Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

حجاج کرام کے لئے بہترین زادِ راہ

20 Sep,2015

دعا کی ضرورت
ہرانسان فقیر وعاجز ہے ، اپنی زندگی کی ہر قسم کی ضرورت کیلئے وہ اللہ کا محتاج ہے۔ غنی اورحمید صرف اللہ کی ذات ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
{یٰاَیُّہَاالنَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرْائُ اِلَی اللّٰہِ وَاللّٰہُ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ}(فاطر :۱۵)
’’لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو اوراللہ تو غنی وحمید ہے۔‘‘
اس لئے فقیر وعاجز بندہ کا فرض ہے کہ اپنی ہر ضرورت کیلئے اللہ کو پکارے۔
دعا کیلئے حکم الہٰی
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المؤمن :۶۰)
’’اورتمہارے پروردگار کا ارشاد ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘
{اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً ، اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ}(الأعراف :۵۵)
اپنے رب کو پکارو گڑ گڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
دعا عبادت ہے ۔نبی  ﷺ کا ارشاد ہے:
 ’’الدُّعَاءُ ہُوَ الْعِبَادَۃُ ‘‘(ترمذی)
’’دعا عین عبادت ہے ۔‘‘
دعا مومن کا ہتھیار ہے
الدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤْمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ (رواہ الحاکم بسند صحیح)
دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کا نور ہے۔‘‘
ہر مصیبت کاعلاج
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
اَلدُّعَائُ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ وَإِنَّ الْبَلاَئَ لَیَنْزِلُ فَیَلْقَاہُ الدُّعَآئُہُ فَیَعْتَلِجَانِ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔‘‘ (رواہ البزار والطبرانی والحاکم وقال صحیح الاسناد)
’’ دعا مفید ہے اس مصیبت کیلئے جواتر چکی اور جوابھی نہیں اتری اور مصیبت نازل ہوتی ہے تو دعا اس سے ٹکراتی ہے اور قیامت تک دونوں کی ٹکر جاری رہتی ہے ۔
دعا کے آداب وشرائط
دعا سے قبل حسب ذیل باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔
اخلاص : دعا صرف اللہ سے مانگی جائے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
{فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ} (المؤمن:۶۵)
اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اس کیلئے خالص کرکے۔
حضور قلب: دعا کرتے وقت دل اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ دعا کے معنی ومفہوم کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت پر پورا یقین ہونا چاہیے۔ارشاد ہے :
اُدْعُوا اللہَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُوْنَ بِالْإِجَابَۃِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللہَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ
’’اللہ سے دعامانگو تو دعا کی قبولیت پر یقین رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ غافل لاپرواہ دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔‘‘(ترمذی )
عاجزی وانکساری:
دعا کرتے وقت عاجزی وانکساری کا اظہار کرنا چاہیے ۔ ارشاد ربانی ہے ۔
{اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَّخُفْیَۃً} (الأعراف:۵۵)
اس کے ساتھ اپنے قصوروں کا اعتراف ، آئندہ کیلئے اس سے اجتناب کا عہد اور توبہ وندامت بھی ہونی چاہیے۔
دعا سوال ہے اور سائل کیلئے عجز وانکساری ضروری ہے۔
حمد وصلاۃ:
دعا سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنی چاہیے اور رسول اللہ  ﷺ پر درود وسلام بھیجنا چاہیے۔ (ترمذی)
٭ دعا میں اپنے بہترین اعمال کا واسطہ دینا چاہیے۔ (بخاری حدیث اصحاب الغار)
٭ دعا کرتے وقت قبلہ رخ اور دوزانوں بیٹھنا چاہیے۔ (ترمذی)
٭ اللہ کے اسماء الحسنیٰ کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَلِلٰہِ الْأَسْمَائُ الْحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِہاَ }( الأعراف :۱۸)
’’ اور اللہ کے اچھے نام ہیں انہی سے اس کو پکارو۔‘‘
متفرق آداب
٭ دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھا کر دعا مانگنی چاہیے۔ (ترمذی)
٭ دعا میں ہاتھوں کی ہتھیلی منہ کی طرف کرنی چاہیے۔(ابوداؤد)
٭ دعا میں تکلف اورترنم سے پرہیز کیا جائے۔ (بخاری)
٭ دعا پہلے اپنے لئے ، پھر اپنے والدین ، بھائی، بہنوں اور عام مسلمانوں کیلئے مانگنی چاہیے۔ (مسلم)
٭ دعا میں یوں نہ کہنا چاہیے کہ خدایا اگر تو چاہے تو مجھ کو دے کیونکہ اللہ کو روکنے والا کوئی نہیں ۔ ( بخاری)
٭ گناہ کے کام اور رشتہ داری کاٹنے کیلئے دعا نہیں مانگنی چاہیے۔ (مسلم)
٭ دعا میں جلدی نہ کرنی چاہیے یعنی یوں نہ کہنا چاہیے کہ میں نے دعا کی اور اب تک قبول نہ ہوئی۔ (بخاری ومسلم)
٭ دعا کرنے والا دعا کے بعد آمین کہے۔ (بخاری)
٭ بہتر ہے کہ دعا کرنے والا باوضو ہو اور دعا کی جگہ بھی پاک وصاف ہو ۔
٭ دعا کی قبولیت کیلئے حلال روزی کھانا مؤثر ذریعہ ہے حرام خور بیت اللہ شریف میں بھی جاکر دعا مانگے تو رد کردی جاتی ہے ۔ (مسلم)
دعا کی مقبولیت کے مخصوص اوقات
٭ رات کا آخری حصہ اس وقت رحمت الٰہی متوجہ ہوتی ہے ۔ ( بخاری )
٭ لیلۃ القدر (ترمذی )     
٭ جمعہ کی ساعت میں ۔ (مسلم)
٭ خاص طور پر امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز سے فارغ ہونے تک (حصن حصین )
٭ اذان اوراقامت کے درمیان ۔ (ابوداؤد)
٭ فرض نماز کے بعد ۔ (ترمذی)
٭ عرفہ کے دن کی دعا ۔ (ترمذی )
٭ زمزم پینے کے وقت ۔ (مستدرک حاکم)
٭ روزہ افطار کرنے کے وقت
٭ امام کے ولا الضالین کہنے کے وقت ۔ (بخاری)
وہ لوگ جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں
٭ ماں باپ کی دعا اولاد کے حق میں ۔ (ترمذی)
٭ مظلوم کی دعا ۔ (ترمذی)     
٭ مسافر کی دعا ۔(ترمذی)    
٭ عادل حاکم کی دعا (مسلم)
٭ فرماں بردار اولاد کی دعا ۔ (ابوداؤد)
٭ روزہ دار کی دعا افطار ی کے وقت ۔ (مسلم)
٭ مسلمان کی دعا اپنے غیر حاضر بھائی کیلئے ۔
دعا قبول ہونے والے مقامات
٭ بیت اللہ شریف کے اندر ۔ (مسلم)
٭ ’’ملتزم‘‘ جو رکن یمانی اور مقام ابراہیم کے درمیان ہے۔ (طبرانی)
٭ زمزم کے کنوئیں کے پاس ۔ (دار قطنی)
٭ صفا ومروہ کی پہاڑی پر ۔
٭ ’’مسعیٰ‘‘ جہاں سعی کی جاتی ہے۔
٭ مقام ابراہیم کے پاس۔
٭ عرفات میں ۔ (مسلم)
 ٭ مشعر الحرام مزدلفہ ۔ (قرآن )
سفر کی دعائیں
مسافرکو رخصت کرنے کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب اللہ کو کوئی چیز سونپی جاتی ہے وہ اس کی حفاظت کرتاہے۔ (صحیح رواہ احمد)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص سفر کرنا چاہے اس کو اپنے پسماندگان کو یہ کہہ کر رخصت کرنا چاہیے۔
اَسْتَوْدِعُکُمُ اللّٰہَ الَّذِیْ لاَ تُضِیْعُ وَدَآئِعَہُ
میںتمہیں اس اللہ کے سپرد کرتا ہوں جس کی سپرد کی ہوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ (حسن رواہ احمد )
جناب سالم رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی شخص کو سفر کیلئے رخصت کرتے تو فرماتے : آؤ میں تمہیں ویسے ہی رخصت کروں جس طرح رسول اللہﷺ ہم کو رخصت کرتے تھے۔ آپﷺ فرماتے تھے :
’’اَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَآخِرَعَمَلِکَ‘‘
میں تمہارے دین اور تمہاری امانت اور تمہارے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتاہوں۔‘‘(ترمذی)
نیز رسول اللہ اجب کسی کو رخصت فرماتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور جب تک وہ مسافر آپ  ﷺ کا ہاتھ نہ چھوڑتا آپ  ﷺ ہاتھ پکڑے رہتے۔ (ترمذی)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں سفر کا ارادہ رکھتاہوں ، آپ  ﷺ مجھے مزید نصیحت فرمائیے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا :’’زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوَی‘‘ اس نے کہا مزید ارشاد ہو ، آپ  ﷺ نے فرمایا :
’’وَغَفَرَ ذَنْبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الْخَیْرَحَیْثُمَا کُنْتَ ‘‘ پوری دعا یوں ہے :’’زَوَّدَکَ اللّٰہُ التَّقْوَی وَغَفَرَ ذَنْبَکَ وَیَسَّرَلَکَ الْخَیْرَحَیْثُمَا کُنْتَ‘‘ (ترمذی)
’’اللہ تعالیٰ تمہیں تقویٰ کا زادِ سفر عطا کرے اور تمہارے گناہ بخش دے اور تم جہاں رہو خیر وبرکت تمہیں میسر رہے۔‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ میں سفر کا ارادہ رکھتاہوں ، آپ مجھے وصیت فرمائیے۔ آپ  ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ سے ڈرتے رہنا اور بلندی پر چڑھنا تو ’’اللہ اکبر ‘‘ کہنا ، جب وہ شخص چلا گیا تب آپ  ﷺ نے اس کے حق میں یہ دعا پڑھی۔
اَللّٰہُمَّ اَطْوِلْہُ الْبُعْدَ وَہَوِّنْ عَلَیْہِ السَّفَرَ
(ترمذی ، صححہ الحاکم )
اے اللہ اس کی مسافت کو کم کردے اور اس کے سفر کو آسان کردے۔‘‘
سفر کیلئے روانگی کی دعا
سیدنا علی بن ربیعہ رحمہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا کہ ان کی سواری کا جانور لایا گیا ۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رکاب میں پاؤں رکھ کر فرمایا ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ جب جانور کی پیٹھ پر بیٹھ گئے تو فرمایا :’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ پھر یہ دعا پڑھی۔
سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّآ إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ(مسلم)
’’کتنی پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے لئے تابع کردیا ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں کرسکتے تھے اور ہم سب اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔‘‘
اس کے بعد تین مرتبہ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ کہا اور تین مرتبہ ’’اللہ اکبر ‘‘ کہا اور یہ دعا پڑھی۔
سُبْحَانَکَ إِنِّیْ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
’’تیری ذات پاک ہے میں نے یقینا خود پر ظلم کیا ہے میری مغفرت فرما، گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرسکتا۔‘‘
اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرائے تو میں نے مسکرانے کا سبب پوچھا کہنے لگے میں نے رسول اللہ ا  کو اسی طرح مسکراتے ہوئے دیکھا تو آپ اسے سبب پوچھا تو آپ ا نے فرمایا : جب بندہ ’’اِغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ‘‘ (میرے گناہ بخش دے) کہتاہے تو اللہ کو بڑا بھلا معلوم ہوتاہے کہ بندہ کو یقین ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی گناہ نہیں معاف کرسکتا۔ (ترمذی، صحیح )
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سفر پر روانہ ہونے کیلئے اپنی سواری پر سوار ہوجاتے تو تین مرتبہ ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے پھر یہ دعا پڑھتے۔
سُبْحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِیْنَ وَإِنَّآ إِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ ،اللّٰہُمَّ إِنَّا نَسْأَلُکَ فِیْ سَفَرِنَا ہٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضٰی ، اللّٰہُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ہٰذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَہُ اللّٰہُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃُ فِی الْأَہْلِ اللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِی الْمَالِ وَالْأَہْلِ ‘‘(رواہ مسلم ص/۴۲۴، ج/۱)
’’کتنی پاک ذات ہے جس نے اس کو ہمارے  تابع کردیا ورنہ ہم اس کو قابو میں نہیں کرسکتے تھے اور ہم سب اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔اے اللہ ہم اس سفر میں تجھ سے نیکی اور تقوی کا سوال کرتے ہیں اور ایسے عمل کی توفیق چاہتے ہیں جس سے تو راضی ہو ۔ اے اللہ ہم پر اس سفر کو آسان کردے اور ہم سے اس کی دوری کم کردے اے اللہ تو سفر میںہمارا ساتھ ہے اور گھر میں ہمارا نگہبان۔ اے اللہ میں تجھ سے پناہ چاہتاہوں سفر کی تکلیف اور برے منظر اور اہل وعیال اورمال میں بری حالت کے ساتھ واپس آنے سے ۔‘‘
سفر سے واپسی کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہونے لگتے تو ہر اونچی جگہ پر تین مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور یہ دعا پڑھتے ۔
لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ آیِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ صَدَقَ اللہُ وَعْدَہُ وَنَصَرَ عَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لوٹنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں عبادت کرنے والے ہیں اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ (محمد ﷺ) کی مدد کی اور اکیلے تمام جماعتوں کو شکست دی۔‘‘
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  ﷺ اور ہم جب بلندی پرچڑھتے تو ’’اللہ اکبر ‘‘ کہتے اور جب نیچے اترتے تو ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ ‘‘ کہتے ۔ (بخاری)
احرام کی دعا
احرام کی نیت کرنے سے پہلے حمد وثنااور تسبیح وتکبیر کہنی چاہیے پھر حج یا عمرہ یا دونوں جس کا ارادہ ہو اس کی نیت لفظوں میں کرے اور لبیک پڑھے۔ لبیک کے صحیح الفاظ یہ ہیں:
’’لَبَّیْکَ اللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ ‘‘
’’میں حاضر ہوں اے اللہ میں حاضر ہوں ،میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ، بیشک تعریف تیرے ہی لئے ہے اورنعمتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں اورملک تیرا ہی ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ ‘‘
حدودِحرم میں داخلہ کی دعا
حدودِ حرم میں داخلہ کی کوئی مخصوص دُعا صحیح احادیث سے ثابت نہیں مگر سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ ۔‘‘
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔
حرم شریف میں داخل ہونے کی دعا
حرم میں داخل ہونے کی مخصوص دعا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں البتہ عام مسجدوں میں داخل ہوتے وقت جودعا پڑھی جاتی ہے وہی پڑھنی چاہیے ۔
اللَّہُمَّ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ‘
’’اے اللہ میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
طواف کی دعائیں
حجر اسود کے پاس اللہ اکبر کہنا چاہیے ، رکن یمانی کے پاس یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔‘‘
’’اللہ کا نام لیکر جو بہت عظیم ہے ۔ اے اللہ میں تجھ سے دنیا اور آخرت میںمعافی اور عافیت کا سوال کرتاہوں۔ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں بھی بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی اور ہمیں جہنم کی آگ سے بچا۔‘‘
طواف کی حالت میں بیت اللہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے کوئی خاص دعا صحیح سند سے مروی نہیں ،البتہ تسبیحات میں سے یہ دعا پڑھنی ہے۔
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللہِ
’’اللہ کی ذات پاک ہے اورتعریف اللہ ہی کیلئے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ بہت بڑا ہے اور طاقت اور زور کسی کو نہیں سوائے اللہ کے۔‘‘
طواف کی دو رکعتیں
طواف کے بعد مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعت پڑھنی چاہیے پہلی رکعت میں ’’قل یا یہا الکافرون‘‘ اور دوسری رکعت میں ’’قل ہو اللہ احد‘‘ پڑھنی مسنون ہے۔ (مسلم)
ملتزم کے پاس دعا مانگنی مسنون ہے۔ (ابوداؤد) مگر اس کیلئے کوئی خاص الفاظ وارد نہیں۔
مقام ابراہیم کے پاس یہ آیت تلاوت کرکے دو رکعتیں طواف کی پڑھنی مسنون ہیں۔ (مسلم)
{وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی} (2:125)
اور جس جگہ ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوتے تھے اس کو نماز کی جگہ بنالو ۔
کعبہ کے اندر دو رکعت پڑھنی، دعا مانگنی ،توبہ واستغفار کرنا، ہر کونے میں تکبیر ،تہلیل، تسبیح اور حمد وثنا کرنا مسنون ہے۔ (بخاری)
حرم سے نکلنے کی دعا
اس کیلئے کوئی خاص دعا ثابت نہیں ، البتہ عام مسجدوں سے نکلتے وقت جو دعا مسنون ہے وہی حرم سے نکلنے کے وقت بھی پڑھنی چاہیے یعنی
بِسْمِ اللہِ وَالصَّلَاۃُ عَلٰی رَسُولِ اللہِ اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی ذُنُوبِی وَافْتَحْ لِی أَبْوَابَ فَضْلِکَ
’’اللہ کا نام لیکر نکلتاہوں اور رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجتاہوں اے میرے رب میرے گناہ معاف کردے اورمیرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔‘‘
زمزم پینے کی دعا
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تاکید کرتے تھے کہ جہاں تک ممکن ہوزمزم قبلہ رخ ہوکر بسم اللہ کہہ کر تین سانس میں پینا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ سے زمزم پینے کی مخصوص دعا ثابت نہیں، البتہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما زمزم پیتے وقت یہ دعا پڑھاکرتے تھے۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْماً نَافِعاً وَّرِزْقاً وَّاسِعاً وَّشِفَآئً مِّنْ کُلِّ دَآئٍ ۔ (الترغیب )
’’اے اللہ میںتجھ سے مفید علم اور وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفاء کا سوال کرتاہوں۔‘‘
سعی کی دعا
سعی شروع کرتے وقت یہ دعا پڑھے۔
’’اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ ، اَبْدَأُ بِمَا بَدَئَ اللّٰہُ بِہِ ۔ (مسلم)
بیشک(کوہِ) صفا ومروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں جس چیز کو اللہ نے پہلے ذکر کیاہے میں بھی اُسی سے شروع کرتاہوں۔
صفا اورمروہ میں ہر پھیرے میں قبلہ رو کھڑے ہوکر اللہ کی حمد وثنا اور تسبیح ، تہلیل اور دعا مانگنا مسنون ہے۔ اس کی ترکیب یہ ہے کہ پہلے تین بار اللہ اکبر کہے پھر یہ ذکر پڑھے۔
’’لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ لَا إِلَہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ أَنْجَزَ وَعْدَہُ وَنَصَرَعَبْدَہُ وَہَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہُ ‘‘
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ (محمدﷺ) کی مدد کی اور اکیلے تمام جماعتوں کو شکست دی۔‘‘
صفااور مروہ کے درمیان چلتے ہوئے پڑھنے کیلئے کوئی خاص دعا منقول نہیں ،البتہ بعض صحابہ کرام سیدنا علی اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہماسے یہ دعا منقول ہے۔
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ الْاَعَزُّ الْاَکْرَمُ
’’اے اللہ بخش دے اوررحم فرما ، تو ہی سب سے زیادہ عزت والا اور سب سے زیادہ بزرگ ہے۔ ‘‘(مصنف ابن ابی شیبہ)
اس کے علاوہ قرآن وحدیث کی دعاؤں میں سے جو دعا چاہیں پڑھیں ۔
ایام عشرہ : پہلی ذی الحجہ سے دسویں ذی الحجہ تک ایام عشرہ کہلاتے ہیں ان میں عبادت الٰہی اور نیک کام کرنے کا بہت بڑا ثواب ہے ۔ (بخاری)
ان دنوں میں کثرت سے یہ تسبیح پڑھتے رہنا چاہیے۔
سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلہِ وَلَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَاللہُ أَکْبَر(الترغیب والترہیب)
’’پاک ہے اللہ تعالیٰ اور تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑاہے۔‘‘
منیٰ میں جاتے وقت
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے تو ہم میں سے کوئی لبیک پڑھ رہا تھا اور کوئی اللہ اکبر کہہ رہا تھا۔
عرفات کی دعا
یوم عرفہ (حج کادن ) بڑی فضیلت کا دن ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے : عرفات کے دن سے زیادہ اور کسی دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اس دن قریب ہوتاہے اور تجلی فرماتاہے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ (مسلم)
عرفات دعا کی قبولیت کی جگہ ہے۔
 حدیث شریف میں آیا ہے۔
’’خَیْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ یَوْمِ عَرَفَۃَ ۔‘‘
بہترین دعا عرفات کے دن کی دعا ہے۔‘‘
رسول اللہ ا  ظہر کے بعد سے مغرب تک تسبیح، تکبیر، تہلیل اور دعا کرتے رہے۔ اس لئے ہر حاجی کو چاہیے کہ اس دن اس متبرک جگہ میں خوب دل لگا کر دعا مانگے اور تلاوت قرآن ، ذکر الٰہی ، توبہ واستغفار اور تکبیر وتہلیل میں مشغول رہے درود شریف کثرت سے پڑھے لبیک بار بارکہے، اپنے لئے بھی دعا مانگے اور عزیز واقارب واحباب کیلئے بھی ۔
عرفات کے دن رسول اللہ ا  اس دعا کو اکثر پڑھتے تھے۔
لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر
’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیںوہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کی سلطنت ہے اور اسی کیلئے حمد ہے اوروہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
مزدلفہ : مزدلفہ میں ذکر الٰہی کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
 فَإِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ، وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہِ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ (مسلم)
’’اور جب تم عرفات سے واپس ہوتو مشعر حرام کے پاس یعنی مزدلفہ میں اللہ کا ذکر کرو جس طرح اس نے تم کو سکھایا ہے۔ اگرچہ اس سے بیشتر تم لوگ گمراہوں میں سے تھے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ نے مزدلفہ میں نمازِ فجر کے بعد سے خوب اجالاہونے تک قبلہ رخ ہوکر دعا مانگی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو بھی یہاں دیر تک دعا مانگنے کا حکم دیا ہے۔ (مسلم)
رمی جمار کی دعا
منیٰ میں شیطان کو کنکری مارتے وقت یا اس کے بعد دونوں روایتیں ہیں ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا چاہیے۔ رمی جمار سے فارغ ہوکر یہ دعا پڑھنی چاہیے۔
اللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ حَجًّا مَبْرُورًا وَذَنْبًا مَغْفُورًا
’’اے اللہ ہمارے حج کو مقبول حج کر اور ہمارے گناہ کو معاف فرما۔‘‘
قربانی کی دعا
جانور کو قبلہ رخ لٹا کر یہ دعا پڑھی جائے۔
اِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ عَلٰی مِلَّۃِ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفاً وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ پھر بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ  
کہہ کر ذبح کرے ۔اگر جانور دوسرے کی طرف سے ذبح کرنا ہو تو اس کا نام لیکر کہے میں نے رخ اس ذات کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیاہے میں ابراہیم کی ملت پر ہوں، یکسو ہوکر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کیلئے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں ہوں۔ اللہ کے نام کے ساتھ ، اللہ سب سے بڑا ہے ، اے اللہ قبول کریہ قربانی فلاں کی طرف سے۔
 احکام وآداب زیارت مدینہ منورہ
مسجد نبوی میں نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کیا جائے تاکہ نبی ﷺ کے اس حکم کی خلاف ورزی نہ ہو جس میں آپ ﷺ نے مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے سوا کسی طرف بغرضِ ثواب رختِ سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری:۱۱۸۹)
مدینہ منورہ پہنچ کر مسجد نبوی میں جائیں ، جہاں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ (بخاری :۱۱۹۰) جبکہ پچاس ہزار نماز کاثواب والی حدیث (ابن ماجہ) ضعیف وناقابل حجت ہے۔
٭ مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہی دعائے دخول اور پھر تحیۃ المسجد پڑھیں اور اگر ممکن ہوتو ’’روضۃ الجنۃ‘‘ میں پڑھیں جو قبرِ شریف کے ساتھ ہی سفید ستونوں والی جگہ ہے اور جسے نبی ﷺ نے ، جنت کا باغیچہ قرار دیاہے۔ (صحیح بخاری :۱۱۹۶،۱۸۸۸) اگر کسی فرض نماز کا وقت ہے تو باجماعت نماز اداکر لیں ۔
٭فرض نماز یاتحیۃ المسجدکی دو رکعتوں کے بعد نبیﷺ کی قبرِمقدس کے پاس جائیں اور یوں سلام کریں :
 اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ
’’اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر سلام ہو۔‘‘
پھر ساتھ ہی سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر پر انہیں یوں سلام کریں۔     ’’ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَا بَکْرٍ‘‘
     اے ابو بکر رضی اللہ عنہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘
اور پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر پر انہیں یوں سلام کہیں۔      اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاعُمَرُ
’’اے عمر رضی اللہ عنہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘ (مؤطا امام مالک)
٭ نبی ﷺ کی آخری آرام گاہ کے درودیوار یا جالیوں اور پوری مسجد نبوی کے کسی بھی حصہ کو تبرک کی نیت سے چھونا، پھر ہاتھوں کو چہرے اور سینے پر پھیرنا اور چومنا ثابت نہیںہے۔ امام غزالی ، ابن تیمیہ، امام نووی، ابن قدامہ، ملا علی قاری ، شیخ عبد الحق حنفی دہلوی اور مولانا احمد رضا خان(بریلوی) رحمہم اللہ نے بھی ان امور کو ممنوع قرار دیا ہے۔ (احیاء علوم الدین از غزالی ۱/۲۴۴)
٭ قبر شریف کے پاس شور پیدا کرنا یا طویل عرصہ تک رک کر شور کا باعث بننا بھی درست نہیں کیونکہ یہ ادب گاہِ عالم ہے اور یہاں آوازوں کو پست رکھنا ضروری ہے۔(الحجرات:۲)
صلوٰۃ وسلام سے فارغ ہوجائیں تو قبلہ رو ہوکر دعائیں مانگیں نہ کہ قبر شریف کی طرف منہ کرکے۔(التحقیق والایضاح ص/۴۳)
٭ حرم مکی کی طرح ہی مسجد نبوی سے بھی الٹے پاؤں نکلنا ایک خود ساختہ فعل ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیںہے۔ (مناسک الحج والعمرۃ ص/۴۳)
٭ قیام مدینہ منورہ کے دوران کسی بھی وقت اقامت گاہ سے وضو کرکے جائیں اور مسجد قبا میں دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اس کا ثواب پورے عمرے کے برابر ہے۔ (نسائی ۲/۳۶)
مسجد قبا کی زیارت سنتِ رسول  ﷺ ہے ۔
(صحیح مسلم۹ـ/۱۶۹،۱۷۰)
٭ بقیع الغرقد (جنت البقیع) کی زیارت کر سکتے ہیں اور وہاں عام قبرستان کی زیارت والی دعا کریں اور ان الفاظ کا اضافہ کردیں ۔ ’’اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِاَہْلِ بَقِیْعِ الْغَرْقِدِ‘‘ ’’اے اللہ! اس بقیع غرقد کے آسودگانِ خاک کی مغفرت فرما دے۔‘‘
٭ شہدائے احد کی زیارت بھی جائزہے اور وہاں بھی عام زیارت قبور والی دعا کریں۔
٭ مدینہ منورہ میں جتنا بھی قیام ممکن ہو جائز ہے ۔ چالیس نمازیں پوری کرنے کیلئے ہفتہ بھر رکنا کوئی شرط نہیں، کیونکہ اس موضوع پر بیان کی جانے والی مسند احمد وطبرانی اوسط والی روایت ضعیف وناقابلِ استدلال ہے۔ (سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ للألبانی ۱/۳۶۶)
٭دورانِ حج اگر کوئی شخص مقصد بنائے بغیر ضمنی طور پر کوئی تجارت یا مزدوری کرنا چاہے تو یہ جائز ہے۔ (البقرۃ:۱۹۸، الحج:۳۸، صحیح بخاری حدیث نمبر :۱۷۷)
البتہ اس میں غیر قانونی اشیاء غیر قانونی طریقوں سے لانا، ان کا کاروبار کرنا اور کسٹم میں دھوکا دہی کرنا جوکہ عام حالات میں بھی روا نہیں، وہ حجاج کیلئے بھی جائز نہیں، ان سے بچیں۔ (جدید فقہی مسائل ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ص:۱۳۰،۱۳۱)
٭ مکہ مکرمہ کا اصل تحفہ آبِ زمزم اور مدینہ منورہ کا مبارک ہدیہ عجوہ کھجور ہے کیونکہ آبِ زمزم ہرغرض ومرض کیلئے مفید ہے۔ (مسند احمد ۲/۳۰۵،۳۵۶) یہ کھانے کا کھانا ۔ (صحیح مسلم۲/۱۴) اور بیماری کی دوا ہے۔(مسند احمد ۲/۳۰۱،۳۰۵) اور عجوہ کھجور کے سات دانے صبح کھالیں تو اس دن زہر اور سحر(جادو) اثر نہیں کرتا۔ (بخاری :۵۴۴۵) یہ شفا اور زہر کا تریاق ہے۔ (صحیح مسلم۳/۱۴)
یہ جنت کا پھل ہے۔ (ترمذی:۲۰۶۸)
٭ سفر چاہے کتنا ہی آرام دہ کیوں نہ ہو ، یہ عذاب کا ایک ٹکڑا ہے ، لہذا کوئی شخص جب اپنا کام مکمل کرلے تو جلد اپنے اہل وعیال میں لوٹ جائے۔ (بخاری :۱۸۰۴)  حاجی کا حج سے فارغ ہوکر اپنے اہل وعیال میں جلد لوٹ جانا ہی زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (دار قطنی ۲/۳۰۰)
٭ جب واپسی کا سفر اختیار کریں تو سواری پر بیٹھنے، راستے میں قیام کرنے ، شہروں کو دیکھنے، اونچائی پر چڑھنے اور زیریں جانب اترنے وغیرہ کی دعائیں کرتے آئیں اور جب اپنا شہر نظر آجائے تو یہ دعا کریں۔
آئِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ(بخاری :۲۹۸۱،۱۷۹۷)
’’ہم تو تائب ہوکر ، سجدہ وعبادت گزاری کا عہد کرکے لوٹ آئے ہیں، اور اپنے رب کی تعریفیں کرتے ہیں۔‘‘
٭ اور اپنے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ممکن ہوتو مسجد میں جاکر دو رکعت نماز پڑھ لیں۔ (بخاری ومسلم) اور پھر یہ دعا کرتے ہوئے اپنے گھر داخل ہو جائیں۔
اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْئَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلَجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ ، بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا وَعَلَی رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا(ابو داؤد)
’’اے اللہ ! میں تجھ سے داخل ہونے ، اور نکلنے کی جگہوں کی بھلائی کا سوال کرتاہوں، تیرا نام لیکر ہم یہاں سے نکلے تھے اور اے ہمارے رب! تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے۔‘‘
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس مقدس سفر میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

Read more...

فریضہ ٔحج اوراس کے ثمرات

25 Oct,2015

دین اسلام کی تمام عبادات میں اللہ تعالی نے ایسے فوائد اور حکمتیں رکھی ہیں ۔ جن کاہمیں کما حقہ تمام زندگی میں ادراک نہیں ہوسکتا ہماری دنیاوی واخروی کامیابی کا راز صرف سی میں مضمر ہے کہ ہم ہر حال میں اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن بیت اللہ کا حج کرنا بھی ہے ارشاد رباني هے
 وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا  ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ
صاحب حيثيت لوگوںپر بیت اللہ کا حج فرض ہے اور جو کوئی انکار کرے گا تواللہ تعالیٰ جہان والوں سے بے پروا ہے ۔(سورۃ آل عمران : 97)
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
’’یقیناً اللہ کریم نے تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم حج کرو‘‘(صحیح مسلم شریف)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:
’’اے لوگو! تم پر حج فرضا کیا گیا ہے تم حج کرو ایک آدمی نے تین مرتبہ عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہر سال فرض ہے؟ آپ ﷺ تین مرتبہ ہی خاموش رہے پھر آپ ﷺ نے فرمایا اگر میں ہاں کہتا تو ہر سال فرض ہوجاتا تو تم اس کی طاقت نہ رکھتے‘‘ (صحیح مسلم)
ابو داؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ حج فرض ہے لیکن ایک سے زیادہ نفل ہے۔ حدیث قدسی میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایک بندے کو میں جسمانی صحت بخشوں اور مالی وسعت بخشوں پھر وہ چار سال بعد حج نہ کرے تو وہ محروم شخص ہے۔(معجم طبرانی ، صفحہ نمبر 300 ، مجمع الزوائد ج:3،صفحہ:306)
نبی کریم ﷺ سے سوال کیاگیا کہ کونسا عمل افضل ہے آپ نے فرمایا :’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لانا کہاگیا اس کے بعد کونسا عمل؟ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کہا گیا اس کے بعد ؟ فرمایا حج مبرور ‘‘(بخاری)
حج مبرور سے مراد جو اللہ تعالی اور نبی کریمﷺ کی اطاعت میں ہو۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :’’جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے حج کیا اس میں کوئی فحش کام اور کوئی برا کام نہ کیا تو وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک صاف ہوجاتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا‘‘ (بخاری)
دوسری حدیث میں فرمایا:’’ حج ان تمام گناہوں کو  معاف کر دیتا ہے جو پہلے سے سرزد ہوگئے تھے‘‘(صحیح مسلم)
تیسری حدیث میں یوں ہے کہ:’’ ہر کمزور کا جہاد حج ہے یعنی حج کرنے سے جہاد کا ثواب ملتاہے‘‘(مسند احمد)
چوتھی حدیث میں ہے کہ :’’بوڑھے کمزور اور عورت کا جہاد حج اور عمرہ کرناہے‘‘(نسائی)
پانچویں حدیث میں یوں ہے کہ:’’ حج مبرور کا بدلہ جنت ہی ہے‘‘(بخاری)
چھٹی حدیث میں ہے کہ :’’رمضان المبارک میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ‘‘ (صحیح بخاری)
مسند احمد میں ہے کہ:’’ فریضہ حج کی ادائیگی میں جلدی کرو اس لیے کہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا کہ اسے کب کوئی بیماری یا شدید ضرورت اسے روک لے ‘‘ یادرہے کہ جمہور علماء کے نزدیک 9 ہجری میں حج فرض ہوا۔ ارشاد نبویﷺ ہے صاحب استطاعت بغیر شرعی عذر کے حج کیے بغیر مر جائے تو وہ خواہ یہودی ہوکر مرے خواہ عیسائی ہوکر مرے۔باقی عبادات کی طرح حج کا بنیادی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ انسان کی زندگی میں حج کی ادائیگی کے بعد روحانی اور عملی طور پر انقلاب پیدا ہو حاجی عام لوگوں کی نسبت اعمال صالح میں حریص ہو اور گناہوں سے اپنے دامن محفوظ رکھے۔ سفر حج کا مقصد سیر وسیاحت نہیں ،ریاکاری دکھاوا نہیں، تجارت نہیں صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت اور اس کی رضا جوئی ہے۔ حج کیا ہے؟ دیوانہ وار،اطاعت وفرمانبرداری کا نمونہ، خلوص ومحبت، تسلیم ورضا، وطن سے بے وطن ہونے کا اسی طرح مظاہرہ ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے لخت جگر سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور ان کی فرمانبردار اہلیہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام نے کیا تھا۔ حج بیت اللہ کا پہلا اور ابتدائی سبق بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کا ہر عمل صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے خالص ہوجائے۔ ان کا سفر ،ان کی محبت ، ان کا مال خرچ کرنا، ان کی زندگیوں اور معاملات کا رخ سب کا سب اللہ کریم کی طرف ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہو، کوئی طاغوت، کوئی طاغوتی طاقت ان کا مقصود نہ ہو۔ دنیا ان کا مطلوب ومقصود نہ ہو۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (سورۃ الانعام : 162)
’’کہو! میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے ‘‘
نبی کریم ﷺ کا ترمذی شریف میں ارشاد گرامی ہے :
’’حج وعمرہ ،فقیری ، محتاجی اور گناہوں کی سیاہی کو دور کر دیتے ہیں۔ جس طرح بھٹی لوہے ،سونے اور چاندی کی ملاوٹ اور میل کچیل کو دور کر دیتی ہے‘‘ (الترغیب والترہیب ج:1،ص:180 میں ارشاد گرامی ہے کہ یعنی حج وعمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں وہ جو سوال کریں اللہ عطا کرتا ہے جو دعا کریں اللہ تعالیٰ سنتا اور قبول فرماتاہے اور حاجی جو خرچ کریں اللہ کریم ایک درہم کے بدلے دس درہم عطا فرماتے ہیں ۔ حج یا عمرہ کیلئے جانے والے شخص سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ  نے فرمایا :
’’پیارے چھوٹے بھائی! اپنی دعا میں مجھے نہ بھولنا‘‘(بخاری)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’کہ ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان کے گناہوں کو مٹا دیتاہے‘‘(ترمذی)
یادرکھیں ! حج کے موقع پر دنیا بھر سے آئے ہوئے امت مسلمہ کے افراد ایک لباس، ایک زبان ، ایک جگہ ، ایک مرکز اسلام میں ایک اللہ تعالیٰ کو ہی ان الفاظ کی ادائیگی کے ساتھ پکارتے ہیں۔
’’حاضرہوں اے اللہ میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں یقیناً شکر وتعریف تیر ے ہی لیے ہے نعمتیں سب تیری ہیں اور فرمانبرداری بھی تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں‘‘(بخاری)
یہ لبیک دراصل اللہ تعالیٰ کی پکار کا جواب ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حج کا اعلان کرنے کا حکم دیا۔
وَاَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَاْتُوْكَ رِجَالًا وَّعَلٰي كُلِّ ضَامِرٍ يَّاْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيْقٍ (حج:27)
’’اور لوگوں کو حج کے لیے اذان عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دروازہ قیام،مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار آئیں‘‘
اس ندائے ابراہیمی کے جواب میں ہر طرف سے لبیک لبیک کی صدا بلند ہونے لگتی ہے تو ایسا روح پرورماحول بن جاتاہے کہ شجر وحجر بھی گویا اس صدا کو بلند کرنے میں۔ ہمنواہیں جیسا کہ حدیث میں مروی ہے سیدنا سہل بن سعدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب کوئی مسلمان لبیک کہتاتو اس کے دائیں اور بائیں جس قدر پتھر درخت اور ڈھیلے ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہنے لگتے ہیں یہاں تک کہ زمین کا پورا خطہ لبیک کی صدا سے گونج اٹھتا ہے۔ بیت اللہ شریف دراصل توحید وسنت کا مرکز ہے یہاں پہنچ کر شرک وبدعات اور رسوم کے خاتمے کا سبق ملتاہے۔ جیسا کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت فرمایا تھا۔
’’اے حجراسود میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہ کو نہ دیکھا ہوتا کہ تجھ کو بوسہ دیتے ہوئے تو میں تجھ کو ہرگز بوسہ نہ دیتا‘‘(بخاری ومسلم)
توحید کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر قسم کی عبادت کے لائق ہے خواہ وہ عبادت قولی یا فعلی اس کی ذات وصفات میں اس کے حقوق واختیارات میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ۔
قسمتیں بنانا اور بگاڑنا تنہا اسی کاکام ہے وہی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتاہے۔ اور اسی کو مدد کے لیے پکارنا برحق ہے۔ حکم دینا اور قانون بنانے کا اختیار بھی اسی کو ہے اس کا ہر حکم اور قانون ہمارے لیے واجب التسلیم ہے بندگی اسی کی ہونی چاہیے جو کسی کا محتاج نہیں تمام مخلوقات اس اکیلی ذات کی ہی محتاج ہیں اگر حجاج نے فلسفہ توحید کو مرکز اسلام سے حاصل کرکے اس پر پوری زندگی کاربند رہے تو پھر یقیناً ایسے حجاج نے اپنی اپنی منزل کو حاصل کر لیا۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قسمت میں بھی یہ عظیم سعادت نصیب کرے ۔ آمین
ٌٌٌ.........
بقیہ: تبصرئہ کتب
جن میں سولہ ذرائع : تقریر،تصنیف،پمفلٹ اور بروشر،ریڈیائی نشریات، ٹی۔وی چینلز ،رسائل وجرائد ،درس اور لیکچر دینا،کانفرنس ، سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد ،آڈیو ویڈیو کیسٹس، چارٹ اورپینافلیکس،بحث ومباحثہ اور مناظرہ،مباہلہ ، انٹرنیٹ، ڈرامہ اسٹیج کرنا اور تصویر کے استعمال پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
اس کتاب کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں :
۱۔ اردو زبان میں پہلی مرتبہ موضوعِ دعوت کے جملہ مباحث کا احاطہ ۔
۲۔علمی مواد بنیادی مصادر ومراجع سے لیا گیاہے ۔
۳۔ اس موضوع پر تحقیق کے دوران شرعی نصوص سے راہنمائی لی گئی ہے۔
۴۔ بیان کردہ ہر اصول کے لیے عملی مثالیں ذکر کرنے پر زور دیاگیاہے تاکہ مدعا ومقصود بھی واضح ہوجائے اور اصول وضوابط بھی مدلل ہوجائیں۔
۵۔ کتاب کا اسلوب عام فہم اور پیچیدگی سے بالاتر ہےتاکہ مضمون کو سمجھنا،سمجھانا اور عملی طور پر اپنانا آسان ہو۔
۶۔ احادیث وآثار کی تخریج میں صحت واستناد کا لحاظ رکھا گیاہے۔
۷۔ موضوع سے ہم آہنگ اور دیدہ زیب سرورق۔
الغرض صاحب کتاب نے اصول دعوت کو مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے اور اس میں راہ اعتدال پر رہتے ہوئے منہج سلف کو ترجیح دی ہے۔
اس عظیم الشان علمی خدمت پر مصنف ومترجم مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مترجم کو صحت وایمان والی زندگی عطا فرمائے تاکہ وہ شائقین مطالعہ کے لیے ایسے ہی گوہر ہائے تاباں کو منصہ شہود پر لاتے رہیں۔ آمین
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد

Read more...

آپ حج کیسے کریں؟

15 Oct,2012

حج کیلئے نکلنے سے قبل کے آداب :

1 : حلال کمائی کا اہتمام :

إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لاَ يَقْبَلُ إِلَّاطَيِّبًا ۔

اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزہ ہی چیز کو قبول فرماتا ہے۔{صحیح مسلم : 1015 }

2 : سابقہ گناہوں سے توبہ اور حقوق العبادسے چھٹکارا ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

وَتُوبُوا إِلَى اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔{النور :31}

اے مومنو! تم سب کے سب اللہ تعالی سے توبہ کرو تا کہ کامیاب ہو جاؤ ۔

عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النَّبِىِّ -صلى الله عليه وسلم- حَاجًّا فَكَانَ النَّاسُ يَأْتُونَهُ فَمَنْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ سَعَيْتُ قَبْلَ أَنْ أَطُوفَ أَوْ قَدَّمْتُ شَيْئًا أَوْ أَخَّرْتُ شَيْئًا۔ فَكَانَ يَقُولُ لاَ حَرَجَ لاَ حَرَجَ إِلَّاعَلَى رَجُلٍ اقْتَرَضَ عِرْضَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ وَهُوَ ظَالِمٌ فَذَلِكَ الَّذِى حَرِجَ وَهَلَكَ

سیدنااسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیلئے روانہ ہوا ، چنانچہ لوگ آپ کے پاس آتے تھے تو جس نے بھی کہا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے طواف سے پہلے سعی کرلی ہے ، یا کوئی کام پہلے کر لیا ہے یا موخرکردیا ہے تو آپ فرماتے تھے :کوئی حرج نہیں ، کوئی حرج نہیں ، ہاں مگر جو شخص کسی مسلمان کی عزت ریزی کرے {غیبت کرے ، طعن وتشنیع کرے }تو وہی شخص حرج میں پڑا اور ہلاک ہو ۔ {ابوداود :2015 ا ، ابن خزیمہ : 2774}

3 : اچھے ساتھیوں کی تلاش :

عَنْ أَبِى سَعِيدٍ عَنِ النَّبِىِّ -ﷺ- قَالَ لاَ تُصَاحِبْ إِلَّامُؤْمِنًا وَلاَ يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّاتَقِىٌّ ۔

سیدناابو سعید خدری سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :صرف مومن آدمی کا ساتھ کرو اور تیرا کھانا بھی کوئی متقی آدمی ہی کھائے {سنن ابو داود:4832}

4 : نیت صادقہ اوراخلاص :

مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ()أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلَّاالنَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُواْ فِيهَا وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ (ھود16,15)

جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا کوئی چیز نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کئے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے، سب ضائع۔

5 : حج کا طریقہ سیکھئے:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر حج سے قبل مسجد نبوی میں ایک خطبہ دیا اور حج کے بارے میں ہدایات فرمائی ۔ {صفہ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم للالبانی ص46 }

عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : أَفَاضَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ ، وَأَمَرَنَا بِالسَّكِينَةِ ، ثُمَّ قَالَ : خُذُوا مَنَاسِكَكُمْ لَعَلِّي لاَ أَلْقَاكُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا ۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرفات سے روانہ ہوئے تو آپ پر اطمینان وسکون کی کیفیت تھی، پھر آپ نے فرمایا :مجھ سے اپنے حج وعبادت کا طریقہ سیکھ لو شاید اس سال کے بعد تم لوگوں سے میری ملاقات نہ ہو سکے ۔{سنن ابن ماجہ :3023}

6 : اہل خانہ کو تقوی اور دین داری کی وصیت کرے :

اور اسکے اوپر کسی کا قرض ہے یا اسکا کسی پر قرض ہے تو اسے لکھ کر رکھ دے ۔

سفر کی ابتدا :

1 : سفر حج سے قبل کی جو بد عات ہمارے یہاں ایجاد ہیں ان سے پر ہیز کریں جیسے حاجیوں کو رخصت کرتے ہوئے جلوس لیکر چلنا ، انھیں پھولوں کا ہار پیش کرنا ، عورتوں کا غیر محرم مردوں کےساتھ حج کیلئے نکلنا ، فرضی نکاح پڑھانا ، حج کے سفر میں انبیاء وصالحین کی قبروں کی زیارت کوشامل کرنا وغیرہ ۔

2 : دعائے سفر کا اہتمام جیسے :

سیدنا عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر قدم رکھتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے پھر یہ دعا پڑھتے :

سُبْحَانَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِى سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِى السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِى الأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ » اور جب سفر سے واپس ہوتے اس دعا کو پڑھتے اورمزید کہتے : « آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ »۔{صحیح مسلم : 1342}

بلندی پر چڑھتے اور بلندی سے اتر تے وقت اللہ اکبر اور سبحان اللہ کہے

سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کو سفر کیلئے رخصت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم تمہیں اللہ تعالی سے ڈرنے اور بلندی پر چڑھتے ہوئے تکبیر کہنے کی وصیت کرتے ہیں۔

{ احمد 2/ص325 ، الترمذی ، ابن ماجہ عن ابی ھریرہ }

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم جب بلندی پر چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور جب نیچے اتر تے تو سبحان اللہ کہتے ،

کسی جگہ پرپڑاؤ کرتے وقت یہ دعا پڑھیں :

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شاد فرمایا :

مَنْ نَزَلَ مَنْزِلاً ثُمَّ قَالَ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ۔ لَمْ يَضُرُّهُ شَىْءٌ حَتَّى يَرْتَحِلَ مِنْ مَنْزِلِهِ ذَلِكَ ۔

جو شخص کسی جگہ پر اترے اور یہ دعا پڑھ لے تو اس جگہ جب تک ٹھہرارہے گا کوئی چیز تکلیف نہ دے گی ،

{ مسلم :2708، بروایت خولۃ بنت حکیم}

3 : کسی کو اپنا امیر بنا لے :

إِذَا كَانَ ثَلاَثَةٌ فِى سَفَرٍ فَلْيُؤَمِّرُوا أَحَدَهُمْ

{ابو داود، 2607 بروایت ابوہریرۃ }

جب تین آدمی کسی سفر میں نکلیں تو اپنے میں سے کسی ایک آدمی کو اپنا امیر بنالیں ۔

4 : اپنے ساتھ بعض کتابچے ، کیسٹیں ، اور کچھ مفید چیزیں رکھ لیں ، اہل علم کا ٹیلیفون نمبر اپنے ساتھ رکھنا نہ بھولیں ۔

میقات پر :

میقات کیا ہے ؟ میقات کے لغوی معنی ہیں کسی عمل کیلئے کوئی متعین جگہ یا وقت معین ،

شرعی اصطلاح کے لحاظ سےمیقات دوطرح کی ہیں [1]میقات زمانی [2]میقات مکانی ،

میقات زمانی یعنی وہ وقت جسمیں حج کا احرام باندھا جاسکتا ہے اور وہ تین مہینے ہیں ۔ شوال ۔ ذی القعدۃ ۔ اور ذی الحجہ کے دس دن ۔

میقات مکانی وہ جگہیں ہیں کہ حج وعمرے کا ارادہ کرنے والے کے لئے وہاں سے آگے بغیر احرام باندھے گزرنا جائز نہیں ہے ۔

سیدنا جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : اہل مدینہ کے احرام باندھنے کی جگہ ذوالحلیفہ {ابیار علی } ہے دوسرے راستے {شام } سے آنے والوں کے احرام کی جگہ جحفہ {رابغ} ہے ، اہل عراق کے احرام باندھنے کی جگہ ذات عرق{الضریبہ}ہے ، اہل نجد کے احرام باندھنے کی جگہ قرن المنازل {سیل کبیر} ہے اور اہل یمن کے احرام باندھنے کی جگہ یلملم {سعدیہ} ہے ،{صحیح مسلم :1183 الحج} ۔ نیز فرمایا : جو شخص ان جگہوں کے اندر ہے اسکے احرام باندھنے کی جگہ اسکا گھر ہے حتی کہ اہل مکہ اپنے گھر سے احرام باندھیں گے ،{بخاری :1524 الحج ،مسلم : 1181 الحج }

میقات پر اعمال :

1: غسل کرنا ، سلے ہوئے کپڑوں کو اتاردینااور غیر ضروری بالوں وناخنوں کاکاٹنا ۔

سیدنا زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے احرام باندھنے کیلئے اپنے {سلے ہوئے } کپڑے اتارے اور غسل فر مایا۔ {سنن الترمذی : 830}

{واضح رہے کہ ناخن اور بال وغیرہ کا کاٹنا احرام کیلئے سنت نہیں ہے لیکن چونکہ پہلے زمانے میں حالت احرام میں کئی کئی ہفتوں تک رہنا پڑتا تھا اسلئے علماء نے اسے مستحب کہا ہے لیکن آج کل اسکی ضرورت نہیں ہے ،واللہ اعلم}

2: دوچادروں میں احرام باندھے بہتر ہے کہ سفید ہوں ،

حدیث میں ہے :

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے کنگھی کیا ، تیل لگا یا ، احرام کےلئے چادر اورتہبند پہنا پھر مدینہ منورہ سے روانہ ہوگئے ۔{البخاری }

3: خوشبو وغیرہ کا استعمال کرسکتا ہے بشرطیکہ خوشبواحرام کے کپڑوں پر نہ لگائے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :

كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه و سلم لإحرامه قبل ان يحرم ولحله قبل ان يطوف بالبيت ۔۔

میں رسول اللہ ﷺکو خوش بو لگا تی تھی آپ کے احرام کیلئے احرام باندھنے سے قبل اور آپ کے حلال ہونے کیلئے طواف افاضہ سے قبل ۔{صحیح البخاری : 539 الحج }

4: اگر طبعی امور کی شکار عورتیں ہیں(یعنی حیض اور نفاس) تو انکے لئے غسل کرنا ضروریہے ۔

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

جب ہم ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں سیدہ اسماء بنت عمیس نے محمد بن ابو بکر کو جنم دیا ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوال کرنے کیلئے بھیجا کہ اب ہم کیا کریں ؟ آپ نے فر مایا نہا کر کسی کپڑے کا لنگوٹ کس لو اور احرام باندھ لو ۔{صحیح مسلم :1281 }

5 : اگر کسی نماز کاوقت ہے تو وہ نمازپڑھے ،ورنہ تحیۃ الوضوء کی نیت سے دورکعت نفل پڑھے ۔

6 : نماز سے فارغ ہونے کے بعد یاسوا ری پر بیٹھ کر احرام میں داخل ہونے کی نیت کرے اور جس قسم کا حج کر نا چاہتا ہے اسکا تلبیہ پکارے۔

میقات سے رخصتی :

خضوع و خشوع اور سکینت ووقار سےتلبیہ پکارتے ہوئے مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہو اور راستے میں برابر تلبیہ پڑھتا رہے ۔ایک حدیث میں ہے :

جب بھی کوئی مسلمان تلبیہ پڑھتا ہے تو اسکے دائیں اور بائیں جو پتھر ، درخت اور مٹی ہوتے ہیں وہ تلبیہ پڑھنا شروع کردیتے ہیں حتی کہ اس طرف اور اس طرف سے زمین کے آخر تک پہنچ جاتے ہیں ۔{سنن التر مذی}

ایک اورحدیث میں ہے :

أتاني جبريل فأمرني أن آمر أصحابي أن يرفعوا أصواتهم بالإهلال والتلبية{ سنن ابوداود ، سنن الترمذی } وفی روایۃعند ابن ماجہ عن زید بن خالد}۔۔۔۔فانہامن شعار الحج ۔

میرے پاس حضرت جبریل تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دے دوں کہ وہ تلبیہ پڑھتے وقت اپنی آواز کو بلند کریں کیونکہ یہ حج کا شعار ہے ۔

مکہ میں داخلہ:

1: اگر مکہ میں داخلہ سے قبل رات گزارنے کا موقعہ مل جائے اور میسر ہو تو مکہ مکرمہ داخل ہونے سے قبل غسل کرے ،جیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہماکا عمل تھا اور وہ بیان کرتے تھے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا۔{ صحیح بخاری ومسلم }

طواف :

2: سیدھے مسجد حرام جائے ،عام مساجدمیں داخلےکے آداب کو یہاں بھی ملحوظ رکھے ۔

3: مسجد حرام میں داخلے کیلئے کوئی خاص دعا نہیں ہے ، عام مساجد میں داخلے کی دعاہی یہاں پڑھی جائے ۔

بسم الله والصلاة والسلام على رسول الله اللَّهُمَّ افْتَحْ لِى أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ۔

4: حجر اسود کے پاس پہنچ کر تلبیہ بند کر دے اور اضطباع کر لے ، شرط یہ ہے کہ طواف شروع کرنے سے قبل باوضوہو،

5: حجر اسود کو چومنا ، چھونا اور اشارہ کرنا جو بھی ممکن ہو کرے اور بِسْمِ اللهِ اللَّهُ أَكْبَرُ ، کہکر طواف شروع کرے ۔

6: اس طواف کے تین چکروں میں رمل کرے ۔

7: ہر چکر میں رکن یمانی کو چھوئے اور اگر ممکن نہ ہو تو اشارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ویسے ہی آگے بڑھ جائے ۔

8: رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان میں۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔پڑھے۔

9: ہر چکر کیلئے الگ الگ دعا خاص کرنا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ ، اور ائمہ کرام سے ثابت نہیں ہے ۔

10: سات چکر پورے کر لینے کے بعد اپنے کندھے کو ڈھک لے ۔

11: پھر مقام ابراہیم کے پاس جا کر اسکے پیچھے دورکعت نماز پڑھے ، پہلی رکعت میں سورہٴ کافرون اور دوسری میں سورہٴ اخلاص پڑھے{مسلم /1218}

12: پھر حجر اسود کا استلام کرے اور اگر ممکن نہ ہو تو صرف اشارہ کرکے صفا کی طرف روانہ ہو جائے ۔

اس طواف کی بڑی فضیلت وارد ہے :

إن استلامهما يحط الخطايا قال وسمعته يقول من طاف أسبوعا يحصيه وصلى ركعتين كان له كعدل رقبة قال وسمعته يقول ما رفع رجل قدما ولا وضعها الا كتبت له عشر حسنات وحط عنه عشر سيئات ورفع له عشر درجات ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس شخص نے شمار کر کے سات چکر طواف کیا اور اسکے بعد دورکعت نماز پڑھی تو اسے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا ۔

ایک اور حدیث میں ہے طواف کرتے وقت بندہ جو قدم بھی اٹھا تا اور رکھتا ہے تو ہر قدم پر دس نیکیاں ملتی ہیں، دس گناہ معاف ہوتے ہیں اور دس درجے بلند ہوتے ہیں۔{مسند احمد }

صفا ومروہ کی سعی :

صفا خانہ کعبہ سے جنوب شرق میں ہے اور مروہ شمال میں۔

1 :جب صفا پہاڑی دیکھائی دےتو یہ آیت پڑھے :

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ

اور کہے

أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ ۔{مسلم}

یعنی میں بھی اپنی سعی کی ابتدا اس سے کرتا ہو ں جسکا ذکر اللہ تعالی نے پہلے کیا ہے ۔

2 : صفا پرچڑھ جائے اور کعبہ کی طرف رخ کرے

3 : ہاتھوں کو اٹھاکراللہ اکبر کہے اور یہ ذکر پڑھے ۔

لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كَلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ۔{مسلم}

4 : پھر دعا کرے اسکے بعد پھر وہی ذکر پڑھے اور دعا کرے اس طرح تین بار کرے ۔

5 : دعا سے فارغ ہوکر دائیں جانب سے مروہ کی طرف چلے ۔

6 : جب راستے میں سبزنشان نظر آجائے تو ہلکی سی دوڑلگائے یہاں تک کہ دوسرے سبز نشان تک پہنچ جائے۔

7 : اسکے بعد ہلکی چال چلتا ہوا مروہ تک پہنچ جائے {سعی کے دوران کوئی خاص ذکر و دعا اللہ کے رسول سے ثابت نہیں ہے البتہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ یہ دعا کثرت سے پڑھتے}:

رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وتجاوز عما تعلم انك َأَنْتَ الْأَعَزُّ الْأَكْرَمُ {اخبار مکہ للفاکہی}

8 : مروہ پرچڑھنے کے بعد وہی ذکر ودعا کرے جو صفا پر کیا تھا البتہ آیت کا ٹکڑا نہیں پڑھے گا۔

9 : اسطرح ایک چکر پورا ہوگیا۔

10 : اسی طرح جب صفا پر دوبارہ واپس آئے تو دوسرا چکر پورا ہو گیا۔

11 : اسطرح آتے جاتے مروہ پر سات چکر پورے ہوجائیں گے ۔

12 : اب عمرہ کرنے والا اور حج تمتع کرنے والا اپنا بال کٹا کر یا مونڈوا کر حلال ہو جائے ۔ اگر حج میں کم ہی وقت ہے جیسے آج کل تو قصر ہی افضل ہے ۔

13 : اب اسکے لئے ہر وہ چیز حلال ہو گئی جو حالت احرام میں حرام تھی ۔

اس سعی کی بڑی فضیلت وارد ہے ارشاد نبوی ہے :

اور حج میں تمہارا صفا و مروہ کی سعی کرنا ستر غلام آزاد کرنے کے برابر ہے ۔{ الطبرانی الکبیر والبزار عن ابن عمر }

حج کیلئے احرام و اعمال حج :

آٹھویں ذی الحجہ کے کام

1 : جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں وہیں سے احرام باندھنا اور تلبیہ پکارنا ۔{اس احرام کے وقت بھی وہی کام مسنون ہیں جو میقات پر احرام باندھتے وقت مسنون ہیں جیسے غسل کرنا خوشبو لگا نا وغیرہ} ۔

2 : احرام باندھ کر سیدھے منی جائے

3 : منی میں پانچ وقت نماز پڑھنا اور اس مدت میں منی ہی ٹھہرے رہنا مسنون ہے ، یعنی ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا اور نویں تاریخ کی فجر ۔

4 : یہ نمازیں اپنے اپنے وقت پر پڑھی جائیں گی اور چار رکعت والی نمازیں قصر کر کے پڑھی جائیں گی ، یہ حکم باہر سے آنے والوں اور مکہ مکرمہ میں مقیم سبھی کیلئے ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہل مکہ نے بھی حج کیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو پوری نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا ۔

نوٹ : واضح رہے کہ منی میں نویں ذی الحجہ کی رات کا قیام واجب نہیں ہے البتہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے لہٰذا اسے چھوڑنا نہیں چاہئے ۔

5 : نویں تا ریخ کی صبح طلوع شمس کے بعد عرفہ کیلئے روانہ ہو ۔{بعض علماء نے اس دن غسل کر نا مستحب لکھا ہے کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سےایسا ہی ثابت ہے }

6 : بہتر یہ ہے کہ اگر گنجائش ہو تو میدان عرفات میں جانے سےقبل مسجد عرفہ میں جائے ان تمام اوقات میں برابر تلبیہ پڑھتا رہے ۔

7 : مسجد میں امام کا خطبہ سنے اور ظہر وعصر کی نماز قصر وجمع کے ساتھ ظہر کے وقت میں پڑھے ۔

8 : اگر مسجد میں جانا مشکل ہو تو اپنے خیمے میں جماعت کے ساتھ ظہر و عصر کی نماز قصر وجمع کے ساتھ پڑھے ، اگر ہو سکے تو وہ تمام لوگ جو مسجد میں نہ جاسکیں اور خطیب کی آواز خیمے تک نہ پہنچ رہی ہو تو ریڈیووغیرہ کے ذریعہ اس کا خطبہ سنیں ۔

9 : نماز ظہر وعصر سے فارغ ہو جانے کے بعد کچھ کھا پی لے ۔

10 : ضروریات سے فارغ ہوکر ذکر و اذکار اور دعا میں مشغول ہوجائے ۔

11 : یہ دن بہت ہی مبارک اور سال کا سب سے افضل دن ہے اسلئے اسے غفلت اور لہو ولعب میں نہیں گزار نا چاہئے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد ہے :

سب سے بہتر ین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے بہتر کلام جو ہم نے اور ہم سے قبل نبیوں نے کہا ہے وہ لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر ہے ۔{ الترمذی 3585}

12 : عرفہ کے میدان میں کہیں بھی ٹھہرا جا سکتا ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جبل رحمت کے پاس ٹھرے تھے اور فرمایا : وقفت ھھنا وعرفۃ کلہا موقف ۔

{مسلم 1218 ، ابوداود ،النسائی عن جابر }

میں یہاں ٹھہرا ہو ں اور پورا عرفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے ۔

13 : مسجد عرفات کا قبلے کی طرف کا بہت بڑا حصہ میدان عرفات سے خارج ہے اسلئے اگر کوئی شخص مسجد میں ٹھہر تا ہے یا مسجد کے مغربی اور شمالی علاقے میں ٹھہر تا ہے تو اسکا حج صحیح نہیں ہے ۔

14 : جبل عرفات جسے جبل رحمت کہتے ہیں اس پر چڑھنا، وہاں نماز پڑھنا وغیرہ بدعت ہے ۔

15 : جب سورج ڈوب جائے تو مغرب کی نماز پڑھے بغیر عرفہ سے واپس ہو ۔

16 : عرفات سے رخصت ہو کر مزدلفہ میں ٹھہرے ۔

17 : واضح رہے کہ مزدلفہ میں ٹھہرنا واجب ہے حتی کہ بعض علماء نے اسے حج کا رکن کہا ہے ،لہذ اسے دھیان میں رکھنا چاہئے ۔

18 : مزدلفہ پہنچ کر سب سے پہلا کام مغرب اور عشاکی نماز ، جمع وقصر سے پڑھنا ہے {بطن محسر کے علاوہ پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے }

19 : ضرورت کے مطابق کچھ کھا پی کر اسی میدان میں آرام کریں اس رات اللہ کے رسوال صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عبادت ثابت نہیں ہے ۔

دسویں ذی الحجہ کے کام :

1 : فجر کی نمازپڑھی جائے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن نماز فجر عام دنوں کے مقابلہ میں پہلے پڑھی تھی ،{بخاری 1682 }

2 : نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر تسبیح و تہلیل اور دعامیں دیر تک مشغول رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر حرام کے پاس جہاں آج مسجد ہے دیر تک کھڑے دعا وغیرہ میں مشغول رہے ۔{مسلم 218 }

3 : حتی کہ بالکل اجالا ہو جائے ۔

4 : جب سورج نکلنے کے قریب ہو تو سورج نکلنے سے قبل منی کیلئے روانہ ہو {جنکے ساتھ عورتیں اور بچے ہوں وہ آدھی رات کے بعد تقریبا ڈیڑھ یا دو بجے مزدلفہ سے منی کیلئے رخصت ہو سکتے ہیں }

5 : رخصتی میں جلد بازی ، تیز رفتاری اور بھیڑ بھاڑ قطعا مناسب نہیں ہے بلکہ تلبیہ اور ذکر الہی میں مشغو رہے ،

فدفع قبل ان تطلع الشمس وعلیہم السکینہ

طلوعِ شمس سے پہلے منیٰ سے سکون و وقار کے ساتھ روانہ ہوئے۔ {احمد ،ابوداود عن جابر }

6 : منٰی پہنچ کر اس دن حاجی کو بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں اس لئے اس دن کا نام ’’یوم الحج الاکبر‘‘ رکھا گیا ہے۔

ا : جمرہٴ عقبی کو کنکری مار نا یہ منی کی طرف سب سے آخری جمرہ اور مکہ کی طرف سے سب سے پہلا جمرہ ہے ،

ب   : قربانی کرنا [اگر بینک میں پیسہ جمع کردیا ہے تو اس کام سے حاجی کو فرصت ہے ]۔

ج : سر منڈانا یا بال کو چھوٹے کرانا : بشرطیکہ پورے سر کے بال چھوٹے کرائے جائیں ، منڈانا افضل ہے کیونکہ اولا اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حلق کا ذکر پہلے کیا ہے ، ثانیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حلق رہا ہے ، ثالثا آپ نے منڈانے والوں کیلئے تین بار دعا کی ہے ۔

د : طواف افاضہ کرنا اور متمتع کےلئے صفا اورمروہ کی سعی کرنا۔

7 : یہ کام جس ترتیب سے لکھے گئے ہیں اس ترتیب سے سنت ہیں البتہ ضرورت وحاجت کے پیش نظر ان اعمال کو آگے پیچھے کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے ،

{حجۃ النبی للالبانی 86،85 ومثلہ عن ابن عمرو فی المتفق علیہ و عند ابی داود من حدیث اسامۃ بن شریک : ابو داود 2015 }

8 : کنکری مارنے کیلئے کنکریاں منی اور مزدلفہ میں کہیں سے بھی لی جاسکتیں ہیں ۔

9 : ان اعمال میں صرف کنکریاں مارنا ایک ایسا عمل ہے جسے یوم النحر کو شام ہونے سے قبل یا بدرجہ مجبوری رات کو بھی مارسکتے ہیں ، باقی دوسرے اعمال ایام تشریق میں سے کسی بھی دن کئے جا سکتے ہیں ۔

10 : دسویں ذ ی الحجہ کو جمرۃ عقبہ کے پاس پہنچے تو تلبیہ کہنا بند کردے ، اب اسکے بعد سے تلبیہ کہنا سنت نہیں ہے بلکہ تکبیر وتہلیل کہنا مشروع ہے ۔

11 : کنکری کا دھونا اور یہ سمجھنا کہ کنکریاں مزدلفہ سے ہی لینا سنت ہے ، صحیح نہیں ہے بلکہ ایسا عقیدہ بدعت ہے ۔

12 : ہر کنکری الگ الگ ماری جائے اور مارتے وقت اللہ اکبر کہاجا تا ہے {بہتر یہ ہے کہ کنکری مارنے کیلئے اسطرح کھڑا ہو کہ خانہ کعبہ بائیں طرف ہو اور منی دائیں طرف }۔

13 : ضروری ہے کہ کنکری حوض میں پڑے ، اگر ستون سے لگ کر باہر آگئی تو وہ کا فی نہیں ہے ۔

14 : دسویں ذی الحجہ کو کنکری مارنے ، سرمنڈوانے اور طواف افاضہ میں کوئی دوکام کرلینے کے بعد تحلل اول حاصل ہو جائیگا اور تینوں کام کرلینے کے بعد حاجی مکمل طور پر حلال ہو جائیگا ۔

15 : حاجی کیلئے سنت ہے کہ ایام تشریق میں دن ورات منی میں گزارے ۔

16 : اگر یہ کام مشکل ہو تو کم ازکم ایام تشریق کی راتیں یا ان کا اکثر حصہ منی میں گزارنا واجب ہے ۔

ایام تشریق کے کام :

1 : منی میں رات گزار نا یا رات کا اکثر حصہ گزار نا ، اگر کہیں جگہ نہ مل سکے تو منی سے قریب تر جگہ میں رات گزار ے ۔

2 : ایام منی میں کنکری مارنا، واضح رہے کہ ایام تشریق میں تینوں جمرات کو کنکریاں ماری جائیں گی ۔

3 : ایام تشریق میں کنکری مارنے کا وقت زوال کےبعد سے شرع ہوتا ہے اور غروب آفتاب بلکہ دوسرے دن فجر تک رہتا ہے ۔

4 : سب سے پہلے جمرۃ صغری { جو مسجد خیف کے قریب ہے } کو سات کنکری ایک ایک کر کے مارے اسطرح کہ شمال کی طرف سے آئے منی بائیں طرف ہو بیت اللہ شریف دائیں طرف اور کنکری مارتے ہوئے کہے اللہ اکبر

5 : کو شش ہو کہ کنکری حوض میں گرے ۔

6 : پھر دائیں طرف ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دیر تک دعا میں مشغول رہے ۔

7 : پھر جمرۃ وسطی کے پاس جائے اور اسے بھی ایک ایک کر کے سات کنکریاں مارے ، اسطرح کہ جنوب کی طرف سے آئے ، منی دائیں جانب ہو اور بیت اللہ بائیں جانب اور کنکری مارتے ہوئے اللہ اکبر کہے ۔

8 : پھر کچھ آگے بڑھ کر جمرۃ وسطی کو اپنے دائیں کرکے قبلہ رخ ہوکر دیرتک دعا میں مشغول رہے ۔

9 :پھر جمرۃ کبری کے پاس آئے اور جنوب کی جانب سے اسے بھی ایک ایک کر کے سات کنکریاں مارے ۔

10 : جمرۃ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد وہاں دعا وغیرہ کیلئے ٹھہرنا نہیں ہے بلکہ واپس ہو جائے ۔

11 : کنکریاں مارتے ہوئے یہ احساس رہنا چاہئے کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اداکر رہے ہیں نہ تو شیطان کو کنکریاں مارر ہے ہیں اور نہ ہی شیطان وہاں موجود ہوتا ہے بلکہ خشوع وخضوع اور سکینت وقارکو مدنظر رکھے ۔

12 : یہی طریقہ بارہویں دن یعنی ایام تشریق کے دوسرے دن بھی ہونا چاہئے ۔

13 : ضروری ہے کنکری مارنے میں ترتیب کو مدنظر رکھا جائے۔

14 : کسی اور کی طرف سے {بشرطیکہ وہ شخص خود کنکری مارنے سے عاجز ہو تو} کنکری ماری جاسکتی ہیں لیکن دوشرطوں کے ساتھ {1} کنکری مارنے والا یعنی وکیل اس سال حج کررہا ہو ۔

{2} پہلے اپنی طرف سی کنکریاں مارے پھر اپنے موکل کی طرف سے اسطرح کہ پہلے اپنی طرف سے جمرۃ اولی کوسات عدد کنکری مارے یعنی سات عدد مارے پھر اسی جگہ سے اپنے موکل کی طرف سے مارے ،یہ ضروری نہیں کہ اپنی طرف سے مکمل کرے پھر نئے سرےسے موکل کی طرف سے کنکری مارنا شروع کرے

{اللجنۃ الدائمۃ ص3592} ۔

حاجی کا آخری کا م :

1 : بارہویں تاریخ کو کنکری مار کر اگر سورج ڈوبنے سے قبل منی سے نکل جائے تو تیسرے یا تیرہویں رات منی میں گزار نا ضروری نہیں ہے ۔

2 : اگر بارہویں ذی الحجہ کو سورج غروب ہو گیا اور منی سے نہیں نکلا تو تیسری رات گزارنا اور تیسرے دن کنکریاں مارنا واجب ہے ۔

3 : اگر نکلنے کیلئے تیار تھا لیکن بھیڑ کی وجہ سے یا ساتھیوں کے انتظا ر میں یا انکے بچھڑجانے کی وجہ سے سورج غروب ہونے سے قبل نہیں نکل سکا تو سورج ڈوبنے کے بعد نکل سکتا ہے ، ایسی صورت میں تیرہویں رات گزارنا واجب نہیں ہے ۔بہر حال سورج غروب ہونے سے پہلے نکلنا افضل ہے۔

4 :مکہ چھوڑنے سے قبل آخری طواف اور اسکے بعد دورکعت نماز جسے طواف وداع کہتے ہیں کرنا واجب ہے۔

5 : ضروری ہے کہ یہ طواف سب سے آخری کام ہو ، اس طواف کے بعد کسی اور کام میں مشغول ہونا جائز نہیں ہے۔

اللہ تعالی مسلمانوں کو سنت کے مطابق حج وعمرہ کی توفیق بخشے اور اسکے حج و عمرہ کو شرف قبولیت بخشے [آمین ]

Read more...

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
صفحہ اول