امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا شخصی آزادی سے ٹکراؤ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دوسرے لوگوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے ہمیں ان کی پسند کے برعکس نیکی کا حکم دینے اور ان کی پسندیدہ برائی سے روک کر ان کے نجی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بات اسلام میں ثابت شدہ شخص آزادی سے متصادم ہے۔ 

یہ لوگ اپنے موقف کی تائید میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :

لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ

’’دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں، سیدھی راہ ٹیڑھی راہ سے ممتاز اور روشن ہو چکی ہےاس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کر کے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو کبھی نہ ٹوٹے گا اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘(البقرہ:256)
شبہ کی حقیقت:
اس شبہ کی حقیقت درج ذیل عنا وین کے تحت واضح کی جائے گی۔
1-نام نہاد شخصی آزادی کا معدوم ہونا :
ہم اس قول کے دعوے داروں سے سوال کرتے ہیں کہ ان کی بیان کردہ نام نہاد شخصی آزادی کہاں پائی جاتی ہے ؟ کرۂ ارض کے مشرق و مغرب میں؟ کیا کسی مشرقی یا مغربی قانون میں اس کا وجود ہے؟ ہر گز نہیں اس کا وجود مشرق ہے نہ مغرب میں۔
انسان جہاں چاہے اقامت پذیرہو جہاں چاہے سفر کرے اس سے ہر جگہ وہاں کے قوانین کے احترام اور پابندیوں کا نہ صرف مطالبہ کیا جاتاہے بلکہ پابند بھی کیا جاتاہے۔کیا مشرق ومغرب میں کسی شخص کو اس بات کی چھوٹ حاصل ہے کہ کہ سرخ بتی کے روشن ہوتے ہوئے چوراہے کو عبور کرے؟ کیا مغربی دنیا میں کسی شخص کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنی کمائی سے خریدی ہوئی زمین پر اپنی مرضی سے گھر بنائے ؟ اور اس شہر کی کارپوریشن کے بنائے ہوئے اصول وضوابط کو پس پشت ڈال دے ؟ مشرقی دنیا میں تو صورت حال اس بھی ابتر ہے کہ اس کو وہاں گھر کی ملکیت حاصل کرنے کا حق نہیں۔
شخصی آزادی کا اسلامی تصور:
اسلام کی انسانوں کو عطاکردہ شخصی آزادی کہ اس نے انہیں لوگوں کی غلامی سے نکال کر اللہ تعالی کی غلامی نصیب فرمائی، اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ لوگ کوانسانوں کے رب کی غلامی سے نکال دیا جائے، قرآن کریم نے اس بات کو کتنے اچھے انداز میں بیان فرمایاہے:
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيْهِ شُرَكَاۗءُ مُتَشٰكِسُوْنَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ۭ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا ۭ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ(الزمر:89)
’’اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے کہ ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں، اور دوسرا وہ شخص جو صرف ایک ہی کا (غلام) ہے، کیا یہ دونوں صفت میں یکساں ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے سب تعریف ہے بات یہ ہے کہ ان میں اکثر لوگ سمجھتے نہیں‘‘
اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے سوا ہر ایک کی غلامی سے آزاد ہوجائے اور وہ ایک پیدا کرنے والےہر چیز کے مالک اور تدبیر کرنے والے اللہ تعالی کا فرماں بردار اور اس کے احکام کو تسلیم کرنے والا بن جائے۔
اس بات کو سیدنا ربیع بن عامر رضی اللہ عنہ نے رستم کو جواب دیتے ہوئے یوں بیان فرمایا:’’اللہ تعالی نے ہمیں بھیجا ہے اور اللہ تعالی ہی ہمیں یہاں لایا ہے تاکہ ہم بندوں کو اس کی مشیئت سے بندوں کی غلامی سے نجات دلا کر ایک اللہ تعالی کا غلام بنادیں‘‘(تاريخ الطبري=تاريخ الرسل والملوك،وصلة(3/ 520)
قرآن وسنت میں متعدد نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اہل ایمان اللہ تعالی کے مطیع اور فرماں بردار ہونے اس کےاس کے احکامات بجالانے اور اس کی ممنوعہ باتوں سے باز رہے کے پابند ہیںانہی میں سے ایک آیت کریمہ یہ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

’’ایمان والو اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘(البقرہ: 208)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اللہ تعالی نے ایمان لانے والوں اور رسول کریم ﷺ کی تصدیق کرنے والے اپنے بندوں کو حکم دیا ہےکہ وہ شریعت اسلامیہ میں ان تمام باتوں کو چھوڑ دیں جن پر اللہ غصہ اور ناراض ہوتاہے‘‘(تفسیر ابن کثیر)
اور اس کے رسول ﷺ کا حکم آجائے تو کسی بھی ایمان والے مرد یا عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں پس وپیش کرے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا(الاحزاب:36)

’’اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعداپنے کسی امر کا کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، یاد رکھو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جوبھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا‘‘
قرآن نےاللہ اور اس کے رسولﷺکی اتباع میں اہل ایمان کا طرز عمل کی یہ تصویر کشی کی ہےکہ

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (النور:51)

’’ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں ٰ اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کر دے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ‘‘۔(جاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے