توحید ربوبیت : تعریف ، فوائد اور ثمرات

محترم قارئین ! گزشتہ شمارے میں ہم توحید کی اہمیت پر سیر حاصل بحث کا مطالعہ کرچکے ہیں، جب ہم نے یہ جان لیا کہ دنیا وآخرت میں کا میابی کی اساس عقیدۂ توحید ہے تو پھر توحید کی اقسام کے بارے میں جاننا اور ان پر ایمان لانا ضروری لازمی اور ضروری ہے زیر نظر مضمون میں ہم توحید کی اقسام کو بالتفصیل بیان کرنے کی کوشش کریں گے ، ان شاء اللہ ، عقیدہ توحید کو تین قسموں میں تقسیم کیا جاسکتاہے جو کہ درج ذیل ہیں ۔

1-توحید ربوبیت

2-توحید اسماء وصفات

3-توحید الوہیت

توحید ربوبیت:

توحیدربوبیت اقسام توحید میں سے پہلی قسم ہے یہ عقیدہ توحید کی بڑی اہم ترین قسم ہے توحید ربوبیت کے ذریعے بندہ اپنے رب کو جانتا اور پہچانتا ہے ، اُس کے بغیر بندے کا ایمان مکمل نہیں ہوتا توحید ربوبیت کی تعریف ، دلائل اور فوائد و ثمرات ذیل میں ذکر کرتے ہیں۔

تعریف:

توحید ربوبیت یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالی ہی تمام کائنات کا خالق، مالک، رازق، زندہ کرنے والا اور مارنے والاہے، کائنات کے تصرف میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ اپنے افعال میں یکتا ہے کوئی اس کا ہاتھ بٹانے والا نہیں ہے۔

توحید ربوبیت کے اثبات پر دلائل:

توحید ربوبیت پر قرآن وسنت کے بے شمار دلائل ہیں ، قرآن کی ابتداءتوحید ربوبیت سے ہوتی ہے ۔

اللہ تعالی فرماتے ہیں :

اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (الفاتحہ:1)

’’سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو پروردگار ہے سب جہانوں کا‘‘

یعنی ہر چیز کو پالنے والا صرف اللہ ہی ہے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:

اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ۭ هَلْ مِنْ شُرَكَاۗىِٕكُمْ مَّنْ يَّفْعَلُ مِنْ ذٰلِكُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ

’’اللہ وہی تو ہے جس نے تمہیں پیدا فرمایا پھر اس نے تمہاری روزی کا بندوبست کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے (اور دے گا) پھر وہی تم کو زندگی بھی بخشتا ہے (اور بخشے گا) کیا تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں بھی کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کر سکے وہ پاک اور برتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں‘‘(الروم:40)

یعنی تمہاری تخلیق، تمہارے رزق، تمہاری موت اور حیات کا مالک صرف اللہ ہے اس کے علاوہ کوئی ان چیزوں پر قدرت نہیں رکھتا وہ جس کو جب چاہتاہے پیدا کرتاہے اور جس قدر چاہتا ہے رزق دیتاہے پھر وہ جس کو جب چاہے موت دے گا او ر پھر قیامت کے دن سب کو زندہ کرے گا۔ یہ تمام امور صرف اللہ کے اختیار میں ہیں، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّمَآ اَمْرُهٗٓ اِذَآ اَرَادَ شَـيْـــــًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ 

’’اس (قادر مطلق) کا معاملہ تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ جب وہ کسی چیز کو (وجود میں لانا) چاہتا ہے تو اسے صرف اتنا کہنا ہوتا ہے کہ ہو جا پس وہ کام ہو چکا ہوتا ہے‘‘(یٰس:82)

ایک اور مقام پر فرمایا:

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ (البقرہ:164)

’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں اور ان کشتیوں اور جہازوں میں جو کہ رواں دواں ہیں سمندروں میں طرح طرح کے ایسے سامانوں کے ساتھ جو کہ فائدہ پہنچاتے ہیں لوگوں کو اور بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اتارتا ہے آسمان سے پھر اس کے ذریعے وہ زندگی بخشتا ہے زمین کو اس کے بعد کہ وہ مرچکی ہوتی ہے اور طرح طرح کے ان جانوروں میں جن کو اس نے پھیلا رکھا ہے زمین میں اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بھاری بھر کم بادلوں میں جن کو مسخر اور معلق کر رکھا ہے اس نے آسمان اور زمین کے درمیان میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں ‘‘

اس آیت کریمہ میں بڑی بڑی سات چیزوں کا تذکرہ ہے جن کا اختیار صر ف اللہ تعالی کے پاس ہے جو اس کے رب ہونے کی دلیل ہیں۔

اسی طرح رب ہونے کے ناطے صرف اللہ ہی رزاق ہے، اس بارے میں ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ

 ’’بلاشبہ اللہ ہی سب کو روزی دینے والا بڑی قوت والا انتہائی زور والا ہے‘‘ (الذاریات:58)

ان دلائل کے علاوہ کچھ اور دلائل بھی ہیں جو اللہ تعالی کی ربوبیت پر دلالت کرتے ہیں ، مثلاً دلالۃ الفطرۃ انسانی فطرت میں یہ بات ڈال دی گئ ہے کہ ہر انسان اللہ تعالی کی ربوبیت کا اقرار کرتاہے ۔ ہر شخص اللہ کے رب ہونے کو تسلیم کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ مشرکین مکہ توحید الوہیت میں شرک کرنے کے باوجود توحید ربوبیت کا اقرار کرتے تھے، اللہ تعالی نے ان کے اسی اقرار کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا ہے:

وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (العنکبوت:61)

’’اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس کائنات) کو؟ اور (تمہارے) کام میں لگا دیا سورج اور چاند (عظیم الشان کروں) کو؟ تو (اس کے جواب میں) یہ سب کے سب ضرور بالضرور یہی کہیں گے کہ اللہ ہی نے پھر کہاں اوندھے کئے جاتے ہیں یہ لوگ؟‘‘۔ رسول اکرم کا فرمان ہے :

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ (صحيح البخاري (2/ 100)

’’ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں‘‘

دلالت نفس:

انسان کا نفس توحید ربوبیت پر دلالت کر تاہے ، انسان اگر اپنے نفس میں نظر دوڑائے تو اپنے نفس میں ایسے ایسے عجائبات ملاحظہ کرتاہے کہ جس پر وہ اس بات کا اقرار کرتاہے کہ اس نفس کو بنانے والی ضرور ایک عظیم ذات ہے جس نے بڑی حکمت کے ساتھ اس کو بنایاہے اسی چیز کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بیان فرمایاہے:

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ ۚ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ (التغابن:3)

’’اسی نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو حق کے ساتھ اور اس نے صورت گری فرمائی تم سب کی سو کیا ہی عمدہ صورتیں بنائیں اس نے تمہاری اور اسی کی طرف لوٹنا ہے (سب کو اور ہر حال میں)‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا (الشمس:7)

’’اور قسم ہے نفس انسانی کی اور اس ذات کی جس نے اس کو درست کیا‘‘

منکرین توحید ربوبیت

ربوبیت کا اقرار ہر نفس کو ہے تمام کے تمام مذاہب کے ماننے والے کسی نہ کسی طور پر توحید ربوبیت کا اقرارا کرتے ہیں البتہ کچھ لوگ گزرے ہیں جنہوں نے توحید کی اس قسم کا بھی انکار کیاہے لیکن تھوڑا غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان کا یہ انکار فقط بغض وعناد کی بنیاد پر تھا ، اس قسم کا انکار کرنے والوں میں سب سے پہلاشخص فرعون تھا۔ اس نے اپنی قوم کو کہا تھا:

فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى(النازعات:24)

’’میں ہوں تمہارا سب سے بڑا رب‘‘

اس کا یہ دعویٰ بغیر کسی دلیل کے تھا اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو مخاطب ہوکر کہاتھا:

قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ هٰٓؤُلَاۗءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ بَصَاۗىِٕرَ ۚ وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا (بنی اسرائیل 102)

 ’’موسیٰ نے جواب میں کہا کہ تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان بصیرت افروز نشانیوں کو آسمانوں اور زمین کے مالک کے سوا اور کسی نے نہیں اتارا اور میں تجھے اے فرعون، قطعی طور پر ایک ہلاک ہونے والا انسان سمجھتا ہوں‘‘

یعنی فرعون بھی دل ہی دل میں ربوبیت کا اقراری تھا مگر بغض وعناد اور تکبر کی وجہ سے زبان سے اس کا اقرار نہیں کرتاتھا۔

چونکہ اللہ تعالی علیم بذات الصدور ہے اس لیے فرعون کے دل کی جو اصل کیفیت تھی اس کوا للہ تعالی نے بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ۭ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَ

’’اور انہوں نے ان کا انکار کر دیا ظلم اور تکبر کی بناء پر حالانکہ انکے دل ان کا یقین کر چکے تھے، سو دیکھ لو کہ کیسا ہوا انجام فساد مچانے والوں کا‘ ‘ (النمل:14)

خلاصہ بحث یہ ہے کہ توحید ربوبیت کا انکار کسی کو نہیں، اگر کسی نے انکار کیا بھی ہے تو فقط بغض وعناد اور تکبر کی بناپر ورنہ دل میں وہ بھی اقرار کرتے ہیں۔

فوائد وثمرات:

توحید ربوبیت کے اقرار کے بہت سے فوائد وثمرات ہیں ان فوائد و ثمرات کا جائزہ لیا جائے تو توحید ربوبیت کی اہمیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ ان فوائد میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:

1-ایمان کی دولت:

توحید ربوبیت کا سب سے پہلااور اہم فائدہ ایمان کی دولت کا نصیب ہونا ہے، اہل ایمان میں شامل ہونے کے لیے توحید ربوبیت کا اقرار لازمی اور ضروری ہے ، توحید ربوبیت کے بغیر ایما نامکمل ہے البتہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ایمان میں داخلے کےلیے صرف توحید ربوبیت کا فی نہیں ہے بلکہ توحید کو دوسری اقسام پر ایمان لانا بھی لازمی اور ضروری ہے۔

رسول اکرم کا فرمان ہے :

ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا (صحيح مسلم (1/ 62)

تقویٰ کا حصول:

جب ایک مومن شخص کا یہ یقین ہوگا کہ اس کا ایک رب ہے جو ان صفات کا مالک ہے کہ ہر چیز کا اختیار اور تصرف اسی کے پاس ہے وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور اس پر کوئی غلبہ حاصل نہیں کر سکتا زمین وآسمان میں اس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے تو اس کا نفس اپنے رب کی طرف مائل ہو گا ۔ اس کے دل میں ہمیشہ اللہ کا ڈر اور خوف رہے گا ، جس کے نتیجے میں وہ اپنے رب سے دعائیں اور التجائیں کرتا رہے گا، جب اس کی یہ حالت اور کیفیت ہوجائے گی تو تقویٰ کی دولت حاصل ہوگی اس کا مطلب یہ کہ توحید ربوبیت تقویٰ کے حصول کی بنیاد ہے ۔

لوگوں سے مستغنی:

ایک مومن جب یہ جان لے گا کہ اللہ تعالی ہی اس کا رب ہے اور وہی اس کو رزق دینے والاہے، تمام خزانے اسی کے ہاتھ میں ہیں، وہ کسی چیز کو اگر داپنے بندے سے روک دے تو پوری کائنات اس بندے کو کچھ دے نہیں سکتی ، اگر وہ کسی بندے کو نوازنے کا ارادہ کرلے تو پوری کائنات اسے روک نہیں سکتی توبندہ مخلوق سے تمام قسم کے طمع اور لالچ کو ختم کردے گا اور لوگوں کے مال سے اپنے آپ کو مستغنی کرلے گا اس کے نتیجے میں وہ اللہ ہی سے دعا کرے گا او اسی سے سب کچھ مانگے گا۔

مخلوق کی غلامی سے آزادی:

توحید ربوبیت کا انکار کرنے والا شخص جب یہ جان لے گا کہ زندگی اورموت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے تماقسم کے نفع اور نقصان کا اختیار اسی کے پاس ہے، اگر وہ کسی کو نقصان سے بچانے کا ارادہ کرلے تو کوئی اس شخص سے نقصان کو روک نہیں سکتا تو وہ شخص مخلوق کی غلامی سے نکل آئے گا، پھر کسی پیر فقیر یا ایرے غیرے کا خوف اس کے دل میں نہیں ہوگا وہ صر اللہ ہی سے ڈرے گا اور اگر کبھی اللہ کے دین کی خاطر اسے لڑنے کا موقع مل جائے تووہ بڑی دلیری اور شجاعت سے لڑے گا اور ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کرے گا۔

 

 

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے