Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

حُدودو اللہ کا نفاذ امن عالم کی ضمانت

17 Jul,2016

اسلامی نظام کی اساس حکمت و دانائی اور انسانیت کی دنیاوی اور اخروی بھلائی پر رکھی گئی ہے شریعت اسلامیہ سراپا عدل و انصاف ا ور منبع خیر و برکت ہے اسلام ہی کامیزۂ خاص ہے کہ اس کے تمام تر احکامات ، معاملات حدود و تعزیرات عدل و انصاف پر مبنی ہیں جیساکہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہےکہ ہر معاملہ میں حسن وخوبی کو اپنایا جائے۔
إِنَّ اللهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ،(مسلم (3/ 1548) ’’یقیناً اللہ تعالی نے ہر چیز کے لیے حسن و خوبی کو لازم قرار دیاہے‘‘
شریعت اسلامیہ ہی امن عالم کی ضامن ہے ماضی میں بھی امن وسلامتی اسی سے قائم ہوئی حال اور مستقبل میں بھی امن و آشتی اسی سے آئے گی، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ(اٰل عمران:103)
 ’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ‘‘
سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ نجاشی کے دربار میں اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :’’اے بادشاہ ہم ایسی قوم تھے جو جاہلیت میں مبتلا تھی ، ہم بت پوجتے تھے مردار کھاتے تھے بدکاریاں کرتے تھے قرابداروں سے تعلق توڑتے تھے ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو کھا رہا تھا ہم اسی حالت میں تھے کہ اللہ نے ہم ہی میں سے ایک رسول بھیجا اس کی عالی نسبی، سچائی ، امانت اور پاکدامنی ہمیں پہلے سے معلوم تھی اس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا اور سمجھایا کہ ہم صرف ایک اللہ کو مانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اس کے سوا جن پتھروں اور بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ، انہیں چھوڑدیں انہوں نے ہمیں سچ بولنے ، امانت اداکرنے ، قرابت جوڑنے ، پڑوسی سے اچھا سلوک کرنے اور حرام کاری و خونریزی سے باز رہنےکا حکم دیا اور فواحش میں ملوث ہونے ، جھوٹ بولنے ، یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگالنے سے منع کیا اس نے ہمیں یہ حکم بھی دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اس نے ہمیں نماز روزہ اور زکوٰۃ کا حکم دیا‘‘ اسی طر ح سیدنا جعفر رضی اللہ تعالی نے اسلام کے کام گنائے پھر کہا ہم نے ا س پیغمبر کو سچا مانااس پر ایمان لائےاور اس کے لائے ہوئے دین الٰہی میں اس کی پیروی کی چنانچہ ہم نے صرف اللہ کی عبادت کی اس کے ساتھ کسی کو شیریک نہیں کیا اور جن باتوں کو اس پیغمبر نے حرام بتایا انہیں حرام مانا اور جن باتوں کو حلال بتایا انہیں حلال جانا ۔ ا س پر ہماری قوم ہم سے بگڑ گئی اس نے ہم پر ظلم وستم کیا اور ہمیں ہمارے دین سے پھیرنے کے لیے فتنے اور سزاؤں سےدوچار کیا تاکہ ہم اللہ کی عبادت چھوڑ کر بت پرستی کی طرف لوٹ جائیں اور جن گندی چیزوں کو حلال سمجھتے تھے انہیں پھر حلال سمجھنے لگیںجب انہوں نے ہم پر بہت قہر و ظلم کیا زمین تنگ کردی اور ہمارے درمیان اور ہمارے دین کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے تو ہم نے آپ کےملک کی راہ لی اور دوسروں پر آپ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ کی پناہ میں رہنا پسند کیا اور یہ امید کی کہ اے بادشاہ آپ کے پاس ہم پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘
 مذکورہ بالاعبارت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا نفاذ ہی پر سکون زندگی کا واحد ذریعہ ہے اس سے سیاسی معاشی اور معاشرتی سرگرمیاں پروان چڑھتی ہیں جو مثبت سوچ کی عکاس ہوتی ہیں اسلامی معاشرے میں خوشحالی عام ہونے سے ملک کا وقار اور دفاع مضبوط ہوتا ہےاور حدود اللہ کا نفاذ اسلام کی سربلندی امت کے غلبہ اور قوت کا ذریعہ ہے پوری امت افراتفری ، انتشار اور تباہی سے محفوظ ہوجاتی ہے معاشرے میں بگاڑ کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں شعائر اسلام پر عمل پیراہ ہونے سے ملکی تعمیر وترقی میں رکاوٹ بننے والے مجرم اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والے جاہلوں پر حدود کا نفاذ کرنا ہی عین عدل وانصاف ہے کیونکہ اسلام میں مجرم کے گناہ اور غلطی کے مطابق سزا مقرر کی جاتی ہے اسلام میں جہاں اور جس سےنرمی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں نرمی برتی جاتی ہے اور جہاں سختی کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سختی پر عمل کیا جاتاہے جیساکہ دعوت واصلاح کے لیے انتہائی نرمی محبت اور شفقت بھر انداز اپنایا گیا ہے جبکہ مجرموں اور فسادیوں کے لیےسخت ترین رویہ اختیار کیا گیا ہےتاکہ انہیں دوسروں کے لیے نشان عبرت بنایا جاسکے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (المائدہ 33)’’جو اللہ تعالیٰ سے اور اسکے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں ۔ یا انہیں جلا وطن کردیا جائے یہ تو ہوئی انکی دنیاوی ذلت وخواری، اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے‘‘
مسلمان آپس میں جسد واحدکی مانند ہوتے ہیں جہاں ایک حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا حصہ بھی درد محسوس کرتا ہے مگر شریعت اور عقل اس بات پر متفق ہیںکہ اگر جسم کے کسی حصے میں فساد پیدا ہوجائے تو اسے کا ٹ دیا جائے تاکہ باقی جسم کو خطر ناک بیماری سے بچایا جاسکے ایسے ہی اسلامی ملک میں فتنہ وفساد برپا کرنے والے شر انگیزی پھیلانے والے امن وامان کو بگاڑنے والے معاشرے کو انفرادی اوراجتماعی نقصان پہنچانے والے اگر چہ وہ ہمارے جسم کا ہی حصہ ہیں مگر انہیں بیماری کی وجہ سے الگ کرنا ضروری ہے مگر ہم دیکھتےہیں کہ جب ان اسلامی حدود پر عمل کیا جاتا ہے تو پہلے تو اہل مغرب ان سزاؤں پر مسلمانوں کو ملامت کرتے تھے اور اعتراض کرتے نہیںتھکتے تھے بلکہ ان سزاؤں کو وحشیانہ سزائیں گردانتے تھے یہ لوگ ہیں جو تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار ہیں اور اس کے باوجود وہ جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پوری عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے، جن کی زندگیوں کو ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنارکھا ہے، حالانکہ یہ روش سراسر عقل کے خلاف اور انصاف سے متصادم ہے، کیونکہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے، جب کہ امن عامہ کو خراب کرنے کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے، اس لئے خالق کائنات رب العالمین جو نیک، بد، فاسق وفاجر، ابرار واشرار ہرایک کو رزق عطا کرتا ہے، سانپوں، بچھوؤں کو رزق دیتا ہے اور جس کی رحمت سب پر حاوی ہے، اس نے جب اپنی حکمت بالغہ کے تحت حدود کو بیان فرمایا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ(النور: 2)یعنی اللہ تعالیٰ کی حدود کے جاری کرنے میں ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے۔
 اسی طرح قصاص کو عالم انسانی کی حیات قرار دیا اور فرمایا :وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (البقرة: 179)
تیسری عالمی جنگ کا خطرہ:
جو لوگ ان حدود پر اعتراض کرتے ہیں، معلوم ہوا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ جرائم کا انسداد ہو، ورنہ جہاں تک رحمت وشفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلامیہ سے زیادہ کوئی نہیں سکھا سکتا۔ مگر اب اعتراض اسلام کے بعض دعویدار وں کی طرف سے کیا جاتا ہے جب ان کے اپنے ملکوں میں کوئی شخص ان کے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہےیا ان کے عقیدے کی مخالفت کرتاہے تو اسے سخت سے سخت سزادیجاتی ہے ۔ پھر وہ کس منہ سے دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں جبکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت بھی ہر ملک اپنے ملکی قوانین پر عمل پیرا ہونے میں مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ہے اور اگر ایسا ملک جہاں پر اسلامی حدود و تعزیرات کا نظام قائم ہو، وہاں اگر وہ اپنے کسی شہری کو فتنہ وفساد ، دہشت گردی اور حکومت کو کمزور کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارنے کے خلاف شرعی عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد اسے سزا دیتی ہے تو کسی دوسرے کو کیوں تکلیف ہوتی ہے اگرہر ملک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا شروع کردے تو یہ جنگل کا قانون ہوگا اس لیے عقل ودانش سے کام لینے کی ضرورت ہے اگر اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف احتجاج ہوتا رہااور ایک دوسرے کے سفیروں کو ڈرایا جاتارہا اور سفارت خانے جلائے جاتے رہے تو پھر اس کا نتیجہ تیسری عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے جوکہ مسلمانوں کے لیے کسی طرح بھی سود مند نہ ہوگا ۔ اگر مسلمان ہے توا ن کو اغیار کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا کیونکہ ان کی تو دلی تمنا یہی ہے کہ مسلمانوں کو ہر لحاظ سے مفلوک کردیا جائے اور ان کے مزیدحصے بخرے کردیے جائیں اور اگر مسلمان نہیں ہیں بس لیبل ہی اسلام کا لگایا ہے تو یہ لڑائی ختم نہیں ہوگی ، ہاں وقتی طور پر رک بھی جائے تو پھر شروع ہو سکتی ہے اور اگر پھر شروع ہوئی تو بہت شد ومدکے ساتھ ہوگی جس میں بہت زیادہ نقصان کا اندیشہ ہے بہرحال یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان اپنا قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان صلح کروانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے صلح کروانے والے تو اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب کوئی صلح کرنا چاہتاہو جبکہ اطلاعات ایسی آرہی ہیںکہ ایک ملک نے تو پاکستانی وزیر اعظم اور وفد کے اراکین کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور مہمان نوازی کا پورا حق ادا کیا جبکہ دوسرےملک والوں نے تہران میں وزیر اعظم اور وفد کا بہت سرد رویے سے استقبال کیا ، پاکستانی وزیر اعظم کو اسٹیٹ گیسٹ ہائوس کے بجائے ایک چھوٹے سے پورچ والے ہوٹل لے جایا گیا جہاں وزیر اعظم کے سوا وفد کے تمام ارکان کو سڑک پر اتر کر پیادل لابی تک جانا پڑا وفد کے صرف چھ ارکان کو ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری اور صدرحسن روحانی سے ملاقات کی اجازت دی گئی ، باقی وفد صدارتی محل کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا رہاایرانی اہلکار بھی ان سےمہمان نوازی سےپیش نہ آئے ۔ یاد رہے کہ پاکستانی قیادت وہاں ایران سے مدد مانگنے نہیں بلکہ ان کی مدد کرنے گئی تھی، دو برادر اسلامی ممالک کو تباہی اور کشت وخون سے بچانے کے مقدس جذبے سےکی گئی تھی ۔ لیکن ایرانی قیادت نے انہیں وہ عزت و تکریم نہ دی جس کےوہ مستحق تھے۔

Read more...

حدود اور سزائوں کا اسلامی تصور

17 Jul,2016

پہلا خطبہ:
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ(آل عمران : 102)
 ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں ۔
شریعت اسلامیہ کی بنیاد حکمت اور انسانیت کی دنیاوی و اخروی خیر و بھلائی پر ہے، اسلامی شریعت سراپا عدل و رحمت اور خیر و حکمت ہے۔
شریعتِ اسلامیہ انسانیت کے مابین عدل، تمام مخلوقات کیلیے رحمتِ الہی، اور اہل زمین کیلیے سایہ الہی ہے، اس سے اللہ تعالی کی ذات اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کے دلائل رونما ہوتے ہیں، یہی لوگوں کیلئے ذریعۂِ نجات اور دھرتی کیلیے دوام کا باعث ہے۔
انسانی زندگی اُسی قانون کے تحت پر سکون ہوگی جس کا تعلق شریعت اسلامیہ سے ہوگا، اور جس میں اسلامی قانون کا نفاذ ہوگا۔
اگر امت شریعت پر کار بند رہے تو نکتہ چینی کرنے والوں سے بات کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، نیز راہِ ہدایت سے روکنے والے اور گمراہی میں اوندھے گرنے والوں سے متاثر بھی نہیں ہوگی؛ کیونکہ مسلمان تو اپنے منہج پر ثابت قدم رہ کر آگے بڑھتا ہے، اور اسی پر قائم رہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيم وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ اللهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ(الحج : 67 - 69)
 ہم نے ہر ایک امت کے لئے عبادت کا ایک طریقہ مقرر کیا جس کو انہوں نے اپنایا ہوا ہے، لہذا انہیں اس بارے میں تنازعہ کھڑا نہیں کرنا چاہیے، آپ ﷺ اپنے رب کی طرف دعوت دیں، بلاشبہ آپ ﷺ ہی راہ راست پر ہیں اور اگر پھر بھی تنازعہ کھڑا کریں تو آپ ﷺ کہہ دیں: اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خوب تر واقف ہے اللہ تعالی تمہارے اختلافی امور میں قیامت کے دن فیصلہ کریگا۔
شریعت اسلامیہ کے اہم ترین مقاصد میں یہ شامل ہے کہ: فائدہ زیادہ سے زیادہ جبکہ نقصان کم سے کم ہو، اس دھرتی کی عدل اور امن و سلامتی کی بنیاد پر آباد کاری ہو، اور نظریاتی حدود سمیت پورے معاشرے کی حفاظت کی جائے۔
شریعت اسلامیہ کا درخشاں پہلو یہ بھی ہے کہ: شریعت کے تمام احکامات، حدود اور تعلیمات حسن و خوبی پر مبنی ہیں؛ کیونکہ یہ شریعت ہے ہی حسن و خوبی والی ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’یقیناً اللہ تعالی نے ہر چیز کیلیے حسن و خوبی کو لازم قرار دیا ہے‘‘
 اور فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ(البقرة: 195)
 (عمل کرتے ہوئے)حسن و خوبی اپناؤ، بیشک اللہ تعالی ان سے محبت کرتا ہے
ایک مقام پر فرمایا:
 إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ(النحل : 90)
 ’’بیشک اللہ تعالی عدل اور اچھے انداز سے کام کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘
اور ان خوبیوں کی حامل شریعت کو حکمت و خبر رکھنے والے اللہ تعالی نے بہترین امت کیلیے نازل فرمایا ہے۔
شریعت کی وجہ سے ہی ہمیں آسودگی میسر آئی، ہم خوش حال ہوئے، ہمیں دہشت کے بعد امن و سلامتی ملی، اللہ تعالی نے ہمارے لیے زمینی خزانوں کے انبار لگا دیے، اور ہمیں پینے کیلیے وافر پانی میسر فرمایا:
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ(العنكبوت : 67)
 ’’کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو پر امن بنایا حالانکہ ان کے ارد گرد سے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے‘‘
نفاذ شریعت اور حدود لاگو کرنے سے ملکی امن کو تحفظ ملا، اور لوگوں کیلیے آسودگی و اطمینان میسر آیا، حالانکہ ارد گرد کے لوگوں کو رطب و یابس ہر چیز کو تباہ کر دینے والی جنگوں سمیت قتل و غارت کا سامنا ہے، یہ اللہ تعالی کا ہی احسان اور فضل ہے، ہم ظاہری اور باطنی ہر انداز سے اسی کی حمد و ثنا بجا لاتے ہیں۔
شریعتِ الہی کا نفاذ ہی پر سکون زندگی کا واحد ذریعہ ہے، اس سے مثبت سرگرمیاں پھلتی پھولتی ہیں، سب خوشحال ہوتے ہیں، وقار اور دفاع مضبوط ہوتا ہے، نیز شریعتِ الہی کا نفاذ قومی وسائل کیلیے تحفظ بھی فراہم کرتا ہے۔
نفاذِ حدود اسلام کی سر بلندی، امت کے غلبے اور قوت کا باعث ہے۔
یہ بات کسی کے ذہن سے اوجھل نہیں رہنی چاہیے کہ نفاذِ شریعت اور احکامِ شریعت لاگو کرنے سے پوری امت افراتفری اور تباہی سے محفوظ ہوگی، معاشروں میں بگاڑ پیدا نہیں ہوگا، اس کیلیے ترقی کے راستے میں رکاوٹ بننے والے بیوقوف، مجرم اور فسادی طبع لوگوں کو روکنا ہوگا، آپ ﷺ نے پورے معاشرے کو سمندر میں چلتی ایک کشتی سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ساحل تک پر امن انداز سے پہنچنا چاہتے ہو تو کشتی میں سوراخ کرنے والوں کو روکنا ہوگا۔
شریعت نے جرائم کا علاج جرائم رونما ہونے سے پہلے ہی حکمت، وعظ و نصیحت، ترغیب و ترہیب، احیائے ضمیر، اور اللہ کا خوف دلوں پیدا کر کے کیا ہے۔
اس دین کی عظمت دیکھیں کہ اس کی طرف سے نافذ کی جانے والی حدود بھی عدل و انصاف پر مبنی ہیں، ہر گناہ اور غلطی کی نوعیت اور حقیقت کے مطابق اس کی سزا مقرر کی۔
چنانچہ شریعت نے جہاں نرمی کی ضرورت تھی وہاں نرمی برتی اور جس جگہ پر سختی کی ضرورت تھی وہاں سختی اپنائی؛ لہذا دعوت و اصلاح کیلیے نرمی اور شفقت بھرا انداز اپنایا، اگر یہ بلا سود ثابت ہوں ؛ انسان سر چڑھتا جائے تو اس کیساتھ سختی بھی اپنائی اور اس بارے میں ایسے اقدامات کیے جو گناہ ترک کرنے اور غلطی تسلیم کرنے پر مجبور کر دیں۔
یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں اور فسادیوں کی سزا سخت ترین اور عبرتناک بھی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ (المائدة : 33)
جو اللہ تعالی اور رسول اللہ سے اعلان جنگ کریں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا صرف یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انہیں جلا وطن کر دیا جائے ۔
اور کوئی بھی عقل مند شخص سزا میں سختی کا پہلو کا انکار نہیں کرسکتاشریعت اور عقل دونوں کی یکساں رائے کے مطابق ایسے اعضا کو کاٹ کر جدا کر دیا جاتا ہے جو خرابی کا باعث بنے، فتنہ پرور ہو، ہیجان پرداز ہو، اس کی حرکتوں سے شر انگیزی پھیلے، امن و امان مخدوش ہوں، اور اس کے مزید باقی رہنے سے انفرادی اور معاشرتی نقصانات سامنے آئیں۔
سزاؤں کے بارے میں زبان درازی کرنے والے حقیقت میں مجرم سے اظہار ہمدردی تو کرتے ہیں لیکن پورے معاشرے کے حقوق نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ مجرم پر شفقت تو کرتے ہیں لیکن جرم سے متاثر شخص کو بھول جاتے ہیں، وہ سزا کو دیکھتے ہیں لیکن مجرمانہ گھٹیا حرکت سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔
ان سزاؤں سے اللہ تعالی کے عدل و انصاف اور اس کی حکمت کا پتہ چلتا ہے؛ کیونکہ یہ سزائیں مفاد عامہ کے حصول اور امن و امان برقرار رکھنے کی ضامن ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
 وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ (البقرة : 179)
’’اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘
 یعنی ہمہ قسم کی زندگی ہے، چنانچہ معصوم جانوں کو زندگی بخشی اس کیلیے معصوم جانوں کا قتل حرام قرار دیا، املاک کو زندگی بخشی اس کیلیے کسی کا حق غصب کرنے سے روکا، عزت آبرو کو زندگی بخشی کہ ہتک عزت حرام قرار دی۔
حدود شریعت کا حصہ ہیں ان کی وجہ سے ہر شخص کی انفرادی خوشیوں کو تحفظ ملتا ہے، اور پورے معاشرے میں امن و امان قائم ہوتا ہے، لہذا منہج الہی پر چلنے والوں کو حدود اللہ کی وجہ سے مستحکم اور پر سکون زندگی ملتی ہے۔
حدود کی وجہ سے معاشرے کو طیش مزاج لوگوں اور گھٹیا حرکتوں سے تحفظ ملتا ہے، کینہ پرور لوگوں کی دسیسہ کاریوں کیلیے راستے بند ہوتے ہیں، اور انتہا پسند فکر زمین دوز ہوتی ہے، منحرف لوگوں کو راہِ اعتدال ملتی ہے، جس سے خطرات و خدشات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔
حدود کو شریعت کا حصہ اس لیے نہیں بنایا گیا کہ دل کی بھڑاس نکالی جائے، انتقام لیا جائے، اور مجرموں کو اذیت دی جائے، بلکہ حدود کے مقاصد اور اہداف بہت عظیم ہیں، ان مقاصد میں یہ شامل ہے کہ : پورے معاشرے کیلیے بڑے اہداف حاصل کیے جائیں اور وہ ہیں: دین، جان، عقل، مال اور عزت آبرو کی حفاظت۔
حدود اصل میں جرائم کی جانب مائل لوگوں پر رحمت و شفقت کا اظہار ہیں، حدود کے ذریعے انہیں جرائم سے روکا جاتا ہے، چنانچہ سزا دیکھ کر مجرم اپنے ارادے تبدیل کر لیتے ہیں، حدود کی وجہ سے جرائم پیشہ لوگوں کیساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی جرائم سے دور رہنے کا سبق براہِ راست ملتا ہے۔
امت کے حالات قابو میں رکھنے کیلیے حدود کا نفاذ اصل میں مجرموں کے ساتھ رحمت و شفقت ہے، تبھی تو تعمیر و ترقی کا پہیہ رواں دواں رہے گا، اور بد عنوان و شر انگیز عناصر کو اپنے انجام کا بھی علم ہو گا۔
جن لوگوں کو مجرم کے جرم سے دلی صدمے پہنچے ہوتے ہیں انہیں حدود کے نفاذ سے قلبی سکون ملتا ہے، نیز جرائم سے متاثر ہونے والے لوگوں میں دہشت کی جگہ امن و سکون سرایت کر جاتا ہے۔
حدود کے نفاذ سے اللہ تعالی کی طرف سے برکت، فضل، اور خیر و بھلائی حاصل ہوتی ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ (الأعراف : 96)
 ’’اگر بستی والے ایمان لائیں اور تقوی اختیار کریں تو ہم ان پر آسمان و زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیں‘‘
چنانچہ اسی بنا پر ایک عبرتناک فیصلے کے ذریعے تعزیری اور حد کے طور پر شرعی حکم کو نافذ کیا گیا، یہ فیصلہ شرعی عدالت کی جانب سے گمراہ لوگوں کے بارے میں کیا گیا تھا، جن میں تکفیری، دہشت گرد، معصوم جانوں کے قاتلین، اقدام قتل پر ترغیب، قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے لوگ شامل تھے، یہ ان کا اپنا فعل تھا جو کہ اس وطن کے سپوتوں کی ترجمانی بالکل نہیں کرتا۔
عجیب و غریب باتیں اور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رد عمل ظاہر کرنے والے لوگ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے یہ رد عمل فرقہ واریت میں غرق لوگوں کی جانب سے فتنہ پروری کا ایک انداز ہے، وہ ہمارے ملک کی خوشحالی اور استحکام کو مٹانا چاہتے ہیں، حقیقت میں ایسی باتیں کرنے والے ہی دہشت گردی کی بنیاد، منبع اور جڑ ہیں، سادہ لوح لوگوں کو جھوٹے دعووں سے اپنا اسیر بناتے ہیں، جن زرق برق نعروں کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے بڑے زور و شور سے لگاتے ہیں، مزید دسیسہ کاریوں کیلئے کمزور نظریات کے حامل لوگوں کو خرید کر انہی کے معاشروں میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔
پورا عالم اسلام ان کی فتنہ پرور اور تخریبی کاروائیوں سے بخوبی آگاہ اور واقف ہے، تمام مسلمان ان کی حرکتوں سے نمٹنے کیلیے مکمل طور پر متحد، شانہ بشانہ، اور چاق و چوبند ہیں۔
ہم سیکورٹی فورس اور ملکی حدود کے محافظین کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فسادی لوگوں کے خفیہ ٹھکانوں کو ختم کرنے کیلیے جان جوکھوں میں ڈال کر محنت کی، ان کی تمام منصوبہ بندیوں کو غارت کیا، اللہ تعالی ہمارے اور تمام مسلم ممالک کو اپنی حفاظت میں رکھے، اور انہیں ہمہ قسم کے شر و فساد سے بچائے۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:’’جب تم کسی شخص کو متفقہ طور پر اپنا سربراہ تسلیم کر لو اور ایسے میں کوئی آ کر تمہاری متفقہ رائے کو مخدوش کرنا چاہے، یا تم سے الگ ہو کر اتحاد کو سبوتاژ کرے تو اسے قتل کر دو‘‘( مسلم)
آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:’’عنقریب شر و فساد بپا ہوگا، چنانچہ جو شخص پوری امت کے کسی ایک فرد کو اپنا سربراہ ماننے کے وقت پھوٹ ڈالنے کی کوشش کرے تو اسے قتل کر دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو‘‘( مسلم)
اللہ تعالی ہم سب کیلئے قرآن مجید کو با برکت بنائے، مجھے اور آپ سب کو قرآن مجید سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
عظیم اور ڈھیروں نعمتوں پر تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے، نیز )یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ ﷺ پر، آپ ﷺکی آل، نور و ہدایت کے امام صحابہ کرام پر درود و سلامتی نازل فرمائے ۔
حمدو صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں ۔
جن لوگوں پر حد نافذ کر دی جائے یا ان سے قصاص لے لیا جائے تو ان کے بارے میں کسی بھی مسلمان کو غلط الفاظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، آپ ﷺ نے رجم کی جانے والی ایک خاتون کو برا بھلا کہنے پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ڈانٹ پلائی تھی۔
سزا ملنے سے مجرم کا گناہ اسی طرح معاف ہو جاتا ہے، جس طرح توبہ کرنے سے گناہ مٹ جاتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ: اللہ کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، چوری، زنا اور اولاد کو قتل نہیں کرو گے، کسی پر بہتان بازی، اور نیکی کے کاموں میں نا فرمانی نہیں کرو گے، اس بیعت کی پاسداری کرنے والے کا اجر اللہ تعالی کے ذمہ ہے، اور اگر کوئی کسی گناہ کا ارتکاب کر لے پھر اسے دنیا میں اس کی سزا بھی مل جائے تو یہ اس کیلیے کفارہ ہوگی، اور اگر کسی نے گناہ کا ارتکاب کیا تاہم اللہ تعالی نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے، وہ چاہے تو معاف کر دے اور چاہے تو سزا دے ‘‘( بخاری و مسلم)
اللہ کے بندو!
رسولِ ہُدیٰ ﷺپر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)
 اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔
یا اللہ! محمد ﷺ پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں، اور محمد ﷺ پر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت، اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے رحم و کرم، اور ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما،یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، اور کافروں کیساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، اے دعاؤں کے سننے والے!
یا اللہ! قرآن کو نازل کرنے والے، بادلوں کو چلانے والے، تمام لشکروں کو شکست سے دو چار فرما، محاصرہ کرنے والے ظالموں کو تباہ و برباد فرما، یا اللہ! ان کے جتھوں کو تتر بتر فرما، ان میں پھوٹ ڈال دے، یا ارحم الراحمین! تو ہر چیز پر قادر ہے، اور تو ہی دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔
اللہ رب العزت مشرکین کی بنائی ہوئی باتوں سے پاک ہے، تمام رسولوں سلامتی نازل ہو، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔

Read more...

(کتابُ الحدود من فقہ السنہ لسید السابق(قسط 3

03 Jul,2016

حدود کون نافذ کرے گا ؟
فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ حدود حاکم یا اس کا نائب قائم کرے گا اور بے شک اس عمل کو کوئی شخص انفرادی طور پر اپنی مرضی سے سرانجام نہیں دے گا۔
امام طحاوی رحمہ اللہ مسلم بن یسار سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
الزَّكَاةُ وَالْحُدُودُ وَالْفَيْءُ وَالْجُمُعَةُ إِلَى السُّلْطَانِ قال الطحاوي: لا نعلم له مخالفا من الصحابة
صحابہ میں سے ایک شخض فرمایا کرتے تھے زکاۃ،حدود، مال فیٔ اور جمعہ کا (ضامن) سلطان ہے اور طحاوی رحمہ اللہ نے فرمایا اس قول کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہم کسی کو مخالف نہیں دیکھتے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ خارجہ بن زید اور وہ اپنے والد سے اور اسی طرح امام بیہقی رحمہ اللہ ابو الزناد سے وہ اپنے والد سے اور وہ ان فقہاء سے جن کے اقوال اہل مدینہ کے ہاں معتبر مانے جاتے ہیں وہ فرمایا کرتے تھے ۔
لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُقِيمَ شَيْئًا مِنَ الْحُدُودِ دُونَ السُّلْطَانِ إِلَّا أَنَّ لِلرَّجُلِ أَنْ يُقِيمَ حَدَّ الزِّنَا عَلَى عَبْدِهِ وَأَمَتِهِ
سلطان کے علاوہ کسی کیلئے حدود کا قائم کرنا ضروری نہیں ہے سوائے اس شخص کے جو اپنی لونڈی اور غلام پر حدِ زنا قائم کر سکتاہے۔
اور سلف کی جماعت میں امام شافعی رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ سید اپنے  غلام پر حد قائم کر سکتاہے اور انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جو سیدناعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک نبی کریم ﷺکی خادمہ سے زنا سرزد ہوگیا تو نبی کریم ﷺ  نے مجھے اس پر حد قائم کرنے کا حکم دیا تو میں اس کے پاس آیا (تو دیکھا) اس کا خون خشک نہ ہوا تھا پس میں آپ ﷺ کے پاس آیا اور انہیں بتلایا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا جَفَّتْ مِنْ دَمِهَا فَأَقِمْ عَلَيْهَا الْحَدَّ، أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ
جب اس کا خون خشک ہوجائے تو اس پر حد قائم کردو(اور فرمایا) اپنے غلاموں پر حدود قائم کرو۔
اسے ائمہ احمد،ابو داؤد،مسلم، بیہقی اور حاکم رحمہ اللہ اجمعین نے روایت کیا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا اسے اس کا مولی (سید) سلطان کی طرف بھیجے اور وہ اس پر خود(حد) قائم نہ کرے۔
حدود میں ستر پوشی مشروع ہے :
جو لوگ جرائم میں مبتلا ہوکر گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں تو ایسے گناہ گاروں کا شافی وکافی علاج پردہ پوشی ہے وہ گناہ میں مرتکب ہونے کے بعد (توبہ کی طرف) مائل ہوتے ہیں تو پکی توبہ کرتے ہیں اور نئی پاکیزہ زندگی گزارتےہیں۔
اسی لیے اسلام نے گناہوں میں مرتکب کی پردہ پوشی کو مشروع کیا ہے اور اس کےمعاملے کو جلدی عیاں کرنے سے منع کیا ہے ۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے اس شخص سے فرمایا (جو نیا مسلمان ہوا تھا اور اسے ھزّال کہا کرتے تھے وہ (رسول اللہ ﷺ کے پاس) کسی شخص کے بارے میں زنا کی شکایت لگا رہا تھا اور یہ واقعہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول
وَالَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَاۗءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَةً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ
الْفٰسِقُوْنَ  (سورۃ النور : 4)
جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں اسی کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو یہ فاسق لوگ ہیں )۔
کے نزول سے پہلے کا ہے
 يا هزال لو سترته بردائك كان خيرا لك
اے ھزال اگر تو اس پر اپنی چادر ڈھانپ دیتا تو یہ تیرے لیے بہتر ہوتا۔
یحییٰ بن سعید فرماتے ہیں : جب میں نے یہ حدیث اس مجلس میں بیان کی جس میں یزید بن نعیم بن ھزال الاسلمی رحمہ اللہ موجود تھے تو یزید نے فرمایا
هزال جدي هذا الحديث حق
ھزال میرے دادا ہیں اور یہ حدیث حق ہے ۔
اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَنْ سَتَرَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ، كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا فِي بَيْتِهِ
جس نے اپنے مسلم بھائی کی ستر پوشی کی روزِ قیامت اللہ اس کی ستر پوشی کرے گا اور جس نے اپنے بھائی کے عیبوں کو اجاگر کیا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے عیبوں کو اجاگر کرے گا چاہے وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہو۔
اور جب پردہ پوشی جائزہے تو ضروری ہے کہ اس پر گواہی دینا خلاف الاولی ہے جو کراہت تنزیہ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جائزعمل کی جانب دلالت کرتا ہے اور کراھت تنزیہ ترک کی جانب،اور یہ اس صورت میں واجب ہے

جب کوئی شخص زنا کی طرف بار بار مائل نہ ہو اور اس کی اشاعت نہ کرتا ہو جبکہ اس کا حال اشاعت تک جا پہنچا ہو تو اس پر گواہی دینا بانسبت ترک کے اولیٰ اور واجب ہے کیونکہ شارع ( اللہ ورسول اللہ ﷺ ) کا اصل مطلوب زمین کو گناہوں اور فحاشی سے پاک کرنا ہے اور یہ (گناہ) کرنے والوں کی توبہ اور ان پر سختی کرنے سے ثابت ہوتاہے اور جب زنا میں اس کے گناہ کی کیفیت ظاہر ہوگئی ہو اور اس پر اس کی تشہیر اور اشاعت نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں زمین سے (گناہوں) کو توبہ کے ذریعہ پاک کرنا ہے اور یہاں احتمال جس کا مقابل توبہ کا عدم ظہور ہے تو جو اس صورت سے متصف ہو تو (زمین سے برائیوں) کے اخلاء کیلئے کسی اور سبب کا ثابت ہونا ضروری ہے اور وہ حدود ہیں ۔ برخلاف اس کے جس نے ایک دفعہ یا اس سے زیادہ مرتبہ چھپ کر اورڈر کرزنا کیا ہو اور وہ اس پر نادم بھی ہو تو گواہ کیلئے اس مقام پر ستر پوشی کرنا مستحب ہے۔
مسلمان اپنی ستر پوشی خود کر ے :
بلکہ مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ اپنی ستر پوشی خود کرے اور اس سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اس کا پرچار مت کرے اور نہ ہی اس کا اقرار حاکم کے سامنے کرے(کیونکہ) وہ اس پر سزا نافذ کردے گا۔
امام مالک رحمہ اللہ موطا میں زید بن اسلم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
أَيُّهَا النَّاسُ، قَدْ آنَ لَكُمْ أَنْ تَنْتَهُوا عَنْ حُدُودِ اللَّهِ، مَنْ أَصَابَ مِنْ هَذِهِ الْقَاذُورَاتِ شَيْئًا، فَلْيَسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ مَنْ يُبْدِي لَنَا صَفْحَتَهُ، نُقِيمْ عَلَيْهِ كِتَابَ اللَّهِ
اے لوگو! اپنے آپ کو حدود اللہ کے پامال ہونے سے روکو اگر کوئی تم میں سے اس گندگی کا شکار ہوگیا ہو تو وہ اپنے آپ کو اللہ کے ستر سے ڈھانپے پس اگر کسی کے گناہ ہم پر واضح ہوگئے تو ہم اس پر کتاب اللہ سے فیصلہ جاری کریں گے۔(جاری ہے)

 

Read more...

أھداف شریعت کی روشنی میں حقوق انسانیت

22 Jun,2014

اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام تر مخلوقات میں سے چنا اور اسے کرہ ارض کا سردار بنا کر اس کی تکریم کی راہنمائی کے لیے انبیاء و رسول مبعوث فرمائے کتابیں نازل کی تاکہ وہ صحیح طریقے اور سیدھے راستے پر گامزن ہو حقوق وواجبات بیان کرنے کے لیے اور اس پر عائد احکامات متعین فرمائے مگر انسان ظالم اور جاہل واقع ہوا کبھی اس کی طبیعت اسے سر کشی اور حسد کرنے پر آمادہ کرتی ہے تو کبھی وہ اپنے بھائی پر بھیڑیا بن کر ٹوٹتا نظر آتا ہے۔

انسان کا انسان پر ظلم اور ایک کی دوسرے پر سر کشی تاریخ انسانی میں مختلف صورتوں میں سامنے آئی ہے کہیں اندرونی اور بیرونی اسباب ہیں تو کہیں اخلاقی اور اقتصادی جبکہ دین فطرت سے انحراف اس کی سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے۔

یورپ کا سیاہ دور جسے ’’عصر وسطی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ہلاکت اور تباہی کا دور تھا بیسویں صدی کی بہت ساری جنگوں کے محرکات سے اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے جیسا کہ اکیسویں صدی کا آغاز تباہ کن جنگ ’’جنگ عظیم اول‘‘ سے ہوتا ہے تو بالخصوص یورپ میں اور بالعموم پوری دنیا میںمفکرین، مصلحین کھڑے ہوئے اور اس ظلم و زیادتی سے ڈرانے لگے اور حقوق انسان کے اعتراف میں نعرہ لگانے لگے جبکہ اس سے قبل فرانس میں سب سے پہلے 1789؁ء میں حقوق انسان کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھاجو کہ محض اعلانات اور نعروں تک محدود رہا مگر اس اعلان نے افراد میں رہنمائی کا اثر چھوڑا جس کا نتیجہ 1948؁ء میں حقوق انسانی کا عالمی اعلامیہ سامنے آیا۔

پچھلی دو صدیوں سے اسلامی سوچ میں جمود کی وجہ سے مسلمان پسماندگی کا شکار ہوتے گئے اور بہت سے اسلامی ممالک نے شریعت اسلامیہ کے نفاذ کو ختم کرنے اور بیرونی سوچ کو رواج دینے کے ساتھ وضعی قوانین کو اپنا لیا جس سے مسلمان تو مسلمان تقریباً ہر شہری کی زندگی اجیرن بن گئی۔

انسانی حقوق کی پامالیاں منظر عام پر آنے لگیں تو آفاق میں اسلام میں حقوق انسان کے متعلق سوالات اٹھنے لگے تو اس پر اہل علم حضرات اور اصلاح پسند لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تکریم وتوقیر پر روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ ’’شرعت اسلامیہ ‘‘ کے نزول کا مقصد ہی انسان کی بھلائی ہے کیونکہ شریعت کی جانب سے بنیادی طور پر مقرر کردہ مقاصد شریعت ہی انسان کی انسانیت کا آغاز ہیں اور انہیں امور سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی کی طرف رجوع میںہی انسانیت کی فلاح و کامیابی ہے۔

مقاصد شریعت کا مفہوم:

مقاصد: مقصد کی جمع ہے کسی چیز کا ارادہ کرنا، قصد کرنا یا کسی کے لیے قصد و ارادہ یا کسی کی طرف قصد و ارادہ کرنے کو کہا جاتا ہے اس کا اصل باب ’’ضرب‘‘ سے ہے جس کے معنی طلب کرنے، کسی کی جانب آنے، ثابت کرنے کے آتے ہیں، قصد کا مطلب: کسی چیز کو طلب کرنا یا کسی چیز کو ثابت کرنا یا کسی چیز کو ذخیرہ کرنا یا اس میں عدالت و عدل سے کام لینے کو کہا جاتا ہے۔ (۱)

علماء کی اصطلاح میں مقاصد شریعت کے معنیٰ: وہ مقاصد و اھداف، نتائج و معانی ہیں جنہیں شریعت مطہرہ لے کر آئی ہے اور احکام میں اسے ثابت کیا گیا ہے اس کے حصول، افزائش، ایجاد اور ان تک رسائی کے لیے ہر زمانے میں کوشش ہوتی رہی ہے۔ (۲)

شریعت کا ہدف:

شریعت اسلامی دنیا میں انسان کی سعادت مندی، بھلائی کے حصول اور زمین میں اس کی خلافت کے لیے سرگرداں ہے اور یہی اس کا مقصد ہے کیونکہ شریعت کے احکامات میں انسان کی مصلحت کی حفاظت کے احکام پائے جاتے ہیں جیسے: منافع جات کا حصول نقصانات کا ازالہ کرنا، گویا شریعت انسان کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اسے سیدھی راہ کی جانب گامزن کرتی ہے۔

نیکی کی رہنمائی اس کے سامنے حقیقی مصلحتوں سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔ تو اس نے اس کے لیے شرعی احکامات متعین کر دیئے تاکہ ان مقاصد و اھداف کا حصول ممکن ہو سکے اور اس پر اصول و ضوابط لاگو کئے جس کی روشنی میں اھداف حاصل کئے جا سکیں اور ان کی حفاظت و صیانت ممکن ہو سکے پھر اس کی حفاظت کی ضمانت کے لیے اور اس پر دست درازی روکنے کے لیے احکامات لاگو کئے۔

علماء کرام مقاصد شریعت کی حدود و قیود سے متعلق بیان میں کہتے ہیں کہ وہ انسان کی دنیا و آخرت کی مصلحتوں کا حصول ہے۔

علامہ عز بن عبدالسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات میں سے کوئی بھی ایسا حکم لاگو نہیں کیا جس کا مقصد انسان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کا حصول نہ ہو، یہ اس رب کا اپنے بندوں پہ فضل و احسان ہے۔

پھر فرمایا: لطف و کرم اور آسانی کی یہ علامات نہیںکہ وہ اپنے بندوں کو مختلف قسم کی پابندیوں اور سختیوں کا پابند بغیر کسی دینوی و اخروی فائدے کے کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس جانب دعوت دی ہے جو انسان کو اس بھلائی کے قریب کر دیتی ہے۔ (۳)

دنیا میں انسان کی مصلحتیں یہ ہیں کہ ہر وہ چیز جس میں ان کا نفع، فائدہ، اصلاح ان کی بھلائی اور آرام ہے انہیں ملیں اور وہ چیز جو ان کو تکلیف و پریشانی سے محفوظ کرے ان سے نقصان اور خسارہ کا ازالہ کرے چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔ مصلحت کہلائے گی۔

احکام شریعت لوگوں کے لیے مصلحتوں کے حصول اور نقصانات کے ازالہ کے لیے آئے ہیں اور ہر شرعی حکم کسی نہ کسی مصلحت کی حفاظت یا کسی نہ کسی نقصان و فساد کے ازالے کے لیے آیا ہے یا وہ ان دونوں کے حصول یعنی مصالح کی حفاظت اور مفاسد کے ازالہ کے لیے آیا ہے دنیا و آخرت میں کوئی بھی ایسی مصلحت نہیں جس کا شریعت نے لحاظ اور خیال نہ کیا ہو بلکہ ایسے احکامات جاری کئے ہیں جو ان مصلحتوں کی ایجاد اور ان کی حفاظت کے کفیل اور ضامن ہیں۔

اور اس پُر حکمت شریعت نے دنیا و آخرت کے حوالے سے کوئی ایسی مفسدت نہیں چھوڑی جس سے لوگوں کو آگاہ نہ کر دیا گیا ہو انہیں اس سے ڈرایا نہ گیا ہو اور انہیں اس سے اجتناب کرنے، دور رہنے کی رہنمائی نہ کی گئی ہو اور پھر اس کا ان کے لیے متبادل پیش نہ کیا گیا ہو۔ (۴)

لوگوں کی مصلحتوں کا احاطہ و چھان بین کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خلق ثقلین اور ایجادات پر تہذیب و تشریع میں بے فائدہ کام نہیں کرتا۔ اور یہ کہ عقائد و عبادات، اخلاق و معاملات، مالی معاھدات، سیاست شریعت اور جزا و سزا کی علت موجود ہے اور وہ صرف انسانی مصلحت کا حصول اور نقصان کو دور کرنا ہے۔

معاملات میں اللہ تعالیٰ نے حکمت اور ھدف کی نشاندہی بیان فرما دی کہ وہ لوگوں کے لیے مصلحت کے حصول اور بھلائی کے لیے ہے اور ان سے مفاسد، نقصانات، مشقت کے ازالے نیز فساد، دھوکہ دہی، ظلم و ستم کے معاھدات ختم کرنے کے لیے احکامات نافذ کئے گئے تاکہ دونوں اطراف یعنی فریقین کے مابین عدل و مساوات کی فضا برقرار رہے۔

بنی نوع انسان سے متعلق شرعی مصلحتیں ان پر خبیث، گندی اور بری چیزوں کے حرام کرنے سے آتی ہیں کہ جس سے انسان کو فسادات، نقصانات اور ہر تکلیف اور کمزوری سے بچایا جاتا ہے۔ انسان کی مصلحتیں اس مقام پر تو مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہیں جہاں اسلام مکارم اخلاق اچھے معاملے، لوگوں پر احسان کرنے نیز انہیں کسی قسم کی تکلیف دینے چاہے وہ تکلیف اشارے ہی سے کیوں نہ ہو منع کرتا ہے اور یہ سب اس لیے کہ لوگوں میں محبت کا رواج ہو۔ اور وہ ایسے ہو جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس حدیث میں تصویر کشی کی ہے۔

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى

مؤمن کی مثال محبت رحمت اور نرم گوشی میں ایک جسم کی مانند ہے اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو انسان کا تمام جسم بیداری و بخار کی حالت میں رہتا ہے۔(۵)

شریعت کے اھداف و مقاصد کی پہچان کی اہمیت اور اس کے فوائد:

کسی بھی کام کے ھدف کا تعین اس کی ادائیگی تکمیل و پیروی، غرض و غایت کا اصل محرک اور باعث ہوتا ہے ہدف کا تعین اس کے حصول کے لیے مختصر وقت میں صحیح راہ اور سمت متعین کرتا ہے اور اس کے لیے اچھا منہج اور اسلوب اختیار کرنے کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ کام ادھورے اور محنت رائیگاں نہ جائے۔

شریعت کے احکام اور فروعات میں اھداف کی معرفت اور اس کے فوائد کا ادراک مسلمان کے لیے عمومی اور محقق، عالم، فقیہ اور مجتہد کے لیے جاننا نہایت ضروری ہے۔

m ھدف اسلام کے مکمل تصور کو سامنے لے آتا ہے اوریہی تصور تعلیمات احکام کو واضح کرتا ہے تو نتیجتاً فروعات کا اجمالی وکلی نقشہ سامنے آ جاتا ہے پھر انسان کو پہچان ہو جاتی ہے کہ کون سی چیز اسلام کا حصہ ہے اور کون سی نہیں تو جو چیز بھی دنیا و آخرت کی مصلحتوں کے حصول میں مدد گار ہے وہ شریعت کا حصہ ہے اور ہر مسلمان سے مطلوب ہے اور جو چیز بھی فساد، نقصان، مشقت، افراتفری عدم استحکام کو ہوا دیتی ہے اور شریعت اس سے روکتی ہے وہ شریعت کا حصہ نہیںاور مسلمان پر اس کا کرنا حرام ہوتا ہے کیونکہ اس سے اس کو اور دوسروں کو نقصان لاحق ہوتا ہے اور دوسروں پر بھی ضروری ہے کہ اس سے رک جائیں تاکہ تمام لوگوں کے حق کا خیال کیا جائے۔ (۶)

m اھداف شریعت کی پہچان سے ان اعلیٰ اھداف کی وضاحت ہوتی ہے جن کا شریعت اپنے احکام میں لحاظ رکھتی ہے اور اس سے ان عظیم مقاصد و اھداف سے پردہ اٹھتا ہے جس کے حصول کے لیے انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور کتابیں نازل ہوئی اس سے مؤمن کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ اپنے احساسات میں شریعت محسوس کرتا ہے جس سے اس کا دین سے لگاؤ اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنا مزید بڑھ جاتا ہے اسے اپنے رسول پر فخر اسلام پر عزت محسوس ہوتی ہے بالخصوص جب وہ شریعت اسلامی کا تقابل دیگر ادیان اور وضعی قوانین سے کرے گا تو اسلام پر مزید اس کا اطمینان بڑھ جائے گا۔

m اھداف شریعت کی معرفت سے تقابلی تحقیق میں کسی قول کی ترجیح میں مدد ملتی ہے کہ اس قول کو ترجیح دی جائے جو ان مقاصد کے حصول کا سبب ہے اور اس کے اھداف سے مطابقت رکھتا ہے یعنی مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچاؤ جیسا کہ زکاۃ میں غریب، فقیر لوگوں کا لحاظ اور معاملات میں بچوں، یتیموں اور وقف کا لحاظ۔ یہ وہ قندیلیں ہیں جو حکمرانوں کو سیاست شرعیہ میں روشنی مہیا کرتی ہیں مظالم کے فیصلے کے لیے ان کے لیے رہنما بنتی ہیں اور ایسے مسائل میں بھی جن میں شرعی نص نہیں ہوتی جیسا کہ اھداف و احکام کی کلی اور جزوی دلائل میں قول کی ترجیح میں معاون ہوتے ہیںیہاں اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ دلائل میں بظاہر تعارض ہوتا ہے جن میں تطبیق دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (۷)

m شریعت اسلامی کے اھداف کے بیان سے دعوت اسلامی کے اھداف نکھر کر سامنے آتے ہیں جس کی کاوش مصلحت کے حصول اور لوگوں سے مفسدت کو دور کرنا ہے اس سے ان وسائل اور طریقوں کی جانب رہنمائی ملتی ہے جن سے دنیا کی سعادت مندی کاحصول ممکن ہوتا ہے اور آخرت میں اللہ رب العالمین کی رضا ملتی ہے۔

انبیاء کرام و رسل عظام کی مہم انہیں اھداف کا حصول تھا۔

اصلاح و صلاح کی دعوت دینے میں علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور وہ خیر وبھلائی، نیکی اور فضلیت کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے فساد، گناہ، برائی، رزائل و شر سے ڈراتے تھے اسی لیے انبیاء کرام کی مہم تمام اعمال سے اعلی و اشرف تھی جسے حقوق انسان کے فیصلے کے تعین کا حق تھا اور یہ سب سے بلند ھدف اور سب سے مقدس مہم ہے جو ان کے راستے پر چلے گا ان سے جا ملے گا ان جیسا اجر پائے گا اس لیے داعی و مصلحین حضرات انبیاء کرام کی راہ کی پیروی پر حریص ہوتے ہیں اور شرع حنیف کی پیروی کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے حقوق پر اعتداء اور حدود سے تجاوز سے منع کرتے ہیں تاکہ بنی انسان کی سعادت مندی حاصل کریں۔

شریعت کے اھداف، کلی و جزوی احکام شریعت کی پہچان کی راہ روشن کرتے ہیں تاکہ ان احکامات کو شریعت کے کلی و فرعی دلائل سے ایک ضابطہ کے تحت اخذ کیا جائے اور یہ اھداف ایک باحث، محقق، مجتہد اور فقیہ کو نصوص شرعیہ کی سمجھ اور واقعات کے مطابق ان کی تعبیر و توضیح کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ ان مقاصد کی معرفت مجتہد و فقیہ کو الفاظ شرعیہ کے مدلول ومعنی کی تحدید اور اس کے مفہوم و مدیٰ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے کیونکہ الفاظ و عبادات کے معانی و مفاہیم متعدد ہوتے ہیں اور ان کی دلالتیں مختلف ہوتی ہیں لہذا یہ اھداف آیت کے صحیح معنی و مفہوم کے تعین میں مدد دیتے ہیں تاکہ ایک مجتہد انہیں واقعات پر صحیح منطبق کر سکے۔

m اگر نئے پیدا ہونے والے واقعات و مسائل میں نص دستیاب نہ ہو تو کوئی بھی مجتہد فقیہ، قاضی اور امام اپنے مقاصد کی طرف رجوع کرتا ہے تا کہ ان کی روشنی میں اجتہاد، قیاس، استحسان، سد الذرائع، استصلاح، عرف وغیرہ سے احکام و مسائل مستنبط کر سکے جو دینی روح سے موافق اور شریعت کے بنیادی احکامات اور اھداف کے مطابق ہوں۔

لہذا یہ فوائد کسی بھی باحث محقق، عالم مجتہد فقیہ کے لیے اس بات کو ضروری کر دیتے ہیں کہ وہ شریعت کے اھداف کو اپنے سامنے رکھے تاکہ وہ اس کی راہ کو روشن کریں اس کی سمت کو درست کریں اور حق وعدل، صحیح و صواب تک پہنچنے میں مدد دیں۔

فقہاء شریعت کا اتفاق ہے کہ حاکم و امام کے تصرفات یا اس کے نائب کے تصرفات اور ان کے اعمال مصلحت کے تابع ہوں تو جس چیز میں انسانوں کی مصلحت ہو گی وہ اسے لاگو کریں گے اور جس میں مفسدت ہوگی وہ احکام باطل ہو جائیں گے اور اس کے ذمہ داروں کو دنیا و آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا انہیں احکامات سے متعلق فقہاء کرام نے ایک مشہور فقہی قاعدہ وضع کیا کہ :

’’رعایا پر تصرف مصلحت سے مرتبط ہے‘‘۔ (۸)

اھداف کی مصلحتوں کے اعتبار سے تقسیم:

گزشتہ بحث سے واضح ہوا کہ شریعت کے اھداف میں مصلحتوں کا حصول ہے مگر مصلحتیں ایک رتبہ اور ایک درجہ پہ نہیں ہیں بلکہ اہمیت، خطرہ اور لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے ان میں فرق ہے بعض مصلحتیں انتہائی ضروری، جوہری اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن کا تعلق انسان کے وجود اور اس کی زندگی کی بنیادی ضروریات سے ہوتا ہے اور بعض دوسرے درجے میں آتی ہیں تاکہ وہ سابقہ ضروری مصلحتوں کے لیے تکمیلی وسیلے کی حیثیت سے کام دے سکیں اور انسان کے اپنے زندگی کے مختلف پہلوؤں سلوک، معاملات، تعلقات اور روابط کے لحاظ سے استفادہ میں انسان کو مدد دیں اور بعض مصلحتیں ایسی ہوتی ہیں جو زندگی کے لیے اتنی انتہائی اہم نہیں ہوتیں کہ جن پر زندگی کا انحصار ہو اور نہ ان کا انسانی ضروریات و حاجتوں سے تعلق ہوتا ہے مگر مکارم اخلاق اور اچھا ذوق اس کا تقاضا کرتا ہے اور عقل سلیم بھی اس کا تقاضا کرتی ہے تاکہ لوگوں کو خوشحالی اور سامان عشرت بہم مل سکے اور انہیں کمال اور فارغ البالی کا حصول ممکن ہو۔ (۹)

علماء کرام نے لوگوں کی مصلحتوں کو ان کی اہمیت، افادیت، خطرہ انسانی زندگی میں ان کے اثرات اور انسان کو اس کی حاجت و ضرورت کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

(ا) ضروری مصلحتیں (ب) حاجت کی مصلحتیں (ج) اصلاحات و بہتری کی مصلحتیں۔ (۱۰)

ضروری مصلحتوں کا حصول

لوگوں کی ضروری مصلحتیں اسلام کی نظر میں پانچ چیزوں میں محصور ہیں۔ 1: دین، 2: نفس، 3: عقل، 4: نسل، عزت یا نسب، 5: مال۔

شریعت انہی مصلحتوں کی حفاظت کے لیے نازل ہوئی اور اس نے ایسے احکامات جاری کئے ہیں جو دین، نفس، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ (۱۱)

تمام آسمانی شریعتوں نے ان حقوق اور مصلحتوں کا لحاظ رکھا ہے ان کی طرف دعوت دی ہے ان کی رعایت و حفاظت کی ہے۔

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شریعت کی مخلوق سے غرض پانچ چیزیں ہیں یہ کہ ان کے دین کی ان کے نفس کی ان کی عقل کی ان کی نسل کی اور ان کے مال کی حفاظت کی جائے اور جو چیز ان پانچ اصولوں کی حفاظت پر مشتمل ہو وہ مصلحت ہے اور جو چیز بھی ان اصولوں کے ضیاع کا سبب ہو وہ مفسدت ہے اور اس کا رد کرنا ازالہ کرنا مصلحت ہے پھر فرمایا: ان پانچ اصولوں کی حفاظت ضروریات کے مرتبے میں آتی ہے لہٰذا ضروریات کا رتبہ مصلحتوں کا مضبوط ترین رتبہ ہے۔ (۱۲)

پھر فرمایا: ان پانچ ضروریات کے ضیاع کی حرمت پر اور اس سے روکنے پر محال ہے کہ کسی شریعت میں کوئی حکم نہ ہو اور ان شریعتوں میں سے کوئی بھی ایسی شریعت جس کا مقصد خلق کی اصلاح ہو ممکن نہیںکہ وہ شریعت ان احکامات سے عاری ہو اس لیے تمام شریعتوں کا کفر کے حرام ہونے، قتل، زنا، چوری اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کی حرمت پر اتفاق ہے۔ (۱۳)

حاجت کی مصلحتیں:

یہ وہ امور ہیں جن کی انسان کو اپنی زندگی کے معاملات آسانی و سہولت سے چلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے ان سے مشقت دور ہوتی ہے پابندیوں میں تخفیف اور نرمی ہوتی ہے اور یہ زندگی کے بارگراں اٹھانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

بالفرض اگر یہ چیزیں موجود نہ ہوں تو اس سے لوگوں کا نظام زندگی معطل نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان کے وجود کو اس سے گزند پہنچتی ہے اور نہ ہی انہیں اس کے فقدان سے خطرہ، تباہی، ہلاکت، بد نظمی ملتی ہے۔ ہاں اس کے فقدان سے انہیںکچھ تنگی، مشقت ضرور لاحق ہوتی ہے اس لیے ایسے احکام لاگو کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کی حاجت کی مصلحتیں حاصل کی جائیں تاکہ ان سے تنگی دور کی جائے اور معاملات کی راہیں آسان کی جائیں تاکہ انہیں اپنی ضروری مصلحتوں کی حفاظت اور انہیں آگے بڑھانے میں مدد مل سکے اور اچھی طرح ادائیگی کر سکیں اور وہ حاجاتی احکام کے ذریعے ضروریات کی حفاظت کر سکیں جیساکہ عبادات میں  رخصت اور معاملات میں نرمی دینا۔ (۱۴)

اصلاحات و بہتری کی مصلحتیں:

اس سے مراد وہ امور ہیں جنہیں مروت، اخلاق وآداب اور ذوق عام کی طلب ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنی زندگی کے معاملات کو بہتر طریقے سے جلانے کے لیے ان اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مکمل طریقے اچھے منہج پر زندگی گزار سکیں اگر یہ چیزیں ان کی زندگی سے غائب ہو جائیں تو ان کی زندگی کا نظم معطل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں رکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی حرج و مشقت محسوس ہوتی ہے مگر وہ کچھ اکتاہٹ، اچاٹ پن، شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور ان کی عقلیں بھی کچھ کدورت محسوس کرتی ہے یعنی ان کے فقدان سے ان کی فطرت کچھ نامونیست کا اظہار کرتی ہے۔ یہ تحسینی امور اور اصلاحی و بہتری کی چیزوں کا تعلق اخلاق فاضلہ، اعلیٰ ذوق سے ہوتا ہے اور یہ اصلاحات ضروری مصلحتوں اور حاجت کی مصلحتوں کو اعلی تناسب اور اچھی پوزیشن کے ساتھ مکمل اور بہتر بناتی ہیں۔ (۱۵)

ان اھداف کے حصول کے لیے استعمال کئے جانے والے شرعی وسائل:

شریعت اسلامیہ تمام مصلحتوں کو مامون و محفوظ بنانے کے لیے آتی ہے اس نے ہر ایک کی صراحت اور اس کی اہمیت بیان کی ہے نیز اس کے مقام و مرتبہ سے بھی آگاہ کیا ہے کہ یہ چیز کس طرح انسان کے لیے سعادت مندی کا باعث بنتی ہیں۔

شرعی نصوص و احکامات کی مکمل چھان بین، تحقیق، مطالعہ اور تامل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شریعت انسان کی ضروری، حاجتی اور اصلاحاتی تمام قسم کی مصلحتوں کے حصول کے لیے آتی ہے اور تمام کے تمام شرعی احکامات ان مصلحتوں کے حصول کے لیے لاگو کئے گئے ہیں کوئی بھی شرعی حکم اور اس کا پابند کئے جانے کا مقصد صرف اور صرف ان مصلحتوں میں سے کسی ایک مصلحت کا حصول یا ایک سے زائد مصلحتوں کا حصول ہوتا ہے تاکہ شریعت تمام قسم کی مصلحتوں کے حصول کی کفیل اور ضامن بن جائے۔ لہٰذا شریعت اسلامیہ کا ان مصلحتوں کی حفاظت اور لحاظ کے لیے اپنایا گیا منہج دو بنیادی طریقوں پر مشتمل ہے۔

اول: ایسے احکامات لاگو کرنا جو ان مصلحتوں کے حصول، ان کی افزائش، توفیر اور وجود کو مامون بنائیں۔

دوم: ایسے احکامات لاگو کرنا جو ان مصلحتوں کی حفاظت، نگہداشت اور اسے بیرونی دراندازیوں سے محفوظ بنائیں اور ان میں کسی قسم کے نقص اور کوتاہی کے دروازے بند کریں اور ان کے کسی صورت میں تلف ہونے یا ضائع ہونے کی صورت میں اس کے عوض اور بدلے کی ادائیگی کی ضمانت دیں۔ (۱۶)

اس سے ہی حقوق انسان محفوظ کئے جا سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی جا سکتی ہے اور لوگ ان سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی عملی طور پر زندگی میں تربیت اور عمل درآمد کرنے سے ان سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔

دین کی حفاظت

دین اختیار کرنے کاحق انسان کی ضروری مصلحتوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ انسان کے اپنے رب سے تعلقات استورا کرنے کا مستوجب ہے انسان کے اپنے نفس کے ساتھ تعلقات اور انسان کے دوسرے انسان اور معاشرے سے تعلقات استوار کرتا ہے یعنی دین حق انسان کو خالق کائنات، زندگی اور انسان سے متعلق مکمل تصور دیتا ہے کیونکہ وہ حق و عدل، استقامت اور بھلائی کا مصدر ہے۔

جس دین کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس سے مراد صرف اور صرف دین اسلام ہے جس کا مطلب انسان کا خود کو مکمل کا مکمل اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے تمام انبیاء کرام نے اسی کی جانب دعوت دی ہے اور ہمارے پروردگار نے اپنے اس فرمان میں اس دین کی تخصیص کی ہے۔

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ

بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ (۱۷)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے احکامات صادر فرما کر ان احکامات کو بیان کرنے، وضاحت کرنے کی ذمہ داری خود لی۔

ارشاد خداوندی ہے:

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔ (۱۸)

اور اللہ تعالیٰ نے پابندیوں اور مسئولیت کو دین کے اس بیان و توضیح سے متعلق کیا ہے فرمایا:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا

اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔ (۱۹)

شریعت نے عقیدہ و ایمان کے مکمل احکامات متعدد آیات میں بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے ارکان خمسہ بیان کرنے کے بعد عبادات کی اقسام اور ان کی کیفیات بیان فرمائی ہیں تاکہ دلوں میں دین کی افزائش اور بڑھوتری ہو دلوں میں راسخ ہونے کے بعد زندگی اور معاشرے میں لاگو ہوں اور دنیا کے کونے کونے تک وہ پھیلیں اسی کی جانب دعوت و تبلیغ کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ بلانے کا حکم دیا ہے تاکہ لوگوں کو اندھیروں سے نکالا جاسکے۔

اسی دین کی حفاظت، اس کی رعایت اور اس کی سلامتی کی ضمانت نیز اس پر دراندازی روکنے اور اس دین کو فتنوں سے مامون رکھنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا حکم نازل کیا گیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلهِ

ان سے لڑو جب تک فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے۔ (۲۰)

اور فرمایا:

وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ

اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے۔ (۲۱)

اور مزید حکم دیا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو اور ان پر سخت ہو جاؤ۔ (۲۲)

اسی لیے اسلام نے مرتد کی سزا متعین فرمائی کیونکہ اس کا مرتد ہونا دین سے کھیل اور اس کے مقدسات سے مذاق کرنے کا موجب ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُون

اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں ان کے اعمال دینوی اور اخروی سب غارت ہو جائیں گے یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے۔ (۲۳)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کی روشنی میں کہ

مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوه

جو اپنے دین کو بدلے اسے قتل کرو۔ (۲۴)

تمام فقہاء کرام کا مرتد کے قتل پر اتفاق ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَتَارِكٌ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ

کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں شادی شدہ زانی، نفس کے بدلے نفس اور اپنے دین کو ترک کرنے جماعت سے مفارقت کرنے والےکا۔ (۲۵)

اسلام نے اس دین کی حفاظت کے لیے بدعتی کی سزا تجویز کی ہے اسی طرح دین سے انحراف کرنے والوں کی اور تارک نماز، مانع زکاۃ، رمضان میں روزہ خور کے مؤاخذہ کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں اور جو دین کے ضروری اور اہم ارکان کا انکار کرتا ہے یا اس حوالے سے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی بھی پکڑ کا حکم ہے تاکہ لوگوں کو عقائد میں عقل دوڑانے، ایمان کے سر چشموں سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے روکا جائے تاکہ شرک کے مفاسد اور شیاطین کے وسوسوں سے محفوظ رہ سکیں اور انہیں انحراف و گمراہی میں پڑنے سے بچایا جائے تاکہ عقل طاغوت کی بندگی، عبادات میں اس کی غلام نہ بن جائے اسلام اس کے ذریعے بشریت (نوع انسائی) کو باطل عقائد، مصنوعہ عبادات، گھٹیا اور بے ہودہ ترغیبوں سے نجات دلا کر صحیح عقائد کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ (۲۶)

اسلام نے محض دین کی ایجاد اور اس کی حفاظت کے لیے ہی احکام وضع نہیں کئے بلکہ ایسی حاجات کے مطابق احکامات جاری کئے تاکہ حفاظت کے ساتھ احسن و اعلیٰ صورت میں باقی رہ سکیں اس لیے اسلام نے عبادات و عقائد میں رخصتیں جاری کی تاکہ مؤمنین سے مشقت اور تنگی کو زائل کیا جا سکے اور ان پر آسانی کی جائے اس لیے مجبوری کی حالت میں کلمہ کفر کہنے کی اجازت دی رمضان میں عذر کے باعث روزہ چھوڑنے کی اجازت دی نماز کے قصر اور جمع کرنے کے، مسافر اور حاجی کے لیے احکامات متعین کئے، عاجز اور بیمار شخص کو بیٹھ یا لیٹ کر نماز ادا کرنے کی اجازت دی اور اسی طرح موزوں پر مسح کی اجازت دی۔

پھر اسلام نے دین کی حفاظت کے لیے چند اصلاحی احکامات بھی جاری فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ نے عبادات میں مختلف احکامات لاگو کئے تاکہ عبادت اچھے طریقے سے ادا ہو جائے جیسا کہ طہارت، ستر پوشی، بناء مساجد اور ان کا احترام، عبادات کا اہتمام جس کے لیے آذان جو کہ اسلام کا شعیرہ ہے توحید خالص کے اعلان کے لیے نماز باجماعت مشروع کی گئی اور اسکے لیے صف بندی، جمعہ کا خطبہ ، عیدین کا خطبہ لوگوں کو دین و دنیا کی تعلیم، جہاد میں عورتوں، بچوں، راہبوں کے قتل کو حرام قرار دینا، درختوں کے کاٹنے کی ممانعت، کھیتوں کے اجاڑنے کی ممانعت، دھوکے کی ممانعت، مثلی کرنے کی ممانعت، قیدیوں کے بارے میں احسان کا معاملہ کرنا، تبلیغ سے پہلے جنگ نہ کر، دین میں زبردستی کی ممانعت یہ امور ہمیں انسانی حقوق کی بنیادی چیز کی تفصیل بیان کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ یعنی دین کا حق۔

دین کے اختیار کا حق، اعتقاد کی آزادی کا حق انسان کی زندگی کے بعد یعنی جان کے بعد یہ اہم ترین حقوق میں شمار ہوتا ہے اگرچہ یہ معنوی طور پر اس سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ دین کا حق ضروریات خمسہ سے ہے اور یہ دین کی اہم ضروریات میں سے ہے اسے زندگی کے حق پر بھی مقدم رکھا گیا ہے اس لیے دین کی حفاظت اس کی نشر و اشاعت کے لیے جہاد فرض کیا گیا دعوت اور دین کی حفاظت کے لیے شہادت پر تحریض دلائی گئی تاکہ عقیدے کی آزادی کی ضمانت مل سکے دین داری کے حق کی حفاظت ہو تاکہ انسان اپنے عقیدے اور دین سے تعلق جوڑتے ہوئے عزت و احترام کی زندگی گزار سکے۔

بالخصوص جب وہ دین حق ہو جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے تحریف سے پاک ہے فطرت اور حالات سے میچ رکھتا ہو کائنات، انسان اور زندگی کے صحیح تصور کو اجاگر کرتا ہو۔

دین داری کا حق عقل و فکر سے مرتبط ہے ارادے کی آزدی، اختیار اور انسان کے شخصی قناعت سے تعلق رکھتا ہے عقیدہ دل سے نکلتا ہے اور اس پر اللہ کے علاوہ کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے اس لیے قرآن کریم نے عقائد کی آزادی اور دین اختیار کرنے کے حق سے متعلق صراحت سے بیان فرمایا ہے گمراہی اور فساد سے ڈرایا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ

دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے۔ (۲۷)

ینز فرمایا:

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِين

اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مؤمن ہی ہو جائیں۔ (۲۸)

اسلام نے دین حق کی جانب رہنمائی فرمائی ہے کیونکہ یہ دین فطرت ہے۔

فرمان الٰہی ہے:

فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ

اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ کے بنانے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے۔ (۲۹)

پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ڈرایا جو صحیح ایمان اور شریعت مطہرۃ سے اعراض کرتے ہیں فرمان خداوندی ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُر

اور اعلان کر دیجئے کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ (۳۰)

کیونکہ انسان بنیادی طور پر فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے انسانی فعل یا شیطانی وسوسوں سے تبدیل کرتا ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے:

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ

ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (۳۱)

اسلام نے جہاں مسلمان کو عقیدے کی آزادی کی ضمانت دی ہے اور دین پر کسی کو مجبور کرنے سے منع فرمایا ہے وہاں دیگر تمام ادیان سے نرمی اور تعاون کے معاملے کا حکم دیا ہے اس چیز کی مثال تاریخ نے آج تک نہیں دیکھی۔

مراجع و مصادر

۱۔ القاموس المحیط 1/327 مادہ قصد، معجم المقالیس اللغۃ: 5/95، المصباح المنیر 2/691، مختار الصحاح ص 536، تہذیب الاسماء واللغات 2/93

۲۔ مقاصد الشریعۃ الاسلامیہ الطاہر بن عاشور ص 13، الاصول العامہ لوحدۃ الدین الحق د/وھبۃ الزحیلی

۳۔ شجرۃ المعارف والاحوال ص 401

۴۔ ضوابط المصلحہ/ ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی ص 45، الفتاوی الکبری 20/148، السیاسۃ الشرعیہ

۵۔ صحیح البخاری رقم الحدیث 5665، اخرجہ بلفظ ’’تری المومنین۔۔۔۔‘‘ وامام مسلم بہذا اللفظ رقم الحدیث 2586

۶۔ اعلام الموقعین 3/5

۷۔ سورۃ النساء آیت 82

۸۔ القواعد الفقہیہ علی المذھب الحنفی و الشافعی ص: 436، المادۃ: 78 من مجلۃ احکام العدلیۃ

۹۔ قواعد الاحکام للعز بن عبدالسلام ص 71 حقوق الانسان فی الاسلام ڈاکٹر وھبہ الزحیلی ص 80

۱۰۔ روضۃ الناظر وجنۃ المناظر لابن قدامۃ ص

۱۱۔ المستصفیٰ 1/286 الموافقات للشاطبی 2/4، اصول الفقہ عبدالوہاب خلاف ص 199 ط8، الاصول العامۃ لوحدۃ الدین الحق للزحیلی ص 60-61

۱۲۔ المستصفیٰ 1/287

۱۳۔ المستصفیٰ 1/288، فلسفہ العقوبۃ للشیخ محمد ابو زھرۃ ص 42

۱۴۔ المستصفیٰ 1/289

۱۵۔ الموافقات للشاطبی 2/6، علم اصول الفقہ للخلاف ص 200

۱۶۔ الاصول العامۃ لوحدۃ الدین الحق ص 65، الموافقات 2/5

۱۷۔ سورۃ آل عمران 19

۱۸۔ سورۃ آل عمران 85

۱۹۔ سورۃ بنی اسرائیل 15

۲۰۔ سورۃ البقرۃ 193

۲۱۔ سورۃ الحج 78

۲۲۔ سورۃ التوبہ 73

۲۳۔ سورۃ البقرۃ 217

۲۴۔ اخرجہ الام البخاری رحمہ اللہ 3/1098 رقم الحدیث 2854، مسند احمد رحمہ اللہ 1/2، 7،282۔ 5/231، نیل الاوطار 7/201

۲۵۔ اخرجہ البخاری 6/2521 رقم: 6484 ومسلم 11/164 رقم 1676

۲۶۔ المستصفیٰ 1/287، الموافقات 2/15، ضوابط المصلحۃ ص 119

۲۷۔ سورۃ البقرۃ 256

۲۸۔ سورۃ یونس 99

۲۹۔ سورۃ الروم 30

۳۰۔ سورۃ الکھف 29

۳۱۔ اخرجہ الامام البخاری 1/456 رقم 1292، ومسلم 16/207 رقم 2658

-----

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • Next
  • End

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول