قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ اَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ (سورۃ الاخلاص)
’’فرما دیں کہ وہ اللہ ایک ہے ۔اللہ بے نیاز ہے۔نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہےاورنہ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔‘‘
عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ الْمُشْرِکِینَ قَالُوا لِلنَّبِیِّe یَا مُحَمَّدُ انْسُبْ لَنَا رَبَّكَ فَأَنْزَلَ اللہُ تَبَاركَ وَتَعَالَی﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌاَللّٰهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾(رواہ احمد مسند ابی بن کعب)
’’سیدناابی بن کعب رضی اللہ سے مروی ہے کہ مشرکین کا ایک وفد نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتا ہے۔اے محمدe!۔جس’’ رب‘‘ پرآپ ایمان لانے کی دعوت دیتے ہیں، اس کا نسب کیا ہے۔
وفد کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے معبود پتھر، لوہے، تانبے اور مٹی وغیرہ کے بنے ہوتے ہیں ،آپ کا معبود کس چیز سے بنا ہوا ہے اور اس کی شکل وصورت ،حسب نسب کیا ہے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے سورہ اخلاص نازل فرمائی۔‘‘
یاد رہے کہ ہر دور کے مشرک اپنے اپنے انداز اورنظریات کے مطابق ’’اللہ‘‘ کی توحید کو مانتے اور اس کی عبادت کرتے آرہے ہیں۔ مگر شرک میں ملوّث ہونے کی وجہ سے توحید ِخالص کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے،حالانکہ قرآن مجیداور انبیائے کرام کی دعوت توحیدِ خالص ہے۔ جسے سورہ اخلاص میں جامع الفاظ اور کھلے انداز میں بیان کیا گیاہے۔جو شخص ذاتی اورگروہی تعصبات سے بالاتر ہو کر’’اللہ‘‘ کی ذات اور اس کی صفات کو سمجھنے کی کوشش کرے گا وہ اس سے واضح ،مختصر اور موثر انداز کہیں نہیں پائے گا۔ اس سورت میں توحیدِ خالص بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ہرقسم کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔اس کے باوجود لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اُس کا جز بنا لیا ہے۔جیساکہ قرآن کا ارشاد ہے۔
وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ (الزخرف: 15)
’’ لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا حصّہ بنا لیاہےحقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طورپرناشکرا ہے۔ ‘‘
مشرکین اللہ تعالیٰ کوخالق ومالک ماننےاوراس کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے باوجود ’’اللہ‘‘کی مخلوق اورکچھ بندوں کو اس کی ذات کا حصّہ ٹھہراتے ہیں۔جوواضح طورپر کفر اور ناشکری ہے ۔قومِ نوح نے پانچ فوت شدہ بزگوں کواللہ تعالیٰ کا جز بنایا، ابراہیم uکی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا،فرعون نے اپنے آپ کو ’’رب الاعلیٰ‘‘ کے طورپر منوایا، یہودیوں نے عزیر u کو اللہ کا بیٹا قرار دیا،عیسائیوں نے عیسیٰ u اور ان کی والدہ مریم کو رب کا حصّہ بنا لیا۔ امتِ مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ اس میںایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کر رہا ہے اور کثیر تعداد نبی eکو’’ نور من
نوراللہ ‘‘کے طورپرمانتی ہےحالانکہ ارشادباری تعالی ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
’’کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشورٰی:11)
فَلَا تَضْرِبُوْا لِلهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النحل: 74)
’’پس اللہ کے لیے مثالیں نہ دو یقیناً اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
ارشادعالی ہے کہ اس کی ذات اورصفات کے ساتھ کسی
چیز کی مثال نہ دی جائے کیونکہ اس کی ذات اورصفات بے مثال ہیں لیکن افسوس ! شرک کرنے والے پھر بھی ایسی باتیں کرتے اور مثالیں دیتے ہیںجس سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا اور ان میں واضح طور پر شرک پایا جاتا ہے۔
وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (التوبۃ: 30)
’’یہودیوں نے کہا عزیر’’اللہ‘‘ کابیٹاہے اورنصاریٰ نے کہا مسیح ’’اللہ‘‘ کابیٹاہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں وہ ان لوگوں جیسی باتیں کررہے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفرکیا۔ ’’اللہ‘‘ انہیں غارت کرے کدھر بہکائے جارہے ہیں۔‘‘
یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناءپریہ عقیدہ بنایاکہ عزیرu اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ مفسرین اس کے دوسبب بیان کرتے ہیںایک یہ کہ موسیٰ u کی وفات کے بعدجب بُختِ نصرنےیہودیوں پرحملہ کیا اور اس نے تورات کوکلی طورختم کرنےکاحکم دیا۔ جس سے ایسا وقت آیا کہ تورات دنیا میں بالکل ناپیدہوگئی ۔اللہ تعالیٰ نےدین موسوی کی تجدید کے لیےسیدنا عزیر u کو مبعوث فرمایاجنہوں نے وحی الہٰی کی روشنی میں تورات کودوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ سیدنا عزیرu سوسال تک فوت رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھرزندہ فرمایا۔جب وہ اٹھائے گئے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھاناسیدنا عزیر u کے ساتھ تھا وہ سوسال گزرنے کےباوجود اُسی طرح تروتازہ رہا۔ لیکن ان کاگدھا مر چکا تھا جسےعزیر uکے سامنے زندہ کیا گیا۔ اُس کی تفصیل سورۃ البقرہ: آیت 260میں بیان کی گئی ہے۔ اس عظیم معجزہ کی بناء پریہودیوں نے عقیدت میں آکرسیدناعزیرuکواللہ تعالیٰ کابیٹا قرار دیا،ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نےسیدنا عیسیٰ u کو اللہ کا بیٹا اور سیدہ مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیا جس کی تردید کی گئی ہے۔ گویا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نےاپنے اپنے انبیاء کو ’’اللہ‘‘ کا بیٹا قرار دیا جس کی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں’’اللہ‘‘انہیں غارت کرے۔ یہ کن ٹامک ٹوئیوں میں بھٹکے جا رہے ہیں۔ انسان صراط مستقیم سے بھٹک جائے تو اسکی گمراہی کی کوئی انتہانہیں رہتی اس لیے انہوں نے علماء، درویشوں اور بزرگوں کو ’’رب‘‘ کا درجہ دے دیا تھا۔ عیسائیوں نے بالخصوص مسیح ابن مریمؑ کو خُدائی مقام پرپہنچایاحالانکہ انہیں حکم دیاگیاتھاکہ وہ خالص ایک ’’اللہ‘‘کی عبادت کریں جسکے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ جو اپنی ذات اور صفات کے لحاظ سے یکتا ہے اور وہ ان باتوں سے مبّرااورپاک ہے جو یہود ونصاریٰ کرتے ہیں۔
عیسیٰ u کا پیدا ہونا، قوم کاسیدہ مریم پرالزام لگانا، سیدہ مریم کا گود میں اٹھائے ہوئے عیسیٰ u کی طرف اشارہ کرنا، عیسیٰ u کااپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا۔ قرآن مجید نے ان واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایاہے۔ لیکن اس کے باوجود عیسائی تثلیث کاعقیدہ اختیارکئے ہوئے ہیں۔
يٰاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا فَاَشَارَتْ اِلَيْهِ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّا وَّجَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ وَاَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا وَّبَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ وَلَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا وَالسَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَيَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا ذٰلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِيْ فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ مَا كَانَ لِلهِ اَنْ يَّتَّخِذَ مِنْ وَّلَدٍ سُبْحٰنَهٗ اِذَا قَضٰى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيْمٌ(مریم: 28 تا36 )
’’اے ہارون کی بہن نہ تیرا باپ بُرا آدمی تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔ مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا ۔ لوگوں نے کہا ہم اس سے کیسے بات کریں گے جو بچہ گہوارے میں پڑا ہوا ہے ؟ عیسیٰ بول اٹھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا ہے۔ اور مجھے برکت دی میںجہاں بھی رہوں اور جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اورزکوٰۃ کی پابندی کاحکم دیا ہے۔ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کرنے والا بنایا اور مجھ کو سرکش اور سخت طبیعت نہیں بنایا گیا۔ مجھے سلامتی دی جب میں پیدا ہوا اور جب میں مروں گا اورجب زندہ کرکے اٹھا یا جائوں گا۔ یہ عیسیٰ ابن مریم ہے اور یہ ہے اس کے متعلق سچی بات جس میں لوگ شک کر رہے ہیں ۔ اللہ کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے۔ وہ پاک ہے جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو بس اتنا کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ کام ہو جاتا ہے۔ اور عیسیٰ نے فرمایا تھایقیناً اللہ ہی میرا اور تمہارا رب ہے ۔بس تم اسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں ’’ذٰلِكَ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا جو دور اور نزدیک کے لیے اشارہ کے طور پر بولا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد اس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ لوگ مریم اورسیدنا عیسیٰ i اور جن کو خُدا یا خُدا کا جزء ٹھہراتے ہیں اور جہاں تک عیسائیوں کا کہنا ہے کہ عیسیٰ اللہ کا بیٹا ہے انھیں قرآن مجید کی بتلائی ہوئی حقیقت کوپوری طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بیوی ، اولاد اور ہر قسم کی حاجت اور کمزوری سے بے نیاز اور پاک اور وہ شراکت داری اور لوگوں کی یاواگوئی سے مبرّا ہے۔ اسے اولاد اور کسی سے شراکت کی کیا ضرور ت ہے؟ کیونکہ اولاد یا کسی کو اپنی ذات اور کام میں شریک بنانا ایک کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کی کمزوری سے پاک ہے وہ کسی کام کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ کام اس کی منشاء کے مطابق ہو جاتا ہے۔ اس نے عیسیٰ کے متعلق ’’کُنْ‘‘ فرمایا تو سیدنا عیسیٰ uبغیر باپ کے پیدا ہو گئے۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَ اِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ
’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ’’ اللہ‘‘ تین میں سے تیسرا ہے ،حالانکہ وہ اکیلا ہے اور اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ،اگر وہ اس سے باز نہ آئے جو وہ کہتے ہیں تو ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا انہیں ضرور دردناک عذاب ہوگا ۔کیاوہ اللہ کے حضور توبہ نہیں کرتے اور اس سے بخشش نہیں مانگتے ؟ اللہ تعالیٰ تو بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔مسیح ابن مریم ایک رسول ہے ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی ماں صدیقہ ہے دونوں کھاناکھایاکرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح آیات کھول کر بیان کرتے ہیں ،پھروہ کیسے بہکے جاتے ہیں۔ ‘‘ (المائدۃ:73 تا 75)
آدمی جب حقائق دیکھنے سے اندھا اور دلائل سننے سے بہرہ ہو جائے تو وہ کفروشرک کی وادیوں میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔عیسائی عیسیٰ u کی محبت میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیںکہ اللہ ، عیسیٰ اور مریم ایک دوسرے سے ہیں اور’’ اللہ‘‘تین میں سے ایک ہے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی ذات اورصفات سے آگاہ فرماتے ہوئے انسانی رشتوں کے درجہ بدرجہ احترام کاحکم دیا ہے لیکن کوئی انسان دین و دنیا کے لحاظ سے کتنا ہی بلندوبالا یہاںتک کہ رسول اورنبی ہی کیوں نہ ہو۔ وہ انسان ہی رہتا ہے اور انسان کااللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا بندہ ہونے کے سواکوئی رشتہ نہیں ۔
سورۃ اخلاص میں اسی عقیدہ کو نہایت سادہ لیکن انشراح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ ایک ہے وہ نہ کسی سے پیدا ہوا ہے نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ اس کی کوئی برابری کرنے والا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے ایک اور بے مثال ہے۔لیکن افسوس مشرک اس بات کو سمجھنے اوراسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ سب سے پہلے یہودیوں نے سیدنا عزیر u کو اللہ تعالیٰ کابیٹا قرار دیا ۔ ان سے دو قدم آگے بڑھتے ہوئے عیسائی عیسیٰuکواللہ کا بیٹا اور مریم کو اللہ کی بیوی قرار دیتے ہیں۔ افسوس امت مسلمہ کی اکثریت شرک کی تمام اقسام کا ارتکاب کر رہی ہے جبکہ ہر نبی نے اپنی امت کو صرف اور صرف ایک ’’اللہ‘‘کی عبادت کرنے کاحکم دیا ہے۔ لہٰذا انسان کواسی ایک کی عبادت کرنی چاہیے۔ جو لوگ عقیدہ تثلیث اور شرک سے باز نہیں آئیں گے اللہ تعالیٰ انہیں درد ناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ البتہ جنھوں نے شرک سے توبہ کی اور اللہ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے یقیناً اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے گا کیونکہ وہ نہایت ہی معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَ قَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِي اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ (المائدہ: 72)
’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ اللہ مسیح ہی تو ہے جومریم کابیٹا ہی ہے، حالانکہ مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے بے شک حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے یقیناً اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیںہو گا۔‘‘
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَنْ يَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا اِنْ اَرَادَ اَنْ يُّهْلِكَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًاوَ لِلهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(المائدۃ:17)
’’یقیناً وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ بے شک مسیح بن مریم ’’اللہ‘‘ ہے انہیںبتلا ئیںکہ کون ہے ؟جو اللہ کے مقابلہ میں کچھ اختیار رکھتاہو اگر وہ ارادہ کرے کہ مسیح ابن مریم اور اس کی ماں کو اورجوکچھ زمین میں ہےاسے ہلاک کر دے، آسمانوں اورزمین اورجو کچھ دونوں کے درمیان ہے اس کی بادشاہی ’’اللہ ‘‘کےلیےہےجو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہرچیز پر پوری طرح قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید یہ حقیقت منکشف کرتا ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم شرک میں مبتلا ہوتی ہے تو وہ اس قدر ژود نگاہی اورکج فکری کا شکار ہوجاتی ہے کہ اسے خبر نہیں ہوتی کہ اس کے نظریات میں کس قدر تضاد اور الجھائو پایا جاتا ہے۔ عیسائی ایسی ہی صورت حال میں مبتلا ہیں۔ان کا عقیدہ ہے کہسیدہ مریم ،سیدنا عیسیٰ اور اللہ کو ملا کر رب کی ذات مکمل ہوتی ہے۔غور فرمائیں کہ عیسائی ایک طرف اللہ تعالیٰ کی وحدت کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف تثلیث پراصرار کیے جا رہے ہیں۔ جس چیز کو بنیاد بنا کر عیسائی تثلیث کا دعویٰ کرتےہیں وہ عیسیٰu کا بن باپ پیدا ہونا ہے جن کے بارے میں ایک چھوٹے سے گروہ کو چھوڑ کر عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ہمارے گناہ معاف کروانے کی خاطر سولی پر لٹک چکے ہیں۔ یہ قرآن مجید کا عیسائیت پر احسان ہے کہ اس نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ عیسیٰu نہ سولی پرچڑھائے گئے اور نہ ہی انھیںقتل کیا گیا ہے ۔ (النساء:۱۵۷)
زمینوں ، آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے سب کا سب ’’اللہ‘‘ کی ملکیت اور اس کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار کا مظہر ہے کہ اس نے عیسیٰuکو بغیر باپ کے پیدا کیا جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنا چاہتا ہے تواس کوجس طرح چاہےتخلیق فرماتا ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے ۔ عیسائیوں پر تعجب ہے کہ ایک طرف عیسیٰ uکو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف انھیں مصلوب بھی سمجھتے ہیں حالانکہ جو اپنی موت و حیات پر اختیار نہیں رکھتا وہ ’’اللہ‘‘ یا اس کا شریک کس طرح ہو سکتا ہے ، کیا فنا ہونے والا اور باقی رہنے والا ،بااختیار اور بے اختیاربرابر ہو سکتے ہیں۔
يٰاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَا اِلٰى مَرْيَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ اِنْتَهُوْا خَيْرًا لَّكُمْ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَهٗ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا (النساء: 171)
’’اے اہل کتاب ! اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے ذمہ سچی بات کے سواکچھ نہ کہو مسیح عیسیٰ ا بن مریم اس کے سواکچھ نہیں کہ وہ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہے ،جو اس نے مریم کو القا کیا اور ا للہ کی طرف سے ایک روح ہے پس اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان لائو اور مت کہو کہ تین(الٰہ) ہیں ،باز آجائو یہ تمہارے لیے بہترہے اللہ ہی معبودبر حق ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے اور’’ اللہ‘‘ ہی کارساز ہے ۔‘‘
عیسائیوں کو دین میں ’’غلو‘‘ کرنے سے روکا جا رہا ہے جو ان کی گمراہی کا اصل سبب ہے۔غلو کا معنٰی ہے محبت یا تعصب میں آکر افراط و تفریط کرنا۔ یہودیوں نے تعصب کی بنا ءپر عیسیٰ uکے بارے میں غلو کیا وہ مخالفت میں اس قدرآگے بڑھ گئے کہ انہوں نےسیدنا عیسیٰ uاور ان کی پاکباز والدہ پر الزامات لگائے جناب عیسیٰ u اور ان پر نازل ہونے والی کتاب انجیل کا انکار کیا حالانکہ عیسیٰ uنے بار ہا دفعہ فرمایاتھا کہ میں کوئی الگ شریعت لے کر نہیں آیامیں تورات کی تعلیم کی تکمیل کے لیے آیا ہوں لیکن ستیاناس ہو اس غلو کا جس کے نتیجہ میں یہودیوں نے ہر سچائی کو ٹھکرا دیا۔ یہودیوں کے برعکس عیسائیوں نے عقیدت ومحبت کی انتہا کرتے ہوئے سیدناعیسیٰ uکواللہ کا بیٹا اور مریم کواللہ کی بیوی قرار دیا۔ یہودی عداوت کی بنیاد پر گمراہ ہوئے اور عیسائی محبت میں غلو کرنے کی وجہ سے گمراہ ٹھہرے۔اس سے عیسائیوں کوروکا اور ٹوکا جا رہا ہے کہ تمھیں عیسیٰu کے بارے میں غلو نہیں کرنا چاہیے ان کی حیثیت تو یہ تھی کہ وہ مریم کے بیٹے اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں خداکی خدائی میں ان کا کوئی دخل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عیسائیوں اور یہودیوں کے عقیدہ کے حوالے سے ہر شخص کے باطل نظریہ کی نفی فرمائی ہے کہ کوئی ذات ادنیٰ ہو یا اعلیٰ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ اور اس کی صفات کی حامل نہیں ہو سکتی ۔
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ هُوَ الْغَنِيُّ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ بِهٰذَا اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (یونس: 68)
’’انھوں نے کہا’’ اللہ‘‘ نے اولاد بنا رکھی ہے۔حالانکہ وہ پاک ہے، اور بے پروا ہے، اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ تمہارے پاس ’’اللہ ‘‘کی اولاد بنانے کی کوئی دلیل نہیں، کیا تم اللہ پر وہ کچھ کہتے ہو جو تم نہیں جانتے؟‘‘
اللہ تعالیٰ نے (سورہ آل عمران :۲۹تا۳۶ میں)سیدناعیسیٰu کی حیات کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کی نانی کا نذر ماننا، سیدہ مریم کو نذر کرنا،سیدہ مریم کا جوان ہونا، بغیر خاوند کےسیدنا عیسیٰu کو جنم دینا،سیدنا عیسیٰu کی پیدائش کے وقت قوم کاسیدہ مریم پر تہمت لگانا، گودمیںسیدنا عیسیٰ uکا اپنی والدہ کی صفائی پیش کرنا اور اپنی نبوت کا اعلان کرتے ہوئے کہنا کہ میں ’’اللہ‘‘ کا بندہ ہوں۔ سیدنا عیسیٰu کا بڑے ہوکر رسالت کا فریضہ سرانجام دینا، دشمنوں کا آپ کو تختہ دار پر لٹکانے کی کوشش کرنا، سیدنا عیسیٰu کا مجبور ہوکر اپنے حواریوں کو مدد کے لیے بلانا، اللہ تعالیٰ کا انہیں صحیح سالم آسمانوں پر اٹھا لینا، قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ بھیجنا اور پھر انہیں موت دینا،ان میں سے ایک ایک بات ان کی عاجزی، بے بسی اوران کےبندہ ہونے کی شہادت دیتی ہے۔جس طرح عیسائی سیدنا عیسیٰ کے حالات جانتے اور مانتے ہیں یہی یہودیوں کا حال ہے۔وہ جانتے ہیں کہسیدنا عزیرu اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال تک مارے رکھا ۔ جب انہیں سو سال کے بعد زندہ کیا اور پوچھا کہ آپ کتنی دیر ٹھہرے رہے؟ انہیں خبر نہ تھی کہ میں ایک سو سال پڑا رہا ہوں ۔ عزیرu کہنے لگے کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم سو سال تک ٹھہرے رہے ہو ۔ (تفصیل کے لیے البقرۃ : ۲۵۹ کی تلاوت کریں)
یہود و نصاریٰ انبیاء کے گستاخ ،دین کے لیے ننگ و عار، عبادت گاہوں کی بے رونقی کا باعث اور اللہ تعالیٰ کی توہین کرنے والے ہیں۔ کیونکہ یہودیوں نے جنابِ سیدناعزیرuکو اللہ کا بیٹا کہا اور عیسائیوں نےان سے آگے بڑھتےہوئے سیدہ مریم کواللہ کی بیوی اور عیسیٰu کو ان کا بیٹا ٹھہرایا۔ مشرکینِ مکہ نے بتوں کواللہ کا اوتار تصور کیا اور کچھ لوگوںنے ملائکہ کو’’ اللہ‘‘ کی بیٹیاں قرار دیا۔ یہاں اس بات کی سختی کے ساتھ تردید کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں وہ اس کمزوری سے بالکل مبرّا اور پاک ہےاولاد سلسلۂ نسب کے تسلسل کے لیے ضروری، انسان کی ضرورت اور اس کی طبعی محبت کا تقاضا ہے۔ اولاد نہ ہو تو آدمی اپنے گھر میں ویرانی،بے رونقی اور تنہائی محسوس کرتا ہے اور اپنے آپ کو کمزور اور بے سہارا سمجھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کمزوریوں سے مبرّا ہے۔ اسے کسی لحاظ سے بھی نہ سہارے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تنہائی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے، اور نہ ہی وہ کسی کی محبت کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔ وہ حاکمِ کل اور قادر ِ مطلق ہے۔کیونکہ جو کچھ زمین و آسمانوں میں ہے ہر چیز اس کی غلام اور تابع فرمان ہے۔
سنگین ترین جرم
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَ مَا يَنْۢبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا(مریم: 88تا92)
’’کہتے ہیں رحمٰن بیٹا رکھتا ہے ایسا کہنے والو تم بُری بات زبان پر لاتے ہو قریب ہے کہ اس جھوٹ سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں۔ کہ اُنہوں نے ’’اللہ‘‘ کے لیے بیٹا تجویز کیا حالانکہ ’’اللہ‘‘ کی شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ۔‘‘
۔۔۔
یہ صرف اللہ رب العالمین کا خاصہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر جگہ ہر ایک کی جو بھی کوئی جس زبان میں چاہے اسے پکارے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کی پکار کو سنتے ہیں اور اس کا جواب دیتے ہیں قرآن میں آتا ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۭ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ (المؤمن 60)
اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے ازراہ تکبر کتراتے ہیں عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔
قبولیت پکار کی مختلف صورتیں
رسول اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ، وَلَا قَطِيعَةُ رَحِمٍ، إِلَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ، وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا " قَالُوا: إِذًا نُكْثِرُ، قَالَ: اللَّهُ أَكْثَرُ (مسند احمد 18/3)
جب بھی کوئی مسلمان پکارتا ہے جس میں گناہ یا قطع رحمی کی بات نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک ضرور عطا فرما دیتے ہیں۔
1۔ پکار کے مطابق اس کی حاجت پوری فرما دیتے ہیں۔
2۔ اس کی پکار کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنا دیتے ہیں۔
3۔ پکار کے برابر اس سے کوئی بلا ٹال دیتے ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا تب ہم بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا دوسرے مقام پر
ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (غافر: 60)
مجھے پکارو میں اس پکار کا جواب دونگا۔
اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی سے کے سب ہر وقت ہر ایک کی پکار کے سننے سے غافل اور بے خبر ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ (الأحقاف: 5)
اور اس شخص سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہوگا جو اللہ کو چھوڑ کر انہیں پکارتا ہے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ وہ ان کی پکار سے ہی بے خبر ہیں۔
انبیاء نے صرف اللہ ہی کو پکارا تھا
1۔ ابونا آدم وامنا حوا کے جنت سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے کس کو پکارا تھا اس بارے میں قرآن کہتا ہے:
فَتَلَـقّيٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّهٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ (البقرۃ 37)
پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔ بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔
وہ چند کلمات کیا ہیں ا س کی وضاحت بھی قرآن نے کی ہے۔ القرآن یفسر بعضہ بعض۔ وہ چند کلمات یہ ہیں:
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف 23)
وہ دونوں کہنے لگے: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔
سیدنا آدم و حوا نے تمام سے پہلے اللہ رب العزت کو پکارا تھا۔
2۔ سیدنا نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال دعوت و تبلیغ کی لیکن قوم نے سیدنا نوح علیہ السلام کی تکذیب کی تو حضرت سیدنا علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا۔
فَدَعَا رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ (القمر 10)
چنانچہ انہوں نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ:میں مغلوب ہوچکا، اب تو ان سے بدلہ لے۔
3۔ سیدنا یونس علیہ السلام جو اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور انہیں عذاب کی دھمکی دے کر وہاں سے چل دیئے تھے جس پر اللہ نے ان کی گرفت فرمائی اور انہیں مچھلی کا لقمہ بنا دیا تو مچھلی کے پیٹ میں سیدنا یونس علیہ السلام نے کس کو پکارا۔
فَنَادٰي فِي الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَكَ ڰ اِنِّىْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِيْنَ (الانبیاء 87)
پھر انہوں نے اندھیروں میں پکارا کہ :تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے میں ہی قصور وار تھا۔
حدیث میں آتا ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جس مسلمان نے بھی اس دعا کے ساتھ کسی معاملہ میں دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے گا۔ (جامع ترمذی 3505)
4۔ سیدنا زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کی حالت میں اولاد اللہ ہی سے مانگی۔
رَبِّ ھَبْ لِيْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۚ اِنَّكَ سَمِيْعُ الدُّعَاۗءِ (ال عمران38)
میرے پروردگار! مجھے اپنی جناب سے نیک اور پاکیزہ سیرت اولاد عطا فرما تو ہی دعا سننے والا ہے۔
5۔ فرعون عوام پر کتنا ظلم و ستم کرتا تھا تو جب فرعون نے دوبارہ ظلم کا آغاز کیا تو موسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مدد طلب کرو۔
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ (الاعراف 128)
موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا: اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔ یہ زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے اس کا وارث بنا دے اور انجام (خیر) تو پرہیز گاروں ہی کے لیے ہے۔
6۔ سیدنا ایوب علیہ السلام نے اپنی بیماری کے ایام میں کس کو پکارا تھا اللہ کا فرمان ہے:
اِذْ نَادٰى رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ (ص 41)
جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ :شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے۔
7۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام نے مغفرت کس سے طلب کی اور بادشاہی کس سے مانگی۔
رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْۢبَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِيْ ۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (ص 35)
اے میرے پرورگار: مجھے معاف کر دے اور مجھے ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کے شایاں نہ ہو، بلاشبہ تو ہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔
8۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اولاد اللہ سے مانگی۔
رَبِّ هَبْ لِيْ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ (الصافات 100)
اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح (بیٹا) عطا فرما۔
9۔ اصحاب کہف نے رحمت کے لیے رب کو پکارا۔
رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (الکھف 10)
اے ہمارے پروردگار! اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما اور اس معاملہ میں ہماری رہنمائی فرما۔
10۔ عباد الرحمن کی پکار
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ (الفرقان 65)
اے ہمارے پروردگار! جہنم کے عذاب سے ہمیں بچائے رکھنا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبیﷺ پریشانی کے وقت یہ دعا کرتے تھے۔
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ، وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ (بخاری، کتاب الدعوات، ح:6345)
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت زیادہ بردبار اور بہت سخی ہے اللہ پاک ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے اللہ پاک ہے جو سات آسمانوں کا مالک ہے جو عزت والے عرش کا مالک ہے۔
الحمد للہ دلائل سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ پکار کو ہر وقت ہر جگہ سننا یہ اللہ کا خاصہ ہے باقی سب بے بس ہیں اور لاچار ہیں۔
حمدو ثنا رب ذوالجلال کے لیے جس نے رشد وہدایت کے لیے امام کائنات جناب رسول اللہ ﷺ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا درود سلام داعی الی اللہ محمد ﷺ پر جنہوں نے پتھر کھا کر لہو لہان ہونا گوارہ کرلیا دانت مبارک شہید کرا لیے لیکن آپ ﷺ کی زبان اقدس سے اللہ کی وحدانیت کا درس جاری رہا اللہ رحمت کا مینہ برسائے صحابہ کرام پر جو آپ کی خدمت میں رہ کر فیض حاصل کرتے رہے اور حکم ملنے پر لبیک کہتے ہوئے جان وما ل نچھاور کرتےرہے اور سلف صالحین کی قبروںپر جنہوںنے وحی الی اللہ کا علم سینہ بہ سینہ نئی نسل تک پہنچایا
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’تمام اذکار سے افضل ذکر لاالہ الا اللہ ہے ‘‘
الٰہ کون ہے ؟خوف اور طمع یا محبت کی وجہ سے جس کی عبادت کی جائے وہ الٰہ ہے ۔
عبادت کیا ہے ؟زبان ،جان یا مال سے سر انجام دینے والا عاجزی کا ہر وہ عمل عبادت ہے ۔
جب اس کے دل میں یقین ہو کہ وہ جس کے سامنے عاجزی کا اظہا ر کر رہا ہے وہ اسے دیکھ رہا ہے اس کی پکار سن رہا ہے وہ نفع و نقصان دینے پر قادر ہے۔
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیتوںپر ہے اگر کوئی شخص قولی ومالی اور بدنی بندگی کا اظہارکرتے ہوئے دل میں یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے ،اس کی پکار سن رہا ہے وہ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے تو اس کا ذکر وفکر ،قیام و رکوع سجدہ و تشہد طواف اور خیرات عقیدہ توحید کے عین مطابق ہے۔
خدانخواستہ اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی نبی ،ولی امام اور شجر و حجر ،قبرو صنم تبوت و ذوالجناح کے سامنے تعظیما قیام و رکوع ، سجدہ و طواف نذر و نیاز اور خیرات وگیرہ عاجزی وانکساری کا عمل اس نیت سے کررہا ہو کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے جو کہہ رہا ہوں وہ سن رہا ہے جو حاجت پیش کر رہا ہوں وہ اس کو حل کرنے پر قادر ہے تو یہ صریحاً شرک ہے ۔
اطلاع ملنے پر زندہ انسانوں کا مصیبت و پریشانی کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرنا اخوت و محبت خدمت انسانیت ہے لیکن لیکن فوت شدہ بزرگوں کو مدد کے لیے پکارنا عقیدہ توحید کے منافی عمل ہے ۔
اللہ تعالی نے مصطفی ﷺ کو فرمایا کہ اعلان کردو
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ (الانعام162۔163)
آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہےجوسارےجہان کا مالک ہےاس کا کوئی شریک نہیں۔
سید الکونین ﷺ نے معراج کے موقع پر رب کے دربار میں عاجزی کا تحفہ پیش کیا
التَّحِيَّاتُ لِلهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ
اے اللہ قولی و بدنی اور مالی عبادتیں صرف تیرے لیے ہیں
کائنات کے امام محمد ﷺ نے رب کے دربار میں قولی ومالی وبدنی عبادت کا تحفہ پیش کیا ہمارے لیے بہترین
نمونہ کونسا ہے یہ قرآن کریم وضاحت کرتا ہے ۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
’’یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ ہے۔‘‘
(الاحزاب 21)
خاتم النبیین ﷺ کے پیرو کا روں کو قطعاً زیب نہیں دیتا کہ رب کے ساتھ قولی و مالی اور بدنی عبادت میں کسی اور کو شریک ٹھہرائیں۔
اگر آپ روز محشر شفاعت کے مستحق بننا چاہتے ہیں تو تمام معبدوں کی نجاست کو دور کرکے ایک اللہ کے معبود برحق ہونے کا عقیدہ دل میں بسا لیں کیو نکہ روز محشر شفاعت نبوی ﷺ تو حید و رسالت کی گواہی سے مشروط ہے ۔
اعتراض:اہل قبر کو پکارنے سے زائرین کی مشکلیں حل نہ ہوتی تو مزاروں پر لوگوں کا ھجوم ہر گز نہ ہوتا ۔
ازالہ:الہ کون ہے؟ روئے کائنات میں اس بارے اختلاف ہے۔ نصاری عقیدۂ تثلیث کے قائل ہیں یہودی سیدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ،بد ھ مت اپنے مہماتما کو اور ہندو اپنے لا تعداد دیوتاؤں کو الہ جان کر پوجتے ہیں وہ تنگی اور مشکل کے دوران ان سے مدد طلب کرتے ہیں بے اولاد میٹھا میوہ مانگتے ہیں بیمار صحت کی بھیک مانگتے ہیں ،تاجر کاروبار میں نفع طلب کرتے ہیں مرادیں پوری ہونے پر معبودوںکے قدموںمیں نذرانہ کا ڈھیڑ لگا دیتے ہیں اگر تنگی مصیبت اور مشکل کے وقت غیر اللہ کو پکارنے سے مرا د وں کا پورا ہوجانا حقانیت کی دلیل ہے تو کیا غیر مسلموں کا الہوں کے بارے میں عقیدہ درست ہے ؟
سورہ فاتحہ نماز کا اہم رکن ہے ہم بار بار اقرار کرتے ہیں جب ہم سجدے میں جاکر اللہ کی عبادت کرتے ہیں تو مدد طلب کرنے کے لیے اہل قبر کو پکارنااقرار باللسان کے منافی عمل کیوں نہیں ؟
نماز قائم کرنا عبادت ہے تو دعا مانگنا عبادت کا مغز ہے جب قبرستان میں نماز نہیں ہوتی تو مشکل وقت میں قبر یا مزار پر جاکر اپنے لیے مدد طلب کرنا اور دعا مانگنا شرک کیوں نہیں ؟
اعتراض: مرشد کامل محمدﷺکے تبرکات سے صحابہ کرام شفاء پاتےرہے تو پھر اولیا ء کے تبرکات سے شفا حاصل کرنا شرک کیوں ؟
ازالہ:ساقئ کو ثرمحمد ﷺ کی مبارک ہستی جن کا ہاتھ آٹا کو لگے تو اسے آگ نہ چھوئے رومال سے ہاتھ مس ہوجائے تو آگ میل کو جلادے مگر کپڑا نہ جلائے ،آپ بکری پر ہاتھ پھیریں تو وہ دودھ دینے لگے ۔آپ ﷺ دودھ کے پیالہ سے منہ مبارک لگائیں تو اس دودھ کو 71اصحاب صفہ کے طالب علم پی کر بھوک مٹالیں لیکن دودھ ختم نہ ہو آپ ﷺ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی دعوت پر سالن میں لعاب دہن ملائیں غزوہ خندق میں بھوک سے نڈھال 1400صحابہ کرام اللہ کے فضل وکرم سے کھانا تناول فرمائیں لیکن کھانا ختم نہ ہو ، آپ ﷺ دست مبارک سے کھجوروں پر چادر پھیلادیں ۔
سبحان اللہ !بے پناہ قرضہ کی ادائیگی ختم ہوگئی مگر کھجور کے ڈھیر میں کمی نہ ہوئی۔صحابہ کرام اس مبارک ہستی محمد ﷺ کے موئے مبارک اور جبہ مبارک کو پانی میں بھگوا کر مریض کو پلاتے تو وہ شفا ء حاصل کر لیتے یقینا ً درست ہے اللہ جو چاہے یقیناً ہو جاتا ہے نہ چاہے تو ہر گز نہیں ہو سکتا مرشد کامل محمد ﷺ کے جسم اطہر سے مس کرنے والے تبرکات کی افادیت کا انکار نہیں لیکن پند رھویں صدی ھجری کے علما ء و پیروں کے زندہ اجسام اور قبروں سے مس ہونے والی اشیا ء کے تبرکات کا جواز تلاش کرنا قطعاً درست نہیں
چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک نسبت
مزار پر چادر یا بڑے پتھر کو بھگو کر شفاکے لیے پانی پینا بہتر ہے یا اسما ء الحسنی کے نبی کریم ﷺ پر اول آخر درود پڑھ کر مقصد کے حصول یا شفا کے لیے رب ذوالجلال سے دعا طلب کرنا بہتر ہے ؟
آپ ذرا انصاف سے فیصلہ کریں ۔
اعتراض :سیدناموسی علیہ السلام نے اپنی وفات کے ڈھائی ہزار برس بعد بھی امت محمد ﷺ کی یہ مدد فرمائی کہ شب معراج میں پچاس نمازوں کے بجائے پانچ کرادیں تو ثابت ہو فوت شدگان سے مدد مانگنا شرک نہیں ۔
ازالہ :معراج کی رات نبی کریم ﷺ کی سیدنا موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی انکے پوچھنے پر فرمایا کہ پچاس نمازوں کا تحفہ ملا یہ سن کر سیدنا موسی علیہ السلام نے مشورہ دیا کہ آپ ﷺ کی امت یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گی تو نبی کریم ﷺ نے یکے بعد دیگرے رب سے التجا کی حتی کے پانچ مقرر ہوئیں ۔
سیدنا موسی علیہ السلام نے تو مشورہ دیا ۔رعایت لی تو کائنات کے امام محمد ﷺ نے جنہوں نے بار بار درخواست کر کے پچاس کے بجائے پانچ کرالیں ۔
معراج نبی کریم ﷺ کا معجزہ ہے جہاں دیگر انبیاء کے علاوہ سیدنا موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی جناب والا ! آپ ذہن میں رکھیں یہ گفتگو سیدنا موسی علیہ السلام کی قبر پر نہیں ہوئی ۔
اعتراض : سلام زندوں کو کیا جاتا ہے مردوں کو نہیں اگر فوت شدگان نہیں سنتے تو نبی کریم ﷺ نے اہل قبر کو سلام کرنے کا حکم کیوں دیا؟
ازالہ : قرآن کرم میں اللہ کا رشاد ہے :
وَاِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَــيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا (النساء86)
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو ۔
مشا ہدہ کی بات ہے کہ زندہ کو سلام کیا جاتا ہے تو وہ اس کا معقول جواب دیتے ہیں جو ہم سن لیتے ہیں آپ کے بقول مردے سن سکتے ہیں تو سلام کاجواب کیوں نہیں دیتے ؟کیا یہ قرآنی حکم کے خلاف ورزی نہیں ؟ دراصل زندوں پر سلام کا جواب دینا ضروری ہے کہ وہ اپنے بھائی کی سلامتی کے لیے دعا کریں کیونکہ مردے نہیں سن سکتے اس لیےاان پر سلام کا جواب دینا فرض نہیں ۔
نبی کرم ﷺ نے نیا چاند دیکھنے کی دعا پڑھنے کا حکم دیا ہے :
اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللهُ (مشکاۃ المصابیح باب الدعوات)
’’اے اللہ !یہ چاند نکال ہم پر ساتھ امن اور سلامتی کے (اے چاند )میرااور تیرا رب اللہ ہی ہے ۔‘‘
اس دعا کے پہلے حصے میں اللہ کے حضور دعا کی درخواست ہے جبکہ دوسرا حصہ ربی و ربک اللہ کس کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے یقینا چاند کو ۔اگر کسی کو مخاطب کرکے بات کرنے کا یہ ہو کہ وہ سن سکتا ہے تو چاند نے اثبات میں کیوں جواب نہیں دیا ؟اگرہے تو نشاندہی کرو ؟سیدنا عمر ر ضی اللہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور مخاطب کر کے کہا ۔
وَعَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ قَالَ: رَأَيْت عمر يقبل الْحجر وَيَقُول: وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ مَا تَنْفَعُ وَلَا تَضُرُّ وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقبل مَا قبلتك
سیدنا انس بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چومتے اور(مخاطب کرکے) کہتے مجھے معلوم ہے کہ تو پتھر ہے تو نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھانہ ہوتا کہ آپ ﷺتیرا بوسہ لیا کرتے تھے تو میں تیرا بوسہ نہ لیتا۔(مشکوۃ : 2589)
چنانچہ سیدنا عمر فاروق نے حجر اسود کو نفع ونقصان کا مالک سمجھ کر بوسہ نہیں لیا بلکہ مرشید کامل محمد ﷺ کی سنت سمجھ کر بوسہ لیا جس حجر اسود کو نبی کریم ﷺ نے بوسہ دیا وہ نفع ونقصان ، صحت وبیماری کی صلاحیت سے محروم ہے تو تم قبر پر پڑے پتھروں کو اٹھا کر بوسہ کیوں لیتے ہو پھر ان کو جسم کے درد والے حصوں پر پھیر کر صحت کی امید کیوں رکھتے ہو ؟ یہ کس کی سنت ہے؟ کسی کو مخاطب کرکے چند جملے کہنے سے مراد وہ سن سکتا ہے تو پتھر ، چاند نے سن کر کونسا جواب دیا ، حدیث سے دکھاؤ ۔
غور طلب پہلو ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم اُٹھائے کہ میں فلاں شخص سے کلام نہیں کروں گا پھر وہ شخص مرجائے اور وہ اس کی میت کو مخاطب کرکے کوئی بات کہے تو فقہ حنفی کی رو سے اس پر کفارہ قسم ہوگا یا نہیں ۔ چنانچہ آپ کو مفتی صاحب سے یہ جواب ملے
اِنَّ المَیِّتَ لَا یَسمَعُ
’’بے شک مردہ نہیں سن سکتا۔‘‘
تو آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ قانون الٰہی ہے کہ مردے نہیں سن سکتے البتہ معجزہ وکرامات کا ظہور الگ معاملہ ہے۔
قبرستان کی مسنون دعا سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ مردے سن سکتے ہیں ۔
جناب! آپ اس دعا کے معنی پر غور کرو کہ اس دعا کو پڑھنے والا مردوں کی سلامتی وعافیت کی دعا کرتا ہے لیکن اپنے لیے نہیں ۔
اگر آپ اہل قبر سے مشکل کشائی کا عقیدہ اخذ کرنے پر بضد ہیں تو نبی کریم ﷺ نے روز مرہ زندگی کے ہر موقع کی دعا سکھائی ہے اسی طرح میت پر جنازہ اور قبر پر پڑھنے کے لیے کئی مسنون دعائیں احادیث میں موجود ہیں۔
آپ کسی ایک مسنون دعا سے ثابت کریں کہ فوت شدہ کی قبر پر اس کے وسیلہ سے اپنے لیے اولاد،رزق اور صحت کی دعا مانگنا جائز ہو ؟ ۔
شبہ : اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورت نور میں فرمایا :
وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (النور:21)
’’ اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے اور اللہ سب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اس آیت سے ثابت ہوا کہ تزکیہ کرنا اللہ عزوجل کا کام ہے اب دوسری جانب چلتے ہیں ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہِ وَيُزَكِّيْھِمْ وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ
’’بیشک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہیں میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے ۔‘‘ (آل عمران:164)
اللہ نے یزکی کو اپنی جانب منسوب کیا دوسری جانب نبی کریم ﷺ کے لیے بھی یزکی فرمایا ، وضاحت کریں۔
ازالہ : اللہ نے انسان کو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت عطا کی ہے لیکن اللہ کا صفاتی نام سمیع وبصیر بھی ہے جس کی سماعت وبصارت کی کوئی حد نہیں وہ سمندر کی تہہ میں اور آسمان کی بلندی پر حرکات وسکنات کو دیکھ سکتاہے اور ان کی پکارکو سن سکتاہے لیکن انسان کی سماعت وبصارت محدود ہے۔ جب پردہ حائل ہوجائے یا نیند غالب ہوجائے تو اس کے دیکھنے اور سننے کی صلاحیت جواب دے جاتی ہے۔
وَلی کے معنی مددگار اور دوست کے ہیں ، مفسرین نے سیاق وسباق کی روشنی میں کہیں مددگار اور کسی موقع پر دوست کے معنی کیے ہیں۔
تزکیہ کے معنی بڑھنا ،پاک صاف کرنا ،اصلاح کرنا اور نیک بنانا کے ہیں جب اللہ کے ساتھ کا لفظ استعمال ہو تا ہے تو اس کے معنی پاک صاف کرنا ہونگے ۔
رہبر انسانیت محمد ﷺ امت کے خیرخواہ اور ہمدرد ہیں جنہوں نے کوہ صفا پر چڑھ کر کبھی مکہ کی گلیوں میں گھو م پھر کر قریش مکہ کو دعوت دی آپ ﷺ نے عکاظ کے ہجوم میں جا کر حق کا پیغام پہنچایا تو کبھی پیدل چل کر طائف تشریف لے گئے پتھروں کی فائرنگ سے لہولہان ہوگئے قربان جائیں رحمت کی برکھا پر آپ ﷺ ان کے رشد وہدایت کے لیے اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے رہے۔ محسن انسانیت ﷺ کی دلی تمنا تھی کہ روئے کائنات کے تمام انسان شرک کی غلاظت سے پاک صاف ہوجائیں ۔ چند قریش مکہ کے علاوہ بلال حبشی،صہیب رومی اور سلمان فارسی تزکیہ کی نعمت سے سرفراز ہوئے چونکہ تزکیہ کرنے(پاک صاف ہونے) کا اختیار اللہ کے پاس ہے۔ رحمت کائنات ﷺ کی پر خلوص دعوت کے باوجود ابو جہل،عتبہ،ابو لہب وغیرہ تزکیہ کی نعمت سے محروم رہے کیونکہ
وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ
’’لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔‘‘
داعی الی اللہ (محمد ﷺ) کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے جن شرفاء نے لبیک کہی مزکی کامل ﷺ نے ان کا اس طرح تزکیۂ نفس کیا کہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ تپتے کوئلوں پر احد احد پکارتے رہے، کم سن معاذ جہاد میں شرکت کا اہل ثابت کرنے کے لیے ایڑیوں کے بل کھڑے ہوگئے۔ سیدنا حنظلہ رضی اللہ عنہ نے سہاگ رات کی صبح زبان اقدس سے جہاد کی پکار سن کر لبیک کہا اور لڑتے ہوئے شہید ہوگئے جن کو فرشتوں نے غسل جنابت دیا ، سیدنا عثمان نے نہایت مہنگے داموں پانی کا کنواں خرید کرفی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گھر میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت چھوڑ کر سب کچھ آپ ﷺ کے قدموں میں پیش کر دیا۔ سیدنا حیدرکرار رضی اللہ عنہ نے مسلسل تین دن پانی سے روزہ افطار کیا لیکن سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن کا نام سن کر قیصر وکسریٰ کے رنگ فق ہوجاتے تھے وہ جس وقت بیت المقدس پہنچے ان کے لباس پر سترہ پیوند تھے، غلام اونٹ پر سوار تھا ۔ مراد رسول نے جہاد ہاتھ میں تھام کر مزکی کامل ﷺ کی انکساری اور مساوات کا عملی مظاہرہ کیا۔ مرشد کامل ﷺ نے حلقہ اسلام میں داخل ہونے والوں کے نفس کا اس طرح تزکیہ کیا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ( ان پر انگلی اٹھانے والے بد نصیب بالواسطہ مرشد کامل ﷺ کے تزکیہ پر الزام تراشی کرتے ہیں) البتہ کفر سے اسلام میں تزکیہ(پاک صاف) کی نعمت سرفراز کرنے کا اختیار صرف اللہ کے پاس ہے۔
وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ (النور:21)
’’اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔‘‘
وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیفَۃً (البقرہ:۳۰)
’’اور جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں نائب بنانے والا ہوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے اور اسے زمین میں خلیفہ بنانے سے پہلے کسی موجود شدہ نمونے کے بغیر زمین و آسمان کو پیدا فرمایا جو پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ زمین و آسمانوں کو اس لیے پہلے پیدا فرمایا تاکہ مکین سے پہلے مکان اور حاکم سے پہلے اسکی ریاست کی تخلیق اور تزئین کر دی جائے ۔
ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ فَسَوَّاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمٌ (البقرہ:۲۹)
’’ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کا ارادہ فرمایا تو ان کو سات آسمان بنایا اور وہ ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔
استواء کا معنٰی آسمانوں پر متمکن ہونا ہے۔سورہ ھود آیت ۷ میں وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کا عرش پہلے پانی پر تھا۔{ وَ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآ ءِ}’’اور اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ پھر وہ اپنی شان کے مطابق عرش پر مستوی ہوا۔ اس آیت کے آخر میں واضح فرمایا:اے انسان! اللہ تعالیٰ کا آسمانوں پر مستوی ہونے کا یہ معنی نہیں کہ وہ زمین اور اس کے ما فیہا سے بے خبر اور لاتعلق ہو گیا ہے۔ کان کھول کر سنو! اللہ تعالیٰ پل پل کی خبر اور ہر چیز کا علم رکھنے اور انکے درمیان ہر کام کے بارے میں حکم صادر فرمانے والا ہے ۔
إِنَّ اللہَ لَا یَخْفَی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ (آل عمران:۵)
’’یقینا اللہ تعالیٰ سے زمین و آسمان کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں‘‘
اَللہُ الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَّمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَہُنَّ یَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَیْنَہُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللہَ عَلَی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ وَأَنَّ اللہَ قَدْ أَحَاطَ بِکُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا (الطلاق:۱۲)
’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائی ہیں وہ ان کے درمیان حکم صادر کرتاہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور اللہ کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں بڑی تفصیل کے ساتھ سات آسمانوں کا ذکر کیا ہے۔ عربی زبان میںـ" الارض " کا لفظ واحداورجمع دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی لیے اس مقام پر وضاحت فرما دی کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان پیدا کیے اوران کی مثل سات زمینیں بنائیں۔ وہ ان کے درمیان اپنے احکام نازل کرتاہے تاکہ تم انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرو کہ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اوروہ اپنے علم، اقتدار اور اختیارات کے حوالے سے ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور تمام معاملات اس کے حضور پیش کیے جاتے ہیںوہی ان کا فیصلہ فرماتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کی طرح سات زمینیں بنائیں ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ سات زمینیں اوپر نیچے ہیں یا جس زمین پر ہم بستے ہیں یہ سات قطعات اور طبقات پر مشتمل ہے۔
وَلِلہِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَإِلَی اللہِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (آل عمران:۱۰۹)
’’اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اورزمین میں ہے اور اللہ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جائیں گے۔‘‘
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِی خَلَقَ الْأَرْضَ فِی یَوْمَیْنِ وَ تَجْعَلُونَ لَہُ أَنْدَادًا ذَلِکَ رَبُّ الْعَالَمِینَ (حٰم السجدہ:۹)
’’اے نبی ان سے فرمائیں: کیا تم اُس ذات کا انکار کرتے ہو اور دوسروں کو اس کا ہمسربناتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں پیدا کیا، وہی پوری کائنات کا رب ہے۔‘‘
قرآن مجید نے یہ بات بھی بار ہا دفعہ بتلائی اور سمجھائی ہے کہ زمین و آسمانوں کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے نہیں بنایا اور نہ ہی ان کے بنانے میں اس کا کوئی شریک تھا ۔اس لیے یہاں کفار سے استفسار کیا ہے کہ کیاتم اس ذاتِ کبریاء کا انکار کرتے ہو؟ کہ جس نے زمین کو دودنوں میں پیدا فرمایا لیکن اس کے باوجود تم بتوں ،بزرگوں اور دوسروں کو اس کا شریک ٹھہراتے ہو۔ حالانکہ تمام جہانوں کا پیداکرنے والا صرف ’’ اللہ ‘‘ ہے اور وہی عبادت کے لائق اور تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ۔ سورۃ حٰم السجدۃ میں یہ بات قدرے تفصیل سے بیان فرمائی:
وَجَعَلَ فِیہَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیہَا وَقَدَّرَ فِیہَا أَقْوَاتَہَا فِی أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَائً لِلسَّائِلِینَ ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَائِ وَہِیَ دُخَانٌ فَقَالَ لَہَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا أَوْ کَرْہًا قَالَتَا أَتَیْنَا طَائِعِینَ فَقَضَاہُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَوْمَیْنِ وَأَوْحَی فِی کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفْظًا ذَلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ (حم السجدہ: ۱۰تا ۱۲)
اُس نے زمین بنانے کے بعد اُس پر پہاڑ جما دیے، اس میں برکتیں رکھ دیں اور زمین میںسب طلب گاروں کے لیے ان کی ضرورت کے مطابق ٹھیک اندازے کے مطابق اُنکے خورد و نوش کا انتظام فرما دیا، یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔ پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت دھواں تھا، اُس نے آسمان اور زمین سے فرمایا چاہو یا نہ چاہو ہر حال وجود میں آجاؤ، دونوں نے کہا ہم فرمانبردار ہو کر حاضر ہوگئے۔ تب اُس نے دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس کا قانون جاری کر دیا، آسمان دنیا کو ہم نے چراغوں سے خوبصورت بنا یا اور اسے محفوظ کر دیا یہ سب کچھ ایک زبردست جاننے والی ہستی کا بنایا ہوا ہے ۔‘‘
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاہَا وَأَلْقَیْنَا فِیہَا رَوَاسِیَ وَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَوْزُونٍ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیہَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَہُ بِرَازِقِینَ وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ (الحجر:19-21)
’’اور ہم نے زمین کو پھیلا یا ،ا س میں پہاڑ گاڑ دیئے اور ہم نے اس میںہر چیز مناسب مقدار میں اُگائی اور ہم نے اس میں تمہارے لیے کئی قسم کے اسباب پیدا کئے ہیں او ران کیلئے بھی جنہیں تم کھلانے پلانے والے نہیں ہو ۔ کوئی ایسی چیز نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے اپنی حکمت کے مطابق اُتارتے رہتے ہیں ۔‘‘
یہاں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلا کر اس میں پہاڑوںکا ایک وسیع سلسلہ جما دیا اور ہر چیز کو زمین میں مقررہ مقدار اور معیار کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے اور اس میں لوگوں کی معیشت کا بندوبست فرمایا اور ان کے رزق کا بھی بندو بست کیا، جن کا رزق تمہارے ذمہ نہیں ہے یعنی چرند ،پرند، درند اور حشرات الارض وغیرہ۔
ان آیات میں دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ ہر چیز کو نہایت متناسب اور موزوں انداز میں پیدا کیا گیا ہے۔ جس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز اپنے تخلیقی معیار کو پہنچ کر خود بخود ایک مقام پر جا کر کے ٹھہر جاتی ہے۔
پھول کی رنگت، اس کا بناؤ سنگھار اور اس کی مہک اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اب مجھے کسی کے گلے کا ہار یا کسی گلدستے کی زینت بننا چاہیے ۔ اسی طرح ایک پودا ، بیل اور بڑے سے بڑا درخت مقررہ معیار اور مدّت سے آگے نہیں بڑھتا ۔
جنس انسانی کے اعتبار سے اگر دنیا میں ہمیشہ مرد یا عورتوں کی بہتات رہتی تو سلسلۂ تخلیق کس طرح متناسب اور متوازن رہ سکتا تھا۔ یہی صورتِ حال نباتات کی ہے۔ ایک علاقے میں ایک جنس کی پیداوار زیادہ ہے تو دوسرے علاقے میں کسی اور چیز کی پیداوار وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ تاکہ لوگ رسد و نقل کے ذریعے ایک دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے رہیں اور ایک دوسرے سے تعلق قائم کریں۔ گویا کہ زمین کو صرف فرش کے طور پر ہی نہیں بچھایا اور پھیلایا گیا بلکہ اس میں ہر جاندار بالخصوص لوگوں کی معیشت اور رزق کا نہایت مناسب نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ انسان اپنی روزی خود کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن زمین اور اس کے اندر یہاں تک کہ فضاؤںمیں رہنے والی مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ رزق مہیا کرتاہے۔ ہر کسی کی روزی اس کی ضرورت کے مطابق اُسے پہنچائی جا رہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس ہر چیز کے لا محدود خزانے ہیں جسے وہ ہر وقت اور ہر دور میں مناسب اور اپنے ہاں مقررہ مقدار کے مطابق نکالتا اور نازل کرتا ہے۔
ایک صدی پہلے کسے پتہ تھا کہ زمین سے تیل، پٹرول اور گیسیں نکلیں گے اور اسی پر دنیا کی ترقی کا انحصار ہو گا ، کیا معلوم! زمین میں کون کون سے خزانے موجود ہیں اور انہیں کس کس دور کے لوگ نکالیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ حمید میں زمین کے کئی اوصاف اور فائدے بیان فرمائے جن کا اختصار اس طرح ہے:۔
وَاللہُ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا (نوح:۱۹)
’’اور اللہ نے زمین کو تمہارے لیے فرش بنایاہے ۔‘‘
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِکَ دَحَاہَا (النٰزعٰت:۳۰ )
’’ اس کے بعد اس نے زمین کو بچھایا۔‘‘
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِہَادًا (النبا:۶)
’’کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم نے زمین کو فرش بنایاہے۔‘‘
أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ کِفَاتًا(المرسلات:۲۵)
’’کیا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی نہیں بنایا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ زندہ ، مردہ اور ہرچیز کو اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔زمین میں بے شمار خصوصیات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی ترجمان ہیں مثلاً:
٭ مٹی صدیوں تک چیز کو محفوظ رکھتی ہے اور خود ختم نہیں ہوتی۔
٭ زمین میں اپنانیت ہے اورہر جاندار اس پر قیام کرتاہے اور اس کی ان گنت ضروریات زمین سے وابستہ ہیں ۔
٭ زمین میں ٹھہرائو اور برداشت ہے ۔
٭ زمین میں پانی ہے اور اس سے ہر جاندار کی حیات وابستہ ہے۔
زمین کی خصوصیت بیان فرماکر یہ ثابت کیا ہے کہ جس زمین میں مدّتوں پڑے ہوئے بیج اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُگ آتے ہیں کیا قیامت کے دن خالق کے حکم سے دوبارہ مردے پیدا نہیں ہوسکتے ؟
وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُونَ
’’اور ہم نے زمین کو بچھایا ہے اور ہم بہت اچھا بچھانے والے ہیں۔‘‘ (الذاریات: 48)
جہاں تک اس فرمان کا عام آدمی کی سمجھ میں آنے والی بات ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دن بدن نہ صرف انسانوں کی تعداد میں اضافہ کررہاہے بلکہ ان کے وسائل میں بھی اضافہ کیے جارہا ہے۔غور فرمائیں ! آج سے سوسال پہلے کا انسان موجودہ وسائل بالخصوص ذرائع مواصلات کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ نہ معلوم آنے والے وقت میں انسان کو کیاکیا نعمتیں میسر ہوں گی ۔خوردونوش کی اشیاء کا اندازہ فرمائیں کہ آج سے پچاس سال پہلے گندم کی فی ایکڑ پیداوار پندرہ بیس مَن سے زیادہ نہ تھی اورآج درمیانے درجے کے کھیت سے فی ایکڑ پچاس ساٹھ مَن گندم حاصل کی جارہی ہے ۔ اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کاحال ہے کہ ان کی پیدوار اور مقدار میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے،گویا کہ جس طرح کھانے والے بڑھ رہے ہیں اسی حساب سے ان کے دسترخوان کو وسعت دی جا رہی ہے۔
فَتَبَارَکَ اللہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ (المؤمنون:14)
’’بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔‘‘
فَلْیَنْظُرِ الْإِنْسَانُ إِلَی طَعَامِہِ أَنَّا صَبَبْنَا الْمَائَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا فَأَنْبَتْنَا فِیہَا حَبًّا وَعِنَبًا وَ قَضْبًا وَزَیْتُونًا وَنَخْلًا وَحَدَائِقَ غُلْبًاوَفَاکِہَۃً وَأَبًّا مَتَاعًا لَکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ (عبس:24تا 32)
’’ انسان اپنی خوراک پر غور کرے۔ ہم نے خوب پانی برسایا، پھر زمین کو پھاڑا پھر اس سے اناج اُگائے اور انگور اور ترکاریاں اور زیتون اور کھجوریں اور باغات اور طرح طرح کے پھل اور چارے تمہارے اور تمہارے مویشیوںکے فائدے کے لیے پیدا کیے۔‘‘
اس مقام پر انسان کو اس کی خوراک کے حوالے سے سمجھایا گیا ہے کہ اے انسان! تجھے اپنے کھانے پینے پر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تیری خوراک کا کس طرح بندوبست کرتاہے ؟ ارشاد ہوا کہ یقینا ہم نے آسمان سے پانی برسایا اور ہم نے زمین کو پھاڑا ،پھر ہم نے اس میں اناج اُگایا، اناج میں انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گھنے، گنجان اور لہلاتے ہوئے باغ ہیں جو تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدے کے لیے ہیں۔
انسان کو اس کی خور اک اورچوپاؤں کے چارے کا حوالہ دے کر یہ بات سمجھائی ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والو! دیکھو اورغور کرو!کہ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو کون اُگاتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے سوا اس دانے کو کوئی نکالنے اور اُگانے والا نہیں ہے۔وہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے، اس کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کر سکتا۔ بارش کی وجہ سے زمین میں نَم پیدا ہوتا ہے اوراس نَم کی وجہ سے زمین میں پڑا ہوا بیج پھول پڑتا ہے اورہر دانہ اپنی اصلیت کی بنیاد پر شگوفے یا تنے کی شکل میں نکل پڑتا ہے۔ ان میں انگور ، سبزیاں ،زیتون ، کھجوریں اور مختلف قسم کے باغات ہیں۔ کچھ درخت اور پودے پھل دار ہوتے ہیں اور کچھ چارے اور دیگر ضروریات کے کام آتے ہیں۔
’’اور زمین کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف قطعات ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ہیں۔بہت سے تنوں والے اور ایک تنے والے بھی۔ جنہیں ایک ہی پانی سے سیرا ب کیا جاتا ہے او ر ہم پھلوں کو ایک دوسرے پر فوقیت دیتے ہیں ۔ یقینا اس میں ان لوگوں کے لیے بہت سی نشانیا ں ہیں جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔‘‘ (الرعد:۴)
اگر انسان ان نعمتوں اور نباتاتی نظام پر غور کرے تو نہ اپنے رب کی نافرمانی کرے اور نہ اسکے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے۔
قُلْ أَغَیْرَ اللہِ أَتَّخِذُ وَلِیًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ قُلْ إِنِّی أُمِرْتُ أَنْ أَکُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ وَلَا تَکُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِینَ (الانعام:14)
’’پوچھیں کیا میں اللہ کے سواجو آسمانوں اورزمین کو پیدا کرنے والا ہے کسی اور کو اپنامددگار بنائوں ؟ وہ سب کو کھلاتا ہے اور اسے کھلایانہیں جاتا،فرما دیں کہ بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے اپنے رب کی فرماں برداری کروں اورآپ شرک کرنے والوں سے ہرگز نہیں ہیں۔‘‘
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید نے پہلی دفعہ لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں اسی طرح ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان کے پھولوں کے بھی جوڑے بنائے ۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجو د کوئی میٹھا ہے ، کوئی کڑوا ، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے۔ ایک ناقص ہے اور دوسرا اعلیٰ قسم کا اور نہایت قیمتی اور لذّت دار ہے۔ پہلے وقتوں میں انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جاندار کی طرح پودوں میں بھی نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ اب جدید نباتات کا علم بتاتا ہے کہ ہر پودے میں نر اور مادہ ہوتے ہیں ۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unisexual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا پائے جاتے ہیں ۔
اعلیٰ درجہ کے پودوں (Superior Plants)میں نسل خیزی کی آخری پیداوار اُن کے پھل (Fruits)ہوتے ہیں۔ پھل سے پہلے پھول نکلتاہے جس میں نر اور مادہ اعضا (Organs)یعنی اسٹیمنز(Stamens)اور اوویولز(Ovules)ہوتے ہیں۔ جب کوئی زردانہ (Pollen) پھول تک پہنچتا ہے ، تو وہ ’’بار آور‘‘ ہو کر پھل کی صورت اختیار کرنے کے قابل ہوتا ہے ۔ پک جاتا ہے تو اس کے بیج اس کی افزائش کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا تمام پھل اس حقیقت کا پتا دیتے ہیں کہ پودوں میں بھی نر اور مادہ کے اجزاء ہوتے ہیں ۔ یہ ایسی سچائی ہے جسے قرآن پاک بہت پہلے بیان فرما چکا ہے ۔
وَّأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآءً فَأَخْرَجْنَا بِہٖٓ أَزْوَاجًا مِّنْ نَبَاتٍ شَتَّی [طٰہٰ:۵۳]
’’اور اوپر سے پانی برسایا اور پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار جوڑا جوڑا نکالی ۔ ‘‘
’’اسی نے ہر طرح کے پھلوں میں جوڑے پیدا کیے ہیں۔ ‘‘ [ الرعد: ۳]
’’پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود انسان کی اپنی جنس میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو وہ نہیں جانتے ۔ ‘‘ [یٰس:۳۶]
’’ہم نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں شاید کہ تم اس سے سبق سیکھو۔ ‘‘ [الذاریات: ۴۹]
ان آیاتِ مبارکہ میں ’’ہر چیز ‘‘ کے جوڑا جوڑا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر چیز جوڑوں کی شکل میں پیدا کی گئی ہے ، جن میں وہ چیزیں بھی شامل ہیں جنہیں آج کا انسان نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں انسان انہیں دریافت کر لے ۔ پودوں اور پھلوں کے بارے میں غور فرمائیں مثال کے طور پر ہم کھجور کو دیکھیں کس طرح نر اور مادہ درختوں کے ذریعہ سے اس کی بے شمار قسمیں وجود میں آرہی ہیں ۔
یوں تو تمام پودے اور پھل خالقِ ارض و سماء کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن جن پودوں کا تذکرہ ذاتِ الٰہی نے اپنے کلام میں کیا ہے ، اس سے ان کا نام ابد الآباد تک محفوظ ہو گیا اور کلامِ الٰہی میں ان کا ذکر آنے سے ان کی خصوصیتوں کا سمجھنا ایک علمی و دینی ضرورت بن چکا ہے۔ قرآن مجید نے اس کے تین نام لیے ہیں :
انگلش میں : Date اردو ، پنجابی اور ہندی میں: کھجور
فارسی میں: خرما
قرآن مجید میں انگور ، انجیر ، انار اور زیتون کا تذکرہ کئی بار آیا ہے لیکن جس پھل اور درخت کا حوالہ سب سے زیادہ دیا گیا ہے، وہ کھجور ہے۔ نخل، النخیل اور نخلۃ کے ناموں کا ذکر قرآن کریم میں بیس مرتبہ آیا ہے ۔یہاں تک کہ کھجور کی گٹھلیوں کا ذکر بھی قرآن پاک میں الگ الگ ناموں سے ہوا ہے ۔ مختلف ناموں کے حوالے سے کھجور کا ذکر قرآن حکیم میں اٹھائیس دفعہ آیا ہے ۔ زرعی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کھجور کی کاشت آٹھ ہزار سال قبل جنوبی عراق میں شروع ہوئی تھی۔ قارئین اور سامعین کی دلچسپی کے لئے کھجور کے بارے میں چند مزید معلومات پیش خدمت ہیں۔
عربوں میں ایک پرانی کہاوت ہے کہ سال میں جتنے دن ہوتے ہیں اتنے ہی کھجور کے استعمال کے فائدے ہیں۔کھجور کی غذائیت کا اندازہ اس کے کیمیاوی اجزاء سے کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں وٹامن اے ، وٹامن بی ، وٹامن بی ٹو اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ سوڈیم، کیلشیم ، سلفر ، کلورین ، فاسفورس اور آئرن ، سے بھرپور نر اور مادہ درخت ہوتے ہیں۔اس کا استعمال ایک مکمل غذا بھی ہے اور اچھی صحت کے لیے ایک لاجواب ٹانک بھی بشرطیکہ کھانے والے کو کوئی شوگر وغیرہ نہ ہو ۔ طب نبوی میں کھجور کی بڑی افادیت بیان کی گئی ہے۔
کھجور کی عالمی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ۱۹۸۲ء میں کھجور کی عالمی پیداوار چھبیس لاکھ ٹن تھی جس کا ۵۶ فیصد حصہ عراق ، سعودی عرب ، مصر اور ایران میں پیدا ہوتا ہے۔ صرف عراق میں ۴۴۵ اقسام کی کھجوریں پائی جاتی ہیں، اب تک کھجور کے حوالے سے عراق پوری دنیا میں سرفہرست ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ قرآن مجید میں کھجور کا کئی بار ذکر ہوا ہے عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ انسان زمین اور ان پودوں پر غور کرے، اپنے رب پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک نہ ٹھہرائے۔
کھجور کے ذکر سے پہلے زمین کی خصوصیت اور اس کے فوائد کی بات ہو رہی تھی ۔چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
لِتَسْلُکُوا مِنْہَا سُبُلًا فِجَاجًا (نوح:۲۰)
’’ تاکہ تم زمین کے کشادہ راستوں پر چلو۔‘‘
ہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِی مَنَاکِبِہَا وَکُلُوا مِنْ رِزْقِہِ وَإِلَیْہِ النُّشُورُ (الملک:۱۵)
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم رکھا ہے تاکہ اس کے راستوں پر چلو اور اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ،اسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے زمین کو اس قابل بنایا ہے تاکہ تم اس کے راستوں پر چلو اور اپنے رازق کارزق کھائو اوریاد رکھو! کہ تم نے اسی کے حضور پیش ہونا ہے۔ یہاں زمین کے لیے ’’لِتَسْلُکُوْا‘‘ اور ’’ذَلُوْلًا‘‘کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ ’’لِتَسْلُکُوا‘‘ کا معنیٰ چلنا اور’’ذلولاً ‘‘ کا معنٰی نرم ہے۔ بے شک زمین میں پہاڑ اور چٹانیں بھی پائی جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دور کے انسان کو فہم اور وسائل عطا فرمائے ہیں کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق زمین میں راستے بنائے اور انہیں ہموار کرے تاکہ وہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکے۔
اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیت کے سبب انسان نے زمین پر شاہرائیں بنائیں اورپہاڑوں کے سینے چیر کر راستے ہموار کیے۔ یہاں تک کہ سمندر میں بھی راستے بنا لیے ہیں۔ جیسا کہ سعودیہ اور بحرین کے درمیان سمندرپر ایک پُل بنایا گیا ہے۔ جس سے مختلف ممالک کی اشیاء اور اناج بآسانی دوسرے ملکوں میں پہنچ رہا ہے۔ اس سے لوگوں کے وسائل اور رزق میں کشادگی پیدا ہوئی اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں آسانی میسر آئی۔ اگر اللہ تعالیٰ زمین پر راستے نہ بناتا اور انسان کو مواصلات کے ذرائع بنانے کی صلاحیت نہ دیتا تو لوگ اپنے اپنے علاقے میں قیدی بن کررہ جاتے۔ نہ ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکتے اور نہ ہی دنیا اس قدر ترقی کر پاتی۔
۔۔۔