حال ہی میں حافظ عاطف نامی شخص نے شوال کے چھ روزوں کی تردید میں ’’ضعیف الاقوال فی استحباب صیام ستۃ من شوال‘‘ کے نام سے کتاب شائع کرائی جس میں موصوف نے شوال کے روزوں کے ثبوت میں تمام روایات کو ضعیف ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ہے ان روزوں کے استحباب پر ایک روایت صحیح مسلم میں بھی موجود ہے محترم نے صحیح مسلم ( جس کو علماء کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہے) کی روایت پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔
موصوف نے اپنے زعم میں ایک علمی کاوش کی ہے لیکن حقیقت میں انہوں نے محدثین کرام کی مخالفت کرکے بہت بڑی ناسمجھی کا اظہارکیاہے۔
کیاوجہ ہے ؟ ائمہ حدیث جنہوں نے خود روایات کے قبول ورد کے قوانین وضع فرمائے اور کمال احتیاط سے راویان حدیث کے مراتب طے کیے۔
وہ اس صحیح حدیث کی علتوں سے واقف نہ ہوسکے اور انہوں نے صحیحین کی صحت پر اجماع بھی کر لیا۔
دورِ حاضر کے وہ لوگ جن کا اس علم سے دور کا بھی تعلق نہیں ان کے سامنے اس حدیث میں موجود علتیں عیاں ہوگیں؟ یہی وجہ ہے کہ موصوف نے صحیحین کی صحت کا انکار کیا اور علم حدیث ورجال کے جلیل القدر ائمہ ابو داؤد، طیالسی ،عبد الرحمن بن احمد بن یونس المصری رحمہم اللہ کی عدالت پر بھی حملہ کیا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ائمہ حدیث کی نظرمیں:
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ

یہ روایت صحیح مسلم کے علاوہ باقی کتب حدیث میں بھی موجو ہے ۔ پوری تخریج کے لیے دیکھیے (تکملۃ صحیح الاقوال ص34 از حافظ محمدیونس اثری حفظہ اللہ )
اس روایت کو کئی علماء حدیث نے صحیح قرار دیا ہے ان میں سے چند کے اسماء بمع حوالہ درج ہے۔
۱۔ امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسی بن سورۃ الترمذی (المتوفی 279)حدیث نمبر 759
2۔ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ (المتوفی 223) صحیح ابن خزیمہ 2114
3۔ امام ابو الحسن مسلم بن حجاج النیشاپوری (المتوفی 261) صحیح مسلم ، حدیث نمبر : 1164
4۔ ابو عوانہ یعقوب اسحاق الفرائنی(المتوفی 316) صحیح ابن عوانہ القسم المفقود ص 95
5ابو حاتم محمد بن حبان البستی (المتوفی 354) صحیح ابن حبان 3634
6 امام اندلس ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر (المتوفی 462) الاستذکار ج3 ، ص379 دار الکتب العلمیہ
7حافظ حسین بن مسعود البغوی (المتوفی 516) شرح السنہ ج3 ص513 رقم الحدیث 1774 دار الکتب العلمیہ
8 شیخ الاسلام ثانی محمد بن ابی بکر بن ایوب ابن القیم (المتوفی 751) تہذیب السنن مع عون المعبود ج7ص 62 دار الکتب العلمیہ
9 علامہ ابو عبد الرحمان محمدناصر الدین بن نوح الالبانی (المتوفی 1421) ارواء الغلیل ج4 ص 106 المکتب الاسلامی
10حافظ زبیر بن مجدد علی زئی (المتوفی 1434) صحیح الاقوال ص22 تلک عشرۃ کاملۃ
اسی طرح عصر حاضر کے ممتاز محقق شیخ شعیب الارنؤوط
حفظہ اللہ کی تحقیق کے مطابق بھی یہ حدیث صحیح ہے دیکھیے۔
(تحقیق مسند احمد بن حنبل ج38 ص 515 مؤسسۃ الرسالۃ)
اتنے ائمہ حدیث وماہرین فن کی تصحیح کے مقابلہ میں اس روایت کا ضعیف ہونا کسی ایک امام سے بھی ثابت نہیں جیسا کہ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’میرے علم کے مطابق کسی بھی امام سے اس روایت کو ضعیف قرار دینا ثابت نہیں ‘‘۔ (صحیح الاقوال ، ص:22)
شبہات اور ان کا ازالہ :
شبہ نمبر 1۔ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بیان فرمایا ہے (مسند الحمیدی 330)
معلوم ہوا کہ ابن عیینہ کے نزدیک یہ روایت مرفوعاً ثابت نہیں۔

ازالہ :

کسی محدث کا کسی بھی روایت کو موقوفاً بیان کرنے سے اس روایت کی تضعیف لازم نہیں آتی سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے موقوفاً ومرفوعاً دونوں طرح ثابت ہے۔
امام ابن عیینہ نے صرف موقوفاً بیان کیا تو کیا ہوا؟ ابن عیینہ کے محض ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا موقوف بیان کرنے سے ان کے تئیں اس روایت کو ضعیف گردانتا سراسر کم عقلیہے۔
شبہ نمبر 2۔ حافظ عاطف نامی شخص اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرتے ہیں :

فَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مِمَّا لَمْ يَكُنْ بِالْقَوِيِّ فِي قُلُوبِنَا لِمَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ عَلَيْهِ فِي الرِّوَايَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ وَمِنْ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُ

’’یہ ان روایات میں سے ہے جو ہمارے نزدیک قوی نہیں ہے اس لیے کہ اس روایت میں سعد بن سعید ہے جن کی صرف اہل الحدیث(محدثین) رغبت نہیں کرتے تھے۔ (ضعیف الاقوال ص18)
ازالہ :
موصوف طحاوی حنفی کی آدھی عبارت لے کر کہ خیانت کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔امام طحاوی کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں :

فَكَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مِمَّا لَمْ يَكُنْ بِالْقَوِيِّ فِي قُلُوبِنَا لِمَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ عَلَيْهِ فِي الرِّوَايَةِ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ , وَمِنْ رَغْبَتِهِمْ عَنْهُ، حَتَّى وَجَدْنَاهُ قَدْ أَخَذَهُ عَنْهُ مَنْ قَدْ ذَكَرْنَا أَخْذَهُ إِيَّاهُ عَنْهُ مِنْ أَهْلِ الْجَلَالَةِ فِي الرِّوَايَةِ وَالثَّبَتِ فِيهَا؛ فَذَكَرْنَا حَدِيثَهُ لِذَلِكَ

’’اور یہ روایت ہمارے نزدیک قوی نہ تھی کیونکہ اس میں سعد بن سعید ہے جس سے محدثین نے اعراض کیا ہے حتی کہ ہم نے ایسے لوگ جو اہل درایت اور ثبت ہیں انہوں نے اس سے اس روایت کو لیا ہے پس اس لیے ہم نے اس کی حدیث کو ذکر کر دیا ۔ (شرح مشکل الآثار ،حدیث : 2340)
معزز قارئین غور فرمائیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ توواضح طور پر فرما رہے ہیں کہ ائمہ حدیث کے اعراض کرنے کی وجہ سے میں نے اس حدیث کو قبول کرنے سے توقف کیا تھا جب دیکھا جہابذۃ العلم ائمہ اس روایت کو لینے لگ گئے ہیں تو میں نے بھی درج کردیا ۔ امام طحاوی کی عبارت کے پہلے ٹکڑے کو لیکر ان کو اس روایت کے مضعفین کی صف میں شامل کرنا خیانت عظمیٰ سے کم نہیں۔
شبہ نمبر 3۔ موصوف ابن المفلح کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس روایت کو امام احمد نے ضعیف قرار دیا ہے۔(ضعیف الاقوال ص 18)
ازالہ :
عاطف صاحب کی یہ بات بے سند ہونے کی وجہ سے باطل ومردود ہے محترم سے گزارش ہے کہ امام صاحب سے اس روایت کا ضعیف ہونا باسند صحیح ثابت کریں۔ علمی دنیا میں بے سند باتوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
شبہ نمبر 4۔ موصوف صاحب نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کے مضعفین کی فہرست بنائی ہے اس میں حافظ ابن رجب،ابن عبد البر اور ابن رشد وغیرہ کے اسماء ذکر کیے ہیں۔ (دیکھیے : ضعیف الاقوال ، ص17 اور 19)
ازالہ :
ان تینوں ائمہ سے اس روایت کا ضعیف ہونا قطعاً ثابت نہیں حالانکہ ابن عبد البر اس روایت کو صحیح قرار دے رکھا ہے ۔کما مر
محترم سے گزارش ہے کہ ان تینوں ائمہ سے بالصراحت اس روایت کا ضعیف ہونا ثابت کریں۔ ابن عبد البر ، ابن رشد کا امام مالک کے متعلق احتمال ذکر کرنے سے ان کے نزدیک اس روایت کی تضعیف کثیر کرنا ظلم عظیم ہے۔
عاطف صاحب کی سینہ روزی :
مدینہ طیبہ کے جلیل القدر امام مالک بن انس رحمہ اللہ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب’’مؤطا‘‘ میں ان چھ روزوں کا انکار فرمایا ہے ۔ امام صاحب کے محض انکار کرنے سے موصوف سے زبردستی منوانے پر تلے ہوئے ہیں کہ امام صاحب کے نزدیک مذکورہ روایت ضعیف تھی اسی بنا پر محترم نے اس روایت کے مضعفین کی جعلی فہرست میں امام صاحب کا نام بھی ذکر کیا ہے۔ (ضعیف الاقوال ، ص18)
موصوف مزید لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو امام مالک کو کیونکر اس کی بدعت کا خوف ہوتا اور بے شک بدعت کا خوف تب ہوتا ہے جب کہ وہ روایت رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہ ہو۔ (ضعیف الاقوال ، ص:19)
تبصرہ :
امام مالک رحمہ اللہ کے کلام میں اس روایت کے متعلق ذکر تک نہیں ۔ محدثین وعلماء کی ایک جماعت یہ بیان فرما چکی ہے کہ یہ صحیح حدیث امام صاحب تک نہیں پہنچی ہوگی ورنہ امام صاحب صحیح حدیث کی موجودگی میں یہ فتویٰ ہرگز نہیں دے سکتے ہمارے استاذ حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ نے تقریباً 20 ائمہ وعلماء کے نام ذکر کیئے ہیں جنہوں نے اس روایت کو امام صاحب کے عدم علم پر محمول کیا ہے ۔ (تکملہ صحیح الاقوال ص 66۔67)دراسہ کرنے سے مزید ائمہ کی تصریحات بھی مل سکتی ہیں بس ہم یہاں بھی کہیں گے کہ ائمہ حدیث کی تصریحات وتوجیہات کے مقابلہ میں عاطف صاحب کی بات مردود ہے۔
اگر امام مالک رحمہ اللہ کا کسی ثابت شدہ مسئلے کا انکار کرنے سے ان کے نزدیک اس مسئلے کے متعلق وارد روایات کو ضعیف کہا جاسکے تو کئی مسائل کا انکار کرنا پڑے گا مشہور اہلحدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’انہی بھائیوں میں ایک یہ بھی ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے مؤطا میں ان چھ روزوں کا انکار کیا ہے۔۔۔ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے تو نماز میں تعوذ وبسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا بھی انکار کیا ہے۔ فرماتے ہیں نہ یہ امام پڑھے نہ مقتدی پڑھے نہ ہی منفرد پڑھے اور فرماتے ہیں لوگ جو سبحانک اللھم پڑھتے ہیں میں اسے نہیں مانتا۔ (المدونۃ 1/62)
تو امام مالک کے اس انکار سے ثناء کا انکار بھی درست ہے۔ (مقدمہ صحیح الاقوال وتکملہ ص 12)
عاطف صاحب کا خیال ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ثناء تعوذ اور بسملہ کی روایات کو ضعیف کہا جاسکتاہے۔
حاشا وکلا
قارئین کرام! اصل بات یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں کے متعلق دو مرفوع روایات اور سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا فتوی باسند صحیح ثابت ہے ان صحیح ادلہ کے |پیش نظر کسی کا بھی فتویٰ قابل التفات نہیں ۔
مولاناحافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ’’جب حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس کے مقابلے میں ہر کسیکا فتوی مردود ہوتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی بڑا امام ہو ۔‘‘ (صحیح الاقوال ، ص29)
صحیح مسلم کی حدیث پر اعتراضات کا جائزہ :
قارئین کرام! ہم نے گزشتہ سطور میں صحیح مسلم کی حدیث کی تصحیح ائمہ حدیث سے ثابت کی اور محترم کے شبہات کا جائزہ بھی پیش کیا۔ اب موصوف کے چند ان اعتراضات کی طرف آتے ہیں جو انہوں نے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت پر واردکیئے ہیں۔
اعتراض نمبر 1۔ اس روایت کا کلی دارومدار عمر بن ثابت المدنی پر ہے جو کہ منفر ہے اور اس کی توثیق معتبر نہیں۔
تجزیہ :
عمر بن ثابت المدنی (تابعی) اگرچہ اس روایت کو بیان کرنے میں منفر د ہیں لیکن انہیں محدثین کرام نے ثقہ قرار دے رکھا ہے درج ذیل ائمہ نے عمر بن ثابت کی توثیق کی ہے ۔
\\ مؤرخ رجال ابو الحسن احمد بن عبد اللہ العجلی (المتوفی 261) تاریخ الثقات ، ترجمہ :1334
\\ ابو حاتم محمد بن حبان البستی (المتوفی 354 کتاب الثقات ج5 ص 149 طبع حیدرآباد دکن
\\ ابو حفص عمر بن احمد بن شاہین (المتوفی 385) تاریخ اسماء الثقات ترجمہ 6931
\\ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن عبد البر الاندلسی (المتوفی 462)فرماتے ہیں ’’وھو من ثقات أھل المدینۃ‘‘ (الاستذکار ج3 ص 380 طبع عباس احمد الباز مکہ)
درج ذیل ائمہ نے عمر بن ثابت کی مذکور منفرد روایت کو صحیح کہہ کر توثیق کر دی ہے ۔
\\امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی(المتوفی 279) جامع الترمذی تحت حدیث 759
\\امام الائمہ محمد بن اسحاق بن خزیمہ (المتوفی 223) صحیح ابن خزیمہ 2114
\\امام ابو الحسن مسلم بن حجاج نیشاپوری (المتوفی 261) صحیح مسلم 1146
\\امام ابو عوانہ یعقوب بن سفیان السفرائینی (المتوفی 316) صحیح ابی عوانہ القسم المفقود ص 95
\\ حافظ حسین بن مسعود البغوی (المتوفی 516)شرح السنۃ ج3 ص 13 دار الکتب العلمیہ
\\ شارح بخاری احمد بن علی ابن حجر العسقلانی (المتوفی 852) فرماتے ہیں ’’ثقہ‘‘ ( تقریب التہذیب ترجمہ 4880)
تنبیہ 1 :
کسی محدث کا کسی بھی راوی کی منفرد روایت کو صحیح قرار دینا اس کی طرف سے اس راوی کی توثیق ہوتی ہے یہ اصول صحیح اور برحق ہے۔
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اس حوالے سے ’’صحیح الاقوال ص23‘‘ میں جامع گفتگو فرما چکے ہیں شیخ رحمہ اللہ نے تائیداً ابن القطان الفاسی اور تقی الدین بن دقیق العید کی عبارات بھی پیش فرمائی ۔ (دیکھیے ص23)
لہٰذا ان کبار محدثین کے بیان کردہ اصول کے مقابلے میں عاطف صاحب کی بات لائق التفات ہی نہیں۔
تنبیہ 2
امام ابو الحسن العجلی اور امام ابن شاہین کا شمار ثقہ وجلیل القدر ائمہ حدیث میں ہوتاہے ان کو معاصرین (امام البانی وامام معلمی رحمہما اللہ) سے قبل کسی نے بھی متساہل نہیں کہا لہٰذا ان کی بیان کردہ توثیق معتبر ہوگی۔
الحاصل : عمر بن ثابت المدنی (تابعی) محدثین کے ہاں ثقہ ہیں ان پر کسی بھی محدث سے جرح ثابت نہیں اگر ثابت بھی ہوجاتی تو وہ جمہور محدثین کی توثیق کے مقابلے میں مضر نہ تھی ۔
اصول حدیث کا مشہور اور مسلّم قاعدہ ہے کہ جب کسی راوی کا ثقہ ہونا ثابت ہوجائے تو اس کا تفرد نقصان دہ نہیں یعنی ثقہ راوی کا تفرد مقبول ہوتاہے۔
اعتراض نمبر 2۔ عاطف صاحب لکھتے ہیں پھرعمر بن ثابت سے روایت نقل کرنے میںسعد بن سعید منفرد ہے جس کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ( ضعیف الاقوال ص 39)
تجزیہ:
1۔ سعد بن سعید اگرچہ مختلف فیہ راوی ہے لیکن جمہور محدثین کے نزدیک موثق حسن الحدیث ہے جیسا کہ امام ابن الملقن فرماتے ہیں:
’’فيه خلف مشهور بل الأكثر على توثيقه‘‘
(خلاصۃ البدر المنبیر 2/99 مکتبۃ الشاملۃ )
یعنی اس کے ثقہ وضعیف ہونے میں علماء کا اختلاف مشہور ہے جب کہ اکثر ائمہ نے اس کی توثیق کی ہے۔
2۔ محترم کا یہ کہنا کہ عمر بن ثابت سے روایت کرنے میں سعد بن سعید منفرد ہے ، غلط ہے۔ کیونکہ عمر بن ثابت سے یہ روایت بیان کرنے میں سعد بن سعید کی 3 ثقہ رواۃ نے متابعت کر رکھی ہے۔
۱۔ زید بن اسلم (شرح مشکل الآثار رقم 2343 سندہ صحیح)
زید بن اسلم کا ذکرکرنے والے یوسف بن یزید بن کامل ثقہ راوی ہیں ۔ (تقریب التہذیب )
لہٰذا زید بن اسلم کے ذکر کو شاذ کہنا باطل ہے۔
۲۔ صفوان بن سلیم (مسند الحمیدی 383 تحقیق الشیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ )
تنبیہ : زید بن اسلم اور صفوان بن سلیم سے روایت کرنے والا صحیح مسلم کا ثقہ راوی عبد العزیز دراوردی ہے ۔ عاطف صاحب نے اس ثقہ راوی کو ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کر رکھی ہے۔(ضعیف الاقوال ص30)
جبکہ عبد العزیز دراوردی کو جمہور محدثین نے ثقہ قرار دیا ہے۔ مولانا حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اس حوالے سے مفصل مضمون تحریر فرمایا ہے جس میں شیخ رحمہ اللہ نے کئی کبار محدثین سے دراوردی مذکور کی توثیق ثابت کرنے کے ساتھ اس پر وارد شدہ اعتراضات کا علمی رد فرمایا ہے ۔ جزاہ اللہ خیراً (دیکھیے : علمی مقالات 3/328)
3۔ یحییٰ بن سعید بن قیس الانصاری (مسند الحمیدی 382 بتحقیق الشیخ زبیر علی زئی ، شرح مشکل الآثار 2346)
حسب سابق اس سند پر بھی موصوف نے چند بے بنیاد اعتراضات کیے ہیں جن کا علمی جواب شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ دے چکے ہیں ۔ (صحیح الاقوال ص 26)

الحاصل :

سعد بن سعید بن قیس جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ثقہ وحسن الحدیث ہیں اگر بالفرض ان کو ضعیف بھی تسلیم کر لیا جائے تو بھی ان کا ضعف مضر نہیں کیونکہ تین ثقہ رواۃ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے ۔ والحمد للہ
اس لیے سعد بن سعید (ثقہ عند الجمہور) کا بہانہ بناکر اس صحیح کو ضعیف کہنا باطل ومردود ہے۔
صحیح مسلم کی روایت کا صحیح شاہد :
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

صِيَامُ شَهْرٍ بِعَشَرَةِ أَشْهُرٍ، وَسِتَّةِ أَيَّامٍ بَعْدَهُنَّ بِشَهْرَيْنِ، فَذَلِكَ تَمَامُ سَنَةٍ

’’یعنی رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔‘‘ (سنن الدارمی 1796 سندہ صحیح)
اس روایت کو امام ابن خزیمہ 2115 اور امام ابن حبان 3635 وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے بعض الناس نے اس روایت کی سند میں موجود صحیح مسلم کے ثقہ راوی ابو الاسماء عمرو بن مرشد الرجی کو مجہول الحال کہہ کر اس روایت کی تضعیف کی ہے ۔ تو عرض ہے ابو اسماء کا ثقہ ہونا ائمہ حدیث سے ثابت ہے (تقریب التہذیب 5169) لہٰذا اسے مجہول کہنا مردود ہے۔
خلاصۂ تحقیق :
اس پوری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ شوال کے چھ روزوں کے استحباب پر صحیح مسلم کی روایت صحیح ہے کیونکہ ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح کہا ہے کسی ایک محدث نے بھی اس روایت کو ضعیف نہیں کہا اس روایت کے مرکزی راوی عمر بن ثابت المدنی کا شمار اہل مدینہ کے ثقات میں ہوتاہے اس سے روایت کرنے والے ثقہ رواۃ ہیں لہٰذا یہ روایت اصول محدثین کی روشنی میں صحیح ثابت ہوئی اسے ضعیف کہنا اصول محدثین سے انحراف ہے ۔
آخر میں ہم شارخ بخاری ابو الفضل احمد بن علی بن محمد ابن حجر العسقلانی کا کلام پیش کرتے ہیں :

يَنْبَغِي لكل منصف أَن يعلم أَن تَخْرِيج صَاحب الصَّحِيح لأي راو كَانَ مُقْتَض لعدالته عِنْده وَصِحَّة ضَبطه وَعدم غفلته وَلَا سِيمَا مَا انضاف إِلَى ذَلِك من إطباق جُمْهُور الْأَئِمَّة على تَسْمِيَة الْكِتَابَيْنِ بالصحيحين وَهَذَا معنى لم يحصل لغير من خرج عَنهُ فِي الصَّحِيح فَهُوَ بِمَثَابَة إطباق الْجُمْهُور على تَعْدِيل من ذكر فيهمَا ( فتح الباری شرح صحیح البخاری ج1 ص384 دار المعرفۃ بیروت )

’’ہر مصنف شخص کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ امام بخاری ومسلم رحمہما اللہ کے کسی راوی سے حدیث نقل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی ان کے نزدیک کردار کا سچا اور حافظے کا پکا ہے نیز وہ حدیث کے معاملے میں غفلت کا شکار بھی نہیں ہے خصوصاً جبکہ جمہور ائمہ کرام متفقہ طور پر بخاری ومسلم کی کتابوں کو ’’صحیح‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں یہ مقام اس راوی کو حاصل نہیں ہوسکتا جس کی روایت صحیحین میں موجود نہیں گویا جس راوی کا صحیح بخاری ومسلم میں ذکر ہے وہ جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک قابل اعتماد راوی ہیں۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام سے درج ذیل باتیں واضح ہورہی ہیں ۔
1۔ائمہ حدیث نے متفقہ طور پر بخاری ومسلم کو صحیح کہا ہے۔
2۔ صحیح بخاری ومسلم کے تمام رواۃ ثقہ وقابل احتجاج ہیں۔
3۔بخاری ومسلم کے رواۃ ثقہ عند الجمہور ہوتے ہیں۔
4۔بخاری ومسلم کے رواۃ کا مقام باقی رواۃ سے اعلیٰ ہے۔
5۔ جو بھی محدث اپنی کتاب میں صحیح احادیث کا التزام کرتا ہے یا وہ کسی روایت کی سند کو صحیح کہتا ہے تو اس کی طرف سے اس حدیث کے رواۃ کی بھی توثیق ہوتی ہے۔
۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے