جب اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حقیقی شعور بیدار ہوتا ہے،توگناہ کی تاریکی کااحساس بھی پیداہوتاہے اور ہرلمحہ رب رحیم وکریم کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ عام ہو جاتا ہے تو پھر پورا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جاتا اور پورا ماحول ایمان کے نور سے منور ہو جاتاہے، پھر کفر و شرک وہاں سے مٹ جاتا اور معصیت و نا فرمانی کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں، ہر طرف ’’صِبْغَةُ اللہ‘‘ ہی کی جلوہ آرائی اور دین و شریعت ہی کی روشنی نظر آتی ہے۔ اسی شعور و آگہی کا نام تقویٰ ہے؛جو بندےکو رب سےمربوط رکھتاہے، اُسے اپنے رب سے کئے گئےعہد کا پاس و لحاظ کراتا ہے،اُسے اطاعت وفرمانبرداری کا خوگر بنا تا ہے اور بالآخر شرافت وکرامت کی اوج ثریاتک پہنچادیتاہے۔
تقویٰ کااستعمال شریعت میں دو معنی کےلئے ہوتا ہے ایک ڈرنا، دوسرے بچنا ہے۔ غوروفکرکرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو بچنا ہی ہے یعنی گناہوںسے بچنا مگر سبب اس کا ڈرنا ہے؛ کیونکہ جب کسی چیز کا خوف دل میں ہوتا ہے، تب ہی اس سے بچا جاتا ہے، پس تقویٰ کا مفہوم یہ ہوا کہ تمام ظاہری باطنی گناہوں سے بچنا ۔
ایک مرتبہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے(تعلیم امت کے لئے) پوچھا کہ تقوی کی حقیقت کا ہے؟ انہوں نے کہا ،کہ تم کبھی ایسے راستےمیں نہیں چلے جس میں کانٹے ہوں ۔ فرمایا ،ہاں !۔ کہا اس حالت میں تم نے کیاکرتے ہو؟ فرمایا،میں کوشش کروگا کہ کانٹوں سے بچ کر نکل جاؤں ۔ کہا ،یہ تقوی کی حقیقت ہے ۔ مفسر قرآن مولانا ابوالکلام آزادرحمہ اللہ ’’تقوی‘‘کےتعلق سے یوں رقمطراز ہیں :زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں؛ بعض طبیعتیں محتاط ہوتی ہیں ،بعض بے پرواہ ہوتی ہیں ؛جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے ، وہ ہر بات میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھاتے ہیں ،اچھے برے ،نفع ونقصان ،نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں، جس بات میں برائی پاتے ہیں ،چھوڑ دیتے ہیں ، جس میں اچھائی دیکھتے ہیں ،اختیار کر لیتے ہیں ، برخلاف اس کے جو لوگ بے پرواہ ہوتے ہیں ، ان کی طبیعتیں بے لگام ہوتی ہیں جو راہ دکھائی دے گی ، چل پڑیں گے ، جس کام کا خیال آگیا کر بیٹھیں گے ، جو غذا سامنے آگئی کھا لیں گے ، جس بات پر اڑنا چاہیں گے ،اڑبیٹھیں گے ، اچھائی برائی ، نفع ونقصان ،دلیل اور توجہ کسی کی انہیں پرواہ نہیں ہوتی جن حالات کو ہم نے یہاں احتیاط سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقوی سے تعبیر کرتا ہے ۔(ترجمان القرآن)
قرآن مجید نے اسی تقویٰ کے لیے ایک جگہ لباس کی تعبیر اختیار کی ہے۔لباس، سردی اور گرمی سے بچاتا اور زیب و زینت اور جمال بخشتا ہے۔اسی طرح تقویٰ برائیوں سے بچاتا اور انسانی شخصیت کو وقار اور نکھار عطا کرتا ہے۔رسول مکرم ﷺ نے فرمایا :میں تمھیں اللہ کے تقویٰ کی تلقین کرتاہوں، اس لیے کہ یہ تمھارے سارے معاملات کو چمک اور روشنی بخشتا ہے۔ (مسند احمد ۲/ ۳۲۵) یہی وہ تقویٰ ہے جو انسان کی جلوت اور خلوت میں نمایاں ہونا چاہیے۔ آپ کا ارشاد ہے: میں تمھیں جلوت اور خلوت میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ (مسند احمد ۵/ ۱۸۱)
عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَعْلَمَنَّ أَقْوَامًا مِنْ أُمَّتِي يَأْتُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِحَسَنَاتٍ أَمْثَالِ جِبَالِ تِهَامَةَ بِيضًا، فَيَجْعَلُهَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ هَبَاءً مَنْثُورًا، قَالَ ثَوْبَانُ: يَا رَسُولَ اللہِ صِفْهُمْ لَنَا، جَلِّهِمْ لَنَا أَنْ لَا نَكُونَ مِنْهُمْ، وَنَحْنُ لَا نَعْلَمُ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ إِخْوَانُكُمْ، وَمِنْ جِلْدَتِكُمْ، وَيَأْخُذُونَ مِنَ اللَّيْلِ كَمَا تَأْخُذُونَ، وَلَكِنَّهُمْ أَقْوَامٌ إِذَا خَلَوْا بِمَحَارِمِ اللہِ انْتَهَكُوهَا (سنن ابن ماجه 2/ 4245)
سیدنا ثو با ن رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے ۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا۔
میں اپنی امت کے ان افراد کو ضرور پہچا ن لو ں گا ۔جو قیا مت کے دن تہامہ کے پہاڑوں جیسی سفید (روشن ) نیکیا ں لے کر حا ضر ہو ں گے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان (نیکیوں کو ) بکھرے ہو ئے غبا ر میں تبد یل کر دے گا۔ سیدنا ثوبا ن نے عر ض کیا اللہ کے رسول ان کی صفا ت بیان فر دیجیے ان(کی خرابیوں) کو ہمارے لئے واضح کر دیجیے۔ کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ان میں شا مل ہو جا ئیں ۔اور ہمیں پتہ بھی نہ چلے آ پ ﷺنے فرمایا: وہ تمہارے بھا ئی ہیں اور تمہا ری جنس سے ہیں اور رات کی عبا دت کا حصہ حا صل کر تے ہیں جس طرح تم کر تے ہو ۔ لیکن وہ ایسے لو گ ہیں کہ انھیں جب تنہا ئی میں اللہ کے حرا م کر دہ گناہوں
کا مو قع ملتا ہے ۔ تو ان کا ارتکا ب کر لیتے ہیں ۔
تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔ قرآن وحدیث اورآثار صحابہ کی روشنی میں دیکھیںتو تقویٰ اطاعت کے کاموں میں اخلاص اور معصیت کے تمام کاموں سے احتراز وپرہیز کرنے کا نام ہے۔دنیا برائیوں سے بھری پڑی ہے، ہر جگہ حرام اور شیطانی کاموں کے اڈے کھلے ہو ئے ہیں ، ہر موڑ پر شیطان اپنی چال کے پتے لیے بیٹھا ہے، ہر قدم پر شیطان کے کارندے اور دین وایمان کے راہزن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں اگر آپ نے ان شیطانی ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ لیا، گناہوں سے اجتناب کیا اور جہاں تک بن پڑا اطاعت الٰہی اوراطاعت رسول ﷺمیں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہوئے اپنی حیات مستعار گذارلی تو یقینا یہی حیات تقویٰ شعاری کہلائےگی،آج ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی، ہر طرف دہشت وخوف کا ماحول ہے، غبن اور کرپشن عالمی منظر نامہ بن چکا ہے۔ برائیاں فروغ پارہی ہیں اور ان کی سرپرستی حکومتیں کررہی ہیں۔ پوری دنیا ابلیسی نظام حیات کے تار عنکبوت میں پھنستی جارہی ہے۔ بحر وبر ،فساد وبگاڑ کے شکنجے میں ہیں۔
آج کا سائنسی ترقی کا زمانہ ہے ، موجودہ صدی کو ہم بجا طور پر کمپیوٹر کی صدی کہہ سکتے ہیں . اس دوران کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور دیگر برقی آلات بہت تیزی سے ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکے ہیں .ان کا استعمال زندگی میں ناگزیر عنصر کی حیثیت اختیار کرچکا ہے سائنس کی مسلسل ترقی اور نت نئی ایجاد نے اس کرۂ ارض پر چار چاند لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، یہ سائنسی ترقی صرف اور صرف علم ہی کی بدولت ہے ،بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ،انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کا شرف علم کی بدولت ہی حاصل ہوا ہے ،انسان نے اپنے علم کو بروئے کار لا کر نت نئی ایجادات کی ہیں ، ہر ایجاد اپنی جگہ حیران کن اور مفید سے مفید تر ہے ،مگر موبائل فون ایسی ایجاد ہے جس نے انسانی زندگی میں انقلاب بر پا کردیا ہے،اس مفید اور اہم ایجاد نے انسان کو انسان کے قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ،موبائل فون کے استعمال نے ہزاروں ،لاکھوں میل کے فاصلوں کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ،گزشتہ ایک عرصے سے موبائل کے استعمال میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ،موبائل کے جہاں بے شمار فوائد ہیں وہاں بہت سے نقصانات بھی ہیں ،پیسے کا بھی ضیاع ہو رہا ہے ،طلبا وطالبات کا تعلیم کی طرف رجحان اس موبائل کے استعمال کی بدولت کم ہو کر رہ گیا ہے۔وہ طلبہ جنہیںتعلیمی میدان ایک دوسرے سےآگے نکلنے کیلئےسخت محنت کرنی چاہیے تھی آج موبائل فون کے استعمال کی دوڑ میں مصروف ہیں۔جسے دیکھو وہ موبائل فون پر نظریں جمائے مصروف ہے آج کل موبائل فون ایک فیشن بن چکا ہے ،موبائل کابے جا استعمال نقصان دہ ہے ،بچے ،بڑے مسلسل موبائل پر گیمز کھیل کر اور سوشل میڈیا کی سائٹس پر وقت کا بے تحاشا ضیاع کررہے ہیں۔ آج موبائل کو دوسروں کو تنگ کرنے کا ذریعہ بھی بنا لیا گیا ہے ۔ موبائل فون سے فحاشی اور عریانی میں غیرمعمولی حد تک اضافہ ہوا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایجاد کوئی بھی ہو اگر ہم اسکے اچھے پہلو پر نظر رکھیں تو وہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ہر چیز کا غلط استعمال اس کو نقصان دہ بنا دیتا ہے۔اس لیے ہمیشہ موبائل کو مثبت مقاصد کے لئے استعمال کریں اور علم وتحقیق اور دعوت کے میدان میں اس سے فائدہ اٹھائیں ،دیگر بے سود استعمال، وقت کے ضیاع سے طلبا وطالبات اور دیگر لوگ اجتناب کریں۔
سویڈن اور امریکہ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے بعد بتایا گیا ہے کہ سونے سے قبل موبائل فون پر بات چیت کرنا شب بیداری اور کمزور نیند کا سبب بنتا ہے کیونکہ موبائل فون سے خارج ہونے والی ریڈی ایشنز سے نیند کی کمی، سر درد اور تفکر یعنی سوچ بچار کی قوت میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں سائنسدانوں نے ایسے 35 مردوں اور 36 خواتین کا جائزہ لیا جن کی عمریں 28 سے 45 سال کے درمیان تھیں۔ ان افراد میں سے بعض کو موبائل فون سے خارج ہونے والی شعاؤں کے برابر طاقت والی شعاؤں یعنی 884 میگاہرٹز کے ساتھ رکھا گیا جبکہ دیگر افراد کو صرف کمزور شعاؤں کے سامنے رکھا گیا۔ جن افراد کو موبائل فون کی شعاؤں کے برابر طاقت والی شعاؤں کا سامنا تھا، اُنہیں نہ صرف سر درد کی شکایت پیدا ہوئی بلکہ سونے کے معمولات میں تاخیر اور نیند میں کمزوری بھی واقع ہوئی۔
معروف معالج وہیڈآف ڈیپارٹمنٹ پیڈزجناح ہسپتال لاہور پروفیسر ڈاکٹرعائشہ عارف کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ مائیکروویو ریڈی ایشنز زیادہ جذب کرتے ہیں، موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں میں نیند کی کمی، برین ٹیومر اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے ہماری باڈی پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں خاص طور پر بچوں کی بڑھوتری کے دوران اس کا استعمال مستقبل میں برین کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔انہوں نے موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے متعلق بتایا کہ اگرچہ وائرلیس فون اب ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن گئے ہیں مگر اس کا کم سے کم استعمال ہمارے لیے بہتر ہے۔انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کا کان سے دور رکھ کر استعمال صحت کے لیے بہتر ہے جو خطرات کو 1یک ہزار فیصد کم کر دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ موبائل فون کو پائوچ،پرس،بیگ یا بیک پیک میں رکھنا چاہیے۔انہوں نےمزید کہا کہ ایسی ڈیوائسز کو حاملہ خواتین سے دور رکھنا چاہیے۔ نرسنگ کے شعبہ یا بچوں کو دودھ پلانے کے دوران خواتین کو موبائل فون کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو موبائل فون کا بہتر استعمال کے متعلق سیکھنا چاہیے اور بچوں کو ان کے بیڈ رومز میں موبائل کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی نقصانات سے نئی نسل کو بچایا جائے ؛ کیوںکہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں ، اور اس ذریعہ کو بالکل ختم کردینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اس کو مفید طریقہ پر استعمال کیا جائے اور نقصاندہ پہلوؤں سے بچا جائے ، جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقہ پر ذبح کیا جاسکتا ہے اور کسی بیمار کو نشتر لگایا جاسکتا ہے ، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینہ میں پیوست بھی کیا جاسکتا ہے ، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔
اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے ، ان میں چند اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں :
1) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو ، اس سے دُور رکھا جائے ؛ تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ جاسکے، جو اُن کے ذہن کو پراگندہ کردے ، یا قتل و ظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہوجائے ۔
۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کرلینا چاہئے ؛ کیوںکہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنادیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہوجاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے ، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطۂ نظر سے بھی نہایت نقصاندہ ہے ۔
۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے ، وہ ان ذرائع کے ذریعہ بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی ، لوگوں کی کوتاہیوں کو کرنا ، مذاق اُڑانا ، گالی گلوچ کے الفاظ لکھنا یا کہنا ، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے ۔
4) ایسی خبریں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے ، جائز نہیں ہے جو خبر مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کردے اور مسلمانوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا موجب ہو، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے ، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کرسکے ۔
۵) ایسی چیزیں دیکھنا ، دِکھانا ، لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے ، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ میں آتا ہو ، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی ، تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی ، شعر کی شکل میں ہو یا لطیفہ کی ، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے ۔
يہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایمان کے بعد تقویٰ کا مرتبہ ہے یہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ گناہوں سے بچانے اور نیکیوں پر آمادہ کرنے کا ذریعہ ہے ،تنہائی کے گناہوں سے بچاکر تنہائی میں رب کا خوف تقویٰ ہی سے پیدا ہوتاہے ۔جدید ٹیکنالوجی سے جہاں زندگی آسان ہوئی ہے وہاں خاندانی نظام سے لیکر فرد کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بھی بُری طرح متأثر ہوئی ہے۔
خصوصی نمبر بنام ’’جدید ٹیکنالوجی فرد ومعاشرے پر اس کے اثرات اور اسلامی تعلیمات ‘‘کی صورت میں ٹیکنالوجی کے اس منہ زور گھوڑے کو لگام ڈالنے اور مضرات سے بچ کر فوائد سمیٹ کر دنیا وآخرت کی کامیابی یقینی بنانے کیلئے اصحاب قلم کی کاوش کو قارئین کی نظر کیا جارہا ہے اگر کوئی ایک بھی گم گشتہ راہ واپس پلٹ آیا تو یہ کوشش کامیاب تصور ہوگی بیشک اللہ پاک ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔
اسلام دین کامل اور دین فطرت ہے اس بات کا سادہ سا مفہوم کچھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کی فطری حاجات کی تکمیل میں کہیں بھی کسی بھی انداز میں رکاوٹ نہیں بنتا خواہ ان حاجات و ضروریات کا تعلق اس کے دنیاوی امور سے ہی کیوں نہ ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام اعتدال پرستی کو بہت پسند کرتا ہے اور اسے اختیار کرنے کی تاکید و تلقین بار بار کرتا ہے جبكه افراط وتفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی اختیارکرنے پر زور دیتاہے ۔ اسلام نے اعتدال کو اس حد تک پسند کیا کہ اس نے عبادات میں بھی افراط و تفریط پر مبنی رویوں کو ناپسندکیا اور میانہ روی اختیار کرنے کے لیے کہا اس حوالے سے تین صحابہ کا قصہ ایک واضح دلیل ہے۔ لیکن عبادات میں اس افراط و تفریط کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے سنا تو اسے ناپسند کرتے ہوئے صراحت کے ساتھ یہ کہہ دیا کہ : مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ (صحیح مسلم:1718)
اور اس میں بنیادی قاعدہ یہ بتا دیا گیا کہ ’’ عبادات میں اصل منع ہے‘‘یعنی جب تک شارع سےکوئی عبادت یا طریقہ عبادت ثابت نہ ہو اس وقت تک کوئی عمل ’’عبادت ‘‘نہیں بن سکتا۔ عبادت میں مسلمان عدد، کیفیت، نوعیت میں پابند ہے اور اس میں اس کی مرضی یا پسند و ناپسند کا کوئی عمل دخل نہیں ہے جو عبادت جس طرح جس کیفیت میں اور جتنی بتائی گئی اسے ویسے ہی اد اکرنا لازمی ہے۔
لیکن اس کے برخلاف ’’معاملات میں اصل جواز و اباحت‘‘ ہےیعنی انسانی زندگی میں کام آنے والی اشیاء اور چیزیں مثلاً کھانے کی اشیاء، برتن،کپڑے ،اور دیگر چیزیں اس وقت تک مباح اور جائز وحلال مانی جائیں گی جب تک شریعت ان سے منع نہ کردے۔
وَالْعَادَاتُ الْأَصْلُ فِيهَا الْعَفْوُ، فَلَا يُحْظَرُ مِنْهَا إلَّا مَا حَرَّمَهُ اللہُ وَإِلَّا دَخَلْنَا فِي مَعْنَى قَوْلِهِ: قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ لَكُمْ مِّنْ رِّزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِّنْهُ حَرَامًا وَّ حَلٰلًا (يونس: 59] وَلِهَذَا ذَمَّ اللہُ الْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ شَرَّعُوا مِنْ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللہُ
’’اور عادات (اشیاء ) میں اصل عفو و مباح ہے ، ان میں سےکوئی چیز اس وقت تک ممنوع نہیں جب تک اللہ تعالی اس سے منع نہ کردے،اگر ہم عادات و اشیاء کو اصلاً حلال و مباح نہیں سمجھیں گے تو اللہ تعالی کے بیان کردہ ان لوگوں میں شمار ہوں گے جن کے متعلق فرمایا :“آپ پوچھئے کہ تمہارا کیا خیال ہے، اللہ نے تمہارے لیے جو روزی بھیجی ہے اس میں سے کسی کو حلال بناتے ہو اور کسی کو حرام، آپ پوچھئے کہ کیا اللہ نے تمہیں اس کی اجازت دی ہے، یا تم اللہ پر افترا پردازی کرتے ہو۔‘‘ (الفتاوی الکبریٰ طبع دار الکتب العلمیہ ،جلد چہارم ص13)
یہی قاعدہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جدید ایجادات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور جدید ایجادات میں وسائل اتصال کی اہمیت سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے ۔ یہ بات واضح رہے کہ گو معاملات میں اصل جواز و اباحت کا ہے لیکن یہ جواز و اباحت بھی کچھ شرعی و فقہی قواعد کا پابند ہے یعنی یہ جواز جب شریعت کی مخالفت میں ہو یا کسی شرعی حکم سے متصادم ہو تو یہ جواز خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ لہذا اسلام نے انسان کی جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے ہر خواہش کی مناسبت سے کچھ قواعد و ضوابط وضع کر دیئے جس کے بعد اس خواہش کا حصول و تکمیل اس کے لیے آسان ہو جاتی ہے بلکہ اس پر اسے اجر ملتا ہے ۔لہذا جدید وسائل کا استعمال بھی انہی قواعد کے ضمن میں طے کیا جا سکتا ہے۔
لہذا جدید ایجادات و وسائل اتصال کےبارے میں حکم اس کے استعمال کی مناسبت سے دیا جا سکتا ہے اگر استعمال مفید ہے تو جائز ہے اور اگر اس کا استعمال ضرر رساں ہے تو حرام ہے۔لہذا کوئی بھی موبائل ایپلی کیشن انسٹال کرنے سے قبل اس امر کا بخوبی جائزہ لے لیا جائے کہ آپ کے موبائل کی پرائیویسی محفوظ رہے اور آپ کی ذاتی تفصیلات اور اشیاء کسی اور کے پاس نہ جائیں۔کیونکہ ایسی موبائل ایپلی کیشنز موجود ہیں جن کو موبائل فون میں ڈاؤن لوڈ اور استعمال کرنے سے اس ایپلی کیشن کے تخلیق کار کے پاس آپ کی ساری معلومات جانا شروع ہو جاتی ہیں۔ اب اس پر منحصر ہے کہ وہ ان معلومات کا مثبت استعمال کرے یا منفی ۔
اصل میں ایپلی کیشنز جن کو ڈاؤن لوڈکیا جاتا ہے وہ مختلف قسم کی معلومات تک رسائی کی اجازت لیتی ہیں اور ہم آنکھ بند کر کے رسائی دیتے ہیں، مثال کے طور پر اکثر ایپس موبائل میں موجود نمبرز، تصاویر، کیمرا اور مائک وغیرہ تک بھی رسائی حاصل کرتی ہیں اور ہم ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے ایسی تمام شرائط کو پڑھے بغیر خود رسائی فراہم کرتے ہیں ۔ ہمارے اس عمل سے ایپلی کیشن کا ایڈمن آسانی سے ہمارے موبائل میں موجود ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔لیکن جب ہم کوئی بھی ایپلی کیشن ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں تو کبھی اس بات کے بارے میں سوچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ موبائل ایپلی کیشن کو ہماری لوکیشن، گیلری، مائک یا کیمرا تک رسائی کی کیا ضرورت ہے اور ہم اس کو اپنی ذاتی معلومات تک رسائی کیوں فراہم کریں؟
لہذا کسی بھی ایپ کو انسٹال کرتے وقت اس کی نوعیت کو دیکھا جائے کہ کیا اس کو آپ کی لوکیشن، نمبرز، تصاویر وغیرہ تک رسائی کی ضرورت ہے؟ لیکن اگر اس کو ڈاؤن لوڈ کرتے ہوئے رسائی مانگی جاتی ہے تو سمجھ لیں کہ یہ ایپ قابل اعتبار نہیں ہے۔
اس کے لیے لازم ہے کہ ایسی ایپس کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے گریز کریں جو غیر ضروری طور پر آپ کی ذاتی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ صرف ضرورت کے مطابق ایپس کو ڈاؤن لوڈ کریں اور ضرورت نہ رہے تو ان کواَن انسٹال کردیں۔ اور ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے سے پہلے نیچے موجود تبصروں پر ایک نظر ضرور ڈالیں اور جاننے کی کوشش کریں کہ جن لوگوں نے اس ایپ کو پہلے استعمال کیا ہے ان کی کیا رائے ہے؟ زیادہ تر وائرس زدہ اور غیر تصدیق شدہ ایپس کے نیچے صارفین کے تبصرے (Comments)موجود ہوتے ہیں ۔ یہ تبصرے آپ کو ایپ ڈاؤن لوڈ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہیں ۔
لہذاموبائل ایپس اسلامی ہوں یا غیر اسلامی اس میں یہ بنیادی بات مدنظر رکھیں کہ غیر ضروری ایپس سے آپ کے موبائل کی کارکردگی متاثر ہو تی ہے اور اس میں بیٹری وغیرہ کے معاملات بھی شروع ہو جاتے ہیں لہذا حسب ضرورت ایپس رکھیں باقی ان انسٹال کر دیں وہ آپ کی لائبریری میں باقی رہتی ہیں جب ضرورت ہو دوبارہ کر لیں ۔
اس اعتبار سے اس کا مفید پہلو ہمارے پیش نظر ہے کہ جدید ایجادات جن کی بنیاد انٹر نیٹ ہے اس کا مفید استعمال زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ممکن ہے اور اہمیت کے اعتبار سے اس کےمفید استعمالات میں سے ایک اہم استعمال فہم دین اسلام کا ہے ۔جس کی مدد سے جہالت کا ازالہ ممکن ہے ۔ اس میں سب سے اہم ترین عنصر’’ کتاب‘‘ ہے جس کا عملا حصول بسااوقات بہت مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے۔لیکن انٹر نیٹ نے اس کمی کو بخوبی پورا کیا کہ بے شمار آن لائن مکتبات اور آف لائن مکتبات اپنی مطبوعات اور دیگر طباعتی اداروں کی مطبوعات کا پی ڈی ایف اپنے اپنے مکتبات میں اپلوڈ کر دیتے ہیں جس کے بعد ان کتب سے استفادہ آسان تر ہو جاتا ہے ۔اس حوالے سے استاد، محقق، باحث، ریسرچ اسکالر، مصنف، مؤلف سب اپنے اپنے ذوق اور ضرورت کے مطابق مختلف مکتبات سے استفادہ کرتے ہیں جن میں سے معروف مکتبات جن کی باقاعدہ کمپیوٹر اور موبائل ایپلی کیشن بنائی جا چکی ہیں درج ذیل ہیں :
المکتبة الشاملة: (اسلامی علوم پر کتب کا ایک بہت بڑاذخیرہ جس کا کمپيوٹر ورژن تقریبا 17000 سے زائد کتب پر مشتمل ہے البتہ موبائل ورژن اس سے کم ہے ۔اس میں کتب ڈاون لوڈ کی جا سکتی ہیں اور تلاش کا آپشن سب سے زیادہ مفید ہے اور مختلف کتب کا یونی کوڈ نکالنا ممکن ہے ) یہ سوفٹ وئیر عربی میں ہے۔
جامع الکتب التسعة ( اس سوفٹ وئیر کا تعلق حدیث کی معروف 9 کتب سے ہے اور اس کا موبائل ورژن بہت کامیاب ہے کم وزن جسے انسٹال کرنا بہت آسان اور استعمال کرنا بھی نہایت آسان ہے اس میں کسی بھی حدیث کے رواۃ پر مختصر بحث اور حکم کے ساتھ ساتھ اس کی شرح اور مکمل تخریج کا آپشن اس کی افادیت میں اضافہ کر دیتا ہےاور اس کا سب سے اہم ترین پہلو کتب احادیث کا موضوعاتی فہرست کے اعتبار سے ترتیب دیا جاناہے یعنی کسی بھی موضوع پر کتب تسعہ میں موجود تمام احادیث انتہائی مختصر وقت میں تلاش کرنا ممکن ہے اس کا سرچ آپشن اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے اسے دیگر موبائل سوفٹ وئیرز پر فوقیت دیتا ہے۔ یہ سوفٹ وئیر عربی میں ہے
المتدبر: اس سوفٹ وئیر کا تعلق قرآن مجید سے ہے اس میں موجود قرآن مجید دونوں ترتیب کے اعتبار سے ہے یعنی ترتیب توقیفی اور ترتیب نزولی جس کی وجہ سے اس کی افادیت بڑھ جاتی ہے اور مختلف کلمات کے معانی اور متعلقہ تفاصیل بآسانی تلاش کی جا سکتی ہیں۔ یہ سافٹ وئیر عربی میں ہے ۔
تدبر و عمل قرآن مجید: فہم قرآن مجید کے حوالے سے یہ تفسیر اپنی مثال آپ ہے کیونکہ اس میں فہم قرآن کے علمی اور عملی دونوں پہلو مفصل پائے جاتے ہیں یعنی کسی بھی آیت کاتجزیاتی فہم، معانی المفردات، اور سب سے اہم ترین پہلو جس کی وجہ سے یہ تفسیر علماء کو لازمی اپنے مطالعہ میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی آیت پر عمل کیسے ممکن ہے یہ ایک ایسا امر ہے جو میری معلومات کے مطابق کسی مفسر نے بیان نہیں کیا ۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اس تفسیر کا انڈیا کے ایک عالم دین نے مکمل ترجمہ کیا ہے جو عنقریب شائع کیا جائے گا۔ یہ سوفٹ وئیر عربی میں ہے ۔
قرآن لائبریری: اس موبائل سوفٹ وئیرمیں تقریبا 25 تفاسیر ہیں اور یہ تفاسیر مختلف مکاتب فکر سے ہیں گو کہ مکتب اھل حدیث کی عصری تفاسیر نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پھر بھی اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکیونکہ لفظی ترجمہ کا حصہ تقریبا نامکمل ہی ہے جبکہ اس کے بالمقابل تفاسیر کا حصہ بہت مفید ہے ۔یہ سوفٹ وئیر اردو میں ہے۔
موسوعة الدررالسنیة: علوم اسلامیہ کی دنیا میں یہ سب سے مفید ویب سائٹ ہے جس پر مکمل تبصرہ تو باقاعدہ ایک مقالہ یا کتاب کا متقاضی ہے ۔ اس میں سب سے اہم ترین حصہ تفسیر قرآن، حدیث و شروحات اور فقہی مسائل کا جامعیت کے ساتھ ذکر کیا جانا ہے۔یہ سوفٹ وئیرعربی میں ہے (dorar.net)۔ اس کے ہر حصہ کی الگ سے موبائل ایپلی کیشن بھی بنائی جا چکی ہے جس میں اہم ترین اخلاق انسائیکلوپیڈیا پر ایپلی کیشن ہے۔
المعانی: علم لغت کی دنیا میں گو کہ ہر لغت پر موبائل اپلیکیشن بنائی جا چکی ہے لیکن صرف (almaani) کے نام سے موجود موبائل ایپلی کیشن میں دنیا کی اہم ترین 10 مختلف زبانوں کے باہم درمیان ترجمہ کی سہولت یعنی عربی سے اردو ، اردو سے عربی وغیرہ اور اس میں قرآن مجید کے کلمات کے ترجمہ و توضیح پر مشتمل ایپلی کیشن خاصی اہم ہے۔
المکتبة الوقفیة: دنیائے تحقیق میں پی ڈی ایف کتب کا سب سے بڑا ذخیرہ جو کہ بوقت ضرورت ڈاون لوڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔ موضوعاتی اعتبار سے ہر فن پر سینکڑوں کتب کی موجودگی اس موبائل سوفٹ وئیر کو ہر محقق کے موبائل میں ہونا چاہیے۔
موسوعة الحدیث: https://hadith.maktaba.co.in اس ویب سائٹ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مختلف اسلامی علوم پر 18 موضوعات کے تحت 1400 کتب پائی جاتی ہیں جس میں تقریبا 42517 راویوں کے بارے میں مکمل تفصیلات ملتی ہیں کہ حدیث کے رواۃ پر مختلف ویب سائٹس میں اہم ہے لیکن اس میں ان رواۃ کی 753192 احادیث جو کہ مخَرَّج اور محقق ہیں اور مزید یہ کہ مختلف مفید ویب سائٹس کو اس کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔
اذکار الباقیات: ذکر الہی کے حوالے سے انتہائی مفید موبائل ایپلی کیشن جس میں صبح وشام اور سونے کے اذکار سمیت دیگر اہم مواقع کی مناسبت سے دعائیں موجود ہیں ۔
ادارہ محدث لاہور کی سب سے معرکۃ الآراء ویب سائٹ جس نے اردو داں طبقے کے لیے مختلف مکاتب فکر کی کتب پی ڈی ایف میں فراہم کرکے ان کا حصول ممکن بنا دیا ۔قدیم و جدید اردو کتب کی پی ڈی ایف تیار کر کے انہیں اس ویب سائٹ پر اپلوڈ کر دیا جاتا ہے جس کا عنوان (kitabosunnat.com ) ہے اس میں موضوعاتی فہرست کے اعتبار سے کتب اپلوڈ کی گئی ہیں جیسا کہ بیان کیا گیا کہ اس میں بریلوی، دیوبندی اور اھل حدیث مکتبہ فکر کی کتب شیئر کی گئی ہیں ۔
Mohaddis.com : حدیث کی سرچ اور اردو ترجمہ کے لیے مفید ویب سائٹ ہے
Sunnah.com: کسی بھی حدیث کا اردو اور انگریزی میں ترجمہ و تشریح پانے کے حوالے سے مفید ویب سائٹ ہے جس کا استعمال محققین کے لیے انتہائی مفید ہے بالخصوص مترجم حضرات ان دونوں ویب سائٹس سے استفادہ کر سکتے ہیں اور یہ دونوں ویب سائٹس آن لائن کام کرتی ہیں۔
Islamhouse.com: یہ دنیا کی وہ عظیم ویب سائٹ ہے جس میں دنیا کی تقریبا 114 زبانوں میں دین اسلام کے حوالے سے دعوتی اور دینی لٹریچر موجود ہے جسے موضوعاتی اعتبار سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے اور نوعیت کے اعتبار سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ یعنی آرٹیکلز، کتب، آڈیو لیکچرز، ویڈیو لیکچرز وغیرہ جس میں پورے قرآن کی تفسیر اور مختلف اصلاحی موضوعات پر انتہائی مفید مواد موجود ہے واضح رہے کہ اس کی موبائل ایپلی کیشن بھی موجود ہے۔
Islamweb.net: اسلام ویب کے نام سے یہ ویب سائٹ مدارس کے طلباء کے لیے مفید ہے کیونکہ اس میں تقریبا کم و بیش ایک لاکھ سے زائد آڈیو لیکچرز موجود ہیں بالخصوص کتب احادیث ، کتب فقہ و عقیدہ اور تفسیر قرآن کے ساتھ ساتھ مختلف اسلامی فنی علوم کی دقیق کتب کی شرح پر مشتمل عربی میں عرب علماء کے لیکچرز موجود ہیں ۔
اس کے علاوہ فہم قرآن مجید کے حوالے سے چند ایپلی کیشنز جن سے عام لوگ بھی استفادہ کر سکتے ہیں ان میں سے سرفہرست (mufradat ul quran) ،(mualam ul quran urdu) ، (misbah-ul-quran urdu complete) ، ( tafseer ul quran- hafiz abdul salam bhutwi)، قابل ذکر ہیں ۔
Role model institute: کراچی کا ایک ادارہ جس کی موبائل ایپلی کیشن RMI کے نام سے ہے اردو داں عام طبقے کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اس ایپلی کیشن پر مکمل تفسیر قرآن، احادیث و فقہ کی مختلف کتب کی اردو شروحات جو معروف علماء نے کیں موجود ہیں ، اس کے علاوہ عربی زبان سیکھنے کے حوالے سے معروف کتاب ’’ العربیة بین یديك‘‘ پر مکمل ویڈیو لیکچرز موجود ہیں ۔سیرت النبیﷺ اور سیرت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم وغیرہ پر لیکچرز بھی موجود ہیں ۔اس ایپلی کیشن کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ اس میں عام اصلاحی موضوعات پر لیکچرز بھی موجود ہیں جیسا کہ مثالی ازدواجی زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے ، ازدواجی زندگی کے مسائل کیسے حل کیے جا سکتے ہیں، تربیت اولاد، قرآنک گرائمر پر مختلف ورکشاپس جو اس ایپلی کیشن میں اور اسی نام سے یوٹیوب چینل پر بھی موجود ہیں ۔
اسلام 360 : اردو دان طبقہ کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل اورنہایت مفید ایپلی کیشن ہے ، جس میں قرآن وحدیث مختلف اذکار ، نماز اور رموز واوقاف وغیرہ کا طریقہ ٔ استعمال نہایت آسان وسہل ہے۔
قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر تو ہے ہی اس کے علاوہ آڈیو تلاوت سننے کی سہولت بھی دستیاب ہے اسی طرح اردو وانگلش شرح کے ساتھ ساتھ نمبر اور راوی کے اعتبار سے تلاش بھی ممکن ہے ۔ آجکل موبائل پر یہ ایپلی کیشن اسلام کے متعلق کئی کچھ سکھانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
موبائل سوفٹ وئیر ز میں سے یہ چند کا ذکر کیا ہے ممکن ہے اس کے علاوہ بھی بے شمار سوفٹ وئیرز ہوں گے لیکن ان کا بطور مثال ذکر کرنا صرف اس قصد سے ہے کہ انٹر نیٹ کا مفید استعمال جو ہمارے لیے باعث خیر ہو نہ کہ ہمارے اوپر حجت بن جائے ۔فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸ کی آیت سے ہمیں موبائل کے مفید استعمال کا سبق ملتا ہے ۔