نام کتاب: تذکرہ اکابرین اہل حدیث
صفحات 336
مولف: مولانا عبدالرحمن ثاقب حفظہ اللہ
ملنے کا پتہ: مکتبہ قدوسیہ اردوبازار لاہور
طباعت: موسسہ الخادم الخیریہ بھریاروڈ سندھ
جیساکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اذکروا محاسن موتاکم ( ترمذی 1019) چونکہ گذرے ہوئے لوگوں کی خوبیاں جب موجودہ لوگوں کے سامنے آتی ہیں تو آنے والے لوگوں میں اقتداء و پیروی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی جذبہ صادقہ کے تحت گذرے ہوئے لوگوں کے حالات زندگی پر قلم اٹھانے کی روایات انتہائی قدیم ہیں جن میں متعدد کتابیں آج بھی لائبریریوں کی زینت بن کر قارئین کرام کی علمی تشنگی دور کرنے میں ممدومعاون ثابت ہورہی ہیں اسی سلسلہ میں زیرتبصرہ کتاب " تذکرہ اکابرین اہل حدیث " میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے یوم تاسیس سے تا روز ہنوز جماعت کے امراء کرام، نائب امراء، ناظمین اور نائب ناظمین کے مختصر حالات زندگی یکجا کردئیے گئے ہیں۔ جو بلاشبہ ایک مفید اور معیاری کام ہے۔ اللہ تعالی فاضل مرتب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
کتاب میں عموماً ایسے رجال رشید کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں اکثر تعلق باللہ، دین داری، وفاشعاری، پرہیزگاری، تقوی و طہارت، علوم اسلامیہ میں امتیازی مقام کےحامل ہونےکےساتھ بصیرت وبصارت بالخصوص اتباع کتاب و سنت میں ان کا مقام انتہائی ممتاز تھا۔ رب کعبہ ان پاکیزہ نفوس پر اپنی رضا و خوشنودی کے ساتھ ان کی آخری آرام گاہوں پر اپنی خاص رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین
یہ کتاب اپنے عہد کے ایک ممتاز عالم دین، قلم کار ، مبلغ، داعی اور سوشل میڈیا پر بھرپور نگاہ رکھنے والے محترم مولانا عبدالرحمن ثاقب خطیب مرکزی جامع مسجد اہل حدیث سکھر نے تحریر فرمائی ہے۔ جس کو اللہ تعالی نے حسین و لطیف اور دلکش پیرایہ میں اظہار خیال پر قدرت فرمائی ہے۔ اور ان کی تحریر پرتاثیر میں نغمگی اور آواز کا جادو لوگوں کو مسحر کیے دیتا ہے، مزید یہ کہ مولانا ثاقب نہ صرف شخصیت نگار ہیں بلکہ آئے دنوں مختلف موضوعات پر ان کے جاندار وقیع مضامین جماعتی جرائد میں بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال کتاب کا " انتساب" فضیلۃ الشیخ پروفیسر ظفراللہ رحمہ اللہ ( متوفی 1997) کے نام کیا گیا ہے۔ جس کے بعد ( عرض مرتب ) لائق مولف ( تمہید) محترم سید عامر نجیب ( دیباچہ) محترم مولانا حمیداللہ خان عزیز احمدپور شرقیہ ( تقریظ) محترم ڈاکٹر عبدالغفور راشد صاحب نے تحریر فرمائی ہے۔ جس کے بعد کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جس میں باب اول میں" تعارف اہل حدیث " کے عنوان سے تفصیلی مقالہ ہمارے دیرینہ دوست محترم مولانا محمد خان محمدی حفظہ اللہ نے بڑا جاندار اور وقیع تحریر فرمایا ہے اللہ تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔جس کے ساتھ فاضل مرتب نے برصغیر بالخصوص پاکستان میں تأسیس جماعت اہل حدیث پر بھرپور جاندار معلومات افزا مواد پیش کیا ہے۔
کتاب کے باب دوم میں جماعت اہل حدیث کے بارہ سرخیل علمائے عظام فضلاء کرام جنہوں نے جماعت کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں سنبھالیں ان کی حیات وخدمات پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کے باب سوئم میں مسلک اہل حدیث کے اعلی انتظامی امور میں جن دس سعادت مند شخصیات نے اپنے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دئیے ان کا قدرے تفصیل سے تذکرہ کیا گیا ہے۔
باب چہارم میں دور جدید کے انتہائی اہم تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جن باشعور، سنجیدہ فکر اصحاب علم و فضل اصحاب نے ملکی و صوبائی سطح پر اپنی بیش بہا خدمات جلیلہ سرانجام دیں ان کا تذکرہ دلپذیر سپرد قلم کیا گیا ہے۔ کتاب میں ہمارے جن اسلاف علماء عظام و مشائخ کرام کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولاناسید بدیع الدین شاہ راشدی، مولاناعبدالخالق رحمانی، علامہ احسان الہی ظہیر اور پروفیسر عبدالقیوم جیسے علم و فضل کے افق پر ہمیشہ جگمگاتے ہوئے روشن ستاروں کا تذکرہ خیر کیا گیا ہے۔ اس طرح پوری کتاب میں تاریخ اہل حدیث کے تابناک تیس (30) اکابرین علمائے اہل حدیث کا ایمان افروز تذکرہ کیا گیا ہے۔ جن میں سے کچھ شخصیات سے لائق مرتب کی تفصیلی دید و شنید اور عقیدت مندی بھی تھی۔ مختصراً اس مجموعہ مضامین سے لائق قاری کی ایک پونی صدی کے علمی عہد کی خدمات جلیلہ سے بخوبی آگاہی حاصل کرپاتا ہے۔ تاہم ایک گذارش ہے کہ کاش کوئی مہربان کتاب کی پروف ریڈنگ کی جانب بھی توجہ دیتا، چونکہ چند مقامات پر تسامحات نظر آتے ہیں امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں تدارک کیا جائے گا۔
بہرحال کتاب ہذا میں نثرنگاری، شستہ، رواں، مبنی بردیانت، افراط و تفریط سے مبرأ نظر آتی ہے۔ ثاقب صاحب کا انداز بیان اور اسلوب عمدہ، حکیمانہ اور پرخلوص نظر آتا ہے۔ توقع ہے کہ قدردان علم و فضل اس کتاب سے اپنی دانش گاہوں، لائبریریوں، مدارس و مکاتب کے علاوہ دیگر علمی اداروں کی علمی خوبصورتی میں اضافہ کریں گے تاکہ ان شاءاللہ آنے والی نسلیں اپنے اسلاف، متقدمین، اصحاب الحدیث کے کارہائے نمایاں سے کما حقہ واقفیت حاصل کرسکیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو اخلاص عمل، اتحاد و اتفاق، یکسوئی و یکجہتی کی نعمت سے سرفراز کرے۔ آمین یا رب العالمین
كتاب كا نام : سلف وصالحین کے سنہرے اقوال
مؤلف : محمد سلیمان جمالی
صفحات : 88
ناشر : مکتبہ بیت السلام ریاض ، لاہور
سلف صالحین سے مراد وہ پیش رو طبقہ ہے جو اچھے اور شرعی منہج و کردار کے ساتھ رخصت ہو چکا ہے ۔ ان کے حق میں دعائے خیر قرآنی حکم ہے :
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
ان كے منہجی طریق کو سینے سے لگانا حکم الٰہی ہے فرمایا گیا :
وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ
اور یہ وہ محمود نسبت ہے کہ جس کا اظہار سیدنا یوسف علیہ السلام نے بھی کیا ، فرمایا :
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ
ياد رہے کہ لفظ سلف رسول رحمت ﷺکی کوثر و تسنیم میں بھیگی ہوئی زبان مبارک سے ثابت ہے ، اور یہ وہ نطق ہے جو سند وحی الٰہی سے معمور ہے ۔
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى
آپ ﷺنے اپنی لخت جگر سیدة نساء اھل الجنة سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا :
“نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَكِ” (صحیح مسلم )
جبکہ نبی مکرم ﷺنے اپنی تعلیم و تزکیہ کی 23 سالہ نبوی زندگی میں متعدد بار بعد میں آنے والوں کو اپنے سلف سے جڑے رہنے کا درس ارشاد فرمایا ، کبھی فرمایا :
فأرجعوا إلي الأمر الأول .
اور کبھی کہا :
علیکم بالامر العتیق
اور پھر مجسم سلف کا شرف پانے والوں نے بھی یہی سکھایا کہ :
اتبعوا ولا تبتدعوا
اور یہ بھی فرمایا کہ :
من كان مستنا فليستن بمن قد مات
ان ساری باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ نسبت سلف ہی ضروری ہے ، جو کہ فلاح اور کامیابی کی ضامن ہے ۔
یہی پیغام تھا ام الکتاب کا کہ :
اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ
اور اسی کی آبیاری کی شاعر مشرق نے کہ :
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
یقینا تعبیر و تفہیم دین میں اقوال و اعمال سلف مشعل راہ اور زاد راہ کی مثل ہیں ۔ حتی کہ سلف و خلف کے مابین کسی نظریہ میں یا عقیدے اور عمل من “انقطاع” پیدا ہو جائے تو وہ عقیدہ اور نظریہ قابل حجت نہیں رہتا جب تک کہ خلف اپنے سلف سے سندا اسے ثابت نہ کردیں اور یہی سلفی منہج کا میزہ ہے ۔ وللہ الحمد والمنة
شیخ محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ معروف قلمکار اور عالم دین ہیں تحریری ذوق و جمال آپ کو من جانب اللہ حاصل ہے ۔ متعدد کتب لکھ چکے ہیں ، اللہ تعالی مزید ہمت و طاقت دے کہ وہ یہ علمی اور اصلاحی کام جاری رکھیں ۔ زیر تبصرہ کتاب “سلف وصالحین کے سنہرے اقوال” تقریبا : 210 سلف و صالحین کے اقوال و کردار کی ترجمانی ہے ، شاید کچھ نام تکرار بھی رکھتے ہوں جس میں حرج نہیں ۔ ماشاء اللہ
یہ سنہرے اقوال و افعال ہمارے لیے نشان ہدایت کا درجہ رکھتے ہیں ۔ ایک ہی جگہ پر اتنے اقوال کو جمع کر دینا مولانا جمالی کے وسیع مطالعے کی دلیل ہے اگرچہ انہیں کتب کے حوالے سے تنگی و تشنگی محسوس ہوتی رہتی ہے ۔ پھر بھی ان کی یہ محنت شاہد ہے کہ وه وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ یہ کتاب سلفی احباب کے لیے بالخصوص اور دیگر مکاتب فکر کے لیے بالعموم نور ہدایت ہے ۔ لہذا ہر طالب علم ، علماء کرام اور دیگر علم دوست اسے ضرور حاصل کریں ، اپنے مطالعہ میں رکھیں احباب کو ہدیہ کریں ۔ کتاب کا سر ورق جاذب نظر ہے ، کمپیوٹرائزد کمپوزنگ و کتابت مکتبہ بیت السلام کا تمیز ہے ۔ اللہ تعالی اس کتاب کو مؤلف محترم اور ناشر حضرات کے لیے ذخیرہ آخرت بنائے اور قارئین کے لیے باعث منفعت بنائے ۔ آمین .
أحب الصالحين ولست منهم
لعل الله يرزقني صلاحا
اللہ ہمیں اپنے سلف سے وابستہ رہنے کی توفیق دے ۔
۔۔۔
نام کتاب : تحریک اہلحدیث (افکار وخدمات)
مرتبہ : بشیر انصاری صاحب (ایم ۔اے)
صفحات : 383
قیمت : درج نہیں
تبصرئہ نگار : طیب معاذ
ناشر : مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان
دین اسلام کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے متعدد ذرائع ہیں۔ داعیان اسلام میں سے کچھ نے تبلیغ دین کے لیے اپنی طلاقت لسانی سے کام لیا تو کسی نے قلم کے ذریعے اس دین کی خدمت کی۔
قلمی میدان میں بھی کئی ایک طریقے ہیں کچھ نے کتابیں تصنیف کی تو کسی نے ماہانہ، ہفت روزہ، سہ روزہ وغیرہ رسائل میں محاسن اسلام بیان کیے۔ رسائل وجرائد میں اہل قلم وقتی ضرورت کے تحت اپنے خیالات سپرد قلم فرماتے ہیں۔
افسوس کہ کاہلی کی بنا پر سلف صالحین کے رسائل وجرائد میں شائع شدہ رشحات قلم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناپید ہوجاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰٰ مسلک اہلحدیث کے کہنہ مشق صحافی ، محترم جناب بشیر انصاری صاحب حفظہ اللہ کو جزائے خیر سے نوازے کہ انہوں نے انتہائی محنت، توجہ اور عرق ریزی سے مسلک اہلحدیث سے متعلق اساطین کی تحریر کردہ معلومات کو یکجا کردیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مسلک حقہ اہلحدیث کا نصب العین، تصور دینی برصغیر میں ترویج اسلام کے لیے حاملین مسلک حقہ اہلحدیث کی خدمات، تحریک اہلحدیث کی دینی اساس،مسلک اہلحدیث کی تاریخ حقانیت، عقائد سلفیہ کی وضاحت، عالم اسلام میں سلفی دعوت کی لہر اہلحدیث ماضی وحال اور دفاع اسلام کے لیے مسلک کے حاملین کی تبلیغی ، دعوتی، جہادی،سیاسی،تصنیفی ، تدریسی فلاحی خدمات وغیرہا موضوعا ت پر اہل فکر ونظر کے ارشادات جمع کئے گئے ہیں۔ اس علمی دستاویز میں افکار سلفیہ سے متعلق تقریباً 50 مضامین شامل ہیں۔
45 کے قریب شخصیات کے مقالہ جات اس کتاب میں شامل ہیں جن میں امام کعبہ ابن السبیل ، امام العصر مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ، نواب صدیق حسن خان قنوجی، شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری، مولانا سید داؤد غزنوی، شیخ الحدیث محمد اسماعیل السلفی، علامہ احسان الٰہی ظہیر ، پروفیسر علامہ ساجد میر، متکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی، ابو الکلام آزاد، سید بدیع الدین شاہ راشدی ، سید محب اللہ شاہ راشدی ، مولانا نذیر احمد رحمانی ، محدث شہیر علامہ ناصر الدین الالبانی ، ابو القاسم سیف بنارسی ، آغا شورش کاشمیری، قاضی محمد اسلم سیف اور پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہم اللہ جیسی نابغہ روزگار ہستیاں شامل ہیں۔
حرفے چند تاریخ اہلحدیث کے حافظ اور محافظ مولانا محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے سپرد قلم کیا ہے جبکہ حرف آغاز محترم بشیر انصاری صاحب کے سیّال قلم کا شاہکارہے انہوں15 صفحات میں مسلک اہلحدیث کی دعوت، بنیادی اصول، اہداف، خصوصیات، ذمہ داریاں، امتیازی امور ، لقب اہلحدیث ، اہلحدیث اور جہاد جیسی معلومات کو سمودیاہے۔
کتاب کے آخر میں جملہ مقالہ نگاروں کا مختصر مگر معلومات افزاء تعارف شامل ہے۔
مسلک اہلحدیث کی ترویج واشاعت اور معرفت کے لیے اس کتاب کا مطالعہ از حد ضروری ہے ۔ خوانندگان محترم سے امید ہے کہ وہ اس کتاب کا گرمجوشی سے استقبال کریںگے ۔
گزارشات :
1۔کتاب کا کاغذ اوسط درجے کا ہے ،
2 مرکزی جمعیت اہلحدیث کا مونوگرام بیک ٹائیٹل کی بجائے مین ٹائٹل میں لگایا جاتا تو بہتر تھا۔
3مقالہ نگاروں کا تعارف نظر ثانی کا محتاج ہے مرحومین کے لیے بھی موجودین کے لیے مختص الفاظ وصیغے استعمال کیے ہیں۔
4 فہرست اردو کے مروجہ طریقے کے مطابق کتاب کے شروع میں لگائی جاتی تو بہتر ہوتی۔
----------------------------
تبصرہ نگار : الشیخ محمد طیب معاذ
کتاب کا نام:اہل حدیث کا منہج اور احناف سے
اختلاف کی حقیقت اور نوعیت
مؤلف: حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ
قیمت: درج نہیں
ناشر :ام القری پبلی کیشنز گوجرانوالہ جمعیۃالمناہل الخیریۃ
نہج منہج اور منہاج کے الفاظ واضح اور روشن راستے پر بولے جاتے ہیں جبکہ اصطلاح میں منہج یا منہاج سے مراد بنیادی اصول وضوابط کا تعین اور ان متعین اصولوں کے مطابق مسائل کو حل کرنے کا علمی طریقہ کار ہے ۔
درست ا ور صحیح منہج ہی صراط مستقیم کا دوسرا نام ہے۔ افسوس کے ساتھ تحریر کرنا پڑ رہا ہے کہ دیگر اصطلاحات کی طرح اس علمی وعقدی اصطلاح کو بھی ہر گروہ اپنی فکراور سوچ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔
الحمدللہ اہل حدیث ہی وہ طائفہ منصورہ ہے جس نے حقیقی معنوں میں اپنے عقیدہ ومنہج اور کرداروعمل میں کسی تقلیدی وابستگی کے بغیر قرآن و حدیث کی بالادستی کو نہ صرف قائم رکھا ، بلکہ اس عقیدہ اور منہج کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کا تعاقب کیا، مسلک حقہ اہل حدیث عقیدہ صافیہ اور منہج مستقیم کی وضاحت اور احناف سے اختلاف کی حقیقت و نوعیت جیسے علمی موضوعات کو زیر تبصرہ کتاب میں واضح کیا گیا ہے، اس تصنیفِ لطیف کے مؤلف معروف عالم دین اور مصنف کتب کثیرہ حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ مدیر شعبہ تحقیق وتالیف دارالسلام لاہور ہیں۔ باری تعالی نے حضرت حافظ صاحب کواخاذذہن اور سیال قلم سے نوازا ہے۔ فاضل مؤلف نے اس سے قبل دین اسلام کی تعلیمات کے مختلف عنوانات سے جو علمی سرمایہ سرردقلم کیا اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔
مذکورہ بالا تصنیفِ لطیف میں انہوں نے جہاں دلائل وبراہینِ قاطعہ کے ذریعے اہل حدیث کے منہج و مسلک کو بیان کیا ہے وہاں براہین قاطعہ کے ساتھ حنفیہ کے عقائد کا بطلان بھی واضح کر دیا ہے۔کتاب میں احناف کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردانِ رشید امام محمد اور امام ابویوسف رحمہما اللہ اور ان کی سوچ وفکرکے حاملین دیگر فقہائے حنفیہ ، ان سے اہل حدیث کا اصولی اختلاف نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک بھی مسائل میں قولِ فلصت قرآن وسنت کے واضح نصوص اور آثارسلف ہیں۔
دوسرا گروہ: یہ علماء کرام اکثروبیشتر حدیث کی صحت و ضعف کے معیار اور نقدوتحقیق ِ حدیث کے لئے محدثین کرام کے وضع کردہ اصول وضوابط کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس جب کوئی صحیح حدیث ان کے فقہی مسائل کے مخالف ہو یا اس سے ان کے خودساختہ عقائد پر ضرب پڑتی ہوتو پھر وہ اسے حیلے یا خود ساختہ اصول کے تحت رد کردیتے ہیں ۔دراصل یہ غیر محدثانہ روش ہے
احناف کا تیسرا گروہ انتہائی غالی قسم کا ہے حدیث کی ان کی ہاں اہمیت نہیں بلکہ تقلیدِ حرام پر فخرکرتے ہیں۔ فاضل مؤلف نے احناف کے تینوں گروہوں سے متعلق مثالوں کے ساتھ تفصیلی بحث کی ہے۔
کتاب کی نمایاں خصوصیات:
mمتکلم اسلام مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ کا فکر انگیز مضمون تعارف ِ اہل حدیث بطور مقدمہ شامل کیاگیا ہے۔
mعقائد دیوبند سے متعلق معلومات فریق مخالف کی معتمد ترین کتاب المہند علی المفند سے لی گئی ہیں اور ہر عقیدہ حنفیہ پر قرآن وسنت کی روشنی میں جرح کی گئی ہے ۔
mاحناف کی علمی خیانتوں کا باحوالہ تذکرہ ۔
mاکابرپرستی کے نقصانات سے متعلق حنفی عالم کا فکری مضمون گویاشہد شاہد من اہلھاہے
mحدث العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے ارشاداتِ عالیہ کو وضاحتی نوٹس کے ساتھ شامل کتاب کیا ہے۔
mامام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کا مضمون بعنوان ’’ اہل حدیث کا طرز استدلال وطریق اجتہاد اور احناف کا خودساختہ اصولوں کی بنیاد پر احادیث کا انکار‘‘ اس مضمون میں حضرت میر سیالکوٹی رحمہ اللہ نے احناف کے خودساختہ اصولوں پر شرح وبسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔
mجامعہ ابن تیمیہ لاہور کے سابق شیخ الحدیث اور معروف سلفی عالمِ دین فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالرحمن ضیاء صاحب کا مقالہ جوکہ ’’اہل حدیث اور اہل تقلید کے منہج میں فرق ‘‘کے عنوان سے ہے اس میں مولانا حفظہ اللہ نے ناقابل تردید دلائل کے ذریعے بوجہ تقلید صحیح احادیث سے انحراف کی ۲۱ مثالیں ذکرکی ہیں کتاب کے آخر میں ماضی قریب کی عظیم الشان علمی شخصیت حدیث نبوی کے عظیم خادم الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا مکالمہ درج کیا ہے جس میں انہوں نے اہل حدیث اور سلفی القابات پر روشنی ڈالی ہے
کتاب کا ٹائٹل کاغذ کمپوزنگ اور ڈیزائنگ بہترین ہے، اس کتاب کے ذریعے فاضل مؤلف نے اہل حدیث اور احناف کے مابین اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
ہم منہج اہل حدیث سے محبت اور ملک ِعزیز میں اتحاد واتفاق کے خواہش مند افراد سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس قیمتی کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کریں ۔
جزاکم اللہ خیرا