامات ، معاملات حدود و تعزیرات عدل و انصاف پر مبنی ہیں جیساکہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہےکہ ہر معاملہ میں حسن وخوبی کو اپنایا جائے۔
إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ،(مسلم (3/ 1548) ’’یقیناً اللہ تعالی نے ہر چیز کے لیے حسن و خوبی کو لازم قرار دیاہے‘‘
شریعت اسلامیہ ہی امن عالم کی ضامن ہے ماضی میں بھی امن وسلامتی اسی سے قائم ہوئی حال اور مستقبل میں بھی امن و آشتی اسی سے آئے گی، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ(اٰل عمران:103)
’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ‘‘
سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نجاشی کے دربار میں اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :’’اے بادشاہ ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا تھی ، ہم بت پوجتے تھے مردار کھاتے تھے بدکاریاں کرتے تھے قرابداروں سے تعلق توڑتے تھے ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا اس کی عالی نسبی، سچائی ، امانت اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ، انہیں چھوڑدیں انہوں نے ہمیں سچ بولنے ، امانت اداکرنے ، قرابت جوڑنے ، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خونریزی سے باز رہنےکا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے ، جھوٹ بولنے ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگالنے سے منع کیا اس نے ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اس نے ہمیں نماز روزہ اور زکوٰۃ کا حکم دیا‘‘ اسی طر ح سیدنا جعفر رضی اللہ تعالی نے اسلام کے کام گنائے پھر کہا ہم نے ا س پیغمبر کو سچا مانااس پر ایمان لائےاور اس کے لائے ہوئے دین الٰہی میں اس کی پیروی کی چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی اس کے ساتھ کسی کو شیریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر نے حرام بتایا انہیں حرام مانا اور جن باتوں کو حلال بتایا انہیں حلال جانا ۔ ا س پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی اس نے ہم پر ظلم وستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سےدوچار کیا تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف لوٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیںجب انہوں نے ہم پر بہت قہر و ظلم کیا زمین تنگ کردی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تو ہم نے آپ کےملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘
مذکورہ بالاعبارت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا نفاذ ہی پر سکون زندگی کا واحد ذریعہ ہے اس سے سیاسی معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں پروان چڑھتی ہیں جو مثبت سوچ کی عکاس ہوتی ہیں اسلامی معاشرے میں خوشحالی عام ہونے سے ملک کا وقار اور دفاع مضبوط ہوتا ہےاور حدود اللہ کا نفاذ اسلام کی سربلندی امت کے غلبہ اور قوت کا ذریعہ ہے پوری امت افراتفری ، انتشار اور تباہی سے محفوظ ہوجاتی ہے معاشرے میں بگاڑ کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں شعائر اسلام پر عمل پیراہ ہونے سے ملکی تعمیر وترقی میں رکاوٹ بننے والے مجرم اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والے جاہلوں پر حدود کا نفاذ کرنا ہی عین عدل وانصاف ہے کیونکہ اسلام میں مجرم کے گناہ اور غلطی کے مطابق سزا مقرر کی جاتی ہے اسلام میں جہاں اور جس سےنرمی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں نرمی برتی جاتی ہے اور جہاں سختی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سختی پر عمل کیا جاتاہے جیساکہ دعوت واصلاح کے لیے انتہائی نرمی محبت اور شفقت بھر انداز اپنایا گیا ہے جبکہ مجرموں اور فسادیوں کے لیےسخت ترین رویہ اختیار کیا گیا ہےتاکہ انہیں دوسروں کے لیے نشان عبرت بنایا جاسکے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (المائدہ 33)’’جو اللہ تعالیٰ سے اور اسکے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کردیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت وخواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے‘‘
مسلمان آپس میں جسد واحدکی مانند ہوتے ہیں جہاں ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا حصہ بھی درد محسوس کرتا ہے مگر شریعت اور عقل اس بات پر متفق ہیںکہ اگر جسم کے کسی حصے میں فساد پیدا ہوجائے تو اسے کا ٹ دیا جائے تاکہ باقی جسم کو خطر ناک بیماری سے بچایا جاسکے ایسے ہی اسلامی ملک میں فتنہ وفساد برپا کرنے والے شر انگیزی پھیلانے والے امن وامان کو بگاڑنے والے معاشرے کو انفرادی اوراجتماعی نقصان پہنچانے والے اگر چہ وہ ہمارے جسم کا ہی حصہ ہیں مگر انہیں بیماری کی وجہ سے الگ کرنا ضروری ہے مگر ہم دیکھتےہیں کہ جب ان اسلامی حدود پر عمل کیا جاتا ہے تو پہلے تو اہل مغرب ان سزاؤں پر مسلمانوں کو ملامت کرتے تھے اور اعتراض کرتے نہیںتھکتے تھے بلکہ ان سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں گردانتے تھے یہ لوگ ہیں جو تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار ہیں اور اس کے باوجود وہ جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پوری عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے، جن کی زندگیوں کو ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنارکھا ہے، حالانکہ یہ روش سراسر عقل کے خلاف اور انصاف سے متصادم ہے، کیونکہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے، جب کہ امن عامہ کو خراب کرنے کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے، اس لئے خالق کائنات رب العالمین جو نیک، بد، فاسق وفاجر، ابرار واشرار ہرایک کو رزق عطا کرتا ہے، سانپوں، بچھوؤں کو رزق دیتا ہے اور جس کی رحمت سب پر حاوی ہے، اس نے جب اپنی حکمت بالغہ کے تحت حدود کو بیان فرمایا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ(النور: 2)یعنی اللہ تعالیٰ کی حدود کے جاری کرنے میں ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے۔
اسی طرح قصاص کو عالم انسانی کی حیات قرار دیا اور فرمایا :وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (البقرة: 179)
تیسری عالمی جنگ کا خطرہ:
جو لوگ ان حدود پر اعتراض کرتے ہیں، معلوم ہوا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ جرائم کا انسداد ہو، ورنہ جہاں تک رحمت وشفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ کوئی نہیں سکھا سکتا۔ مگر اب اعتراض اسلام کے بعض دعویدار وں کی طرف سے کیا جاتا ہے جب ان کے اپنے ملکوں میں کوئی شخص ان کے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہےیا ان کے عقیدے کی مخالفت کرتاہے تو اسے سخت سے سخت سزادیجاتی ہے ۔ پھر وہ کس منہ سے دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں جبکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ہر ملک اپنے ملکی قوانین پر عمل پیرا ہونے میں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہے اور اگر ایسا ملک جہاں پر اسلامی حدود و تعزیرات کا نظام قائم ہو، وہاں اگر وہ اپنے کسی شہری کو فتنہ وفساد ، دہشت گردی اور حکومت کو کمزور کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارنے کے خلاف شرعی عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد اسے سزا دیتی ہے تو کسی دوسرے کو کیوں تکلیف ہوتی ہے اگرہر ملک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا شروع کردے تو یہ جنگل کا قانون ہوگا اس لیے عقل ودانش سے کام لینے کی ضرورت ہے اگر اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف احتجاج ہوتا رہااور ایک دوسرے کے سفیروں کو ڈرایا جاتارہا اور سفارت خانے جلائے جاتے رہے تو پھر اس کا نتیجہ تیسری عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے جوکہ مسلمانوں کے لیے کسی طرح بھی سود مند نہ ہوگا ۔ اگر مسلمان ہے توا ن کو اغیار کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا کیونکہ ان کی تو دلی تمنا یہی ہے کہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے مفلوک کردیا جائے اور ان کے مزیدحصے بخرے کردیے جائیں اور اگر مسلمان نہیں ہیں بس لیبل ہی اسلام کا لگایا ہے تو یہ لڑائی ختم نہیں ہوگی ، ہاں وقتی طور پر رک بھی جائے تو پھر شروع ہو سکتی ہے اور اگر پھر شروع ہوئی تو بہت شد ومدکے ساتھ ہوگی جس میں بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان اپنا قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان صلح کروانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے صلح کروانے والے تو اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب کوئی صلح کرنا چاہتاہو جبکہ اطلاعات ایسی آرہی ہیںکہ ایک ملک نے تو پاکستانی وزیر اعظم اور وفد کے اراکین کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور مہمان نوازی کا پورا حق ادا کیا جبکہ دوسرےملک والوں نے تہران میں وزیر اعظم اور وفد کا بہت سرد رویے سے استقبال کیا ، پاکستانی وزیر اعظم کو اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کے بجائے ایک چھوٹے سے پورچ والے ہوٹل لے جایا گیا جہاں وزیر اعظم کے سوا وفد کے تمام ارکان کو سڑک پر اتر کر پیادل لابی تک جانا پڑا وفد کے صرف چھ ارکان کو ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری اور صدرحسن روحانی سے ملاقات کی اجازت دی گئی ، باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہاایرانی اہلکار بھی ان سےمہمان نوازی سےپیش نہ آئے ۔ یاد رہے کہ پاکستانی قیادت وہاں ایران سے مدد مانگنے نہیں بلکہ ان کی مدد کرنے گئی تھی، دو برادر اسلامی ممالک کو تباہی اور کشت وخون سے بچانے کے مقدس جذبے سےکی گئی تھی ۔ لیکن ایرانی قیادت نے انہیں وہ عزت و تکریم نہ دی جس کےوہ مستحق تھے۔