جی ہاں ہم روزانہ اپنے ملک کے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے سنتے،دیکھتے اور پڑھتے ہیں کہ مدارس فرقہ واریت کے مراکز اور انتہا پسند ی کے مراکز ہیں مدارس میں کوئی تربیت ایسی نہیں دی جاتی کہ جس سے کوئی باکردار طالبعلم پیدا ہوکر اپنے ملک وقوم کی خدمت میں وقت گزارے ، علماء اور خطباء انتشار کے سبب ہیں ان جیسی دیگر خبریں روزانہ ہم اپنے نام نہاد دانشوروں اور بے لاگ مبصرین وتجزیہ نگاروں سے سنتے ہیں اور جب بھی کوئی حادثہ ہو تو فوراً مدارس اور علوم نبوت کے وارثان علماء کرام اور طلباء عظام پر زبان درازی اب ایک فیشن بن چکا ہے لیکن آیئے دنیا کی پہلی دینی درسگاہ اور مدرسہ کے بانی کی سیرت اور کردار اور دنیا کے پہلے مدرسہ کے طلباء کی تاریخ کو بنظر عمیق دیکھتے ہیں کہ کیا دینی مدارس کی بنیاد انتہا پسندی اور فرقہ واریت پھیلانے اور معاشرے میں امن وامان کو تباہ کرنے کی غرض سے قائم کیاگیا یا انسانیت کی تعمیر اور حقوق کے تحفظ کیلئے ؟؟
کیا مدارس اسلامیہ کا مؤسس وبانی نعوذ باللہ کوئی دہشت گرد تھا یا امن عالم کا سفیر؟
کیا مدارس اسلامیہ کی بنیاد انتشار وافتراق پر رکھی گئی یا امن وامان محبت اور بھائی چارگی اور اخوت کو عام کرنے کیلئے؟
اس جیسے دیگر کئی سوالات کا جواب اس وقت ہمیں ملے گا جب ہم حقائق کی روشنی میں آنکھوں سے عصبیت حسد اور پسند وناپسند کی عینک کو اتاریں اور مدارس کی بنیادی جڑوں کو دیکھیں گے۔ دیکھتے ہیں مدارس کی بنیاد کب اور کونسی شخصیت نے رکھی ہے؟
مدارس علوم دینیہ کی ابتداء :
مدارس اسلامیہ کی بنیاد ہمارے پیارے نبی اور پیغمبر اسلام محمد مصطفیٰ ﷺ نے ہجرت کے بعد رکھی ۔صفہ کے نام سے دنیا کی پہلی عظیم دینی درسگاہ اور تربیتی مرکزہمارے پیارے نبی محمد مجتبیٰ ﷺ نے مسجد نبوی میں قائم کی اور نبی کریم ﷺ نے خود درس وتدریس کے عظیم منصب کو سنبھال کر دنیا والوں کو یہ پیغام دیا کہ اس عظیم کام کو اٹھانے والے وہ لوگ ہوں گے جو کہ ورثۃ الانبیاء کے منصب پر فائز ہوں گے۔
دنیاکا پہلا دینی اور تربیتی مرکز اور مدرسہ کے طلباء کرام کونسی عظیم ہستیاں تھیں؟ جی ہاں وہ عظیم طلباء جن کو آج کل ہمارے اصحاب رسول کے نام سے جانتے ہیںیہ وہی پاکیزہ ہستیاں ہیں جن کی چند خوبیاں باری تعالیٰ اپنی کتاب میں ذکر فرماتے ہیں :
أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ (المجادلۃ22)
’’یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا :
رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المجادلۃ22)
’’اللہ ان سے راضی اور یہ اللہ سے راضی ہیں‘‘۔
مزید فرمایا: رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح 29)
’’آپس میں رحمدل ہیں۔‘‘
اور فرمایا:أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ (الحجرات 7)
’’یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔‘‘
جن کے دل نورِ ایمان سے منور تھے اور وہ عظیم ہستیاں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ اعلان کرے کہ وہ مجھ سے راضی میں ان سے راضی ہوں اور جو آپس میں رحمدل اور مہربان ہوں ،رشد وہدایت کے عظیم پیروکار وغیرہ القاب سے متصف ہستیاں ۔
تو کیا ان صفات کے مالک یا ان کے وارث اور منزل مسافر دینی مدارس کے طلباء اس طرح کا سوچ سکتے ہیں کہ وہ معصوم بچوں سے زندگیوں کاحق چھین لیں ؟ کیا جو نبی ﷺ کافروں کی امانتوں کی حفاظت کرے اور
خود دشمنانِ اسلام آپ ﷺ کی امانت وصداقت
کے معترف ہوں ان کے راہ پہ چلنے والے اور علوم دینیہ کی تعلیم حاصل کرنے والے یہ سوچ سکتے ہیں کہ اپنے مسلمان بہن بھائیوں سے انتہا پسندانہ رویہ اپنائیں؟ ہرگز نہیں ...
اگر کوئی عقل وشعور رکھتا ہو تو یقینا وہ غوروفکر کرے گا تو اصل سبب کیا ہے کہ روشنی اور امن کے ان مراکز اور ان کے پھول نشانے پر کیوں ہیں؟
آیئے تاریخ پر نظر ڈالتےہیں کہ علماء کرام اور دینی مدارس وطلباء کو مختلف ناموں سے پکارنے والوں کا مقصد اور اصل ہدف کیا ہے ؟ اور ان کی تاریخ کتنی پرانی ہے ؟
جی ہاں جس طرح دینی مدارس وجود میں آئے تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت یعنی نبی کریم ﷺ کے زمانے سے ہی دشمنانِ اسلام نے سازشیں شروع کیں اور حتی کہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ کو مختلف القابات اور ناموں سے نوازا نعوذ باللہ آپ علیہ السلام کو ساحر، جادوگر، شاعر اور کئی دیگر ناموں سے پکارا لیکن اسی وقت قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اصل مقصد کا تذکرہ کرکے ہمیں آگاہ کر دیا کہ قرآن کریم اور دینی علوم اور علماء کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کا اصل ٹارگت کیا ہے آیئے قرآن پاک کی رو سے ان کے مقاصد کو دیکھتے ہیں کہ یہ کیا چاہتے ہیں ؟
فرمان الٰہی ہے :
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (الصف:8)
’’وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو کمال تک پہنچانے والا ہے گو کافر برا مانیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی سازشوں سے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی ناکام سازشوں کے ذریعے اللہ کے نور یعنی قرآن پاک یا اسلام یا محمد ﷺ یا دلائل وبراہین کو بجھا دیں اسی لیے وہ طعن وتشنیع کرتے ہیں۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ موجودہ دور میں جتنی بھی سازشیں ہو رہی ہیں ان کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے جو بات یہودونصاریٰ اور دشمنانِ اسلام چودہ سوسال پہلے کیا کرتے تھے آج انہی کے نظریات اور افکار کے وارث وہی بات کرتے ہیں اور کررہے ہیں وہ بھی لوگوں کو مختلف ذرائع سے گمراہ کیا کرتے تھے آج انہی کے نظریاتی اور فکری جانشیں انہی کی باتوں کو دہرا رہے ہیں بات صرف یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں دوست نما دشمن اور آستین کے سانپ نہ ہونے کے برابر تھے اور اگر تھے تو بہت کم اور ان کے پاس پروپیکنڈہ کیلئے ذرائع کم تھے آج الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا پر انہی کاغلبہ ہے اسی لیے وہ اپنے اس جال کو وسیع انداز میں پھیلا رہے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کررہے ہیں سوائے اس کے وہ کچھ نہیں کرسکتے کہ وہ بھولی بھالی عوام کو گمراہ کریں۔
علوم دینیہ اور مدارس دینیہ کے عظیم مراکز ان شاء اللہ تاقیامت قائم رہیں گے اور دشمنانِ اسلام اپنی نامراد سازشوں سے ہاتھ دھوئیں گے۔ ان شاء اللہ
عوام الناس کو چاہیے کہ وہ اسلام کے قلعوں کو مضبوط کریں اور دشمنانِ اسلام کو یہ پیغام دیں کہ دینی مدارس ہمارے علمی تربیتی ،اصلاحی ونظریاتی محافظ ہیں اور علماء کرام ہی ہمارے حقیقی وارث ہیں ۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی
ان شاء اللہ
پروفیسر ظفر اللہ رحمہ اللہ ہونہار برواکے چکنے چکنے پات کا مصداق بننے والی شخصیت متحدہ ہندوستان کے ضلع انبالہ تحصیل روپڑ کے ’’ملک پور‘‘ گاؤں میں چوہدری عطاء اللہ رحمہ اللہ کے ہاں 1943ء میںپیدا ہوئے چوہدری صاحب امانت ودیانتدار اور صوم وصلاۃ کے پابند مرد مومن تھے۔ چوہدری عطاء اللہ نے اپنے فرزند ارجمند کی ذہانت وفطانت کو بھانپتے ہوئے ابتدائی تعلیم گاؤں میں مکمل کروانے کے بعد دینی تعلیم کے حصول کے لیے اس دور کی مشہور ومعروف بزرگ ہستی محمد عبد اللہ المعروف صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کے مدرسہ تقویۃ الاسلام اوڈانوالہ ضلع فیصل آباد میں داخل کروایا۔صوفی عبد اللہ صاحب ایک نہایت ہی نیک، متقی، مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔طلباء کرام کو بہت ہی زیادہ عزت دیتے تھے ان کے ساتھ حد درجے کی محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ خاص طور پر ان طلباء کے ساتھ جو محنتی اور مخلص ہوا کرتے تھے ۔انہی ان تھک محنتی اور وفاء شعار طلباء میں الشیخ ظفر اللہ صاحب کا شمار بھی ہوتا تھا پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے مساجد ومدارس کی تعمیر وترقی کا جذبہ ابتدائی تعلیمی دور سے ہی موجزن تھا۔اس شوق کی وجہ سے صوفی عبد اللہرحمہ اللہ کے دوسرے مدرسے تعلیم الاسلام ماموں کانجن کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔پڑھائی کے اوقات سے فارغ ہوکر اوڈانوالہ سے ماموں کانجن آکر مزدوروں کے ساتھ مل کر سر پر گارا اوراینٹیں اٹھاتے ۔الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ کے اس جذبہ صادقہ، ایمانی حرارت، دینی فکر اور دینی جامعہ کی تعمیر میں عملی شوق کو دیکھتے ہوئے ایک بار صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا ’’ظفر اللہ‘‘ کیا میں تیرے لئے اللہ تعالیٰ سے ایسی دعا نہ کروں کہ اللہ تعالیٰ اپنے غیب کے خزانوں سے تیری ضروریات تجھے عطا فرماتا رہے۔صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ کا فرمان سن کرالشیخ ظفر اللہ صاحب نے عرض کی حضرت اس دعا کی بجائے میرے لیے ایسی دعا فرما ئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے دین حنیف کی خدمت کا کوئی بہت بڑا موقع عطا فرمائے ۔ ممکن ہے اس طالب علم ظفر اللہ رحمہ اللہ کو وہ حدیث مستحضر ہو کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتاہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتہ یہ حکم نامہ لے کر آتا ہے {ثُمَّ يُرْسَلُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ بِكَتْبِ رِزْقِهِ} چنانچہ صوفی عبد اللہ رحمہ اللہ نے انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ کے حضور دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو اس طرح شرف قبولیت بخشا کہ الشیخ ظفر اللہ رحمہ اللہ کا خاندان جوکہ انڈیا سے ہجرت کرکے پنجاب آیا تھا اب پنجاب سے سندھ منتقل ہوگیا۔ الشیخ رحمہ اللہ نے بقیہ عصری تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبہ علوم اسلامیہ میں لکچرار کے طور تدریسی خدمات سرانجام دینا شروع کردی اور اس کے ساتھ صوفی عبداللہ رحمہ اللہ کی اس خواہش کو ’’کہ کراچی میں دینی کام کرو پوری دنیا میں کام ہوگا۔ عملی جامہ پہنانے کے لیے گلشن اقبال میں تقریب ایک ایکڑ جگہ کے حصول کے لیے تگ ودو شروع کردی تاکہ عالمی سطح کی ایک عظیم الشان دینی یونیورسٹی تعمیر کی جائے۔ گلشن اقبال میں ایک گلشن محمدی کی بنیاد رکھی جائے جس کے دروازے تشنگان علوم نبوت کے لیے کھلے رہیں اور اس ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنا صرف پاکستان کے ہر علاقے کے طالبان علوم نبوت کے لیے ہی خاص نہ ہو ، بلکہ پوری دنیا کے بہت سے ممالک سے طلبہ حصول علم کے لیے آئیں۔ علوم نبوت کو پوری دنیا میں عام کیا جاسکے۔ اور ویسے بھی انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلامی علوم کے فروغ اور قرآن وسنت کی خدمت کے وقف کررکھی تھی۔ قرآن وسنت کی ترویج کے لیے جنون کی حد تک شوق تھا اس کا اظہار اپنے خطوط میں بھی کرتے رہتے تھے اپنے ایک دوست مولانا منیر احمد صاحب ساہیوال والے ایک دفعہ خط ارسال کیا ۔ کہا پنجاب میں تو فرض کفایہ کی حد تک قرآن وسنت کی تعلیم کا کام ہورہا ہے مگر سندھ ، سرحد اور بلوچستان میں تو فرض کفایہ کی حد تک بھی کام نہیں ہورہا اگر آپ سندھ میں آکر اپنے دینی کام کو وسعت دیں تو کیسا رہے گا۔ یہاں تبلیغی لحاظ سے زمین بہت زرخیز ہے بہت زیادہ گنجائش اور مواقع ہیں اور جماعتی اکھاڑ پچھاڑ بھی نہیں ہے۔
اس وسعت نظری کے پیش نظر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اہلحدیث طلباء کے ساتھ ساتھ دوسرے مسالک کے طلبہ کو بھی کھلے دل سے داخلہ دیا جاتاہے بلکہ سٹاف میں بھی غیراہلحدیث حضرات شامل رکھتے تھے اس طرح یہ ادارہ مختلف مسالک کے علماء اور طلباء کے درمیان ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کے اہم فریضہ بھی سرانجام دے ہے شیخ بولتا ثبوت ہے۔جامعہ کے دیگر شعبہ جات میں معیار کو بلند ترین کرنے کے لیے بہت زیادہ عرق ریزی کرتے تھے طلباء کرام اور اساتذہ عظام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بڑی لگن اور خلوص کے ساتھ دن رات مصروف عمل رہتے تھے۔ اساتذہ اور طلباء کے لیے قدوہ بننے کے لیے دن صبح کے اوقات میں جامعہ کراچی میں تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ اپنے شعبہ کے چیئرمین بھی تھے پھر جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے پورے معاملات کی دیکھ بھال اور پھر تبلیغی اور دعوتی سرگرمیاں اور مشکل ترین حالات میں بھی عشاء کی نماز کراچی سے 35کلو میٹردور دنبہ گوٹھ سپر ہائی وے پر اداکرتے اور فجر کی نماز گھر سے 40 کلومیٹر دور شیریںجناح کالونی کلفٹن میں ادا کرتے یہ آپ کی ایک منفرد خوبی تھی جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ اتنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود فجر کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرتے تھے تلاوت قرآن کریم ذکر الٰہی اور نفلی عبادات کا خاص اہتمام کرتے تھے ۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جس دن میری تلاوت قرآن مجید چھوٹ جائے اس دن میں سستی اور کاہلی کا شکار ہوجاتاہوں۔ تعلق باللہ ان کی نظرمیں باقی احکامات سے بھی زیادہ اہم تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں اتنی برکت عطا فرما ئی کہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ اور جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات کے علاوہ صرف کراچی میں بیس کے قریب مساجد اور مدارس کے بانی اور مؤسس ہیں اور اندرون سندھ اور پنجاب اور بلوچستان اور سرحد میں مساجد اور مدارس اس کے علاوہ ہیں۔ فضیلۃ الشیخ a اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے اور میں بھی یہی دعا کررہا ہوں۔
پھلا پھولا رہے یا رب چمن میری امیدوں کا جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
شیخ صاحب a کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ دینی کاموں کا معاوضہ نہ لیا جائے بلکہ اپنی بساط کی حد تک اللہ کے دیئے ہوئے مال سے کچھ خرچ کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے اور ان کی انتہائی کوشش تھی کہ علماء کرام کو معاشرے میں باعزت اور پر وقار مقام دلوایا جاسکے تاکہ وہ لوگوںکے دست نگر بننے کی بجائے اپنے کسی چھوٹے موٹے کاروبار اور معقول ملازمت سے مناسب مشاہرہ حاصل کرسکیں۔
اس ماہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں اختتامی تقریب منعقد ہو رہی ہےاسی مناسبت سے ان چند سطور میں شیخ محترم کی علمی اور تدریسی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہم ڈاکٹر عبد الوہاب a سابق وی۔سی جامعہ کراچی کے احساسات کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ڈاکٹر عبدالوہاب فرماتے ہیں کہ پروفیسر ظفر اللہ a نہ صرف ایک عالم باعمل تھے بلکہ دینی تعلیم کو پھیلانے میں ان کا بہت بڑا حصہ تھا۔شیخ محترم کی یہ خواہش تھی کہ دینی مدارس کی تعلیم میں اس طرح کی اصطلاحات کی جائیں کہ ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے نہ صرف دینی علوم پر مکمل عبور اور دسترس رکھتے ہوں بلکہ جدید علوم سے بھی مکمل طور پر واقف ہوں۔ اس سلسلہ میں الشیخ ظفر اللہ a اور میںنے مل کر ایک نیا نصاب تعلیم بنانے کی کوشش کی تھی اور ان کی سینئر اساتذہ کرام کے ساتھ تین نشستیں بھی ہوچکی تھیں اور ایک نئی یونیورسٹی کا چارٹ بھی تیار کیا جارہا تھا تاکہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو ایک عملی نمونہ بنا کر پیش کیا جاسکے تاکہ دینی اور جدید علوم کو ملاکر ایک ایسے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جاسکے جس سے امت اسلامیہ کما حقہ مستفید ہوسکے اور درس وتدریس کے ذریعے معاشرے کی اصلاح اسلامی منہج پر کی جاسکے انہی افراد کی اصلاح سے ہی معاشرے کی اصلاح وابستہ ہے۔ دینی اور جدید علوم کے حامل افراد صالح معاشرے کی تشکیل میں بہت زیادہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں اور انہی دینی اداروں کے قیام سے ملک میں نفاذ اسلام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔
پروفیسر ظفر اللہ a کے اچانک دنیا سے اس طرح چلے جانے سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ ابھی تک پُر نہیں ہوسکا ان کے اس مشن کی تکمیل کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ لائحہ عمل تیار نہیں ہوسکا جبکہ موجودہ حالت میں فضیلۃ الشیخ a کے مشن پر گامزن ہونااشد ضروری ہے کیونکہ معاشرے کا ہر فرد اس بات کا تقاضا رکھتا ہے کہ اس معاشرے کاہر ہونہال دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرے۔آخر میں اپنی مادر علمی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے لیے دعا گو ہوں۔
یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارہ ہے
ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ہر سَرُ وْیہاں مینارہ ہے
خدا کرے مری مادَر علمی پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو بھی گزرنے کی مجال نہ ہو