Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم --- ولادت تا نبوت ---

06 Feb,2013
رسول اکرمﷺ کی ولادت باسعادت

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے مقام شعبِ بنی ہاشم میںعام الفیل (عربی میں فیل ہاتھی کو کہتے ہیں یعنی وہ سال جس میں ابرہہ (کافر) نے ہاتھیوں پر مشتمل ایک بہت بڑا لشکر لے کر مکہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی) 9 ربیع الاول بمطابق 22 اپریل 571؁ عیسوی، موسم بہار میں پیر کے دن صبح کے وقت پیدا ہوئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے سے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’ پیر کے دن میری ولادت ہوئی تھی اور اسی دن مجھ پر نزولِ وحی کی ابتدا ہوئی تھی۔ ‘‘

(مسلم۔ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ بنت وہب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدمحترم جناب عبداﷲ بن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت دایہ کے فرائض سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ شفا بنت عمرو نے انجام دئیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے ملک شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں۔ (مسند احمد)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ نے جناب عبدالمطلب کو ان کے پوتے کی خوشخبری بھجوائی تو وہ بہت زیادہ خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر خانہ کعبہ میں لے گئے، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں کیںاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رکھا، اس امید پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے لے کر آج تک تمام آسمان و زمین والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہیں اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ (ان شآء اللّٰہ العزیز)

جناب عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے ساتویں دن عرب کے دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاختنہ اور عقیقہ کیااور عقیقہ کی دعوت میں قبیلہ والوں کو مدعو کیا۔ دعوت میں شریک ہونے والے لوگوں نے جب عبدالمطلب سے پوتے کے نام کے بارے پوچھا تو جناب عبدالمطلب نے جواب دیا:- ’’میں نے ان کا نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) رکھا ہے اور مجھے ہر طرف سے اس نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔‘‘ (بیہقی)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعت (دودھ پلانے) کے حالات

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ کے بعد سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو لہب کی کنیز سیدنا ثُوَیْبَہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا، ان کے بعد سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا نے دودھ پلایا۔

عرب کے شہری باشندوں کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی آب و ہوا کی خاطر دودھ پلانے والی دیہاتی عورتوں کے سپردکردیا کرتے تھے تاکہ ان کے جسم طاقتور اور اعصاب مضبوط ہوں اور وہ خالص عربی زبان سیکھ سکیں۔ اسی دستور کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سیدہ حلیمہ بنت ابی ذُوَیْب رضی اللہ عنہا (جن کا تعلق قبیلہ بنو سعد سے تھا) کے سپرد کیا گیا۔ ان کے شوہر کا نام حارث بن عبدا لعُزیٰ اور کنیت ابو کبشہ تھی۔ اس طرح حارث کے بچے اور بچیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بہن بھائی ہوئے۔ جن کے نام یہ ہیں عبداللہ، ا نیسہ اور حذافہ(ان کا لقب شیما تھا) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گود میںکھلایا کرتی تھیں۔ رضاعت کے دوران حلیمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے ایسے ایسے مناظر دیکھے کہ وہ حیرت زدہ رہ گئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قحط سالی کے دنوں میں ہمارے پاس ایک کمزور گدھی تھی جس سے تیز چلا نہیں جاتاتھا اورایک اونٹی تھی جو بہت ہی کم دودھ دیتی تھی۔ میرے ہاں بھی غربت کی و جہ سے دودھ بہت کم آتا تھا جس کی و جہ سے میرا بچہ بے قراری سے بلکتا اور روتا رہتا تھا۔ جب میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی مکہ پہنچی تو میرے ساتھ روانہ ہونے والی عورتیں مجھ سے پہلے مکہ پہنچ کر دودھ پلانے کے لئے نومولود بچے حاصل کر چکی تھیں۔ مجھے پتا چلا کہ اب ایک ہی نومولود بچہ باقی ہے اور وہ بھی یتیم ہے۔ میں نے اسے غنیمت سمجھ کر لینے کا ارادہ کر لیا۔ جب میں نے جا کر اس بچہ کو دیکھا تو وہ اتنا خوبصورت لگاکہ اس جیسا بچہ میں نے پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ میں نے اسے گود میں لیا اور جیسے ہی میں نے اسے اپنے سینہ سے لگایا تو مجھے اتنا سکون ملا جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔جب میں آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو لے کر واپس لوٹی تو وہ میری کمزور سی گدھی اتنی تیز چلنے لگی کہ پورے قافلہ سے آگے نکل گئی اور کوئی بھی سواری اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ میرے شوہر نے جب اونٹنی کے تھنوں کو ہاتھ لگایا تو وہ بھی دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ میرے سینہ میں بھی اتنا دودھ بھر گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خوب پیٹ بھر کر پیا اور میرے دوسرے بیٹے نے بھی جی بھر کر پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر میں لانے کے بعد میری بکریوں نے بھی بہت زیادہ دودھ دینا شروع کر دیاجو کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی پرورش میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دو سال گزار لئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کے سپرد کرنے کے لئے اس حال میں گھر سے روانہ ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے غم سے اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ آمنہ بنت وہب نے جب ان کی یہ حالت دیکھی توپوچھا: کیا تم میرے بچہ کو کچھ دن اور اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو؟ سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :’’ جی ہاں‘‘ اگر آپ کچھ مزید عرصہ انہیں میرے پاس رہنے دیں تو آپ کی مہربانی ہوگی۔ میری اس درخواست پر انہوں نے خوشی سے مجھے اس کی اجازت دے دی۔

سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی مرتبہ آمد ہی سے میرے گھر میں اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا نزول تھا، اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ تشریف لانے سے میرا گھر خیر وبرکات کے اعتبار سے تمام قبیلہ والوں کے لئے توجہ کا مرکز بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزید دو سال تک حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے۔

سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی ماں ہونے کی و جہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کے قبیلہ والوں کا ہرطرح سے خیال رکھتے۔ غزوئہ حنین کے موقع پر جب حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کے قبیلہ کے کچھ لوگ گرفتار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے انہیں رہا فرما دیا۔

واقعہ شق صدر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کیا جانا)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری زندگی میں دو مرتبہ سینہ مبارک چاک کیا گیا۔پہلی مرتبہ جب آپ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کی زیر تربیت پانچ سال کی عمر کو پہنچے اور دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب پانچ سال کی عمر کو پہنچے تو ایک دن اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ کھیل میں مصروف تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل مبارک نکالا اور اس میںسے گوشت کا ایک لو تھڑا نکال کر فرمایا: یہ ٹکڑا شیطان کا حصّہ تھا جو باہر نکال دیا گیا ہے۔ پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل مبارک کو سونے کے طشت میں زم زم کے پانی سے دھو کر اس کی جگہ پر رکھ کر سی دیا۔ ادھر سارے بچے دوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضاعی ماں سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کردیا گیا ہے۔ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے گھر کے لوگ فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اترا ہوا تھا (پھر سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گھر تشریف لے آئیں) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:- ’’میں (واقعہ شقِ صدر کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر سلائی کا نشان دیکھا کرتا تھا۔‘‘ (مسلم۔ عن انس رضی اللہ عنہ )

{نوٹ:دوسری مرتبہ شق صدر کی تفصیل کے لئے پڑھئے ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر معراج‘‘}

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ محترمہ کی تربیت میں

واقعہ شقِ صدر (سینہ کو چاک کئے جانے) کے بعدحلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے خطرہ محسوس ہوا۔ انہوں نے اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی والدہ محترمہ (آمنہ بنت وہب) کے پاس مکہ پہنچا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ محترمہ کے سایہ محبت میں تقریباً دو سال گزارے پھر وہ (آمنہ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنی خادمہ امّ ایمن اور اپنے سرپرست جناب عبدالمطلب کے ساتھ یثرب(مدینہ) تشریف لے گئیںجہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ننھیال اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم کی قبرتھی۔ یثرب میںایک ماہ رہ کر واپس مکہ آرہی تھیں، راستہ میں بیمار ہوگئیں اور ’’ا بواء‘‘ (جگہ کا نام) پہنچ کر وفات پاگئیں اور انہیں وہیں دفن کر دیا گیا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دادا محترم کی کفالت میں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر چاہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب عزت کیا کرتے تھے۔ ان کی ایک خاص مسند (بیٹھنے کی جگہ) تھی جس پر ان (عبد المطلب)کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں بیٹھ سکتا تھا لیکن وہ اپنی مسند پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھاتے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال اور دو ماہ ہی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا بھی وفات پا گئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا محترم کی کفالت میں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا محترم وفات سے پہلے یہ وصیت کر کے گئے تھے کہ میرے بعد میرے اس پوتے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی کفالت ان کے چچا ابو طالب کریں۔ چنانچہ جناب عبدالمطلب کی وصیت کے مطابق جناب ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ذمہ داری قبول کی۔ جناب ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد محترم کے سگے بھائی تھے۔وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت کرتے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بچوں سے بھی زیادہ چاہتے تھے۔ وہ بہت زیادہ مالدار نہیں تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کے بعد اللہ ربّ ا لعزّت نے ان کے تھوڑے سے مال میں خوب برکت پیدا فرمادی تھی اور ان کا تھوڑا سا مال ان کے پورے کنبہ کے لئے کافی ہو جاتا تھا۔

بحیرہ راہب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے لئے پیشین گوئی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابو طالب کی کفالت میں جب بارہ سال کی عمر کو پہنچے توجناب ابو طالب نے تجارت کے لئے ملک شام جانے کا ارادہ کیا اور اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اپنے ساتھ لے لیا۔ بصرہ شہر کے قریب ایک بحیرہ راہب (پادری) رہتا تھا (جس کا نام جرجیس اور لقب بحیرہ تھا)۔ وہ اپنے گرجا سے باہر نکل آیا اور اس قافلہ کی میزبانی کی۔ اس راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر بادل کو سایہ کرتے ہوئے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور قافلہ والوں کو بتایاکہ یہ دونوں جہاںکے سردار ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں رحمت عالم بنا کر بھیجیں گے۔ جناب ابو طالب نے اس سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ اس نے جواب دیا: جب تم لوگ اس طرف آ رہے تھے تو کوئی بھی درخت یا پتھر ایسا نہیں تھا جو انہیں سجدہ کرنے کے لئے نہ جھکا ہو۔ یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی اور کو سجدہ نہیں کرتیں اور میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان گیاہوں اور ان کی صفات ہماری آسمانی کتب (تورات اور انجیل) میں بھی موجود ہیں۔قافلہ کی مہمان نوازی کے بعد بحیرہ راہب نے جناب ابوطالب سے کہا کہ آپ انہیں ملک شام لے کر نہ جائیں کیوں کہ وہاں انہیںیہود سے بہت زیادہ خطرہ ہے۔ چنانچہ جناب ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چند غلاموں کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس بھیج دیا۔ (ترمذی۔عن ابی موسیٰ رضی اللہ عنہ )

جنگِ فجار اور حلف ا لفضول(معا ہدہ) کا بیان

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک بیس سال ہوئی تو ذوالقعدۃ کے مہینہ میں عکاظ (مقام)میں ایک جنگ ہوئی جس میں ایک طرف قریش اور کنانہ کے قبائل اور دوسری طرف قیس اور غیلان کے قبائل تھے۔ اس جنگ میں پہلے قیس کا پلہ بھاری تھا لیکن بعد میں قریش کا پلہ بھاری ہو گیا۔ اس میں بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے لیکن بعد میں دونوں نے صلح کر لی اور جس گروہ کے زیادہ مقتول تھے، انہیں دوسرے گروہ نے ان مقتولوں کی دیت ادا کی۔ اس جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ شریک ہوئے اور انہیں تیر اٹھا اٹھا کر پکڑا رہے تھے۔ اس جنگ کو جنگِ فجار کہنے کی و جہ یہ ہے کہ اس میں حرم اور حرمت والے مہینہ(ذو القعدۃ) کی حرمت پامال کی گئی تھی جو ایک گناہ کا عمل تھا۔ اس جنگ کے فوراً بعدذو القعدۃ کے مہینہ میں ہی قریش کے پانچ قبائل کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پایا جسے حلف الفضول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ پانچ قبائل یہ تھے: بنو ہاشم، بنو مطلّب، بنو اسد، بنو زہرہ اور بنو تمیم۔ اس معاہدہ کی وجہ یہ تھی کہ یمن کا ایک ز بید نامی آدمی سامانِ تجارت لے کر مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے سامان خرید لیا لیکن قیمت ادا نہ کی۔ اس آدمی نے مختلف قبائل سے مدد کی درخواست کی لیکن انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی۔ چنانچہ اس نے ابو قبیس پہاڑ پر چڑھ کر اپنی مظلومیت کے لئے آواز بلند کی اور لوگوں سے درخواست کی کہ اس کا حق دلانے کے لئے اس کی مدد کی جائے۔ اس کی آواز سن کر زبیر بن مطلب نے لوگوں میں اصلاح کی تحریک شروع کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوگئے۔ ان تمام قبائل کے سردار قبیلہ بنو تمیم کے سردار عبداللہ بن جَدعان کے گھر میں اکٹھے ہوئے اور سب نے مل کر یہ معاہدہ کیا کہ آج کے بعد مکہ میں کسی کا ظلم برداشت نہیں کیاجائے گا، ہر مظلوم کی مدد کی جائے گی اور ظالم کو سزا دی جائے گی۔ چنانچہ اس معاہدہ کے بعد عاص بن وائل سے زبیدی کا حق لے کر اس کے حوالے کیا گیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔ ’’میں عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ایک ایسے معاہدہ (حلف الفضول) میں شریک ہوا کہ مجھے اس (شرکت معاہدہ)کے بدلہ میں سرخ اونٹ (قیمتی سے قیمتی چیز) بھی پسند نہیں اور اگر دورِ اسلام میں بھی مجھے ایسے معاہدہ کے لئے بلایا جائے تو میں یقینا اسے قبول کروں گا۔‘‘ (بیہقی۔عن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہما )

{نوٹ ـ: اسے ’’حلف الفضول‘‘ کہنے کی و جہ یہ ہے کہ جن

باتوں پر یہ معاہدہ ہو ا وہ تمام باتیں فضیلت والی تھیں}

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تجارتی سفر اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جوان ہوئے تو تجارت کی طرف رجحان بڑھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ تجارت کر سکیں۔ مکہ کے نہایت شریف خاندان کی مال دار بیوہ خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کوجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت، دیانت،امانت اور خوش اخلاقی کا علم ہوا توانہوںنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں سے متاثر ہو کر درخواست کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی رقم سے تجارت کریں اور انہوں نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسروںسے بڑھ کر اُجرت دیں گی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس سفر کے دوران اپنا غلام میسرہ بھی بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کا مال لے کر تجارت کرنے شام گئے تو اس تجارت میں بہت نفع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس مکہ تشریف لائے تو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے مال میں ایسی برکت دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ یہ دیکھتے ہی وہ حیران رہ گئیں اور ان کے غلام میسرہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمدہ صفات کے بارے میںخدیجہ رضی اللہ عنہا کو آگاہ کیاجس سے متاثر ہو کر انہوں نے اپنی ایک سہیلی (نفیسہ بنت منبہ) کو بھیج کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کی پیشکش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس خواہش کا اپنے چچاؤں کے سامنے اظہار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اس رشتہ کا پیغام لے کر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد کے پاس گئے جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا اور اس کے بعدسیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کانکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرا دیا۔نکاح کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال جبکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا 65سال کی عمر میں فوت ہوئیں۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 50 سال تھی۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بھرپور جوانی کے 25 سال صرف ایک بیوہ عورت کے ساتھ گزار دیئے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں جو شادیاں کیں وہ دینی مصلحت کے تحت کیں نہ کہ اپنی ذاتی خواہش کی تکمیل کے لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد (سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ جو ماریہ رضی اللہ عنہا سے پیدا ہوئے) سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہی تھی۔ جن میں پہلے قاسم پھر ز ینب پھر رقیہ پھر اُم کلثوم پھر فاطمہ پھر عبداللہ رضی اللہ عنہم (جن کا لقب طیب و طاہر تھا، انہی کی وفات کے موقع پر سورۂ کوثر 108 کا نزول ہوا) پیدا ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام بیٹے بچپن ہی میں فوت ہوگئے البتہ تمام بیٹیوں نے عہد نبوت پایا ، وہ اسلام لائیں اور ہجرت بھی کی اوروہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی فوت ہوگئیں سوائے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ابن ہشام رحمہ اللہ )

بیت اللہ کی تعمیر اور حجراسود کی تنصیب میں جھگڑے کا فیصلہ

فرمان الٰہی ہے :

(ترجمہ)’’بے شک اللہ (تعالیٰ) کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے (بطور قبلہ) مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے جو پوری کائنات کے لئے برکت وہدایت والا ہے۔ جس میں واضح نشانیاں ہیں اور مقام ابراہیم ہے۔ اس میں داخل ہونے والا امن میں ہو جاتا ہے۔ اللہ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اس گھر (بیت اللہ) کا حج فرض کردیا ہے اور جو کوئی کفر (انکار) کرے تو بے شک اللہ (اس سے بلکہ)تمام دنیا والوںسے بے پرواہ ہے۔‘‘ ( اٰلِ عمران 96 تا 97)

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 35 سال ہوئی تو ایک زوردار سیلاب آیاجس سے بیت اللہ کی دیواریں پھٹ گئیں اس لئے قریش مجبور ہو گئے کہ بیت اللہ کا مقام و مرتبہ برقرار رکھنے کے لئے اسے ازسرنو تعمیرکریں۔ اس موقع پر انہوں نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانہ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال مال ہی استعمال کریں گے۔ زانیہ کی اجرت، سود کی آمدنی اور کسی سے ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں کریں گے۔ جب حلال مال اکٹھا کیا گیاتو وہ مال اتنا نہیں تھا کہ جس سے بیت اللہ کو اس کی اصل بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جا سکے لہٰذا انہوں نے مال کی کمی کی و جہ سے شمال کی طرف سے کچھ حصّہ کو تعمیر میں شامل نہیں کیا بلکہ اس پر ایک چھوٹی سی دیوار اٹھا کر چھوڑ دی۔ یہی ٹکڑا حطیم اور حجر کہلاتا ہے۔ جب خانہ کعبہ کی عمارت حجر اسود تک بلند ہوچکی تو حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے بارے میں قریش کے درمیان جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلہ کے سردار نے چاہا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو۔یہ جھگڑا پانچ دن تک چلتا رہا اور اس قدر شدت اختیار کرگیا کہ قریب تھا کہ حرم میں خون خرابہ ہوجاتا۔ اتنے میں ایک عمر رسیدہ شخص ابوامیہ مخزومی نے یہ تجویز پیش کی کہ صبح مسجد حرام کے دروازہ سے جو شخص سب سے پہلے داخل ہو اسے منصف (فیصلہ کرنے والا) مان لیں۔ سب لوگوں نے یہ تجویز منظور کرلی۔ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہی پکار اُٹھے۔

ھٰذَا الْاَمِیْنُ رَضِیْنَاہُ ھٰذَا مُحَمَّدٌ ( صلی اللہ علیہ وسلم )

’’یہ امین محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )ہیں، ہم ان سے راضی ہیں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاملہ کی تفصیل بتائی گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر منگوائی جس میں اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو رکھا اور تمام قبائل کے سرداروں سے کہا: تم لوگ اس چادرکو کناروں سے پکڑکر اسے حجر اسود کے مقام تک لے چلو۔ جب وہ وہاں لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اٹھا کر اس کی مقررہ جگہ پر نصب فرما دیا۔یہ اتنا عمدہ فیصلہ تھا کہ جس پر تمام لوگ راضی ہو گئے۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت قریش نے اس کا دروازہ تقریباً دو میٹر اونچا رکھا تاکہ کوئی بھی شخص ان کی اجازت کے بغیر بیت اللہ میں داخل نہ ہو سکے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بچپن ہی سے عمدہ صفات کے حامل تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھی نبوت ملنے سے پہلے ہی تمام برائیوں سے پاک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے ،غریبوں کا بوجھ اٹھاتے اور مہمانوں کی خوب مہمان نوازی کرتے اور کبھی وعدہ خلافی نہ کیا کرتے تھے۔ (بخاری) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر لوگوںمیں پائے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے صحیح سوچ، دوربینی اور حق پسندی کے بلند معیار پر فائز تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمدہ عقل اور روشن فطرت سے لوگوں کے معاملات اور جماعتوں کے احوال کا مطالعہ کیا اور وہ جن بیہودہ باتوں میں مشغول تھے ان سے بیزاری کا اظہار کیا۔ جب قوم میں برائیاں عام تھیں اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو ہر قسم کی برائیوں سے دور رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری بصیرت کے ساتھ لوگوں کے درمیان عملی زندگی کا وقت گزارا۔ جو کام اچھا ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں شرکت فرماتے اور ہر برے کام سے دور رہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کبھی آستانوں کا ذبیحہ کھایا اور نہ ہی غیر اللہ کے لئے منعقد کئے گئے تہواروں میں شرکت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن ہی سے خود ساختہ معبودوں سے نفرت تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ساختہ معبودوں کی قسم کھانا کبھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غیراللہ کے نام پر ذبح کئے گئے جانور کا گوشت پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ (بخاری۔عن ابن عمر رضی اللہ عنہما )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم میںبہترین کردار، فاضلانہ اخلاق اور بہترین عادات کی و جہ سے ممتاز تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے سہاروں کا بوجھ اٹھاتے، مہمان کی میزبانی فرماتے اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد فرماتے تھے۔ (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ ’’مجھے جوانی میں کبھی عیش پرستی اور بدکاری کی ہمت نہیں پڑی بلکہ میرے رب نے مجھے ان تمام برائیوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مکہ کے نوجوانوں میں عام تھیں۔‘‘ (بیہقی)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا سبب

فرمان الٰہی ہے :۔ (ترجمہ) ’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ اپنی پیغمبری کس کو عنایت فرمائے۔‘‘ (الانعام 6 : آیت 124)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا تذکرہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تورات، انجیل اور دیگر آسمانی کتب میں بھی کیا اور سابقہ امتوں سے عہد وپیماں بھی لیاکہ اگر وہ نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے دور میں آجائیں تو تم ان کی ہر ممکن مدد اور اتباع کرو۔

یہی و جہ تھی کہ ہرآنے والانبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری لے کر آیا اور اپنی امت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل معاشرہ کفر و شرک کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا اور ہر طرف ظلم و ستم کا اندھیرا چھایا ہوا تھا اور مظلوم کی آہ و بکا اورفریاد رسی کے لئے کوئی مسیحا نہیں تھا۔ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے کفر و شرک اور ظلم و ستم کو اس جہاں سے مٹانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتخاب فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہاں والوں کے لئے باعث رحمت اورخاتم النبیین ﷺ بنا کر مبعوث فرمایا۔(پڑھئے ترجمہ و تفسیر: الانبیآء21: آیت107 اور الاحزاب33 : آیت40)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نشانیاں

جیسے جیسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا زمانہ قریب آتا جارہاتھا عرب میں یہود ونصاریٰ کے مذہبی پیشوا اس بارے میں زیادہ باتیں کرنے لگے کیونکہ انہوں نے اپنی اپنی مذہبی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو کچھ پڑھا تھا اس کے آثار دن بہ دن ان کی نگاہوں کے سامنے آتے جارہے تھے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا ذکرہے :

فرمان الٰہی ہے :- (ترجمہ) ’’جو لوگ ایسے رسول اُ مّی نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جن کا ذکر وہ تورات و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ (رسول ) انہیں نیک کاموں کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں۔ وہ ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام بتاتے ہیں اوران پرسے (پہلی شریعتوں کی سخت پابندیوں کا) بوجھ اتارتے ہیں اور ان بندشوں کو کھول دیتے ہیں جن میں لوگ جکڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لاتے، ان کی حمایت اور مدد کرتے اور اس نور(قرآن) کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، ایسے لوگ ہی پوری طرح کامیاب ہونے والے ہیں۔‘‘(الا عراف 7 : آیت 157)

سیدناعلی اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:

’’اللہ سبحانہ‘ وتعالیٰ نے جتنے بھی انبیا علیہم السلام مبعوث فرمائے اُن سب سے یہ عہد لیا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے زمانہ میں مبعوث ہو ں تو اُن پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا اور اپنی اپنی امتوںسے عہد بھی لیناکہ اگرتمہاری زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو ان پر ایمان لانا اوران کی مدد و اتباع بھی کرنا۔‘‘ (تفسیرطبری ) تمام انبیا علیہم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی بشارت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی تلقین فرمائی۔

زبور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بشارت

اللہ عزّوجل نے دائود علیہ السلام سے فرمایا:- (ترجمہ)’’اے داؤد، عنقریب تمہارے بعد ایک نبی آئے گاجس کانام احمد اور محمد ہوگا۔ وہ اپنی قوم میں صادق اور سردار ہو گا۔ میں اس سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا اور نہ ہی وہ مجھ سے کبھی ناراض ہوگا۔ اے داؤد، میںنے محمد اور ان کی امت کو تمام امتوں سے زیادہ افضل بنایاہے۔ اس لئے کہ ان کی امت وہ کام (فرائض،حج اورجہاد وغیرہ) کرے گی جو ان سے پہلے کے انبیا علیہم السلام نے کئے۔میں نے ان کی امت کو 6 ایسے انعامات دیئے ہیںجو انعامات ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دئے۔

1اگر وہ بھولے سے کوئی غلطی کربیٹھیںگے تو میں اُن کی پکڑ نہیں کروں گا۔

2وہ غلطی ہو جانے کے فوراً بعد توبہ کرلیںگے تو میں ان کی توبہ قبول کرلوں گا۔

3 جو چیز وہ صدقہ کریں گے، میں آخرت میں اس کا بدلہ کئی گنا بڑھا کر دوں گا۔

4میرے پاس ہر چیز کے خزانے ہیں۔ میں ان کو اپنے خزانوں میں سے کثیر تعداد میں اور بہتر خزانہ دوں گا۔

5وہ پریشانی کے وقت صبر کریں گے اورساتھ ساتھ اِنَّالِلہِ وَ اِنَّآ اِ لَـیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھیں گے تومیں انہیں جنت نعیم دوں گا۔

6وہ مجھ سے جو بھی دعا مانگیںگے میں ان کی دعا قبول کروںگا۔ہاں اگر کسی مصلحت کے طور پرقبول نہ کروں تو اس کا اجر آخرت میںضرور دوںگا۔

اے داؤد، اگر کوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا امتی لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَ ہٗ لَآ شَرِیْکَ لَہ‘کی گواہی دے گا تو وہ میری جنت میں میرے قریب رہے گا اور اگرکوئی آدمی ان کے لائے ہوئے دین کو جھٹلائے گا اور میرے احکامات کی توہین کرے گا تومیں اسے قبر میں عذاب دوں گا۔ جب وہ قبرسے اٹھایاجائے گا تو اس وقت بھی فرشتے اس کے چہرہ اور پیٹھ پر ماریں گے یہاں تک کہ اسے جہنم کے نچلے طبقہ میں ڈال دیاجائے گا۔‘‘ (بیہقی)

مبارک ہیں وہ(رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم) جو تیرے گھر (بیت اللہ) میں بستے ہیں اور سدا تیری حمد (تعریف) کرتے ہیں۔ وہ بکہ (مکہ مکرمہ) سے گزرتے ہوئے کنواں بناتے ہوئے۔ (زبور، باب18)

تورات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بشارت

سیدناکعب احبار رضی اللہ عنہ (جو کہ سابقہ یہودی عالم تھے) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے تورات میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے پڑھا ہے کہ وہ اللہ کے رسول اور برگزیدہ بندے ہوں گے نہ تیز مزاج اور نہ سخت دل ہوں گے، نہ بازاروں میں شور و غل کرنے والے، نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے بلکہ درگزر اور معاف کرنے والے ہوں گے۔ مکہ میں پیدا ہوں گے اور (مدینہ) طیبہ کی طرف ہجرت کریں گے۔ ان کی حکومت شام تک پھیلی ہو گی اور ان کی امت (اللہ عزّوجل کی) خوب حمد و ثنا بیان کرنے والی ہو گی۔ وہ ہر خوشی، غم اور ہر حال میں اللہ عزّوجل کی حمد و ثنا بیان کریں گے ہر بلند مقام پر اللہ کا نام اونچا کریں گے۔ سورج (کے طلوع و غروب) کا خیال رکھیں گے۔ نماز کو وقت پر ادا کریں گے، اپنے ازار(تہبند) پنڈلیوں تک رکھیں گے، اعضائے وضو دھوئیں گے، ان کا مؤذن بلند مقام پر اذان کہے گا۔ جنگ اور نماز کی حالت میں ان کی صفیں ایک جیسی ہوں گی۔ رات (کے اوقات) میں (ذکر و تلاوت کے دوران) ان کی آواز پست ہو گی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے۔ (دارمی)

’’ میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) برپا(مبعوث)کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں ( پیش کروں )گا اور جو کچھ بھی میں اسے فرماؤں( حکم دوں) گا وہی کچھ وہ ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں اس سے اس کا حساب لوں گا۔‘‘ (استثنا، ب18: 18۔ 19)

’’(اللہ کا آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) فاران (مکہ) کی پہاڑیوں سے دس ہزار قدوسیوں(صحابہ رضی اللہ عنہم )کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔‘‘ (پیدائش، ب20-17)

وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) عربی ہو گا اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کا ہاتھ اس کے خلاف ہوگا۔‘‘ (پیدائش، ب13-16)

انجیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی بشارت

سیدناعیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو فارقلیط کے نام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت سناتے تھے جس کا معنیٰ محمد یا احمد ہے۔ فرمان الٰہی ہے :- (ترجمہ)’’اور(وہ وقت بھی یاد کرو) جب مریم کے بیٹے عیسیٰ( علیہ السلام )نے کہا: اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف (بھیجا ہوا) اللہ کا رسول ہوں۔ مجھ سے پہلے جو (کتاب) تورات نازل ہو چکی ہے، میں اس کی تصدیق کر نے والا ہوں اورایک رسول کی خوشخبری بھی دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہو گا پھر جب وہ (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کے پاس کھلی نشانیاں (معجزات)لے کر آئے تو انہوں نے کہا :یہ تو کھلا جادو ہے ۔‘‘ (الصف 61 : آیت 6)

عیسیٰ علیہ السلام نے فارقلیط(آپ صلی اللہ علیہ وسلم )کے جو اوصاف ذکر کئے ہیں وہ تمام کے تمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتے ہیں کہ وہ پوری دنیا والوں کو گناہوں سے روکے گااور انہیں حق سکھائے گا اور وہ صرف وہی دین بتائے گا جو بذریعہ وحی اسے دیا جائے گا۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: (ترجمہ) ’’اور وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی مرضی سے نہیں بولتے وہ وہی بیان کرتے ہیں جو انہیں وحی کی جاتی ہے۔‘‘ (النجم53 :آیات 3تا4)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-’’اللہ ربّ ا لعزّت نے سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو وحی کے ذریعہ اطلاع دی کہ میرے حکم کے بارے میں سنجیدہ رہواور مذاق نہ کرو، اے نیک عورت کے بیٹے، غور سے سنو اور اطاعت کرو۔ میں نے تمہیں بغیرباپ کے پیداکیاہے اس لئےکہ تم تمام لوگوں کے لئے میری نشانی بن جاؤ۔ صرف میری عبادت کرو اور مجھ ہی پر توکل کرواور اپنی قوم پر یہ واضح کردو کہ اللہ تعالیٰ حق ہے جسے کبھی موت نہیں آتی۔ عربی نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تصدیق کرو جن کے بال گھنگھریالے پیشانی کشادہ ،آبروملے ہوئے، آنکھیں سیاہ ، رخسار سفید اورگھنی داڑھی ہو گی۔ان کے چہرہ اقدس پر پسینہ موتیوں کی طرح اور اس کی خوشبو مشک کی طرح،گردن چاندی کی صراحی کی طرح حسین، ہنسلی کی ہڈیاں سونے کی طرح خوبصورت، سینہ سے لے کر ناف تک انتہائی خوبصورت بال ، پاؤں اور ہتھیلیاں گوشت سے بھری ہوئی ہوں گی اور شخصیت اتنی بارعب ہو گی کہ جب لوگوں کے درمیان بیٹھیں گے تو تمام لو گوں پر چھاجائیں گے اور جب چلیں گے تو ایسا لگے گا جیسا کہ پہاڑ سے اُتر رہے ہیں۔‘‘ (بیہقی)

’’اور میں (اللہ سے) درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار (احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں) بخشے گا کہ ابد تک وہ تمہارے ساتھ رہے۔ ‘‘ (یوحنا، ب14: 17)

’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گاکیونکہ دنیا کا سردار (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آجائے گا۔‘‘ (یوحنا، ب14: 31)

ان اقوال سے واضح ہو رہا ہے کہ جو آنے والا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے گا وہ خاتم النبیین ہو گا اور اس کی شریعت قیامت تک رہے گی۔ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ہی قیامت تک باقی رہے گی۔ اصل انجیل چونکہ سریانی زبان میں تھی اس کے تراجم دیگر زبانوں میں ہوئے، انجیل میں کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تسلی دہندہ (Comforter)کہیں مددگار(Helper) اور کہیں وکیل(Lawyer) اور کہیں شفیع (Patron )کے الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے۔ ان سب کا مفہوم احمد ہی سے ادا ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔

اہل کتاب کی کتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر بہت سے دلائل ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :

{یوحنا: ب 1: 19تا21۔ ب14: 15تا17 اور 25تا30۔ ب14: 25تا26۔ ب16: 7تا15

استثناء: ب18: 15تا19۔ متی : ب21: 33تا46 }

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا آغاز

قوم کے اندر پھیلی ہوئی خرافات اور برائیوں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غمزدہ رہنے لگے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار یہ سوچنے لگے کہ انہیں کس طرح ہلاکت سے بچایا جائے یہ غم اور خواہش بڑھتی گئی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں(جبل نور پر واقع) غار حرا (جس کی لمبائی 4گز اور چوڑائی پونے 2گز ہے) میں جا کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں مصروف ہو گئے اور مہینہ پورا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ تشریف لاتے، بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد اپنے گھر چلے جاتے۔ تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول رہاپھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 40 سال کے قریب ہوئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچے خواب آنا شروع ہو گئے پھر روشنی نظر آنے لگی اور بے جان چیزوں کی آواز سنائی دینے لگی۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:- ’’میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو نبوت ملنے سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔‘‘ (مسلم)

تیسرے سال رمضان کے مہینہ میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبار ک 40 سال 6 ماہ اور 12 دن ہو گئی۔ 21 رمضان المبارک بروز پیر بمطابق 10 اگست 610؁ عیسوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے اور کہا: ’’اِ قْرَاْ ‘‘آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پڑھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:- ’’ مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ‘‘ میںپڑھا ہوا نہیں ہوں۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینہ سے لگاکر دبایا پھر کہا :

’’اِ قْرَأْ ‘‘ پڑھئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وہی جواب دیا:- ’’ مَا اَنَا بِقَارِیٔ‘‘ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیسری بار سینہ سے لگاکر دبایا اور کہا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ ۝ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۝ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۝ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۝ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۝

(ترجمہ)’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )اپنے رب کا نام لے کر پڑھئے جس نے (پورے عالم کو) پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھئے آپ کا رب بڑاکریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے(انسان کو) علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیںجن کا اسے علم نہ تھا۔‘‘ ( العلق 96 : آیات 1تا 5)

ان آیات کو سیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل گھبراہٹ کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:- ’’مجھے کمبل اُڑھادیجئے، مجھے کمبل اُڑھادیجئے۔‘‘ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اُڑھا دیا۔کچھ دیر بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ ختم ہو ئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو غار والا پورا واقعہ سنایا اور کہا:- ’’مجھے اپنی جان کے بارے میں خوف محسوس ہورہاہے۔‘‘ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے کہا:اللہ کی قسم، ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی رُسوا نہیں کرے گااس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (رشتہ داروں سے) صلہ رحمی کرتے ہیں، بے سہارا لوگوںکا بوجھ اٹھاتے ہیں، تنگ دست لوگوں کی مدد کرتے ہیں، مہمانوں کی میزبانی کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس کے بعدآپ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نَوفل کے پاس لے کر گئیںجو کہ عیسائی عالم تھے اور انجیل کا عبرانی زبان میں ترجمہ کررہے تھے۔ اس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے۔سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھائی جان، آپ اپنے بھتیجے کی باتیں سنیں۔ ورقہ بن نَوفل نے کہا:’’اے بھتیجے، سناؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پورا واقعہ سنایا۔ اس واقعہ کو سنتے ہی انہوں نے کہا: یہ تو وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ) ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا پھر کہنے لگے: کاش، میں اُس وقت تک زندہ رہوں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں (مکہ)سے نکال دے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاکہ واقعی میری قوم مجھے یہاں سے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا: ’’جی ہاں‘‘ جب بھی کوئی رسول آپ جیسا پیغام لے کر آیا تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی۔ اگر میں نے تمہارا وہ(نبوت والا)زمانہ پا لیا تو ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ اس کے کچھ عرصہ بعدہی ورقہ وفات پا گئے اور کچھ عرصہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ بندہوگیا۔(بخاری،مسلم )

وحی کا بندہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اضطرابی کیفیت

پہلی وحی کے بعد کچھ عرصہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پروحی آنا بند ہو گئی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ غمگین رہنے لگے۔کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہاڑ کی چوٹی پر تشریف لے کر گئے تاکہ وہاںسے لڑھک جائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچتے تو جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوتے اور فرماتے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ اﷲ کے برحق رسول ہیں۔ اس تسلی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو قرار آجاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھرتشریف لے آتے۔ (بخاری)

وحی کی یہ بندش اس لئے تھی تاکہ پہلی وحی کی و جہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو خوف طاری ہوگیا تھا وہ ختم ہوجائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دوبارہ وحی کی آمد کا شوق وانتظار پیدا ہوجائے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق وانتظار اس لائق ہوگیا کہ آئندہ وحی کی آمد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بوجھ کو بآسانی اٹھالیں گے تو جبرائیل علیہ السلام دوبارہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وحی نازل ہونے کا واقعہ اس طرح بیان فرمایا :-’’ میںچل رہا تھا۔ اچانک مجھے آسمان سے ایک آواز سنائی دی۔ میں نے نگاہ اٹھاکر دیکھا تو وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا، آسمان وزمین کے درمیان ایک کرسی پر اس طرح پر پھیلا کر بیٹھا ہے کہ آسمان کے کنارے اس سے چھپ گئے ہیں۔ میں اس منظر سے خوفزدہ ہو کر اپنے اہل خانہ کے پاس آیا اور کہا: ’’مجھے کمبل اُڑھادیجئے، مجھے کمبل اُڑھادیجئے۔‘‘اہل خانہ نے مجھے کمبل اُڑھادیا اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

يٰٓاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ۝ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ ۝ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ ۝ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ ۝

(ترجمہ) ’’اے کپڑا اوڑھنے والے۔ اٹھئے اور( لوگوں کو عذاب الٰہی سے) ڈرائیے۔اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھئے۔ اور (بتوں کی) ناپاکی سے دور رہئے۔‘‘ ( المدثر 74:آیات 1تا 5) پھر وحی کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری ہوگیا۔‘‘

(بخاری۔عن جابر رضی اللہ عنہ )

وحی کے آغاز پر جنوں اور شیاطین پر آسمانی باتیں سننے پر پابندی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے سے پہلے جنات آسمان سے قریب ہو کر فرشتوں کی باتیں بآسانی سن لیا کرتے تھے لیکن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی گئی تو وحی کو ان کی دخل اندازی سے محفوظ رکھنے کے لئے جنات کے آپکی باتیں سننے پر پابندی لگا دی گئی۔اب جو بھی شیطان باتیں سننے کی کوشش کرتا، اسے انگاروں سے مارا جاتا۔ جب جنات کے آسمانی باتیں سننے پر پابندی لگی تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے ضرور زمین پر واقع ہونے والے کسی عظیم کام کا فیصلہ کیا ہے۔اس لئے وہ اس(عظیم کام) کی تلاش کے لئے زمین میں مختلف ٹولیوں کی صورت میں پھیل گئے۔ ان میں سے ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے قریب وادی نخلہ (جگہ کا نام) میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایاتو وہ جماعت فوراً سمجھ گئی کہ یہی وہ عظیم کام ہے جس کی وجہ سے ہمارے آسمان پر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔لہٰذا یہ جماعت اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئی اور جاکر اپنی قوم کو بھی تبلیغ کرنے لگی۔ ( بخاری،مسلم)

فرمان الٰہی ہے :-(ترجمہ) ’’اور (جنوں نے کہا)ہم نے آسمان کو ٹٹول کر دیکھا تو اسے سخت پہرے داروں اور شعلوںسے بھرا ہوا پایا اوریہ کہ ہم(باتیں) سننے کے لئے اس (آسمان ) میں جگہ جگہ بیٹھا کرتے تھے مگر اب جو بھی (سننے کے لئے) کان لگاتا ہے تو وہ اپنے لئے گھات لگائے ہوئے شعلہ کوتیار پاتا ہے اور بلا شبہ ہم نہیں جانتے کہ زمین والوں کے لئے کسی برے معاملہ کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیاہے۔‘‘ (الجن 72 : آیا ت 8 تا 10)

اللہ ربّ العالمین کے فرشتے آسمانوں پر چوکیداری کرتے ہیں تاکہ شیاطین آسمان والوں کی باتیں نہ سن سکیں۔ اب چوری چھپے جو شیاطین بھی آسمانی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہیں تو آسمان کے ستارے شعلہ بن کر ان پر گرتے ہیں چونکہ شیطان آسمانی باتیں سن کر کاہنوں کو بتلادیا کرتے تھے اور وہ (کاہن)اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کے سامنے بیان کیا کرتے تھے۔

فرمان الٰہی ہے :-(ترجمہ) ’’شیاطین اس (قرآن) کو لے کر نازل نہیں ہوئے اور نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ انہیں اس کی طاقت ہے بلکہ وہ تو سننے سے بھی محروم کردیئے گئے ہیں۔‘‘ ( الشعرآء 26 : آیات 210 تا 212)

وحی الٰہی کو شیطانی دراندازی(بدگوئی) سے بالکل محفوظ کردیا گیا ہے کیونکہ شیاطین کا مقصد صرف شرو فساد اور شرک و بدعات کو پھیلانا ہوتا ہے، جب کہ قرآن مجید سرچشمہ ہدایت ہے اور اس کو نازل کرنے کا مقصد نیکی کاحکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔ جب جنوں کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی سننے کا موقع ملا تو وہ بھی ایمان لائے بغیر رہ نہ سکے۔

فرمان الٰہی ہے :-(ترجمہ) ’’(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے اسے(قرآن کو) غور سے سنا اور کہاکہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو صحیح راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔ ہم اس (قرآن) پر ایمان لاچکے۔ اب ہم ہرگز کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے۔‘‘ ( الجن 72 : آیات1تا 2)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے طریقے

فرمان الٰہی ہے :

(ترجمہ) ’’کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ سے آمنے سامنے کلام کرسکے، مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا وہ کوئی فرشتہ بھیجتا ہے اور وہ اپنے حکم سے جو چاہتا ہے وحی کرتا ہے۔ یقینا اللہ سب سے بلند، خوب حکمت والا ہے۔‘‘(الشوریٰ 42: آیت51)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرحسب ذیل طریقوںسے وحی نازل ہوئی :

فرشتہ انسانی شکل اختیار کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتا پھر جو کچھ وہ کہتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے یاد کرلیتے۔ کبھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی فرشتہ کو دیکھتے تھے۔

کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرشتے کو اُس کی اصل حالت میں دیکھتے۔ اسی حالت میں وہ اﷲتعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کرتا۔اصلی صورت میںصرف دو مرتبہ دیکھا۔ چند دن وحی موقوف رہنے کے بعد جب دوبارہ وحی کا نزول ہوا ،معراج کے موقع پر۔(بخاری)

کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی گھنٹی کی آواز(ٹن ٹنانے) کی صورت میں آتی۔ وحی کی یہ صورت سب سے سخت ہوتی۔ جب فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا اور وحی آتی تو سخت سردی کے موسم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینہ آجاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار ہوتے تو وہ بوجھ کی وجہ سے زمین پر بیٹھ جاتی۔

براہ راست اﷲسبحانہٗ و تعالیٰ نے پردہ کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو فرمائی جیسے معراج کی رات میں نمازاور سورہ بقرہ کی آخری(2) آیات کا تحفہ دیااور شرک نہ کرنے والے کے لئے مغفرت کا وعدہ کیا۔(بخاری)

کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرسچے خواب کی صورت میں وحی نازل ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آجاتا۔

فرشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودکھائی دئیے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بات ڈال دیتا تھا۔

اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد، کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید، اللہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید

 


Read more...

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فکری انقلاب

06 Jan,2013

انقلاب کا لفظ آج کل اتنا عام ہو گیا ہے کہ ذرا ذرا سی سطحی تبدیلیوں کے لئے بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے، ایسی زندگیاں جو نہ زندگی کا رخ بدلتی ہیں ،نہ سوچ کے انداز میں کوئی تغیر لاتی ہیں ،نہ تہذیب و تمدن کے سلسلے میں کسی صحت مندانہ تبدیلی کا اہتمام کرتی ہیں اور جن کےذریعے سے اگر کوئی شئے جبراً کسی تبدیلی کا شکار ہوتی ہے تو استحکام اور پائیداری کے حوالے سے کوئی قابل ذکر تاریخی اثاثہ نہیں چھوڑتی ۔جبکہ حقیقتاً اگر ہمہ جہتی تبدیلی کا کوئی پائیدار،مستحکم اور لاثانی انقلاب کہیں روئے زمین پر کبھی برپا ہوا ہے تو یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ وہ واحد انقلاب وہی ہے جس کے رہنما محمد رسول اللہ eہیں ۔اس لئے کہ ان کے لائے ہوئے اس انقلاب نے زندگی کے کسی ایک پہلو میں ہی تبدیلی نہیں کی بلکہ اس کے فکروعمل کے سارے انداز و اطوار بدل دیے ،بنیادی سوچ بدل دی،عقیدہ تبدیل کر دیا،رسومات ،بندگی سے لے کر معاملات زندگی تک،فرد سے لے کر جماعت تک،خاندان سے لے کر قبیلے تک، معاشرے سے لے کر ریاست تک اور معیشت سے لے کر سیاست تک ہر چیز کو ایسا بدلا کہ اس کی بینادیں ہی تبدیل کر دیں۔یہ تبدیلی نہ وقتی تھی اور نہ جزوی بلکہ اتنی ہمہ گیر تھی کہ آج ہمیں تاریخ سے پوچھنا پڑتا ہے کہ اسلام کے لائے ہوئے اس انقلاب سے پہلے انسان اور اس کا اجتماعی نظام کہاں کھڑا تھا۔اور آج اسلام انہی قدروں کو کہاں لے آیا ہے ۔اسلام کے اس انقلاب کا استحکام بھی ایسا ہی حیران کن ہے کہ اس کی پائیداری زندگی پر ایسی حاوی ہوئی کہ بے عملی کی ہزار طوفانی ہوائیں اور وقت کے بےشمار حوادثات بھی اس انقلابی کام کو اپنی منزل سے ہٹا نہیں سکے۔

اسلام کے اس فکری انقلاب کا آغاز اللہ کے رسول e نے جس مقام سے کیا وہ انسانوں کا وہ مشترکہ سرمایہ ہے جو حضور eکی آمد سے پہلے بھی لوگوں کے پاس موجود تھا،چاہے اس کا تصور حقیقت سے کتنا ہی دور ہو گیا تھا مگر بہر حال انسانی معاشرے کے پاس اس عقیدے کی صورت میں خالق کائنات کا ایک تصور موجود تھا اور وہ یہ تھاکہ ہمارا ایک بنانے والاہے مگر اب ہماری زندگی میں اس کا کوئی دخل نہیں ہے ۔اس کو راضی کرنے کے لئے دو چار پرستش کی رسمیں ہر ایک کے پاس موجود تھیں مگر اس کے ایک ہونے ،بااختیار ہونے اور اس کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور مشرک معاشروں میں مفقود ہو گیا تھااور کتابی معاشروں میں دھند لا گیا تھا اور انسانوں نے اپنی تقدیریں اپنے خود ساختہ معبودوں کے حوالے کر دی تھیں ۔اور صورت حال یہ تھی کہ دنیا میں ذرے سے آفتاب تک اور پانی سے پہاڑ تک ہر چیز خدا بن گئی تھی۔

کہیں معبود تھے پتھر کہیں مسجود شجر

ایسے ماحول میں محمد eنے اللہ کے ایک ہونے ،اسی کی عبادت کرنے ،اسی سے لو لگانے اور اسی سے اپنی ضرورتوں میں رجوع کرنے کی دعوت کا اعلان فرمایا۔ اسی اللہ کی طرف بلایا جو خالق بھی ہے اور مالک بھی، بادشاہ بھی ہے اور رہنمائی دینے والا بھی۔اسلامی انقلاب کی یہ وہ سب سے پہلی اور بنیادی بات ہے ،جس سے اس انقلاب کے دوسرے اجزا فراہم ہوتے ہیں اور اس کے دوحصے ہیں ایک یہ تصور کے الٰہ ہے اور دوسرا یہ عقیدہ کہ خدا کی ان صفات کا حامل کوئی اور دوسرا نہیں ۔ یہاں یہ بات پھر دہرانے کی ہے کہ دنیا خدا کو مانتی تھی مگر اس صورت میں کہ اللہ ہے ۔مگرحضورeنے جو پیغامات دعوت دیا اس کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اللہ ہی ہے یعنی اللہ کے سوا نہ کوئی معبود ہے نہ کوئی مسجود ہے ،نہ رب ہے، نہ الٰہ ،نہ مالک ہے ،نہ بادشاہ اور وہ کسی ایک کا نہیں سب کا ہے۔قرآن نے اس کی وضاحت اپنی دعوت کے آغاز ہی میں کر دی ۔

وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ (سورۃ المدثر)

’’آپ اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے۔‘‘

اور وہ رب کیسا ہے۔؟

قُلْ ھُوَاللہُ اَحَدٌ (اخلاص)

’’آپ فرما دیجئے کہ وہ اللہ یکتا ہے۔‘‘

نہ کوئی اس کا شریک ہے نہ اس جیسا۔یہی عقیدہ توحید وہ سارا سرمایہ انقلاب ہے جس نے اسلام کے انقلابی پیغام کو زندگی کے سارے گوشوں پر پھیلایا اور اسی کو قبول کرنے کا نتیجہ تھا کہ انسانی معاشرے میں وہ انقلاب عظیم برپا ہوا جس نے زندگی کےپورے نظام کو بنیادی طور پر تبدیل کر دیا۔

عقیدہ توحید کی طرف حضور eکی دعوت کئی پہلوؤں سے غور و فکر کے کئی دروازے وا کرتی ہےجن میںسب سے پہلی بات یہ ہے کہ عقیدہ توحید سے دعوت انقلاب کا آغاز اس بات کی دلیل ہے کہ یہ تبدیلی جہاں سے شروع ہو رہی ہے یا انسانوں کا جو معاشرہ داعی توحید کے سامنے ہے ،اس سے نہ کسی مصالحت کی امید ہے نہ کچھ لو اور دو کی بنیاد پر کوئی وقتی تبدیلی لانا مطلوب ہے بلکہ یہ انقلاب پہلی ضرب انسانی عقیدے پر لگا رہا ہے اور عقیدہ آدمی کا سب سے نازک معاملہ ہوتا ہے جس پر کوئی شخص کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ا س نازک معاملے سے دعوت کا آغاز کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انقلاب برپا کرنے والا حقیقتاً اپنے فلسفہ انقلاب کا خالق نہیں بلکہ وہ کسی اور کا مقرر کردہ بااختیار نمائندہ ہے جو اپنے مالک کی فراہم کردہ دعوت انقلاب کو اسی کی ہدایت و رہنما ئی میں اور اسی کے مقرر کئے ہوئے طریقہ کا ر کے مطابق برپاکرنے کے لئے سعی کر رہا ہے لہٰذا یہیں سے اس فکری انقلاب کی دوسری بنیاد بھی سامنے آجاتی ہے اور وہ یہ ہے اسلام کا تصور رسالت کہ لوگو،میں کوئی نیا پیغام لایا ہوں نہ کوئی نئی بات کہنے آیا ہوں ،نہ اپنے کام پر تم سے کسی معاوضے کا طلبگار ہوں ،نہ ستائش کا امید وار بلکہ میں تو تمہیں وہی بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لئے آیا ہوں جو زمین پر آنے والے انسان کو دیا گیا تھا اور تسلسل کے ساتھ یاد دلایا جاتا رہایہاں تک کہ اب اسی کی تکمیلی اور اختتامی یاد دہانی کے لئے میں آگیا ہوں۔اور وہ سبق یہ ہے:

يٰٓا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

(سورۃ البقرہ:آیت 21)

’’لوگو،اپنے اس رب کی بندگی کرو جس نے تمہیں پیدا کیا اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی پیدا کیا تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ ۔‘‘

اس فکری انقلابی دعوت میں ایک پہلو یہ بھی غور طلب ہے کہ یہ انسانوں کو اپنے اعمال کے لئے جوابدہ بھی قرار دیتی ہے اور یہ اس فکری انقلاب کی تیسری بنیاد ہے جسے ہم تصور آخرت سے تعبیر کرتے ہیں یعنی مرنے کے بعد زندہ ہونا ہے اور پھر اپنے سارے اعمال کے لئے اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔اور جس طرح ہر مظاہر پرست ،سطحی ذہن رکھنے والے آدمی کے لئے اپنے خود ساختہ معبودوں کی فوج ظفر موج کو چھوڑ کر ایک اکیلے خدا پر راضی ہو جانا بڑا مشکل کام تھا۔۔۔اور اسی لئے مشرکین مکہ نے حضور eکی مخالفت میں اپنا بھرپور زور لگا دیا اور عقیدئہ توحید کے ماننے والوں کے خلاف جبر و ظلم کا ہر ہتھکنڈا بے دریغ استعمال کیا۔اسی طرح کسی مفاد پرست ظالم غاصب اور خائن فرد کے لئے تصور آخرت کو تسلیم کرکے اس کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ یہ تصور آدمی کو ذمہ دار اور خود احتساب بناتا ہے کہ ان دیکھے خدا کے سامنے حاضری کو حق الیقین اور عین الیقین کی طرح مانے بغیر یہ بات ممکن نہیں کہ کوئی آدمی اپنی حد میں رہے اور جب کوئی نہ دیکھ رہا ہو تب بھی خیانت نہ کرے ۔جب کوئی گواہ نہ ہو تب بھی چوری سے اجتناب کرے،جب کوئی روکنے والا نہ ہو تب بھی دست درازی سے گریزاں ہو۔یہ اسی عقیدے کا خاصہ ہے کہ جس نے اس فکری انقلاب کو ایک ایسا حیران کن منظر اظہار بخشا کہ اسے مان لینے کے بعد انسانی معاشرہ عظمت کردار کے اس مقام پر آگیا جہاں لوگوں نے خود اپنے آپ کو ،اگر کبھی ان سے جرم سرزد ہو گیا ،سزا کے لئے پیش کر دیا۔

رسول اللہ eکا لایا ہوا یہ انقلاب عظیم اپنی ان فکری بنیادوں پر باشعور انسانوں کا بلا جبر واکراہ ،رضاکارانہ طور پر قبول کیا ہو اور وہ انقلاب ہے جس نے تیئس سال میں ان کی زندگی کے پورے نظام کو اس طرح بدل دیا کہ اس میں ان کے عہد جہالت یعنی ماضی کا کوئی شائبہ بھی باقی نہ رہا ۔ہزاروں بتوں کو عبادت گاہوں سے لے کر دلوں کی فضاؤں تک سے ایسا دیس نکالا کہ پھر بت خانے اپنی ویرانی کا نوحہ پڑھنے کو بھی باقی نہ رہے۔اور انسانی معاشرے ،اونچ نیچ ،ادنیٰ و اعلیٰ ،گورے اور کالے ،شرقی و غربی کے سارے خود ساختہ اضافی امتیازات سے ایسے پاک ہوئے کہ :

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

یہ انقلاب ایسا عجیب و غریب انقلاب ہے کہ جو صدیوں  سے زندہ و تابندہ بھی ہے ،مستحکم بھی ہے اور رواں دواں بھی۔اگر کہیں کوئی تعطل آتا ہے تو محض وقتی طور پر،کوئی خرابی نظر آتی ہے تو عارضی ہے ،کوئی رکاوٹ سدراہ ہوتی ہے تو ذرا قوت سعی کو مہمیز کرنے کے لئے اور اپنی صفوں کو دوبارہ منظّم کرنے کے لئے اور اس انقلاب کو ماننے والے،اسے لے کر چلنے والے اس پہلی جماعت صحابہy سے لے کر آج تک کبھی اپنی راہ انقلاب سے ہٹے نہیں ہیں،اگر چہ کبھی کبھی رک ضرور گئے ہیں ،کچھ تعطل کے وقفے بھی آئے ہیں مگر ان کی ایسی ہی صورت ہے کہ جیسے صورت خورشید جینے والوں کی۔

ادھر ڈوبے ادھر نکلے   ادھر ڈوبے ادھر نکلے

یہ انقلاب ہمہ جہت بھی ہے اور ہمہ عہد بھی ۔لہٰذا زندگی کے ہر گوشے پر اس کی برکات سایہ فگن ہیں اور ہر عہد کے لوگوں کو اپنے قافلہ انقلاب میں شامل کرتے ہوئے یہ انقلاب اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے ۔ماضی کی صدیاں اس کے نور سے جگمگا رہی ہیں۔ حال کی اضطرابی کیفیتیں اس کے آغوش سکون میں اپنے لئے جگہ پانے کی منتظر ہیں اور مستقبل کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ سارے وقتی اورجزوی انقلابات سے دست بردار ہو کر اس کے سایہ رحمت میں آجائے اور دنیاایک بار پھر جبر وظلم سے نجات پائے ،انسانوں کی گردنوں سے انسانوں کی غلامی کے طوق اتر جائیں ،اللہ کے بندے اللہ سے تعلق کی بنیاد پر اپنے دلوں کی دنیا پرسکون بنا کر عدل و انصاف کا علم اُٹھائے رضائے الٰہی کی خاطر اپنا پیغام انقلاب لے کر اُٹھیں اور سب کے لئے اللہ کی رحمتوں کے دروازے اللہ کے حکم سے وا کر دیں۔

Read more...

عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی حیثیت

06 Jan,2013

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس نے خوشی کے تہوار، فضیلت والے مہینے دن اور رات بتلا دیے ہیں ا ور ان میں کیے جانے والے کام بھی وضاحت سے سمجھا دیے ہیں اب کسی دن ،رات یا مہینے کو فضیلت دے کر اس کو خاص اندازمیں منانے کے طریقے جاری کرنا درست نہیں ۔

رسول اللہﷺ کی تاریخ ولادت با سعادت کس مہینہ میں ہو ئی اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اختلاف ہے ۔اکثر نے ربیع الاول کا مہینہ بیان کیا تو پھر اس ماہ کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا گیا ۔یہ اختلاف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نبی علیہ السلام کے دور میں یاصحابہ رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ کے دور میں آپﷺ کی ولادت کا دن نہیں منایا گیا ۔کیونکہ جو دن ہر سال خاص اندا زمیں منایا جائے اس میں اختلاف نہیں ہوتا جس طر ح عیدین میں کوئی اختلاف نہیں ۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آپﷺ ربیع الاول کو پیدا ہوئے لیکن فضیلت رمضان المبارک کو ہے ،آپ ﷺ سوموار کو پیدا ہو ئے لیکن فضیلت جمعۃ المبارک کو ہے ۔ اسلام کا آغاز ربیع الاول کی بجائے محرم سے ہے ۔بارہ مہینوں میں چار حرمت والے مہینے ہیں لیکن ربیع الاول ان میں شامل نہیں ۔

اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں عید میلاد کا وجود ہو تا تو کسی موقع پر اس مہینہ یا اس تاریخ کا اہتمام کیا جاتا ۔

عید میلاد کی شرعی حیثیت علمائے کرام کے مندرجہ ذیل اقوال سے واضح ہو جاتی ہے ۔

(۱) علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں فاطمی خلفاء (جو رافضی شیعہ تھے ) نے میلاد النبی ﷺمیلاد علی،میلاد حسن و حسین ،میلاد فاطمہ رضی اللہ عنہم اور موجودہ خلیفہ کا میلاد ایجاد کیا۔

(المواعظ والاعتبار بذکر الخطط الآثار440/1)

(۲)شاہِ اربل ابو سعید مظفر کوکپوری نے 604ھ میں میلاد النبیﷺ ایجاد کیا۔ (الحاوی للفتاوٰی ص242)

مظفر الدین بادشاہ کے بارے میں علامہ یا قوت الحموی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ بادشاہ بہت زیاد ہ ظلم کر نے والا عوام پر بہت ستم کر نے والا اور لوگوںکا مال بلا وجہ غصب کرنے والا تھا۔ (معجم البلدان 138/1)

آپ ﷺ کی تاریخ ولادت کے اختلاف کی وجہ سے ایک سال 8ربیع الاول اور دوسرے سال 12ربیع الاول کو عید مناتا تھا (وفیات الاعیان 118/4)

(۳)میلاد النبی ﷺ کو متعارف کرانے کے لیے ابو الخطاب عمر بن حسین المعروف ’’ابن دحیہ‘‘ نے کتاب ’’التنویر فی مولد السراج المنیرو البشیر‘‘لکھ کر ابو سعید کوکپوری کو دی اور ایک ہزار دینار حاصل کیے ۔

(ابن خلکان 275/3وطبع آخر119/4)

اس مولوی ابن دحیہ کے بارے میںحافظ ضیاء مقدسی فرماتے ہیں کہ یہ آئمہ دین کے حق میں سخت گستاخ تھا۔(الحاوی للفتاوٰی2920)ابن نجار فرماتے ہیں کہ اس کے کذاب ہونے پر تمام کا اتفاق ہے اور یہ ایسی باتیں کر دیتا تھا جو کسی سے سنی نہ ہوتیں۔ (لسان المیزا ن 290/4)

(۴) امام ابن عابدین شامی فرماتے ہیں : دوسری بدعتوں سے زیادہ قبیح یہ ہے کہ رقص و آلات موسیقی کی دھنوں کے ساتھ میناروں اور گنبدوں پر میلاد پڑھا جائے ا ور اس کا ثواب مصطفیﷺ کو پہنچایا جائے ۔

(شامی ،صوائق الھییہ،ص235)

(۵)حضرت مجدد الف ثانی رحمہ ا للہ فرماتے ہیں :بنظر انصاف دیکھو کہ اگر بالفرض حضور اکرم ﷺ اس زمانے میں زندہ ہو تے اور یہ میلاد کی مجلس اور اجتماعات دیکھتے تو کیا اس پر راضی ہو تے ؟فقیر کا یقین ہے کہ آپؑ اس کو ہرگز پسند نہ کرتے بلکہ اس کا انکار کرتے ۔

(مکتوبات حصہ پنجم ،ص22مکتوب نمبر203)

(۶)مولانا عبد السمیع رامپوری بریلوی فرماتے ہیں یہ سامان فرحت و سرور اور وہ بھی مخصوص مہینے ربیع الاول کے ساتھ اور خاص وہی بارہواں دن میلاد شریف کا متعین بعد میں ہوا ۔ یعنی چھٹی صدی کے آخر میں۔

(انوار ساطعہ ،ص159)

(۷) مولانا احمد یار نعیمی بریلوی فرماتے ہیں :اس (میلاد ) کو تین زمانوںمیں سے کسی نے نہیں کیا ،بعد میں ایجاد ہواہے ۔(جاء الحق 236/1)

(۸)مولانا غلام رسول سعیدی بریلوی فرماتے ہیں: سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ نے محافل میلاد نہیں منعقد کیں ،بجا ہے ۔صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے محافل میلاد منعقد نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ دن رات دین کے زیادہ اہم کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ (شرح صحیح مسلم 179/3)

(۹) مولانا مفتی محمد حسین نعیمی فرماتے ہیں :عاشوراء اور ربیع الاول کے جلسے جلوس یادگاروں کے سلسلے میں نکالے جاتے ہیں ۔ یہ مذہبی نقطہ نظر سے نہ فرض ہے نہ واجب ۔ ایسے جلسے جلوس دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں نہیں نکالے جاتے کیونکہ یہ دین کا حصہ نہیں۔

(روزنامہ جنگ لاہور 13اکتوبر 1984)

(۱۰)متحدہ ہندوستان میں 1933ء کو پہلی مرتبہ لاہور میں جلوس انجمن فرزندانِ توحید نے نکالا ۔

(اخبار کوہستان ،22جولائی 1964)

ملاحظہ :

عید میلاد النبی ﷺ منانے والے مسلمان بھائیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جو کام خود نبی ﷺ نے زندگی بھر نہ کیا اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ عنہم ،تابعین ؒرحمہم اللہ اور آئمہ دین نے کیا حتیٰ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے تلامذہ نے بھی نہ کیا وہ دین اور نیکی کیسے بن سکتا ہے ؟

Read more...

اتباعِ رسولﷺ میں انسانیت کی فوز و فلاح

06 Jan,2013

انسان میں صرف عقل و ذہانت(intellect) ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کے باطن میں جذبات و احساسات کا ایک سمندر بھی موجزن ہوتا ہے۔ اور کسی بھی معاشرے میں جہاں اس کی عقلی، فکری اور فلسفیانہ اساسات کو اہمیت حاصل ہے، وہاں جذبات کے لئے بھی کسی مرکز کا وجود لازمی اور لابدی ہوتا ہے، جس کے ساتھ اگر جذباتی وابستگی نہ ہوگی تو دل پھٹے رہیں گے، محبت و رافت کے سوتے خشک ہوجائیں گے، آپس میں بیگانگی اور افتراق کی روش پروان چڑھے گی اور ثقافت میں کوئی یک رنگی پیدا نہ ہوسکے گی، چنانچہ کوئی تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی وجود میں نہ آسکے گی ۔ یہ در حقیقت وہ جذباتی بنیاد ہے۔ جس سے ہمارے تمدن اور تہذیب کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں اور امت مسلمہ کے لئے اس مطلوبہ کیفیت کا حصول نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں ہی مضمر ہے۔ امت مسلمہ حیات ملی کے استحکام اور اس کی شیرازہ بندی کے لئے جس چیز کو مرکزی نقطہ کی حیثیت حاصل ہے اور جو ایک مسلمان کے ایمان قلبی کو جلا بخشتا ہے وہ ہے نبی کریم ﷺ کی بے لوث اور والہانہ محبت، عقیدت و احترام، عزت و توقیر، گویا فی الجملہ آپﷺ کی محبت اور تعظیم ہر مسلمان کے دل کی اتھاہ گہرائیوں تک جاگزین ہونی چاہئے، لیکن عوام الناس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ محض عید میلاد النبی ﷺ مناکر، جلسے کرکے، جلوس نکال کر، سیرت کانفرنسیں کرکے یا ذوق و شوق کے ساتھ درود و سلام بھیج کر اور جھوم جھوم کر نعتیں پڑھ کر، یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بحیثیت امتی اپنی ذمہ داری پوری کردی اور نبی اکرم ﷺ کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں وہ ہم نے ادا کردئیے، یہ جھوٹا اطمینان ہمیں اس طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا کہ ہم یہ معلوم کریں کہ از روے قرآن حکیم نبی اکرم ﷺ سے ہمارے تعلق کی حقیقی اساسات اور صحیح بنیادیں کیا ہیں؟ ارشاد ربانی ہے

قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ؁

آپ کہہ دیجیے:لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ لہٰذا اللہ اور اس کے رسول نبی اُمی پر ایمان لاؤ، جو اللہ اور اس کے ارشادات پر ایمان لاتا ہے اور اسی کی پیروی کرو۔ امید ہے کہ تم راہ راست پالو گے۔(الاعراف158)

اس آیت مبارکہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسانی معاشرے کی فوزوفلاح اور کامل ہدایت کے لئےنبی اکرمﷺکی اطاعت اور اتباع نا گزیر ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں واضح رہے کہ اطاعت اور اتباع میں بہت بڑا فرق و تفاوت ہے۔اطاعت نام ہے اس چیز کا کہ جو حکم ملے اسے بلا چوں چُرا بجالایا جائےـ،کسی بھی قسم کی حیل و حجت اور قیل وقال کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سمع و طاعت والی کیفیت درکار ہے۔فرمان الٰہی ہے:

مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ   ۚ

جس کسی نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی (النساء : 80)

جس نے رسول ﷺکی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کیــ اور اس کی حیثیت دین میں دستوری اور آئینی ہے۔البتہ اتباع رسول کا دائرہ بہت وسیع ہے۔یعنی جو عمل بھی اس ہستی سے منسوب ہے جسےاللہ کا رسولﷺ مانا گیا۔جس پر ایمان لایا گیا ہے،جس کی اللہ کے نبی اوررسولﷺکی حیثیت سے تصدیق کی گئی ہے۔اس ہستی کی نشست وبرخاست،اس کی گفتگو،اس کا رہن سہن،اس کی وضع وقطع،اس کی تہذیب اور اس کی نجی و مجلسی زندگی کا جو بھی انداز ہو۔اس پورے نقشے کو اپنی سیرت و کردار اور قول و عمل میں جذب کرنا ہو گا۔اسی رویے اور اسی کیفیت کا نام دراصل اتباع ہے۔صحابہ کرام۔رضی اللہ عنھم۔رسول اکرمﷺکی صرف اطاعت ہی نہیں بلکہ آپﷺکی بھر پور اتباع بھی کرتے تھے۔وہ جانتے تھےکہ اللہ کی محبت اور رضا کا حصول رسولﷺکی اتباع میں مضمر ہے۔

بفحوائےقرآن

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(آل عمران ۳۱)

اے نبیﷺکہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔

مسلمانوں کی تہذیب اور اس کے تمدن کے جو اصل خدوخال ہیں وہ در حقیقت اسی اتباع رسولﷺ سےوجودمیںآئےہیں۔کیونکہ یہ انسانی طبیعت کی کمزوری ہےکہ کسی دلنوازشخصیت کی اسے حاجت ہوتی ہے جس سے اس کو قلبی لگاـؤہو اور جس کی صحبت میںرہ کر پورا معاشرہ امن وآشتی کا گہوارہ بن جائے۔کوئی ایسی ہستی ان کے درمیان موجود ہو جو معاشرے کی شیرازہ بندی میں نقطہ ما سکہ کا کردار ادا کر سکے۔چنانچہ دیگر انسانی معاشروں کو ایسی شخصیتیںخود تراشنی پڑتی ہیں۔اس لئے کہ یہ ان کی ضرورت ہے کہ جذباتی وابستگی کے لئےکسی مرکزومحور کا وجود لازمی ہے۔

امت مسلمہ کی یہ کتنی بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہاں کوئی مصنوعی شخصیت تراشنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔کیونکہ مصنوعی شخصیتیں تراشنے میں ہر دور میں ایک نئ شخصیت گھڑنی پڑتی ہے۔ بقول علامہ اقبال:

’’ می تراشد فکر ما ہر دم خدا وندےدگر!‘‘

لیکن ہمارے پاس نبی اکرمﷺجیسی محبوب، دلنواز، معراج انسانیت پرفائزشخصیت جن کی سیرت و کردار پر کوئی دشمن بھی کہیں کوئی انگلی نہ رکھ سکا،انسان کامل، انسانی عظمت و کردار کی مظہراتم شخصیت موجود ہے۔ آپﷺکی ذات پاک ہماری ملّی شیرازہ بندی کے لئے ایک مرکزی ستون ہے۔چنانچہ آپ ﷺکے ساتھ قلبی محبت،آپﷺکا ادب،آپﷺکی تعظیم، آپﷺسےعقیدت سچےاور حقیقی جذبےکے ساتھ موجود ہو توہمارا اسلامی معاشرہ ایک بنیان مرصوص بنا رہے گا۔آپﷺہی وہ ہستی ہیں جن کے متعلق کیا خوب کہا گیا ہےـ:

ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر

نفس کر دہ می آید جنید وبایزید ایںجا

نبی اکرمﷺکی ذات اقدس کو اپنا معیار زندگی اور رول ماڈل بنانا،ہماری تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی کی ضمانت دیتاہے۔اوراسی تہذیبی وثقافتی ہم رنگی ہم آہنگی، اوریکسانیت کے ساتھ تہذیب وثقافت کا ایک تسلسل و تواتر ہے جو چودہ سو برس سے جاری وساری ہے۔وضع قطع اور لباس کے حدودوقیود اور نشست وبرخاست کے انداز، آپﷺکے اسوہ حسنہ سے مسلمانوں میں فروغ پذیر ہوئے۔یہی وجہ ہےکہ مسلمان خواہ مشرق بعید کا ہو یا مغرب بعید کا یادنیا کے کسی بھی خطے میں رہنےوالےمسلمان ہوں،ان سب کےمابین مناسبت، ہم آہنگی،اوریکسانیت نمایاں نظر آتی ہے اوریہ سب اسی لئے ہےکہ ان کے لئےمرکزی اور بنیادی شخصیت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جناب محمد رسول اللہ ﷺکی ہے۔ دل کی حقیقت،طبیعت کی پوری آمادگی اور گہرے قلبی لگاؤ کےساتھ انسان کسی کا اتباع کرتا ہےتووہ صرف اس حکم کی پیروی نہیں کرتا جیسےوہ اپنی زبان سے واضح الفاظ دےرہا ہو بلکہ وہ اس کی ہر اداکی پیروی کرنے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتا ہے اوراس کےچشم و ابرو کے اشاروں کا منتظررہتاہے۔محبوب کی ہرادا کی نقالی اور اس کے ہر قدم کی پیروی اپنے اوپر لازم کر لیتا ہےـ:

جہاں تیر انقش قدم دیکھتے ہیں

خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں

اسی طرزعمل کا دوسرا نام اتباع ہے۔جس کی زندہ مثالیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کی زندگی میں نظر آتی ہیں۔ سیرت کی کتابوں میں سیدناعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے واقعات میں ایک واقعہ مرقوم ہے جس سے ان کے جذبہ اتباع کا پتہ چلتا ہےکہ ایک مرتبہ وہ سفر میں رسول کریمﷺکےہمراہ تھےکہ نبیﷺاتفاقا ایک خاص درخت کےنیچےسے گزرے۔لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ جب وہاں سے گزر ہوتاآپ رضی اللہ عنہ اس درخت کے نیچےسے ہی گزرتے۔اگرچہ شریعت کےلحاظ سے آپﷺ کےیہ اعمال واجب التعمیل بھی نہیں تھے۔بلکہ خالص عقلیت پرست (RATIONALISTS)لوگ تو شاید اس کو جنون اور خوامخواہ کا (FANATICISM) ہی کہیں گے۔لیکن حبّ رسولﷺمیں محبوب کی ہر نقش کی پیروی دستور محبت شمار ہوتی ہے۔اگر کوئی فنا فی حب رسولﷺہو جائےتواس کا طرز عمل اور رویہ یہی ہونا چاہئے۔اسی طرح سِیَرِصحابہ رضوان اللہ علیھم میں ایک صحابی کا ذکر ملتا ہےجو کسی دور دراز علاقےسےآکر رسول اکرمﷺکے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے تھے۔ انہوںنےآپﷺکو بس ایک موقع پر دیکھا تھا اور اس وقت اتفاق سےآپﷺکا گریبان کھلا ہوا تھا۔ آپﷺکو کھلےگریباں کے ساتھ دیکھ کر ان صحابی رضی اللہ عنہ نےپھر ساری عمر اپنےگریبان کے بٹن نہیں لگائے۔

حالانکہ حضورﷺکی طرف سے انہیں ایسا نہ کرنے کا کوئی حکم تو کجا،کسی ادنی درجے میں اشارہ تک نہیں کیا گیا۔ اور شریعت کی رو سے یہ نہ فرض ہے نہ واجب، لیکن یہ محبت کے لوازم میں سے ہے کہ محبوب کےہر نقشِ قدم کی پیروی اور ہر ادا کی نقالی اپنے اوپر لازم کر لی جائے،اسی طرز عمل کا نام قرآن حکیم کی اصطلاح میں ’’اتباع‘‘ہے۔

سورہ آل عمران کی آیت 31کے حوالے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کا لازمی تقاضا نبی اکرمﷺکا اتباع ہے۔اس اتباع کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کی محبت میں پختہ تر اور مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گےاور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اللہ کے محبوب اور اس کی مغفرت ورحمت کے سزا وار قرارپائیں گے۔ جن کو یہ مرتبہ مل جائےکہ وہ اللہ کے محبوب قرار پائیں ان کی خوش نصیبی اور خوش بختی کا کیا کہنا!

اس کے برعکس اگر یہ طرز عمل اختیار کیا جائے کہ محبت رسولﷺکے محض دعوے ہیں،لیکن اطاعت نہیں، فرائض کی ادائیگی نہیں،اوامر ونواہی کی پرواہ نہیں،احکام شریعت کا سرے سے کوئی لحاظ ہی نہیں،تو یہ طرز عمل سرا سر معصیت اور فسق وفجورپر مبنی ہے۔محبت کا یہ خالی خولی دعویٰ اللہ کے ہاں سرے سے قبول ہی نہیں ہو گا۔ایسا دعویٰ جس میں روحِ محبت ہی نہ ہو اس دنیا میں بھی قبول نہیں ہو سکتا۔بلکہ مہمل قرار پاتا ہے کہ ایک طرف محبت کا دعویٰ ہو اور دوسری طرف اطاعت اور رضا جوئی کا سرے سے کوئی اہتمام نہ ہو۔حُب رسولﷺ کے بلند دعوے،بڑی وجد آفریں نعتیں اور بڑے لمبے چوڑے سلام،بڑے جوش و خروش اور شان وشوکت سے نکالے ہوئے جلوس،جو اکثر عوام کے روز مرہ کے معمولات اور ان کی آمدورفت میں بڑی مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں،پھر بڑے ہی اہتمام سے منعقد کی ہوئی میلاد کی محفلیں،شہر بھر میں چراغاں،اگر یہ سب جذبہ اطاعت سے خالی اور اتباعِ سنت کے جذبے سے عاری ہیں تو یہ سب کچھ سرا پا ڈھونگ ہے،فریبِ نفس ہے۔اس کی نہ کوئی حقیقت ہے اور نہ میزان میں اس کا کوئی وزن۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس طرز عمل کی پرِکاہ کے برابر بھی وقعت اور قدر نہیں بلکہ یہ ملمع کاری قابل مؤاخذہ ہے۔

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • Next
  • End

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول