Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

ایک آزاد اسلامی عدلیہ کا نظام

15 Apr,2018

عدل اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم صفت ہے۔ اللہ ذوالجلال والاکرام کے 99 صفاتی ناموںمیں سے ایک نام ’’عدل‘‘ بھی ہے۔اللہ ذوالجلال والاکرام نے کائنات کے نظام کو برقرار رکھنے کے لیے عدل کے اُصول کو اپنا رکھا ہے۔ چونکہ وہ ذاتِ واحد خود بھی عادل ہے، اور نظامِ کائنات کو بھی اس نے عدل سے وابستہ کر رکھا ہے۔
پانی ، ہوا، مٹی، نباتات و حیوانات اور جسم انسانی کی ترکیب و ترتیب میں بھی اصولِ عدل و اعتدال کار فرما ہے۔مثلاً اگر پانی کا کیمیائی تجزیہ کیا جائے تو اس میں توازن اور اعتدال کا فارمولا موجود ہے کہ جب تک ہائیڈروجن و آکسیجن کو باہم ملایا نہ جائے، تو پانی وجود میں نہیں آ سکتا۔ اسی طرح ہوا کو لیجئے، اس میں آکسیجن ، نائیٹروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خاص تناسب موجود ہے۔ جو نہ صرف حیاتِ انسانی کے لیے ضروری ہے۔ بلکہ نباتات و حیوانات کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ اگرہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ جائے تو انسانی زندگی معدوم ہوجائے گی۔
عدل کی تعریف میںمساوات اور برابری کامفہوم پایا جاتا ہے۔متوسط اور معتدل وجود کو بھی عدل کہاجاتا ہے۔ عدل کا لفظ افراط و تفریط کے مابین نقطۂ مساوات ہے،جو اطراف کو برابر رکھتا ہے۔ غرض کائناتِ ارض و سماوی اور کارخانۂ حیات کے نظام کا دارومدار، اعتدال اور توازن کے اصولِ فطرت پر قائم ہے۔ اس لیے انسان کو فطرت کے مظاہرے سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنی پوری زندگی کو اس اصول کے تابع کر لینا چاہیے ۔ اس سے قبل رومن ایمپائر(Roman Empire) جس میں 90 فیصد لوگ غلام تھے۔ اس طرح ایرانین ایمپائر (Iranian Empire) میں بھی لوٹ مار اور غلامی کا نظام (نظام اغارت) قائم تھا۔جس کے تحت قافلوں کو لوٹ کر انہیںغلام بنا لینے کا عام رواج تھا اور یہ اس وقت بین الاقوامی قانون تھا کہ جس عورت کو پکڑکر لونڈی بنا لیا گیا،وہ ہمیشہ کے لیے اس کی لونڈی رہے گی۔ اور جس بچے کو پکڑ کر غلام بنا لیا،وہ ہمیشہ کے لیے اس کا غلام ہی رہے گا،اور دنیا کی کسی عدالت میں ان کی شنوائی نہیں ہو سکے گی۔ یہ اس وقت نظامِ اغارت تھا۔ جو کہ رومیوں اور ایرانیوں کے ہاں رواج پذیر تھا۔
اس طرح عرب میں بھی یہی کلچر (Culture) تھا۔ ظلم کے اس نظام کے خلاف کوئی آوز بلند نہیں کر سکتا تھا۔
لہٰذا ظلم و جبر کے اس نظام کے خاتمہ کے لیے صرف ایک شخص کو یہ ہدف (Mandate) دیا گیا، جو اس وقت سپر طاقتوں کی سرپرستی میں رائج تھا۔
رومن اور ایرانین ایمپائر کے اس ظالمانہ سسٹم (System) کو بدلنے کے لیے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا گیا جو کہ سرمایہ دار تھا اور نہ ہی کارخانہ دار اور نہ ہی وہ کسی قبیلے کا سردار تھا بلکہ یہ عظیم ذمہ داری ایک یتیم کو سونپی گئی۔سبحان اللہ 
وہ یتیم عبداللہ محمد رسول اللہﷺ جس نے شیطانی نظام کو مٹا کر اسلام کا عادلانہ و منصفانہ اور ایک ایسا مساویانہ نظام متعارف کروایا جس کی تاریخ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
آج امریکہ اور یورپ جو نظام اپنائے ہوئے ہیں، یہ تقریباً اسی نظامِ اغارت (ایرانیوں اور رومیوں کے دہشت پسندانہ نظام) کی ایک جدید شکل ہے،جو کہ کسی نہ کسی شکل میں ہر ملک میں رواج پذیر ہے۔ اس وقت جہالت ِقدیمہ کے باعث یہ نظام رائج تھا۔ جبکہ آج جہالت جدیدہ (استحصالی فکر) اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ قائم ہے جس کی بھاگ دوڑ اسلام دشمن عناصر کے ہاتھ میں ہے۔ جسے ہر ملک میں فوج ،پولیس اور بیوروکریسی کے ذریعہ قانونی حیثیت حاصل ہے۔ گویا مظلوم ظلم کے خلاف فریادی بن کر ان کے پاس جانے کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ جو کہ خود ظالموں کے سر پرست اور آقا ہیں۔  (إلاّماشاء اللہ)
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہماری عدالتیں بھی انگریز کے مرتب کردہ قوانین کے موافق فیصلے کرتی ہیں۔ہمارا تمام تر عدالتی سسٹم غیر شرعی وغیر اسلامی فکر پر مبنی ہے۔
جب تک ہم طاغوتی اورہامانی و قارونی فکر سے آزاد نہیں ہو جاتے تب تک حقوقِ رسالتﷺ کے تقاضوں کو پوارنہیں کیاجا سکتا اور نہ ہی حقوقِ رسالتﷺ کو تحفظ حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ان کے ایجنٹوں (منکرین ختم نبوت ، مرتدین اور زنادقہ ) کی سازشوں کا قلع قمع ہو سکتا ہے۔
لہٰذا مرتدین کے مکمل خاتمے کے لیے اسلامی عدلیہ کا ہوناانتہائی ناگزیر ہے اسلام کا تو بنیادی مقصد معاشرے میں ایسے ظالمانہ نظام کا خاتمہ اور اجتماعی عدل کا قیام ہے۔جیسے کہ سورئہ الحدید میں ارشادِ ربانی ہے:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ 
’’ یقیناً ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ ہم نے الکتاب (قرآن مجید) نازل فرمائی اور میزان (بھیجا) تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوجائیں۔‘‘ (الحدید 25)
دوسرے مقام پر فرمایا:
اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ وَاتَّقُوْ اللّٰہُ 
’’ یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے ’’عدل ‘‘ کرو ،(یہی) بات تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘  (المائدہ۔ 80)
تیسرے مقام پر فرمایا:
یَٰآیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ 
’’اے ایمان والو! عدل و انصاف پر مضبوطی سے جم جائو۔‘‘ (النساء۔ 135)
یعنی قرآن کااہل ایمان سے تقاضا ہے کہ انصاف کے علمبردار بن جائو اور مومن کی حیثیت سے ہر شخص کو عدل کے قیام کے لیے کمر بستہ ہو جانا چاہیے۔
نیز فرمایا:
 اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَّحکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ۔  (النساء۔ 58)
’’ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو یہ اللہ تعالیٰ تمہیں نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے۔‘‘
تاریخ شاہد ہے کہ جہاں بھی اور جس دور میں بھی اسلامی عدالتوں کو آزادی اور خود مختاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا وہاں ظلم و نا انصافی اور جرائم کا خاتمہ ہوتا چلا گیا۔ آج مغربی ممالک میں اگر کہیں عدل و انصاف کا چرچا ہے تو انہوں نے بھی یہ سنہری اصول اسلام ہی سے حاصل کئے ہیں اور دوسرے لفظوںمیں رحمت عالمﷺ کے اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں ہی انہوں نے اپنا عدالتی نظام مرتب کر رکھا ہے۔
ان کے معاشرتی و اخلاقی نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود ان کے عدالتی نظام کو قدر کی نگاہوں سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ وہ اس لیے کہ اسلام کے وہ سنہری اصول جنہیں ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے ، انہوں نے وہ اصول اپنا لیے ہیں۔اس کی فقط ایک مثال پیش خدمت ہے۔
امام ابو یوسفؒ (شاگردِ رشید حضرت امام ابوحنیفہؒ) نے چیف جسٹس (قاضی القضاء) کا عہدہ اس شرط پر قبول کیا تھا کہ جب چیف جسٹس قصرِ خلافت میں آئے گا تو بادشاہِ وقت احتراماً کھڑا ہو جائے گا۔ مگر اس کے برعکس جب بادشاہ عدالت میں آئے گا تو چیف جسٹس کھڑا نہیں ہو گا۔
چنانچہ یہ اصول اور قاعدہ حکومت انگلستان نے اپنا رکھا ہے۔ کہ جب لارڈ چیف جسٹس آف انگلینڈ بادشاہ یا ملکہ کے ہاں آتا ہے تو وہ احتراماً کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مگر جب بادشاہ یا ملکہ چیف کے پاس آتے ہیں تو وہ کھڑا نہیں ہوتا۔
غرض جو قومیں عدل کو زندگی کی طرح عزیز رکھتی ہیں وہ جج کومحترم سمجھتی ہیں۔
اس کے برعکس جہاں آئین میں ترمیم کر کے عدلیہ کے اختیارات کو محدود کر کے ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر بے بس کر دیا جائے، یا راتوں رات اپنی مرضی کا قانون بنا کر عدلیہ کی عمل داری کو روک دیا جائے، اور سنگین نوعیت کے مقدمات میں ملوث مجرمین کو ماورائے عدالت از خود معاف کر کے عزت و وقار کا تاج ان کے سروں پر سجا کر بیک جنبشِ قلم قومی دشمنوں کو ہر جرم سے بری الذمہ قرار دینا اور محب وطن کو موت کے گھاٹ اُتار دینا اور انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے میں ذرا تامل نہ کرنا اور نا اہل و کم ظرف لوگوں کو کلیدی آسامیوں پر فائز کرنا،اور اپنے ہی بہن بھائیوں (ہم وطنوں) کے ہاتھ پائوں باندھ کر غیر ملکیوں کے حوالہ کر دینا اور بے گناہوں کا ماورائے عدلت قتل اور اغواء ، کہاں کا انصاف ہے؟ یہ تو انصاف کے قتل کے مترادف ہے۔
علاوہ ازیں چوری، ڈکیتی، سمگلنگ، عدالتوں میں نا انصافی و حق تلفی، ریاستی غنڈہ گردی، دہشت گردی نابالغ بچیوں کی عصمت دری ،بچوں سے اخلاقی زیادتی اور جبری مشقت و مزدوری ، گمشدگی کے اندھے واقعات اور ماورائےعدالت اغواء،فرقہ وارانہ دہشت گردی اور پولیس گردی (جعلی پولیس مقابلوں) اور منکرین خاتم النبیین کی ملک و ملت اور اسلام کے خلاف سازشوں کو ایک آزاد عدلیہ کی بدولت ہی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
یہ کب ہو سکے گا؟
جب ایک جج اور عدالتِ عظمیٰ کی نگاہ میں فقط قانون کی بالا دستی و حکمرانی کا تصور ہو گا، تب عدالت بھی کسی ظاہری اقتدار کی قوت کو خاطر میں نہ لائے گی۔
 یہ کب ممکن ہو گا؟ 
جب جج صاحبان مقتدرِ اعلیٰ (اللہ تعالیٰ) کے ہاں جواب دہی کا خوف رکھنے والے ہوں گے، تو سو فیصد انصاف کا بول بالا ہو گا۔ اس وقت سربراہِ ملک بھی بے بس ہو کر مدعا علیہ کی صورت میں عدالتوں میں پیش ہونے کے لیے کسی قسم کی ہچکچاہٹ او رعار محسوس نہیں کریں گے بلکہ حکمران بھی عدل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فخریہ طو رپر عدالتوں کا سامنا کریں گے۔
یہ کب ہو گا؟ 
جب انتظامیہ کی طرف سے مدعی اور مدعیٰ علیہ اورعدالت کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو؟  یعنی تحفظِ جان، تحفظِ آبرو اور معاشی تحفظ وغیرہ تب عدالتوں سے انصاف کی بھی توقع ہو گی۔
اور سَائلین دیوانی عدالتوں میں چکر لگا لگا کر دیوانگی سے بھی بچ جائیں گے اور سالوں میں فیصلے نہ ہونے والے ، ہفتوں میں ممکن ہو سکیں گے جیسا کہ مملکت ِ سعودی عربیہ میں ہے۔
تب مرتد اور زندیق (منکرین خاتم النبیینﷺ) کواپنے کفریہ عقائد کو اسلام کے نام سے پیش کرنے کی جرأت نہ ہو گی۔
اور نہ ہی ایسے مرتدین کو کسی عدالت میں اپنے نام نہاد اسلام کو چیلنج کرنے کی جسارت و ہمت ہو گی۔
عصرِ حاضر کے بد ترین گستاخِ رسالت اور منکرین ختم نبوت قادیانیوں (لاہوری اور ربوہ) دونوں کو 1974ء میں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔
جس میں انہیں بھی اپنا مؤقف پیش کرنے کی کھلی اجازت دی گئی تھی،لیکن انہوں نے پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلے کو تسلیم کرنے سے صریحاً انکار کر دیا ہے۔
شرعی تقاضوں اور حقوقِ رسالتﷺ کے پیش نظر یہ مرتد اور زندیق کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے، کہ اس وقت قادیانی مرتدین سے بڑھ کر کائنات میں کوئی اسلام دشمن نہیں ہے؟ وہ کیوں؟ اس لیے کہ قادیانی اسلام کے روپ میں اسلام ہی کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہیں۔
دنیا میں قادیانیوں کے سوا اور بھی اسلام دشمن تحریکیں ہیں جو کہ نہایت گھنائونے عزائم رکھتی ہیں۔مگر وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کرتیں، وہ اسلام کے نام سے تبلیغ نہیں کرتیں۔ جبکہ قادیانی مرتد اسلام کے نام سے اسلام کے نام لیوائوں کو ہی مرتد بنا رہے ہیں۔
قادیانی کتب میں مرزا قادیانی کو (معاذ اللہ) عین محمد رسول اللہ، اس کی بیہودہ اور لا یعنی پیش گوئیوں کو وحی من اللہ، اس کے بد کردار ساتھیوں کو خلفاء راشدین اور صحابہ کرام ، اس کی فاحشہ بیوی کو اُم المؤمنین ، اس کے ناپاک خاندان کو اہل بیت، اس کی گندی حرکات کو سنتِ رسول اور اس کی منحوس بستی قادیان کو مکہ و مدینہ سے بھی افضل کہا گیا ہے۔(العیاذ باللہ)
یاد رکھئیے! قادیانیوں (غلام احمدیوں) کے علاوہ یہ جرم اور کسی کافر و مشرک میں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے دنیا بھر کے کافروں اور غیر مسلموں سے ڈائیلاگ اور مذاکرات ہو سکتے ہیں، ان سے ہر قسم کے معاہدات کئے جا سکتے ہیں ، ان سے کاروباری لین دین ہو سکتا ہے، ان سے افہام و تفہیم ہو سکتی ہے۔ (بشرطیکہ وہ مسلمانوں کے مخالف نہ ہوں) لیکن قادیانی مرتدین کے بارے میں ایسا سوچابھی نہیں جا سکتا بلکہ یہ زندیق کے زمرے میں آتے ہیں۔ زندیق کی تعریف یہ ہے،کہ جو اپنے کفرپہ اسلام کا لیبل لگا کر اپنے جھوٹے اور باطل نظریات کو عین اسلام کے نام سے پیش کرے، شرعی اصطلاح میں اسے زندیق کہا جاتا ہے۔ 
لہٰذا قادیانیوں کے خلاف کیے گئے عدالتی و قانونی فیصلوں کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ امتناع قادیانیت آرڈیننس جیسے اقدامات کو بذریعہ عدالت ہی مؤثر بنایا جا سکتا ہے اور ایسے منکرین  رسالت کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ایک آزاد عدلیہ کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔قادیانیوں کے خلاف کیے گئے اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کو عدالت کے ذریعہ ہی مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ مثلاً دفعہ 298 کے تحت قادیانی مجرم ہیں، جسٹس خلیل الرحمٰن رمدے کے ریمارکس عدالتی فیصلوں کے مطابق بار بار جرم کرنے والے فرد کی ضمانت منظور نہیں کی جا سکتی۔ اسی طرح 295-C کے تحت قادیانیوں پر فردِ جرم عائد کی جائے تاکہ یہ منکرین ختم نبوت اسلام کا نام استعمال نہ کر سکیں اور بلواسطہ یا بلاواسطہ (Direct or Indirect)اپنے آپ کو مسلم ظاہر نہ کر سکیں۔ لیکن ایسی تمام دفعات کو ایک آزاد عدلیہ کے ذریعہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ آرٹیفیشل مذہب اسلام اور ملک کی بنیادوں کو متزلزل کرتا رہے گا۔ بقول جانباز مرزا
بہت کذاب آئے ہیں ابھی کچھ اورآئیں گے
مگر اس دور کا جو کذاب آیا بے مثال آیا
ْْْْْ۔۔۔
 

Read more...

بات بدلی ساکھ بدلی

19 Nov,2017

سب کچھ الفاظ ہی کا ممنون ہے کائنات بھی ایک حکم کے نتیجہ میں معرض و جود میں آئی انسان کو انسانیت کا درس دینے کی تمام تر رہنمائی الفاظ ہی سے عبارت ہے ایک لفظ کہنے پر انسان اسلام سے کفر میں ،کفر سے اسلام میں داخل ہو سکتا ہے ملکوں او ر حکمرانوں کےفیصلے بھی انہی الفاظ سے کیے جاتے ہیں گویاکہ قوموں کی آزادی اور غلامی کے فیصلے بھی الفاظ سے ہی کئے جاتے ہیں کیونکہ لفظ سے خیال پھوٹتا ہے خیال سےارادہ جنم لیتا ہے ارادے کی گود میں عمل کی پیدائش ہوتی ہے عمل سے عادت بنتی اور عادت کردار کی استاد ہے جس کی تراش خراش سے تمام شخصیت تشکیل پاتی ہے ۔یہ تمہید میں نےاس لیے باندھی ہے کہ آگے چل کر میں بتانا چاہوں گا کہ ہمیں الفاظ کا چناؤ اوراستعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے مذہبی اور سیاسی لیڈرز الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہیں برتتے جیسا موجود ہ حکومت نے چند دنوں پہلے انتخابی اصلاحات کےقانون میں ایمان کے لازمی جزو کو رسمی اقرار میں بدل دیا۔ نامزدگی فارم میں تبدیلی کر کے عقیدۂ ختم نبوت پر صدق دل سے قسم کی شرط ختم کر دی۔
نوازشریف کو پارلیمانی سیاست میں واپس لانے والے نئے قانون نے تو عقیدۂ ختم نبوت پر بھی وار کر ڈالا۔ نئے نامزدگی فارم کو منفرد بنا دیا گیا جس میں صدق دل سے قسم اٹھانے کے الفاظ حذف کرکے یعنی ختم نبوت کا اب زبانی، کلامی، سطحی، سرسری اور کھوکھلا اقرار ہی کافی ہے۔قانون ختم نبوت کی دیوار میں رخنہ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ کیا پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے؟ جبکہ قادیانی اعلی حکومتی مناصب پر پہلے سے ہی براجمان ہیں ۔مگر ہمیں 7 ستمبر 1974کا دن پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا یاد گاردن یاد رہنا چاہیے جب 1953اور1974کےشھیدان ختم نبوت کا خون رنگ لایا اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی اوراسلامی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئےکی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج اور مرتد قرار دیا ۔
دستور کی دفعہ 260میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہو ا ہے ’’جو شخص خاتم النبیین محمد ﷺ کی ختم نبوت پر مکمل اور غیر مشروط ایمان نہ رکھتا ہو اور محمد ﷺ کے بعد کسی بھی معنی و مطلب یا کسی بھی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر یامذہبی مصلح مانتا ہو وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔’’
اسلام کو اس ملک میںکبھی کوئی خطرہ لاحق نہیںرہا اسلام ایک اخلاقی سماجی اور تہذیبی قوت ہے یہ اب اپنے و جود کی بقا کے لئے ریاست کا محتاج نہیں۔ اگر ایسا ہو تا تو انگریز کے دور میں ختم ہو گیا ہو تا اسے ترکی میں دم توڑدینا چاہیےتھا مسلمان پر ایک طویل وقت ایسا بھی گزرا جب ان کے پاس کو ئی سیاسی قوت نہ تھی اس کے باو جود نہ صرف باقی و قائم رہا بلکہ بین الاقوامی سیاست میں ایک بڑے اوراہم کردار کے ساتھ پھراس نےاپنا وجود منوایا ۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہےکہ اسلام ایک سیاسی عمل کا نتیجہ ہے وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر سیاسی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں نہ آ ئی تو اسلام باقی نہیں رہے گایعنی ان کا خیال ہے کہ اسلام کے نفاذ کے لئےاسلام آباد پر قبضہ ضروری ہے 

چا ہے اس کی کوئی بھی قیمت اد اکر نی پڑے ایمان فروخت ہو جائے، کردا ر داغ دارہو جائے قائدین کو سرعام جھو ٹ بولنا پڑےنصوص صریحہ کی من منائی تاویلیں کر نی پڑے ، ٹھنڈے کمروں اور لگژری گاڑیوں کے مزے لیتے ہوئے کہاں جائے ہم حالت جنگ میںہیں اس لئے ہر طرح کا جھوٹ جائز ہےاگر ایسا نہ کیا تو اسلام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کل تک جو چیز حرام تھی سیاست کے لیے حلال ہو گئی ہے۔کل تک جو چیز شیطان کہلاتی تھی آج وہ ذریعہ شہرت ہے جس پر کفر کے فتوےلگائے جاتے تھے آج وہ عین اسلام ٹھہری عوام کہاں جائے کس کی بات مانے ،مذہبی جماعتوں کی یا سیاست دانوں کی، سیاست دانوں کے بارے میں تو معروف ہے کہ وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بول کربھی کہتے ہیں یہ فیصلہ ہم قوم کے وسیع تر مفاد میں کر رہیں ہیں چاہے وہ حلال وحرام کے متعلق ہی کیوں نہ ہو مگر اسلام کے نام پر پلنے والی مذہبی جماعتوں اور تنظیموںکا کیا کریں کہ جو اسلام کے مسلمہ اصولوںکو اپنے دنیاوی مفاد ،اپنی سیاست کی خاطر تبدیل کر رہے ہیں عوام کو یہ باور کروایا جارہا ہے کہ ہم مذہبی بن کر تواسلام کی خدمت نہ کرسکےاور اب سیاستدان بن کر ہم اسلام کی خدمت پہلے سے زیادہ کریں گے۔گویا کہ یہ جواب دیا جارہا ہے کہ ابھی ہمیں کھل کر جھوٹ بولنے دیں کل کوسیاسی لیڈر بن کراسلام کی خدمت وسیع پیمانہ پرکرکریں گے ۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والےان موسمی سیاستدانوں سے کوئی پوچھے کہ سادہ لوح عوام جو کہ اسلام ،جہاداور ختم نبوت پر مر مٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی اور جس عوام نے اپنے خون پسینے کی کمائی اسلام اور جہاد کے نام پر نچھاور کی،کیاانہوں نےآپ کو اس جھوٹ کے بازار میںسوداگر بننے کے لیےچندہ دیا تھا ۔کیا جھوٹ کا سہارا لے کر اسلام کی خدمت جائز ہے ؟یقیناًناجائز ہوگی تو پھر ان جماعتوں کوہوش کے ناخن لینے چاہیے کیونکہ برائی کبھی بھی اچھائی کی ترویج کا ذریعہ نہیںبن سکتی عوام سے جمع کیا گیا مال ان کے پاس امانت ہے جو انہیں اسلام کی تعمیر و ترقی اور ترویج کے لیے دیاگیا ہے اس امانت میں خیانت کا ارتکاب نہ ہی کیا جائے تو اسی میںہم سب کی دنیا وآخرت کی بھلائی ہے ۔
پاکستان میں امام کعبہ کی آمد:
مسجدالحرام کے امام وخطیب ڈاکٹرصالح بن عبد اللہ بن محمدبن حمیدحفظہ اللہ ورعاہ تین روزہ دورے پر وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی خصوصی دعوت پر پاکستان آئے تھے۔ڈاکٹر صالح کا شمارعالم اسلام کے چوٹی کے علماء میں ہوتا ہے۔ وہ سعودی عرب میںسپریم علماء کونسل اور او آئی سی کے ذیلی ادارے مجمع الفقہ الاسلامی کے رکن بھی ہیں۔نیزڈاکٹرصالح نے مختلف موضوعات پرلاتعدادکتابیں تصنیف کی ہیں۔ علمی ودینی خدمات کے علاوہ وہ سعودی عرب کی مجلس شوریٰ کے صدر بھی رہے ہیں۔ فی الوقت وہ شاہی کورٹ کے ایڈوائزر ہیں، جو وفاقی وزیر کے مساوی عہدہ ہے۔1404ھجری سے وہ مسلمانوں کی سب سے مقدس مسجد ،مسجد الحرام میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹرصالح اپنے دورہ ٔ پاکستان کے دوران مختلف تقریبات کے علاوہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے لئے بڑےفخر کی بات ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے انکو مدعو کیا ۔ پاکستان اور سعودی عرب یکجان دو قالب ہیں۔ امام حرم نے کہا کہ پاکستان میرا دوسرا وطن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے تین ضروری شرائط تقویٰ ،اخلاص اورحسن کارکردگی ہیں۔ دنیا میں وہ ممالک عدم استحکام کا شکار ہوئے جو اپنا اتحادواتقاق برقرار نہ رکھ سکے اور انتشار کا شکار ہوئے۔ذاتی مفاد کے بجائے ملکی و قومی مفاد کو ترجیح دینی چاہیے۔ اسلام آباد میں ایک عشائیے سے خطاب کرتے ہوئےڈاکٹر صالح نے اتحاد و اتفاق کی ضرورت پر زور دیتے ہوئےسیدنا موسیٰ اورسیدنا ہارون علیہماالسلام کی مثال دی کہ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی عدم موجودگی میں قوم راہ راست سے ہٹ گئی توسیدنا موسیٰ علیہ السلام نے واپس آکر اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو ڈانٹا کہ انہیں کیوں نہیں روکا۔سیدناہارون علیہ السلام نے کہاکہ میں انہیں روکتا تو ان میں اتحادواتقاق نہ رہتا،یعنی کچھ میری بات مانتے اورکچھ نہ مانتے۔ اس سے اتحاد ویکجہتی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ڈاکٹرصالح نے کہاکہ امت مسلمہ کے تمام مسائل کا حل اتحاد واتفاق میںمضمرہے۔ اسی سے دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ انہوں نے فرقہ واریت کوزہر قاتل قراردیا۔ حرمین شریفین کی امامت وخطابت بلاشبہ مسلمانوں کے نزدیک سب سے اہم دینی منصب ہے۔ان ائمہ کرام کی تقر ری بھی انتہائی کڑی شرائط کی بنیاد پر خود سعودی فرمانروا کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی باتوں کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ امام حرم کی فکر انگیزباتوں کو اپنےقومی وذاتی وجود پر عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ جب قرآن کریم میں بھی اختلاف وانتشارسےبچنے اور اتحادواتفاق کوقائم رکھے پر زوردیا گیا ہے۔

 

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول