13۔مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ
حضرت العلام شیخ الاسلام، مجتہد العصر،سلطان القلم،رئیس التحریر ،حضرت مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ بیک وقت جید عالم دین مفسر قرآن ،محدث ذی شان، فقیہ، مجتہد،مورخ،محقق،مدرس،مفتی، مناظر، مصنف، واعظ، خطیب ، مقرر ،مبلغ ،مفکر ،مدبر،متعلم ،دانشور ،عربی ، فارسی اور اردو کے بلند پایہ ادیب اور اپنے علم وفضل کے اعتبار سے یگانہ روزگار ،علوم عالیہ وآلیہ کےشناور اور اپنے مسلک اہلحدیث میں بہت زیادہ متشدد اور اتباع سنت نبویﷺ میں بہت زیادہ ارفع و اعلیٰ تھے ۔ تمام علوم اسلامیہ یعنی تفسیر ،حدیث،اصول حدیث ،فقہ الحدیث، فقہ،اصول فقہ ،تاریخ وسیر ،اسماءالرجال،عقائد ولغت، عربیت،علم فرائض ، علم کلام، فلسفہ، منطق،صرف ونحو، ریاضی ،اقلیدس وغیرہ میں یکساں قدرت حاصل تھی ۔ افتاءمیں مہارت تامہ رکھتے تھے ان کے فتاوی قرآن وسنت ،آثار صحابہ کرا م اور اقوال ائمہ عظام کی روشنی میںبڑے مدلل ہوتےتھے ۔
بر صغیر کے علمائے حدیث(جوخود اپنے علمی تبحرکی وجہ سے اعلی مقام کے حامل تھے )نے محدث روپڑی کے متبحر علمی ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کا اعتراف کیا ہے۔ مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی(م1920)فرماتے ہیں کہ حافظ عبداللہ روپڑی علم وفضل میںحافظ عبداللہ غازی پوری کے ہم پلہ ہیں مولانا محمد عبدالرحمان محدث مبارک پوری (م1935)فرماتے ہیں کہ
حافظ عبداللہ روپڑی جیسا ذی علم اور لائق استاد تمام ہندوستان میں کہیں نہیں ملےگا۔ہندوستان میں ان کی نظیر نہیں ۔
محدث شہیر اور محقق زماں ،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی (م1987)فرماتے ہیں کہ
حضرت العلام محدث روپڑی فقہ الحدیث میںیک گونہ مجتہدانہ بصیرت رکھتے تھے ۔علوم قرآن اورعلوم حدیث کے علاوہ فقہ، اصول فقہ،صرف ونحو ،معانی وادب ،عقائد ، کلام،حکمت ،فلسفہ ،منطق وغیرہ میں تدریسا وتحریرا ید طولی حاصل تھا۔
حافظ عبداللہ روپڑی کاسن ولادت 1303ھ /1894ء ہے ۔تعلیم کا آغاز حفظ قرآن مجید سے ہوا ،بعد ازاں اس دور کے نامور اساتذہ کرام سےعلوم دینیہ میں استفاذہ کیا مشہور اساتذہ یہ ہیں ۔
مولانا عبدالقادر لکھوی، مولانا سید عبد الاول غزنوی ، مولانا سید عبدالجبار غزنوی ،مولانا محمد اسحاق منطقی ،استاد پنجاب حافظ عبد المنان محدث وزیر آبادی رحمہم اللہ اجمعین۔
فراغت تعلیم کےبعد 1915 میںروپڑضلع اخبالہ (مشرقی پنجاب)میں ایک دینی مدرسہ بنامـ’’دار الحدیثـ‘‘قائم کیا اور 1938تک اسی مدرسہ میں تدریس فرمائی اس کےبعد امر تسر تشریف لے آئے اور قیام پاکستان 1947تک امر تسر میں کتاب وسنت کی تدریس میں کوشاں رہے ۔روپڑ کے قیام کے دوران 26رمضان المبارک 1350مطابق 5فروری 1933ہفت روزہ تنظیم اہلحدیث جاری کیا جوآج بھی اللہ کے فضل وکرم سے جاری ہے قیام پاکستان کے بعد لاہور تشریف لائے اور چوک دالگراںمیں جامعہ اہلحدیث کے نام سے ایک دینی مدرسہ کا اجراءکیا جو آج بھی اللہ کے فضل وکرم سے دین اسلام کی اشاعت اور قرآن وحدیث کی ترقی وترویج اور شرک وبدعت اور محدثات کی تردید و توبیخ میں مصروف عمل ہیں حافظ محمد عبد الغفار روپڑی حفظہ اللہ اور حافظ عبدالوہاب روپڑی حفظہ اللہ دونوں بھائی اس مدرسہ کے نگران ہیں اخبار تنظیم اہلحدیث بھی دونوں بھائیوں کی زیر نگرانی خدمت اسلام میں کوشاں ہے ۔
تلامذہ :
حضرت العلام محدث روپڑی کے تلامذہ میں درج ذیل علماء مشہور و معروف ہیں :
مولانا محمد عبد الجبار کھنڈیلوی ، حافظ محمد حسین روپڑی ، حافظ اسماعیل روپڑی ، حافظ عبدالقادر روپڑی ، مولانا محمدصدیق بن عبد العزیز (سرگودھا) حافظ ثناء اللہ مدنی ، مولانا حکیم محمد اشرف سندھو ،حافظ عبد الرحمان مدنی ، مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی ، مولانامحمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانوی ،مولانا عبد السلام کیلانی وغیرہم ۔ (چالیس علمائے اہلحدیث ص297)
تصانیف :
حضرت العلام محدث روپڑی کثیر التصانیف مصنف تھے عربی اور اردو میں انکی تصانیف کی تعداد (55) ہے حدیث اور متعلقات حدیث میںانکی درج ذیل کتابیں ہیں ۔
1۔حواشی مشکوۃ المصابیح (عربی)(نامکمل)
2۔ترجمہ وتشریح مشکوۃ المصابیح(اردو)(نامکمل)
3۔ترجمہ وشرح حدیث جبریل (غیر مطبوع)
4۔الکتاب المستطاب فی جواب فصل الخطاب (عربی)
یہ کتاب مولانا سید انور شاہ کاشمیری (دیوبندی) (م1932) کی کتاب فصل الخطاب کا جواب ہے ۔ مولانا کاشمیری نے اپنی کتاب میںحدیث لاصلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتابکی تأویل کی ہے۔ (مطبوع1929)
5۔تحقیق الترویح فی جواب تنویر المصابیح(اردو)
یہ کتاب حنفی مصنف ابو الناصر زبیدی کی کتاب’’ تنویر المصابیح ‘‘کا جواب ہےزبیدی صاحب نے 20تراویح کے ثبوت میں 34دلائل پیش کیے ہیں حضرت العلام محدث روپڑی نے 34دلائل سے زبیدی صاحب کے دلائل کا رد کیا ہے اور 8رکعات تراویح کا ثبوت احادیث مرفوعہ سے پیش کیے۔(مطبوع)
6۔مودودیت اور احادیث نبویہﷺ(اردو )
اس کتاب میں مولانا سید مودودی (م 1979)کے نظریہ حدیث پر بحث کی ہے اور احادیث کےمتعلق مولانا مودودی کے شبہات کا جواب دیا ہے ۔ (مطبوع1955)
7۔تکبیرات عیدین ۔
اس رسالہ میں عیدین کی نماز میں رفع الیدین اور تکبیرات کے درمیان کوئی دعا یا ذکر وغیرہ کرکے کتاب وسنت کی روشنی میں بحث کی ہے (مطبوع1963)
وفات :
حضرت العلام حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے 20 اگست 1964مطابق 11ربیع الثانی 1384بمقام لاہوررحلت فرمائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون
شیخ العرب والعجم حضرت العلام امام العصر مولانا حافظ ابو عبداللہ محمد بن میاں فضل الدین گوندلوی نے نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی تدفین گارڈن ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں ہوئی۔اللہم اغفرہ وارحمہ ۔
14۔شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل محدث سلفی رحمہ اللہ
شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ جلیل القدر عالم دین مفسر قرآن ،بلند پایہ محدث ، نامور محقق ومورخ ، خطیب ومقررومبلغ ،ادیب،دانشور ،مدرس ومصنف ، مناظر ،معلم ومتکلم ،عربی وفارسی اور اردو میں یگانہ روزگار، فقہ المذاہب الاربعہ میں مہارت تامہ رکھنے والے اور علوم عالیہ اور آلیہ میں دسترس کے حامل اور چوٹی کے سیاستدان،تبحرعلمی ،ذوق مطالعہ اور وسعت معلومات کے اعتبار سے اعلی وارفع علماء میں شمار ہوتے تھے ۔بقول پروفیسر عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم مولانا محمد اسماعیل سلفی وسیع العلم اور وسیع المطالعہ عالم دین تھے تمام علوم اسلامیہ ودینیہ پر انکی نظر وسیع تھی اورملکی سیاست پر انکو مکمل عبور حاصل تھا ۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی قدرت کی طرف سے بڑے اچھے دل ودماغ لے کر پیدا ہوئے تھے روشن فکر اورسلجھا ہوا دماغ پایا تھا ۔ ذہن وذکاوت کے ساتھ قوت حافظہ بھی قوی تھا ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہ علم تھا ۔ حدیث، تاریخ اوراسماء الرجال پر انکی نظر وسیع تھی ۔تاریخ پر گہری اور تنقیدی نظر رکھتے تھے،اور ملکی سیاست سے نہ صرف باخبر تھے اس پر اپنی ناقدانہ نظر رکھتے تھے ۔سیاسی اور غیر سیاسی تحریکات کے پس منظر سے واقف تھے ادب عربی کے بلند پایہ انشاءپرداز تھے قلم بر داشتہ تحریر کاان کو عجیب ملکہ تھا ۔ تحریرمیں بر جستگی ،سلالت ،اورروانی ہوتی تھی ۔مولانا محمد اسماعیل سلفی اپنے مسلک اہلحدیث میں بہت زیادہ متشددتھے ،اورحدیث نبوی ﷺسے انکو خاص شغف اور لگاؤ تھا اور حدیث كکےمعاملے میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف مرحوم فرمایا کرتے تھے ۔
علماء اہلحدیث میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفا ثناءاللہ امر تسری رحمہ اللہ اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی دو ایسی بزرگ ہستیاں گزری ہیں جو حدیث نبوی ﷺ کے معاملے میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے جب بھی حدیث کے معاملے میں کوئی مخالفانہ مضمون یا کتاب ورسالہ شائع ہوتا تو یہ دونوں علماء کرام فوراً اسکانوٹس لیتے اور دلائل سے مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے تھے اور ایسا دندان شکن جواب کے مخالفین کو دوبارہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اوراعتراضات یا تنقیدی مضمون لکھیں ملکی سیاست میں بھی مولانا محمد اسماعیل سلفی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔تحریک استخلاص وطن اور 1953 کی قادیانی تحریک اسیر ذنداں بھی رہے ۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی تقسیم ملک سے قبل آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی مجلس عاملہ کے رکن رہے انجمن اہلحدیث پنجاب سے بھی وابستہ رہےتقسیم ملک کے بعد مغربی پاکستان جمعیت اہلحدیث کا قیام عمل میں آیا ۔ مولانا سید محمد داوؤد غزنوی رحمہ اللہ کے شانہ بشانہ کام کیا اور جمعیت اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں بہت زیادہ محنت کی ،جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلی بھی رہے اور مولانا غزنوی کی وفات کے بعد امارت کے منصب پر فائز ہوئے۔
مولانا محمد اسماعیل سلفی 1895میں پیدا ہوئے والد محترم کا اسم گرامی مولوی حکیم محمد ابراہیم تھا جواپنے دور کے نامورطبیب حاذقتھے۔
ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ،بعد ازاں وزیرآباد ،دہلی اور امر تسر اور سیالکوٹ میں اجلہ علماء کرام سےعلوم عالیہ وآلیہ میں استفاذہ کیا آپ کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں ۔
1۔مولوی عبد الستار بن مولانا حافظ عبد المنان محدث وزیرآبادی رحمہ اللہ ۔
2۔استاد پنجاب شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث
وزیر آبادی رحمہ اللہ ۔
3۔مولانا عبدالجبارعمر پوری ۔
4۔مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری ۔
5۔مولانا عبدالرحیم غزنوی ۔
6۔مولانا عبدالغفور غزنوی ۔
7۔مولانامفتی محمد حسن امرتسری ۔
8۔حکیم مولوی محمد عالم امر تسری۔
9۔مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ اجمعین
فراغت کے بعد وطن واپس آئے اور مولانا ثنا ءاللہ امر تسری اورمولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی تحریک جامع مسجد اہل حدیث حاجی پورہ کے خطیب مقرر ہوئے ۔کچھ عرصے بعد مولانا علاؤالدین تلمیذ شیخ الکل حضرت میاں صاحب سید نذیر حسین محدث دہلوی خطیب جامع مسجد اہلحدیث چوک ینائیں گوجرانوالہ نےوفات پائی تو مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ان کی جگہ مسجد اہل حدیث چوک ینائیں کے خطیب مقرر ہوئے اور پ زندگی تا وفات 1968اس مسجد سے وابستہ رہے اور مسجد چوک ینائیں میں آنے کے بعد آپنے ایک دینی درسگاہ بنام جامعہ محمدیہ کی بنیاد رکھی جو اس وقت بھی خدمت دین اسلام اور مسلک اہلحدیث کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہےمولانا سلفی جامعہ محمدیہ کےشیخ الحدیث تھےآپ نےتقریبا نصف صدی کے قریب قرآن حدیث کی تدریس فرمائی ۔ آپ کے مشہور ومعروف تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں۔
1۔مولانا محمد حنیف ندوی
2۔مولوی حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی
3۔مولانا محمد اسحاق بھٹی
4۔مولانا حکیم محمود سلفی
5۔مولانامحمد خالدگھرجاکھی
6۔علامہ عبد العزیزحنیف
7۔حافظ عبد المنا ن نو ر پوری رحمہم اللہ اجمعین۔
مولانا سلفی رحمہ اللہ کو تدریس کا خاص ملکہ حاصل تھا ،انکی تدریس کاایک واقعہ راقم سے مولاناعلی کاندہلوی (دیوبند) مرحوم( سیالکوٹ)نے بیان کیا ہے کہ:
میں 1953کی قادیانی تحریک میںگجرانوالہ سنٹرل جیل میں نظر بند تھا مولانا محمد اسماعیل سلفی ،مولانا عبدالمجید سوہدروی ،حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی اور کئی دوسرے علماءکرام بھی ہمارے ساتھ اسیر زنداں تھے ۔ایک دن میں میں اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے عرض کیا مولانا کہ ہم یہاں سارا دن بیکار وقت گزارتے ہیں ماسوائے لطائف وظرائف کے اور کوئی شغل نہیں ہوتا آپ ہمیں حجۃ اللہ البالغۃ کا درس دیا کریں ،مولانا سلفی مرحوم نے رضا مندی ظاہر کی ،چناچہ اسی دن آپ نے اپنے گھر سے حجۃاللہ البالغۃ منگوائی دوسرے دن آپ نے اس کا درس دینا شروع کردیا۔
میں دیوبند میںحجۃاللہ البالغۃمولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ سے پڑھی تھی۔مولانا عثمانی مر حوم جس انداز سے حجۃ اللہ البالغۃ کا درس دیتے تھے میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس طرح کوئی دوسرا مدرس نہیں پڑھا سکتا ،انکا پڑھانے کا انداز ہی نرالہ تھا لیکن مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے جب حجۃ اللہ البالغۃ کا درس دینا شروع کیا حیران رہ گیا کہ ان کا پڑھانے کا انداز ہی نرالہ ہےاور آپ مولانا عثمانی مرحوم سے بازی لے گئے تدریس کے لیے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ(سعودی عرب )کے وائس چانسلر مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ نے آپ کو بحیثیت استاد حدیث (جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ )میں دعوت دی کہ آپ جامعہ میں طلباء کو حدیث پڑھائیں لیکن آپ نے منظور نہ کیا اور آپ نےاپنی جگہ استاد العلماءحضرت العلام حضرت حافظ محدث گوندلوی رحمہ اللہ کو بھیج دیا جنہوں نے وہاں دوسال تک تدریس فرمائی۔
تصانیف:
شیخ الحدیث مولانامحمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ ایک کامیاب مصنف تھے ،آپکی زیادہ تر کتابیں حدیث نبوی ﷺ کی تائید وحمایت ،نصرت و مدافعت اور منکرین حدیث کی تردید میں ہیں۔ذیل میں صرف ان تصانیف کا تعارف پیش خدمت ہے جوحدیث اور متعلقات حدیث کے متعلق ہیں۔
مشکوٰۃ المصابیح مترجم جلد اول:
یہ جلد کتاب الایمان ،کتاب العلم،کتاب الطہارۃاور کتاب الصلوۃ پر مشتمل ہے اس ترجمہ میں ایک جانب عربی عبارت اوردوسری جانب ترجمہ اور نیچے حدیث کی توضیح اور مسائل بیان کیے گئے ہیں ۔مولانا سلفی رحمہ اللہ نے زندگی کے آخری ایام میں ترجمہ کا آغاز کیاتھا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور صرف ا یک ربع کی تکمیل کر سکےبقیہ تین جلدوں کی تکمیل مولانامحمد سلمان کیلانی مرحوم نے کی پہلی جلد 1970 میں مولاناسلفی کی وفات سے تین سال بعدشائع ہوئی اور بقیہ تین جلد بھی مطبوع ہیں۔
امام بخاری کا مسلک :
اس کتاب کے شروع میں مسلک اہلحدیث پر روشنی ڈالی گئی ہے ایمان اور اس کے متعلق چاروں ائمہ کرام کے مسلک کی وضاحت کرتے ہوئے تحمل حدیث،نماز میں ائمہ کے اختلافی مسائل اور ان کے جزئیات پر روشنی ڈالتے ہوئے امام بخاری کے مسلک کی ترجمانی کی گئی ہے او ر اس کے بعد علمائے دیوبند کا اضطراب، فقہ الحدیث اور فقہ الرائے ، الرد علی الجہمیہ اور خبر واحد کی وضاحت کرتے ہوئے ہر ایک پر محاکمہ کیاگیاہے۔ صفحات (44) مطبوع (ملتان)
واقعہ افک :
یہ کتاب مولوی تمنا عمادی(منکر حدیث) کے ایک مضمون کا جواب ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ واقعہ افک عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث موضوع ہے یہ عجمی سازش کی پیداوار ہے مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اس کتاب میں عمادی صاحب کے شبہات ونکات پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔(صفحات48 ، ندوۃ المحدثین گوجرانوالہ 1982) (جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص :64۔65)
دفاع حدیث میں مولانا سلفی رحمہ اللہ کی تصانیف :
سنت قرآن کے آئینہ میں :
یہ رسالہ فتنہ انکار حدیث کی تردید میں ہے اس میں مولانا سلفی رحمہ اللہ نے اچھوتے اور نئے انداز میں حجیت حدیث پر بحث کی ہے۔ ( صفحات : 32 مطبوع)
حدیث کی تشریعی اہمیت :
اس کتاب میں آیات قرآن سے ثابت کیاگیا ہے کہ جس طرح قر آن مجید کے ہر حکم کو ماننا ضروری ہے اسی طرح صحیح احادیث پر عمل کرنا بھی فرض ہے جیسے قرآن مجید کا منکر کافر ہوجاتاہے اسی طرح احادیث کا منکر بھی کافر ہوجاتاہے اس کے بعد جسٹس محمد شفیع کے حدیث کے بارے میں جو اعتراضات ہیں ان کا جواب دیاگیا ہے۔ ( صفحات : 110 مطبوعہ لاہور 1963ء)
حجیت حدیث آنحضرت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں :
اس کتاب میں آیات کریمہ سے آنحضرت ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو واضح کیاگیا ہے کہ جس شخص کی سیرت اس طرح روشن ہو پھر بھی اس کی بات کوئی نہ مانے تو وہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے کہتاہے۔ ( صفحات : 77 مطبوع 1985ء)
جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث :
یہ کتاب دراصل مولانا سید مودودی رحمہ اللہ کی کتاب ’’تفہیمات‘‘ و’’مسلک اعتدالی‘‘ اور مولانا امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ کے ایک مضمون بسلسلہ حجیت حدیث کے جواب میں ہے جن میں ان حضرات نے منکرین حدیث سے اتفاق فرمایا ہے۔ (صفحات 112، مطبوعہ لاہور 1376ھ)(جماعت اہلحدیث کی تصنیفی خدمات ، ص:378۔379)
حجیت حدیث :
یہ کتاب (صفحات 406)1408ھ/1985ء میں ادارہ البحوث الاسلامیہ جامعہ سلفیہ بنارس نے شائع کی اس میں علامہ ا لبانی اور مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ کے تین رسائل اور پانچ فکر انگیز مقالات جمع کئے گئے ہیں۔
رسائل :
1۔ اسلام میں سنت نبوی کا مقام / صرف قرآن پر اکتفاء کی تردید
2۔ عقائد میں احادیث آحاد سے استدلال واجب ہے / مخالفین کے شبہات کا جواب
3۔ عقائد واحکام کے لیے حدیث ایک مستقل حجت
علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
مقالات :
1۔حدیث کی تشریعی اہمیت
2۔جماعت اسلامیہ کا نظریہ اہلحدیث
3سنت قرآ ن کے آئینہ میں
4۔حجیت حدیث آنحضرت ﷺکی سیرت کی روشنی میں
5۔مسئلہ درایت وفقہ راوی کا تاریخی وتحقیقی جائزہ
شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ
مقالات حدیث
تصنیف: شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی رحمہ اللہ
تقدیم : فضیلۃ الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ۔ فضیلۃ الشیخ مولانا عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ
تحقیق وتخریج : حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ
صفحات : 700 ناشر ام القری پبلی کیشنز گوجرانوالہ ، طبع اول 2009ء۔ طبع دوم 2012ء
1۔ حدیث کی تشریعی اہمیت
2۔ سنت قرآن کے آئینہ میں
3۔ حجیت حدیث
4۔ حدیث شریف کا مقام حجیت
5۔ حدیث علمائے امت کی نظر میں
6۔ امام بخاری کا مسلک
7۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث
8۔ جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث اورحدیر فاران کراچی
9۔ اضاحۃ الحق
10۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کذبات ثلاثہ
11۔عجمی سازش کا افسانہ
12۔عجمی سازش کا تجزیہ واقعات کی روشنی میں
13۔ایک سوال۔ دو جواب
14۔امام محمد بن مسلم زہری قرشی اور تحریک انکار حدیث
15۔ مولانا تمنا عمادی کے تنقیدی مضمون کا علمی محاسبہ
16۔واقعہ افک کے متعلق نئی تمنائی ریسرچ
17۔مقدمہ نصرۃ الباری فی بیان صحۃ البخاری
18۔مسئلہ درایت وفقہ راوی کا تاریخی وتحقیقی جائزہ
وفات :
مولانا محمد اسمعیل سلفی نے 20فروری 1968ء کو گوجرانوالہ میں وفات پائی نماز جنازہ حافظ محمد یوسف گکھڑوی نے پڑھائی ، تدفین قبرستان کلاں میں ہوئی۔ راقم آثم کو بھی جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔ اللھم اغفرہ وارحمہ