عہد نبوی ﷺ میں جزیرۂ عرب کے پڑوس میں روم و فارس کی دوعظیم سلطنتیں واقع تھیں۔ رومی، جزیرۂ عرب کے شمال میں ایک بڑے حصہ پر قابض تھے اور ان علاقوں کے امراء رومی سلطنت کی طرف سے مقررکیے جاتے تھے اور اس کے اوامر کے پابند ہوتے تھے۔
امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی تیاری رسول الله ﷺ کےسفرِآخرت سے دو روز قبل بروز ہفتہ مکمل ہوئی اور اس کا آغاز آپ ﷺ کی بیماری سے قبل ہو چکا تھا۔ آپ نے ماہ صفر کے اواخر میں جنگ کی تیاری کا حکم دیا سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: اپنے والد کی شہادت گاہ کی طرف روانہ ہو جاؤ ، میں نے تم کو اس لشکرکا امیر مقرر کیا ہے۔ بعض لوگوں کو سیدنااسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر اعتراض پیدا ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: اگر آج تم اسامہ کی امارت پر اعتراض کرتے ہوتو اس سے قبل اس کے والد زید کی امارت پر بھی تمہارا اعتراض تھا، اللہ کی قسم وہ امارت کے قابل تھا اور وہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوںمیں سے تھا اور اس کے بعد یہ اسامہ میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہے۔(صحیح بخاری)
تیاری شروع ہونے کے دو دن بعد رسول الله ﷺ بیمار پڑ گئے اور آپ کی بیماری بڑھ گئی، جس کی وجہ سے یہ لشکر روانہ نہ ہوسکا اور مقام جرف میں ٹھہرا رہا اور نبی کریم ﷺ کی رحلت کی خبر سن کر مدینہ واپس چلا آیا۔ اور وفات نبوی ﷺ کے بعد حالات میں تبدیلی آگئی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں: جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے تو اکثر عرب ارتداد کا شکار ہو گئے، نفاق امڈ آیا مجھ پر ایسی مصیبت ٹوٹی کہ اگر پہاڑوں پر ٹوٹتی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتے اور صحابہ کی یہ کیفیت ہوئی کہ جیسے باغ میں بارشوں سے بھیگی ہوئی بکریاں بارش کی رات میں درندوں بھری زمین میں ہوں۔(البدایہ والنہایہ)
اور جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے زمام خلافت سنبھالی تو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے تیسرے دن ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کرے کہ اب لشکر اسامہ کو اپنی مہم پر روانہ ہونا ہے۔ لہذا ہر شخص جس کا نام لشکر اسامہ میں ہے وہ مدینہ چھوڑ کر مقام جرف میں اپنی لشکر گاہ میں پہنچ جائے۔
پھرآپ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا:
لوگو! یقین جانو میں تم جیسا ہوں، مجھے نہیں معلوم شاید تم لوگ مجھے ایسی باتوں کا مکلف گرو گےجس کی رسول اللہ ﷺ کو طاقت تھی ، اللہ نے آپ کو سارے عالم پر منتخب فرمایا تھا ، اور آپ کوآفات سے محفوظ رکھا تھا۔ میرا کام اتباع ہے۔ میں بدعت ایجاد کرنے والا نہیں۔ اگر میں سیدهاچلوں تو میرا ساتھ دینا اور اگر کجی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کر دینا۔ (البدایہ والنہایہ)
یہاں خلیفہ رسول کاصحیح مفہوم بیان کیا گیا ہے کہ آپ اللہ کے خلیفہ نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ تھے، رسول اللہ ﷺ کے مقام نبوت ورسالت کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے آپ اپنی سیاست میں متبع اور پیروکار تھے مبتدع اور نئی راہ اختیار کرنے والے نہ تھے۔  یعنی آپ عدل و احسان کے ساتھ حکومت کرنے میں منہج نبوی پر قائم تھے۔
لشکر اسامہ کی روانگی سے متعلق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام کے درمیان ہونے والی گفتگو اور سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا حتمی مؤقف
بعض صحابہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے لشکر اسامہ کے سلسلہ میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا آپ کو معلوم ہے کہ اکثر مسلمان اور عرب آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، لہذا یہ مناسب نہیں کہ آپ مسلمانوں کی جماعت کو اپنے سے جدا کریں۔ اور اسامہ رضی اللہ عنہ نے جرف میں اپنی لشکر گاہ میں سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لوگوں کے ساتھ مدینہ لوٹ آنے کی اجازت طلب کرنے کے لیے بھیجا اور کہا: میرے ساتھ مسلم قائدین اور ان کی اکثریت موجود ہے اور مجھے خلیفہ رسول، حرم رسول اور مسلمانوں کے سلسلہ میں مشرکین سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی مخالفت کی اور لشکر اسامہ کو شام کی مہم پر روانہ کرنے کے سلسلے میں اپنے موقف پر قائم رہے۔ احوال وظروف اور نتائج کیسے بھی ہوں، اسامہ رضی اللہ عنہ اور دیگر قائدین جنگ، خلیفہ کی اپنی رائے پر اصرار سے مطمئن نہ ہوئے اور متعدد طریقوں سے اس بات کی کوشش کی کہ خلیفہ کو اپنی رائے پرمطمئن کر سکیں۔ جب خلیفہ سے اس طرح کے مطالبات بڑھ گئے تو آپ نے اس موضوع پر بحث و گفتگو کےلیے مہاجرین و انصار کی عام مجلس بلائی اور اسی اجتماع میں مختلف پہلوؤں سے اس موضوع پر طویل گفتگو ہوئی۔ لشکراسامہ کی مخالفت کرنے والوں میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے،روانگی کے سب سے بڑے مخالف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ کیونکہ وہ ایسی صورت میں خلیفہ، ازواج مطہرات، مدینہ اور اس کے باشندگان کےلیے سخت خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ کہیں مشرکین اور مرتدین چڑھ نہ دوڑیں اور کہیں ان پر قابض نہ ہو جائیں۔ اور جب عمائدین صحابہ نے اس سلسلہ میں خلیفہ پر زور دیا اور ان عظیم خطرات کا خوف دلایا جولشکراسامہ کی روانگی سے پیدا ہو گئے تھے تو آپ نے لوگوں کے مشورے سنے ، انہیں اپنی بات مکمل کرنے کا موقعہ دیا، ان سے وضاحت طلب کی۔ پھر آخر میں آپ نے مجلس برخاست کرنے کا حکم دے دیا ۔ پھر مسجد میں دوسرا عام اجتماع منعقد کیا اور اس میں صحابہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مہم کے عدم نفاذ کوبھول جائیں جسے رسول الله ﷺ نے خود تیار کیا ہو، اور انہیں آپ نے خبر دی کہ وہ اس منصوبہ کو عنقریب نافذ کر کے رہیں گے۔ اگر چہ اس تنفیذ کے نتیجے میں مرتدین مدینہ پر قابض ہو جائیں۔
آپ نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگرمجھے یہ یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ  کھائیں گے تب بھی میں لشکر اسامہ کو بھیج کر رہوں گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم ہے۔ اگر بستی میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تب بھی میں اس کو ضرور نافذ کروں گا۔(تاریخ الطبری)
جی ہاں! لشکر اسامہ کو اس کی مہم پر بھیجنے کے سلسلہ میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کاعزم بالکل صحیح تھا اگرچہ یہ تمام مسلمانوں کی رائے کے خلاف تھا کیونکہ لشکر اسامہ کو بھیجنے کے لیے رسول الله ﷺ کا حکم موجود تھا اور بعد کے حالات و واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے درست تھی اور آپ کی قرارداد صحیح تھی، جس کی تنفیذ کا آپ نے عزم کر رکھا تھا۔
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی مدینہ طیبہ واپسی کی التجا
جب تمام لشکر اپنے فوجی ٹھکانے جرف کے مقام پر پہنچ گیا جس میں سیدنااسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے تو اسامہ رضی اللہ عنہ نے ان سے عرض کی کہ وہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں یہ گزارش پیش کریں کہ ان لوگوں کو واپس مدینے جانے کی اجازت دے دی جائے۔
انھوں نے یہ بھی عرض کیا کہ بہت سے جلیل القدر صحابہ میرے ساتھ جارہے ہیں مجھے خلیفہ رسول ﷺ ، حرم رسول ﷺ اور مدینہ منورہ میں باقی رہنے والےمسلمانوں کے بارے میں تشویش ہے۔ ایسا  نہ ہو کہ اس لشکر کی روانگی کے بعد مشرکین انھیں اچک کر لے جائیں۔(الکامل لابن لاثیر)
انصار کی کسی تجربہ کارشخص کو امیر لشکر مقرر کرنے کی درخواست:
انصار سے تعلق رکھنے والے ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی جو اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ خلیفہ رسول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جائے اور ان کی خدمت میں ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچائے کہ وہ ہمارے اس لشکر کا امیر کسی ایسے شخص کو مقرر فرمائیں جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر کا ہو۔(الکامل)
دربارِ صدیقی سے دونوں درخواستیں مسترد:
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ یہ دونوں درخواستیں لے کر سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پہلے انھوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی درخواست پیش کی۔ اس کے جواب میں سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر جنگل کے کتے اور بھیڑیے مجھے اٹھا کر لے جائیں تو بھی میں وہ کام کرنے سے نہیں رکوں گا جسے نبی معظمﷺ نے کرنے کا حکم دیا تھا۔ میں رسول مکرم ﷺ  کے فیصلے کی ہرگز مخالفت نہیں کروں گا  اگرچہ ان بستیوں میں میرے سوا کوئی متنفس باقی نہ ر ہے ۔یہ قطعی جواب سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کا  نقطۂنگاہ پیش کیا کہ اس لشکر کی روانگی اگر ضروری ہے تو اس کا عہدۂ  امارت کسی ایسے شخص کے سپرد کیا جائے جو سن و  سال کے اعتبار سے اسامہ سے بڑاہو ۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ دونوں پیغام پہنچائے اس وقت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ دوسرا پیغام سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور کھڑے ہوکر غصے کی حالت میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر فرمایا:
اے عمر! تیری ماں تجھے گم پائے- اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس امارت پرنبی ﷺ نے مقرر فرمایا ہے اور تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اسے اس منصب سے الگ کر دوں۔“
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ دو ٹوک جواب سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے پاس آئے۔
لوگوں نے بے تابی سے پوچھا:
کیاجواب لائے؟‘‘
فرمایا « چلے جاؤ میرے سامنے سے۔ تمھاری مائیں تمھیں گم پائیں ، مجھے تمھار ی وجہ سے خلیفہ رسول ﷺ کی جھڑکیاں کھانا پڑیں۔ (الکامل)
خلیفۃ المسلمین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی لشکر کو دس نصیحتیں :
پھر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ لشکر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
لوگو ٹھہرو! میں تمہیں دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں انھیں اچھی طرح یاد رکھنا۔
1)  خیانت نہ کرنا۔
2) بدعہدی نہ کرنا۔
3) کسی کو دھوکا نہ دینا۔
4) مقتولوں کا مثلہ نہ کرنا یعنی ان کے ناک کان ہا تھ پاؤں وغیرہ اعضانہ کا نا۔
5)  پھل دار درخت نہ کا ٹنا۔
6)  کسی بکری گائے اور اونٹ کو سوا کھانے کے ذبح  نہ کرنا۔
7) تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرو گے ، جنھوں نے اپنے آپ کو گرجوں میں عبادت کے لیے وقف کر رکھا ہے انھیں کچھ نہیں کہنا ان کے حال پر ہی انھیں چھوڑ دینا۔
8)  تم ایسے لوگوں کے پاس پہنچو گے جو تمھارے لیے برتنوں میں مختلف کھانےلائیں گے ، تم انھیں کھانے لگو تو بسم اللہ پڑھ کر کھانا۔
9)  تم ایسے لوگوں سے ملو گے ، جنہوں نے سر کا درمیانی حصہ منڈوایا ہو گا اور سر کےچاروں طرف بالوں کی لٹکائی  ہوں گی میں تلوار سے مارنا (قتل کر دینا)۔
10) اپنی حفاظت اللہ کے نام سے کرنا۔
اللہ تعالی تمہیں نیزوں اور طاعون سے فنا کرے۔
(اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی تمہیں شہادت نصیب فرمائے میدان جنگ میں جام شہادت نوش کر کے یا طاعون کی بیماری میں مبتلا ہو کر فوت ہونے سے)
سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امیرالجیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو خصوصی نصیحت:
آپ نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کے اوامر کو نافذ کرنے کی وصیت فرمائی، فرمایا: تم وہی کرنا جس کا تمہیں رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا ہے۔ قضاعہ کے علاقے سے شروع کرو پھر آبل پہنچو اور رسول اللہ ﷺ کے کسی حکم میں کوتاہی ہرگز نہ کرنا اور جس عہد میں تاخیر ہوگئی ہے جلد بازی مت کرنا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ اپنا لشکر لے کر روانہ ہو گئے اور قضاعہ کے قبائل میں پہنچے، جہاں رسول اللہ ﷺ نے شہسواروں کے پھیلا دینے کا حکم دیا تھا اور آپ کے حکم کے مطابق آبل پرحملہ کیا، فتح یاب ہوئے اور مال غنیمت حاصل کیا۔ اس مہم پر آنے جانے میں چالیس روز لگے۔
ہرقل کو رسول الله ﷺ کی وفات اور اسامہ رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر ایک ساتھ پہنچی۔ رومی کہنے لگے یہ کیسےلوگ ہیں؟ ایک طرف تو ان کا نبی فوت ہو رہا ہے پھر بھی یہ ہمارے ملک پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اور عرب کہنے لگے۔ اگر مسلمانوں کے پاس قوت نہ ہوتی تو یہ لشکر روانہ نہ کرتے اور وہ اپنے بہت سے عزائم سے باز آ گئے ۔ (الکامل)

اتباع نبی کریم ﷺ کی فرضیت :

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانہ کرنے کے واقعہ سے ایک بنیادی سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ تکلیف اور آرام کے ہر موقعے پرمسلمانوں کے لیے نبی کریمﷺ کی اتباع ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا ہے۔
وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا
« پیغمبر ﷺ  جس چیز کا تمھیں حکم دیں اسے قبول کرو اور جس چیز سےروکیں اس سے رک جا۔» (سورۃ الحشر:7)
اور اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔

مَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَخُذُوهُ، وَمَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (سنن ابن ماجہ:1)

« جس چیز کا میں تمھیں حکم دوں وہ سرانجام دو  اور جس سے روکوں اس سے دامن بچا کر رکھو۔»
اس پرصحیح بخاری کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ مروی ہے۔

قال: بَايَعْنَا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- على السَّمع والطَّاعَة في المَنْشَطِ والمَكْرَه

« ہم نے نبی کریم ﷺ کی بیعت کی کہ دل چاہے یا نہ چاہے ہر موقعے پر ان کا ارشاد سنیں گے اور اس کی پابندی کریں گے»
ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں:

وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا وَأَثَرَةً عَلَيْنَا (صحیح بخاری:7056)

« اپنی تنگی اور آسائش کے وقت اور اس وقت بھی جب وہ (نبی کریم ﷺ) ہمارے مقابلے میں کسی دوسرے کو تر جیح دیں گے (غرض یہ کہ ہرحال میں ان کی اطاعت کریں گے) «
اس واقعہ میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے قول اور عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ نبی کریم ﷺ کے احکام  و  اوامر پر حالات کے نازک اور خطرناک ہونے کے باوجود نہایت مضبوطی کے ساتھ کار بند تھے -اس واقعے میں بہت سی باتیں اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں، جن میں چند باتیں مندرجہ ذیل ہیں:
(1) حالات کے انقلاب و تغیر کے پیش نظر مسلمانوں نے جب ان سے جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا تو انھوں نے جن الفاظ میں جواب دیا وہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ نقش رہیں گے۔ فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوبکر کی جان ہے اگر مجھے یہ یقین ہو کہ درندے مجھے اٹھا کر لے جائیں گے تب بھی میں اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کروں گا۔ اس پراسی طرح عمل ہو گا جس طرح کہ نبی کریم ﷺ  نے حکم دیا تھا۔ اگرچہ میرے سوا بستی میں کو ئی متنفس باقی نہ رہے۔ پھر بھی میں یہ لشکر روانہ کروں گا۔
(2) جب سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس خطرے کی بنا ء پر کہ ان کے لشکر کے جہاد روم پر روانہ ہونے کے بعد کہیں مرتد قبائل سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اوراہل مدینہ پر حملہ نہ کر دیں ان سے مقام جرف سے مدینے واپس آ جانے کےلیے عرض کیا تو انھوں نے واپس آنے کی اجازت نہیں دی بلکہ نبی کریم ﷺ  کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس عزم صمیم کا اظہار کیا کہ اگر مجھے کتے اور بھیڑ یے بھی اٹھا کر لے جائیں تب بھی میں نبی کریم ﷺ کے فیصلے سے سرمو انحراف نہیں کروں گا ۔‘‘ (الکامل)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ موقف اللہ تعالی کے اس فرمان کے بالکل مطابق تھا:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًا

«کسی مومن مرد اور مومنہ عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر ان کو کوئی اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ تعالی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے یقیادہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا۔» (سورۃ الاحزاب:36)
(3) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے حکم کو مضبوطی سےتھامنے کے لیے اس وقت شدید اصرار کا اظہار فرمایا جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کی خد مت میں انصار کا یہ پیغام لے کر آئے کہ اس لشکر کا امیرکسی ایسے شخص کو بنایا جائے جو سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر کا ہو -اس پر سیدنا ابو بکر نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما کو نہایت خفگی سے جواب دیا۔ امام طبری یہ واقع حسن بن ابوالحسن بصری سے ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : انصار نے مجھے کہا ہےکہ میں آپ کی خدمت میں ان کی یہ عرض داشت پہنچا دوں کہ آپ اس لشکرکی امارت کے لیے ایسے شخص کو منتخب فرمائیں جو سن و سال میں اسامہ سےبڑھا ہوا ہو «-
اس وقت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ یہ الفاظ سن کر کھڑے ہو گئےاور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی داڑھی پکڑ کر فرمایا: ”خطاب کے بیٹے! تیری ماں تجھے گم پائے ۔ اس (اسامہ رضی اللہ عنہ) کو رسول اللہ ﷺ نے امیر مقرر فرمایا اور تم مجھے کہتے ہو کہ میں اسے امارت سے علیحدہ کر دوں۔ « (تارخ الطبری)
(4) اسی طرح لشکر اسامہ کی روانگی کے وقت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا کچھ دور تک ان کے ساتھ جانا اور خلیفۃالمسلمین ہونے کے باوجود سوار اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیدل چلنا بھی ان کے اتباع نبی کریم ﷺ کے جذبہ پردلالت کرتا ہے۔ انہوں نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو اسی طرح الوداع کیا جسطرح رسول کریم ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت الوداع کیا تھا۔
امام احمد بن حنبل  رحمہ اللہ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت درج کی ہے کہ جب انھیں نبی معظمﷺ نے یمن کی طرف روانہ فرمایا تو آپ ان کے ساتھ ہی نکلے اور انھیں نصحتیں فرمائیں۔ اس وقت سیدنا معاذ سوار تھے اور آپ ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ (الفتح الربانی)
سیدنا ابو بکر صدیق رضی الله کا مقصد نبی کریم ﷺ کی اتباع کرنا اور آپ کےطرز عمل کو اپنانا تھا۔
شیخ احمد البنا نے اس حدیث پر تعلیق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابوبکر نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کی صغر سنی کے باوجود ان کی عزت و تکریم کی کیونکہ نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات سے قبل انہیں اس لشکر کا سربراہ مقرر فرمادیا تھا، لیکن ان کی روانگی کا وقت آپ کی وفات کے بعد آیا- اب ابو بکر رضی الله عنہ پیدل ان کے ساتھ چلے اوروہ سوار تھے۔ ان کے اس عمل کے پیچھے نبی کریم  ﷺ کی اقتداء کا جذبہ کار فرما تھا۔
آپ ﷺ معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ (ان کو روانہ کرتے وقت) پیدل چلے تھے۔(بلوغ الامانی)
(5) سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا جذ بۂاتباع نبی ﷺ سے ان کے لشکر اسامہ رضی اللہ کو الوداع کرتے وقت نصیحت کرنے سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ انھوں نے نصیحت اس لیے فرمائی کیونکہ رسول اللہ ﷺ لشکروں کو روانہ کرتے وقت انھیں نصیحت فرمایا کرتے تھے۔
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اتباع نبی ﷺ میں صرف جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرنے پر ہی اکتفا ء نہ کیا بلکہ انہیں نصیحت بھی وہ فرمائی جو رسول اللہ ﷺ  کی لشکروں کو کی گئی نصائح سے ماخوز تھی۔
(6) نبی مکرمﷺ کی اطاعت شعاری کے بارے میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کیفیت اس درجے تک پہنچ چکی تھی کہ لشکر اسامہ کے لیے انھوں نے وہی دعا کی جو نبی کریم ﷺ امت کے لیے فرمایا کرتے تھے ۔ انھوں نے لشکر کو نصیحت کرتے ہوئے آخر میں یہ دعائیہ کلمات کہے۔

أفناكم اللهُ بِالطَّعْنِ وَالطَّاعُونِ (الطبري3/227)

« اللہ تعالی کی طرف سے تمھاری موت نیز وں اور طاعون سے ہو»
یہ وہ دعا ہے جو نبی ﷺ نے امت کے لیے فرمائی – امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کے بھائی ابو بردہ بن قیس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

اللهُمَّ اجْعَلْ فَنَاءَ أُمَّتِي فِي سَبِيلِكَ بِالطَّعْنِ، وَالطَّاعُونِ (مسنداحمد:15608)

«اے میرے اللہ ! میری امت کی موت آپ کی راہ میں نیزوں اور طاعون سے ہو (مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی انھیں شہادت کا عظیم شرف نصیب فرمائے ۔ واللہ اعلم»
(7) سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صرف یہی نہیں کیا کہ نبی کریم  ﷺ کے قول و عمل کی خود اقتدا کرنے کو کافی سمجھا بلکہ امیر لشکر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بھی نبی ﷺ کے فرمان پر عمل کرنے کا حکم دیا اور اس میں کسی قسم کی کمی کرنے سے منع فرمایا-ارشاد فر مایا:

اصْنَعْ ما امرك به نبى الله ص، ابدا ببلاد قضاعه ثم ايت آبِلَ، وَلا تُقَصِّرَنَّ فِي شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ رسول الله ﷺ ) (تاريخ الطبری3/227)

« اسی طرح کرو جس طرح تمہیں نبی اکرمﷺ نے حکم دیا – جہاد کا آغاز قضاعہ کی آبادی سے کرو پھر آ بل کی طرف آو- اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنا»
ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:
« اسامہ !اسی طرف جاؤ جس طرف تمہیں جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ پھر فلسطین کی جانب سے جہاد کا آغاز کرو جیسا کہ تمہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے اوراہل موتہ پر حملہ کرو- جو کچھ تم نے چھوڑا ہے اللہ تعالی اس سے تمھیں کفایت کرے گا «

(تاریخ الاسلام)

امام ابن اثیر کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کی کہ نبی کریم ﷺ نے ان کو جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں۔(الکامل)
اتباع نبی کریم ﷺ میں جلدی کرنے کی فرضیت
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے بھی اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ کرنے کے واقعہ سے ہمیں جو سبق حاصل ہوئے ان میں ایک یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی اتباع میں جلدی کرنا لازم ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی وفات سے دوسرے دن   کے بعدسیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ اعلان کرنے کا حکم جاری کر دیا کہ لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ شہر سے نکل کر اپنی لشکر گاہ جرف میں پہنچ جائے ۔ اس کا مطلب محض یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ نے اسامہ کا جو لشکر روانہ کرنے کاحکم دیا تھا اس پر جلدی سے عمل کیا جائے۔ پھر جب ان سے لشکر کو روکنے کے لیےعرض کیا گیا تو اسے ماننے سے انکار کر دیا اور فرمایا:

مَا كُنْتُ لِأَسْتَفْتِحَ بِشَيْءٍ أَوْلَى مِنْ إِنْفَاذِ أَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (تاریخ خلیفہ بن خیاط،ص:100)

«میں رسول اللہ ﷺ کے ار شاد کی تعمیل کے علاوہ کسی بھی اور کام سے(اپنے امور خلافت) کا آغاز کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔»
ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشادفرمایا جس میں اللہ تعالی کی تعریف و ثناء  بیان کی اور پھر فرمایا:
اگر میں اپنے معاملات خلافت کی ابتدانبی ﷺ کے جاری کردہ حکم کےعلاوہ کسی اور معاملے سے کروں تو میں یہ پسند کروں گا کہ مجھے پرندےاچک لیں۔(طبقات ابن سعد)
جو شخص نبی کریم ﷺ کی امت میں شامل ہونے کا دعوی کر تا ہے اس کا فرض ہے کہ اسی طرح آپ کے احکام کی تنفیذ کے لیے ہر ممکن عجلت سے کام لے۔رسول مکرمﷺ کے سچے اور حقیقی تابع داروں کی سیرتیں ایسے شواہد سے بھری پڑی ہیں۔ انہی شواہد میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
(1) حضرات انصار کا حالت رکوع ہی میں چہروں کو کعبۃ اللہ کی طرف پھیر دینا۔
(2) رسول معظمﷺ کے حکم کی فوری تعمیل میں حضرات صحابہ کا سفر میں ایک دوسرے کے قریب پڑاؤ ڈالنا۔
(3) حضرات صحابہ کا ارشاد نبوی ﷺ کی تعمیل میں ہانڈیوں کو ابلتے ہوئے گھریلوگدھوں کے گوشت سمیت انڈیل دینا۔
(4) حضرات صحابہ کا شراب کے اعلان حر مت پر اس کو مدینہ طیبہ کی گلیوں میں بہا دینا۔
(5) حضرات صحابہ کا حالت نماز میں رسول اللہ ﷺ کو جوتے اتارتے دیکھ کر فور ا اپنے جوتے اتارد ینا-
(6) ایک مسلمان عورت کا نبی معظمﷺ سے زکوة ادانہ کرنے پر وعید سن کرسونے کے دو کنگن فورا اتار کر اللہ تعالی کی راہ میں دے دینا۔
(7) گلی میں چلتی ہوئی عورتوں کے کپڑوں کا رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں دیواروں سے رگڑ کھانا۔
مسلمانوں کی فتح و نصرت اور عزت وتکریم  اتباع نبی کر یم ﷺ سےہی وابستہ ہے۔
اس واقعہ سے ہمارے لیے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جو شخص نبی کر یم ﷺ کی اطاعت کو زندگی کا نصب العین ٹھہرالے اور سنت نبوی کے ساتھ اپنے آپ کومضبوطی سے وابستہ کرلے اللہ تعالی اس کی مدد کرتا اور اسے عزت و شرف سے نوازتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم ﷺ کے حکم و ارشاد کے مطابق لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کا قطعی فیصلہ کر لیا واقعات و حالات کی تبدیلی ، صحابہ کے روکنے اور ان سے اختلاف رائے کےباوجود وہ رسول اللہ ﷺ کے فیصلے کو عملی شکل دینے پر مصر رہے اور حضرات صحابہ نے ان کے اس موقف کو قبول کر کے اس کے لیے اپنی تمام مساعی وقف کر دیں تواللہ تعالی نے ان کی مدد فرمائی انہیں مال غنیمت سے نوازا  لوگوں کے دلوں میں ان کا رعب ڈال دیا اور انھیں دشمنان اسلام کی فریب کاریوں اور شرارتوں سے محفوظ رکھا-  امام ابن جر یر طبری نے روایت بیان کی ہے کہ : اسامہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو قضاعہ کے قبیلوں تک پہنچ گئے جہاں پہنچنے کا ان کو نبی معظمﷺ نے حکم دیا تھا اورآبل پر حملہ آور ہوئے ۔ آمد ورفت کی مدت کے علاوہ وہ چالیس روز میں فارغ ہوگئے اور سلامتی کے ساتھ واپس آگئے اور مال غنیمت بھی لائے۔(تاریخ الطبری)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب یہ لشکر ان قبائل کے پاس سے گزرتا تھا جو ارتداد کا ارادہ کیے بیٹھے تھے تو ان میں سے ہر قبیلے کے لوگ یہی کہتےتھے کہ اگر یہ لوگ طاقت ور نہ ہوتے تو ان (مدینہ طیبہ کے مسلمانوں) کے پاس سےنہ نکلتے لیکن اب ہم ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتے انھیں جانے دیں یہاں تک کہ یہ رومیوں سے لڑیں۔ چنانچہ یہ گئے رومیوں سے لڑے انھیں قتل کیا اور شکست دی اور سلامتی کے ساتھ واپس آئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ قبائل اسلام پر ثابت قدم رہے۔

(تاریخ الخلفاء)

جناب عروہ بن زبیر بیان کرتے ہیں کہ : ”لشکر اسامہ کی اہل روم پر اس درجہ ہیبت طاری ہو ئی کہ شاہ ر وم ہر قل کو جب ایک ہی وقت میں نبی اکرم ﷺ کی وفات اور اس کی سر زمین پر اسامہ رضی اللہ عنہ کے حملے کی خبر پہنچی تو رومی حیرت زدہ ہو کر پکار اٹھے کہ :
«یہ کس قسم کے لوگ ہیں ان کا سر براہ ( پیغمبر ) وفات پا جاتا ہے اور یہ ہمارے ملک پر حملہ کر رہے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء)
امام ابن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :» کوئی ایسالشکر نہیں دیکھا گیا جو اس لشکر کی طرح ہرقسم کے نقصان سے محفو ظ رہا ہوں۔(طبقات ابن سعد)
اس جیش کی اہمیت کے بارے میں بعض غیر مسلموں نے بھی اظہار خیال کیاہے چنانچہ ٹی – ڈ بلیو آرنلڈ ( مستشرق) تحریر کرتا ہے۔
« جس لشکر کو رسول اللہ ﷺ نے شام کی مہم کے لیے مقرر فرمایا تھا آپ ﷺ کی رحلت کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے حدود شام کی طرف روانہ کر دیا۔ بلاد عرب کی مضطرب اور مخدوش حالت کے پیش نظر بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تھا مگر خلیفۂرسول ﷺ نے ان کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا:
میں اس فیصلے کو بدل دوں جو رسول اللہ ﷺ نے صادر فرمایا!(یہ میرےلئے ناممکن ہے) اگر در ندے مجھے اٹھا کر لے جائیں جب بھی میں نبی ﷺ  کے علم کے مطابق اسامہ کا لشکر ضرور روانہ کروں گا۔(دعوت اسلام)
اس کے بعد وہ کہتے ہیں:
یہ فوجی مہم اس سلسلہ محار بات کی پہلی کڑی تھی جس میں عربوں نےشام، ایران اور شمال افریقہ کو فتح کیا۔ ایران کی قدیم سلطنت کو تہ و بالا کردیا اور رومیوں سے ان کی سلطنت کے بہترین صوبے چھین لیے۔
لشکر اسامہ رضی اللہ عنہ روانہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو جو و قارعزت و نصرت اور مال غنیمت ملا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ سنت الہیہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالی اور ان کے رسول کریم ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالی ان پر اپنی عنایات اور نوازشات فرماتا ہے ۔ اللہ رب العزت نے خود فرمایا:

وَأَطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ آل عمران:132)

« اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو اپنا شعار بنا ؤ تا کہ رحمت الہی کےمستحق ہو جاؤ۔»
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

وَاَقِيْمُوا الصَّلَاةَ وَاٰتُوا الزَّكَاةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ  (سورۃ النور:56)

نماز قائم کرو‘ زکوة ادا کرو اور اللہ کے رسول کے ارشادات مانو  تا کہ تم رحمت خداوندی کے سزاوار ہو جاو –
اس کے ساتھ ہی اللہ تعالی نے یہ بات بھی واضح فرما دی کہ جس نے نبی کریم ﷺ کے احکام کی نافرمانی کی اور آپ ﷺ کے فرامین سے روگرداں ہوا اس نے اپنےآپ کو اللہ تعالی کے غضب و عذاب کے سپرد کر دیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے

فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهِ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ(سورۃ النور:63)

«حکم رسول کی مخالفت کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان پرکوئی آفت آپڑے یا وہ عذاب دردناک سے دو چار ہو جائیں۔»
اسی طرح ناطق وحی نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کی سنت سے ہٹنے والا ہلاکت کے گڑھے میں جاگرا۔ آپ کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔

لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى مِثْلِ الْبَيْضَاءِ، لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا، لَا يَزِيغُ بَعْدِي عَنْهَا إِلَّا هَالِكٌ(السنة لابن أبي عاصم:48)

“میں نے تم کو ایسی روشنی میں چھوڑا ہے، جس کی رات اس کے دن کے مانند ہے۔ میرے بعد جو شخص بھی اس سے ٹیڑھی سمت اختیار کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا۔»
اسی طرح نبی کریم ﷺنے واضح فرمادیا کہ : «جس نے میرے حکم کی مخالفت کی۔ اس پر ذلت و رسوائی مسلط کر دی گئی۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نےسیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک روایت نقل کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں ۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:

جُعِلَ الذِّلَّةُ، وَالصَّغَارُ عَلَى مَنْ خَالَفَ أَمْرِي، وَمَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ (مسند أحمد:5114)

جس نے میرے حکم کی نافرمانی کی وہ ذلت ورسوائی کی گرفت میں آ گیا اورجس شخص نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے گردانا گیا۔
خلاصہ کلام یہ کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لشکر اسامہ کی روانگی سےہمیں ایک سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے امت محمدیہ (عليہ الصلوةوالسلام) کی عزت و نصرت کا رشتہ رسول مکرمﷺ کی اطاعت سے جوڑ دیا ہے۔ جس نےآپ کی اطاعت کی وہ نصرت و قوت کا حق دار ٹھہر ا اور جس نے آپ کی نافرمانی کی راہ کو اپنایا وہ ذلت و خواری سے دو چار ہوا۔ اس وقت مشرق و مغرب میں امت اسلامیہ جس ذلت و نکبت میں مبتلا ہے وہ اس کے اعمال ہی کا نتیجہ ہے۔ رسول اللہ ﷺجس شریعت کو لے کر مبعوث ہوئے تھے اس سے امت نے اعراض کیا تواللہ کی مدد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ فارسی کے شاعر نے کتنی عمدہ بات کی ہے۔
تا  شعار مصطفی  از  دست  رفت
قوم  را  رمز حیات  از دست رفت
یعنی امت جب نبی کریم ﷺ  کی متعین کی ہوئی راہ سے انحراف کرلے تو سمجھ لیجیے کہ اس نے اپنے اسرار زندگی کو کم کردیا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ الله تعالی نے اس امت کی فتح ونصرت کو نبی کریم ﷺ کی اتباع سے جوڑ رکھا ہے، جو آپ کی اتباع کرے گا اس کے لیے نصرت غلبہ ہے اور جو آپ کی نافرمانی کرے گا ، اس کے لیے ذلت و رسوائی ہے امت کی زندگی کا راز رب کی اطاعت اور نبی کی سنت کی اقتداء میں پنہاں ہے۔
دعا ہے اللہ تعالی امت اسلامیہ کو نبی کریم ﷺ کی اتباع سے سرفراز فرمائے اوراسے دور سابق کی عزت و مجد کی نعمت عظمی سے نوازے۔
اے ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والے پروردگار ! ہم عاجز و ماندہ بندوں کی دعا قبول فرما۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے