Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

ایک قاتل کی کہانی رسول اللہ کی زبانی !

06 Jan,2019

بچوں کا صفحہ

ایک قاتل کی کہانی رسول اللہ کی زبانی !

پیارے بچو ! نبی کریم ﷺنے فرمایا :

كَانَ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَاهِبٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ لَا فَقَتَلَهُ فَكَمَّلَ بِهِ مِائَةً ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ عَالِمٍ فَقَالَ إِنَّهُ قَتَلَ مِائَةَ نَفْسٍ فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ فَقَالَ نَعَمْ وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدْ اللَّهَ مَعَهُمْ وَلَا تَرْجِعْ إِلَى أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ فَانْطَلَقَ حَتَّى إِذَا نَصَفَ الطَّرِيقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ جَاءَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهِ إِلَى اللَّهِ وَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الْعَذَابِ إِنَّهُ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ فَأَتَاهُمْ مَلَكٌ فِي صُورَةِ آدَمِيٍّ فَجَعَلُوهُ بَيْنَهُمْ فَقَالَ قِيسُوا مَا بَيْنَ الْأَرْضَيْنِ فَإِلَى أَيَّتِهِمَا كَانَ أَدْنَى فَهُوَ لَهُ فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَى إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ فَقَبَضَتْهُ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ قَالَ قَتَادَةُ فَقَالَ الْحَسَنُ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ لَمَّا أَتَاهُ الْمَوْتُ نَأَى بِصَدْرِهِ .

تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک شخص تھا اس نے ننانوے قتل کیے ،  پھر اس نے زمین پر بسنے والوں میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا ( کہ وہ کون ہے) اسے ایک راہب کا پتہ بتایا گیا ۔ وہ اس کے پاس آیا اور پوچھا کہ اس نے ننانوے قتل کیے ہیں ، کیا اس کے لیے توبہ (کی کوئی سبیل)ہے؟ اس نے کہا :  نہیں ۔ تو اس نے اسے بھی قتل کر دیا اور اس (کے قتل)  سے سو قتل پورے کر لیے ۔ اس نے پھر اہل زمین میں سے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا ۔  اسے ایک عالم کا پتہ بتایا گیا۔ تو اس نے ( جا کر )کہا :  اس نے سو قتل کیے ہیں ، کیا اس کے لیے توبہ (کا امکان) ہے؟ اس عالم نے کہا : ہاں ۔ اس کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں فلاں سرزمین پر چلے جاؤ ، وہاں ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں ، تم بھی ان کے ساتھ اللہ کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ اور اپنی سرزمین پر واپس نہ آو ، یہ بُری ( باتوں سے بھری ہوئی ) سرزمین ہے ۔ وہ چل پڑا ، یہاں تک کہ جب آدھا راستہ طے کر لیا تو اسے موت نے آ لیا ۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے ۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا : یہ شخص توبہ کرتا ہوا اپنے دل کو اللہ کی طرف متوجہ کر کے آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کبھی نیکی کا کوئی کام نہیں کیا ۔ تو ایک فرشتہ آدمی کے روپ میں ان کے پاس آیا ، انہوں نے اسے اپنے درمیان ( ثالث ) مقرر کر لیا۔ اس نے کہا : دونوں زمینوں کے درمیان فاصلہ ماپ لو ، وہ دونوں میں سے جس زمین کے زیادہ قریب ہو تو وہ اسی (زمین کے لوگوں) میں سے ہو گا۔ انہوںنے مسافت کو ماپا تو اسے اس زمین کے قریب تر پایا جس کی طرف وہ جا رہا تھا ، چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا ۔

اس حدیث کے ایک راوی قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ حسن (بصری ) نے کہا : ( اس حدیث میں) ہمیں بتایا گیا کہ جب اسے موت نے آ لیا تھا تو اس نے اپنے سینے سے (گھسیٹ کر ) خود کو ( گناہوں بھری زمین سے ) دور کر لیا تھا ۔ ( صحیح بخاری : 7008 )

پیارے بچو ! مذکورہ قصے سے ہمیں بہت ساری نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند ذیلی سطور میں درج ہیں ۔

1 لا علمی کی صورت میں اہل علم کی طرف رجوع کرنا ۔

2 اہل علم کو چاہیے کہ حق بات واضح کریں۔

3 فتوی دینے سے پہلے غورو فکر کرنا چاہیے ۔

4 اللہ کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں نہیں لینے چاہئيں ۔

5 اللہ تعالی کی رحمت وسیع اور کشادہ ہے ۔

6 سچی توبہ سے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔

7 نیک مجلسوں میں بیٹھنے کی وجہ سے تمام گناہ معاف کیئے جاتے ہیں ۔

8 اچھے لوگوں کی صحبت کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

9 اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔

0 اگر اللہ کسی کو فائدہ ددينے پہ آئے تو کوئی فرد یا افراد اسے نقصان نہیں پہنچاسکتے۔

Read more...

سچی توبہ اور اس کے اثرات

23 Aug,2015

یہ دنیااللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے طبعی قوانین (Physical Laws) پر چل رہی ہیں۔اور انسان کے کیے ہوئے طبعی اعمال اپنے نتا ئج ضرور ظاہر کر تے ہیں، لیکن اللہ جب چاہے اپنی کسی وقتی مصلحت کی بنا پر ان قوانین میں تغیر و تبد ل کر نے پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ مثلاً آگ کا کام ہے جلانا لیکن اللہ کے حکم سے آگ نے اس کے ایک نبی ابراہیم علیہ السلام کو نہیں جلایا۔ارشاد ربانی ہوا:

قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ

’’ ہم نے کہا! اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا،اور ابراہیم کے لیے سلامتی اور آرام کی چیز بن جا!‘‘ ( الانبیاء ۶۹)istighfar

اسی طرح اگر کوئی شخص دس منزلہ عمارت سے نیچے چھلانگ لگادے تو اس کے طبعی نتیجے کے طور پر شدید جسمانی نقصان کے ساتھ اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے لیکن اللہ اس کو کوئی گزند پہنچانا نہ چاہے تو اپنی قد رت کاملہ سے اسے محفوظ رکھ سکتا ہے، شائد ایسے ہی کسی موقع پر کہا گیا ہوگا کہ ’’ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے‘‘۔لیکن ایسے واقعات ہر روز رونما نہیں ہوتے ، اگر ایسا ہونے لگے تو سائنس اور ٹیکنالوجی کا مقصد ہی فوت ہوجائے، اور دنیا کی ساری ترقی اور تحقیق و دریافت کا عمل بے معنی ہو جائے۔یہ تو طبیعاتی اور کیمیائی قوانین کا دوام ہے کہ آج سائنس اور ٹیکنا لوجی نے عالم انسانیت میں تہلکہ مچا یا ہوا ہے۔بقول علامہ اقبال:

عروج آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے!

توبہ ایک ایسا عمل ہے جو طبعی اعمال میں مفید نہیں ہے۔چاہے آپ یہ احساس کریں کہ میں یہ کیا کر بیٹھا، آپ کو کتنا ہی پچھتا وہ کیوں نہ ہو ، لیکن طبعی اعمال کے نتائج توبہ سے تبدیل نہیں ہوسکتے،اگر آپ اپنی انگلی آگ میں ڈال بیٹھے ہیں تو توبہ کرنے سے بھی آپ کی انگلی صحیح نہیں ہو سکتی اس کے لیے لا زماً آپ کو معالج سے رجوع کر نا پڑے گا۔البتہ اخلاقی اعمال کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اخلاقی اعمال کے نتائج توبہ کرنے سے ختم ہوجاتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑا قانون ہے اور اللہ تعا لیٰ کی رحمت کاملہ کا مظہر ہے۔

توبہ کے لغوی معنی اللہ کے خوف سے، اس کی نافرمانی اور سرکشی سے پشیمان و دست کش ہوکر اللہ کی طرف رجوع کر لیناہیں۔اور اللہ کی قربت اور اس کی رضا حاصل کرنے کا سب سے اولین ذریعہ توبہ ہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا   ۭعَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰر

’’ اے ایمان والو! تم اللہ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔قریب ہے کہ تمہارا ربّ تمہارے گناہ دور کر دے

اور تمہیں ایسی جنتوں میں د اخل کرے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں۔‘‘ (التحریم۰۸)

ایک اور مقام پر رب تعالی فرماتے ہیں:

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآَيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ(الأعراف: 156)

’’اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں‘‘

سید نا علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ’’ رسول کریمﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ اپنے اس مؤمن بندے سے محبت رکھتا ہے جو فتنوں میں مبتلا رہے اور ہمیشہ توبہ کر تا رہے۔‘‘ (رواہ احمد)

جب گناہ بندہ کی فطرت ہو تو پھر توبہ ضرور اس کی صفت ہونی چا ہیے ، چناں چہ اگر وہ اپنی فطرت کی بنا پر طرح طرح کے فتنوں میں گرفتار ہوتا رہتا ہے مگر ہر بار اپنی صفت توبہ و استغفار کو فراموش نہیں کر تا تو وہ ارحم الراحمین کی نظروں میں کیوں نہ پیارا ہوگا۔یہاں اس سے یہ مراد نہیں کہ گنہگار اپنے گناہوں پر اصرار کرے بلکہ اصل مدعا یہ ہے کہ جو نادم و شرمسار ہیں وہ زیادہ دل شکستہ نہ ہوں اور اپنی اس ندامت کی بدولت عصیاں کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی خوشخبری سن لیں ، ندامت پر اللہ تعالیٰ کی محبت کی خوشخبری بندہ میں گناہ کی جرأت پیدا نہیں ہونے دیتی بلکہ اس کی فطرت سے معصیت کا تخم جڑ سے نکال پھینکتی ہے۔

جوانی کی توبہ کی اپنی ہی ایک اہمیت ہے۔ نبی ٔ رحمت ﷺ نے فرمایا:

’’ جوانی میں توبہ کرنے والے شخص سے بڑھ کر اللہ کو کوئی شے محبوب نہیں ہے۔‘‘

شیخ ابن القیم رحمہ اللہ نے ’’ مدارج السالکین‘‘ میں توبہ و استغفار کے ضمن میں لکھا ہے:

’’ اگر بندے نے بدبختی سے اپنے اس خالق و پرور دگار کی وفاداری اور فرما ں برداری کا راستہ چھوڑ کے بغاوت و نا فرمانی کا طریقہ اختیار کر لیا اور اس کے دشمن اور باغی شیطان کے لشکر اور اس کے متبعین میں شا مل ہوگیا اور ربّ کریم کی ذاتی صفت رحمت و رأ فت اور لطف و کرم کو اپنی طرف متوجہ کر نے کے بجائے وہ اس کے قہر کو بھڑکانے لگا توظاہر ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے غصہ اور ناراضی کا سبب بنے گا۔پھر اگر اس بندے کو کبھی اپنی غلطی کا احساس ہوجائےاور وہ محسوس کرے کہ میں نے اپنے مالک و پروردگار کو ناراض کر کے خود اپنے مستقبل کو بر باد کیا کر لیا اور وہ اپنےکیے پر نادم و پشیمان ہو اور مغفرت و رحمت کا سائل بن کر اس کی بار گا ہ ِ کرم کی طرف رجوع کرے، سچے دل سے توبہ کرے، روئے اور گڑگڑائے اور معافی مانگے اور آئندہ کے لیے وفاداری اور فرمانبرداری کا عہد و ارادہ کر لےتو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کے اس کریم ربّ کو جس کی ذاتی صفت رحمت و رأ فت اور جس کا پیار ماں کے پیار سےہزاروں گنا زیادہ ہے، توایسے کریم پروردگار کو اپنے اس بندے کی اس توبہ و انابت سے کتنی خوشی ہوگی۔‘‘

رسول کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:

كُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ

’’ ہر آدمی خطاکار ہے(کوئی نہیں ہے جس سے کبھی کوئی خطا اور لغزش نہ ہو) اور خطا کا روں میں وہ بہت اچھے ہیں

جو (خطا ور قصور کے بعد) مخلصانہ توبہ کریں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوجائیں۔‘‘ (جامع ترمذی،سنن ابن ماجہ، سنن دارمی)

سچی توبہ کے بعد گناہ کا کوئی اثر اور داغ دھبہ باقی نہیں رہتا، اور بعض روایات میں ہے کہ آدمی گناہوں سے توبہ کر کے ایسا بے گناہ ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ اپنی پیدائش کے وقت بے گناہ تھا۔اور پھر توبہ کا نتیجہ صرف اتنا ہی نہیں ہوتا کہ گناہ معاف ہو جائیں اور معصیت کی ظلمت اور سیاہی کے داغ دھبے مٹادئے جائیں ، بلکہ تا ئب بندہ اللہ کا محبوب اور پیارا بن جاتا ہے اور اس کی توبہ سے اس کو بے حد خوشی ہوتی ہے۔

توبہ کر نے والوں کے بھی تین درجے ہیں۔ایک تائب، دوسرا انیب اور تیسرا اوّاب۔ چناں چہ جو شخص فواحش و منکرات اور اللہ کی نا فرمانیوں سے بچ کر اللہ کی طرف رجوع کرے وہ تائب ہے، اور یہ عوام الناس کا مقام ہے۔ اور جو بندہ صغائر گناہ اور فاسد و گمراہ کن خیالات و افکار سے دامن بچا کر اللہ کی محبت اور اس کی رضا کی طرف رجوع کرے وہ انیب ہے جبکہ جو شخص اپنی ذات اور اپنے ذہنی اور قلبی احساسات اور اپنے ارادہ و رغبت کے ساتھ اللہ کی محبت کا طلبگار ہو کر اس کی بارگاہ میں رجوع کرے ،اسے اوّاب کا نام دیا گیا ہے۔

ذو النون مصری رحمہاللہ فر ماتے ہیں: ’’عوام کی توبہ گناہ سے ہوتی ہے اور خواص کی توبہ غفلت سے ۔یعنی توبہ کی دو قسمیں ہیں ،ایک توبہ ٔ انابت اور دوسری توبۂ استحیاء ۔توبۂ انابت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے خوف سے توبہ کر تا ہے۔ اور توبۂ استحیاء یہ ہے کہ بندہ اللہ کی عنایات اور اس کے لطف و کرم سے شرماکر توبہ کرتا ہے‘‘۔

دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب نے اپنے فلسفۂ اخلاق میں توبہ کے بارے میں بہت ٹھوکریں کھائی ہیں ،جس کے باعث ان کا نقطۂ نظر کج ہو گیا ہے۔مثلاً اصل تورات میں آدم و حوا علیہ السلام سے سر زد ہونے والی غلطی، ان کی توبہ اور پھر اس غلطی کے معاف ہونے کا تذکرہ موجود تھا، لیکن بعد میں جب ڈیڑھ سو سال بعد تورات یادداشتوں پر دوبارہ مرتب ہوئی تو اس میں ان کی توبہ اور معافی کا ذکر شامل نہیں کیا گیا، اور انہوں نے اس سلسلے میں عجیب و غریب فلسفے گڑھ لیے۔

جب آدم و حوا علیہ السلام کو صرف ایک ہی حکم دیا گیا تھا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا! اس وقت تک کوئی شریعت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی لمبے چوڑے احکام تھے۔بس صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ جہاں سے مرضی کھاؤ پیو، سارا باغ مباح ہے، بس اس درخت کے قریب نہ جانا۔مگر آدم و حوا وہی کام کر بیٹھے جس سے منع کیا گیا تھا۔چناں چہ خطا کا ارتکاب ہونے کے بعد آدم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو ان کے دل میں پشیمانی پیدا ہوگئی،لیکن ان کے پاس وہ الفاظ نہیں تھے جس سے اپنی پشیمانی کا اظہار کرتے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ رحمت فرما ئی کہ اس نے وہ کلمات خود ہی سکھا دیے جس سے انہیں معافی مل گئی۔ ارشاد ربانی ہوایوں کہو:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا   ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ( الاعراف ۲۳)

’’ اے ہمارے ربّ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اور اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ فرمایاتو ہم ضرور خسارہ پانے والوںمیں ہو جائیں گے۔‘‘

آدم علیہ السلام نے جو توبہ کی، اللہ نے ان کی اس توبہ کو قبول کر لیا، اس کا ذکر موجودہ تورات میں نہیں ہے۔اس سے عیسائیوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا اور اسے عقیدہ بنا لیا کہ وہ ابتدائی گناہ (Original Sin) جو ہمارے جد آدم سے سر زد ہوا تھا اس گناہ کا اثر نسلِ آدم میں پیدا ہونے والے ہر بچے میں ہوتا ہے۔چناں چہ ہر بچہ پیدائشی طور پر گناہ گا ر ہے اور وہ اپنے جدّ امجد کے گناہوں کی گٹھڑی لے کر اس دنیا میں آنکھیں کھولتا ہے۔عیسائیوں کے اس عقیدے اور اسلام کی تعلیمات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اسلام کے مطابق ہر پیدا ہونے والا بچہ معصوم ہے اور مسلمان ہے۔ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے:

کُلُّ مَوْلُودٍيُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ(متفق علیہ)

’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے، یہ تو اس کے والدین ہیں جو اس کو عیسائی یا یہودی یا مجوسی بنا لیتے ہیں۔‘‘

جب عیسائیوں نے یہ غلط عقیدہ اختیا ر کیا کہ بنی نوع انسان کا ہر بچہ بنیادی طور پر گناہ گا ر ہے اور وہ اپنے جدّ امجد کے گنا ہ کا بوجھ لے کر اس دنیا میں آرہا ہے تو اب انہوں نے اس کے علاج کے طور پر ’’ کفارہ‘‘ کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس طرح ان کا مذہب گمراہی کی راہ پر چل پڑا ہے۔                                

اللہ تعا لیٰ کی عظمت و کبریائی اور جلال و جبروت کے بارے میں جس بندے کو جس درجہ کا شعور و احساس ہوگا وہ اسی درجہ میں خود کو ادائِ حقوق عبودیت میں قصوروار سمجھے گا۔ اللہ کے رسول ﷺ کو چونکہ یہ چیز درجہ ٔ کمال حاصل تھی اس لیے آپ پر یہ احساس غالب رہتا تھا کی عبودیت کا حق ادا نہ ہو سکا، اسی لیے آپ ﷺ بار بار اور مستقل توبہ و استغفار فرماتے تھے۔اور دوسروں کو بھی اس کی ہمیشہ تلقین فرماتے۔

فعَنْ الْأَغَرِّ الْمُزَنِيِّ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ فِي الْيَوْمِ مِائَةَ مَرَّةٍ) رواه مسلم (2702) .

اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’ لوگو! اللہ کے حضور میں توبہ کرو، میں خود دن میں سو سو دفعہ اس کے حضور میں توبہ کر تا ہوں۔‘‘

اس حدیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال انتہائی عامیانہ اور لغو ہے کہ توبہ عاصیوں اور گناہگاروں ہی کا کام ہے،اور انہی کو اس کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے خاص مقرب بندے یہاں تک کہ انبیاء علیہ السلام جو گنا ہوں سے محفوظ و معصوم ہوتے ہیں ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ کر نے کے بعد بھی وہ محسوس کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا نہ ہو سکا، اس لیے وہ برابر توبہ و استغفار کر تے ہیں اور اپنے ہر عمل کو حتیٰ کہ اپنی نمازوں تک کو قابل استغفار سمجھتے ہیں۔

لیکن اس توبۃ النصوح یعنی سچی توبہ کی کچھ بنیادی شرائط ہیں جن کے بغیر توبہ کی اصل روح بیدار نہیں ہوتی۔

سچی توبہ کی بنیادی شرائط:

۱۔اپنے کیے ہوئے گناہوں پر حقیقی معنوں میں پچھتا وا ہو، ندامت اور پشیمانی ہو کہ مجھ سے بہت بڑی غلطی اور گناہ سر زد ہوگیا، یہ احساس تو بہ کی لازمی شرائط میں ہے۔

۲۔گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ ہو اور اللہ تعالیٰ سے مضبوط عہد باندھا جائے کہ آئندہ اس گناہ کا اعادہ نہیں ہوگا۔اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے استعانت بھی طلب کر تے رہنا لازمی ہے۔

۳۔فوری طور پر اس قبیح فعل کو ترک کر دیا جائے،اور عمل صالح کی روش اختیار کی جائے۔زیا دہ سے زیادہ نیکی کا کاموں پرتوجہ دی جائے۔

یہ تین شرائط تو وہ ہیں جن کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ سے ہے۔ لیکن معاملہ حقوق العباد کا ہو تو مزید ایک شرط کا اضافہ ہوجائے گا اور وہ یہ کہ اگر کسی انسان کی حق تلفی ہوئی ہے تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے، اگر وہ شخص اب اس دنیا میں نہیں ہے تو آپ پر لازم ہے کہ اگر اس سے کچھ رقم لی تھی تو وہ مرحوم کے نام سے صدقہ و خیرات کر دی جائے اور اس کے حق میں دعائے مغفرت بھی کی جائے۔یاد رہے کہ اللہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا ،کیونکہ اس کا دامن کرم بہت وسیع ہے۔لیکن بندوں کے حقوق کے با رے میں اللہ اپنا یہ حق استعمال نہیں کر تا ،اس لیے کہ یہ عدل کے خلاف ہے۔بندوں کے حقوق تو بندوں سے ہی معاف کر وانے پڑیں گے۔ورنہ آخرت میں اپنی نیکیوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے ،کیونکہ وہ حقوق العباد کے سلسلے میں ادا کرنی پڑیں گی۔ رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سوال کیا۔

أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا : الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لا دِرْهَمَ لَهُ وَلا مَتَاعَ ، فَقَالَ : إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ

’’کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ ہم تو مفلس اس کو سمجھتے ہیں جس کے پاس مال و متاع نہ ہو‘‘۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:’’ قیا مت کے دن میری امت کا مفلس وہ آدمی ہوگا کہ نماز،روزے،زکوٰۃ وغیرہ سب کچھ لے کر آئے گا، لیکن اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہوگا، تو ان سب کے بدلے میں اس شخص کی نیکیا ں اس آدمی کو دے دی جا ئیں گی اور اگر اس کی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگی سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو ان لوگوں کے گناہ اس آدمی پر ڈال دیے جا ئیں گے، پھر اس آدمی کو جہنم میں ڈال دیا جا ئے گا۔‘‘(صحیح مسلم، سنن ترمذی)

استغفار کا اصل منشاء تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں، لغزشوں، فکری اور عملی گمراہیوں کو معاف کر واناہے تاکہ بندہ اللہ کی پکڑ سے بچ سکے۔ لیکن رسول کریمﷺ نے استغفار کی وسعت پذیری اور اثر انگیزی کو بڑی وضاحت کے سا تھ بیان فرمایا ہے۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عن عبد الله بن عباس رضي الله عنهما قَال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( مَنْ لَزِمَ الِاسْتِغْفَارَ جَعَلَ اللَّهُ لَهُ مِنْ كُلِّ ضِيقٍ مَخْرَجًا ، وَمِنْ كُلِّ هَمٍّ فَرَجًا ، وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ) (رواه أبو داود (1518) وابن ماجه (3819)، وأحمد في "المسند" (1/248)

’’ جو بندہ استغفار کو لازم پکڑ لے (یعنی اللہ تعالیٰ سے برابر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لیےہر تنگی اورمشکل سے نکلنے اور رہا ئی پانے کا راستہ بنا دیگا۔ اور اس کی ہر فکر اور ہر پریشانی کو دور کر کے کشادگی اور اطمینان عطا فرمائے گا، اور ان طریقوں سے رزق دے گا جن کا اس کو خیال بھی نہ ہوگا۔‘‘

توبہ کے لیے یہ شرط نہیں کہ پھر کبھی وہ غلطی نہ ہو۔اصل بات یہ ہے کہ اس وقت آپ یہ عہد کر لیں کہ یہ کام میں نہیں کروں گا،اور ایک دفعہ وہ کام چھوڑ دیں تو توبہ ہوگئی۔ اگر بشری کمزوری کی بنا پر کسی وقت آپ جذبات میں بہہ گئے اور دوبار وہی غلطی ہو گئی تو کوئی بات نہیں آپ پھر توبہ کر لیں۔عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا:

التَّائِبَ مِنْ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ

’’ گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس نے کبھی گنا ہ کیا ہی نہ ہو‘‘( سنن ابنِ ماجہ، سننِ الترمذی)

یہ حدیث مبارکہ عیسائیت کے عقیدۂ کفارہ کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام کے گناہ کا اثر ہر پیدا ہونے والا بچہ لے کر آتا ہے۔حالانکہ آدم علیہ السلام نے غلطی ہونے کے بعد اللہ سے توبہ کر لی تھی اور اللہ نے ان کی توبہ کو قبول کیا تھا۔چناں چہ آدم علیہ السلام توبہ کے بعد ایسے پاک صاف ہوگئے جیسے انہوں نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔ اب جب گناہ ہی نہیں رہا تو پھر اس کا اثر ہر پیدا ہونے والے بچہ پر کیسے آسکتا ہے؟

گنا ہوں کے ارتکاب کے بعد رحمت الٰہی سے مایوس اور نا امید ہوجانے والوں کے لیے ایک چونکا دینے وا لی حدیث بھی ہے جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"وَالّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللّهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللّهَ، فَيَغْفِرُ لَهُمْ"(رواه مسلم)

’’ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے ،تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور ایسے لوگوں کو لے آتا جو گناہ کرتے، پھر وہ اللہ سے استغفار کرتے(اور توبہ کرتے) تو اللہ انہیں معاف کر دیتا۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب التوبہ، باب الذنوب با لا ستغفار توبہ)

اس حدیث مبارکہ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اگر انسان گناہ نہ کرتے اور گناہ کے بعد توبہ کرنے سے اللہ تعالیٰ کی شانِٖ غفاری کا ظہور نہ ہوتا تو وہ اور لوگوں کو لے آتا۔سورۃ الزمرآیت ۵۳ میں ارشاد ربانی ہے:

قُل يـٰعِبادِىَ الَّذينَ أَسرَ‌فوا عَلىٰ أَنفُسِهِم لا تَقنَطوا مِن رَ‌حمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغفِرُ‌ الذُّنوبَ جَميعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفورُ‌ الرَّ‌حيمُ (سورة الزمر53)

’’(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

جندب رضی اللہ عنہ سے روات ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ایک واقعہ بیان فرمایا:

أنَّ رَجُلًا ، قَالَ : وَاللّٰہِ لَا يَغْفِرُ اللّٰہُ لِفُلَانٍ ، وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالَى ، قَالَ : مَنْ الَّذِي يَتَأَلَّى عَلَيَّ أَنْ لَا أَغْفِرَ لِفُلَانٍ ، فَإِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لِفُلَانٍ ،وَأَحْبَطْتُ عَمَلَكَ "

’’ ایک شخص نے یہ کہا: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرما یا: یہ کون ہے جومیرے اوپر حاکم ہونے کا دعوے دار ہے (یعنی میری طرف سے حکم لگا رہا ہے) کہ میں فلاں شخص کو معاف نہیں کروں گا! اس کو تو میں نے معاف کر دیا اور اس شخص کے تمام اعمال میں نے ضائع کر دئے (یعنی اس شخص نے میرےبندے کو میری رحمت اور شانِ غفاری سے مایوس کیا تھا ، اس لیے میں نے اس کے تمام اعمال ضائع کر دئے)

( صحیح مسلم،کتاب البر والصلہ و الآ داب، باب النہی)

اب تک کی بحث ا نسان کے انفرادی گناہوں اور اللہ کی ناراضگی اور اس کے قہر وغضب سے بچنے کے لیے توبہ و استغفار پر تھی، لیکن ایک اہم مسئلہ اجتماعی گناہ کا ہے۔ یعنی پوری قوم غلط راستوں پر اپنے زندگی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملک میں اللہ کا نہیں بلکہ انسانی حاکمیت پر مبنی نظام چل رہا ہے، جو سراسر کفر ہے، شرک ہے، پورا معاشی نظام سود اور جوئے پر مبنی ہے۔کچھ لوگ یقینا ان خرافات سے بچے ہوئے ہوں گے، لیکن سیا سی نظام سے تو بچا ہوا کوئی بھی نہیں ہے۔اگر اس ملک میں غیر اسلامی قوانین نافذ ہیں تو ہم سب مجرم ہیں۔

باطل کے   اقتدار   میں   تقویٰ   کی   آرزو

کتنا حسیں فریب ہے جو کھا رہے ہیں ہم!

اسی طرح کا معاملہ معاشی نظام کا بھی ہے۔ اگر کوئی شخص بالفرض سود سے براہِ راست بچ بھی گیا تب بھی سود کے غبار سے نہیں بچ سکتا۔ جس کو حدیث میں ’’دخان‘‘ کہا گیا ہے۔اس دخان اور دھو ئیں سے تو کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ان سب کے لیے ، اس سے پہلے کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت آئے پوری قوم کو اجتماعی توبہ کا اہتمام کر نا چاہیے۔

پورے عالم کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں میں کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو اپنی مادی ضروریات اور دنیوی آسائشوں سے کچھ دیر کے لیے پیچھا چھڑا کر شب و روز کے کسی ایک حصے میں اس بات کا مراقبہ کر تے ہوں گے کہ امت مسلمہ کے ساتھ آخر یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ یہ برق آخر بے چارے مسلمانوں پر ہی کیوں گرتی ہے۔کیا خود ہمارے اندر ہی کوئی کمی یا کوتاہی پیدا ہوئی ہے۔اللہ تو اپنے کسی بندے پر ظلم نہیں کرتا،اس نے تو انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے۔خالق تو اپنی تخلیق سے والہانہ پیار کر تا ہے۔تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کو دنیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔یقینا ہمارے فکر و عمل میں ہی کوئی تقصیر واقع ہوئی ہے۔ جو ہمارا خالق ہم سے ناراض ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کیے بنا ہم اس دنیا میں سکون کا ایک سانس بھی نہیں لے سکتے۔

بقولِ شاعر ؎

تجھے   اعتبار   الفت   جو   نہ   آ سکا   ابھی   تک

میں سمجھ گیا یقینا ابھی   مجھ میں کچھ کمی ہے

دنیا کی اس ذلت اور رسوائی سے خود کو بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اپنے عسکری اور دفاعی مو ر چوں کو انتہائی مضبوط کر نے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط کیا جائے ۔ مجموعی طور پر اپنے گناہوں پر ندامت کے ساتھ اللہ ربّ العزت کے حضور میں سچی توبہ کی جائے۔اجتما عی خطروں کے وقت اجتما عی دعا ؤں کا اہتمام لازمی ہے۔امت مسلمہ پر ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آج ان پر کڑا وقت آن پڑا ہے۔اس لیے آج مدر ڈے، فادر ڈے۔ویلنٹائن دے،بسنت اور حقوقِ نسواں ڈے منانے کے بجائے ’’ یومِ دعا‘‘ منانا چاہئے۔ تاکہ ہم پر سے ہماری بد بختی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور امن و سکون اور راحت و انبساط کی نشاط انگیز فضا عام ہو جائے۔سچی توبہ مؤمن کا ہتھیار ہے۔گناہوں کی سیا ہی صرٖ ف سچی توبہ سے ہی دھل سکتی ہے۔قوم کی اجتماعی دعا اور ندامت و پشیمانی کا اظہار آنے والی آفتوں،مصائب اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ٹال دیتا ہے۔ انسانی تاریخ میں قومِ یونس علیہ السلام اس کی بہترین مثال ہے۔

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

Read more...

استغفار اہمیت، فضیلت اورفوائد

04 Nov,2015

Ramadans Chronicles Day 12پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں،وہی رحمن و رحیم اور علیم و حکیم ہے، عظیم فضل والا ہے، میں اسی کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، معزز عرش اسی کا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ بہت ہی اعلی اخلاق کے مالک تھے، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر، انکی آل اور صراطِ مستقیم کی دعوت دینے والے ہدایت یافتہ صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں اور رحمتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
رضائے الہی کے مطابق عمل کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو، حرام کاموں کو چھوڑ دو، تا کہ تم رضائے الہی اور اسکی جنت پا سکو، نیز غضب و عذاب الہی سے نجات حاصل کر سکو۔
مسلمانو!اللہ تعالی نے فضل و کرم اور جود و سخا کرتے ہوئے ہمارے لیے نیکی اور عبادات کے بہت سے دروازے کھول رکھے ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نیکی کے کسی بھی دروازے سے داخل ہو کر اطاعت گزار بنیں، اس کے بدلے میں اللہ تعالی دنیا و آخرت سنوار کر درجات بلند فرما دے، چنانچہ اللہ تعالی اسے دنیا میں سکھ و سعادت والی زندگی بخشے گا، اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں اور رضائے الہی حاصل کریگا، فرمانِ باری تعالی ہے: 
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 
نیکیوں کی طرف بڑھ چڑھ کر حصہ لو، تم جہاں بھی ہو گے اللہ تعالی تم سب کو اکٹھا کر لے گا، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔(البقرة : 148)
نیز اللہ تعالی نے تمام لوگوں کیلئے نمونہ و قدوہ بننے والے انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے بارے میں فرمایا:
إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ(الأنبياء : 90)
بیشک وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف کیساتھ پکارتے اور ہم سے خوب ڈرتے تھے۔ 
نیز نبی مکرم ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: 
’’کیا میں تمہیںبھلائی کے دروازوں کے بارے میں نہ بتلاؤں؟: روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسےبجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو ختم کر دیتا ہے، اور قیام اللیل ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: 
تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(السجدة :16 - 17)
’’ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں ۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کچھ چیزیں ان کے لئے چھپا رکھی گئی ہیں یہ ان کاموں کا بدلہ ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
پھر آپ ﷺنے فرمایا:’’کیا میں تمہیں اصل ہدف ، ہدف کا ستون اور اس کی چوٹی کے بارے میں نہ بتلاؤں؟‘‘ میں نے کہا : ’’کیوں نہیں؟‘‘تو آپﷺ نے فرمایا:’’اصل ہدف : اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے، اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے‘‘(ترمذی)
نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کو مٹانے کا ایک طریقہ استغفار ہے، چنانچہ بخشش کا مطالبہ انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کی عادت مبارکہ ہے، اللہ تعالی نے بشریت کے والدین ،ان دونوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں،کے بارے میں فرمایا: 
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ(الأعراف : 23)
(حوا اور آدم ) دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘
اور نو ح علیہ السلام کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا: 
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (نوح : 28)
’’میرے پروردگار! مجھے ، میرے والدین، اور میرے گھر میں داخل ہونے والے مؤمن مرد و خواتین تمام کو بخش دے‘‘
اور ابراہیم uکی بات حکایت کرتے ہوئے فرمایا:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ(ابراہیم : 41)
ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنین کو حساب کے دن بخش دینا۔
اور موسی علیہ السلام کا مقولہ نقل کرتے ہوئے فرمایا: 
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (الأعراف : 151)
میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ(ص : 24)
داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔
اور نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا: 
فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ(محمد : 19)
’’سو (اے نبی!) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی‘‘
اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :"ہم رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے تھے:
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ
’’میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘(ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے)
اور عائشہ rے مروی ہے کہ: رسول اللہﷺ وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے: 
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ
اللہ اپنی حمد کیساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف جوع کرتا ہوں۔(بخاری و مسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : "میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو 
أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ(نسائی)
"میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں،کہتے ہوئے نہیں سنا" 
آپ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین بار کہا کرتے تھے"أَسْتَغْفِرُ اللهَ" (میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں)مسلم نے اسے ثوبان tسے روایت کیا ہے، اس کے بعد نماز کے بعد والے اذکار فرماتے۔
استغفار نیک لوگوں کی عادت ، متقی لوگوں کا عمل اور مؤمنوں کا اوڑھنا بچھونا ہے، اللہ تعالی نے انہی کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا: 
رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ(آل عمران : 193)
ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ بخش دے، اور ہماری برائیاں مٹا دے، اور ہمیں نیک لوگوں کیساتھ موت دینا۔
اسی طرح فرمایا:
اَلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِالصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ (آل عمران : 17-16)
’’وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا وہ صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور رات کے آخری پہر کو بخشش مانگنے والے ہیں‘‘
حسن بصری رحمہ ا للہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں: 
’’مؤمنین اپنی رات کی نماز اتنی لمبی کرتے ہیں کہ سحری کا وقت شروع ہو جاتاہے اور پھر نماز کے فوری بعد سحری کے وقت میں اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں‘‘
ایسے ہی فرمایا:
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ(آل عمران : 135)
ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں، اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:" گناہوں سے استغفار کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کا مٹانے کا مطالبہ اللہ تعالی سے کیا جائے، انسان کو استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ کیونکہ انسان دن رات گناہوں میں ملوّث رہتا ہے، اور قران مجید میں توبہ و استغفار کا ذکر بار بار آیا ہے، نیز انسان کو کثرت سے استغفار کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے" 
اللہ سے گناہوں کی بخشش طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے اسے قبول کرنے اور گناہ بخش دینے کا وعدہ ہے۔
اسی طرح کسی مخصوص گناہ سے توبہ کرنے کی بھی شرعاً اجازت ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: 
جب انسان کوئی گناہ کر لے اور پھر کہے: "یا اللہ! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے، تو میرا گناہ معاف کر دے" تو اللہ تعالی فرماتا ہے: "میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا رب گناہ بخشتا بھی ہے اور ان پر پکڑتا بھی ہے، میں نے اپنے بندے کو معاف کیا"( بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے)
اسی طرح مطلق طور پر گناہوں کی بخشش مانگنا بھی شرعی طور پر درست ہے، چنانچہ اس کیلئے "رَبِّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ "( پروردگار! مجھے بخش دے اور رحم فرما) کہہ سکتا ہے،کیونکہ اللہ تعالی نے حکم دیتے ہوئے فرمایا: 
وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
اور آپ کہیں: میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور رحم فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔(المؤمنون : 118)
اور نبی ﷺ نو مسلم افراد کو دعا کرنے کیلئے مخصوص الفاظ سکھاتے ہوئے فرماتے: 
اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ، وَاهْدِنِيْ، وَعَافِنِيْ، وَارْزُقْنِيْ(اسے مسلم نےروایت کیا ہے)
’’میرے پروردگار! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت ، عافیت اور رزق سے نواز ‘‘
اسی طرح انسان اپنے سارے گناہوں کی بخشش بھی اللہ تعالی سے مانگ سکتا ہے، چاہے اسے اپنے گناہ یاد ہوں یا نہ یاد ہوں، کیونکہ انسان بہت سے گناہ کر کے بھول جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی کو بندے کے سب گناہ یاد رہتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر بندے کا محاسبہ بھی ہوگا، چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "نبی ﷺ عام طور پر دعا مانگا کرتے تھے:
اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي ، وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِيْ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جِدِّيْ وَهَزْلِي، وخَطَئِيْ، وَعَمْدِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ ، وَمَا أَخَّرْتُ ، وَمَا أَسْرَرْتُ ، وَمَا أَعْلَنْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ 
’’میرے پروردگار! میرے گناہ، اپنے بارے میں جہالت و زیادتی سمیت ان تمام گناہوں کو بھی بخش دے جنہیں تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! میرے سنجیدہ و غیر سنجیدہ ، سمجھ و نہ سمجھ والے سب گناہ بھی بخش دے، میرے گناہوں میں یہ سب اقسام موجود ہیں، یا اللہ! میرے گزشتہ، پیوستہ، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو مجھے سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی آگے بڑھانے اور پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔(بخاری و مسلم)
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ: ’’اس امت میں شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی انداز میں سرایت کریگا، تو اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا: "اس سے خلاصی کا کیا ذریعہ ہے؟" تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعا سکھائی:
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ شيئا وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَا أَعْلَمُ
’’یا اللہ! میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ کسی کو شریک بنانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور ان گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جو میرے علم میں نہیں ہیں۔(ابن حبان نے اسے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جبکہ امام احمد نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ عام طور پر دعا میں کہا کرتے تھے: 
اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ، دِقَّهُ وَجِلَّهُ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، سِرَّهُ وَعَلانِيَتَهُ ، أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ(مسلم ، ابو داود)
’’یا اللہ! میرے چھوٹے برے، عمداً اور خطاءً، خفیہ ، اعلانیہ، ابتدا سے انتہا تک سب گناہ بخش دے۔‘‘
چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے تمام گناہ جنہیں جانتا ہے یا نہیں جانتا سب کی بخشش مانگے تو اسے بہت بڑی بات کی توفیق مل گئی ہے۔
گناہوں کی بخشش کیلئے انسان کی طرف سے کی جانے والی دعا اخلاص، اصرار، گڑگڑانے، اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے، نیز اس میں گناہوں سے توبہ بھی شامل ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی استغفار ہی کی ایک شکل ہے، چنانچہ یہ تمام امور استغفار اور توبہ کے ضمن میں آتے ہیں، لہذا مذکورہ الفاظ الگ الگ ذکر ہوں تو تمام معانی ان میں یکجا ہوتے ہیں، اور جب یہ الفاظ سب یکجا ہوں تو استغفار کا مطلب یہ ہو گا کہ: گناہوں اور ان کے اثرات کے خاتمے، ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کے شر سے تحفظ اور گناہوں پر پردہ پوشی طلب کی جائے۔
جبکہ توبہ کے مفہوم میں: گناہ چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع ، گناہوں کے خطرات سے مستقبل میں تحفظ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم شامل ہے۔
اللہ تعالی نے توبہ اور استغفار کو اپنے اس فرمان میں یکجا بیان فرمایا:
وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ (هود : 3)
’’اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تمھیں ایک معین مدت تک اچھا فائدہ دے گا اور ہر فضل والے کو اس کا فضل دے گا اور اگر تم پھر گئے تو یقیناً میں تمھیں بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں‘‘
اس کے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، کیونکہ میں ایک دن میں ایک سو بار توبہ و استغفار کرتا ہوں) نسائی نے اسےسیدنا اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
انسان کو ہر وقت استغفار کی سخت ضرورت رہتی ہے، خصوصاً دورِ حاضر میں کیونکہ اس وقت گناہوں اور فتنوں کی بھر مار ہے، نیز استغفار دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی کا ضامن بھی ہے، چنانچہ استغفار خیر و بھلائی کا دروازہ اور تکالیف و مصائب ٹالنے کا باعث ہے، پوری امت کو بحیثیت کل دائمی طور پر استغفار کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ پوری امت پر نازل شدہ آفات اور تکالیف ٹل جائیں، نیز آنیوالی مصیبتوں سے تحفظ حاصل ہو۔
استغفار سے وہی شخص غافل ہوتا ہے جو استغفار کے فوائد و برکات سے نابلد ہو، حالانکہ قرآن و سنت استغفار کے فضائل سے بھر پور ہیں، صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
(صالح علیہ السلام نے) کہا:میری قوم کے لوگو! تم بھلائی سے پیشتر برائی کو کیوں جلدی طلب کرتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (النمل : 46)
چنانچہ استغفار کی وجہ سے امت پر رحمت نازل ہوگی؛ کیونکہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: 
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (نوح : 10 - 12)
میں (نوح )نے کہا: تم اپنے رب سے بخشش مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہےوہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گااور تمہاری دولت کیساتھ اولاد سے بھی مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا۔
اور ہود علیہ السلام کی دعوت ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 
وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ(هود : 52)
میری قوم ! تم اپنے رب سے بخشش مانگو اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل کریگا اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ فرمائے گا، اس لیے تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: 
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ(الأنفال : 33)
اور آپ کی موجودگی میں اللہ تعالی انہیں عذاب نہیں دیگا، نیز اللہ تعالی انہیں استغفار کرنے کی حالت میں بھی عذاب دینے والا نہیں ہے۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے کہ: "تمہارے لیے عذاب الہی سے بچاؤ کے دو ذریعے تھے، ان میں سے ایک یعنی نبی ﷺ تو چلے گئے ہیں، اب صرف استغفار باقی ہے جو قیامت تک جاری رہے گا"
کثرت سے استغفار پوری امت کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کیلئے معاون ہے، نیز آئندہ ممکنہ خطرات سے بچاؤ کا باعث بھی ہےکیونکہ کوئی بھی مصیبت گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ و استغفار سے ان کا خاتمہ ممکن ہے۔
ابن عباس w سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے استغفار کو اپنی عادت بنا لیا، تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور تمام غموں سے کشادگی عطا فرمائے گا، نیز اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں تھا‘‘( ابو داود)
نبی ﷺ سے استغفار کے بارے میں متعدد الفاظ اور اذکار ثابت ہیں، انہیں اپنانے سے بہت ہی عظیم ثواب ملے گا، ان میں سے چند یہ ہیں:
آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’جس شخص نے کہا: 
أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ
’’میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوںاس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ‘‘
تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ میدان جنگ کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو( ابو داود، ترمذی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے بستر پر لیٹتے وقت تین بار کہا: 
أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ (ترمذی)
میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں(اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں) 
عبادہ بن صامت tکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رات کے وقت بیدار ہو اور پھر کہے: 
" لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ "( بخاری)
اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ تنہا و یکتا ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اللہ بہت بڑا ہے، نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی ہمت صرف اللہ کی طرف سے ہی ملتی ہے)پڑھ کر اس نے کہا: "یا اللہ! مجھے بخش دے" تو اس کی دعا قبول ہوگی، اور اگر نماز پڑھے تو وہ بھی قبول ہوگی۔
اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (جو شخص جمعہ کے دن فجر سے پہلے کہے:
"أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ"
’’میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ] اس کے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ‘‘
نیز شداد بن اوس tسے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو:
"اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ"
یعنی: یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیرے حضور مجھ پر ہونیوالی تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے)
آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت اسے پڑھا، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اسکی موت ہو گئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جس شخص نےاسے رات کے وقت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا‘‘ (صحیح بخاری)
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : "میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں، اور پھر تم مجھ سے مغفرت مانگو تو میں تمہیں بخش دونگا، مجھے [تمہارے گناہوں کی] کوئی پرواہ نہیں ہوگی) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا۔
کسی بھی عبادت کے دوران اور اس سے فراغت کے بعد بھی استغفار کرنا شرعی عمل ہے، تا کہ عبادت میں ممکنہ کمی کوتاہی پوری ہوسکے، نیز خود پسندی اور ریاکاری سے انسان دور رہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: 
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
پھر تم بھی وہیں سے واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں، اور اللہ تعالی سے بخشش مانگو، بیشک اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔(البقرة : 199)
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: 
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[المزمل : 20]
نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو قرض حسنہ دوجو اپنے لیے بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہ بہتر اور اجر کے اعتبار سے بہت بڑا ہے، اللہ سے بخشش مانگتے رہو، بےشک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔
چنانچہ ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے عبادات مکمل کرنے کے بعد بھی استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح ہر مسلمان تمام مؤمن و مسلم مرد و خواتین، زندہ و فوت شدہ سب کیلئے بخشش طلب کرے، کیونکہ یہ عمل نیکی، مسلمانوں سے محبت اور دلی صفائی کا باعث ہوگا، نیز اللہ کے ہاں ان کیلئے شفاعت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ جَاءُوْا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ(الحشر : 10)
’’جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے بارے میں بُغض نہ رہنے دے ، اے ہمارے رب تو بڑا نرمی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ‘‘
اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جو شخص مؤمن مرد و خواتین کیلئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر مؤمن مرد و خاتون کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دے گا) ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند جید ہے۔
اس حدیث کے مصداق میں: جنازے کی دعائیں، اور قبرستان میں جا کر دعا کرنا بھی شامل ہے، نیز یہ عمل حملۃ العرش اور مقرب فرشتوں کی اقتدا بھی ہے، اللہ تعالی نے حملۃ العرش اور مقرب فرشتوں کی دعائیں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اَلَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ(غافر : 7)
عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور جو ملائکہ عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں ، وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمانداروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، نیز وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی اتباع کی انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما ‘‘
بلکہ یہ عمل تمام مؤمنوں کیلئے سب سے بڑی خیر خواہی کا عمل ہے۔
اللہ کے بندو!
اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرو؛ کیونکہ حدیث قدسی ہے کہ: ’’میرے بندو! تم شب و روز گناہ کرتے ہو، اور میں سارے گناہ معاف کرنے پر قادر ہوں، اس لئے تم مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دونگا‘‘(مسلم)
اس لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کرو تو تم اس کے فضل و کرم، جود و سخا، اور برکتوں کا مشاہدہ کر لو گے، تمہارے گناہ مٹا اور درجات بلند کر دیے جائیں گے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا: 
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کر کے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کیا کرینگے، تو اللہ تعالی انہیں معاف فرما دیا کریگا‘‘(مسلم)
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی انتہائی وسیع مغفرت اور جود و سخا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: 
وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللهَ يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَحِيمًآ(النساء : 110)
اور جو شخص گناہ کر لے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ تعالی سے گناہ کی بخشش چاہے تو وہ اللہ تعالی کو بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا پائے گا‘‘
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلینﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔
دوسرا خطبہ:
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں وہی گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا اور انتہائی قوت والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود بر حق ، میں اپنے رب کے عظیم فضل پر اس کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے، وہی علیم و قدیر ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، آپ ہی بشیر و نذیر ، سراج منیر ہیں ، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، اور صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما ۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
تقوی الہٰی اختیار کرو، عبادات صرف اسی کی کرو اور اسکی پکڑ و قہر سے بچو۔
مسلمانو!نوجوانوں کو فتنوں سے دور رکھو؛ کیونکہ یہ دین و دنیا کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور آخرت میں انسان کو تباہ و برباد کر دینگے، نیز دنیا کی زندگی کو گدلا کرنے کا باعث بنتے ہیں چنانچہ خوشحال وہی ہے جو ظاہری و باطنی فتنوں سے دور رہے۔
انسان کیلئے سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ حق و باطل ، گمراہی و بے راہی، نیکی و بدی، حلال و حرام میں فرق نہ کر سکے۔
اس وقت ملک و قوم کو کچھ فتنوں کا سامنا ہے جنہوں نے مسلم نوجوانوں کوپرامن تربیت گاہوں، محفوظ گھرانوں، اور محبت کرنے والے معاشرے سے نکال کر انتہا پسندی، منحرف افکار اور معاصر خارجی لوگوں کے پیچھے لگا دیا ہے اور انہوں نے جوانوں کو مسلمانوں کی تکفیر کے راستے پر چلایا، جس پر انہوں نے معصوم لوگوں کا قتل شروع کیا، بلکہ انہوں نے-معاذ اللہ- خود کش دھماکوں کو جائز قرار دیتے ہوئے فتوے بھی صادر کیے!
کیا خود کش بمبار یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح جنت میں داخل ہو جائے گا؟! اسے یہ نہیں معلوم کہ خود کشی کرنے والا جہنم میں جائے گا؟ 
کیا اس نے اللہ کے اس فرمان کو کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے؟
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا(النساء : 30)
’’اپنی جانوں کا قتل مت کرو، بیشک اللہ تعالی تم پر بہت ہی رحم کرنے والا ہےاور جو شخص ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ایسا کرے گا تو اسے ہم آگ میں ڈالیں گے، اور یہ اللہ تعالی کیلئے بہت ہی معمولی بات ہے‘‘
اور حدیث میں ہے کہ: (خود کشی کرنے والا جہنمی ہے)
کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان کو قتل کرنے سے جنت ملے گی؟ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ مسلمان کا قتل دائمی جہنم بننے کا باعث ہے؟ کیا اس نے اللہ کا یہ فرمان کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے؟
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا(النساء : 93)
اور جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ 
کیا اسے نبی ﷺ کا یہ فرمان کبھی سنائی نہیں دیا؟: ’’جس شخص نے معاہدہ کیے ہوئے شخص کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘
کیا یہ لوگ اپنے پیش رو سے سبق حاصل نہیں کرتے؟ جنہوں نے حدود اللہ کو پامال کیا اور پھر ایسے موڑ پر جا کر ندامت اٹھانے لگے جہاں ندامت کسی کام کی نہ تھی! پھر وہاں پر ان کو ورغلانے والوں نے بھی کوئی ساتھ نہ دیا۔
لہٰذا جو تمہیں خود کش دھماکہ کرنے کا حکم دے تو آپ اسے کہیں کہ وہ خود یہ دھماکہ کرے، لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریگا، کیونکہ وہ صرف تمہیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے، صرف تمہیں مسلمانوں سے لڑانا چاہتا ہے، تمہیں استعمال کر کے امن و امان سبوتاژ اور بے چینی پیدا کرنا چاہتا ہے، تمہیں سامنے رکھ کر دہشت گردی، قتل و غارت کرنا چاہتا ہے، بلکہ تمہیں ملت اسلامیہ سے باہر کرنے کی کوشش میں ہے، حالانکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
’’جو حاکم کی اطاعت نہ کرے، اور ملت اسلامیہ سے رو گردانی کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا، اور جو شخص غیر واضح مقاصد کیلئے قتال کرے، یا کسی تعصب کیلئے غضبناک ہو اور اسی کیلئے لوگوں کو دعوت دے، اور یہ شخص اسی حالت میں قتل ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت والی ہوگی، اور جو شخص میری امت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے نیک و بد سب پر تلوار اٹھائے ، کسی مؤمن سے احتراز نہ کرے ، اور نہ ہی کسی معاہد کے معاہدے کی پاسداری کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘( مسلم )
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما 
’’یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو‘‘(الاحزاب: 56)
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا،اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔
اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً
یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں اور ہر شریر کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا اللہ! مسلمانوں کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، لڑے ہوئے لوگوں میں صلح کروا ۔
یا اللہ! مسلمان بہت کمزور ہے، اور کسی بھی نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت تیرے بغیر ممکن نہیں ہے، یا اللہ ! مسلمانوں کو اسلام کی وجہ سے تکلیف پہنچانے والے لوگوں پر اپنا غضب نازل فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی سب معاملات میں رہنمائی فرما، اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے، یا ارحم الراحمین!
إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (النحل: 90، 91)
’’اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے ‘‘
اللہ عز و جل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

Read more...

دعا میں لفظ ’’کریم‘‘ کی تحقیق

04 Nov,2015

dddddddddd copy

کچھ عرصہ قبل میرے عزیز شاگرد عبداللطیف تبسّم صاحب نے ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث میں "رمضان مبارک کے فضائل ومسائل "عنوان سےایک مضمون لکھا اور لیلۃ القدر کی دعا بحوالہ سنن الترمذی(مطبوعہ مکتبہ دارلسلام الریاض) ان الفاظ کے ساتھ نقل کی۔
الّلھم انّک عفو کریم تحب العفو فاعف عنّی (ص 801 رقم الحدیث3513)
میں نے ’’کریم‘‘ کا لفظ امام کعبہ فضیلتہ الشیخ عبدالرحمن السدیس صاحب کی قیام رمضان میں وتر میں مانگی گئی دعاؤں میں سنا تھااور میرا خیال تھا کہ یہ "کریم "کا لفظ کسی حدیث کی کتاب میں نہیں ہے جب ترمذی کے حوالہ سے مذکورہ بالانسخہ میں دیکھا تو تحقیق کی جستجوپیدا ہوئی چونکہ مذکورہ نسخہ میں یہ لفظ قوسین ()میں لکھا ہوا ہے۔جب کتابیں کھنگالنی شروع کیں تو امام ابن العربی المالکی کی کتاب عارضتہ الاحوذی شرح سنن الترمذی (ص 45 جلد 13)میں بھی یہ لفظ موجود تھا البتہ بقیہ تمام مصادر ومراجع حتی کہ سنن ترمذی کے معتمد ترین نسخہ اور دیگر ناقلین کی کتابوں میں سے کسی میں بھی "کریم "کا لفظ نہیں مل سکا ۔یہ تحقیق "الاعتصام "کے دفتر اور دارالدعوہ السلفیہ لاہور کی لائبریری میں جا کر کی لیکن "کریم "کا لفظ کسی کتاب میں موجود نہ پایاگیا۔اب اس مضمون اور تحریر کا سبب جناب مفتی محمدخاں قادری صاحب شیخ الجامعہ الاسلامیہ لاہور بنے۔
واقعہ یہ ہے کہ کتب کی خریداری کے لیےمکتبہ اسلامیہ قیصر ہوٹل لاہور گیا غالباً رمضان کا مہینہ تھا نصف رات گزر چکی تھی وہاں ایک بزرگ انتہائی انہماک سے کتب بینی میں مصروف تھے اور عبدالرحیم خان صاحب مکتبہ اسلامیہ کی مختلف کتابیں ان کے سامنے پیش کررہے تھے۔پھر یہ حضرت بذات خود اٹھ کر کتب تلاش کرنےلگےاس دوران انہوں نے نہایت محبت بھرے انداز اور مشفقانہ لہجہ میں پوچھاکہاں سے تشریف لائے؟میں نےعرض کیا اوکاڑا سے۔فرمانے لگے اسم گرامی میں نے عرض کیا محمد حسین ظاہری ۔پوچھاکیا مصروفیت ہے؟میں نےبتایا کہ درس وتدریس ،افتاء اور خطابت ۔اس پر بہت خوش ہوئےاور دعائیں دیں نیز فرمایا کہ پڑھنے لکھنے میں مصروف رہا کریں بہت اچھی بات ہے ۔میں نے پوچھا کہ جناب کا کیا تعارف ہے ؟تو فرمانے لگے "مفتی محمد خان قادری "۔چونکہ میں ان کی شخصیت سے متعارف تھا لیکن ملاقات نہ ہوئی تھی اس لیے میں خوش ہوا ۔مفتی صاحب نے اپنا وزٹنگ کارڈ(جو کہ بہت پرانا اور بوسیدہ حالت میں تھا )اس کے پیچھےاپنا موبائل نمبر لکھ کر عنایت کیا اورفرمایا کبھی موقعہ ملے توجامعہ میں بشریف لائیں۔میں نےعرض کیا انشاءاللہ ضرور حاضری دوں گا ۔اس کے بعد میں نےپوچھا کہ آج کل کیا مصروفیت ہے؟فرمایا تفسیر کبیرامام رازی کا ترجمہ کررہا ہوں کچھ جلدیں چھپ چکی ہیں ۔ پچلے دنوں دسمبر 2014 ہمارے دوست مولانا محمد یوسف صاحب کراچی سے مکتبات کا وزٹ کرنے کےلیےتشریف لائےان کے ساتھ مفتی صاحب کا مکتبہ اور جامعہ دیکھنے کا پروگرام بنایامفتی صاحب سے فون کرکے ٹائم بھی لیالیکن مشیت الہی نہیں تھی پروگرام ملتوی ہوگیا۔دوبارہ پنجاب یونیورسٹی کے"کتاب میلہ "کےموقع پر 3 اپریل 2015 مفتی صاحب سے رابطہ کیا تو وہ میٹنگ میں مصروف تھےاگلےدن کا ٹائم دیا لیکن بعض مصروفیات کی بنا ء پر حاضر نہ ہوسکا ۔اس کي بعد میرا پروگرام مرید کے کے قریب ایک گاؤں ٹپیالہ دوست محمد میں تھا اس دن رابطہ کیا تو مفتی صاحب جامعہ میں موجود تھے لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملاقات کے لیے حاضر خدمت ہوا۔ الشان لائبریری دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کچھ دیر مفتی صاحب سے لائبریری کےمتعلق بات چیت ہوتی رہی۔ اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور حدیث پر بھی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتےہوئےفرمایا محدثین کرام نے حفاظت حدیث کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہےتاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس اثناء میں مفتی صاحب نے فرمایا ہمارےقاری صاحب لیلتہ القدر کی دعا "الّلھم انّک عفو کریم تحب العفو فاعف عنّی"میں "کریم "کا لفظ زیادہ پڑھتےہیں میں نے ان کو کہا کہ یہ لفظ حدیث میں مذکور نہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ یہ لفظ حدیث میں موجود ہےبہر حال عرصہ دراز بعد سنن ترمذی میں لفظ مذکورموجودہ "موسوعہ حدیث "میں شامل سنن ترمذی کے نسخہ میں مل گیا اس پر بہت خوشی ہوئی ۔میں نے عرض کی کہ میں کچھ عرصہ قبل اس پرتحقیق کر چکا ہوں لیکن اپنی روایتی سستی کی بناء پر احاطہ تحریر میں نہیں لاسکا یہ لفظ کسی حدیث کی کتاب میں ان دومذکورہ بالانسخوں کے علاوہ موجود نہیں اس پر مفتی صاحب نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئےخواہش ظاہر کی کہ اگر آپ اس پر تحقیقی مضمون لکھ دیں تو میں اپنے ماہ نامہ رسالہ میں شائع کردوں گا میں نے وعدہ کر لیا لیکن وہی روایتی سستی غالب رہی ابھی پچھلے ہفتہ جب میں ڈیرہ غازی خان کے تبلیغی پروگرام سے فارغ ہو کر واپس آرہا تھا تو مفتی صاحب کا فون آیا اور دوبارہ یادہانی کروائی اور توجہ دلائی کہ ماہ رمضان سےقبل یہ مضمون لکھ کر بھیج دیں تو اسےرسالہ میں شائع کردیا جائےگا ۔اس بناء پر اب اللہ کی توفیق سےیہ دلائل پیش کیے جاتے ہیں ۔
جامع الترمذی کےنام سےدرسی نسخہ جسےمیر محمد کتب خانہ کراچی نے شائع کیا ہے۔
اس کے صفحہ نمبر 190 جلد نمبر 2 میں یہ حدیث درج ہے۔
1۔ حدثنا قتیبہ بن سلمان الضبعی عن کھمس بن الحسن عن عبداللہ بن بریدہ عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قلت یا رسول اللہ ارایت ان علمت ای لیلۃ لیلۃ القدر ما اقول فیھا؟قال قولی اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی (ھذا حدیث حسن )
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے کہا
’’اے اللہ کے رسول صلیعلیہ وسلم اگر میں جان لوں کہ کون سی رات قدر کی ہے تو اس میں کون سی دعا مانگوں ؟تو آپ صلیاللہعلیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہو۔اے اللہ تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے تو معاف کرنا پسند کرتا ہے لہذا مجھے معاف فرما دے ۔امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے۔
2۔ شیخ عبدالرحمن مبارک پوری صاحب شارح جامع الترمذی اپنی شرح تحفہ الاحوذی میں اس روایت کو انہی مذکورہ بالا الفاظ سے ہی نقل کرتے ہیں لیکن آخر میں امام ترمذی کا قول اس میں لفظ "صحیح "کا اضافہ ہے ۔ھذاحدیث حسن صحیح یہ حدیث حسن ہےصحیح ہے (صفحہ نمبر 264 جلد نمبر4)
جامع ترمذی کا نسخہ جسے مبارک پوری صاحب نے تحفہ الاحوذی میں اصل بنایا ہے اس پر اہل علم اعتماد کرتے چلےآرہے ہیں جیسا کہ شیخ شعیب الارناؤوط ني الجامع الکبیر کي مقدمہ میں ذکر کیا ہے۔دیکھیں(صفحہ نمبر 168 جلد نمبراول)۔
3۔ اس وقت میرے سامنے جامع ترمذی کا نسخہ جو کہ دارالرسالۃ العالمیہ نے شیخ شعیب الارناؤوط اور عبداللطیف حرزاللہ کی تحقیق کي ساتھ الجامع الکبیر (سنن الترمذی)کے نام سے شائع کیا ہے ۔اس میں بھی مذکو رہ سند کیساتھ یہ الفاظ’’ اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی‘‘ذکر کیے ہیں ۔دیکھیں (صفحہ نمبر 119 جلد نمبر 6)
اس نسخہ کی خصوصیات :
1۔یہ نسخہ چھ خطی نسخہ جات (مخطوطات )سے تقابل کرکے شائع کیا گیا ہے۔
2۔ موجودہ مطبوعہ نسخوں کیساتھ بھی تقابل کیا گیا ہے ۔
3۔اس میں جن چھ خطی نسخوں کا تقابل کیا گیا ہےان میں سرفہرست امام ابوالفتح عبدالمالک ابن ابی القاسم عبداللہ بن ابی سھل بن ابی القاسم بن ابی منصور بن تاج الکروخی الھروی البزارکا اپنے ہاتھوں سےلکھا ہوا نسخہ ہےاور مذکورہ شجرہ نسب بھی ان کےاپنے ہاتھ سے اسی نسخہ پر ورقہ نمبر 271 پر لکھا ہواہے۔
4۔یہ امام ابو العباس احمد بن محمد بن کوثر المحاربی کا نسخہ ہے اس پر امام کروخی نے اپنے ہاتھ سے بذات خود تصریح کی ہے ۔کہ یہ نسخہ میں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔دیکھیں مقدمۃ الجامع الکبیر (ص 110 تا 167 جلد اول)امام الکروخی کے اس نسخہ کو اصل اور بنیاد بنایا گیا ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ نسخہ صحیح ترین ہے اس میں لفظ "کریم "موجود نہیں مذکورہ بالاالفاظ ہی ہیں ۔
5۔ امام کروخی اور ان کےنسخہ کی مزید تفصیل کے لیےدیکھیں آراءالمحدثین فی الحدیث الحسن لذاتہ ولغیرہ(ص 506 تا 526)۔
6۔ امام ذھبی نےامام کروخی کا ترجمہ سیراعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے اس میں لکھتے ہیں:
’’حدث عنہ خلق کثیر،منھم السمعانی ،وابن عسا کرو ابن الجوزی‘‘
ان سے کثیر لوگوں نے حدیث بیان کی ہے ان میں سے امام سمعانی(صاحب انساب)ابن عساکر (صاحب تاریخ دمشق)،ابن الجوزی (صاحب موضوعات) اور دیگر لوگوں کے نام ذکر کئے ہیں ۔(ہم نے طوالت کے خوف سے چھوڑدئیے ہیں ظاہری)۔
7۔امام سمعانی کے حوالےسے نقل کرتے ہیں کہ:
قال السمعانی ھوشیخ صالح دیّن خیر حسن السیرۃ صدوق ثقۃ قرات علیہ جامع الترمذی وقری علیہ عدہ نوب ببغداد وکتب بہ نسخۃ بخطہ ووقفھا ووجد واسماعہ فی اصول المؤتمن الساجی وابی محمد بن السمر قندی وکنت اقرا علیہ فمرض فنفّذ لہ بعض السامعین شیاء من الذھب فماقبلہ وقال بعد السبعین واقتراب الاجل آخذ علی حدیث الرسول صلی اللہ علیہ وسلم شیاء!!وردّہ مع الاحتیاج الیہ ثم جاور بمکۃ حتی توفی وکان ينسخ کتاب ابی عيسی باجرۃ ويقوّت (ص 275 جلد 20)
نیز انساب سمعانی (ص 410 ۔409 جلد 10)(ذیل تاریخ بغداد ص 84۔83 جلد 1)امام سمعانی فرماتے ہیں کہ شیخ صالح ،متدین ،خیر ،حسن سیرت ،سچے اور بااعتماد ہیں میں نے ان پر جامع ترمذی کی قرات کی اور بغداد میں ان پرکئی مجالس میں اس کی قرات کی گئی اور شیخ نے اپنے ہاتھ سے اس کا نسخہ لکھا اور اسےوقف کر دیا امام الموتمن ساجی اور ابی محمد بن سمر قندی کے اصل نسخوں کا انہوں نے سماع بھی لکھا ہوا پایا ۔اور میں ان پر قرات کرتا تھا شیخ بیمار ہو گئے تو ان کے بعض شاگردوں (سماع کرنے والوں )نے ان کے لیے کچھ سونے کا انتظام کیا تو انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور فرمایا 70 سال کے طویل عرصہ بعد اور موت کے قریب ،رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر میں اجرت وصول کروں !!
باوجود سخت ضرورت کے اسے رد کردیا اور مکہ جا کر آباد ہو گئے اور روزی روٹی کے لئے امام ترمذی کی کتاب اجرت پر لکھتے تھے ۔
8۔ امام ذھبی فرماتے ہیں ہمارے شیخ ابن ظاھری نے کروخی کے واسطے سے نشتبری پر جامع ترمذی کی مکمل قرات کی اور عمر بن کرم نے اس کی سند اجازت کے ذریعہ کروخی کے واسطہ سے تحدیت کی ۔سیراعلام النبلاء (ص 275 جلد 20)
اس سے معلوم ہوا کہ امام کروخی جامع ترمذی کی تحدیت بھی کرتے اور ان کے تلامذہ ان پر قرات بھی کرتے نیز یہ جامع ترمذی کے مختلف نسخے لکھ کر اپنی گزر بسر بھی کرتے تھے اس لئے کہ امام کروخی کے نسخے اہل علم کے نزدیک انتہائی معتبر سمجھے جاتے تھے ۔
9۔ اسی لئےشیخ شعیب ارناؤوط نے بھی اس نسخہ کو اصل اور بنیاد بنا کر تحقیق کی ہے ۔فرماتے ہیں:
"واماالرواۃ عن ابی الفتح الکروخی فی ھذہ النسخہ خلق کثیر بلغو السبعۃ وعشرين رجلا تقریبا‘‘
ابو الفتح کروخی سے یہ نسخہ روایت کرنے والے کثیر لوگ ہیں جن کی تعداد تقریبا 27 تک پہنچتی ہے ۔
10۔پھر فرماتے ہیں:
"وقد روی عن الکروخی جماعتہ لم تذکر اسماءھم فی ھذہ النسخۃ من جلۃ الحفاظ منھم الحافظ ابو الفرج ابن الجوزی ولہ نسخۃ بخطہ۔۔۔ (الجامع الکبیر ص 124 جلد اول)
امام کروخی سے ایک جماعت نے روایت کی ہے ان کے نام اس نسخہ میں ذکر نہیں کیے گئے ۔جو کہ کبار حفاظ میں سے ہیں ان میں ایک امام ابن الجوزی ہیں ان کے پاس بھی ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ موجود تھا ۔
11۔ ہمارے مکتبہ ظاہریہ میں الحمدللہ کروخی کا نسخہ موجود ہے جو کہ A-4کے بڑے سائز میں ہے اس کے صفحہ نمبر238 (دائیں جانب )یہی الفاظ جو شعیب الارناؤوط کے محققہ مطبوعہ نسخہ سے نقل کیے گئے ہیں موجود ہیں ۔
12۔شیخ احمد شاکر کی تحقیق سے شائع ہونے والے نسخہ میں بھی’’ کریم ‘‘کا لفظ نہیں ہے ۔دیکھیں (صفحہ نمبر534 جلد نمبر 5 رقم 3513 )اس کے آخر میں بھی "قال ھذا حدیث حسن صحیح ‘‘ہے۔
اب ہم ان محدثین اور ائمہ کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے امام ترمذی کی کتاب کے حوالے سے اپنی کتب میں یہ حدیث بغیر "کریم "کےلفظ کےنقل کی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی "کریم "کا لفظ استعمال یا نقل نہیں کیا ۔
13۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے جدا مجد مجدالدین ابو البرکات عبدالسلام بن تیمیہ الحرانی نے بھی مذکورہ بالا الفاظ نقل کئے اور آخر میں لکھتے ہیں:
"رواہ الترمذی وصححہ واحمد وابن ماجہ وقالافیہ ارایت ان وافقت لیلۃ القدر۔ (صفحہ 206 جلد 2 حدیث رقم 2291) طبع دارالمعرفۃ بیروت۔
14۔ امام محی السنۃ ابو الحسین بن مسعود بن محمد الفراء البغوی المتوفی (516ھ)اپنی کتاب "مصابیح السنۃ "میں یہی الفاظ نقل کیے ہیں (صفحہ نمبر 104۔103 جلد نمبر 2 رقم 1499)
تحقیق دکتور یوسف عبدالرحمن المرعشلی ،محمد سلیم ابراھیم سمارہ ،جمال حمدی الذھبی ۔طبع دارالمرفۃ بیروت ۔
15۔ صاحب مشکاۃ ،امام محمد بن عبداللہ الخطیب التبریزی نے ام کی تخریج کی ہے اور کہا کہ اسے احمد ،ابن ماجہ اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔(صفحہ نمبر 646 جلد اول بتحقیق الشیخ الالبانی) شیخ البانی نے بھی اس رویت کو صحیح قرار دیا ہے حوالہ مذکورہ۔
16۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ھدایۃ الرواۃ الی تخریج احادیث المصابیح والمشکاۃ میں دونوں کتابوں کی تخریج کی ہے اس روایت کی تخریج کرتے ہوئے (ترمذی 3513)نسائی فی السنن الکبری (1070)ابن ماجہ (3850)کا حوالہ دیا ہے اور آخر میں امام ترمذی کا قول نقل کیا ہے ۔
وقال الترمذی صحیح ۔ (تحقیق علی بن حسن عبدالحمید الحلبی صفحہ نمبر 356۔355 جلد نمبر 2)طبع دار ابن القیم الدمام ۔۔۔۔دار ابن عفان القاھرہ ۔
17۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی مشہور ومعروف کتاب بلوغ المرام میں اس روایت کی نقل کر کے لکھتے ہیں رواہ الخمسۃ غیر ابی داؤد وصححہ الترمذی والحاکم۔اسے پانچوں نے روایت کیا ہے سوائے ابوداؤد کے اور امام ترمذی او حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ۔(درسی نسخہ صفحہ نمبر 142)
حاشیۃ العلامہ احمد حسن الدھلوی من علماء الھند ۔باضافتہ الفوائد الجدیدۃ للشیخ محمد صدیق بن عبدالعزیز السرکودھوی ۔ طبع ادارۃ احياء السنۃ النبويۃ سرگودھا۔
دوسرا نسخہ (صفحہ نمبر 125 رقم 575)تحقیق محمد خالد سیف طبع طارق اکیڈمی لائل پور (فیصل آباد )
تیسرا نسخہ (صفحہ نمبر 158 رقم 659)تحقیق تخریج عصام الدین الصبابطی و طبع دارالحدیث القاھرہ ۔
چوتھا نسخہ (صفحہ نمبر 164 رقم 691)اتحاف الکرام تعلیقات علی بلوغ المرام للشیخ صفی الرحمن مبارکپوری (طبع دارالسلام )
18۔ امام نووی ۔ابو زکریا یحی بن شرف النووی الدمشقی (632۔0676)اپنی معروف کتاب "ریاض الصالحین" میں اس روایت کو ترمذی کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور آخر میں امام ترمذی کا قول حدیث حسن صحیح بھی لکھا ہے (ص 472رقم1195) تحقیق ،تخریج ،تعلیق ،شعیب الارناؤوط، عبدالعزیز رباح،احمد یوسف الدقاق۔طبع ،نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ۔محققین نے اس کی تخریج میں حاشیہ پر لکھا ہے ترمذی (3508)اسنادہ صحیح اس کی اسناد صحیح ہے ۔
دوسرا نسخہ (شیخ البانی کی تحقیق وتخریج ۔ص 432 رقم 1203)
تیسرا نسخہ (طبع مکتبہ دارالسلام )مترجم حافظ صلاح الدین یوسف مصنف تفسیر احسن البیان (ص 201۔200 جلد نمبر 2 رقم 1195)
19۔امام نووی اپنی کتاب "الاذکار "میں’’باب مایدعو بہ اذا صادف لیلۃ القدر‘‘کے تحت لکھتے ہیں:
روی بالاسانید الصحیحہ فی کتب الترمذی والنسائی وابن ماجہ وغیرھا عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قلت یا رسول اللہ ان علمت لیلۃ القدر مااقول فیھا ؟قال قولی اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی قال الترمذی حدیث حسن صحیح (ص رقم163۔162)حقق نصوصہ وخرج احادیثہ وعلق علیہ ۔عبدالقدرالارناؤوط طبع مرکز الفلاح للطباعتہ والنشر دمشق۔
خاص طور پر شیخ عبدالقدر الارناؤوط نے نص کی تحقیق کی ہے ۔
دوسرا نسخہ (صحیح کتاب الاذکار وضعیفہ بقلم ابو اسامہ سلیم عیدالھلالی (ص 498۔497 جلد اول رقم 557/401)طبع مکتبہ الغرباء الاثریۃ۔
(شیخ سلیم ھلالی ،شیخ البانی کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں راقم کی ان سےپہلی ملاقات پاکستان میں ہوئی اور کچھ دن اکٹھے علمی سفر کیا اس کے بعد دو مرتبہ کویت میں تشریف لائے اس دوران بھی ان سے ملاقات رہی فن حدیث میں ید طولی رکھتے ہیں کئی ایک کتب کے شارح، محقق اور مصمف ہیں )
20۔امام شمس الدين ابوعبداللہ محمد بن قيم الجوزيہ المعروف اپنی کتاب الوابل الصيب ورفع الکلم الطيب (صفحہ344) ميں اس روايت کو امام ترمذیکے حوالے سے نقل کرتے ہيں ۔
21۔امام محمد بن سليمان المغربی (المتوفی1094ھ) نے اپنی کتاب جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد (ص نمبر657جلدنمبر4 رقم9446)طبع المجلس العلمی کراچی ميں ترمذیکے حوالہ سے يہ روايت نقل کی ہے ۔
22۔اس کے حاشيہ پر علامہ عبداللہ ھاشم يمانی کی تخريج اعزب الموارد فی تخريج جمع الفوائد کے نام سے موجود ہے انہوں نے بھی لکھا ہے کہ رواہ ايضا النسائی واحمد وابن ماجہ وصححہ الترمذی والحاکم کذانی بلوغ المرام صفحہ 84۔
23۔امام منذری ۔(عبدالعظيم بن عبدالقوی المنذری المتوفی 656ھ) نے بھی صرف امام ترمذیکے حوالہ سے نقل کيا ہے ديکھيں الترغيب والترھيب ( صفحہ 273جلد 4) طبع دارلاحياء التراث العربی بيروت ۔
24۔ امام ابوالفداء اسماعيل بن کثير القرشی الدمشقی (متوفی774ھ) اپنی تفسيرالقرآن العظیم المعروف تفسير ابن کثير ميں لکھتے ہيں:
’’وقد رواہ الترمذی والنسائی وابن ماجہ عن طریق کھمس بن الحسن ۔۔۔۔۔اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی وھذا لفظ الترمذی ثم قال ھذا حديث حسن صحيح واخرجہ الحاکم فی مستد رکہ وقال ھذا صحيح علی شرط الشيخين ورواہ النسائی ايضا من طريق سفيان الثوری عن علقمتہ بن مرثد عن سليمان بن بريدہ عن عائشہ قالت قلت يارسول اللہ أرايت ان وافقت ليلتہ القدر ما اقول فيھا ؟ قال قولی اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ( 568جلد4) طبع جمعيتہ احياء التراث الاسلامی الکويت‘‘
امام صاحب نے جن کتابوں کے حوالے دئيے ہيں ان کتب ميں سے کسی میںبھی "کريم " کا لفظ نہيں ۔ " بطور خاص فرماتے ہيں يہ ترمذی کے الفاظ ہيں " فافھم وتدبر۔
25۔شيخ البانی نے اس روايت کو صحيح الترغيب والترھيب ميں ذکر کيا ہے اور صحيح کا حکم لگايا ہے ۔ (325جلد3)
26۔امام جلاالدين عبدالرحمن السيوطی (المتوفی 911ھ) الفتح الکبير فی ضم الزيادہ والجامع الصغير ميں ترمذیاور حاکم کے حوالہ سے رقم طراز ہيں ۔(ص305جلد 2) طبع دارالکتب العربيہ ۔مصر)
27۔شيخ البانی نے بھی صحيح الجامع الصغير وزيادہ الفتح الکبير ميں يہ حديث نقل کی ۔ (145جلد 4رقم 4299)
28۔ امام سيوطی نے اس روايت کو ترمذی، ابن ماجہ ،اور حاکم کے حوالہ سے جامع الاحاديث الجامع الصغير وزوائدہ والجامع الکبير ميں نقل کيا ہے ۔(ص370جلد6)
29۔امام ابو عبداللہ محمد بن احمد الانصاری القرطبی نے بھی اپنی تفسير الجامع لاحکام القرآن المشھور تفسير قرطبی (ص138جلد 20)ميں اس روايت کو ذکر کيا ہے ۔
30۔امام شوکانی نے نيل الاوطارمن اسرار منتقی الاخبار (ص458جلد8)تحقيق محمد صحبی بن حسن حلاق ميں نقل کيا ہے ۔
31۔امام عبدالرحمن بن علی المعروف بابن الدبيع الشيبانی الزبيدی الشافعی المتوفی(944ھ)اپنی کتاب ’’تيسير الوصول الی جامع الاصول من احاديث الرسول صل اللہ عليہ وسلم (ص85جلد2)ميں صرف ترمذی کا حوالہ ديتے ہيں ۔يہ کتاب "جامع الاصول لاحاديث الرسول"امام ابوالسعادات محمد بن محمدبن عبدالکريم بن الاشيرالجزاری (المتوفی سنہ 606ھ)کی کتاب کا اختصارہے گويا کہ جامع الاصول ميں بھی مذکورہ بالاالفاظ ہی ہيں ۔
32۔ امام ولی الدين احمد بن عبدالرحيم بن الحسين العراقی (المتوفی826ھ) اپنے رسالہ "ليلتہ القدر" ميں مذکور مشہورلفظ ہی نقل کرتے ہيں ديکھيں (ص59)طبيع مکتبہ التراث العربی القاہرہ ۔اس نسخہ ميں بہت زيادہ اغلاط ہيں ۔
امام سخاوی نے الضواءالامع (ص344_336جلد اول) کے ترجمہ ميں اس کتاب کا نام شرح الصدر بذکر ليلتہ القدر لکھا ہے (ص343جلد اول)ان کے ترجمہ کے لئے ديکھيںالبدرالطالع(ص72جلداول)شذرات الذھب (173جلد7)
33۔ المسند الجامع کے مؤلفين،محقيقين،مرتبين اور ضبط الفاظ(نصوص)کا اہتمام کرنے والے دکتوربشار عوادمعروف ، السيد ابوالمعاطی محمد النوری احمد عبدالرزاق عيد، ايمن ابراہيم الزملی ،محمود محمد خليل، نے اس کتاب ميں عائشہ رضی اللہ عنھا والی روايت کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھاہے کہ تمام روايات کے الفاظ ايک دوسرے کے قريب اور ملتے جلتے ہيں اور ہم نے ابن ماجہ کے الفاظ نقل کئے ہيں اس کتاب ميں احاديث کے طرق کئے گئے ہيں لہذا کسی کتاب کے حوالے سے بھی لفظ "کريم" کا ذکر نہيں کيا۔ديکھيں (225_224جلد20)
34۔امام طيبی شرف الدين حسين بن عبداللہ الطيبی(المتوفی743ھ)شرح الطيبی علی مشکوۃ المصابيح المسمی بالکاشف عن حقائق السنن (204جلد4) مذکورہ بالا الفاظ طبعی نقل کئے ہيں ۔
35۔ملا علی قاری مرقاۃ المفاتيح(ص833جلد4)مترجم طبع مکتبہ رحمانيہ لاہور نے انہي الفاظ کو برقرار رکھا ہے (مرقاۃص321جلد4) عربی طبع ملتان۔
36۔الشيخ ابو الحسن عبيداللہ بن عبدالسلام المبارکپوری اپنی مايہ ناز کتاب مرعاۃ المفاتيح شرح مشکوۃالمصابيح ميں اس روايت کی تخريج وشرح کرتے ہوئے لکھتے ہيں ( و صححہ ) اي الترمذی وقال الحاکم صحيح علی شرط الشيخين و و فقہ الذھبی(ص135_134ج7) امام ترمذی کے ہم دوسرے محدثين و ائمہ کی کتب سے بھی اس روايت کے الفاظ کی تحقيق پيش کرتے ہيں۔
37۔(1) سنن ابن ماجہ طبع مکتبہ دارالسلام الرياض (ص550رقم3850)
38۔(2)مسند احمد (ص236جلد42)(الموسوعہ الحدیثيہ رقم 25384 نيز رقم25495-25497-25505-25741-26215)
(3) دوسرا نسخہ (ص171-182-183-258جلد)
39۔(4)نسائی (السنن الکبير رقم10708-10709-107010) نسائی عمل اليوم والليلۃ(872-873-874)
40۔(6)امام ابن السنی۔عمل اليوم والليلۃ (رقم767)
41۔(7)کتاب الدعا امام طبرانی(ص1227جلد2رقم915)
42۔ (8) کنزالعمال(رقم24282/3716)
43۔(9)تاريخ بغدادللخطيب البغدادی (ص18جلد12)
44۔ (10)آخر میں تنقیح الرواۃ فی تخریج احادیث المشکوۃ کے خوالہ سے بھی عرض ہے کہ اس میں بھی "کریم "کا لفظ مذکور نہیں للعلامہ ابی الوزیر احمد حسن (ص 46 جلد 2)تلک عشرۃ کاملہ ۔
ان تمام کتابوں میں:’’ اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی‘‘کے ہی الفاظ ہیں صرف مکتبہ دارالسلام کے نسخہ میں اللھم انک عفو "کریم "کے الفاظ موجود ہیں یا ابن العربی کی شرح عارضہ الاحوذی جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ۔ جامع الترمذی کا مطبوعہ نسخہ جسے دارالاسلام والوں نے شائع کیا ہے اس کے ٹائٹل پر لکھا ہے باشراف ومراجعۃ فضیلۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد بن ابراھیم آل الشیخ ۔
لیکن خبردی اور دل چسپ واقعہ سنایا نیز اس کے شروع میں کلمۃالناشر کے تحت جن نسخوں کا حوالہ دیا گیا معلوم ہوتا ہے عارضۃ الاحوذی سے ہی یہ الفاظ نقل کئےگئے ہیں کسی مخطوط (خطی نسخہ )کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔
اس کی واضح اور بين دلیل یہ ہے کہ ۔
1۔جن نسخوں کا حوالہ دیا گیا ہےان میں تحفہ الاحوذی شرح جامع ترمذی جبکہ ہم اس کے حوالہ سے ابتداء میں ہی ذکر کر چکے ہیں کہ اس میں "کریم "کا لفظ نہیں ہے ۔
2۔ جس قدر قلمی نسخے محقیقن کی نظر سے گزرے یا انہوں نے دوران تحقیق ان کی طرف مراجعت کی تو کسی نسخہ میں بھی یہ لفظ موجود نہیں ۔
3۔ناقلین میں سے کسی نے اس لفظ کا ذکر نہیں کیا ۔
4۔امام ابن العربی کی کتاب عارضۃ الاحوذی میں یہ لفظ موجود ہے لیکن مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ یہ لفظ غلطی سے نقل ہو گیا وگرنہ کسی نا کسی نسخہ میں موجود ہوتا یا کسی ناقل نے ضرور نقل کیا ہوتا ۔
5۔ ان تمام تفصیلات سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ لفظ غلطی سے نقل ہو گیا ہے کیونکہ تمام مصادر و مراجغ اور نسخ معتمدہ جو ہمیں میسّر آسکے ان میں کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں اس لئے اصل الفاظ " اللھم انک عفو تحب العفو فا عف عنی"ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ۔
ائمہ و محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اس کے شواہد موجود ہیں تفصیل کے لئے دیکھیے مسند احمد (الموسوعۃ الحدیثیہ ص 236 جلد 42 رقم 25384)
ھذا ماعندی واللہ اعلم بالصواب

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول