پہلا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ تعالی کیلئے ہیں وہ قبول کرنے والا، نگران اور حساب رکھنے والا ہے، وہ ہر ایک کے ضمیر سے باخبر ، رازوں کو جاننے والا اور سینوں کے بھیدوں سے بھی واقف ہے، تمام معاملات اسی کی گرفت میں ہیں، اسی نے اپنے بندوں کی تمام حرکات شمار اور ان کی موت کا وقت مقرر کیا ہوا ہے، میں اپنے رب کے بے شمار اور لا تعداد فضل و کرم پر اسی کی حمد بیان کرتا ہوں اور شکر بجا لاتا ہوں ، شرکاء اور ہمسروں سے کہیں بلند ذات ہی پاک ہے، اس کے تسلط کے سامنے تمام سرکردہ اور سربراہ ہیچ ہیں، اس کی عظمت کے سامنے جگر بھی چاک ہو گئے اور اس کے ڈر اور خوف سے ٹھوس اور سنگلاخ پہاڑ بھی پھٹ گئے۔

میں اللہ تعالی کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں  اس کی مخلوقات اور اس کی رضا کے مطابق، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی روشنائی کے برابر، اللہ تعالی پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ ، اللہ تعالی پاک ہے وہی عظمت والا ہے، ہمارے پروردگار تو پاک ہے! تو بہت عظیم ہے،  تو بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے، تو پاک ہے، تیرا نام بابرکت ہے، تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں!

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ معاندین ، ہم پلہ اور اولاد سے پاک ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد   اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ نے پیغام رسالت پہنچا دیا اور امانت ادا کر دی اور امت کی خیرخواہی فرمائی، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل، صحابہ کرام اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں پر قیامت تک درود و سلام نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

اللہ کے بندو!میں خلوت و جلوت میں تمہیں اور اپنے آپ کو تقوی الہٰی کی نصیحت کرتا ہوں، یہی اللہ تعالی کی پہلے اور بعد میں آنے والوں کو نصیحت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

{وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللهَ}

اور البتہ تحقیق ہم نے تم سے پہلے کتاب دیئے جانے والے لوگوں کو اور تمہیں بھی یہی نصیحت کی ہے کہ تقوی الہٰی اختیار کرو۔[النساء: 131]

مسلمانو!ہمیں اس بات کی کتنی ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالی کو یاد کریں اور توبہ کیلئے تجدید عہد کریں، اپنے آپ کو ہوس پرستی سے روکنے اور تقوی اپنانے کیلئے تیار کریں۔

ہم یہ بھی احساس اجاگر کریں کہ اللہ تعالی ہمارا نگران ہے، وہ بہت عظیم ہے، اس کے حساب و عذاب کو ذہنوں میں تازہ کریں۔

ہم جدائیاں اور پنڈلی سے پنڈلی ملنے کے لمحات [یعنی: روزِ قیامت]کیلئے تیاری کریں، ہم اللہ تعالی کے سامنے پیش ہونے کیلئے زادِ راہ تیار کریں کہ اس دن انسان اپنے بھائی، ماں، باپ، دوست اور بیٹوں سے دور بھاگے گا، اس دن ہر شخص کو اپنی پڑی ہو گی۔

اللہ کے بندو!سائنسی انقلاب، نت نئی ٹیکنالوجی اور لوگوں کیلئے آفاقی رسائی کی وجہ سے ثقافتی کشمکش پیدا ہو چکی ہے اور سماجی رابطے کے ذرائع سے ہم اپنے گھرانوں میں نبرد آزما ہیں، سوشل میڈیا تک ہر چھوٹے بڑے، مرد اور عورت کو رسائی حاصل ہے، ان حالات میں مسلمان کو اپنی اور اپنے اہل خانہ کی تربیت کیلئے ایک عظیم صفت اور جلیل القدر عبادت کی اشد ضرورت ہے جو کہ انتہائی عظیم الشان عبادت اور نیکی ہے، وہ صفت اللہ تعالی کی حرام کردہ چیزوں اور گناہوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے، اس کی وجہ سے انسان حرام چیزوں سے بچ کر نیکیوں کی جانب راغب ہو سکتا ہے، بلکہ یہ ہر نیکی اور اچھے کام کی ترغیب دلاتی ہے، نیز اس کی وجہ سے دلوں میں اللہ تعالی کی ہیبت بھی پیدا ہوتی ہے۔

وہ صفت یہ ہے کہ خلوت اور جلوت میں خشیت الہٰی اپنائیں، اللہ کی قسم! یہ جتنی بلند خوبی ہے اس کی ہمیں اتنی ہی ضرورت بھی ہے ،اس سے اصلاح ہوتی ہے اور تقوی  حاصل ہوتا ہے، یہ ایمان کی دلیل نیز عقیدہ توحید اور اخلاص کا ثمر ہے، اس سے اخلاق پروان چڑھتا ہے ، ایک مکمل انسان کی صورت میں زندگی گزارنے کیلئے انسان کو خشیتِ الہٰی کی عملاً ضرورت ہے ۔

تنہائی میں اللہ تعالی سے ڈرنا صفتِ احسان کا تقاضا ہے، اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ : (تم اللہ تعالی کی بندگی ایسے کرو کہ گویا تم اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو اور اگر تم اللہ تعالی کو نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے)

دل میں یہ احساس پیدا ہونا خشیتِ الہٰی کا لازم ہے کہ اللہ تعالی ہمارا نگران ہے، اور اس بات کا علم ہو کہ اللہ تعالی ہر چیز پر گواہ ہے، لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے، وہ آنکھوں کی خیانت اور سینوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے، اور اس کے بندے جہاں بھی ہوں وہ ان کے ساتھ ہے،

{مَا يَكُوْنُ مِنْ نَجْوٰى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوْا} [المجادلہ: 7]

تین آدمی سرگوشی کریں تو وہ چوتھا ہوتا ہے اور پانچ کریں تو وہ چھٹا ہوتا ہے، اس سے کم لوگ کریں یا زیادہ لوگ وہ ان کے ساتھ ہی ہوتا ہے، چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔

اب جو شخص یہ جان لے کہ اللہ تعالی اسے ہر جگہ دیکھ رہا ہے، اللہ تعالی اس کے ظاہر و باطن ، خفیہ اور اعلانیہ  ہر چیز سے واقف ہے، اور یہی بات خلوت اور تنہائی میں بھی اجاگر رہے تو تنہائی میں بھی انسان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔

اللہ کے بندو!تنہائی میں خشیتِ الہٰی مغفرت کے دروازوں کی چابی ہے، اور اس میں خیر ہی خیر کے ساتھ اجر عظیم بھی ہے،

{إِنَّ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيْرٌ} [الملك: 12]

بیشک جو لوگ اپنے رب سے بنا دیکھے ڈرتے ہیں ان کیلئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔

بنا دیکھے اللہ تعالی سے ڈرنا رضائے الہٰی اور جنت میں داخلے کا سبب ہے

{مَنْ خَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيْبٍ ۔ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذٰلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ}

 جو رحمن سے بنا دیکھے ڈرتا رہا اور رجوع کرنے والا دل  لے کر حاضر ہوا اس (جنت)میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ یہ دن حیات ابدی کا دن ہے [ق: 33، 34]

اسی طرح فرمایا:

{إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولٰٓئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ۔ جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِيْنَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ}

جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے، یقیناً وہ بہترین مخلوق ہیں ان کے پروردگار کے ہاں ان کا بدلہ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ سب کچھ اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار  سے ڈرتا رہا ۔[البینہ: 7، 8]

خشیت الہٰی متقی لوگوں کی صفت ہے

{وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى وَهَارُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِيَآءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ}  

اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو جو کتاب (تورات) دی تھی وہ (حق و باطل میں) فرق کرنے والی تھی اور ایسے پرہیزگاروں کے لئے روشنی اور نصیحت تھی۔ جو اپنے پروردگار سے بنا دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ روز قیامت کا خوف دل میں رکھتے ہیں۔ [االانبیاء: 48، 49]

خشیتِ الہٰی دلوں کو بھلائی کیلئے تیار کرتی ہے اور انہیں پند و نصائح قبول کرنے پر آمادہ کرتی ہے {إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَيْبِ} بے شک آپ متبعینِ قرآن اور تنہائی میں رحمن سے ڈرنے والوں کو ڈراتے ہیں[يٰس:11] اسی طرح فرمایا:{سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشَى وَيَتَجَنَّبُهَا الْأَشْقَى } خشیت رکھنے والا ہی نصیحت پکڑے گا اور بد بخت اس سے اجتناب کرے گا۔[الأعلى: 1011]

خشیتِ الہٰی کی وجہ سے پند و نصائح اور وعظ و نصیحت کا دلوں اور احساسات پر اثر مزید بڑھ جاتا ہے

{اَللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ إِلٰى ذِكْرِ اللهِ}

اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں۔ جن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں پھر ان کی جلد اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ [الزمر: 23]

اللہ تعالی نے احرام باندھنے والوں کا خشیت اور خوفِ الہٰی  کیلئے امتحان لیا اور فرمایا:

{يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيْكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ}

اے ایمان والو ! اللہ ایسے شکار کے ذریعہ تمہاری آزمائش کرے گا جو تمہارے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہوں گے۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کون غائبانہ طور پر اللہ سے ڈرتا ہے۔ [المائدة: 94]

اللہ کے بندو!پتھر جو کہ جمادات ہیں سننے کی طاقت نہیں رکھتے وہ بھی اللہ تعالی کے ڈر سے گر جاتے ہیں  اور پھٹ پڑتے ہیں، ان کا جمود ، بے عقلی اور لا شعوری بھی خشیتِ الہٰی کے اثرات کے سامنے رکاوٹ نہیں بن سکی، پتھروں کی مضبوطی ، ٹھوس پن اور سنگلاخی بھی پتھروں کو متاثر ہونے سے نہیں بچا سکی،

{وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ}

پتھروں میں سے تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی نکلنے لگتا ہے۔ اور کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ڈر سے (لرز کر) گر پڑتے ہیں۔ [البقرة: 74]

تو-اللہ کے بندو- ہمیں چاہیے کہ ہم بھی نصیحت پکڑیں، اپنے دلوں میں خشوع پیدا کریں اور ان پتھروں سے ہی عبرت حاصل کر لیں

{أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوْا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُوْنُوا كَالَّذِيْنَ أُوْتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَكَثِيْرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ}[الحديد: 16]

جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے ایسا وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل نرم ہو جائیں ؟ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر ایک طویل مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔

اللہ تعالی میرے اور آپ کیلئے قرآن مجید کو بابرکت بنائے، مجھے اور آپ کو قرآنی آیات اور حکمت بھری نصیحتوں سے مستفید فرمائے، میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور عظمت و جلال والے اللہ  سے اپنے اور سب مسلمانوں کیلئے تمام گناہوں کی بخشش طلب کرتا ہوں، اس لیے آپ بھی اسی سے بخشش طلب کرو، بیشک وہ بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں اسی نے دلوں کو فطری طور پر خشیت عطا فرمائی، دل بھی اس کی محبت اور خوف سے اس کے مطیع بن گئے اور اپنے فضل و رحمت سے ہماری رہنمائی فرمائی، درود و سلام ہوں خاتم الانبیاء والمرسلین پر، ان کی آل اور اولیاء پر۔

اللہ کے بندو!معاہدوں کی پاسداری کرو، کل کیلئے تیاری کر لو، آخرت قریب آ رہی ہے اور دنیا گزرتی جا رہی ہے، موت کا وقت قریب ہے، اور سفر بہت لمبا ہے، زادِ راہ معمولی ہے جبکہ خطرات بہت زیادہ ہیں۔

یہ بات ذہن نشین کر لو کہ تمہارے اعضاء ہی تمہارے ناقابل تردید گواہ ہیں، اس لیے ان کا بھر پور خیال کرو خلوت و جلوت میں تقوی الہٰی اپناؤ؛ کیونکہ کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی اس کے سامنے مخفی نہیں ہے، بلکہ ہر چیز اس کے سامنے عیاں ہے۔

مسلم اقوام!

تنہائی میں بھی خشیت الہٰی اپنانا سعادت مندی اور سکون کا باعث ہے، اس سے راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے، یہ فتنوں سے بچاؤ کا باعث بھی ہے، لذتِ خشیت کا اسی کو علم ہے جس نے اس کی لذت چکھی ہے؛ لہٰذا نفس کو خشیت الہٰی کا پابند بنانے کیلئے پورے عزم اور کوشش سے محنت کرو کہ نفس برائیوںسے رک جائے،اور بڑھاپے سے پہلے اسے نکیل ڈل جائے، کیونکہ اگر دل خوف، ڈر اور اللہ تعالی کے جلال سے معمور ہو تو اعضا ء گناہوں کے ارتکاب سے باز رہتے ہیں۔

نبی کریم سے یہ صحیح ثابت ہے کہ: تین چیزیں باعث نجات ہیں: غضب اور خوشی ہر دو حال میں عدل کرنا، امیری اور فقیری میں میانہ روی اختیار کرنا، خلوت و جلوت میں اللہ کا خوف قائم رکھنا۔

اللہ کے بندو!تزکیۂ نفس اور خشیتِ الہٰی دلوں کی اصلاح سے مربوط ہے: (متنبہ رہو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو جائے تو سارا جسم صحیح ہو جائے گا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم برباد ہو جائے گا اور وہ دل ہے)

حصولِ خشیتِ الٰہی کےلیےدعائیں کرو، اس کام میں تمہارے لیے رسول اللہ بہترین نمونہ ہیں: (اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ )یا اللہ! ہمیں اپنی اتنی خشیت عطا فرما جو ہمارے لیے تیری نافرمانی کے سامنے رکاوٹ بن جائے)

اَللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ، وَكَلِمَةَ الْعَدْلِ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا ، وَنَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنَى ، وَنَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَبِيْدُ ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ ، وَنَسْأَلُكَ الرِّضَاءَ بَعْدَ الْقَضَاءِ ، وَنَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ ، وَنَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ ، وَنَسْأَلُكَ الشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ ، فِي غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ ، وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ ، اَللَّهُمَّ زَيَّنَّا بِزِيْنَةِ الْإِيْمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُّهْتَدِيْنَ، يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ!

یا اللہ! ہم تجھ سے تنہائی اور بھرے مجمع میں خشیت کا سوال کرتے ہیں، غضبناکی اور رضا مندی ہر دو حالت میں عدل  و حق پر مبنی بات کا سوال کرتے ہیں، اور ہم تجھ سے فقیری اور امیری میں میانہ روی  مانگتے ہیں، ہم نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا سوال کرتے ہیں، آنکھوں کی دائمی ٹھنڈک چاہتے ہیں، تیرے فیصلوں پر رضامندی کے طلب گار ہیں، ہم تجھ سے مرنے کے بعد خوشحال زندگی کی درخواست کرتے ہیں، نیز تجھ سے تیرے چہرے کے دیدار کی لذت مانگتے ہیں، تجھ سے ملنے کا شوق چاہتے ہیں، یا اللہ! ہمیں یہ سب چیزیں بغیر کسی تنگی اور تکلیف کے عطا فرما، کسی بھی گمراہ کن آزمائش کے بغیر عطا فرما، یا اللہ! ہمیں زینتِ ایمان سے مزین فرما، اور ہمیں ہدایت یافتہ رہنما فرما، یا رب العالمین۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے