Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

اخبار الجامعہ

19 Feb,2012

گذشته دنوں فضیلة الشیخ القاری صهیب احمد میرمحمدي حفظه الله جامعه میں تشریف لائے انهوں نے بعد از نماز ظهر طلباء كرام سے عربی زبان میں خطاب كیا اس كا خلاصه قارئین كرام كی خدمت میں پیش كیاجارها هے۔

حمد وثناء كے بعد :

محترم سامعین ! نور اسلام سے پهلے لوگ شرك وضلالت‘ اخلاقی گراوٹ كی اتھاه گهرائیوں میں ڈوبے هوئے تھے اس صورت حال پر قرآن نے یوں روشنی ڈالی هے ۔

وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ  

حالانکہ اس سے پہلے وہ کھُلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔(الجمعہ:2)

سسكتی انسانیت كے لیے رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم كو قرآن عظیم دے كر مبعوث كیا ۔

لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(ابراهیم:۱)

’’(تاكه) آپ لوگوں كو (گمراهی كے)اندھیروں سے نكال كر روشنی میں لے كر آئیں۔‘‘

رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نےانسانیت كو اخلاق كریمانه كے اوج كمال تك پهنچایا ۔آج كی اس مجلس میں هم اپنے قلوب و اذهان كو اخلاقی برائیوں مثلاً حسد وبغض ، كینه وغیره سے پاكیزه كرنے كی كوشش كریں گے۔

رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم كا ارشاد گرامی هے :

لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَدَابَرُوا وَلَا تَنَافَسُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا(متفق علیه)

اے لوگو! بغض نهیں كرو ، ایك دوسرے كے خلاف (گندی سوچ) مت ركھو۔ اور نه هی (اخلاق رذیله میں) ایك دوسرے سے مقابله كرو بلكه اے الله كے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘

اسی طرح رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا ، و لا تؤمنوا حتى تحابوا ، ألا أدلكم على ما تحابون به ؟ قالوا : بلى ، يا رسول الله قال : أفشوا السلام بينكم ( صحیح مسلم)

اے مسلمانو! تم اس وقت تك جنت میں داخل نهیں هوسكتے جب تك مومن نه بن جاؤ اور جب تك تم آپس میںمحبت نهیں كرو گے مومن نهیں بن سكتے كیا میں تمهیںوه چیز نه بتاؤں جس پر عمل پیرا هوكر تم محبت كرنے لگو گے آپس میں سلام كو عام كرو۔‘‘

رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا كه كونسے لوگ افضل هیں تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا ۔

هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ ، لَآ إِثْمَ فِيهِ ، وَلاَ بَغْيَ ، وَلاَ غِلَّ ، وَلاَ حَسَدَ

سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1096

پرہیز گار پاک صاف وہ ہے کہ جس کے دل میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ بغض نہ حسد۔

جنت میں اهل ایمان كے دلوں سے كدورت كو ختم كردیاجائے گا ارشادباری تعالیٰ هے:

وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ   ؀(الحجر : ۴۷)

اُن کے دلوں میں جو تھوڑا بہت بغض ہوگا اسے ہم نکال دیں گے ، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے۔

سامعين! اپنے قلوب كو بغض سے پاك كریں ۔ كسی مسلمان كے بارے میں برا گمان نه ركھیں تو باری تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا جیسا كه مشهور حدیث هے كه ایك صحابی رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم جب سونے لگتے تھے تو اپنے دل سے بغض كو ختم كردیتے تھے اور هر مسلمان كو معاف كركے سوتے تھے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صحابی جلیل كو اسی عمل كی بناء پر جنتی قرار دیا تھا۔

باهمی منافرت اور حقد وحسد كے اسباب:

اس بیماری كے بنیادی اور اساسی اسباب درج ذیل هیں۔

۱۔ شیطان كی اطاعت :

باری تعالیٰ كا ارشاد هے :

اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا   ؀ بنی اسرائیل:53

دراصل یہ شیطان ہے جوانسانوں کے درمیان فساد ڈلوانے (وسوسہ اندازی کرنے ) کی کوشش کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

۲۔ غضب :

غضب اور غصه كرنے سے بھی آپس میں عناد پیدا هوتاهے اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ و سلم نے نصیحت طلب كرنے والے صحابی كو بار بار غصه نه كرنے كی تلقین كی ۔

۳۔چغل خوری :

چغل خوری معاشرے كو دیمك كی طرح چاٹ لیتی هے۔ باهمی تنازعا ت سے بچنے كے لیے چغل خوری سے محفوظ رهنا بهت ضروری هے ۔

باری تعالیٰ نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كو حكم دے امت مسلمه كو سمجھایاهے كه چغل خور كی اتباع نه كیا كریں۔

هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (القلم:۱۱)

طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔

رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا كه :

لا یدخل الجنة المنان

چغل خور جنت میں داخل نهیں هوگا ۔‘‘(نسائی)

۴۔ حسد :

رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا كه تم حسد سے بچو یه نیكیاں كو اسی طرح ختم كر دیتا هے جس طرح آگ لكڑیوں كو ختم كردیتی هے۔كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ(سنن ابن ماجه)

۵۔ مقابله بازی :

دنیا كی جاه وحشمت اور شان وشوكت حاصل كرنے كے لئے ایك انسان دوسرے انسانوں سے مقابله كرتاهے اس سے بھی دلوں میں كدورت پیدا هونے كا خطره هے۔

۶۔ كثرت مذاق :

مذاق كی مثال نمك كی طرح هے اگر كھانے میں نمك كی مقدار كم هوتو اس كو مزیدار بنا دیتاهے جبكه یهی نمك اگر زیاده هوجائے تو كھانے كو خراب بھی كردیتاهے اسی طرح اخلاقیات كی حدود میں رهتے هوئے جو مذاق كیا جائے وه انسان كی شخصیت كو مقبول عام بناتا مگر بعض اوقات مذاق كی كثرت انسان كی شخصیت كو قابل نفرت بنادیتی هے۔

بچاؤ :

قلوب واذهان كی روحانی بیماریوں سے بچنا اسی وقت ممكن هے جب هم درج هدایات پر عمل پیرا هونگے۔

cتقدیر الٰهی پر راضی رهنے سے بندے كیلئے فلاح وبهبود كے دروازے كھول دیے جاتے هیں ۔

c قرآن كریم كی تدبر كے ساتھ تلاوت كرنا۔

cجو آدمی قرآن كے ذریعے شفاء حاصل نهیں كرتااور اس كے ذریعے روحانی امراض كا علاج نهیں كرتا در حقیقت یهی آدمی نقصان اور دھوكے میں هے ۔

باری تعالیٰ نے تو قرآن كے باره میں ارشاد فرمایا : رحمة للعالمینــ’’ ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے ۔‘‘

دوسری جگه فرمایا : شفاء لما فی الصدور

ــ’’ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے۔‘‘

c دعا كرنا

c صدقه كرنا ۔ رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

’’اپنی بیماریوں كا علاج صدقه كے ذریعے كرو۔‘‘

cقرآن كریم نے فرضیت زكوٰ ةكی حكمت بیان كرتے هوئے فرمایا :

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا

’’اے نبی ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور ان كا تزكیه نفس كرو۔‘‘(التوبة :103)

مفسرین نے لكھا هے كه تطهرهم سے مراد دلوں كی پاكیزگی سے اور تزكیهم تزكیه نفس كی طرف اشاره هے۔

cیادركھئے! جس آدمی كے باره میں آپ اپنے دل میں بغض ركھتے هیں وه آپ كا اسلامی بھائی هے كا فر عیسائی یا یهودی نهیں كوئی عقل مند اپنے بھائی كے باره میں بری سوچ ركھ سكتاهے۔

cكثرت سے السلام علیكم كهنا ۔

دوسرے كے حالات كے باره میں غیر ضروری سوالات كی بھر مار سے بھی دلوں میں نفرت پیدا هوتی هے همیشه رسول مكرم كا یه فرمان ذهن نشین ركھیں۔

مِنْ حُسْنِ إِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لاَ يَعْنِيهِ

’’انسان كے بهترین اسلام كی دلیل یه هے كه وه غیر ضروری معاملات كو چھوڑ دیتاهے۔‘‘

cچغلی ، غیبت كو سننا چھوڑ دیں دلوں كی تما م بیماریاں آهسته آهسته ختم هوجائیں گی۔

همیشه اصلاح قلوب كی فكر كریں، رسول مكرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ(متفق علیه)

ــ’’جسد خاكی میں ایك خون كا لوتھڑا هے اگر وه درست هوجائے تو پورا جسم درست هوجاتا ہے اور اگر وهی ٹكڑا خراب هوجائے تو پورا جسم خراب هوجاتا هے (آگاه رهو كه)وه (ٹكڑا) دل هے۔‘‘

آخر میں شیخ صاحب نے اردو زبان میں نئے سال كے موقع پر سامعین كو نصیحت كرتے هوئے كها كه آج یه عزم كرلیں كه هم نے اس سال نیكی اور بھلائی كے وه كام كرنے كی كوشش كریںگے جو كه گزشته سال نهیں كرسكے۔

اپنے آنے والے سال كو گزرے هوئے سال سے بهتر بنائیں ۔ وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین

مدیر الجامعہ کی نصیحت:

مؤرخه ۳ صفر ۱۴۳۳ ھبمطابق ۲۹ دسمبر ۲۰۱۱ء جامعه ابی بكر الاسلامیه كے مدیر محترم جناب حضرت الامیرڈاكٹر محمد راشد رندھاوا حفظهلله نے صبح كی اسمبلی میں طلباء اور اساتذه كرام كو ناصحانه خطاب فرمایا۔

انهوں نے طلباء كرام كو قرآن كریم اور احادیث نبویه كو حفظ كرنے كی تلقین كی اور بتلایا كه جماعت مجاهدین كے سرخیل شاه محمد اسماعیل شهید رحمه الله نے ۸ سال كی عمر میں قرآن پاك حفظ كیا اور ۱۵ سال كی عمر میں انهوں نے مروجه كتابیں پڑھ لی تھیں ۔اور اسی طرح انهیں ۳۰ هزار احادیث مباركه زبانی یاد تھیں۔ میں نے لاهور كے ایك دار العلوم كا وزٹ كیا تھا جس میں تمام طلبه حافظ قرآن تھے اس لیے هم بھی چاهتے هیں كه همارا هر طالب علم فارغ هوتے وقت قرآن پاك كاحافظ هواور اسے كثرت كے ساتھ احادیث نبویه بھی یادهوں۔

انهوں نے طلباء كرام كو نماز اشراق نفلی روزے اور دین اسلام كے جمله احكامات پررغبت سے عمل كرنے كی تلقین كی۔

فضیلة الشیخ الحافظ مسعود عالم حفظه الله

ماه محرم میں جماعت اهلحدیث كے جید عالم دین استاذ الحدیث والتفسیر حافظ مسعود عالم صاحب جامعه میں تشریف لائے انهوں نے مختصر سے وقت میں طلباء كرام كو قیمتی پند ونصائح سے نوازا اس كا اردو میں ترجمه پیش خدمت هے ۔

محترم سامعین كرام ! آپ الله تعالیٰ كے پسندیده افراد هیں كیونكه آپ كو الله نے اپنے دین كے علم كے لیے منتخب فرمایا هے ۔ ارشاد باری تعالیٰ هے :

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا

(فاطر:۳۲)

’’پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لیے ) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ ‘‘

علم كی حقیقت كیا هے یادر كھئے علم حقیقی سے دلوں میں یقین پیدا هوتاهے اور معرفت الٰهی حاصل هوتی هے معلومات كا حصول علم كی حقیقت نهیں هے ۔ عصر حاضر میںحقیقی علم كی كمی هے اسی وقت كے بارے میں رسول اللهصلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا تھا :

إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ وَيَكْثُرَ الْجَهْلُ وَيَكْثُرَ الزِّنَا وَيَكْثُرَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَيَقِلَّ الرِّجَالُ وَيَكْثُرَ النِّسَاءُ (متفق علیه)

قیامت كی علامتوں میں سے یه كه ایك وقت آئے گا كه علم اٹھا لیا جائے گا جهالت كی كثرت هوگی ، زناكاری عام اور شراب خوری كثرت سے هوگئی عورتوں كی تعداد مردوں سے زیاده هوجائے گی۔‘‘اور ایك روایت میں هے كه عمل برائے نام ره جائے گا۔‘‘زیاده پڑھنا ، رٹا لگانا علم كی معراج نهیں بلكه علم حقیقی سے انسان كو باری تعالیٰ كی ذات كے باره میںیقین كامل ملتاهے۔

رسول اكرم صلی اللہ علیہ و سلم كاا رشاد هے :أَكْثَرُ مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُهَا

میری امت كے اكثر منافق كثرت سے پڑھنے والے هونگے كیا۔(مسند احمد،حدیث حسن لغیر ہ) (یعنی وه عمل میں سست هونگے) امام اهل السنه امام احمد رحمه الله فرماتے هیں كه میں نے جو حدیث بھی پڑھی اس پر عمل ضرورکیا

اپنے آپ كو زیور علم سے آراسته كریں تاكه آپ معاشرے كی اصلاح كرسكیں۔اپنے استاذ كی عزت كرنا ان سے ادب سے پیش آنا حصول علم كا اہم ذریعه هے ۔

رسول رحمت صلی اللہ علیہ و سلم كے اس فرمان كو اپنا حرز عمل بنالیں ۔

إن الهدي الصالح والسمت الصالح والاقتصاد جز من النبوة

عمدہ چال چلن، عمدہ اخلاق اور میانہ روی، نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے۔(ابوداوٗد:4776)

Read more...

اخبار الجامعہ

05 May,2019

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں النادی الادبی العربی الاسلامی کے تحت سالانہ تقریری مقابلہ مورخہ 17 مارچ 2019ء کو انعقاد پذیر ہوا جس میں جامعہ کے تمام اساتذہ کرام کو مدعو کیاگیا تھا۔تقریری مقابلہ حسب سابق عربی زبان میں تھا اور طلبہ کو چار عناوین دیئے گئے تھےجوکہ درج ذیل ہیں :

1 السنۃ ھی الإسلام

2 تحقیق التوحید

3 خطر الخوارج علی الامۃ الإسلامیۃ

4 العلم قبل القول والعمل

اور جامعہ کے چھ طلبہ شریک مقابلہ تھے، مقابلہ کا آغاز صبح دس بجے ہوا ، مقابلہ میں اسٹیج سیکٹری کے فرائض کلیۃ الحدیث الشریف کے طالب علم محمد تنویر نے دیئے ۔ پروگرام کا آغاز قاری صدیق الرحمن کی مسحور کن آواز میں تلاوت کلام پاک سے ہوا اس کے بعد باقاعدہ مقابلہ کا آغاز ہوا ، طلبہ بھر پور تیاری کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور انتہائی عمدہ انداز میں مذکورہ عناوین پر سیر حاصل گفتگو کی۔

اس کے بعد معہد الرابع کے طالب علم عمار اقبال کو دعوت خطاب دیا گیا انہوں نے انتہائی عمدہ انداز میں وقت کی اہمیت کے عنوان پر لب کشائی فرمائی۔

پروگرام میں مہمان خصوصی جامعہ کے شیخ الحدیث فضیلۃ الشیخ ابو عمر محمدیوسف المدنی حفظہ اللہ تھے ، طلبہ کی تقاریر کے بعد انہیں دعوت خطاب دی گئي ان کا موضوع اسلام میں سنت نبوی ﷺ کا مقام ومرتبہ تھا۔ مذکورہ عنوان پر روشنی ڈالتے ہوئے شیخ محترم کا کہنا تھا کہ سنت نبوی تشریع اسلامی کا دوسرا بنیادی ماخذ ہے اوراسلام کی اساس ہے سنت نبویﷺ کے بغیر قرآن کریم کا سمجھنا محال ہے۔ اور سنت نبوی ﷺکے بغیر اسلام کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا اور جو شخص سنت نبویﷺ کو چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرے جان لو کہ وہ راہِ راست سے بھٹک گیا۔ محدثین کرام نے حدیث نبوی کی تدوین کے لیے بے مثال قربانیاں دیں اور حدیث نبوی امت مسلمہ کا خاصہ ہے لہذا ہمیں اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور سنت نبوی کو مضبوطی سے تھامنا چاہیے۔

اس کے بعد جامعہ میں المعہد العلمی الثانوی کے مدیر فضیلۃ الشیخ عبد الجبار راشد حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی انہوں نے تقویٰ اور اصلاح نفس کے موضوع پر گفتگو کی اور طلبہ کو نصیحت کی۔ ان کے بعد نائب مفتی الجامعہ فضیلۃ الشیخ محمد شریف المدنی حفظہ اللہ کو مدعو کیاگیا انہوں نے علم کی فضیلت پر انتہائی بلیغ وفصیح انداز میں گفتگو کی اورطلبہ کو قیمتی نصیحتوں سے بہرہ ور کیا۔اور اپنی تقریر کے اختتام پر اپنے ہی قلم سے لکھے ہوئے اشعار سامعین کی سماعتوں کی نظر کیے اس کے بعد جامعہ کے مدیر التعلیم ڈاکٹر محمد حسین لکھوی حفظہ اللہ کو دعوت خطاب دیاگیا ، شیخ نے طلبہ اور اساتذہ کی غیر نصابی سرگرمیوں میں کاوشوں کو سراہا اور اس کے بعد نائب مشرف الجامعہ الشیخ خالد محمود الحذیفی حفظہ اللہ کو منادی کیاگیا انہوں نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

اور اختتام پر نتائج کا اعلان کیاگیا ، پہلی پوزیشن معہد الرابع کے طالب علم عبید الرحمن ، دوسری پوزیشن معہد الثانی کے طالب علم عتیق اللہ نے حاصل کی اور تیسری پوزیشن معہد الثالث کے طالب علم انیس الرحمن کے حصہ میں آئی۔

پوزیشن ہولڈرز طلبہ کو النادی الادبی العربی الاسلامی کی طرف سے کتب ،شیلڈز اور نقدی کی صورت میں انعام دیئے گئے۔

اور راقم نےآخر میں ارکان النادی الادبی العربی الاسلامی ہونے کی حیثیت سے جامعہ کے مدیر التعلیم ڈاکٹر محمد حسین لکھوی،مشرف العام فضیلۃ الشیخ محمدطاہر باغ ، شیخ الحدیث ابو عمر محمدیوسف المدنی ، مدیر المعہد عبد الجبار راشد، مدیر مجلہ’’اسوئہ حسنہ‘‘ ڈاکٹر مقبول احمد مکی ، مدیر الامتحانات ڈاکٹر افتخار احمد شاہد ،نائب مفتی الجامعہ الشیخ محمد شریف المدنی اوردیگر تمام اساتذہ کرام اور منتظمین حفظہم اللہ ورعاہم کا تہہ دل سے شکر یہ ادا کیاکہ انہوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر پروگرام کو بارونق بنایا اور طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی جملہ کاوشوں کو قبول فرمائے اور انہیں بہترین اجر سے نوازے۔ آمین

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم

Read more...

سعادتیں سمیٹنے چلا...

22 Jun,2014

اسلام میں علم اور علم حاصل کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے کیونکہ علم ہی انسان کو اچھائی اور برائی نیکی و بدی اور خیر و شر میں تمیز کرنا سکھاتا ہے انسان کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر علم ہی چلاتا ہے۔

غرض علم ہی اللہ کی پہچان اور اس کے احکام جانتے اور معلوم کرنے کا واحد ذریعہ ہے اسی بنا پر اسلام نے علم کے حصول پر لوگوں کو ابھارا اور اس کی نشر و اشاعت کی ترغیب پر زور دیا ہے مزید یہ کہ افضلیت اور فوقیت کا مستحق بھی اہل علم کو قرار دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (سورۃ الزمر: 9)

آپ کہہ دیجئے کہ علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں؟

یعنی کہ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے بلکہ اہل علم کے درجات بلند کرنے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے۔

فرمان ربانی ہے:

يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ 11)

اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔

دین کا علم حاصل کرنا یہ وہ سعادت ہے جو خوش نصیب شخص کو ہی حاصل ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ رب العزت جس سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسی کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتے ہیں۔

جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ

(صحيح البخاري (1/ 25)، صحيح مسلم (2/ 718)

جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔

اس حدیث سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کو حاصل کر رہے ہوتے ہیں یہ لوگ اللہ کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اللہ نے بھلائی کا ارادہ کیا ہوتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس راستے کو اختیار کرنے کی بدولت اللہ رب العزت جنت کا حصول آسان فرما دیتے ہیں اور انسان اپنی زندگی کے اصل مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ (سنن الترمذي ت شاكر (5/ 28)

جو شخص علم (دین) کی تلاش کے لیے کسی راستے پر چلے تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔

جو شخص علم دین میں سمجھ حاصل کر کے لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو یا اس کی نشر و اشاعت کرتا ہو اس کی مثال ایک سر سبز و شاداب خطے کی طرح ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ اللہ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال ایک زور دار بارش کی طرح ہے جو برستی ہے تو عمدہ زمین اس کو قبول کر کے گھاس اور خوب سبزی اگا دیتی ہے اور کوئی زمینی خطہ ایسا بھی ہوتا ہے جو سخت ہونے کی بنا پر پانی روک لیتا ہے جس کے ذریعے اللہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

وہ اس کو پیتے اور پلاتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں مگر بعض خطے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بالکل چٹیل ہوتے ہیں جو نہ تو پانی روک سکتے ہیں اور نہ گھاس بھوس اگا سکتے ہیں تو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ کے دین میں سمجھ داری حاصل کی اور میرے پیغام کے ذریعے اسے فائدہ پوا اس طرح اس نے اس علم کو خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور (تیسری) مثال اس شخص کی ہے جس نے (اس علم کی خاطر) اپنا سر ہی نہیں اٹھایا اور میرے ذریعے بھیجی ہوئی اللہ کی ہدایت کو قبول ہی نہیں کیا۔ (صحیح بخاری کتاب العلم)

اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ دین کا علم حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دینے کے علاوہ قرآن و حدیث کے فیض کو زیادہ سے زیادہ عام کرتے ہیں وہ لوگ سب سے بہتر ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے:

مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ العِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ (سنن الترمذي ت شاكر (5/ 29)

جو شخص علم کی جستجو میں نکلتا ہے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں ہوگا۔

سیدنا ابو امامہ t سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ایک آدمی پر ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے اور آسمان و زمین کی مخلوق حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی تک لوگوں بھلائی سکھانے والوں پر رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔ (ترمذی، ابواب العلم)

اس حدیث میں عالم سے مراد قرآن و حدیث کا وہ عالم ہے جو فرائض و سنن کی پابندی کے ساتھ تعلیم و تعلم میں  مصروف رہتا ہے اور عابد سے مراد وہ شخص ہے جو اکثر و بیشتر اپنا وقت ذکر و اذکار میں گزارتا ہے اور اس کا فائدہ اس کی ذات تک محدود رہتا ہے جبکہ عالم کے علم کا فیض دوسروں تک بھی پہنچتا ہے۔

دین کا علم حاصل کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

‏ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:‏

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (ابن ماجه (1/ 81)‏

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

اور پھر دین کا علم حاصل کرنا یہ ایک بہت بڑی سعادت وخوش نصیبی ہے اوپر ذکر کی گئیں فضیلت اور سعادتیں اسی شخص کے لیے ہیں جو اس علم کو حصول ‏رضا الٰہی کے لیے حاصل کرے اور اخلاص کے ساتھ اس کی نشر و اشاعت اور ترویج کرنے کی سعی کرے اور جو شخص اپنی اولاد کو اس علم کے حاصل ‏کرنے کے لیے وقف کرے گا اس کے لیے ان شاء اللہ اس کی یہ اولاد صدقہ جاریہ بن جائے گی اور اس مختصر زندگی کے خاتمے کے بعد بھی ان شاء اللہ ‏اس کو اس کا اجر و ثواب ملتا رہے گا۔‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:‏

‏ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، وَعِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، وَوَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (سنن النسائي (6/ 251)‏

جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا ‏نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر کرتی رہے۔

اسلام میں تعلیم اور دعوت الی اللہ کی بہت اہمیت ہے اگر کسی کی دعوت سے ایک شخص بھی ہدایت یافتہ بن گیا تب بھی وہ شخص کامیاب و کامران ہو جائے گا ‏جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ سیدنا علی‏ سے اس طرح فرمایا: اللہ کی قسم تمہارے ذریعے اللہ اگر کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو ‏یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہوگی۔ (مسلم فضائل صحابہ)‏

یعنی دنیا و آخرت کی خوش نصیبی و کامیابی اللہ کے دین کے حصول اور اس پر عمل کرنے پر محیط ہے لہٰذا ہمیں خود اور اپنی اولاد کو اللہ کے اس دین کے علم کا ‏طالب بننا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی سعادتیں اور کامرانیاں حاصل کرسکیں۔

Read more...

مدارس دینیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبۂ کرام کو نصیحتیں

17 Dec,2017

خطبہ مسنونہ کے بعد:
اَعُوذُ بِاللّٰہِ السَّمِیعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِہِ وَنَفْثِہِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم{قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَیَعْلَمُوْنَ} (الزمر 9) وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ‘(سنن أبي داود: 3641)
انتہائی عزیز طلبہ اور تمام سامعین و حاضرین! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس قسم کی دینی مجالس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے بہت سے ساتھیوں کی زیارت ہوجاتی ہے۔نبیuکا فرمان ہے:اللہ فرماتاہے:
وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَزَاوِرِینَ فِيَّ
’’جو لوگ میری خاطر زیارتیں کرتے ہیں اور میرے لیے ملاقاتیں کرتے ہیں ان کے لیے میری محبت فرض ہو جاتی ہے۔‘‘(صحیح الترغیب والترھیب: 349/2)
میں ضرور ان سے محبت کروں گا۔ اور ضرور انھیں اپنا محبوب بنالوں گا۔ تو یہ ایک عظیم الشان فائدہ ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے اس زمین پر اللہ تعالیٰ کی جنت دیکھنی ہو تو وہ علماء کی مجالس دیکھ لے۔ علماء کی مجالس دروس جس میں قَالَ اللّٰہُ اور قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ کی صدائیں گونجتی ہیں، یہ اس زمین پر اللہ کی جنتیں ہیں۔ یہ بات انھوں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ نبی u کی حدیث ہے:
اِذَا مَرَرْتُمْ بِرِیَاضِ الْجَنَّۃِ فَارْتَعُوا
’’جب تم جنت کے باغیچوں کے پاس سے گزرو تو ضرور کچھ کھا،پی لیا کرو۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: جنت کے باغیچے کیا ہیں؟ تو رسول اللہe نے ارشاد فرمایا:
حِلَقُ الذِّکْرِ (جامع الترمذي:3510)
اس زمین پر قائم جو علماء کی مجالس ہیں، جن میں کتاب و سنت کا بیان ہوتا ہے، ذکر ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا، اَخْبَرَنَا کی صدائیں گونجتی ہیں اورقَالَ اللّٰہُ وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِکی آوازیں بلند ہوتی ہیں، یہ حلق الذکر اس ز مین پر قائم جنت کے باغیچے ہیں۔ تو ان مجالس کی بڑی شان ہوتی ہے۔ جو لوگ بڑے ذوق و شوق سے ان میں شریک ہوتے ہیں وہ ان مجالس میں شریک نہیں ہوتے بلکہ درحقیقت اللہ کی طرف آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس کی دلیل صحیح بخاری ہی کی حدیث ہے۔ نبیu درس دے رہے تھے۔ تین افراد وہاں آئے۔ ان میں سے ایک شخص نے قریب ایک خالی جگہ دیکھی۔ بڑے وقار سے آگے بڑھتے بڑھتے اس خالی جگہ آکر بیٹھ گیا۔ نبیu کے بالکل سامنے۔ دوسرا شخص شرما گیا۔ آگے نہ بڑھا لیکن وہیں بیٹھ گیا۔ اور تیسرا اپنے گھر کو چلا گیا۔ آپe نے تینوں کا یہ عمل دیکھا اور پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے گھر چلا گیا اور مجلس درس میں نہیں بیٹھا۔
فَأَعْرَضَ فَاَعْرَضَ اللّٰہُ عَنْہُ
اس نے مجلس سے اعراض کیا، اللہ نے اس سے اعراض کرلیا۔ اور دوسرا جو پیچھے بیٹھ گیا۔
فَاسْتَحْيٰ فَاسْتَحْيَ اللّٰہُ مِنْہُ‘
وہ شرما گیا، اللہ تعالیٰ اس سے شرما گیا، معنی اللہ اس کو عذاب نہیں دے گا۔ اس عمل کی بنا پر اللہ تعالیٰ اسے عذاب نہیں دے گا۔ اور تیسرا شخص جو آگے بڑھا اور آگے بیٹھنے کی کوشش کی۔
فَاٰوٰی اِلَی اللّٰہِ فَاٰوَاہُ اللّٰہُ
’’وہ درحقیقت اللہ کی طرف آگے بڑھا اور اللہ نے اسے اپنے ساتھ ملالیا۔‘‘(صحیح البخاري: 474)
یہ اس مجلس کی عظمت ہے۔ جتنا ذوق اور شوق ہوگا، جتنا آگے بیٹھنے کی حرص ہوگی اتنے وہ قدم اللہ تعالیٰ کی طرف اٹھ رہے ہیںاور اللہ اس بندے کو ساتھ ملا لیتا ہے۔
اِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ اِلَیَّ شِبْراً تَقَرَّبْتُ اِلَیہِ ذِرَاعًا، وَاِذَا تَقَرَّبَ مِنِّي ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا وَاِذَا اَتَانِي مَشْیًا اَتَیتُہُ ھَرْوَلَۃً
’’میرا بندہ اگر ایک بالشت میری طرف آئے گا میں ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھوں گا۔ اور اگر ایک ہاتھ وہ بڑھے گا میں دو ہاتھ بڑھوں گا اور اگر وہ چل کے آئے گا میں اس کی طرف دوڑ کے جائوں گا۔‘‘(صحیح البخاري: 7536)
یہ اللہ رب العزت کی رحمتیں اور اس دین کی وسعتیں اور سماحتیں کہ اللہ تعالیٰ کس قدر اپنے بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ مجالس، مجالس حدیث ان میں بڑی ہیبت ہوتی ہے، بڑی ان میں عظمت ہوتی ہے۔
مَا اجْتَمَعَ قَومٌ فِي بَیتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَیَتَدَ رَسُونَہُ بَینَھُمْ اِلَّا غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ وَحَفَّتْھُمُ الْمَلَائِکَۃُ وَذَکَرَھُمُ اللّٰہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ (سنن أبي داود: 1455)
’’اگر کچھ لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھے ہوں، مسجد میں اور علمی مذاکرہ چل رہا ہو، 1ان مجالس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت ڈھانپ لیتی ہے، 2 فرشتے ان مجالس پر سایہ کرتے ہیں۔ 3 اللہ رب العزت اس مجلس کے شریک ہر شخص کا نام لے کر ذکر کرتا ہے کہ فلاں ہے، فلاں ہے، فلاں ہے۔‘‘
رحمت بھی ڈھانپ لیتی ہے، ملائکہ بھی اپنے پروں کا سایہ کرتے ہیں اور سامنے طلاب علم کا جم غفیر ہوتا ہے۔ امام ذہبیa نے سیر اعلام النبلاء میں محمد بن سلام البیکندیa کے ترجمے میں ایک چھوٹا سا واقعہ لکھا ہے۔ محمد بن سلام البیکندی امام بخاری کے استاد تھے۔ کثرت تعداد طلاب کی بنا پر ان کی مجلس مشہور تھی۔ طلبہ کا بے تحاشا ایک جم غفیر ہوتا تھا۔ اور خالص علم سے ربط رکھنے والے تھے۔ ان کا قول سیر ہی میں ہے کہ چالیس سال گزرچکے ہیں میں نے بیکند کا بازار نہیں دیکھا۔ بیکند ان کا علاقہ تھا۔ چالیس سال سے اپنے شہر کے بازار میں نہیں گئے۔ ہمیشہ علم حدیث اوڑھنا بچھوناتھا۔ توگھر تشریف فرما تھے۔ باہر دروازے پے دستک ہوئی۔ اٹھ کے دروازہ کھولا۔ ایک شخص باہر کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ میں انسان نہیں بلکہ جن ہوں اور ایک تو اپنے جنوں کے سردار کا سلام کہنے آیا ہوں اور یہ خبر دینے آیا ہوں کہ آپ کی مجلس درس میں جتنے آپ کے طلبہہوتے ہیں اس سے کئی گنا زیادہ جنات بھی ہوتے ہیں۔(سیر أعلام النبلاء للذھبی: 629/10)
یہ ایک عالم کی شان ہے۔ طلاب کا جم غفیر، فرشتے اوپر سایہ کیے ہوئے، رحمت نے ڈھانپا ہوا ہے اور جن بھی ایک کثیر تعداد میں موجود ہوتے ہیں جو آکر حدیثوں کو سنتے ہیں اور اس نصیحت کو سنتے ہیں۔ یقینا یہ مجالس بڑی مہتم بالشان ہوتی ہیں۔ اہل علم کا یہ طبقہ انتہائی محترم ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں علم و عمل کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان اداروں کو، مدارس کو قائم ودائم رکھے۔ یقینا یہ مدارس وہ مراکز ہیں جو حفاظت دین کے مضبوط قلعے ہیں اور جہاں سے علماء تیار ہوتے ہیں اور پھر میدان عمل میں اس علم کو نشر کرتے ہیں۔ امت کی خدمت کرتے ہیں۔ اور علم نافع اور عمل صالح کی ترویج کرتے ہیں۔ یہ علماء کا کردار ایک مثالی کردار ہے۔ ایک تاریخی کردار ہے۔
الْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاْءِ وَإِنَّ الْاَنْبِیَآءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلَا دِرْھَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ
علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کا ترکہ درہم و دینار نہیں ہے، روپیہ پیسہ نہیں ہے بلکہ انبیاء کا ترکہ علم ہے۔
فَمَنْ اَخَذَہُ اَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ(سنن أبي داود: 3641)
جس نے اس علم کو سمیٹ لیا اس نے خیر کا، برکت کا، سعادت کا ایک بڑا وسیع حصہ سمیٹ لیا۔
سیر اعلام النبلاء ہی میں امام بخاریa کے ترجمے میں غالباً ان کے شاگرد اور صحیح بخاری کے راوی امام فربریa فرماتے ہیں کہ میں ایک دن اپنے شیخ کے سامنے بیٹھا تھا۔ امام بخاری کے سامنے اور آپ احادیث املاء کرارہے تھے۔ نشست بڑی لمبی ہوگئی۔ مجھ پر کچھ تھکاوٹ کے آثار امام بخاری نے محسوس کیے۔ میری ڈھارس بندھائی یہ کہہ کر کہ طِبْ نَفْسًا اپنا جی اچھا کرلو اور خوشی محسوس کرو۔ فَاِنَّ التُّجَّارَ فِي تِجَارَاتِھِمْتاجر اپنی تجارتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ فَاِنَّ اَھْلَ الصّنَاعَاتِ فِي صَنَاعَاتِھِمْ اور صنعت کار اپنی صنعتوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔وَاَنْتَ مَعَ النَّبِیِّ وَاَصْحَابِہِ اور تم رسول اللہe کے ساتھ ہو اور رسول اللہe کے صحابہ کے ساتھ ہو۔(سیرأعلام النبلاء:445/12)
’عَنْ اَنَسٍ، عَنْ اَبی ھُرَیرَۃَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عَائِشَۃَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ
صحابہ کا تذکرہ اور رسول اللہ eکا تذکرہ۔ تمھاری یہ مجلس، ہمیشہ تم اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ہو اور صحابہ کے ساتھ ہو۔
اَھْلُ الْحَدِیثِ ھُمُوا اَھْلُ النَّبِيِّ
وَاِنْ لَمْ یَصْحَبُوا نَفْسَہُ اَنْفَاسَہُ صَحِبُوا
اہل الحدیث ہی درحقیقت اہل النبی ہیں۔ اگرچہ نبیu کی ذاتِ مقدسہ کی صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا لیکن نبیu کی پیاری اور بابرکت سانسوں کے دن رات کے ساتھی ہیں۔ (قواعد التحدیث: 10/1)
جو حدیثیں آپ کی صادر ہوتی ہیں، آپ کی مبارک سانسوں کے ساتھ ان سانسوں کے دن رات کے ساتھ۔ ان سے بہتر کوئی جماعت ہوسکتی ہے؟ جماعت اہلحدیث سے بہتر کوئی جماعت ہوسکتی ہے؟ علامہ ابن قیمa اپنے نونیہ میں فرماتے ہیں:
یا مبغضا اھل الحدیث وشاتما
أبشر بعقد ولایۃ الشیطان
اے اہل الحدیث سے بغض رکھنے والے اور اہل الحدیث کو گالیاں دینے والے خوش ہوجا، اپنے اس عمل سے تونے شیطان کی دوستی قائم کرلی۔ (قصیدۃ نونیۃ ص:163)
اہل الحدیث کو برا بھلا کہہ کر درحقیقت تو شیطان کا دوست بن چکا۔ بس دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں صحیح معنی میں اپنے پیارے پیغمبر کی احادیث کی خدمت کی توفیق عطا فرمادے۔
میرے عزیز طلبہ! آپ اس درس گاہ میں جو بڑی محترم اور ذی وقار ہے اور بہت سی انفرادیتوں کے ساتھ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔ یہ شرف کی بات ہے کہ آپ یہاں کتاب و سنت کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حرص میں اور آپ کے شوق میں اضافہ فرمائے۔ یہ تحصیل اللہ تعالیٰ کی رضا میں ہر لحظہ اضافے کا موجب بنتی ہے۔نبیu کی حدیث ہے۔
مَنْھُومَانِ لَا یَشْبَعَانِ مَنْھُومٌ فِی الدُّنْیَا وَمَنْھُومٌ فِی الْعِلْمِ‘ (شعب الإیمان: 271/7)
دو حریص ہیں وہ کبھی سیر ہوتے ہی نہیں۔ ایک دنیا کا حریص ہے۔ جتنا مرضی دنیا کما جائے بس نہیں کرے گا کہ اب تو میں اللہ سے کچھ شرم کرلوں اور عبادات کے لیے، اللہ کے ذکر کے لیے اوقات مختص کرلوں۔ نہیں، اگر دو فیکٹریاں ہیں تو تیسری ہونی چاہیے۔ پانچ ہیں تو پھر دس ہونی چاہئیں۔ اسی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔
لَوکَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ ذَھَبٍ لَا بْتَغٰی الثَّالِثَ
ابن آدم کو دو سونے کی وادیاں مل جائیں تو بس نہیں کرے گا بلکہ تیسری وادی کی کوشش میں جت جائے گا۔
وَلَا یَمْلأَءُ جَوفَ ابْنِ آدَمَ اِلَّا التُّرَابُ
’’ابن آدم کا پیٹ تو قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔‘‘(مسند أحمد: 117/5)
اچانک موت آجائے گی، قبر میں دھکیل دیا جائے گا۔ اب قبر کی مٹی اس کا پیٹ بھرے گی۔ اب بس کرے گا۔ جو مال کمایا اسے ورثاء تقسیم کررہے ہیں اور وہ اس مال کے ایک ایک درہم کا اللہ کو حساب دے رہا ہے۔ یہ کہاں سے کمائے تھے؟ اپنی ذرائع آمدنی بتائو۔ یہ بینک بیلنس کہاں سے بنا؟ اللہ تعالیٰ کو حساب دے رہا ہے۔ ورثاء اس مال کو تقسیم کررہے ہیں۔ یہ دنیا کا حریص ہے۔ اور دوسرا علم کا حریص ہے۔ اس کا پیٹ بھی نہیں بھرتا۔ تحصیل کا شوق، اضافہ علم کا شوق، دعائیں کرتا ہے:
رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا’’یااللہ! علم کو اور بڑھا دے۔‘‘ (طٰہٰ 114:)
یہ شوق اس پر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔ سیدناابن مسعودt اس حدیث کے راوی ہیں۔ فرماتے ہیں:
اَمَّا طَالِبُ الْعِلْمِ فَیَزْدَادُ رِضَا الرَّحْمَانِ
جو صاحب علم ہیں، جو علم کا حریص ہے وہ جس قدر علم حاصل کرتا ہے اسی قدر رحمان کی رضا میں بڑھتا جاتا ہے۔(ادب الدنیا والدین للماوردی، ص: 70)
ایک حدیث پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ ایک اور حدیث پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ ایک آیت کی تفسیر پڑھی رحمان کی رضا اور بڑھ گئی۔ دیگر جو مضامین ہیں، فقہ ہے، اصول فقہ ہے، اصول حدیث، یہ سب علوم دینیہ ہیں۔ جوں جوں پڑھے گا رحمان کی رضا بڑھتی جائے گی۔ حتی کہ نحووصرف کا علم، یہ گرائمر، عربی کے قواعد۔ کچھ طلبہ سمجھتے ہیں کہ ہم تو قرآن و حدیث پڑھنے آئے ہیں۔ وہ نحووصرف پر توجہ نہیں دیتے۔ سبق میں غیر حاضریاں کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ تو اساس ہے۔ کتاب و سنت کے فہم کی اساس یہ گرائمر ہے، علم نحو اور علم صرف ہے۔ شام کے ایک محدث علامہ جمال الدین قاسمیa ان کی مایہ ناز کتاب ہے قواعد التحدیث، اس میں فرماتے ہیں کہ جو طالب علم نحووصرف پر محنت نہیں کرتا اس کا شمار اس وعید میں ہوسکتا ہے، اس پر یہ حدیث منطبق ہوسکتی ہے:
مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ
’’مجھ پے جان بوجھ کے جھوٹ باندھنے والا اپنا ٹھکانہ جہنم بنائے۔‘‘(صحیح البخاري: 110)
وہ کہتے ہیں کہ’لِأَنَّہُ بِلَحْنِہِ کَاذِبٌ عَلَیھِنَّ‘ وہ جو غلطی کررہا ہے، حدیث مرفوع ہے وہ منصوب پڑھ رہا ہے۔ حدیث منصوب ہے وہ مرفوع پڑھ رہا ہے۔ (قواعد التحدیث ص:140)
بعض علماء نے لکھا کہ طالب علم نحووصرف پر محنت نہیں کرتا۔ وہ ایک حدیث کے متن میں ایک غلطی کرتا ہے، پھر دوسری کرتا ہے، پھر تیسری کرتا ہے، نتیجہ یہ کہ عربی کی حدیث فارسی کی بن جاتی ہے۔ یہ اللہ کے پیغمبر پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ تو نحو پڑھو، صرف پڑھو، گردانیں یاد کرو، فاعل اور مفعول کے احکام پڑھو، جوں جوں پڑھتے جائو گے رحمان کی رضا بڑھتی جائے گی۔ کیونکہ ان قواعد کو پڑھنے میں نیت کیا ہے؟ فہم کتاب و سنت۔ کتاب و سنت کی تسہیل یہ آپ کی نیت ہے۔ تو طالب علم، کیا اس کی شان ہے! روزانہ اگر دس اسباق ہیں اور سیکڑوں مسائل پڑھتا ہے تو یہ رحمان کی رضا میں اضافے کے سیکڑوں مواقع ہیں۔ کوئی دنیا کا طبقہ اس کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ نہیں کرسکتا۔
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیْلَۃَ الْبَدْرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ
ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر، عبادت گزار پر، ایک طرف عالم، ایک طرف عبادت گزار، عبادت گزار کون ہوتے ہیں؟ سخی۔ دن رات مال خرچ کرنے والے۔ عبادت گزار کون ہوتے ہیں؟ راتوں کو قیام کرنے والے، دنوں کو روزے رکھنے والے، جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے، یہ سب عبادت گزار ہیں۔ فرمایا کہ ایک عالم اور ایک عابد میں اتنا فرق ہے جتنا چودھویں کے چاند میں اور ستاروں میں فرق ہے۔ جو عبادت گزار ہیں وہ ستارے ہیں اور ان کے بیچ میں عالم چودھویں کا چاند ہے۔ یہ شرف ہے۔ یہ شرف شریعت نے دیا۔
لیکن میرے عزیز طلبہ اور معزز سامعین حضرات! اس شرف کے بقا کے لیے کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ امام ابو عاصم النبیل امام بخاری کے شیخ، اپنے نام کے ساتھ ساتھ بڑے نبیل تھے۔ نام بھی نبیل اور عملاً بھی بڑے نبیل تھے۔ ان کا ایک قول ہے:
مَنْ طَلَبَ ھَذَا الْحَدِیثَ فَقَدْ طَلَبَ اَعْلٰی الْاُمُورِ فَیَجِبُ اَنْ یَّکُونَ خَیرُ النَّاسِ‘(تاریخ دمشق: 365/24)
جو اس حدیث کا طالب ہے وہ یہ بات نوٹ کرلے کہ وہ سب سے بہترین چیز کا طالب ہے۔ ڈاکٹر جو ہے ڈاکٹری پڑھ رہا ہے، انجینئر انجینئرنگ پڑھ رہا ہے۔ تم حدیث پڑھ رہے ہو، تم سب سے ممتاز ہو، متفرق ہو اور سب سے بہترین چیز کے طالب ہو، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو اور اپنی ذمہ داری کو پہچانوں اور وہ یہ ہے کہ اب تم سب سے بہترین ہو بھی جائو۔ ایسا بہترین ہوجائو کہ تمھارے ایک ایک عمل میں، بلکہ ایک ایک حرکت میں، اٹھنے بیٹھنے میں، گفتگو میں اللہ کے پیارے پیغمبر کی خوشبو آئے۔ سنت کی خوشبو آئے۔ اس طرح خیرالناس ہوجائو۔ سب سے بہترین ہو جائو۔ تو حدیث کا طالب اپنے اس منصب میں انتہائی شرف کا مستحق ہے لیکن کب؟ جب وہ واقعتا خیرالناس بن جائے۔ اور سب سے بہتر انسان بننے کی کوشش کرے، اعتقادی طور پے، منہجی طور پے، سیاسی طور پے، عملی طور پے، اخلاقی طور پے سب سے بہترین بننے کی کوشش کرے۔ امام شافعیa فرمایا کرتے تھے:
اِذَا رَأَیْتُ اَحَداً اَھْلَ الْحَدِیثِ فَکَاَنِّی رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ
جب میں کسی اہل حدیث کو دیکھتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے رسول اللہe کو دیکھا۔ کیونکہ اہل الحدیث اللہ کے پیارے پیغمبر کی سنت میں، عمل بالسنہ میں فنا ہوتا ہے۔ اس کی عبادت، اخلاقیات، کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، سب سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ اس دور کے اہل حدیث تھے۔ آج ہم بھی سوچیں، غور کریں، آئینہ دیکھ کر اپنا چہرہ، چہرے سے شروع ہوجائیں کہ سنت رسول کا رنگ موجود ہے؟ ہمیں دیکھ کر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اللہ کے پیغمبر کو دیکھ لیا، صحابہ کرام کو دیکھ لیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے؟ تو حدیث کا طالب ہونا یا اہل الحدیث ہونا ایک شرف تو ہے مگر ایک عظیم ذمہ داری بھی ہے کہ اپنے اوپر حدیث کو منطبق کرنا اور حدیث پر عمل کرنا۔ دیکھیں رسول اللہe نے اس علم کے تعلق سے بلا تمہید دو راستے بیان فرمائے۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ فرمایا کہ
وَالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ أَوْعَلَیکَ (صحیح مسلم: 223)
’’یہ قرآن حجت ہے آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف۔‘‘
کتاب و سنت کے ساتھ تعلق قائم کرنے والو! بس یہ دو ہی باتیں ہیں۔ یہ قرآن و حدیث یا تو حجت ہے آپ کے حق میں یا پھر آپ کے خلاف۔ اگر ان سے تعلق قائم کرو گے، پڑھو گے تو پھر یہ سارا سلسلہ کامیابی پر منتج ہوگا۔
اِقْرَؤُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّہُ یَأْتِي یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیعًا لِأَصْحَابِہِ
یہ قرآن قیامت کے دن آئے گا اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرتا ہوا۔ (صحیح مسلم: 804)
حجت بن رہا ہے۔ بلکہ بعض سورتوں کے بارے میں، مثلاً: سورۂ ملک ہے، فرمایا:
تَشْفَعُ لِصَاحِبِھَا حَتَّی یُغْفَرَلَہُ (سنن أبي داود:1400)
سورۂ ملک اس وقت تک شفاعت کرتی رہے گی، جب تک بندے کو جنت میں پہنچا نہ دے۔
سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران، جن کو قرآن کے دو نور کہا گیا ہے تُجَادِلاَنِ عَنْ صَاحِبِھِمَا‘یہ دو سورتیں آئیں گی اپنے پڑھنے والے کے لیے لڑیں گی، جھگڑیں گی، اس وقت تک جھگڑا کرتی رہیں گی جب تک اس کو جنت میں پہنچا نہ دیں۔(صحیح مسلم: 804،وجامع الترمذي: 2883)
حُجَّۃٌ لَکَ اگر پڑھو گے، حق ادا کرو گے، عمل کرو گے، کتاب و سنت کو اپنے اوپر نافذ کرو گے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو’أَوْ عَلَیکَ‘ پھر دوسرا راستہ یہ سارا علم آپ کے خلاف حجت ہوگا۔ جب اللہ تعالیٰ سامنے کھڑا کرلے گا۔ پانچ سوال ہر بندے سے ہونے ہیں۔ پانچواں سوال یہ ہے: مَاذَا عَمِلَ فِیمَا عَلِمَ (جامع الترمذي: 2416)
کہ جو تونے کتاب و سنت کا علم حاصل کیا، تمھیں یہ نعمت ہم نے دی اور کتاب و سنت کے نور سے تمھارے باطن کو منور کیا، اس کے مطابق اپنا عمل پیش کرو۔ اپنے علم کے مطابق اپنا عمل پیش کرو۔ اب اگر عمل نہیں ہے تو پھر یہ سارا علم آپ کے خلاف حجت ہوگا۔ لہٰذا عمل کا جذبہ، یہ طلب علم کی راہ میں انتہائی ضروری ہے۔ اور پھر یہ طلب علم اور عمل یہ دو چیزیں ایک اہم بنیاد پر قائم ہیں۔ اور وہ اخلاص ہے۔ اللہ کی رضا، یہ سارا عمل اللہ کے لیے خالص ہوگا۔ کوئی اس میں ریاکاری نہیں، کوئی منفی سوچ نہیں۔ طلب علم اس لیے نہیں کہ اس علم کے ذریعے دنیا کا مکتسب ہو، دنیا کا حصول ہو، دنیا کے عہدوں کا حصول ہو، ناموری ہو، شہرت ہو، پیسہ کمانا مقصود ہو۔ یہ طلب علم کی کوئی سوچ نہیں۔ کوئی نیت نہیں۔
عزیز طلبہ! چار نیتیں کرلو: 1 اللہ تعالیٰ راضی ہوجائے۔ 2 اس علم کے ذریعے اپنے آپ سے جہالت کو دور کریں۔ کیونکہ جہل ایک مرض ہے۔ جہل ایک بیماری ہے اور علم شفا ہے۔ جہالت کے اس مرض کو دور کرنا ہے۔ امام شافعیa کا شعر ہے کہ
ومن لم یذق ذل التعلم ساعۃ
تجرع کأس الجھل طول حیاتہ
جو گھڑی دو گھڑی روزانہ علم حاصل نہیں کرتا اور طلب علم کے لیے وقت نہیں نکالتا وہ ساری زندگی جہالت کے جام انڈیلتاہے۔(العلم للشیخ ناصر، ص: 17) جہالت کے جام انڈیلتا رہتا ہے اور یہ ایک مرض ہے۔ جو اس کی بیماری میں اضافہ کا موجب ہے۔ تو اپنے آپ سے جہل کو دور کریں۔ 3 تیسری نیت یہ ہے کہ اس سارے سلسلے پر عمل کرنا۔ عمل ساتھ ساتھ ہے۔ عمل علم سے متخلف نہیں ہے۔ تَعَلَّمْنَا الْعِلْمَ وَالْعَمَلَ جَمِیعًا ہم نے علم اور عمل اکٹھا سیکھا ہے۔ اکٹھا حاصل کیا ہے۔(الصواعق المرسلہ: 182/1) یہ نہیں کہ علم آج لے لو، عمل کل کرلیں گے۔ عبداللہ بن مبارکa نے اپنے شیخ سے ایک دن کی چھٹی مانگی۔ چھٹی تو مل گئی مگر شیخ حیران تھے۔ یہ ایک ملازم شاگرد، ہمیشہ آنے والا اور تحصیل کا راغب اور انتہائی اعلیٰ ذوق اور شوق کا مالک ایک دن ناغہ کرکے آخر کہاں جانا چاہتا ہے؟ اگلے دن واپس آگئے، درس میں شریک ہے۔ شیخ نے پوچھا: آپ کہاں گئے تھے؟ عرض کیا کہ حدیث پڑھی تھی اس پر عمل کرنے گیا تھا۔ عمل نہیں کرسکا تھا۔ والد فوت ہوگئے اور ایک باغ ان کا ترکہ ہے۔ ان کی میراث تقسیم نہیں کرسکا تھا۔ نبیu کا فرمان ہے:اَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِاَھْلِھَا ’’ترکہ فوراً تقسیم کرو۔‘‘(صحیح البخاري: 6732)
ایک شخص کا انتقال ہوجائے، اس کی میراث فوراً تقسیم کردو۔ علم نہیں تھا تاخیر ہوگئی۔ چھٹی لے کر گیا اور وہ میراث تقسیم کرکے آگیا۔ امام احمد بن حنبلaنے حدیث پڑھی:اِحْتَجَمَ رَسُولُ اللّٰہِ وَاَعْطٰی اَبَا طَیْبَۃَ دِینَاراًکہ اللہ کے پیغمبر نے حجامہ کروایا اور حاجم، حجام ابو طیبہ کو ایک دینار دیا۔ حدیث پہلی بار پڑھی، فرمایا کہ جائو کسی حاجم کو لے کر آئو۔ حاجم آگیا، اس نے حجامہ کیا۔ آپ نے حجامہ کروایا اور اس کو ایک دینار اجرت دی کیونکہ اللہ کے پیغمبر کی سنت ہے۔ علم اور عمل دونوں ایک ساتھ ہیں۔ 4 چوتھی چیز یہ ہے کہ جیسے اپنے آپ سے بڑی شدومد کے ساتھ جہالت کو دور کیا، اسی طرح اپنے اس علم کے ذریعے لوگوں سے بھی جہالت کو دور کریں۔ اس علم کو اپنے تک محدود نہیں رکھیں۔ اور یہ ایک انتہائی اہم نصیحت ہے، مجھ جیسے طالب علم کے لیے اور ان عظیم طلبہ کے لیے جو آج فارغ التحصیل ہورہے ہیں، کہ اس علم کا نشر اس علم کے آداب میں سے ہے۔ جو طالبِ علم علم حاصل کرلیتا ہے مگر نشر علم کی راہ پر نہیں چلتا وہ اس علم کا خائن ہے۔ اس کی تکمیل ہم نہیں مانتے۔ نشر علم اس پورے منصب کی تکمیل ہے۔ علم حاصل کرلیا، علم حاصل کرکے اب ملازمت ڈھونڈرہاہےکوئی سرکاری نوکری مل جائے۔ سفارتخانے میں کوئی ترجمان کی نوکری مل جائے۔ یہ اس علم سے خیانت ہے۔ علم حاصل کرلیا، اسکول ٹیچری مل جائے۔ چلو کم ازکم یہ ایک سطحی تعلیمِ علم ہے، اصل تعلیمِ علم ان مدارس میں ہے مساجد کی امامت کے ساتھ۔ جو طالب علم فارغ ہوکر مسجد کا امام نہیں بنتا اور کسی دینی ادارے میں تدریس کی ذمہ داری ادا نہیں کرتا وہ ان آدابِ علم کی تکمیل نہیں کررہا۔ بعض اوقات حالات کی مجبوری ہوسکتی ہے لیکن اس علم کو آگے نشر کرنا، آگے پھیلانایہ ایک لازمی راستہ ہے۔ 

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول