اولاد والدین کےلیے عطیۂ الٰہی ہے جس طرح میاں بیوی کی شادی کے بعد یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اولاد سے نوازےنعمت عظمی کے حصول کے بعد والدین پر بہت بڑی ذمہ داری ان کی تعلیم وتربیت کی عائد کی ہے ۔والدین جس طرح اولاد کو دنیوی لحاظ آسائش میں رکھنا چاہتے ہیں یہ ان کی بڑی خیر خواہی ہے مگر اس سے بھی بڑی خیر خواہی یہ ہے کہ اس اولاد کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کی جائے اس کے لیے اولاد کی صحیح تعلیم وتربیت کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ نسلِ نو غلط راستوں پر چل کر خراب نہ ہوجائے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (سورة التحريم:6)

اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔‘‘
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ(صحيح البخاري كتاب الجمعة باب الجمعة في القرى والمدن رقم الحديث : 893)

تم میں سے ہر ایک ذمہ دارہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام ذمہ دارہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا ذمہ دارہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا ذمہ دارہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص ذمہ دارہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔
تربیت ِ اولاد کب اور کیسے؟
والدین اپنی اولاد کیلئے مربی ہوتے ہیں شادی سے قبل یہ ذمہ داری والدین پر عائدہوتی ہے لیکن شادی سے قبل کی زندگی دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے پہلا حصہ بچپن یعنی بلوغت سے قبل کا اور دوسرا حصہ سن شعوری یعنی بلوغت کے بعد کا ہوتا ہے دوسرے حصے کی نسبت پہلا حصہ یعنی بچپن ، والدین کیلئے اولاد کے سنوارنے کا بہترین موقع ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بچے کی تربیت دورانِ حمل اور وضع حمل کے بعد اور دورانِ رضاعت بہت اہمیت رکھتی ہے اور پھر والدین کے اعمال اولاد کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی طرح جب ماں بچے کو دودھ پلاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ ڈرامے،فلموں یا موسیقی وغیرہ میں مشغول ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہے جو تربیت اولاد پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتاہے جبکہ فرض نمازوں کے ساتھ ساتھ تہجد اور نوافل کا بھی اہتمام کرے اور اپنی اولاد کی خیر خواہی کے لیے دعائیں مانگے بچپن میں ہی اگر صحیح تعلیم وتربیت ہو اور اسے تہذیب واخلاق کے سانچے میں ڈھالا جائے تو زندگی کے آخری لمحات تک اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتےہیں خدانخواستہ بچپن میں صحیح تربیت نہ کی گئی توباقی ماندہ زندگی تباہی وبربادی میں گزرنے کا خطرہ ہوتاہے انسان کے اچھے یا
برے اخلاق کی بنیاد کا یہی موزوں وقت ہے کیونکہ محسن
انسانیت ﷺ کا ارشاد ہے :

مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ(صحيح البخاري کتاب

الجنائز باب اذا ءسلم الصبي فمات ھل يصلی عليہ رقم الحديث 1359)
’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کاکوئی عضو ( پیدائشی طورپر ) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ بچے تو صحیح العقیدہ پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کے والدین کی تربیت ان پر جس طرح کے اثرات مرتب کرے گی وہی نتائج برآمد ہوں گے اگر والدین نے اپنی اولاد کو بچپن میں اسلامی تعلیم وتربیت میں پروان چڑھایا تو اولاد والدین اور معاشرے کیلئے دنیا وآخرت میں بہترین سرمایہ ہوگی اور اگر اس کے برعکس اپنے دور کی برائیوں کے اثرات ان کی زندگی پر اثر انداز ہوں گے جیسا کہ آج کل کے دور میں ایسے بچے جن کو بے شعور،کم سن سمجھا جاتاہے لیکن ان کی زبان پر گندی گالیاں اور فحش گانے ہوتے ہیں چلتے پھرتے فلمی اداکاروں کے نقشے پیش کرتے ہیں۔
بچوں کا تعلیمی وتربیتی مرحلہ :
علم ایک نور ہے جس سے انسان کو انسانیت کا پتہ چلتا ہے اہل علم کا مرتبہ قرآن پاک میں ان الفاظ میں ہے :

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ (سورۃ الزمر:9)

’’کہہ دیجیے کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں۔‘‘
اگر والدین چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد اعلیٰ مرتبہ ومقام حاصل کرے تو اپنی اولاد کو علم کی دولت سے نوازیں، اپنے نونہالوں کی تعلیم کا آغاز قرآن پاک کی تعلیم سے کریں۔ ہمارے ملک میں حصول علم کا طریقہ دو طرح کا ہے ایک تو گورنمنٹ کے تحت،اسکول،کالجز اور یونیورسٹیاں ہیں دوسرا یہ کہ ہمارے مذہبی لوگ مل جل کر دینی اداروں اور مساجد میں بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرتے ہیں تو والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کو بچپن میں ہی دین کے ساتھ وابستہ کریں تاکہ جب وہ دنیاوی تعلیمی اداروں کی طرف رخ کریں تو ان پر غیر اسلامی نصابِ تعلیم اثر انداز نہ ہو اپنی اولاد کو اسلامی تربیت اس حد تک دیں کہ ان کے شب وروز کے معمولات اسلامی طریقہ پہ ہوں اور ان پر عمل کرنا ان کی زندگی کا معمول بن چکا ہو یہ بات غلط ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں بچے کو دینی راستے پر چلنے کے لیے مستعد نہیں کیا جاسکتا، یہ ضرور ہے کہ یہ محنت طلب کام ہے قرون اولیٰ سے لیکر آج تک اس کی مثالیں موجود ہیں اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے ’’باب تعلیم

الصبیان للقرآن‘‘

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا :
’’مجھ سے تفسیر کے متعلق سوال کیا کرو یقیناً میں نے چھوٹی عمر میں قرآن حفظ کیا ہے‘‘۔
امام شافعی رحمہ اللہ نےنو برس کی عمر میں قرآن کریم کو حفظ کیا ایسے ہی امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی چھوٹی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھااسی طرح شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ سات سال کی عمر میں قرآن کے حافظ تھے اور اس دور کی مثالی شخصیت شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ نوبرس کی عمر میں قرآن کے حافظ تھے۔ آپ کی اپنی اسلام کے ساتھ وابستگی نہیں تو اپنی اولاد کو کیسے تربیت دے سکیں گے اگر آپ کسی وجہ سے اس رحمت سے پیچھے رہ گئے ہیں تو آپ کو اس نقصان کی تلافی اپنی اولاد کے ذریعے پوری کر لینی چاہیے ان کے لیے دینی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے اس نعمت کے حصول کی وجہ سے جہاں ان کو مرتبہ ومقام حاصل ہوگا آپ بھی اس میں برابر کے شریک ہوں گے اس لیے چاہیے کہ بچوں کو چھوٹی عمر میں ہی اسلام کے مطابق مؤدب،مہذب اور بااخلاق بنا دیاجائے تاکہ بعد کی زندگی میں وہ ایک بہترین مسلمان ثابت ہوں۔
اور شاعر نے کیا خوب کہا ہے :

حرّض بنيك على الآداب في الصغر
كيما تقرَّ بهم عيناك في الكبر
و إنما مثل الآداب تجمعها
في عنفوان الصبا كالنقش في الحجر

’’اپنی اولاد کو بچپن سے ہی ادب سکھلاؤ تاکہ بڑے ہوکر وہ تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور بچپن میں ادب سکھانا ایسے ہے جیسے پتھر پر نقش ہو۔‘‘

رسول اللہ ﷺ اور بچوں کی تربیت :

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو معاشرے کے ہر فرد کیلئے معلم بنا کر مبعوث فرمایا چنانچہ آپ ﷺ چھوٹوں بڑوں کو دین کی تعلیمات سے آگاہ کیا کرتے تھے بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق یوں تو آپ ﷺ کی کئی احادیث کو روایت کیا گیا ہے لیکن میں یہاں ایک جامع حدیث ذکر کروں گا جس میں آپ ﷺ نے ایک بچے کو بنیادی باتوں کی تعلیم دی تھی اور وہ باتیں آج بھی ہر بچے کی اسلامی تربیت کیلئے انتہائی ضروری ہیں ۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک دن میں رسول اللہ ﷺ کی سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا آپ ﷺ نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللهُ بِهِنَّ؟

اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں جو آپ کیلئے سود مند ثابت ہوں گی۔

1 احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ

تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر ووہ تمہاری حفاظت فرمائے گا

2 احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ

 تواللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے،

3 إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ

جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو،

4 وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ

 جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو۔

5 وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ

 اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے۔

6 رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ

قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں ۔

7 تَعَرَّفْ إِلَيْهِ فِي الرَّخَاءِ، يَعْرِفْكَ فِي الشِّدَّةِ

’’خوشحالی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے اور لوگوں کے حقوق اداکرنا تنگی کے ایام میں اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا‘‘۔

8 وَاعْلَمْ أَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَمَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ

’’اور اس بات کو بھی اچھی طرح یاد کرلو کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے جو چیز روک لے وہ تجھے ہرگز نہیں مل سکتی اور اللہ تعالیٰ تجھے جو چیز عطا کرنا چاہے اسے کوئی بھی تجھ سے روک نہیں سکتا۔‘‘

9 وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ، وَأَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْكَرْبِ،

’’اور یہ بھی جان لو کہ مدد صبر کے ساتھ آتی ہے اور ہرپریشانی کے بعد خوشحالی یقینی ہے۔‘‘

0 وَأَنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

’’اور ہر تنگی آسانی اور آسودگی لاتی ہے۔‘‘
(مسند أحمد رقم الحدیث 2804 وصححہ الأنوؤط۔سنن الترمذي أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  رقم الحديث 5216)
یہ دس نصیحتیں بڑوں اور خاص طور پر بچوں کے لیے انمول موتی ہیں لہٰذا سب کو ان پر عمل کرنا چاہیے اور خصوصاً بچوں کو تو یہ باتیں یادکرانی چائیں ۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ  (صحيح مسلم 1631)

’’جب انسان فوت ہوجاتاہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتاہے سوائے تین چیزوں کے صدقہ جاریہ،علم نافع اور صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی رہے۔‘‘
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کیلئے جاری رہتا ہے ان میں سے ایک نیک اولاد ہے جو ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کیلئے دعا کرتی رہے لہٰذا نیکی کے راستے کی طرف اپنی اولاد کی راہنمائی کرنا انہیں نیک وصالح بنانے کیلئے جدوجہد کرنا اور ان کی دینی تربیت کرنا ازحد ضروری ہے۔
بچپن میں بچوں کا ذہن سفید وصاف کپڑے کی طرح ہوتاہے اور سفید کپڑا ہر رنگ کو قبول کر لیتا ہے رنگین کپڑا رنگنا دشوار ہوتا یہی کیفیت بچوں کی تربیت کی ہے۔

تفریحی مراکز اور ہماری نسل نو :

ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کی تفریح جن چیزوں میں ہے وہ بھی اکثر جرائم کی طرف مائل کرتی ہیں سیر گاہیں کلبوں کی صورت میں نظر آتی ہیں جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے پردہ زیب وزینت کے ساتھ ایک دوسرے کو دعوت گناہ دیتے ہیں۔
بقول شاعر \\؎
آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا بن جائے گی
اس دور میں ہمارے معاشرے میں نوجوان نسل کیلئے جواسباب نقصان دہ ہیں ان میں ہمارے پارک اور سیرگاہیں،اخبارات اور میگزین،کمپیوٹر اور موبائل،آلات موسیقی وغیرہ ہیں اور ان چیزوں کا نتیجہ بڑوں کا احترام ختم،والدین کی نافرمانی،اساتذہ کی نافرمانی شرم وحیا کا فقدان،معاشرے کی بے راہ روی اور جرائم کی کثرت وغیرہ ہیں ۔

تربیت اولاد اور امر بالمعروف والنہی عن المنکر :

بچوں کو کن باتوں کا حکم دیا جائے :
۱۔ اسلامی عقائد کے متعلق احکامات کا حکم دیا جائے۔
۲۔سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دیا جائے۔
۳۔روزے رکھنے کا حکم دیا جائے۔
۴۔دیگر عبادات اور نیک کاموں کا حکم دیا جائے۔
۵۔ لہو ولعب اور ناجائز امور سے اجتناب کا حکم دیا جائے۔
بچوں کو کن باتوں سے روکا جائے:
۱۔ خلاف شریعت عقائد اور گفتگو سے منع کیا جائے۔
۲۔ ترک عبادات اور ان میں غلطیوں کے ارتکاب سے روکا جائے۔
۳۔ممنوعہ چیزوں کے کھانے،پینے اور اسلامی آداب کے منافی حرکات سے باز رکھا جائے۔
۴۔ زیب وزینت اور بالوں کے متعلق اسلامی آداب کی خلاف ورزی سے روکا جائے۔
۵۔ریشمی لباس اور غیر مسلموں کے مشابہ لباس پہننے سے منع کیا جائے۔
الغرض اللہ تعالیٰ جب اولاد سے نوازے(خواہ اولاد بیٹوں کی صورت میں ہو یا بیٹیوں کی صورت میں) تو والدین کو چاہیے کہ ان پر پوری توجہ دیں اور چونکہ اولاد کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ کہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انسان اس کے حصول میں اور خاص کر نرینہ اولاد کے حصول میں اپنے ایمان اور دولت کو شیطانی عقیدہ میں برباد کر دیتاہے اور خسر الدنیا والآخرہ کا مصداق بن جاتاہے پھر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ہم
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اللہ تعالیٰ سے بدست دعا ہوں کہ ہمیں شریعت کے تمام راہنما اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے