اسلام میں عورت کے کردار پر پہلے بھی بہت اچھا اور معیاری کام ہوچکا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتی ہوں کہ یہ ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہر گزرتے وقت سے زیادہ آنے والے وقت میں بڑھتی جا رہی ہے۔ کیونکہ ہر آنے والا نیا دور عورت کے کردار کو متزلزل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قرآان میں اللہ پاک نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ
’اے نبی ﷺ جب آپ کے پاس مومنات آئیں تو آپ ﷺ اس بات کی ان سے بیعت لیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں ٹھیرائیں گی اور نہ ہی وہ چوری کریں گی اور نہ ہی وہ زنا کریںگی اور نہ ہی وہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی وہ بہتان گھڑیں گی جو ان کے آگے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور معروف کاموں میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی بس ان سے بیعت لے لو اور ان کی حفاظت اور مغفرت کے لئے دعا کرو بے شک اللہ تعالی مغفرت فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں ۔(۱)
قرآان پاک میں نہ صرف عورت کے کردار کو بیان کیا گیا ہے بلکہ جتنے بھی اہم مسائل تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں انہی میں سے ایک اہم مسئلہ عورت کا بھی ہے ۔
مختلف مذاہب میں عورت کا مقام
قدیم تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو کسی قدر مستند معلومات ہمیں یونانیوں اور رومیوں کے عہدسے ملتی ہیں۔ انہوں نے تہزیب و تمدن اور علوم و فنون پہ بے انتہا ترقی کی لیکن پھر بھی وہ عورت کے بارے میں ایسے تصورات رکھتے تھے جن کو سن کر ہنسی آتی ہےلیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عورت کی قدرو منزلت ان کے نزدیک کیا تھی۔ ان سب کے بارے میں تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں لیکن اسلام سے پہلے دنیا میں جتنے بھی مذاہب رہے ہیں ان سب کا مطالعہ کر کے اگر نچوڑ لیا جائے توعورت کی حیثیت کچھ اس طرح سامنے آتی ہے ۔
1 عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے جو ٹیڑھی ہوتی ہے اس لئے عورت کی سوچ کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔
2 عورت کی وجہ سے آدم کو پرسکون جنت سے نکلنا پڑا ۔
3 عقلی اعتبار سے عورت ’ناقص‘ ہے۔
4 عورت مکمل ’فتنہ‘ ہے ۔
5 عورت کی فکر ’صفر‘ ہے ۔
6 عورت کی گواہی ’آدھی ‘ہے ۔
7 مرد کی خوشنودی کرنا ہی عورت کا اصل ’کام‘ ہے۔
8 عورت ’نجس و ناپاک‘ ہے ۔
9 عورت سے مشورہ لینا’ حماقت‘ ہے۔
0 عورت کی مختصر عقل اس کے’ جزبات ‘کے تابع ہے۔
+ عو رت مکرو فریب کا دوسرا نام ہے وغیرہ وغیرہ ۔ (۲)
قرآن پاک میں عورت کے انفرادی اور اجتماعی، دونوں حقوق و فرائص بیان کر دیئے گئے ہیں ۔ میں پھر وہی بات دہرائوں گی کہ شاید قارئین کو لگے کہ پرانا موضوع ہے لیکن اس پرانے موضوع کو پھر سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا آج کا دور جسے ہم بڑے فخر سے جدید اور ترقی یافتہ دور کہتے ہیں اس میں عورت اسلامی پیرائے میں ڈھلی ہوئی ہے ؟جب تک ہم اسلام سے قبل عورت کی حالت کو نہیں سمجھیں گے، ہم اسلام میں دیئے گئے حقوق اور آزادی کو نہیں سمجھ سکیں گے کہ اسلام نے کس طرح آکر عورتوں کو ایک نئی زندگی بخشی ۔
اسلام سے قبل
یہاں اسلام سے قبل عورت کے مقام و مرتبے کا جائزہ لیا گیا ہے تاکہ ہم خواتین اس بات کو اور زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں کے اسلام نہ صرف ایک نیا اور مکمل دین ہمارے لئے لایا بلکہ خواتین کے لئے نئی زندگی بھی لیکر آیا۔ اسلام سے قبل دنیا نے عورت کو ایک غیر مفید چیز سمجھ کر پستی کے ایسے دلدل میں پھینک دیا تھا جس کہ بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی ۔ اسلام سے قبل عورت کی قدرو منزلت کا اندازہ قرآن کی اس آیت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
اور (ان کافروں کا حال یہ ہے کہ) جب ان میں سے کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو (غم کی وجہ سے) اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے (۳)
یعنی اسلام سے قبل بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جا تا تھا۔ اسلام ہی وہ پہلا دین ہے جس نے اس حرکت کو حرام قرار دیااور عورت کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ اس کی عزت کا بھی خوب اہتمام کرتے ہوئے اللہ تعا لی نے قرآن میں ارشاد فرمایا کہ
’’اور جب زندہ گاڑھی ہوئی بچی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ قتل کی گئی۔‘‘(۴)
اسلام سے قبل عورت وراثت سے محروم تھی لیکن اسلام نے آکر اسے وراثت میں حصے دار بنایا۔ اسلام سے پہلے عورتوں پر ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ انہیں زبردستی ورثے میں لے لیتے تھے ۔ یعنی اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجاتا تو اس کے وارثوں میں سے کوئی بھی شخص اس عورت پر کپڑا ڈالتا اور اس کا وارث بن جاتا تاکہ میت کے جس مال کی وارث وہ عورت ہے ، اس مال کا وارث وہ بن جائے ۔ اس طرح وہ شخص عورت کے نفس کا اس عورت سے بھی زیادہ حق دار ہوجاتا اسلام نے اس کو بھی حرام قرار دیا۔(۵) اور فرمایا کہ
اے ایمان والو!تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو۔‘‘(۶)
جب اسلام آیا تو زمانہ جاہلیت میں عرب کے لوگ عورت کو نکاح سے روکے رکھتے اس کو اس کے حق سے بھی محروم رکھتے اور شوہر اپنی بیوی کو اس وقت تک طلاق نہ دیتا جب تک وہ عورت اس کو اپنے اوپر خرچ کیا ہوا مال واپس نہ لوٹا دیتی ۔باپ اپنی بیٹی کو اور بھائی اپنی بہن کواگر چاہتے تو شادی سے روکے رکھتے ۔ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتائو نہیں کرتا تھا اور نہ ہی اسے فدیے (حق مہر کی واپسی) کے سوا طلاق دیتا۔ اسلام نے اس عمل کو بھی سخت ناپسند کیا ۔(۷)
قرآن میں ارشاد ہے کہ
اور ان کو اس لئے نہ روک رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے کچھ لے لو ، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کھلی برائی اور بے حیائی کریں۔(۸)
اسلام سے قبل عورت اپنے شوہر کے ظلم و ستم کا شکار تھی۔ اسلام نے آکر اس کی ممانعت کی اور حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرو جیسا کہ تم اپنے ساتھ کرتے ہو اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں جس عورت کا شوہر فوت ہو جاتا اس کی عدت ایک سال ہوتی تھی جس کو اسلام نے تخفیف کرکے ایک تہائی کردیاور حکم دیا کہ
تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور (دس) دن عدت میں رکھیں ۔(۹)
ہم نے اندازہ لگایا کہ اسلام سے قبل عورت کس قدر پستی اور ذلت کا شکار تھی ۔ اسلام نے آکر عورت کے لئے صدائے احتجاج بلند کیا اور اسے معاشرہ کا نا صرف ایک فعال رکن قرار دیابلکہ مرد کے برابر کا درجہ بھی دیا ۔
اسلام میں عورت کے حقوق و فرائض
ہم نے مختلف مزاہب میں اور اسلام سے قبل عورت کے مقام و مرتبے کا جائزہ لیا ۔ اب اگر ہم قرآن کی روشنی میں عورت کا مقام دیکھیں تو قرآ ن دوسرے مزاہب کے بر عکس عورت کے کردار کو پانچ اہم شعبوں سے تقسیم کرتا ہے ۔
1 مساوات 2 درجات
3قانونِ شہادت 4 قانونِ وراثت
5 حدودوتعزیرات (۱۰)
اور جو کوئی نیک عمل کرے گا ، وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی۔(۱۱)
اسلامی معاشرے میں جس طرح مردوں کے کچھ حقوق ہیں بالکل اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق ہیں اور اسی طرح جس طرح مردوں پر کچھ فرائض ہیں اسی طرح عورتوں پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ بحیثیت ایک شہری تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں لیکن اسلامی نقطۂ نظر سے بحیثیتِ مرد اور بحیثیتِ عورت ان دونوں کے حقوق اور فرائض میں اختلاف ضرور ہے ۔
اسلام عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ الگ قرار دیتا ہے جس کی بنا پر جدید دور کا انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اسلام نے عورت کو مرد سے کم درجہ دیا ہے ۔(۱۲)
اسلام مساواتِ مرد و زن کے مغربی نظریہ کو تسلیم نہیں کرتاجس کی رو سے مرد اور عورت کی صلاحیتیں زندگی کے ہر شعبے میں برابر ہیں ۔ کیونکہ اسلام نے عورت پہ خاندان کی کچھ ذمہ داریاں عائد کی ہوئی ہیںلہٰذا ان کی موجودگی میں عورت پہ ریاستی ذمہ داریاں ڈالنا خلافِ انصاف ہے۔ اسلام سے قبل عورت کی جو حالت تھی اس سے اہلِ علم اچھی طرح باخبر ہیں۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ دیا ہے ، اس کے حقوق و رعایات کا وہ سامان مہیا کیا ہے جس کی مثال کسی اور تاریخ میں نہیں ملتی۔ عورت اگر بیٹی ہے تو اس کی کفالت والدین کے ذمہ ہے، اگر بیوی ہے تو اس کی کفالت شوہر کی ذمہ داری ہے، اگر ماں ہے تو اولاد اس کی ذمہ داری پوری کریگی اور اگر بہن ہے تو بھائی اس کی نگہداشت کریں گے۔ گویا اسلام نے عورت کو زندگی کے ہر درجے میںاور عمر کے ہر حصے میں معاشی یا معاشرتی پریشانیوں سے محفوظ کر دیا ہے۔ حفاظت و عافیت کا یہ حصار صرف مزہبِ اسلام نے ہی قائم کیا ہے۔ (۱۳)
اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے ۔(۱۴)
حقوق کے حوالے سے اگر ہم بات کریں توہم دیکھتے ہیں کہ اسلام نے مرد اور عورت کو برابری کے حقوق دیئے ہیں جس میں سب سے پہلے تو اسلام نے عورت کو عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیا ہے۔ اسے پرورش کا حق دیا ہے، تعلیم کا حق دیا ہے، نکاح کا حق، مہر کا حق، نان و نفقہ کا حق، کاروبار اور عمل کی آزادی کا حق، مال و جائیداد کا حق، عزت و آبرو کا حق، تنقید و احتساب کا حق غرض کہ کہیں بھی اسلام نے عورت کو حقوق دینے میں کوئی کمی نہیں کی ہے ۔نکاح و طلاق میں اس کی پسندیدگی و نا پسندیدگی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا ۔ اسلام نے نکاح و طلاق میں اسے خاص حقوق عطا کیے اسی طرح اسے وہ تمام تمدنی اور معاشرتی حقوق عطا کیے جو مردوں کو حاصل تھے ۔
اللہ پاک نے عورت پر کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں جن کو پورا کرکے وہ اپنے خاندان کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالتی ہے اور ان فرائض کو پورا کرنے کے بعد ہی اس کا کردار نکھر کر سامنے آتا ہے۔ بحیثیت ماں عورت کی اہمیت کا اندازہ اس جملے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ’ماں کے قدموں تلے جنت ہے ‘یعنی ماں کو اللہ رب العزت نے اتنا بڑا درجہ دیا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے انسان کو وصیت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرے۔(۱۵)
ماں کے حمل کی مشقت اور رضاعت وہ عمل ہیں جن کی بدولت اللہ نے ماں کو اتنا بڑا درجہ دیا ۔ موجودہ دور میں جو کہ فتنوں سے بھرا ہوا ہے ، اس میں ماں کے اوپر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرکے اس کے ذہن میں اسلام کا نقش قائم کرے اور دوسری یہ کہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت کے ساتھ نئی نسل کو غیر اسلامی تہذیب و معاشرت سے بھی بچائے ۔ دینی تعلیم میں صرف نماز روزہ کی تلقین ہی نہیں بلکہ دین میں غورو فکر کرنااور قرآن کو بطورِ ہدایت سمجھنے پر بھی زور دینا شامل ہے ۔
بحیثیت بیوی اللہ تعا لی نے عورت پہ بہت فرائض متعین کئے ہیں ۔ ان میں شوہر کی عزت، اپنی عزت کا خیال رکھنا، اس کے مال اور اولاد کی نگرانی کرناشامل ہیں۔ اسی طرح عورت پر پردے کے احکامات بھی عائد ہوتے ہیں جن کی بنا پر اس پر فرض ہے کے اسلامی احکامات کی پابندی کرے۔قرآن پاک میں ان احکامات کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریںسوائے اپنے خاوند کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے ۔( ۱۶)
اب اگر ہم جدیددنیا کی عورت پہ نظر ڈالیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو حقوق مسلمان عورت کو اسلام نے چودہ سو سال پہلے دئیے تھے ان کی ابتدا ہماری جدید دنیا میں انیسویں صدی سے ہوئی ہے اور صحیح معنوں میں کامیابی بیسویں صدی میں آکر ہوئی ۔ بیسویں صدی کے نصف ثانی تک بیشتر معاشروں میں عورتوں کو مردوں جیسے قانونی اور سیاسی حقوق حاصل نہیں تھے۔مانا کہ بہت سی خواتین نے کئی حقوق حاصل بھی کرلئے لیکن ابھی بھی کئی مردوں کا خیال ہے کہ وہ ان کہ ہم پلہ نہیں ہیں ۔زیادہ تر مردوں نے خواتین کو ایک محدود کردار سے آگے بڑھنے کی مخالفت کی ہے۔ (۱۷)
عورتوں کے عقلی طور پر گھٹیا ہونے کے مقبولِ عام خیال نے زیادہ تر معاشروں میں عورتوں کی تعلیم کو محدود رکھنے پر مائل کیا ۔ انیسویں صدی سے پہلے تک عورتوں کو مساوی حقوق دینے سے انکار پر کبھی کبھار احتجاج ہوا جس کے کوئی دیرپا نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ کیونکہ زیادہ تر عورتیں تعلیم کی کمی اور مالی وسائل کی کمی کا شکار تھیں لہٰذا اپنی کمتر حیثیت کو قبول کرنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب بہت سے معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق صرف امیر طبقے کو ہی حاصل تھے ۔جس کی بناء پر عورتوں کے ساتھ ساتھ مزدور طبقہ بھی مالی مسائل کا شکار تھا۔ (۱۸)
انیسویں صدی میں یورپ و شمالی امریکہ کی حکومتوں نے جب مردوں کی مساوات کی ضمانت دینے والے نئے قوانین تیار کرنا شروع کئے تو عورتوں نے اور ان کے ساتھ کچھ مردوں نے بھی عورتوں کو مساوی حقوق دینے کا مطالبہ کیا ۔ساتھ ہی یورپ اور شمالی امریکہ میں صنعتی انقلاب نے مرد اور عورت کے کردار کو مزید الگ کردیا۔ صنعتی انقلاب سے قبل زیادہ تر لوگ کھیتوں میں کام کرتے تھے جس کے لئے گھروں سے باہر نہیں جانا پڑتا تھا ۔ عورتوں اور مردوں نے بہت سے کام آپس میں بانٹ رکھے تھے ۔ صنعت کاری نے مردوں کو گھر سے دور رہنے پر مجبور کیااور گھر اور کام کے درمیان بڑھتی ہوئی دوری نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ عورت کا جائز مقام گھر میں ہے اور مرد کے ذمہ معاشی ذمہ داری ہے ۔ ۱۹۲۰ اور ۱۹۶۰ میں جا کر خواتین اپنے کچھ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئیں۔(۱۹)
یہاں اس بحث کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ مسلمان عورت کو کبھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھانی پڑی ۔ اللہ سبحان تعالی نے اسے پہلے ہی سے اس سے بڑھ کر اور بہتر حقوق عطا کئے ہیں ۔ ہمیں ان حقوق کے لئے نہ تو کہیں احتجاج کرنا پڑا اور نہ ہی کہیں کسی پلیٹ فارم کو استعمال کرنا پڑا ۔ مسلمان عورت کو چاہیے کہ وہ ان حقوق کی قدر کرے اور ان کا غلط استعمال نہ کرے اگر عورت اللہ کی نظر میں اچھا بننا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرےجو عورت اپنی ذمہ داریوں کواحسن طریقوں سے ادا کرتی ہے تو اس کا حق اس کو ضرور ملتا ہے۔ ذمہ داریوں کو بھول کر حق مانگنا کسی اسلامی عورت کا شعار نہیں ہے ۔
اے دخترِ اسلام
لگتی ہے کلی کتنی بھلی شاخِ چمن پر
ہاتھوں میں پہنچ کر کوئی قیمت نہیں رہتی
جو شمع سرعام لٹاتی ہے اجالے
اس شمع کی گھر میں کوئی عزت نہیں رہتی
تسلیم کہ پردہ ہوا کرتا ہے نظر کا
نظروں میں بھی برداشت کی قوت نہیں رہتی
مردوں کے اگر شانہ بشانہ رہے عورت
کچھ اور ہی بن جاتی ہے، عورت نہیں رہتی
جھانک اپنے گریبان میں کیا ہو گیا تجھ کو
حیرت سے تجھے تکتا ہے آئینۂ ایام
اے دخترِ اسلام
خود اپنی جڑوں پر ہی چلاتی ہے درانتی
بربادی احساس ِ نمو مانگ رہی ہے
کب بخشی گئی ہیں تجھے آزادیاں اتنی
جو حق ہی نہیں ہے تیرا تو مانگ رہی ہے
میں تو ترے ماتھے پہ پسینہ بھی نہ دیکھوں
مجھ سے میری غیرت کا لہو مانگ رہی ہے
جنت ہے تیرے پائوں میں فرمایا نبی ﷺ نے
دریا پہ کھڑی ہوکہ سبو مانگ رہی ہے
وہ رتبۂ عالی کوئی مذہب نہیں دیتا
کرتا ہے جو عطا عورت کو مذہبِِ اسلام
اے دخترِ اسلام
( مظفر وارثی)
حوالہ جات
۱ ۔ سورۃالممتحنہ، آیت نمبر ۱۲
۲ ۔ قرآن کی نظر میں عورت، ہما آغا، فینسی پرنٹ، کراچی، ۲۰۰۶، ص نمبر ۱۲
۳ ۔ سورۃ النحل، آیت نمبر ۵۸
۴ ۔سورۃالتکویر ، آیت نمبر ۹،۸
۵ ۔ تحفہ نسواں مسلم خواتین کے مخصوص مسائل اور فرائض ، ڈاکٹر صالح بن فوزان، ادارہ مطبوعاتِ خواتین، لاہور
۶ ۔سورۃالنساء، آیت نمبر ۱۹
۷ ۔ تحفہ نسواں، ایضا ، ص نمبر ۱۹
۸ ۔سورۃالنساء، آیت نمبر ۱۹
۹ ۔ سورۃ البقرہ، آیت نمبر ۲۳۴
۱۰ ۔ہما آغا ، ایضا ، ص نمبر ۱۳
۱۱ - سورۃ النساء ، آیت نمبر ۱۲۴
۱۲ - خاتونِ اسلام، مولانا وحید الدین خان، فضلی سنز، کراچی، ۱۹۹۸
۱۳ - عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین، حافظ صلاح الدین یوسف، دارالاسلام، کراچی
۱۴ ۔سورۃالبقرہ، آیت نمبر ۲۲۸
۱۵ ۔سورۃ الاحکاف، آیت نمبر ۱۵
۱۶ ۔سورۃ النور، آیت نمبر ۳۱- ۲۴
۱۷ ۔ عالمی انسائیکلو پیڈیا، یاسر جواد، الفیصل، لاہور، ۲۰۰۹، ص نمبر ۱۴۰۴
۱۸ ۔ا یضا
۱۹ ۔ایضا
شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔
انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔
اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔
مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔
جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔
پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔
ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ نشین تھا۔
انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔
پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔
ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔
پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔
اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔
اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔
اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے۔
پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے ہمیں امن و استحکام کی نعمت عطا فرمائی، میں اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں اور اسی سے نصیحت و عبرت پکڑنے کی توفیق مانگتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، اسی نے فرمایا:
وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ
اللہ کے ہاں ہر چیز کی مقدار مقرر ہے [الرعد: 8]
میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے لوگوں کو اللہ تعالی کی جانب دعوت دیتے ہوئے حکمت و اقتدار کا استعمال کیا، جب تک دن اور رات رہیں اس وقت تک اللہ تعالی آپ پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، فرمانِ باری تعالی ہے:
اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا[غافر: 64]
اللہ تعالی نے ہی تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا۔
یعنی تمہارے لیے زمین کو ٹھہری ہوئی بنایا جس میں تمہاری زندگی مستحکم ہو ، تم زمین پر زندگی گزارو، اس پر محنت کرو اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آؤ جاؤ۔
زندگی کے تمام امور کا تعلق استحکام کے ساتھ ہے، زندگی استحکام کے بغیر بے مزا ہے، حصولِ استحکام ہر شخص کا ہدف اور ضرورت ہے استحکام کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔
جب تک استحکام سایہ فگن نہ ہو انسان کو زندگی کا مزا نہیں آتا اور نہ ہی خوشیاں اچھی لگتی ہیں ، بلکہ زمین کی آباد کاری کیلیے کچھ کرنے کو دل بھی نہیں کرتا ، انسانیت کیلیے استحکام ہی سب سے بڑا ہدف اور اللہ تعالی کی طرف سے عظیم ترین نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ
ہم نے کہہ دیا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں استحکام اور فائدہ ہے۔ [البقرة: 36]
دنیا کی نعمتوں اور لذتوں کا لب لباب اور دنیاوی خوشیاں گلے لگانے کا موقع اسبابِ استحکام پائے جانے سے ہی منسلک ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (جو شخص اپنے گھر میں پر امن صبح کرے، جسمانی طور پر صحیح سلامت ہو، اس دن کا کھانا پینا اس کے پاس ہو؛ گویا کہ اس کیلیے دنیا [کی نعمتیں]سمیٹ دی گئی)
مومن کو امن و استحکام کی جستجو کیلیے محنت کرنے کا حکم دیا گیا، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا [النساء: 97]
اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں کی روح قبض کرتے ہوئے فرشتے ان سے پوچھتے ہیں: تم کن میں شمار ہوتے تھے؟ وہ کہتے ہیں: کمزور میں ۔ فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم [امن و استحکام کی جستجو میں]ہجرت کر جاتے؟
استحکام کا معاملہ ہی بہت اعلی اور ارفع ہے، اللہ تعالی نے اہل جنت اور جنتوں کی نعمتوں کو بھی استحکام سے متصف فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا [الفرقان: 24]
اہل جنت اس دن مستحکم ٹھکانوں اور اچھی آرام گاہوں میں ہوں گے۔
اور فرمایا:
خَالِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ رہنے کیلیے بہترین اور مستحکم جگہ ہے۔[الفرقان: 76]
دھرتی پر استحکام اور بہتری کے بعد شر انگیزی پھیلانے پر اسلام نے شدید ترین وعید دی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ [البقرة: 204 - 206]
اور لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جس کی بات آپ کو دنیا کی زندگی میں بڑی بھلی معلوم ہوتی ہے اور وہ اپنی نیک نیتی پر اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے حالانکہ وہ کج بحث قسم کا جھگڑالو ہوتا ہے اور جب اسے اقتدار ملتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے ‘ کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا اور جب اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کیلیے کہا جائے تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے بس جہنم ہی کافی ہے اور یقیناً وہ بدترین جگہ ہے ۔
جس نے بھی زمین پر فساد پھیلایا ، بہتری و ترقی کے نام پر استحکام میں رخنے ڈالے اور یہ دعوی کیا کہ وہ حق پر ہے تو وہ حقیقت میں فسادی ہے جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ [البقرة: 11- 12]
اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین پر فساد انگیزی مت کرو ۔ تو وہ کہتے ہیں: ہم تو بہتری کے خواہاں ہیں خبردار! وہی فسادی ہیں لیکن انہیں شعور ہی نہیں ۔
ربانی منہج کی وجہ سے اسلام مستحکم معاشرے کیلیے سر چشمہ اور منبع ہے، اسلامی تعلیمات میں ہی نفسیاتی ، امنی اور معاشرتی استحکام پنہاں ہے، اسلام ہی بے چینی اور پریشانی کیلیے اکسیر ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَمَنْ يُرِدِ اللهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ [الأنعام: 125]
جس شخص کو اللہ ہدایت دینا چاہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہے اس کے سینہ میں اتنی گھٹن پیدا کر دیتا ہے، جیسے وہ بڑی دقت سے بلندی کی طرف چڑھ رہا ہو۔
اللہ تعالی نے زمین میں جتنے بھی خزانے رکھے اور انسانوں کے اختیار میں جو بھی وسائل دئیے ہیں اسلام ان سب کو استحکام پیدا کرنے کیلیے مختص کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ
وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے تابع کر رکھا ہے اس کی اطراف میں [تلاش رزق کیلیے]چلو پھرو اور اللہ کا رزق کھاؤ ، اسی کے پاس تمہیں زندہ ہو کر جانا ہے۔ [الملك: 15]
تمام کے تمام شرعی احکامات اور شرعی مقاصد و ضروریات حقیقت میں انسانی زندگی کے اندر استحکام پیدا کرنے کیلیے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی احکامات صادر ہی اس لیے کیے گئے ہیں کہ معاشرے میں شرعی مقاصد کو تحفظ ملے، دین و دنیا کی کامیابی کیلیے شرعی مقاصد کا حصول از بس ضروری ہے چنانچہ اگر شرعی مقاصد حاصل نہ ہوں تو دنیاوی مقاصد بھی حاصل نہیں ہو سکتے، بلکہ فساد اور باہمی قتل و غارت ہو گا نیز زندگی ختم ہو جائے گی، شرعی مقاصد یہ ہیں: دین، جان، مال، نسل اور عقل کا تحفظ۔
تعمیر و ترقی کے آرزو مند معاشرے سب سے پہلے استحکام کیلیے بنیادی چیزوں کو راسخ کرتے ہیں، یہی کام رسول اللہ ﷺ نے مدینہ آمد پر کیا؛ چنانچہ محبت اور سلامتی بھرے پیغام میں استحکام کے تمام مفاہیم جمع فرما دیئے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! سلام عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو، لوگ سوئے ہوئے ہوں تو رات کے وقت نماز پڑھو، جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے) اسلام نے استحکام کیلیے ٹھوس منہج دیا ، جس کی بنیاد بھائی چارے پر مبنی برتاؤ پر ہے، جس میں شدت اور انتہا پسندی کی بجائے باہمی تعاون کی فضا پروان چڑھائی گئی؛ اس منہج کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدینے کا معاشرہ سلامتی ، باہمی محبت اور استحکام کیلیے اپنی مثال آپ بن گیا۔
استحکام جن معاشروں سے چھن چکا ہے ان کے حالات پر نظریں دوڑانے والوں کو ایک لمحہ بھی بے چینی اور پریشانی کے بغیر کے نظر نہیں آئے گا، بلکہ وہاں پر لوگوں کو ہر وقت اپنے جان و مال کی فکر لگی رہتی ہے۔
استحکام کی قدر و قیمت انہی کو معلوم ہے جن سے یہ نعمت چھن چکی ہے ، جو اپنے علاقے سے در بدر ہو چکے ہیں ، اپنے اہل و عیال سے دور ہیں، جنہیں بھوک اور پیاس نے ستا رکھا ہے، یا جن کا ملک افراتفری اور بے چینی کے سامنے ڈھیر ہو چکا ہے، جہاں کی مٹی پر خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، خاک وطن پر کٹے پھٹے اعضا بکھرے پڑے ہیں اور ہر طرف چور اچکوں اور رہزنوں کا راج ہے۔
ان سب زمینی حقائق سے ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ گھر بار، مال و جان اور عزت آبرو کیلیے مستحکم امن و امان مومنین کیلیے اللہ تعالی کی زمین پر جنت اور رحمت ہے، بلکہ اقوامِ عالم اور معاشروں کو ملی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ [قريش: 3- 4]
پس اس گھر کے پروردگار کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور دہشت سے امن عطا کیا۔
کسی بھی صاحب عقل و دانش کو اس بات پر شک نہیں ہے کہ استحکام ہی خوشحالی کی بنیاد ہے، اور استحکام ہی دھرتی پر تعمیر و ترقی کیلیے پر فضا ماحول کا درجہ رکھتا ہے۔
استحکام کو دگر گوں کرنے کیلیے افواہیں اور جھوٹی خبریں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ، انہیں بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے آگے پھیلانے سے فتنے ابلتےہیں نیز اندرونی اختلافات اور گروہ بندی کو فروغ ملتا ہے، بالکل اسی طرح لوگوں کی زندگی میں اس وقت سب سے زیادہ توجہ حاصل کرنے والے سوشل میڈیا کے غلط استعمال نے بھی تربیت کے مفاہیم میں تصادم پیدا کر دیا ہے ، جن کی وجہ سے نظریات ڈگمگا گئے ہیں، بہت سے مسلمہ امور اور اخلاقی اقدار منہدم ہو چکے ہیں؛ گویا کہ سوشل میڈیا اس وقت دیوارِ استحکام میں دراڑیں ڈالنے کیلیے کامیاب ترین کدال ہے۔
حرام کاموں کے ارتکاب کو معمولی سمجھنا، سودی لین دین میں ملوث ہونے سے اقتصادی استحکام کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَمْحَقُ اللهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [البقرة: 276]
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اللہ تعالی کسی بھی گناہ گار نا شکرے کو پسند نہیں فرماتا۔
نعمتوں کے استعمال میں سرکشی کرنا ، اترانا، فضول خرچی اور بخیلی کے ساتھ نا شکری کرنا معاشرتی استحکام کیلیے خطرہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ [القصص: 58]
اور ہم نے بہت سی وہ بستیاں تباہ کر دیں جو اپنی عیش و عشرت میں اترانے لگی تھیں، یہ ہیں ان کی رہائش کی جگہیں جو ان کے بعد آباد نہیں ہوئیں اور ہم ہی ہیں آخر سب کچھ کے وارث ۔
ہمارے آس پاس کے حالات و واقعات ہمیں سکھا اور پڑھا رہے ہیں کہ ملکی استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، نیز استحکام کو ٹھوس بنانے کیلیے بھر پور جد و جہد کرنا اور ملکی استحکام میں دراڑیں ڈالنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں نمٹنا شرعی اور قومی ضرورت ہے۔
استحکام کو تحفظ ان ذرائع سے ملتا ہے: ایمان راسخ کیا جائے، کتاب و سنت پر سختی کے ساتھ پابندی ہو ، باہمی اتحاد کیلیے اختلافات بھلا کر عملی اقدامات کیے جائیں ، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
جو شخص راہ راست واضح ہو جانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے تو ہم اسے ادھر ہی پھیر دیتے ہیں جدھر کا اس نے خود رخ کیا ہے، پھر ہم اسے جہنم میں جھونک دیں گے جو بہت بری جگہ ہے۔ [النساء: 115]
استحکام کے حصول اور اسے دوام بخشنے کیلیے علم کے ذریعے اندھیروں کو چھٹنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ جہالت کی گھٹائیں دور کر کے تعمیر و ترقی کی کرن جگائے، افراط و تفریط میں ملوّث ہوئے بغیر غلط نظریات و عقائد سے محفوظ رکھے؛ کیونکہ علم ہی انفرادی خوشی کی بنیاد اور پورے معاشرے کیلیے ترقی کا راز ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ [الزمر: 9]
آپ کہہ دیں: کیا جاننے والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟
اللہ تعالی کے فضل کو یاد کر کے شکر الہی بجا لانے سے بھی استحکام کو دوام ملتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ [ابراھیم: 7]
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں جس نے مکمل طور پر درست انداز میں پیدا کیا اور صحیح تخمینہ لگا کر رہنمائی بھی فرمائی، میں اپنے رب کی لا تعداد و بے شمار نعمتوں پر اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہی بلند و بالا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺاس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے ہمہ قسم کی خیر بھلائی کی جانب امت کی راہنمائی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ،آپ کے صحابہ کرام اور آپ کے پیروکاروں پر ڈھیروں رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
استحکام کے حصول اور تحفظ کیلیےمعاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نظام قائم کریں، رفاہی اور خیراتی سرگرمیوں کو پروان چڑھائیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [آل عمران: 104]
اور تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہونا چاہئیں جو خیر و سلامتی کی دعوت دیں اور اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکتے رہیں اور ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں ۔
اس آیت کریمہ میں امت کیلیے استحکام کا بنیادی عنصر اسی وقت دیا گیا ہے جب امت میں باہمی کفالت، تعلق، محبت اور الفت پائی جائے گی، رفاہی اور خیراتی کام کسی بھی معاشرے کی خوشحالی اور آسودگی کا سبب ہوتے ہیں؛ کیونکہ وہاں پر یتیم، مسکین، بیوہ اور بیماروں سب کی زندگی خوش و خرم ہوتی ہے، رفاہی خدمات طبقاتی اختلافات اور لڑائی جھگڑوں کے درمیان آڑے آ جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]
جو شخص بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ [مستحکم]زندگی بسر کرائیں گے اور ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں ان کا اجر عطا کریں گے ۔
رسولِ ہُدیٰ پر درود و سلام پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسی کا تمہیں حکم دیا ہے:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجا کرو۔[الأحزاب: 56]
یا اللہ! محمد -ﷺ- پر ان کی اولاد اور ازواج مطہرات پر رحمت و سلامتی بھیج، جیسے کہ تو نے ابراہیم کی آل پر رحمتیں بھیجیں بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے اور محمدﷺپر انکی اولاد اور ازواج مطہرات پر برکتیں نازل فرما، جیسے تو نے ابراہیم کی آل پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگی والا ہے۔
یا اللہ! چاروں خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے راضی ہو جا، انکے ساتھ ساتھ اہل بیت اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا اور اپنے رحم و کرم اور احسان کے صدقےہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! اور کافروں کے ساتھ کفر کو بھی ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! اپنے اور دین کے دشمنوں کو نیست و نابود کر دے، یا اللہ! اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! جو کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بری نیت رکھے تو اسے اپنی جان کے لالے پڑ جائیں، اس کی مکاری اسی کی تباہی و بربادی کا باعث بنا دے، یا سمیع الدعا! یا اللہ! اپنی رحمت کے صدقے اس ملک کو اور سارے اسلامی ممالک کو خوشحال، ترقی یافتہ اور امن کا گہوارہ بنا دے، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول کا سوال کرتے ہیں اور ہم جہنم یا اس کے قریب کرنے والے ہر عمل اور قول سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہم جلدی یا دیر سے ملنے والی خیر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کی بھلائی کا تجھ سے سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جلدی یا دیر سے ملنے والے شر چاہے ہمارے علم میں ہے یا نہیں ہر قسم کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمارے دینی معاملات کی اصلاح فرما، اسی میں ہماری نجات ہے، یا اللہ! ہماری دنیا بھی درست فرما دے اسی میں ہماری معیشت ہے، اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا دے ہم نے وہیں لوٹ کر جانا ہے، اور ہمارے لیے زندگی کو ہر خیر کا ذریعہ بنا، اور موت کو ہر شر سے بچنے کا وسیلہ بنا دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہم تجھ سے ابتدا سے انتہا تک ، اول تا آخر ،جامع ترین ، ظاہر ی و باطنی خیر و بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور تجھ سے جنت میں بلند درجات کا سوال کرتے ہیں، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہماری مدد فرما، ہمارے خلاف کسی کی مدد نہ کر، یا اللہ! ہمیں غلبہ عطا فرما، ہم پر کسی کو غلبہ نہ دے، یا اللہ! ہمارے حق میں تدبیر فرما، ہمارے خلاف کوئی تدبیر نہ ہو، یا اللہ! ہمیں ہدایت دے اور ہمارے لیے ہدایت آسان بھی بنا دے، یا اللہ! ظالموں کے خلاف ہماری مدد فرما۔
یا اللہ! ہمارے تمام گناہ بخش دے، یا اللہ! ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کو بخش دے، یا رب العالمین!
یا اللہ! ، بیماروں کو شفا یا ب فرما، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبتیں رفع فرما، فوت شدگان پر رحم فرما، یا رب العالمین!
یا اللہ! ہمارے حکمران خادم حرمین شریفین کو حق بات کی توفیق دے اور تیری رہنمائی کے مطابق انہیں توفیق دے، اور ان کے تمام کام اپنی رضا کیلیے بنا لے ، یا رب العالمین! یا اللہ! تمام مسلم حکمرانوں کو کتاب و سنت کے نفاذ کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین!
یا اللہ! سرحدوں پر مامور ہمارے فوجیوں کی مدد فرما، یا اللہ! جہاں بھی ہمارے سیکورٹی کے جوان موجود ہیں ان کی حفاظت فرما، یا اللہ! ان کی حفاظت کیلیے اپنی خصوصی رحمت فرما، یا اللہ! ان کا حامی و ناصر ، مدد گار اور پشت پناہ بن جا، یا رب العالمین!
یا اللہ! ان کے اہل خانہ، اہل و عیال، اولاد، مال و دولت ہر چیز کی حفاظت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے [الأعراف: 23]
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے لیے ہمارے دلوں میں کدورت نہ رہنے دے اے ہمارے پروردگار! تو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے[الحشر: 10]
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [البقرة: 201]
ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90]
اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لیے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو ۔
تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا، اسکی نعمتوں کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کی یاد بہت ہی بڑی عبادت ہے، اور اللہ تعالی کو تمہارے تمام اعمال کا بخوبی علم ہے۔
۔۔۔۔