Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

04 Nov,2018

بَاب الِاسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

20-150- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ وَاسْمُهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَجِيءُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ يَعْنِي يَسْتَنْجِي بِهِ

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ابومعاذ سے جن کا نام عطاء بن ابی میمونہ تھا نقل کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺرفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا اپنے ساتھ پانی کا برتن لے آتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پانی سے رسول اللہ ﷺطہارت کیا کرتے تھے۔

Narrated Anas bin Malik: Whenever Allah's Apostle went to answer the call of nature, I along with another boy used to accompany him with a tumbler full of water. (Hisham commented, "So that he might wash his private parts with it.)"

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ هُوَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ تَبِعْتُهُ أَنَا وَغُلَامٌ مِنَّا مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ ( رقمه : 151 )

سلیمان بن حرب، شعبہ، عطاء بن ابی میمونہ، سيدناانس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب اپنی حاجت کے لئے نکلتے تھے تو میں اور ہم میں سے ایک لڑکا دونوں آپ کے پیچھے جاتے تھے، ہمارے پاس پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔

شر ح الكلمات :

لِحَاجَتِهِ

قضائے حاجت کے لیے

أَجِيءُ

میں آتا تھا

غُلَامٌ

لڑکا وہ چھوٹا بچہ جس کی عمر سات سال ہو

إِدَاوَةٌ

پانی کا برتن

يَسْتَنْجِي بِهِ

جس سے آپ ﷺ استنجاء فرماتے تھے

تراجم الرواۃ :

1 ھشام بن عبد الملک ابو الولید الباھلی کا ترجمہ حدیث نمبر 3 میں ملاحظہ فرمائیں ۔

2شعبہ بن حجاج کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں

3 نام ونسب : عطاء بن ابی میمونہ ۔ ابی میمونہ کا نام منیع تھا ، بصرہ سے تعلق تھا ۔

کنیت : ابو معاذ

محدثین کے ہاں رتبہ :

امام ابن حجر کے ہاں ثقہ ہیں لیکن قدری ہونے کا الزام تھا۔ اور امام ذہبی کے ہاں صدوق تھے۔

وفات : عطاء بن ابی میمونہ نے 131 ہجری کو بصرہ میں طاعون کے سبب وفات پائی۔

4 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔

تشریح : 

شریعت طہارت کے معاملے میں خوب مبالغہ کا حکم دیا ہے کہ خو اچھی طرح طہارت حاصل کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ بھی اچھی طرح پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (التوبة: 108)

’’اور اللہ تعالیٰ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتاہے۔‘‘

اس حدیث سے یہ راہنمائی بھی ملتی ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا انتظام کرلیا جائے ممکن ہے کہ بروقت طہارت کیلئے کوئی چیز میسر نہ ہو ۔استنجاء ڈھیلے سے بھی کیا جاسکتاہے مگر پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے ۔ ڈھیلے اور پھر پانی سے استنجاء کرنا افضل ترین ہے۔طہارت حاصل کرنے میں نوعمر بچوں یا کسی بھی شخص سے مدد لی جاسکتی ہے۔ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہوتے ہیں۔

بہر کیف پانی سے استنجاء کرنے کے بارے میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتاہے۔ سیدناحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ پانی سے استنجا ءنہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے ہاتھ میں بدبو باقی رہ جاتی ہے۔سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے۔سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔بعض حضرات نے پانی سے استنجا اس لیے درست نہیں خیال کہ یہ پانی مشروبات سے ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کرکے اس موقف کی تردید فرمائی ہے۔( فتح الباری 329/1)

بعض لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ عنوان کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا کیونکہ حدیث کے جس حصے سے عنوان کاتعلق ہے،وہ سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان نہیں بلکہ وہ نیچے کے راوی ابوالولید ہشام کی وضاحت ہے۔لیکن یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ روایات میں سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اس بات کی صراحت ہے کہ یہ پانی رسول اللہ ﷺ سے استنجا ءکرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ (صحیح البخاری الوضو حدیث 152)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے علاوہ بھی روایت کا حوالہ دیاہے۔( فتح الباری 330/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی بجائے مٹی کے ڈھیلے بھی بطور استنجاء استعمال کیے جاسکتے ہیں۔لیکن پانی کا استعمال بہتر ہے کیونکہ مٹی کے ڈھیلوں سے عین نجاست تودور ہوجاتی ہے لیکن اس کے ا ثرات باقی رہتے ہیں جبکہ پانی کے استعمال سے نجاست اوراس کے اثرات ونشانات بھی زائل ہوجاتے ہیں۔پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا تو بالاتفاق افضل ہے۔واللہ اعلم بالصواب

Read more...

اسلام کا نظام طہارت

11 Jun,2011

اسلام نے جہاں ہدایت ورشد کے قوانین وضع کیے ہیں وہاں لوگوں کی جسمانی حفاظت کے لیے بھی خاص قوانین وضع کیے جو ان کو تمام امراض سے محفوظ رکھتے ہیں ، اسلام کے ان قوانین کی امتیازی کیفیت یہ ہے کہ اس میں روح اور جسم دونوں کے فطری تقاضوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اور ان کے مابین ایک مضبو ربط قائم کیا جو مسلمانوں کو اپنے رب سے اور نزدیک کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے ۔

اسلام اپنے ماننے والوں کو مثبت زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے اور جسمانی طور پر بیمار فرد کو اپنی ذات سے ہی فرصت نہیں ملتی کہ وہ زندگی کے مقاصد پر غوروفکر کرے اور اس انسانی فرض کی ادائیگی کر سکے جو رب العزت کی طرف سے اس پر عائد کیا گیا ہے اور وہ فرائض جو مسلم معاشرہ کے ایک فرد پر عائد ہوتے ہیں تاکہ وہ معاشرے کا ایک مفید شہری بن سکے ۔

مریض انسان کمزور ارادہ ، ضعف اعضاء ، مضطرب فکر اور انتشار اعضاء کا شکار ہوتا ہے جس سے اس کے معاشرہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جبکہ مضبوط اور صحت مند افراد معاشرے کو اپنی ذات سے بھر پور فائدہ پہنچا سکتے ہیں اسی لیے دین اسلام نے جو لوگ جسمانی طاقت کے ساتھ سلیم النفس اور عمدہ اخلاق کے مالک ہوں ان کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :

سیدنا شعیب علیہ السلام کی بیٹی کی زبان سے سیدنا موسی علیہ السلام کے متعلق توصیف بیان کی گئی ہے :

{یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِینُ}(القصص: ۲۶)

’’اے ابا جان آپ ان کو اجرت پر رکھ لیں کیونکہ اچھا ملازم وہ ہے جو مضبوط ہو اور امانت دار بھی ہو ‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے جو اس امر پر دلالت کر تاہے کہ جسمانی طاقت قابل تعریف ہے ، سیدنا طالوت علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے :

{إِنَّ اللَّہَ اصْطَفَاہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہُ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللَّہُ یُؤْتِی مُلْکَہُ مَنْ یَشَاء ُ وَاللَّہُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ}(البقرۃ: ۲۴۷)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے مقابلے میں ان کو منتخب فرمایاہے اور ان کو علم (سیاست )اور جسمانی طاقت زیادہ عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ وہ اپنا ملک جس کو چاہیں دیں اور اللہ تعالیٰ وسعت والے اور جاننے والے ہیں ‘‘

اس آیت میں بنی اسرائیل سے خطاب کیا گیا ہے اور طالوت کے انتخاب کی دو بڑی وجوہات بیان کی گئی ہیں ، ایک وسعت علم جس کے باعث  مثبت فکر اور تدبیر امور اور تیراندازی ہو سکتی ہے ، دوم : جسمانی اعتبار سے صحت مند ہونا صحت اور سوچ کے لیے لازم ملزوم ہے ۔

ایک حدیث میں بھی مضبوط اور جسمانی صحت کی تعریف کی گئی ہے :رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا:

الْمُؤمِنُ القَوِیُّ خَیْرٌ وَأحَبُّ اِلَی اللہِ مِنَ الْمُؤمِنِ الضَّعِیْف وَفِی کُلِّ خَیْرٍ…(مسلم)

’’قوی مومن اللہ پاک کے نزدیک ضعیف کی نسبت محبوب اور بہترہے اوربھلائی ہر ایک میں ہے  ‘‘

اور اسلام کی جامعیت واکملیت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام نے مسلمانوں پر صحت کے و ہ اصول وقوانین فرض قرار دیئے جو عصر حاضر میں طب جدید نے امراض کے واقع ہونے سے قبل ان کی مدافعت کیلئے اساس وبنیاد تصور کرتی ہے اور اگر ایسے امراض پیدا ہو بھی جائیں تو ان سے بچت اور نجات حاصل کرنے کے لیے بھی قوانین وضع کیے گئے اور ان کے علاج کے ضمن میں مکمل ہدایات بیان کیں۔

امراض سے بچائو کے لیے قوانین مدافعت:

کسی بھی مرض کا بہترین علاج پرہیز میں مضمر ہے حفاظتی تدابیر پر مشتمل طب کا یہ پہلو ترقی یافتہ ممالک میں ایک باقاعدہ علم کی حیثیت سے نشوونما پارہا ہے اسلام نے ان حفاظتی تدابیر یا قوانین مدافعت کو درج ذیل تقسیم کے ساتھ بیان کیا ہے :

۱۔ عمومی صفائی

۲۔ کھانے پینے کی اشیاء میں صفائی۔

۳۔ صحت عامہ

۴۔ جسمانی ریاضت

ان قوانین سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام نے صحت کے حوالے سے تمام ممکنہ جوانب کا احاطہ کیا ہے جن کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی ۔

۱۔ عمومی صفائی :

اسلام نے صفائی کو بہت اہمیت دی ہے جیسا کہ ارشادات نبوی سے یہ امرظاہر ہوتا ہے ، فرمایا؛

الطہور شطر الایمان ۔

’’نظافت (صفائی ) ایمان کا جزو ہے ‘‘

غالبا نہیں بلکہ یقینا اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے اپنے متبعین کو صفائی کی اتنی شدت سے تاکید کی جس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔

اس کی وضاحت درج ذیل امور سے ہوتی ہے

وضو کا فائدہ:

اسلام نے نماز ادا کرنے سے پہلے وضولازمی قرار دیا ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلَاۃِ فَاغْسِلُوا وُجُوہَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُء ُوسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ إِلَی الْکَعْبَیْنِ}(المائدہ: ۶)

’’اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو دھوئو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں تک دھو لیا کرو‘‘

رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرائض وضو پر کلی کرنا ، ناک کی صفائی اور کانوں کا مسح ، ہاتھ اور پیر وں کی انگلیوں کے خلال کااضافہ کیا ہے ۔جب طہارت کا یہ عمل دن میں کم از کم پانچ بار دہرایا جائے تو اس کے مختصر فوائد یہ ہیں:

۱۔ آنکھیں مرض امد سے محفوظ رہیں گی جس میں آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں ، کیونکہ دن میں وہ کئی مرتبہ دھوئی جائیں گی ۔

۲۔ ناک کے نتھنوں کا دھلنا زکام سے بچائو میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔

۳۔ اسی طرح چہرے ، ہاتھوں اور دونوں کانوں کا دھلنا ان کو جلدی امراض اور سوزش پیدا کرنے والے امراض پیدا ہونے سے بچاتاہے ۔

غسل کا فائدہ:

اسلام نے طہارت کے حصول کیلئے غسل کو سب سے بڑا وسیلہ قرار دیا ہے جو ہر مردوعورت پر ازدواجی تعلقات کے بعد یا احتلام کے بعد فرض ہے ، قرآن مجید میں ارشاد رب العالمین ہے :

{وَاِنْ کُنْتُم جُنُباً فاَطَّہَّرُوا} (المائدہ:۶)

’’اگر تم جنبی ہو تو طہارت حاصل کرو‘‘

ازدواجی تعلقات کے بعد غسل سے مردو عورت دونوں اپنی جسمانی طاقت بحال کر لیتے ہیں اور اس غسل کا روحانی فائدہ یہ ہے کہ مسلمان روحانی طور پر بھی صفائی کی اس کیفیت سے گزرتاہے جو شہوانی غلبہ سے باز رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتاہے ۔

دانتوں کی صفائی :

بہت سے امراض اس بنیاد پر پیدا ہوتے ہیں کہ دانتوں کی مناسب صفائی نہیں کی جاتی اور وہ جراثیم منہ کے ذریعے معدے میں چلے جاتے ہیں اور معدے اور جگر کے امراض کا سبب بنتے ہیں اس کا اسلام نے ایک مناسب حل تجویز کیا ہے کہ مسواک کی جائے اور اس پر اتنی تاکید فرمائی :

لَو لَا أنْ أشُقَّ عَلَی اُمَّتِی لأمَرْتُھُم بِسِواکٍ مَعَ کُلِّ صَلَاۃٍ۔ (متفق علیہ)

’’اگر میری امت پریہ عمل دشوارنہ گزرے تو میں ان کو حکم دیتا کہ ہر نماز سے قبل مسواک کریں‘‘

مسواک دراصل باریک ریشوں پر مشتمل لکڑی ہوتی ہے جسے دانتوں کی صفائی کیلئے استعمال کیا جاتاہے اور جس کا کوئی نعم البدل جدید سائنس آج تک نہیں دے سکی کیونکہ مختلف مسواک میں بعض سریع الزوال تیل اور مفید اجزاء کا خلاصہ اور معدنی نمکیات پائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے مسواک کے مسلسل استعمال کے بعد بے شمار امراض سے بچائو ممکن ہو جاتاہے ، کیونکہ دانتوں کی صفائی نہ کرنے سے چند جراثیم پیدا ہوتے ہیں جن میں زہریلے مادے پیدا ہوجاتے ہیں ان کو جب جسم چوستاہے تو بہت سارے امراض پیدا ہوتے ہیں۔اسی طرح برش کا استعمال بھی اسی غرض سے کیا جاتاہے ۔

ناخنوں اور بالوں کا کاٹنا:

اسلام نے جسمانی صحت کے حوالے سے کوئی پہلو نظر انداز نہیں کیالہذا جسمانی صفائی کو مدنظر رکھتے ہوئے جسم سے زائد بالوں کا مونڈنا اور ناخن کٹوانے کا حکم دیا ہے ، رسول اللہ   صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے :

پانچ اشیاء فطری واجبا ت میں سے ہیں ، زیر ناف بال صاف کرنا ، ختنہ کرانا ، مونچھوں کا کاٹنا ، بغل کے بال صاف کرنا اور ناخن کٹوانا۔

فطرت سے مراد سنت ہے جس پر عمل کرنا گویا اپنی طبعی حالت میں واپس آنا ہے بعض نے فطرت سے مراد دین لیا ہے لیکن اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ زیر ناف بال کی مستقل صفائی سے بعض جنسی امراض سے یقینی بچائو ممکن ہوتاہے اور جنسی افعال میں اضافہ بھی ہوتا ہے، ختنہ کرانے سے بعض جنسی امراض سے بچائو ممکن ہو تا ہے کہ ختنہ نہ کرانے سے صفائی کا عمل ناممکن ہو جاتاہے ، مونچھوں کو کٹوانے سے ان امراض سے بچائو حاصل ہو تا ہے جو کھانے پینے کی اشیاء کا مونچھوں سے لگنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ اور اسی طرح بغل کے بال جو ایک بند جگہ پرہوتے ہیں صفائی کے نہ ہونے کی وجہ سے امراض کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ناخن کٹوانا ،نہ کٹوانے کی صورت میں ناخنوں میں مضر جراثیم جنم لیتے ہیں جو کھانے پینے کی غذائوں کے ساتھ جسم میں داخل ہوتے ہیں اور مہلک امراض کا سبب بنتے ہیں

نجاست سے طہارت حاصل کرنا:

اسلام نے ہر مضر جراثیم شدہ چیز کو نجس قرار دیاہے جس سے کوئی بیماری جنم لے سکتی ہو ، اس سے طہارت وصفائی حاصل کرنے کا حکم ایک سے زائد مقامات پر آیاہے ۔ اس میں کپڑوں کی پاکیزگی جو عبادات میں فرض ہے ۔

وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ۔ (المدثر:۴)

ــ’’اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو‘‘

یہ امر قابل غور ہے کہ اسلام نے اسے پانی سے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا جو نہ صرف طاہر ہو یعنی پاک ہو بلکہ مطہر بھی ہو یعنی پاک کرنے والا کیونکہ بعض مائعات طاہر تو ہوتے ہیں لیکن مطہر نہیں ہوتے مثلاً: کولڈ ڈرنک یا دیگر مشروب وغیرہ۔

مطہر پانی کی کچھ صفات بھی مقرر کی گئی ہیں۔ جن میں تبدیلی کی صورت میں پاک کرنے والا وصف ختم ہو جاتاہے مثلا کسی پانی میں رنگ ، بواور ذائقہ میں سے کسی ایک امر کی تبدیلی اسے اس وصف سے خارج کر دیتی ہے ۔بلکہ اسلام میں طہارت حاصل کرنے کی اس قدر تاکید فرمائی گئی ہے کہ اگر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے تیمم کر لے اور اس کے ساتھ اس قدر احتیاط کا قائل ہے کہ طہارت حاصل کرتے وقت بایاں ہاتھ استعمال ہو کیونکہ دایاں ہاتھ کھانا کھانے اور مصافحہ کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔

ا رشاد رسول معظم  صلی اللہ علیہ و سلم  ہے :

’’جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب بیت الخلاء جائے تو اپنے عضو کو نہ دائیں ہاتھ سے نہ چھوئے اور اپنے دائیں ہاتھ سے صفائی نہ کرے۔ (بخاری)

بلکہ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

’’جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو اپنا ہاتھ پانی کے برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اس کو تین بار نہ دھو لے کیونکہ تم میں سے کسی کو پتہ نہیں کہ اس کے ہاتھ کس جگہ پر لگتا رہتا ہے ۔‘‘

کھانے اور پینے کی اشیاء میں صفائی:

انسانی صحت کا دارومدار اس امر پر ہے کہ وہ جو اشیاء بطور غذا استعمال کر رہا ہے وہ پاک ہوں ، ناپاک نہ ہوں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

{یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُلُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاشْکُرُوا لِلَّہِ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُونَ (172) إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللَّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ} (البقرہ:۱۷۲۔ ۱۷۳)

اے ایمان والو ! جو پاک چیزیں ہم نے تم کو عطا کی ہیں ان میں سے جو چاہو کھائو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اس کی عبادت کرتے ہو تو ، اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف ان چیزوں کو حرام قرار دیاہے جو مردار ہیں ، بہتا ہوا خون اورخنزیر کا گوشت اور ایسے جانور جو غیر اللہ کے لیے ذبح کیے گئے ہوں ۔

۱۔ مردا ر جانور : ایسا جانور جو طبعی موت یا کسی حاد ثہ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر گیا ہو کیونکہ طبعی موت اسباب کے ساتھ واقع ہوتی ہے جس کی وجہ مضر جراثیم کا اس کے گوشت میں باقی رہنا ہے کیونکہ یہ بات تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ مردار جانور کا گوشت آگ کے ذریعے بھی ذبح کیے گئے جانور کی خاصیت حاصل نہیں کر سکتا اور اگر جانور بوڑھا تھا تو ایسے گوشت کا ہضم ہونا اورغذائی افادیت کا کم ہو نا صاف ظاہر ہے جو بعض اوقات معدے پر بوجھ بنتاہے ۔  (جاری ہے

Read more...

اسلام میں ظاہر اور ضمیر کی اہمیت و تربیت

19 Nov,2017
اسلام میں ظاہر اور ضمیر کی اہمیت و تربیت اسلام میں ظاہر اور ضمیر کی اہمیت و تربیت

پہلا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں، وہ بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، میں معمولی اور ڈھیروں سب نعمتوں پر اسی کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت عظمت اور کرم والی ذات ہے۔ میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ خیرِ عام کے داعی ہیں۔ اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ تقوی آخرت کیلیے زادِ راہ، تنگ حالات میں قوت، اور آزمائش کے وقت تحفظ کا باعث ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ [آل عمران: 102]
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے کما حقُّہ ڈرو اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔
اللہ تعالی نے انسان کو بہترین انداز سے پیدا فرمایا، اسے خوبرو بنانے کے ساتھ کامل دل بھی عطا فرمایا، فرمانِ باری تعالی ہے:
يَاأَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ [الانفطار: 6 - 8]
اے انسان ! تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکا دیا جس نے تجھے پیدا کیا، تجھے ٹھیک ٹھاک کیا اور تجھے متوازن بنایا پھر جس صورت میں چاہا تجھے جوڑ دیا ۔
انسان کی خوبصورتی دل کے صاف ہونے سے تکمیل کے زینے عبور کرتی ہے اور صاف دل ظاہری خوبصورتی کا حسن دوبالا کر دیتا ہے، نیز یہی دل کی صفائی رنگ روپ کو بار آور بنانے والا جوہر ہے۔
اگرچہ لوگ رنگ روپ کو ہی اہمیت دیتے ہیں اور اسی تک ان کی دوڑ دھوپ ہوتی ہے؛ لیکن اللہ تعالی کی نظر انسان کے دل پر ہوتی ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالی یقینی طور پر تمہاری صورت اور دولت کو نہیں دیکھتا وہ تو تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
دل کا تعلق اللہ تعالی کے ساتھ جس قدر مضبوط ہو گا اتنی ہی لوگوں میں محبت اور شہرت پائے گا، لہذا جس بندے کا دل اللہ کی محبت سے معمور ہو تو زمین و آسمان میں کہیں بھی دلوں میں جگہ بنا لے گا، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’یقیناً جس وقت اللہ تعالی کسی بندے سے محبت فرمائے تو جبریل کو بلا کر فرماتا ہے: ’’میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو‘‘اس پر جبریل بھی اس سے محبت کرتا ہے، پھر آسمان میں صدا لگاتا ہے: اللہ تعالی فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو" اس پر اہل آسمان بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر پوری زمین پر اس کی مقبولیت پھیلا دی جاتی ہے۔‘‘
لوگوں کے ظاہر اور باطن سب کو قیامت کے دن حساب کتاب میں شامل کیا جائے گا، فرمان باری تعالی ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا [الإسراء: 36]
’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ؛ کیونکہ کان ،آنکھ اور دل سب سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔‘‘
اتنی گہرائی والا یہ فہم مسلمان کو اپنے دل کی اصلاح کرنے پر مجبور کر دیتا ہے، اور دل کی اصلاح کیلیے بنیاد یہ ہے کہ معبود کی عبادت خالص نیت کے ساتھ کی جائے؛ کیونکہ نیت ہی بندگی کا راز ہے۔
اللہ کی بندگی میں ظاہری رنگ روپ کے اہتمام کو شامل کرنے کا ذریعہ بھی اتباع اور اقتدا ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ [آل عمران: 31]
کہہ دو: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
عبادت مسلمانوں کی ظاہری اور باطنی ہر دو طرح سے تربیت کرتی ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پر غور و فکر کرنے والے کو ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں کا اہتمام واضح ملے گا، مثلاً: مسلمان نماز میں اپنے پروردگار کے سامنے سیدھی صفیں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں، بلکہ شریعت نے صف بندی کو نماز کے قیام میں شامل کیا ہے؛ کیونکہ آپ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ لوگوں کو صفیں سیدھی کرنے کا حکم دیتے اور فرماتے :’’اللہ کے بندو! تم اپنی صفیں سیدھی کر لو، وگرنہ اللہ تمہارے چہروں کو ایک دوسرے سے موڑ دے گا۔‘‘
اسی طرح ہم ظاہری طہارت اور باطنی پاکیزگی کا اہتمام مناسک حج میں بھی واضح دیکھتے ہیں؛ چنانچہ مسلمان کا حج بیت اللہ کیلیے گھر سے چلنا اللہ تعالی کے حکم کی ظاہری اور باطنی تعمیل کی اعلی ترین منظر کشی ہے؛ پھر حج کیلیے خاص لباس، نیت، تلبیہ اور ذکرِ الہی اس مفہوم کو مزید تقویت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَاأُولِي الْأَلْبَابِ [البقرة: 197]
حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کر لے وہ حج میں بیہودگی، گناہ اور لڑائی جھگڑا نہ کرے، تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالی باخبر ہے اور اپنے ساتھ زادِ راہ لے لو سب سے بہتر زادِ راہ تقوی الہی ہے اور اے عقلمندو ! مجھ سے ڈرتے رہو۔
ایسے ہی حبیب اور مصطفی ﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اسلام میں باطن کی قدر و قیمت ہمارے سامنے رکھی کہ اللہ تعالی کی نظریں تمہارے باطن پر ہیں، آپ نے فرمایا: لوگو! یقیناً تمہارا پروردگار ایک ہے، تم سب کا والد بھی ایک ہے۔ سن لو! کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ، نہ کسی گورے کو سیاہ پر نہ ہی کسی سیاہ کو گورے پر تقوی کے بغیر فوقیت حاصل نہیں ہے۔
إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَاكُمْ [الحجرات: 13]
یقیناً اللہ تعالی کے ہاں تم میں سے معزز ترین وہی ہے جو اعلی متقی ہے۔
مسلمان کو تمام گناہوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے ان کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے، فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ [الأعراف: 33]
آپ کہہ دیں: میرے پروردگار نے ظاہری اور باطنی تمام فحش کاموں کو حرام قرار دیا ہے۔
یہ یقینی بات ہے کہ ظاہری صفائی اور باطنی پاکیزگی پورے مسلم معاشرے کو پاک صاف کر سکتی ہے، اس سے اخلاقیات اور سلوکیات میں بہتری آسکتی ہے۔
ہر مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی سے ظاہری اور باطنی دونوں طرح کا تعلق ہوتا ہے، چنانچہ مسلمان جب بھی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو ظاہری طور پر خندہ پیشانی سے ملتا ہے اور ساتھ ہی باطنی طور پر سچے دل سے اس کیلیے دعائیں کرتا ہے، خیر سگالی جذبات کے ساتھ محبت کا اظہار بھی کرتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’کوئی بھی مسلمان آدمی اپنے بھائی کیلیے پیٹھ پیچھے دعا کرے تو فرشتہ لازمی کہتا ہے کہ:تمہیں بھی یہ سب کچھ ملے۔‘‘
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ظاہری طور پر دیگر مسلمان محفوظ رہیں نیز حسد اور کینے جیسی بیماری سے باطنی طور پر محفوظ ہوں، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’حسد، دھوکا دہی، بغض اور نفرت مت کرو، کوئی بھی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اپنے بھائی کو ظلم، تذلیل، دروغ گوئی اور تحقیر کا نشانہ نہیں بناتا۔‘‘
اسلامی اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی کی ظاہری طور قلم اور کلام کے ذریعے مدد کریں ، نیز باطنی طور پر قلب و ذہن کے ذریعے بھی مدد کریں۔ ہر مسلمان پر مسلمانوں کے مسائل کی اپنے مال، اثر و رسوخ، اظہار رائے اور اللہ سے دعا کے ذریعے تائید کرنا واجب ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ
یقیناً ہم نے آپ سے پہلے امتوں کی جانب رسول بھیجے تو ہم نے انہیں تنگی اور سختی میں پکڑ لیا تا کہ وہ گڑگڑا کر دعائیں کریں۔[الأنعام: 42]
اگر مسلمان کوئی حکم صادر کرنا چاہیے تو اسے اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ لوگوں کی جاسوسی کرے اور ان کے خلاف تاک میں رہے، اللہ تعالی کو دلوں کے بھیدوں کا علم ہے چنانچہ ان کا حساب بھی وہی ذات لے گی جس کے سامنے کوئی خفیہ ترین چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک قتال کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی نہ دے دیں پھر نمازیں قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں، اگر وہ یہ سب کام کر لیں تو وہ مجھ سے اپنی جان اور مال محفوظ کر لیں گے ، ما سوائے اسلامی حقوق کے، نیز ان کا حساب اللہ تعالی کے ذمے ہو گا۔‘‘
اس لیے مسلمانوں کے ضمیر پر شک کرنا ان کی نیتوں پر حکم لگانا حقیقت میں مسلمان کی عزت اور احترام سے متصادم ہے، یہ مسلمانوں کے مقام اور مرتبے کو ٹھیس پہنچانے اور ان کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کی طرف لے جائے گا؛ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: پوری دنیا کی تباہی اللہ تعالی کے ہاں ایک مسلمان کے قتل سے ابتر ہے۔
اس لیے رسول اللہ ﷺ اسلام کا دعوی کرنے والے منافقین کے ساتھ مسلمانوں جیسا ہی برتاؤ کرتے تھے، اور ان پر اسلام کے احکامات لاگو کرتے تھے، حالانکہ کچھ کی منافقت کے بارے میں آپ کو علم بھی تھا۔
ایمان کے اثرات آزمائش میں ظاہر ہوتے ہیں: ظاہری طور پر صبر کی صورت میں اور باطنی طور پر امیدِ اجر کی صورت میں؛ لہذا مسلمان اپنے آپ کو بے قابو نہیں ہونے دیتا ، نہ ہی اللہ تعالی کے ساتھ ادب و احترام کا پیمانہ لبریز ہونے دیتا ہے، رسول اللہ ﷺ کا [اپنے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پرفرمان ہے: آنکھیں اشکبار ہیں اور دل افسردہ ہے، پھر بھی ہم وہی بات کریں گے جو ہمارے پروردگار کو پسند ہو گی: ابراہیم! ہم تمہاری جدائی پر یقیناً غم زدہ ہیں۔‘‘
جنت کی جانب دوڑ دھوپ میں کامیابی قلبی امور پر موقوف ہے تاہم ظاہر کی اہمیت بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ سبقت لے جانے والے اور بلند درجات پانے والے قلبی امور کی وجہ سے آگے نکل جاتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ
جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں۔ نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ ، بلکہ اس جنت کی خوشی خبری سن لو جس کا تم وعدہ دئیے گئے ہو۔[فصلت: 30]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اللہ تعالی مجھے اور آپ سب کو اس کی حکمت بھرئی نصیحتوں سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اسی ذات کیلیے ہیں جس نے ہمیں اسلام کے ذریعے ہدایت دی، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بادشاہ اور انتہائی گہرا علم رکھنے والا ہے، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے ہیں ، نماز، روزہ اور قیام میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل ، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد: میں تمام سامعین اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی نصیحت کرتا ہوں۔
اللہ تعالی کی یہ وسیع رحمت ہے کہ انسان کیلیے ایمانی اڈے قائم فرمائے جہاں پر انسان رک کر ایسی چیزیں حاصل کر سکتا ہے جن سے قلبی تزکیہ ہو اور ظاہر کی نشو و نما ہو، ایسے ہی عظیم اور بابرکت ایام جن میں اجر و ثواب بڑھ جاتا ہے عشرہ ذو الحجہ کے دن ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ [الفجر: 1، 2]
قسم ہے فجر کے وقت کی اور قسم ہے [عشرہ ذو الحجہ کی]دس راتوں کی۔
اور انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ان ایام میں کئے ہوئے عمل سے بڑھ کر کوئی بھی عمل نہیں ہے) تو صحابہ کرام نے عرض کیا: جہاد بھی افضل نہیں ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جہاد بھی افضل نہیں ہے، ما سوائے اس صورت کے کہ: کوئی شخص اپنا مال اور جان جوکھوں میں ڈالے اور ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے۔‘‘(بخاری)
انہی ایام کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان ایام میں کثرت سے اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ، اور الحمد للہ کا ورد کرو۔
چنانچہ عشرہ ذوالحجہ سمیت تمام ایام تشریق میں ہر وقت تکبیرات کہنا مسنون ہے کہ عشرہ ذوالحجہ شروع ہوتے ہی آخری یوم تشریق تک تکبیرات کہیں[انہیں تکبیرات مطلق کہتے ہیں]، جبکہ نمازوں کے بعد کی تکبیریں یوم عرفہ کو فجر کی نماز سے لیکر آخری یوم تشریق کے دن سورج غروب ہونے تک جاری رہتی ہیں[انہیں تکبیرات مقید کہتے ہیں]۔
الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، والله أكبر الله أكبر ولله الحمد
اس عشرے کے اعمال میں قربانی ذبح کر کے قرب الہی کی جستجو بھی شامل ہے، جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: یوم النحر [دس ذو الحجہ عید الاضحی] کے دن کئے ہوئے اعمال میں سے اللہ کے ہاں قربانی سے زیادہ کوئی محبوب عمل نہیں۔
اسی عشرے کے اعمال میں غیر حجاج کیلیے یوم عرفہ کا روزہ بھی شامل ہے، اس دن کا روزہ افضل ترین روزہ ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: یوم عرفہ کے متعلق مجھے اللہ سے امید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
اللہ کے بندو! رسولِ ہُدیٰ پر درود پڑھو، اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں تمہیں اسی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجو۔ [الأحزاب: 56]
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.

Read more...

پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان

02 Dec,2018

21-155- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو الْمَكِّيُّ عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ اتَّبَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجَ لِحَاجَتِهِ فَكَانَ لَا يَلْتَفِتُ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقَالَ ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا أَوْ نَحْوَهُ وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا رَوْثٍ فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ بِطَرَفِ ثِيَابِي فَوَضَعْتُهَا إِلَى جَنْبِهِ وَأَعْرَضْتُ عَنْهُ فَلَمَّا قَضَى أَتْبَعَهُ بِهِنَّ .

احمد بن محمد مکی، عمرو بن یحیی بن سعید بن عمرو مکی، سعید بن عمرو، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک دن نبی کریم ﷺ قضائے حاجت کے لیے باہر گئے تو میں بھی آپ کے پیچھے ہو لیا۔ آپ (کی عادت مبارکہ تھی کہ چلتے وقت) دائیں بائیں نہ دیکھتے تھے۔ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے فرمایا: "مجھے ڈھیلے تلاش کر دو، میں ان سے استنجا کروں گا ۔۔ یا اس کی مثل کوئی اور لفظ استعمال فرمایا  ۔۔ لیکن ہڈی اور گوبر نہ لانا۔" چنانچہ میں اپنے کپڑے کے کنارے میں کئی ڈھیلے لے کر آیا اور انہیں آپ کے پاس رکھ دیا اور خود ایک طرف ہٹ گیا۔ پھر جب آپ قضائے حاجت سے فارغ ہوئے تو ڈھیلوں سے استنجا فرمایا۔

Narrated Abu Hurairah: I followed the Prophet while he was going out to answer the call of nature. He used not to look this way or that. So, when I approached near him he said to me, "Fetch for me some stones for ' cleaning the privates parts (or said something similar), and do not bring a bone or a piece of dung." So I brought the stones in the corner of my garment and placed them by his side and I then went away from him. When he finished (from answering the call of nature) he used, them.

وروي بسند آخرحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي جَدِّي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّهُ كَانَ يَحْمِلُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِدَاوَةً لِوَضُوئِهِ وَحَاجَتِهِ فَبَيْنَمَا هُوَ يَتْبَعُهُ بِهَا فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقَالَ أَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ فَقَالَ ابْغِنِي أَحْجَارًا أَسْتَنْفِضْ بِهَا وَلَا تَأْتِنِي بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ فَأَتَيْتُهُ بِأَحْجَارٍ أَحْمِلُهَا فِي طَرَفِ ثَوْبِي حَتَّى وَضَعْتُهَا إِلَى جَنْبِهِ ثُمَّ انْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا فَرَغَ مَشَيْتُ فَقُلْتُ مَا بَالُ الْعَظْمِ وَالرَّوْثَةِ قَالَ هُمَا مِنْ طَعَامِ الْجِنِّ وَإِنَّهُ أَتَانِي وَفْدُ جِنِّ نَصِيبِينَ وَنِعْمَ الْجِنُّ فَسَأَلُونِي الزَّادَ فَدَعَوْتُ اللَّهَ لَهُمْ أَنْ لَا يَمُرُّوا بِعَظْمٍ وَلَا بِرَوْثَةٍ إِلَّا وَجَدُوا عَلَيْهَا طَعَامًا   (رقمه  : 3860 )

شرح الکلمات : 

اتَّبَعْتُ

میں پیچھے چلا

لَا يَلْتَفِتُ

وه ادھر اُدھر توجہ نہیں کرتے تھے

فَدَنَوْتُ

میں قریب ہوا

ابْغِنِي

میرے لیے تلاش کرو

أَسْتَنْفِضْ

میں پاکی حاصل کروں

عَظْم

ہڈی 

رَوْثٍ

گوبر

بِطَرَفِ ثِيَابِي

میرے کپڑے کا کنارہ

فَوَضَعْتُ

میں نے رکھ دیا

جَنْبِهِ

اس کا پہلو

أَعْرَضْتُ

میں ہٹ گیا

قَضَى

اس نے حاجت پوری کی

أَتْبَعَهُ

 اس کے بعد (پتھروں سے) انہوں نے استنجاء کیا

تراجم الرواۃ : 

نام ونسب : احمد بن محمد بن الولید بن عقبۃ بن الأزرق بن عمرو بن الحارث بن أبی شمر الفسانی الأزرقی المکی

کنیت : ابو الولید

محدثین کے ہاں رتبہ : امام ابو حاتم رازی اور ابو عوانہ وابن حجر والذہبی کے ہاں ثقہ تھے۔

وفات : 222 ہجری کو فوت ہوئے ۔

نام ونسب : عمرو بن یحیی بن سعید بن عمرو بن سعید بن العاص القرشی الاموی

کنیت : ابو امیۃ السعیدی المکی

محدثین کے ہاں رتبہ : امام دارقطنی وابن حجر کے ہاں ثقہ جبکہ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ابن معین کے ہاں صالح تھے۔

نام ونسب : جدہ یعنی سعید بن عمرو بن سعید بن العاص بن امیۃ القرشی الأموی الدمشقی الکوفی

کنیت : ابو عثمان جبکہ بعض کے ہاں ابو عنبسہ تھی۔

محدثین کے ہاں رتبہ :امام ابن حجر کے ہاں ثقہ تھے۔

وفات : 120 ہجری میں وفات پائی۔

نام ونسب : ابو ھریرہ عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عامر بن عبد ذی الشّریٰ بن طریف بن غیاث بن ھنیہ بن سعد بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام راجح قول کے مطابق عبد الرحمن بن صخر ہے ۔

کنیت: ”ابوہریرہ“ آپ کی کنیت ہے اور ”ابوہریرہ“ کنیت رکھنے کی و جہ یہ ہے کہ ان کے پاس ایک بلی تھی جس کو وہ اپنے ساتھ رکھتے تھے اسی لیے آپ کی کنیت ابوہریرہ پڑگئی، واضح رہے کہ جس طرح ”اب“ کے معنی باپ کے آتے ہیں اسی طرح ”والے“ ”والا“ کے بھی آتے ہیں اس اعتبار سے ابوہریرہ کا مطلب ہوا ”بلی والے“۔

زمانۂ جاہلیت میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصل نام کیا تھا؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض روایات میں ان کا نام عبدِ شمس (عبد الشمس) آیا ہے، بعض میں عبد ِنہم، عبدِ غنم ، بعض عبد اللہ اور کسی میں عمیر آیا ہے۔ بعض نے کچھ اور نا م بھی لیے ہیں۔ لیکن قول راجح کے مطابق ان کا خاندانی نام عبد ِ شمس (عبد الشمس) تھا۔ قبول اسلام کے چند سال بعد جب وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺنے ان کا جاہلی نام بدل کر اسلامی نام عبد الرحمٰن رکھا۔ بعض روایتوں میں ان کا اسلامی نام عمیر اور عبد اللہ بھی بتایا گیا ہے ، لیکن انہوں نے اپنی کنیت "ابوہریرہ" سے شہرت پائی اور ان کا اصل نام نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ کنیت " ابوہریرہ " پر سب کا اتفاق ہے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَسْمَعُ مِنْكَ حَدِيثًا كَثِيرًا أَنْسَاهُ قَالَ: ابْسُطْ رِدَاءَكَ فَبَسَطْتُهُ قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ ضُمَّهُ فَضَمَمْتُهُ فَمَا نَسِيتُ شَيْئًا بَعْدَهُ (صحیح البخاری:119)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: "اپنی چادر پھیلاؤ۔" میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چلو سا بنایا (اور چادر میں ڈال دیا)، پھر فرمایا: "اسے اپنے اوپر لپیٹ لو۔" میں نے اسے لپیٹ لیا، اس کے بعد میں کوئی چیز نہیں بھولا۔

اسی دعا کی برکت سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ حدیثیں روایت کرنے والے بن گئے اور ان کی مرویات کی تعداد  5374  ہے۔

وفات : 57 ہجری

تشریح: 

اس حدیث مبارکہ میں رسول اکرم ﷺ کا قضائے حاجت کے بعد مٹی کے استعمال کی وضاحت کی جارہی ہے جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو(مٹی) ڈھیلوں سے استنجا کرنے کو ناجائز کہتے ہیں ،یا پانی کی موجودگی میں ان کے استعمال کوصحیح نہیں سمجھتے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے رسول اللہ ﷺکا عمل پیش فرمایا ہے۔آپ نے سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ ہڈی اور گوبرمت لانا۔اس سے معلوم ہوا کہ ہڈی اورگوبر کے علاوہ ہرجذب کرنے والی چیز جو کسی جاندار کی غذا نہ ہو،استنجا میں استعمال کی جاسکتی ہے۔مٹی کے ڈھیلوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ان میں رطوبت جذب ہوجاتی ہے۔( فتح الباری 335/1) آج کل ٹشو پیپر صفائی کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔یہ بھی جاذب ہونے کی وجہ سے اس مقصد کو پورا کرسکتے ہیں۔

ہڈی اور گوبر سے طہارت نہ کرنے کی دو وجوہات بیان ہوئی ہیں:

(الف)ان دونوں سے پاکی حاصل نہیں ہوتی بعض روایات میں اس کی وضاحت ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہڈی اور گوبر کی خصوصیت نہیں بلکہ ہروہ چیز جو تطہیر کے قابل نہ ہو،استنجا کے لیے بے کار ہے۔لید کی نجاست تو ظاہر ہے ۔اس سے طہارت حاصل نہیں ہوتی بلکہ رطوبت کے ملنے سے اس کی نجاست دوچند ہوجائے گی۔ہڈی سے بھی تطہیر کا مقصد حاصل نہیں ہوتا کیونکہ اس میں جذب کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ چکنی ہونے کی وجہ سے نجاست کا ازالہ نہیں کرسکتی۔

(ب)بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ دونوں جنات کی غذا ہیں۔سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"میرے پاس جن آئےاور انھوں نے زاد سفر کی درخواست کی تو میں نے انھیں ہڈی اور گوبر کازاد دیا۔وہ انھیں کھاتے نہیں بلکہ ان پر گوشت اور چارہ پیدا کردیا جاتا ہے،یعنی ان کے ساتھ جنات کی غذا کا تعلق ہے۔آپ نے اس لیے منع فرمایا تاکہ انھیں استنجا سے خراب نہ کیاجائے۔( فتح الباری 336/1)

بعض روایات میں ہے کہ جنات نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ آپ اپنی اُمت کو فرمادیں کہ وہ ہڈی،گوبر اور کوئلے سے استنجا نہ کیا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں میں ہمارے لیے غذا رکھی ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استنجا میں کھانے والی اشیاء کا استعمال درست نہیں ہے اور یہ غذا کے احترام کی وجہ سے ہے لہذا ہر وہ چیز جو کسی بھی حیثیت سے قابل احترام ہو،استنجا میں استعمال نہیں ہوگی۔الغرض ہروہ غیر محترم پاک چیز جو نجاست کے ازالے کی صلاحیت رکھتی ہو،استنجا کے لیے استعمال ہوسکتی ہے اور جس چیز میں جذب کی صلاحیت نہ ہو خواہ وہ بے ضرر ہو اور قابل احترام بھی ہو،اسے استنجا کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا،جیسے شیشہ وغیرہ کیونکہ اس سے نجاست کا ازالہ نہیں ہوتا۔( فتح الباری 336/1)

رسول اللہ ﷺ کی یہ بھی عادت مبارکہ تھی کہ قضائے حاجت کے لیے کچی اور نرم زمین کا انتخاب فرماتے تھے ۔ اس میں بھی بہت زیادہ حکمتیں پنہاں ہیں کہ

" انسانیت کی ابتداء مٹی سے ہے اور فنا بھی مٹی ہے ۔جب سے مٹی پر قضائے حاجت چھوڑ کر ہم نے سخت زمین (فلش،کموڈ اور ڈبلیو سی وغیرہ)استعمال کرنا شروع کی ہے ، اس وقت سے اب تک مردوں میں اعصابی کمزوری اور پتھری کا رجحان بڑھ گیا ہے اور اس کے اثرات پیشاب کے غدود پرپڑتے ہیں "۔

دراصل جب آدمی کے جسم سے فضلات نکلتے ہیں تو مٹی ان کے جراثیم اور تیزابی اثرات جذب کرلیتی ہے ۔ جبکہ کموڈ وغیرہ اس کیفیت سے عاری ہیں ۔ اس لیے وہ تیزابی اور جراثیمی اثرات دوبارہ ہمارے جسم پر براہ راست پڑتے ہیں اور جسم تندرسی سے بیماری کی طرف مائل ہونے لگتا ہے ۔ ایک ماہر طب لکھتےہیں:

"نرم اور بھربھری زمین ہر چیز کو جذب کرلیتی ہے چونکہ پیشاب اور پاخانہ جراثیمی فضلہ ہے اس لیےایسی زمین چاہیے جو کہ اس کو جذب کرنےا ور اس کے چھینٹے اُڑ کر بدن اور کپڑوں پر پڑنے کوروکے"۔

جبکہ یہ کیفیت ٹائلٹ میں نہیں ہوتی ۔ وہاں بھی چھینٹوں کا احتمال رہتا ہے اور مزیدیہ کہ فضلے کو جذب کرنے کی صلاحیت اس میں نہیں ۔فلش میں پیشاب کرنے کی وجہ سے فضلے کے بخارات جذب نہیں ہوپاتے اور فضلے سے اُٹھنے والے یہ بخارات صحت کے لیے مضر ثابت ہوتے ہیں۔

دور حاضر کی میڈیکل سائنس رسول اکرم ﷺ کے قضائے حاجت کے طریقے پرمسلسل ریسرچ کر رہی ہے اور اب تو غیر مسلم سائنسدان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ:

" صحت وزندگی کی بقا اور خوشحالی کے لیے پیغمبر اسلام ﷺ کے قضائے حاجت والے طریقے سے بڑھ کر کوئی طریقہ نہیں ۔ رسول مکرم ﷺ کے اس طریقے پر عمل کرنے سے گیس ،تبخیر،بدہضمی ،قبض او ر گردوں کے امراض واقعی کم ہوجاتے ہیں اور مستقل آپ ﷺ والا طریقہ اپنا کر اِن امراض کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے"

رسول اللہ ﷺ استنجاء کے لیے پہلے ڈھیلے استعمال فرماتے اور ڈھیلے طاق عدد میں استعمال فرماتے تھے۔ اس سنت مبارکہ میں بھی کئی سائنسی اور طبی فوائد ہیں ۔ ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں:

جدید سائنس کی ریسرچ کے مطابق مٹی میں نوشادر اور اعلی درجےکے دافعِ تعفن اجزاء موجود ہیں ۔چونکہ پاخانہ اور پیشاب سارے کا سارا فضلہ ہوتا ہے اور جراثیموں سے بھرا ہوتا ہے اس لیے اس کا جلد ِ انسانی کولگنا انتہائی نقصان دہ ہے ۔ اگر اس کے کچھ اجزاء جلد پر چپک جائیں یا ہاتھ پر ر ہ جائیں تو بے شمار امراض کے پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں:

"ڈھیلےکے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہِ حیرت میں ڈال رکھا تھا لیکن اب یہ حقیقت سامنے آگئی ہے کہ مٹی کے تمام اجزاء جراثیموں کے قاتل ہیں۔ جب ڈھیلے کا استعمال ہوگا تو پوشیدہ اجزاء پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر چمٹے ہوئے تمام جراثیم مرجائیں گے۔بلکہ تحقیقات نے تو یہ بھی ثابت کردکھایا ہے کہ مٹی کا استعمال شرمگاہ کو کینسر سے بچاتا ہے ۔میں نے ایسے مریضوں کو جن کی شرمگاہ پر زخم تھے اور خراش بھی پڑگئی تھی ،مستقل مٹی استعمال کرائی اور انہیں مٹی سے استنجاء کرنے کو کہا تو مریض حیرت انگیز طریقے سے صحت مند ہو گئے"

الغرض میرا ، تمام محقق سائنسدانوں اور اطباء کا یہ فیصلہ ہے کہ یہ مٹی سے بنا ہوا انسان پھر مٹی سے عافیت پائے گا۔چاہے دنیا کے تمام فارمولے استعما ل کرلے اس کو فقط پیغمبر اسلام ﷺ کے طریقوں ہی سے بیماریوں سے تحفظ ملے گا۔

نبی کریم ﷺ نے لید اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ لید میں بے شمار مہلک جراثیم ہوتے ہیں کیونکہ یہ ایک جانور کا فضلہ (پاخانہ ) ہے اور ہر پاخانہ جراثیموں سے پُر ہوتا ہے ۔لید میں تشنج اور تپِ محرقہ کے جراثیم بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔اگرلید سے استنجاء کیا جائے تو وہ جراثیم جسم میں منتقل ہو کر بیمار کرسکتےہیں ۔ اس کے علاوہ اس سے شرمگاہ کو بھی بہت سی بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں ۔جیسے خارش ،جلن،پیپ کا پڑھنا اور شرمگاہ کا کینسر وغیرہ۔

ہڈی سے جب گوشت کھا کر پھینک دیا جاتاہے تو اس کوجانور کھاتے ہیں ۔بعض جانوروں کے لعاب میں خطرناک جراثیم ہوتے ہیں مثلاً کتے کے لعاب میں ایک خاص جرثومہ ہوتا ہے جو اس کی کھائی ہوئی ہڈی پر لعاب کے ساتھ منتقل ہوجاتا ہے ۔مزید یہ کہ ہڈی پر مٹی ، گردوغبار او ر گندگی وغیرہ جم جاتی ہے اس گردوغبار میں گوناگوں جراثیم پائے جاتے ہیں ۔ اب اگر یہ ہڈی استنجاء کےلیے استعمال کی جائے گی تو دیگر جراثیموں کے ساتھ ساتھ کتے کا خاص جرثومہ بھی جسم میں منتقل ہو جائے گا جس سے فسادِ خون ،دل ،جگر،پتا،انتڑیوں اور معدے کے امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔اس لیے رسول اکرم ﷺ استنجاء فرماتے ہوئے ہڈی ،گوبر اور ناپاک اشیاء سے خود بھی بچتے اور مسلمانوں کو بھی بچنے کا حکم صادر فرماتے تھے۔

اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خاص طور پر ہمہ وقت رسول مکرم ﷺ کی خدمت کیلئے تیار رہتے تھے بلکہ اپنے لیے آپ ﷺ کی خدمت بہت بڑی سعادت مندی سمجھتے تھے۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ علماء کرام ،اساتذہ عظام اور خاندان کے بزرگوں کی خدمت کرنا باعث اجر وثواب ہے۔

۔۔۔

 

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول