ارکان حج
1 احرام 2وقوف عرفہ(میدانِ عرفات میں قیام کرنا)
3طواف زیارت4سعی
واجبات حج
1میقات سے احرام باندھنا
2مغرب تک عرفات میں وقوف کرنا
3سورج طلوع ہونے سے تھوڑا پہلے تک رات مزدلفہ میں گزارنا
4ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا
5جمرات کو کنکریاں مارنا
6جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حجامت بنوانا
7طواف وداع کرنا۔
وضاحت :
vحج کا کوئی رکن ادا نہ کرنے سے حج نہیں ہوتا۔
vحج کے واجبات میں سے کوئی واجب ادا نہ کرنے پر ایک قربانی لازم آتی ہے۔
vحج کی سنتوں میں سے کوئی سنت ادا نہ کرنے پر کوئی فدیہ یا گناہ نہیں۔
حج کی شرائط
مردوں کے لئے
nمسلمان ہوناnمالدار ہوناnآزاد ہوناnعاقل ہوناn بالغ ہونا nصحتمند ہوناnراستہ کا پر امن ہوناnحکومت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہونا۔
عورتوں کے لئے
مذکورہ بالا آٹھ(8) شرائط کے علاوہ مزید دو شرطیں یہ ہیں۔1محرم کا ساتھ ہونا 2حالت عدت میں نہ ہونا۔
میقات
میقاتِ مکانی
1آفاقی : یعنی میقات سے باہر مقیم لوگوں کے لئےحج اور عمرہ دونوں کے لئے میقات درج ذیل ہیں۔
c ذی الحلیفۃ: برائے اہل مدینہ
c یلملم: برائے اہل یمن‘ ہندوستان و پاکستان وغیرہ
c جحفہ : برائے اہل مصر و شام
c قرن المنازل یا سیل کبیر : برائے نجدوطائف
c ذات عرق: برائے اہل عراق۔
2اہل حل: یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہنے والے لوگوں کے لئے‘ عمرہ اور حج دونوں کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔
3اہل حرم:یعنی حدود حرم کے اندر مقیم لوگوں کے لئے عمرہ کے لئے حدود حرم سے باہر کوئی جگہ تنعیم یا جعرانہ اور حج کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔
میقات زمانی
b عمرہ کے لئے سارا سال ۔
bحج کے لئے شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ۔ تین ماہ۔
احرام: (عمرہ یا حج ادا کرنے کا لباس)
اقسام احرام
1احرام عمرہ(صرف عمرہ کااحرام باندھنا)
2 احرام حج افراد(صرف حج کا احرام باندھنا)
3احرام حج قران (عمرہ اور حج دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھنا)
4احرام حج تمتع (پہلے عمرہ کا احرام باندھنا‘ پھر ایام حج میں مکہ سے ہی حج کا احرام باندھنا)
مسنون امور
1 غسل کرنا
2مردوں کا احرام پہننے سے پہلے جسم پر خوشبو لگانا
3 دو بغیر سلی چادریں پہننا اور ٹخنوں سے نیچے تک جوتے پہننا
4عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کے الفاظ ادا کرنا
5 تلبیہ پکارنا
6ممکن ہو تو نماز ظہر کے بعد احرام باندھنا۔
مباحات احرام
1غسل کرنا 2سر اور بدن کھجلانا 3مرہم پٹی کروانا‘ ادویات کھانا پینا 4آنکھوں میں سرمہ یا دوا ڈالنا
5 موذی جانور کو مارنا6احرام کی چادریں بدلنا 7انگوٹھی‘ گھڑی‘ عینک‘ پیٹی یا چھتری وغیرہ استعمال کرنا
8بغیر خوشبو والا تیل یا صابن استعمال کرنا9سمندری شکار کرنا 0بچوں یا ملازموں کو تعلیم و تربیت کے لئے مارنا۔
ممنوعات احرام مردوں اور عورتوں‘ دونوں کے لئے
mجماع و متعلقات جماعmلڑائی جھگڑاmتمام گناہ اور نافرمانی کے کامmخوشبو لگانا m نکاح کرنا، کرانا یا پیغام بھجوانا mبال یا ناخن کاٹنا۔mخشکی کا شکار کرنا یاشکاری کی مدد کرنا،m شکار کیا ہوا جانور ذبح کرنا ۔
ممنوعات احرام، صرف مردوں کے لئے
مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل تین امور صرف مردوں کے لئے ممنوع ہیں۔
mسلا ہوا کپڑا پہننا m سر پر ٹوپی یا پگڑی پہننا mموزے یا جرابیں پہننا۔
ممنوعات احرام، صرف عورتوں کے لئے
مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل دو امور صرف خواتین کے لئے منع ہیں۔
mنقاب استعمال کرنا mدستانے پہننا۔
(تفہیم : غیر محارم سے اختلاط کی صورت میں نقاب کی اجازت ہے۔)
طواف:(بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگانا)
اقسام طواف
mطواف قدومmطواف عمرہmطواف زیارت mطواف وداع mنفلی طواف
حج میں واجب طواف کی تعداد
mحج افراد میں دو عدد (طواف زیارت+طواف وداع)
m حج قران میں تین عدد
(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)
mحج تمتع میں تین عدد
(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)
(تفہیم:طواف وداع ان حاجیوں کے لیے ہےجنہوں نے مکہ سے باہر جانا ہے)
احکام طواف
b حالت احرام میں ہونا۔
bباوضو ہونا۔
bحالت اضطباع میں ہونا۔ (صرف طواف عمرہ کے لئے)
bمردوں کا پہلے تین چکروں میں رمل کرنا ۔(صرف طواف عمرہ کے لئے)
b حجر اسود سے حجر اسود تک سات چکر لگانا۔
b حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کرنا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا۔
b حجر اسود کے استلام کے وقت’’بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہنا۔
b رکن یمانی کو چھونا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔
b سات چکر پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرنا۔
b دو رکعت ادا کرنے کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پرڈالنا۔
b صفا اور مروہ پر سعی کے لئے جانے سے قبل حجر اسود کا استلام کرنا۔
مباحات طواف
z بوقت ضرورت بات کرنا z بوقت ضرورت سلسلہ طواف منقطع کرنا zسواری پر طواف کرنا۔
سعی:(صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگانا)
حج میں سعی کی تعداد
b حج افراد میں ایک عدد bحج قران میں دو عدد
b حج تمتع میں دو عدد
احکام سعی
b صفا سے سعی کی ابتداء کرنا
bصفا پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا
b مردوں کا سبز ستونوں کے درمیان تیز تیز چلنا(بیماروں اور بوڑھوں کے علاوہ)
b مروہ پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا
b صفا سے شروع کر کے مروہ پر سات چکر مکمل کرنا۔
مباحات سعی
z بلا وضو سعی کرنا۔z دوران سعی گفتگو کرنا۔
z بوقت ضرورت سعی کا سلسلہ منقطع کرنا
z سواری پر سعی کرنا۔
ایام الحج
8تا# ذی الحجہ
8 ذی الحجہ……یوم الترویہ
1 سورج طلوع ہونے کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنا ۔
2منیٰ میں پانچ نمازیں (ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر) ادا کرنا۔
3منیٰ میں تمام نمازیں قصر ادا کرنا۔
4 بکثرت اوربلند آواز سے تلبیہ کہنا۔
9 ذی الحجہ……یوم عرفہ
1طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سےمیدان عرفات روانہ ہونا۔
2 زوال آفتاب کے بعداگر ممکن ہوتو مسجد نمرہ میں خطبۂ حج سننا‘ ظہر اور عصر کی نماز باجماعت جمعاً وقصراًاداکر نا اگر مسجد نمرہ تک جانا ممکن نہ ہوتو میدان عرفات میں جہاں بھی جگہ ملے دونوں نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرنا-
3 نمازوں کے بعد جبل رحمت کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔
4 غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہونا۔
5 دوران سفر بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا۔
9 ذی الحجہ……مزدلفہ کی رات
1 نماز مغرب اور عشاء مزدلفہ میں باجماعت جمعاً وقصراً ادا کرنا ۔
2 رات سو کر گزارنا۔
3 نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرنا۔معذور لوگ یا عورتیں نماز فجرسے پہلے یا فوراً بعد مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوسکتے ہیں-
4نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے تک مشعر الحرام کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔
5طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے منیٰ روانہ ہونا۔
6 جمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں مزدلفہ سے اکٹھی کی جاسکتی ہیں۔
7دوران سفر تلبیہ کہنا۔
0 ذی الحجہ…یوم نحر
1طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا(یعنی سات کنکریاں مارنا۔
2 رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
3قربانی کرنا۔
4حلق یا تقصیر کرنا۔
5مکہ جا کر طواف زیارت ادا کرنا۔
6 سعی ادا کرنا
7 مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔
!تا# ذی الحجہ… ایام تشریق
1تمام راتیں منیٰ میں گزارنا۔
2جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی زوال آفتاب کے بعد رمی کرنا ۔یعنی سات ‘سات کنکریاں مارنا۔
3بکثرت تکبیر و تہلیل‘ تقدیس و تحمید اور اذکارو وظائف کرنا۔
4 12ذی الحجہ کو واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔
5مکہ واپس آکر اپنے شہر یا ملک رخصت ہونے سے قبل طواف وداع کرنا۔
عمرہ کا مسنون طریقہ
z میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا
z احرام سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
zاحرام باندھنے سے قبل ’’لَبَّیْکَ عُمْرَۃً ‘‘ کے الفاظ سے عمرہ کی نیت کرنا
zاحرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ پکارنا۔
z بیت اللہ شریف کا طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
z طواف شروع کرنے سے پہلے کندھوں والی چادر کا ایک حصہ دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لینا (یعنی حالت اضطباع اختیار کرنا)
z حجر اسود کے استلام (چھونے)سے طواف کا آغاز کرنااگر ممکن ہو۔
ˆ حجر اسود کے استلام کے لئے حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر ممکن ہو تو اس پر پیشانی بھی رکھنا یا ہاتھ سے چھو کر بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کر کے ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اور اشارہ کرتے وقت رفع یدین کی طرح دونوں ہاتھ بلند نہ کرنا۔
z استلام کے وقت’’ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ کہنا۔
z طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کرنا۔
z طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چال چلنا) کرنا اور باقی چار چکروں میں عام چال چلنا۔
z رکن یمانی کو چھو کر بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو پھر اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔
z رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان
رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
پڑھنا اور باقی طواف میں جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔
zایک طواف کے لئے سات چکر پورے کرنا۔
zسات چکر پورے کرنے کے بعد
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی
پڑھتے ہوئے مقام ابراہیم کی طرف آنا اور وہاں (یا جہاں بھی جگہ ملے) دو رکعت نماز ادا کرنا، پہلی رکعت میں قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھنا۔
z نماز کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پر ڈالنا۔
z زمزم پینے کے بعد سعی کے لئے صفا پہاڑی کی طرف جانا۔
z صفا پہاڑی پر چڑھتے ہوئے :
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللہ ِفَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللہَ شِاکِرٌ عَلِیْمٌ
پڑھنا اور پھر یہ الفاظ کہنا:
اَبْدَئُ بِمَا بَدَئَ اللہُ بِہ
z( صفا پہاڑی کے اوپر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہونا اور تین مرتبہ یہ کلمات کہنا :
اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ
zاور درمیان میں دعائیں مانگنا۔
z صفا سے سعی کا آغاز کر کے مروہ پہاڑی پر جانا قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنا۔
zسبز ستونوں کے درمیان (مردوں کا) تیز تیز چلنا۔
z دوران سعی جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔
zصفا سے مروہ تک ایک چکر شمار کر کے سات چکر پورے کرنا۔
zسعی کے بعد مردوں کا سارے سر سے بال کٹوانا یا سر منڈوانا اور خواتین کا صرف ایک یا دو پور بال کاٹنا۔ـــــــــــــــــ
zاحرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔
حج تمتع کا مسنون طریقہ
z میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آنا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام اتار دینا۔
z 8ذی الحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ مکرمہ میں اپنی قیام گاہ سے حج کے لئے احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے سے قبل لَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا۔
z احرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
z بیمار آدمی کا احرام باندھتے وقت:
اَللّٰھُمَّ مَحَلِّی حَیْثُ حَبَسْتَنِیْ
(اے اللہ! میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے روک لیا) کہنا۔
z احرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا ۔
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ
(یا اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے۔)
z 8 ذی الحجہ کو احرام باندھنے کے بعد ظہر سے قبل تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر کی (پانچ) نمازیں قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر باجماعت ادا کرنا۔
z 9ذی الحجہ (یوم عرفہ) کو طلوع آفتاب کے بعد تکبیرو تہلیل اور تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ سے عرفات روانہ ہونا۔
z عرفات کے دن روزہ نہ رکھنا۔
z عرفات میں داخل ہونے سے قبل وادی نمرہ میں قیام کرنا ظہر کے وقت عرفات میں امام حج کا خطبہ سننا، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں ایک اذان‘ دو اقامت کے ساتھ با جماعت قصر کر کے ادا کرنا۔
وضاحت : ہجوم کے باعث اگر وادی نمرہ میں جگہ نہ ملے اور حاجی سیدھا عرفات چلا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
z ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد عرفات میں داخل ہونا اور جبل رحمت کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ میسر آئے) وقوف کرنا‘ قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کر کے قرآنی و نبوی دعائیں مانگنا اور درمیان میں تکبیر و تہلیل اور تلبیہ بھی کہنا۔
z غروب آفتاب کے بعد‘ نماز مغرب ادا کئے بغیر سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہونا۔
z مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازیں‘ ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ قصر کر کے اکٹھی ادا کرنا۔
zرات سو کر گزارنا اور10 ذی الحجہ کی نماز فجر معمول کے وقت سے تھوڑا پہلے ادا کرنا۔
zنماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد مشعر الحرام پہاڑی کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ ملے) قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرکے سورج طلوع ہونے سے قبل خوب روشنی پھیلنے تک تکبیر و تہلیل کہنا‘ توبہ استغفار کرنا اور دعائیں مانگنا۔
z طلوع آفتاب سے قبل سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ روانہ ہونا اور راستہ میں وادی محسر سے تیزی سے گزرنا۔
z منیٰ پہنچ کر طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا اور رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
z جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد قربانی کرنا اور اس سے کچھ پکا کر کھانا۔
وضاحت : یاد رہےکہ حج افراد والوں پر قربانی کرنا واجب نہیں۔
z قربانی کے بعد حلق یا تقصیر کروانا اور احرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔
z منیٰ سے مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ(طواف زیارت) کرنا‘ زمزم پینا اور کچھ حصہ سر پر بہانا
zصفا و مروہ کی سعی کرنا اور مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔
z ایام تشریق (11تا13) ذی الحجہ کی راتیں منیٰ میں گزارنا اور روزانہ زوال آفتاب کے بعد جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی بالترتیب رمی کرنا۔
z جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ کی رمی کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا لیکن جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعائیں مانگے بغیر واپس پلٹنا۔
z قیام منیٰ کے دوران ممکن ہو تو روزانہ طواف کرنا‘ مسجد خیف میں با جماعت نمازیں ادا کرنا‘ بکثرت تہلیل و تکبیر‘ حمدوثنا‘ توبہ استغفار اور دعائیں مانگنا۔
z 12 ذی الحجہ کو منیٰ سے واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔
وضاحت : اگر سورج منیٰ میں ہی غروب ہو جائے تو پھر13 ذی الحجہ کو زوال کے بعد رمی کر کے منیٰ سے واپس آنا چاہئے۔
z مکہ معظمہ پہنچ کر گھر رخصت ہونے سے قبل طواف وداع ادا کرنا۔
حج افراد کا مسنون طریقہ
z میقات سے حج کی نیت سے احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
zلَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا
zممکن ہو تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَّۃٌ لاَ رِیَاءَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ (اے اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے)
zاگر وقت ہو تو مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف تحیہ کرنا اگر وقت نہ ہو تو سیدھے منیٰ چلے جانا۔
z حج افراد کرنے والے شخص (مفرد) کے ذمہ دو طواف واجب ہیں۔
1طواف افاضہ(طواف زیارت) 2طواف وداع۔
z حج افراد ادا کرنے والوں پر صرف ایک سعی واجب ہے جو قربانی کے دن طواف زیارت کے بعد ادا کی جائے گی۔
zسہولت کے لئے حج سعی 8 ذی الحجہ کو منیٰ میں جانے سے قبل کرنا جائز ہے۔
حج قران کا مسنون طریقہ
z میقات سے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا۔
وضاحت : احرام باندھنے کی تفصیل حج افراد کے مسنون طریقہ کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
zمکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنا لیکن عمرہ کی سعی کے بعد حجامت نہ بنوانا نہ ہی احرام کھولنا بلکہ حالت احرام میں ہی ایام حج کا انتظار کرنا۔
z 8ذی الحجہ کو ظہر کی نماز سے قبل تلبیہ کہتے کہتے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور 9 ذی الحجہ کو نماز فجر قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر با جماعت ادا کرنا۔
وضاحت : اس کے بعد ایام حج کے تمام افعال وہی ہیں جو حج تمتع کے ہیں۔
z حج قران کرنے والوں پر قربانی ادا کرنا واجب ہے۔
z جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو دس دن کے روزے رکھنے چاہئیں۔
z حج قران کا احرام باندھنے کے لئے قربانی کا جانور ساتھ لے جانا مسنون ہے۔
zحج قران ادا کرنے والے شخص (قارن) کے ذمہ تین طواف واجب ہیں ایک عمرہ کا‘ دوسرا حج کا اور تیسرا طواف وداع۔
zحج قران ادا کرنے والوں پر دو سعی واجب ہیں۔ ایک سعی عمرہ کی اور دوسری حج کی۔
(ملاحظہ:مندرجہ بالا مضمون، فضیلۃ الشیخ محمد اقبال کیلانی، حفظہ اللہ کی کتاب مسائل حج و عمرہ سے ماخوذ ہے، جو کہ قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔مزید مسائل و تفصیلات کے لئےمذکورہ بالا کتاب انتہائی مفید رہے گی۔ادارہ)
۔۔۔
حج دین اسلام کا پانچواں رکن ہے اور صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک بار اس کی ادائیگی فرض ہے، اور جو استطاعت کے باوجود حج ادا نہ کرے اس کے لیے وعید ہے، حج نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری دور میں یعنی 9 ہجری کو فرض ہوا(فقہ الاسلامی وأدلتہ3/2065)
قرآن وحدیث میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے نبی مکرم ﷺ کا فرمان ہے: ’’حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہے‘‘ (الصحیحۃ1185،1200)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’پے درپے حج وعمرہ کرتے رہو بلاشبہ حج وعمرہ گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو دور کرتی ہے‘‘ (الصحیحۃ1185،1200)
حج کی تعریف:
مخصوص ایام میں مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف (سفر) قصد کرنا ’’حج‘‘ کہلاتاہے۔
حج کے مہینے:
حج کے مہینے یہ ہیں1-شوال2-ذوالقعدہ3-ذوالحجہ کا پہلا عشرہ یعنی عید الفطر سے لیکر عید الاضحی تک کا درمیانی عرصہ۔ (بخاری)
وجوب حج کی شرائط:
1 اسلام۔
2 بلوغت۔
3 عقل۔
4آزادی۔
5استطاعت، نیز خواتین کے لیے ان شرائط کے ساتھ ساتھ دوشرطیں مزید بھی ہیں۔
1محرم کا ساتھ ہونا۔
2عدت میں نہ ہونا۔
جو حج کا ارادہ رکھتاہے اسے چاہیے:
1سب سے پہلے اپنے عقیدے کی اصلاح کرے کیونکہ عقیدے کی خرابی کی وجہ سے اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔
2کسی بھی عمل کی قبولیت کے لیے جہاں عقیدہ توحید ضروری ہے ہاں سنت نبوی کی پیروی بھی انتہائی اہم ہے کیونکہ اگر عقیدہ ٹھیک ہو اور انسان کا عمل نبی کریم ﷺ کی سنت مطہرہ کے مطابق نہ ہو تب بھی قبول نہ کیا جائے گا۔
3نماز کی پابندی کیونکہ عمداً نماز ترک کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہے عرب وعجم کے متعدد علماء کا یہی فتوی ہے ، اگر بے نماز کافر ہے تو ایسا شخص ایک بار نہیں اگر ساری زندگی بھی حج کرتارہے کوئی فائدہ نہیں۔
4مندرجہ تمام باتوں کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی حلال کی کمائی سے حج اداء کیا جائے کیونکہ حرام مال سے نیکی کا کوئی کام نہیں قبول نہیں ہوتا سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اے لوگو! اللہ پاک ہے اور صرف پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتاہے‘‘(مسلم: کتاب الزکاۃ1015)
عمرہ کے ارکان :
1لباسِ احرام پہننے کے بعد نیت کرنا اور 'اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً کہنا۔
عورت اپنے عام باپردہ لباس میں عمرہ کی نیت کرے اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً کہے۔
2 بیت اللہ کا طواف کرنا۔ (سات چکر لگانا)
3 صفا و مروہ کی سعی کرنا۔ (بخاری و مسلم)
حج کے ارکان :
1 نیت کرنا'حج تمتع' کرنے والا میقات سے عمرہ کی نیت کر کے 'اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً' کہے، پھر آٹھ ذوالحجہ کو دوبارہ مکہ میں اپنی منزل سے لباس احرام پہن کر حج کی نیت کرے اور 'اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا' کہے،
'حج اِفراد کرنے والا اگر میقات سے باہر رہتا ہے تو میقات سے حج کی نیت کر کے 'اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا' کہے۔ اور اگر میقات کے اندر رہتا ہے تو اپنی رہائش سے حج کی نیت کر کے 'اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا' کہے۔
حج قِران کرنے والا میقات سے حج اور عمرہ دونوں کی نیت کر کے 'اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَّ حَجًّا' کہے۔
2 میدان عرفات میں ٹھہرنا۔
3 عورتو ںاور ضعیفوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لیے نمازِ فجر مزدلفہ میں ادا کرنا۔
4 طواف زیارت کرنا۔
5 صفا اور مروہ کی سعی کرنا۔ (بخاری و مسلم)
عمرہ کے واجبات :
1 میقات سے لباسِ احرام پہن کر احرام (نیت) کرنا۔
2 عمرہ کی تکمیل پر (مردوں کے لیے) سارے سر کے بال چھوٹے کرانا یا سر منڈانا۔ (بخاری و مسلم)
حج کے فرائض:
1 میقات سے احرام باندھنا۔
2دس ذوالحجہ کو صرف بڑے جمرہ کو اللہ اکبر کہہ سات کنکریاں مارنا اور گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کو تینوں جمرات کو بالترتیب اللہ اکبر کہہ کر سات سات کنکریاں مارنا۔
3سارے سر کے بال چھوٹے کرانا یا سر منڈانا (مردوں کے لیے) اور یہی افضل ہے۔
4 ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا۔
5 طوافِ وداع کرنا۔ (مسلم)
نیت کرنے اور احرام باندھنے کا طریقہ :
حج یا عمرہ کا ارادہ رکھنے والے کے لیے احرام (نیت) باندھنے سے پہلے میقات پر یا میقات سے پہلے غسل کرنا اور بدن کو خوشبو لگانا مستحب ہے اور اگر ممکن ہو تو بغلوں کے بال، زیر ناف بال بھی صاف کر لیے جائیں اور مونچھیں اور ناخن تراش لیں۔ مرد احرام کے لباس کے طور پر ان سلی دو چادریں استعمال کریں ، افضل یہ ہے کہ یہ چادریں سفید رنگ کی ہوں۔ جبکہ عورتیں اپنے عام باپردہ لباس ہی میں حج یا عمرہ کی نیت کریں۔ زبان سے اپنے حج یا عمرہ کی نیت کریں اور تلبیہ کہیں، نیز اگر کوئی آدمی کسی کی طرف سے حج کررہا ہو تو وہ نیت کرنے کے ساتھ 'اللہم لبیک حجا' کہتے ہوئے اس شخص کا نام بھی ذکر کرے۔ (بخاری، ابو داود، ترمذی)
نوٹ: اگر حج و عمرہ کے لیے جانے والے کو مکہ مکرمہ تک پہنچنے میں کسی قسم کی رکاوٹ کا خدشہ ہو تو اسے نیت کرتے وقت یہ کہنا چاہیے 'اَللّٰہُمَّ مَحِلِّي حَیْثُ حَبَسْتَنِي' پھر اگر وہ مکہ نہ پہنچ سکا تو بغیر 'دم دیے حلال ہوجائے گا۔ (یعنی احرام کھول سکتا ہے)۔ (بخاری)
حالت احرام میں ممنوع کام اور ان کا کفارہ :
1 جسم کے کسی حصے سے جان بوجھ کر بال اکھاڑنا، کاٹنا یا مونڈھنا۔
2 ناخن تراشنا۔
3 خوشبو لگانا۔
4 مرد کا سر کو ڈھانپنا۔
5 مرد کا جسمانی ڈھانچے کے مطابق بنے، یعنی سلے ہوئے کپڑے پہننا (جیسے شلوار قمیص، بنیان، کوٹ، سویٹر، پتلون، پاجامہ وغیرہ) جبکہ عورت کا دستانے اور نقاب پہننا۔(بخاری) تاہم اگر کسی کے پاس دو چادریں نہیں ہیں تو وہ شلوار قمیص وغیرہ بھی پہن سکتا ہے۔
6 جنگلی (وحشی) جانور کا شکار کرنا یا شکار کرنے میں کسی کی مدد کرنا۔
7 پیغامِ نکاح بھیجنا، نکاح کرنا یا کرانا۔ (مسلم)
8 بیوی سے بوس و کنار کرنا، شہوت کی باتیں کرنا۔
9 بیوی سےمقاربت کرنا۔
اگر یہ ہم بستری دس ذوالحجہ کو جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مارنے سے پہلے تھی تو ۔
1 حج باطل ہوجائے گا۔
2 حج کے بقیہ کام پورے کرے گا۔
3اگلے سال دوبارہ حج کرے گا۔
4 ایک اونٹ یا گائے حرم کی حدود میں ذبح کرکے فقرائے مکہ میں تقسیم کرے گا۔
اور اگربیوی سے مقاربت دس تاریخ کو جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مارنے کے بعد کی ہے تو اس کا حج تو صحیح ہوگا لیکن اس کو 'دم دینا ہوگا۔ (حاکم، بیہقی، مؤطا)
نوٹ: اگر عورت کو حالت احرام میں حیض یا نفاس شروع ہو جائے تو وہ بیت اللہ کے طواف کے سوا حج اور عمرہ کے بقیہ تمام ارکان و واجبات ادا کرے گی۔ (بخاری و مسلم)
حاجی کے آٹھ تاریخ سے پہلے کرنیوالے کام:
'حج اِفرادکرنے والے کے کام:
1 میقات سے حج کی نیت کرنا اور 'اَللّٰہُمَّ لَبَیْکَ حَجًّا' کہنا، مکہ والے لوگ حج کے لیے میقات کی بجائے اپنی رہائش گاہ ہی سے لباسِ احرام پہن کر نیت کریں گے، چاہے ان کی رہائش مستقل ہو یا عارضی، البتہ عمرہ کے لیے انہیں حدود حرم سے نکل کر لباسِ احرام پہن کر نیت کرنی ہو گی۔
2 مکہ پہنچ کر طواف کرنا، یعنی بیت اللہ کے گرد سات چکر لگانا اس طواف کو طوافِ قدوم کہتے ہیں۔ اس طواف کے ابتدائی تین چکروں میں رَمل کرنا، یعنی آہستہ آہستہ دوڑنا۔
3 صفا اور مروہ کی 'سعی کرنایعنی سات چکر لگانا، اگر 'حج اِفرادکرنے اولے نے 'طواف قدوم کے قت سعی نہ کی ہو یا پھر وہ اپنے گھر سے سیدھا منیٰ کی طرف چلا گیا ہو تو اسے 'طواف زیارت کے بعد سعی کرنا ہوگی اور وہ قربانی کے دن تک اپنے احرام میں ہی رہے گا۔ (بخاری و مسلم)
'حج قِرا ن کرنے والے کے کام:
1 قربانی ساتھ لے کر یا قربانی کا کوپن لے کر میقات سے لباسِ احرام پہن کر نیت کرے 'اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً وَّ حَجًّا' کہے۔
2 مکہ پہنچ کر 'طواف قدوم کرنا۔
3 صفا اور مروہ کی 'سعی کرنا، اگر اس دن سعی نہ کرسکا تو اسے 'طواف زیارت کے بعد بھی اسے کیا جاسکتا ہے۔
4 یہ شخص قربانی کے دن تک احرام ہی میں رہے اور احرام کے ممنوع کاموں سے بچے۔ (بخاری و مسلم)
'حج تمتع کرنے والے کے کام :
1 میقات سے لباس احرام پہن کر نیت کر کے 'اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ عُمْرَۃً' کہنا۔
2 'طواف قدوم کرنا (یہی طواف عمرہ بھی ہے)
3 صفا اور مروہ کی سعی کرنا۔
4 سارے سر کے بال چھوٹے کرانا یا سر منڈانا(صرف مردوں کے لیے)
5 حالت احرام سے نکل جانا (بخاری و مسلم)
فائدہ1: بیت اللہ کا 'طواف کرتے وقت ہر چکر میں 'رکن یمانی' اور 'حجر اسود' کے درمیان یہ دعا پڑھنا مستحب ہے:
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ( البقرۃ 201، أبوداود)
' نیز اس کے علاوہ ہر چکر کی کوئی دعا مخصوص نہیں، جو چاہیں اللہ تعالی سے دعائیں کریں۔
فائدہ2: صفاپر یہ دعا پڑھنا مستحب ہے۔
قبلہ رخ ہوکر تین مرتبہ 'اَللّٰہُ أَکْبَر' کہے، اور تین بار یہ دعا پڑھے۔
'لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیرٌ، لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ أنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہٗ'
اور ان مذکورہ دعائوں کے درمیان میں قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر جو دل چاہے دعا کرے۔ اور 'مروہ پر بھی یہی دعا تین مرتبہ 'اَللّٰہُ أَکْبَر' کہہ کر پڑھے۔ (مسلم، ابو داود، نسائی)
ان دعاؤں کے بعد دیگر دعائیں بھی مانگی جاسکتی ہیں(مسلم)
یاد رہے کہ مردوں کے لیے دو سبز نشانوں کے درمیان دوڑنا مستحب ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ)
آٹھ ذوالحجہ کا دن :
منیٰ کی طرف جانا، یاد رہے کہ 'حج تمتع' کرنے اولا آٹھ تاریخ کو اپنی رہائش گاہ ہی سے لباسِ احرام پہن کر حج کی نیت کر کے یہ الفاظ کہے: 'اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ حَجًّا' منیٰ میں اپنے اپنے وقت پر ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور صبح کی نمازیں قصر کر کے دو دو رکعت ادا کرے، جبکہ مغرب کی تین رکعتیں پوری پڑھے۔ (بخاری و مسلم)
نو ذوالحجہ(عرفہ) کا دن :
1 مستحب ہے کہ سورج طلوع ہوجانے کے بعد تلبیہ اور تکبیریں کہتے ہوئے عرفات کی طرف جائیں (وہاں حجاج ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر ہی کے وقت میں ظہر اور عصر کی نماز، قصر کر کے دو دو رکعت اداکریں اور ہر نماز کے لیے الگ الگ تکبیر (اقامت) کہی جائے، پھر سورج غروب ہونے تک عرفات میں رہے اور اللہ کے ذکر، قرآن مجید کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے میں مشغول رہے۔ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا مستحب ہے نہ کہ جبل رحمت کی طرف، نیز حاجی کے لیے نو ذوالحجہ (یوم عرفات) کا روزہ رکھنا غیر مشروع ہے۔ 'وادیٔ عرنہ میدان عرفات کی حدود میں داخل نہیں، لہٰذا وہاں ظہر اور عصر کی نماز کے بعد ٹھہرنا صحیح نہیں۔ اسی طرح جبل رحمت پر چڑھنا بھی مستحب نہیں)۔ اس دن یہ دعا پڑھنا سابقہ انبیاء اور آپﷺ کی سنت ہے:
'لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ یُحْیِي وَ یُمِیتُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِیر'(صحیح البخاري و صحیح مسلم )
' البتہ لیٹ ہونے والے اگر دس ذوالحجہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے میدان عرفات میں پہنچ جائیں اور پھر فجر کی نماز مزدلفہ میںادا کرے تو ان کا رکن بھی ادا ہوجائے گا۔
2 غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ جانا۔ وہاں حاجی ایک اذان اور دو الگ الگ تکبیروں (اقامتوں) کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کرکے قصر (یعنی مغرب کی تین رکعتیں، عشاء کی دو رکعتیں) ادا کرے۔ (بخاری و مسلم)
(ا)حاجی مزدلفہ میں یہ رات آرام کرتے ہوئے گزارے، وہاں فجر کی نماز ادا کرے او فجر کے بعد کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور دعا کرے حتیٰ کہ خوب سفیدی ہوجائے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف نکل جائے۔
یاد رہے کہ مشعر حرام کے پاس ٹھہرنا اور دعا کرنا مستحب ہے۔ کمزور عورتوں، عمر رسیدہ اور معذور و ضرورت مند لوگوں کے لیے چاند کے غروب ہوجانے (آدھی رات) کے بعد بھی مزدلفہ سے منیٰ کو جانا جائز ہے۔ (بخاری ، مسلم)
(ب) بڑے جمرے کو مارنے کے لیے سات کنکریاں اگر آسانی سے مل جائیں تو مزدلفہ سے لے لے، یہ کنکریاں منیٰ کے میدان سے بھی لی جاسکتی ہیں جن کا حجم چنے کے دانے سے کچھ بڑا ہو۔ واضح رہے کہ ان کنکریوں کو دھونا بدعت ہے۔
دس ذوالحجہ کا دن :
سورج طلوع ہونے سے پہلے منیٰ کی طرف جانا۔ وہاں حاجی یہ چار کام کرے:
1 بڑے جمرہ کو ایک ایک کرکے سات کنکریاں 'اللہ اکبر کہہ کر مارے اور اس کے بعد تلبیہ کہنا بند کردے۔
2 قربانی کرنا۔
3 سارے سر کے بال چھوٹے کرانایا منڈانا، اور یہی افضل ہے۔ (بخاری، مسلم، ابن خزیمہ)
4 'طواف زیارت کرنا، اگرچہ اس کو مجبوری کے تحت 'طواف وداع تک مؤخر کرنا بھی جائز ہے لیکن اگر 'طواف وداع کے ساتھ 'طواف زیارت کی بھی نیت کرلے، دونوں ادا ہوجائیں گے۔(یاد رہے کہ ان چار کاموں کو اسی ترتیب سے کرنا افضل ہے اگر بھول کر ترتیب میں رد وبدل ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔
وضاحت1: 'حج اِفراداور 'حج قران کرنے والے نے اگر 'طواف قدوم کے ساتھ 'سعی نہیں کی تو وہ 'طواف زیارت کے ساتھ 'سعی کرے۔
وضاحت2: 'حج قران اور 'حج تمتع کرنے والا قربانی ضرورکرے۔
وضاحت3: مکہ کے رہائشی پر قربانی نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے حج تمتع یا قِران نہیں ہے۔یعنی حج افراد کرنے والے پر قربانی لازم نہیں اگر کرنا چاہے تو کرسکتاہے۔
وضاحت4: دس تاریخ کو جمرہ کبریٰ کو کنکریاں مار لینے سے حاجی پر احرام کی پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ صرف اپنی بیوی سے مقاربت نہیں کرسکتا البتہ 'طواف زیارت اور 'سعی کر لینے کے بعد یہ کامل طور پر حلال ہو جائے گا اور اب اسے بیوی سے مقاربت کرنا بھی جائز ہے۔ (بخاری و مسلم، ابو داود، ابن خزیمہ)
گیارہ ذوالحجہ کا دن :
1 گیارہ ذوالحجہ کی رات منیٰ میں گزارنا واجب ہے لیکن چرواہوں کے لیے اور حجاج کو پانی پلانے والوں کے لیے رخصت ہے۔
2 زوال کے بعد تینوں جمرات کو اللہ اکبر کہہ کر ترتیب کے ساتھ ہر جمرے کو سات کنکریاں مارے، یاد رہے کہ صرف چھوٹے اور درمیانے جمرے کو کنکریاں مارنے کے بعد دعا کرنا مستحب ہے۔ (مسلم، ابو داود، مسند احمد)
نوٹ: جس حاجی کو گنتی میں شک پڑ جائے تو جس گنتی پر اسے یقین ہے اس پر اعتماد کرتے ہوئے باقی گنتی مکمل کرے۔
بارہ ذوالحجہ کا دن :
1 بارہ ذوالحجہ کی رات بھی منیٰ میں گزارنا واجب ہے لیکن چرواہوں کے لیے اور حجاج کو پانی پلانے والوں کے لیے رخصت ہے کہ وہ مکہ یا اپنے ریوڑ کے پاس جائے۔
2 گیارہ تاریخ کی طرح تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا۔
اب اگر کوئی مکہ جانا چاہے تو وہ غروب آفتاب سے پہلے پہلے منیٰ کی حدود سے نکل جائے اور جب اپنے ملک کو واپس جانا چاہے تو 'طوافِ وداع کرلے، البتہ تیرہ تاریخ کی کنکریاں مارنا افضل ہے۔ (سورئہ بقرہ: 203، ابوداود، مؤطا)
تیرہ ذوالحجہ کا دن :
1 گیارہ اور بارہ ذوالحجہ کی طرح تیرہ ذوالحجہ کو بھی تینوں جمرات کو کنکریاں مارنا۔
2 مکہ چھوڑتے وقت 'طواف وداع کرنا واجب ہے۔
نوٹ: حیض اور نفاس والی عورتوں پر 'طواف وداع کے لیے طہارت حاصل ہونے تک انتظار کرنا لازم نہیں۔ وہ بغیر طواف وداع کیے جاسکتی ہیں۔ (بخاری، مسلم، ابو داود)
حاجی پر دم کب لازم آتا ہے؟
1 حج تمتع یا قران کرنے والے پر دم لازم آتا ہے۔
2 کسی بیماری یا تکلیف دہ چیز کی وجہ سے حاجی سر مونڈھ لے تو اس پر فدیہ لازم آتا ہے، یعنی وہ روزے رکھے یا صدقہ کرے یا خون بہائے (بکری وغیرہ ذبح کرے)
3 خشکی کے جانور کے شکار کرنے پر دم لازم آتا ہے۔
4 احرام (نیت) حج باندھنے کے بعد جب وہ کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے مناسک حج ادا نہ کر سکے اور نیت کرتے وقت حلال ہونے کی شرط بھی نہیں لگائی ہے تو اس پر دم دینا لازم ہے۔
5 جمرئہ کبری کی رمی سے پہلے اگر حاجی نے اپنی بیوی سے مقاربت کرلی تو اس پر اونٹ ذبح کرنا لازم ہے اور اس کا حج فاسد ہو گیا اور اگر جمرئہ کبری کو کنکریاں مارنے کے بعد مقاربت کی تو حج اس کا درست ہے۔ لیکن ایک بکری ذبح کرنا اس پر لازم ہے۔
مدینۃ الرسولﷺ کا مبارک سفر:
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہے کہ حج مکہ مکرمہ میں پورا ہوجاتا ہے، لیکن جس شخص کو اللہ تعالیٰ حج جیسی عظیم سعادت نصیب فرمائے تو وہ مسجد نبوی اور مدینہ نبویہ کی زیارت سے کیوں محروم رہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پیارے رسولﷺ کی مسجد اور آپ کا شہر ہے لہٰذا حاجی اگر مدینہ نبویہ کی طرف سفر کرنا چاہے تو مسجد نبوی کی زیارت کی نیت کرے۔
'مسجد نبوی کی زیارت: جب حاجی مسجد نبوی میں داخل ہو تو تحیۃ المسجد یعنی دو رکعتیں ادا کرے، البتہ ریاض الجنۃ میں دو نفل پڑھنا افضل ہیں۔ (بخاری و مسلم)
البتہ مدینہ نبویہ پہنچ کر اس کے لیے درج ذیل زیارتیں مشروع ہیں۔ (بخاری و مسلم)
1 'قبر رسولﷺ کی زیارت:
حاجی آپﷺ کی قبر مبارک کے پاس جائے آپ ﷺ پر درود بھیجے جوکہ صحیح احادیث سے ثابت ہیںاور انتہائی ادب احترام کے ساتھ دھیمی آواز میں
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتہ
کے الفاظ کہے پھرسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا أَبَا بَکْرٍ، اَلسَّلَام عَلَیْکَ یَا عُمَر
ُ کے الفاظ کہے۔ (مؤطا)
یاد رہے کہ اہل قبور کو مسنون سلام اور دعا کے الفاظ یہ ہیں:
اَلسَّلَامُ عَلٰی أَھْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤمِنِینَ وَالْمُسْلِمینَ، وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وإنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
اسی طرح یہ الفاظ بھی ثابت ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ أَہْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُسْلِمِینَ وَإِنَّا إنْ شَاءاللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ، أسْئَالُ اللّٰہَ لَنَا وَلَکُمْ الْعَافِیَۃَ' (مسلم، ابن ماجہ)
2 'بقیع غرقدکی زیارت:
یہ مدینہ نبویہ کا قبرستان ہے۔ حاجی وہاں جائے، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تمام مؤمنین کے لیے استغفار اور بلندیٔ درجات کی دعا کرے۔ (مسلم)
3 'شہدائے احدکی زیارت:
حاجی شہدائے احد کی قبروں کے پاس جائے، ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرے اور قبرستان والی دعا پڑھے۔
4 'مسجد قباءکی زیارت:
حاجی باوضو ہوکر مسجد قبا جائے اور وہاں دو نفل ادا کرے جس کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔(نسائی)
----------
ارکان حج
1 احرام2وقوف عرفہ(میدانِ عرفات میں قیام کرنا) 3طواف زیارت4سعی
واجبات حج
1میقات سے احرام باندھنا
2مغرب تک عرفات میں وقوف کرنا
3سورج طلوع ہونے سے تھوڑا پہلے تک رات مزدلفہ میں گزارنا
4ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا
5جمرات کو کنکریاں مارنا
6جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حجامت بنوانا
7طواف وداع کرنا۔
وضاحت :
vحج کا کوئی رکن ادا نہ کرنے سے حج نہیں ہوتا۔
vحج کے واجبات میں سے کوئی واجب ادا نہ کرنے پر ایک قربانی لازم آتی ہے۔
vحج کی سنتوں میں سے کوئی سنت ادا نہ کرنے پر کوئی فدیہ یا گناہ نہیں۔
حج کی شرائط
مردوں کے لئے
nمسلمان ہوناnمالدار ہوناnآزاد ہوناnعاقل ہوناn بالغ ہونا nصحتمند ہوناnراستہ کا پر امن ہوناnحکومت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہونا۔
عورتوں کے لئے
مذکورہ بالا آٹھ(8) شرائط کے علاوہ مزید دو شرطیں یہ ہیں۔1محرم کا ساتھ ہونا 2حالت عدت میں نہ ہونا۔
میقات
میقاتِ مکانی
1آفاقی : یعنی میقات سے باہر مقیم لوگوں کے لئےحج اور عمرہ دونوں کے لئے میقات درج ذیل ہیں۔
c ذی الحلیفۃ: برائے اہل مدینہ
c یلملم: برائے اہل یمن‘ ہندوستان و پاکستان وغیرہ
c جحفہ : برائے اہل مصر و شام
c قرن المنازل یا سیل کبیر : برائے نجدوطائف
c ذات عرق: برائے اہل عراق۔
2اہل حل: یعنی حدود حرم سے باہر اور میقات کے اندر رہنے والے لوگوں کے لئے‘ عمرہ اور حج دونوں کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔
3اہل حرم:یعنی حدود حرم کے اندر مقیم لوگوں کے لئے عمرہ کے لئے حدود حرم سے باہر کوئی جگہ تنعیم یا جعرانہ اور حج کے لئے اپنی رہائش گاہ میقات ہے۔
میقات زمانی
b عمرہ کے لئے سارا سال ۔
bحج کے لئے شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ۔ تین ماہ۔
احرام: (عمرہ یا حج ادا کرنے کا لباس)
اقسام احرام
1احرام عمرہ(صرف عمرہ کااحرام باندھنا)
2 احرام حج افراد(صرف حج کا احرام باندھنا)
3احرام حج قران (عمرہ اور حج دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھنا)
4احرام حج تمتع (پہلے عمرہ کا احرام باندھنا‘ پھر ایام حج میں مکہ سے ہی حج کا احرام باندھنا)
مسنون امور
1 غسل کرنا
2مردوں کا احرام پہننے سے پہلے جسم پر خوشبو لگانا
3 دو بغیر سلی چادریں پہننا اور ٹخنوں سے نیچے تک جوتے پہننا
4عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کے الفاظ ادا کرنا
5 تلبیہ پکارنا
6ممکن ہو تو نماز ظہر کے بعد احرام باندھنا۔
مباحات احرام
1غسل کرنا 2سر اور بدن کھجلانا 3مرہم پٹی کروانا‘ ادویات کھانا پینا 4آنکھوں میں سرمہ یا دوا ڈالنا
5 موذی جانور کو مارنا6احرام کی چادریں بدلنا 7انگوٹھی‘ گھڑی‘ عینک‘ پیٹی یا چھتری وغیرہ استعمال کرنا
8بغیر خوشبو والا تیل یا صابن استعمال کرنا9سمندری شکار کرنا 0بچوں یا ملازموں کو تعلیم و تربیت کے لئے مارنا۔
ممنوعات احرام مردوں اور عورتوں‘ دونوں کے لئے
mجماع و متعلقات جماعmلڑائی جھگڑاmتمام گناہ اور نافرمانی کے کامmخوشبو لگانا m نکاح کرنا، کرانا یا پیغام بھجوانا mبال یا ناخن کاٹنا۔mخشکی کا شکار کرنا یاشکاری کی مدد کرنا،m شکار کیا ہوا جانور ذبح کرنا ۔
ممنوعات احرام، صرف مردوں کے لئے
مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل تین امور صرف مردوں کے لئے ممنوع ہیں۔
mسلا ہوا کپڑا پہننا m سر پر ٹوپی یا پگڑی پہننا mموزے یا جرابیں پہننا۔
ممنوعات احرام، صرف عورتوں کے لئے
مذکورہ بالا سات ممنوعات کے علاوہ درج ذیل دو امور صرف خواتین کے لئے منع ہیں۔
mنقاب استعمال کرنا mدستانے پہننا۔
(تفہیم : غیر محارم سے اختلاط کی صورت میں نقاب کی اجازت ہے۔)
طواف:(بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگانا)
اقسام طواف
mطواف قدومmطواف عمرہmطواف زیارت mطواف وداع mنفلی طواف
حج میں واجب طواف کی تعداد
mحج افراد میں دو عدد (طواف زیارت+طواف وداع)
m حج قران میں تین عدد
(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)
mحج تمتع میں تین عدد
(طواف عمرہ +طواف زیارت+طواف وداع)
(تفہیم:طواف وداع ان حاجیوں کے لیے ہےجنہوں نے مکہ سے باہر جانا ہے)
احکام طواف
b حالت احرام میں ہونا۔
bباوضو ہونا۔
bحالت اضطباع میں ہونا۔ (صرف طواف عمرہ کے لئے)
bمردوں کا پہلے تین چکروں میں رمل کرنا ۔(صرف طواف عمرہ کے لئے)
b حجر اسود سے حجر اسود تک سات چکر لگانا۔
b حجر اسود کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے چھو کر ہاتھ کو بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کرنا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا۔
b حجر اسود کے استلام کے وقت’’بِسْمِ اللہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہنا۔
b رکن یمانی کو چھونا اور ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔
b سات چکر پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرنا۔
b دو رکعت ادا کرنے کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پرڈالنا۔
b صفا اور مروہ پر سعی کے لئے جانے سے قبل حجر اسود کا استلام کرنا۔
مباحات طواف
z بوقت ضرورت بات کرنا z بوقت ضرورت سلسلہ طواف منقطع کرنا zسواری پر طواف کرنا۔
سعی:(صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگانا)
حج میں سعی کی تعداد
b حج افراد میں ایک عدد bحج قران میں دو عدد
b حج تمتع میں دو عدد
احکام سعی
b صفا سے سعی کی ابتداء کرنا
bصفا پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا
b مردوں کا سبز ستونوں کے درمیان تیز تیز چلنا(بیماروں اور بوڑھوں کے علاوہ)
b مروہ پہاڑی پر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا
b صفا سے شروع کر کے مروہ پر سات چکر مکمل کرنا۔
مباحات سعی
z بلا وضو سعی کرنا۔z دوران سعی گفتگو کرنا۔
z بوقت ضرورت سعی کا سلسلہ منقطع کرنا
z سواری پر سعی کرنا۔
ایام الحج
8تا13ذی الحجہ
8 ذی الحجہ……یوم الترویہ
1 سورج طلوع ہونے کے بعد اور نماز ظہر سے پہلے منیٰ پہنچنا ۔
2منیٰ میں پانچ نمازیں (ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر) ادا کرنا۔
3منیٰ میں تمام نمازیں قصر ادا کرنا۔
4 بکثرت اوربلند آواز سے تلبیہ کہنا۔
9 ذی الحجہ……یوم عرفہ
1طلوع آفتاب کے بعد منیٰ سےمیدان عرفات روانہ ہونا۔
2 زوال آفتاب کے بعداگر ممکن ہوتو مسجد نمرہ میں خطبۂ حج سننا‘ ظہر اور عصر کی نماز باجماعت جمعاً وقصراًاداکر نا اگر مسجد نمرہ تک جانا ممکن نہ ہوتو میدان عرفات میں جہاں بھی جگہ ملے دونوں نمازیں جمع اور قصر کرکے ادا کرنا-
3 نمازوں کے بعد جبل رحمت کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔
4 غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہونا۔
5 دوران سفر بلند آواز سے تلبیہ پڑھنا۔
9 ذی الحجہ……مزدلفہ کی رات
1 نماز مغرب اور عشاء مزدلفہ میں باجماعت جمعاً وقصراً ادا کرنا ۔
2 رات سو کر گزارنا۔
3 نماز فجر مزدلفہ میں ادا کرنا۔معذور لوگ یا عورتیں نماز فجرسے پہلے یا فوراً بعد مزدلفہ سے منی کی طرف روانہ ہوسکتے ہیں-
4نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے تک مشعر الحرام کے قریب یا جہاں جگہ ملے‘ قبلہ رخ وقوف کرنا ۔
5طلوع آفتاب سے تھوڑا پہلے منیٰ روانہ ہونا۔
6 جمرات کو مارنے کے لیے کنکریاں مزدلفہ سے اکٹھی کی جاسکتی ہیں۔
7دوران سفر تلبیہ کہنا۔
10 ذی الحجہ……یوم نحر
1طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا(یعنی سات کنکریاں مارنا۔
2 رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
3قربانی کرنا۔
4حلق یا تقصیر کرنا۔
5مکہ جا کر طواف زیارت ادا کرنا۔
6 سعی ادا کرنا
7 مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔
11تا13 ذی الحجہ……ایام تشریق
1تمام راتیں منیٰ میں گزارنا۔
2جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی زوال آفتاب کے بعد رمی کرنا ۔یعنی سات ‘سات کنکریاں مارنا۔
3بکثرت تکبیر و تہلیل‘ تقدیس و تحمید اور اذکارو وظائف کرنا۔
4 12ذی الحجہ کو واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔
5مکہ واپس آکر اپنے شہر یا ملک رخصت ہونے سے قبل طواف وداع کرنا۔
عمرہ کا مسنون طریقہ
z میقات پر پہنچ کر احرام باندھنا
z احرام سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
zاحرام باندھنے سے قبل ’’لَبَّیْکَ عُمْرَۃً ‘‘ کے الفاظ سے عمرہ کی نیت کرنا
zاحرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ پکارنا۔
z بیت اللہ شریف کا طواف شروع کرنے سے پہلے تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
z طواف شروع کرنے سے پہلے کندھوں والی چادر کا ایک حصہ دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈال لینا (یعنی حالت اضطباع اختیار کرنا)
z حجر اسود کے استلام (چھونے)سے طواف کا آغاز کرنااگر ممکن ہو۔
ˆ حجر اسود کے استلام کے لئے حجر اسود کو بوسہ دینا اور اگر ممکن ہو تو اس پر پیشانی بھی رکھنا یا ہاتھ سے چھو کر بوسہ دینا یا ہاتھ سے اشارہ کر کے ہاتھ کو بوسہ نہ دینا اور اشارہ کرتے وقت رفع یدین کی طرح دونوں ہاتھ بلند نہ کرنا۔
z استلام کے وقت’’ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ کہنا۔
z طواف کے ہر چکر میں حجر اسود کا استلام کرنا۔
z طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل (تیز چال چلنا) کرنا اور باقی چار چکروں میں عام چال چلنا۔
z رکن یمانی کو چھو کر بوسہ نہ دینا اگر چھونا ممکن نہ ہو تو پھر اشارہ کئے بغیر گزر جانا۔
z رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان
رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِیْ الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ
پڑھنا اور باقی طواف میں جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔
zایک طواف کے لئے سات چکر پورے کرنا۔
zسات چکر پورے کرنے کے بعد
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی
پڑھتے ہوئے مقام ابراہیم کی طرف آنا اور وہاں (یا جہاں بھی جگہ ملے) دو رکعت نماز ادا کرنا، پہلی رکعت میں قُلْ یٰٓا اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ پڑھنا۔
z نماز کے بعد آب زمزم پینا اور کچھ سر پر ڈالنا۔
z زمزم پینے کے بعد سعی کے لئے صفا پہاڑی کی طرف جانا۔
z صفا پہاڑی پر چڑھتے ہوئے :
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللہ ِفَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِھِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللہَ شِاکِرٌ عَلِیْمٌ
پڑھنا اور پھر یہ الفاظ کہنا:
اَبْدَئُ بِمَا بَدَئَ اللہُ بِہ
z( صفا پہاڑی کے اوپر چڑھ کر قبلہ رخ کھڑے ہونا اور تین مرتبہ یہ کلمات کہنا :
اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ لاَ شَرِیْکَ لَہٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ وَحْدَہٗ اَنْجَزَ وَعْدَہٗ وَنَصَرَ عَبْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ
zاور درمیان میں دعائیں مانگنا۔
z صفا سے سعی کا آغاز کر کے مروہ پہاڑی پر جانا قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرنا۔
zسبز ستونوں کے درمیان (مردوں کا) تیز تیز چلنا۔
z دوران سعی جو بھی قرآنی یا نبوی دعائیں یاد ہوں وہ پڑھنا۔
zصفا سے مروہ تک ایک چکر شمار کر کے سات چکر پورے کرنا۔
zسعی کے بعد مردوں کا سارے سر سے بال کٹوانا یا سر منڈوانا اور خواتین کا صرف ایک یا دو پور بال کاٹنا۔ـــــــــــــــــ
zاحرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔
حج تمتع کا مسنون طریقہ
z میقات سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آنا اور عمرہ ادا کرنے کے بعد احرام اتار دینا۔
z 8ذی الحجہ (یوم الترویہ) کو مکہ مکرمہ میں اپنی قیام گاہ سے حج کے لئے احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے سے قبل لَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا۔
z احرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
z بیمار آدمی کا احرام باندھتے وقت:
اَللّٰھُمَّ مَحَلِّی حَیْثُ حَبَسْتَنِیْ
(اے اللہ! میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے روک لیا) کہنا۔
z احرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا ۔
اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ
(یا اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے۔)
z 8 ذی الحجہ کو احرام باندھنے کے بعد ظہر سے قبل تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور فجر کی (پانچ) نمازیں قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر باجماعت ادا کرنا۔
z 9ذی الحجہ (یوم عرفہ) کو طلوع آفتاب کے بعد تکبیرو تہلیل اور تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ سے عرفات روانہ ہونا۔
z عرفات کے دن روزہ نہ رکھنا۔
z عرفات میں داخل ہونے سے قبل وادی نمرہ میں قیام کرنا ظہر کے وقت عرفات میں امام حج کا خطبہ سننا، اس کے بعد ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں ایک اذان‘ دو اقامت کے ساتھ با جماعت قصر کر کے ادا کرنا۔
وضاحت : ہجوم کے باعث اگر وادی نمرہ میں جگہ نہ ملے اور حاجی سیدھا عرفات چلا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
z ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کرنے کے بعد عرفات میں داخل ہونا اور جبل رحمت کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ میسر آئے) وقوف کرنا‘ قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کر کے قرآنی و نبوی دعائیں مانگنا اور درمیان میں تکبیر و تہلیل اور تلبیہ بھی کہنا۔
z غروب آفتاب کے بعد‘ نماز مغرب ادا کئے بغیر سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے مزدلفہ روانہ ہونا۔
z مزدلفہ پہنچ کر مغرب اور عشا کی نمازیں‘ ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ قصر کر کے اکٹھی ادا کرنا۔
zرات سو کر گزارنا اور10 ذی الحجہ کی نماز فجر معمول کے وقت سے تھوڑا پہلے ادا کرنا۔
zنماز فجر باجماعت ادا کرنے کے بعد مشعر الحرام پہاڑی کے دامن میں (یا جہاں کہیں بھی جگہ ملے) قبلہ رخ کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرکے سورج طلوع ہونے سے قبل خوب روشنی پھیلنے تک تکبیر و تہلیل کہنا‘ توبہ استغفار کرنا اور دعائیں مانگنا۔
z طلوع آفتاب سے قبل سکون اور وقار کے ساتھ تلبیہ کہتے ہوئے منیٰ روانہ ہونا اور راستہ میں وادی محسر سے تیزی سے گزرنا۔
z منیٰ پہنچ کر طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کی رمی کرنا اور رمی سے قبل تلبیہ کہنا بند کر دینا۔
z جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد قربانی کرنا اور اس سے کچھ پکا کر کھانا۔
وضاحت : یاد رہےکہ حج افراد والوں پر قربانی کرنا واجب نہیں۔
z قربانی کے بعد حلق یا تقصیر کروانا اور احرام کی چادریں اتار کر عام لباس پہننا۔
z منیٰ سے مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ(طواف زیارت) کرنا‘ زمزم پینا اور کچھ حصہ سر پر بہانا
zصفا و مروہ کی سعی کرنا اور مکہ مکرمہ سے منیٰ واپس آنا۔
z ایام تشریق (11تا13) ذی الحجہ کی راتیں منیٰ میں گزارنا اور روزانہ زوال آفتاب کے بعد جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ اور جمرہ عقبہ کی بالترتیب رمی کرنا۔
z جمرہ اولیٰ‘ جمرہ وسطیٰ کی رمی کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا لیکن جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعائیں مانگے بغیر واپس پلٹنا۔
z قیام منیٰ کے دوران ممکن ہو تو روزانہ طواف کرنا‘ مسجد خیف میں با جماعت نمازیں ادا کرنا‘ بکثرت تہلیل و تکبیر‘ حمدوثنا‘ توبہ استغفار اور دعائیں مانگنا۔
z 12 ذی الحجہ کو منیٰ سے واپس آنا ہو تو غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے نکلنا۔
وضاحت : اگر سورج منیٰ میں ہی غروب ہو جائے تو پھر13 ذی الحجہ کو زوال کے بعد رمی کر کے منیٰ سے واپس آنا چاہئے۔
z مکہ معظمہ پہنچ کر گھر رخصت ہونے سے قبل طواف وداع ادا کرنا۔
حج افراد کا مسنون طریقہ
z میقات سے حج کی نیت سے احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے سے قبل غسل کرنا اور جسم پر خوشبو لگانا۔
zلَبَّیْکَ حَجًّا کہہ کر حج کی نیت کرنا
zممکن ہو تو نماز ظہر ادا کرنے کے بعد احرام باندھنا۔
zاحرام باندھنے کے بعد بلند آواز سے تلبیہ کہنا اور ایک بار یہ الفاظ ادا کرنا اَللّٰھُمَّ ھٰذِہٖ حَجَّۃٌ لاَ رِیَائَ فِیْھَا وَلاَ سُمْعَۃَ (اے اللہ! میرے اس حج سے نہ دکھاوا مقصود ہے نہ شہرت مطلوب ہے)
zاگر وقت ہو تو مکہ مکرمہ پہنچ کر طواف تحیہ کرنا اگر وقت نہ ہو تو سیدھے منیٰ چلے جانا۔
z حج افراد کرنے والے شخص (مفرد) کے ذمہ دو طواف واجب ہیں۔
1طواف افاضہ(طواف زیارت) 2طواف وداع۔
z حج افراد ادا کرنے والوں پر صرف ایک سعی واجب ہے جو قربانی کے دن طواف زیارت کے بعد ادا کی جائے گی۔
zسہولت کے لئے حج سعی 8 ذی الحجہ کو منیٰ میں جانے سے قبل کرنا جائز ہے۔
حج قران کا مسنون طریقہ
z میقات سے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا۔
وضاحت : احرام باندھنے کی تفصیل حج افراد کے مسنون طریقہ کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
zمکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کرنا لیکن عمرہ کی سعی کے بعد حجامت نہ بنوانا نہ ہی احرام کھولنا بلکہ حالت احرام میں ہی ایام حج کا انتظار کرنا۔
z 8ذی الحجہ کو ظہر کی نماز سے قبل تلبیہ کہتے کہتے منیٰ پہنچنا اور وہاں ظہر‘ عصر‘ مغرب‘ عشاء اور 9 ذی الحجہ کو نماز فجر قصر کر کے اپنے اپنے وقت پر با جماعت ادا کرنا۔
وضاحت : اس کے بعد ایام حج کے تمام افعال وہی ہیں جو حج تمتع کے ہیں۔
z حج قران کرنے والوں پر قربانی ادا کرنا واجب ہے۔
z جو شخص قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کو دس دن کے روزے رکھنے چاہئیں۔
z حج قران کا احرام باندھنے کے لئے قربانی کا جانور ساتھ لے جانا مسنون ہے۔
zحج قران ادا کرنے والے شخص (قارن) کے ذمہ تین طواف واجب ہیں ایک عمرہ کا‘ دوسرا حج کا اور تیسرا طواف وداع۔
zحج قران ادا کرنے والوں پر دو سعی واجب ہیں۔ ایک سعی عمرہ کی اور دوسری حج کی۔
(ملاحظہ:مندرجہ بالا مضمون، فضیلۃ الشیخ محمد اقبال کیلانی، حفظہ اللہ کی کتاب مسائل حج و عمرہ سے ماخوذ ہے، جو کہ قرآن و صحیح احادیث کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔مزید مسائل و تفصیلات کے لئےمذکورہ بالا کتاب انتہائی مفید رہے گی۔ادارہ)
میاں محمد جمیل
عبادت کے دینی تصور کے فہم اور انسانی زندگی پر اس کے گہرے اثرات کو سمجھنے کے لیے حج کی حقیقت اور اس کے پیغام پرغور و فکر ضروری ہے۔ کسی مسلمان کو بار بار حج اور عمرہ کی سعادت حاصل ہونا اس کی خوش بختی اور خوش نصیبی ہے۔ لیکن صرف ایک بار ہرصاحب استطاعت پر فرض کرنے میں غور کا یہ پہلو ہے کہ زندگی میں ایک بار بھی ایمان اور احتساب کے ساتھ اس تجربے سے گزرنے سے عبودیت کے تمام ہی پہلوؤں سے ایک مسلمان ہم آغوش ہو سکتا ہے۔ اس کی زندگی میں وہ تبدیلی رُونما ہوتی ہے جو اسے ساری زندگی راہِ حق پر قائم رکھ سکتی ہے۔
حج عبادت کے جملہ آداب، اور اسلام کی عالم گیر اور ابدی و ازلی دعوت کے نمایاں ترین پہلوؤں کا ترجمان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے رُخ کو عبدیت کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے یہ عمل اگر شریعت کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ایک بار بھی ادا ہو جائے، تو یہ اتنا محرّک اور جان دار ہے کہ پھر ساری زندگی اس ڈگر پر بسر ہو سکتی ہے۔
حج کے لغوی معنی ’بیت اللہ کی زیارت کا ارادہ‘ کرنے کے ہیں۔ حج کو اس لیے ’حج‘کہا گیا ہے کہ اس میں مسلمان مقررہ ایام میں بیت اللہ کی زیارت اور حج کے مناسک ادا کرتا ہے۔ حج ہربالغ اور صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بارفرض کیا گیا ہے۔ جو شخص حج کی طاقت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا، وہ ایک عظیم ترین سعادت ہی سے محروم نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ایمان ہی محلّ نظر ٹھہرتا ہے:
وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًاوَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ(آل عمرٰن:97)
’’لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو، وہ اس کا حج کرے، اورجو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے، تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے پرواہ ہے‘‘۔
اس فرمان میں استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نبی کریم e نے بھی یہی ارشاد فرمایا:
عَنْ عَلِيٍّ t قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ e مَنْ مَلَکَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا(رواہ الترمذی: باب ما جاء فی التغلیظ فی ترک الحج)
سیدناعلی t بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولe نے فرمایا: ’’جو شخص زادِ راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے بیت اللہ تک پہنچ سکے اور پھر بھی حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر فوت ہونا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنے کے مترادف ہے‘‘۔
حج کا یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ یہ صرف بیت اللہ کی زیارت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اللہ کے برگزیدہ نبی ابوالانبیا سیدناابراہیم علیہ السلام اور ان کے عظیم بیٹے سیدنااسماعیل علیہ السلام اور انکی والدہ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام کی قربانی اور صبر وشکر کی یادیں وابستہ ہیں۔
حج کے مناسک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گھر اور کاروبار کو چھوڑنے، سفر کی صعوبتیں جھیلنے اور روز مرّہ کا لباس ترک کرکے احرام کا فقیرانہ لباس زیب تن کرنے سے لے کر طواف، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ میں رات بسر کرنا، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور سر کے بال منڈوانا تک ہر چیز میں عبادت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔ ان میں ہر عمل کا اسوۂ ابراہیمی کے کسی نہ کسی پہلو سے تعلق ہے۔ للہیت اور فداکاری کی شان ہر ہر عمل سے نمایاں ہے اور یہی حج کا اصل مقصداورفلسفہ ہے۔ اس پورے تجربے میں تعلیم و تربیت کا بڑا مؤثر سامان ہے، تاکہ بندہ یہاں سے یہ سبق لے کر جائے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور جناب محمد e کا راستہ ہی میرا راستہ، ان کا عمل ہی ہمارے لیے نمونہ اور اس راستے پر چلنا ہی ہماری زندگی کا مقصود ہے اور ہونا چاہیے اور اس بات کا عہد کرنا ہے کہ اس راہ میں ہمارے قدم کبھی سُست نہیں پڑیں گے۔
عالمگیر اجتماع
حج پر سوچ و بچار کا تیسرا پہلو اس کی عالمگیریت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حج تمام عبادات کا مرقع ہے۔ نماز کی ابتدا اگر نیت کی درستی، قبلے کے استقبال اور جسم کی طہارت سے ہوتی ہے اور اس کی روح ذکر الٰہی ہے، تو حج پہلے ہی قدم میں ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ بیت اللہ کی طرف چہرہ ہی نہیں اس کا قصد اور اس کی طرف سفر، اور پھر اس کا طواف اور اس میں سجدے، جسم اور روح کی طہارت کے ساتھ حج کی ابتدا سے لے کر طواف وداع تک ذکر ہی ذکر ہے۔ نماز اگر بے حیائی سے روکنے کا ذریعہ ہے، تو احرام اور حج بھی منکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِيْهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ١وَ لَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقرہ:197)
’’ حج کے مہینے متعین ہیں۔ اس لیے جو شخص ان میں حج کرے وہ نہ بے ہودہ باتیں کرے، نہ گناہ کرے اور نہ لڑائی جھگڑا کرے۔ ‘‘
احرام تمام مسلمانوں کے لیے مساوات کا بہترین نمونہ ہے اور امیر غریب، بادشاہ فقیر، سب ایک ہی لباس میں آجاتے ہیں۔ روزے کا مقصد بھی تقویٰ پیدا کرنا، ضبط نفس کی تربیت دینا، جسمانی مشقت برداشت کرنے کے لیے تیار کرنا ہے ۔ حج میں یہ سب کچھ موجود ہیں۔
اتحاد اور وحدتِ امّت
حج امت کی وحدت اور اتحاد، مسلمانوں کے ایک خاندان اور برادری ہونے کا ترجمان ہے۔ رنگ و نسل، وطن، زبان، سماجی اور معاشی فرق، غرض کہ ہر تفریق کے عملاً خاتمے کا نام حج ہے۔ ایک رب کے ماننے والے بیت اللہ کی زیارت اور طواف کے لیے دنیا کے گوشتے گوشے سے اپنے مرکز پر جمع ہوتے ہیں اور ایک جماعت بن کر ایک امام کی امامت میں ایک ہی تلبیہ کا ورد کرتے ہوئے دن رات گزارتے ہیں۔ تہذیب وتمدن کے سارے منفی اثرات ختم ہو جاتے ہیں اور ایک امّت کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ انقلابی مقصد ہے، جس کے لیے اس امت کو بنایا گیا ہے۔
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ (آل عمران:110)
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے اور بری باتوں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‘‘
مولانا سید سلیمان ندوی، سیرت النبی ﷺمیں اس پہلو کو اس طرح نمایاں کرتے ہیں:
’’مسلمان ڈیڑھ سو برس تک جب تک ایک نظم حکومت یا خلافت کے ماتحت رہے، یہ حج کا موسم ان کے سیاسی اور تنظیمی ادارے کا سب سے بڑا عنصر رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جس میں اُمور خلافت کے تمام اہم معاملات طے پاتے تھے۔ اسپین سے لے کر سندھ تک مختلف ملکوں کے حکام اور والی جمع ہوتے، اور خلیفہ کے سامنے مسائل پر بحث کرتے تھے اور طریق عمل طے کرتے تھے، اور مختلف ملکوں کی رعایا آکر اگر اپنے والیوں اور حاکموں سے کچھ شکایتیں ہوتی تھیں، تو ان کو خلیفہ کی عدالت میں پیش کرتی تھیں، اور انصاف پاتی تھیں۔
’’اسلام کے احکام اور مسائل جودم کے دم میں اور سالہا سال دُور دراز اقلیموں، ملکوں اور شہروں میں اس وقت پھیل سکے، جب سفر اور آمدورفت کا مسئلہ آسان نہ تھا۔ اس کا اصل راز یہ سالانہ حج کا اجتماع ہے اور خود اللہ کے رسولﷺ نے اپنا آخری حج جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، اسی اصول پر کیا۔ وہ انسان جو تیرہ برس تک مکہ میں یکہ و تنہا رہا، ۲۳برس کے بعد وہ موقع آیا جب اس نے ایک لاکھ سے زائد کے مجمع کو خطاب کیا اور سب نے سَمْعاً وَ طَاعَۃً کہا۔ آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدین رضي الله عنهم اور دوسرے خلفا کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ اعلام اسی طرح سال بہ سال جمع ہو کر احکام اسلام کی اشاعت کا فریضہ ادا کیا، اس کا نتیجہ تھا کہ نت نئے واقعات اور مسائل کے متعلق، دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلام کے جوابی احکام اور فتوے پہنچتے رہے تھے ‘‘۔(سیدسلیمان ندوی، سیرت النبیﷺ، پنجم)
حج کے اثرات اور نتائج
اس پہلو سے اگر غور کیا جائے تو جس طرح حفظِ قرآن، کتابت وتعلیم قرآن اور رمضان المبارک میں قرآن سے تجدید تعلق نے اللہ کی کتاب کو محفوظ رکھا ہے، اسی طرح حج نے اسلام کی اصل روح اور امت کی وحدت اور اخوت کو ایک تاریخی تسلسل میں پرو دیا ہے اور ایک ادارے کے طور پر یہ روایت اپنے مرکز سے پوری دنیا میں اور ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو رہی ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک ہوتی رہے گی۔
’’یہ کہنا بے جانہیں ہوگا کہ جس طرح رمضان کا مہینہ تمام اسلامی دنیا میں تقویٰ کا موسم پیدا کرتا ہے، اسی طرح حج کے ایام تمام روئے زمین میں اسلام کی زندگی اور بیداری پیدا کرتا ہے۔ اس طریقے سے شریعت بنانے والے علیم و حکیم نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ قیامت تک اسلام کی عالم گیر دعوت مٹ نہیں پائے گی۔ دنیا کے حالات کتنے ہی بگڑ جائیں اور مسلمان جس قدر بے عمل ہو جائیں، مگر یہ کعبے کامرکز اسلامی دنیا کے جسم میں اس طرح رکھ دیا گیا ہے، جیسے انسان کے جسم میں دل ہوتا ہے۔ جب تک دل حرکت کرتا رہے، آدمی مر نہیں سکتا، چاہے بیماریوں کی وجہ سے وہ ہلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ بالکل اسی طرح اسلامی دنیا کا یہ دل بھی ہر سال اس کی دُور دراز رگوں سے خون کھینچتا رہتا ہے اور پھر اس کو رگ رگ تک پھیلادیتا ہے۔ جب تک اس دل کی یہ حرکت جاری ہے اور جب تک خون کے چلنے کا سلسلہ جاری ہے، اس وقت تک یہ بالکل محال ہے کہ اس جسم کی زندگی ختم ہو جائے، خواہ بیماریوں سے یہ کتنا ہی زار ونزار ہو۔ (مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
مقالہ نگار رابرٹ بیانچی (Robert Bianchi) کے یہ جملے قابلِ غور ہیں:
’’دنیا کی تمام زیارتوں میں حج منفرد بھی ہے اور اہم ترین بھی۔ عیسائیت اور ہندومت کے قدیم اور اعلیٰ ترقی یافتہ بین الاقوامی زیارت کے نظاموں سے مقابلہ کیا جائے تو عقیدے کی مرکزیت، جغرافیائی ارتکاز اور تاریخی تسلسل کے لحاظ سے حج نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ (اوکسفورڈ انسائیکلوپیڈیا آف ماڈرن اسلامک ورلڈ )
حج عبادات کا مرقع ، دین کی اصلیت اور اس کی روح کا ترجمان ہے۔ یہ اسلام کے پانچویں رکن کی ادائیگی جو مقررہ ایام میں متعین اور مقدس مقامات پر ادا ہو تی ہے۔ یہ مسلمانوں کی اجتماعی تربیت اورملت کے معاملات کا ہمہ گیر جائزہ لینے کا وسیع وعریض پلیٹ فارم ہے۔ شریعت نے امت مسلمہ کو اپنے اور دنیا بھر کے تعلقات ومعاملات کا تجزیہ کرنے کے لیے سالانہ بین الاقوامی اسٹیج مہیا کیا ہے تاکہ وہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے معاملہ میں اپنی کمی بیشی کا احساس کرتے ہوئے توبہ و استغفار اور حالات کی درستگی کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں۔ جہاں اپنے کردار و گفتار کا جائزہ لینا ہے اس کے ساتھ ہی ملتِ کافرہ کے حالات واقعات اور ان کے فکرو عمل پر کڑی نظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔یہ احتساب و عمل کی ایسی تربیت گاہ ہے جس سے مسلمانوں کو بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ یہی وہ سوچ و حکمت تھی کہ جس کے لیے سیدنا عمر فاروقt حج کے موقع پر مملکت کے گورنروں اور اعلیٰ حکام کا اجلاس منعقد کرتے اور ان علاقوں کے عمائدین سے وہاں کے حالات و واقعات اور حکام کے طرز عمل کے بارے میں استفسار فرماتے اور موقع پر ہدایات جاری کرتے تھے۔ حج صرف چند مناسک کی ادائیگی اور فقط بڑا اجتماع منعقد کرنے کا نام نہیںبلکہ اس میں تو افکار و اعمال کی انفرادی اور اجتماعی اصلاح کا پروگرام دیا گیا ہے اسی کے پیشِ نظر نبی کریم e نے جب حجاج کرام کو دھکم پیل اور حج کے مقصد سے ہٹتے ہوئے محسوس کیا تو آپe ہاتھ میں کوڑا لہراتے ہوئے لوگوں سے یہ فرماتے جارہے تھے:
عَلَیْکُمْ بِالسَّکِیْنَۃِ فَإنَّ الْبِرَّ لَیْسَ فِیْ الْاِیْضَاعِ
’’اے حجاجِ کرام ! سنجیدگی اور وقار اختیار کیجیے ،نیکی اُچھلنے کودنے کا نام نہیں۔‘‘(رواہ البخاری: باب أَمْرِ النَّبِیِّeبِالسَّکِینَۃِ عِنْدَ الإِفَاضَۃِ)
حج شوکت ِاسلام کے بھرپور مظاہرے کا نام ہے۔ اس لیے اسلام کی عظمتِ رفتہ کو حاصل کرنے کے لیے امت مسلمہ کواپنے کردار کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔
حق وباطل کی رزم گاہیں
حضرات ہر مسلمان جذبات محبت اور غیر ت اسلام کے پیش نظر بدر و احد کے معرکوں کا جغرافیائی اور نظریاتی نقشہ دیکھنا چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی غیر ت میں اضافہ کر سکے۔یہ ایسی رزم گا ہیں ہیں جہاں عساکر اسلام نے جرأت وبہادری کے وہ کارنامے سر انجام دیئے جنہیں سن کر دنیا آج بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے یہیں تو تاریخ کے آئینہ میں شیر اسلام سیدناحمزہ t کفار کو للکارتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ یہی تو وہ مورچے ہیں کہ جہاں ایک مجاہد کو سینے پر تیر لگا تو وہ یہ کہتے ہوئے زمین پر گر پڑا تھا کہ اللہ کی قسم میں تو کامیاب ہو گیا۔
فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ (رواہ البخاری: باب مَنْ یُنْکَبُ فِی سَبِیلِ اللہِ)
یہ میدان احد ہے جس میں دختران اسلام مجاہدین کو پانی پلاتے اور مرہم پٹی کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ وہ غار بھی تو یہیں واقع ہے کہ جب ابو سفیان نے کفر کا سربراہ ہونے کے ناطے سے اپنی عارضی کامیابی پر اتراتے ہوئے یہ نعرہ بلند کیا تھا :
أُعْلُ ھُبُل آج ھبل (بت ) پہلے سے بہت زیادہ بلند وبالا ہو گیا۔ تو نبی اکرمeنے اس شرکیہ نعرے کے مقابلے میں اپنے قریب کے ساتھیوں کو فرمایا تھا کہ خاموشی کی بجائے جواب دیجئے :
اَللہُ أَعْلٰی وَأَجَلُّ (رواہ البخاری: باب مَا یُکْرَہُ مِنَ التَّنَازُعِ)
’’ اللہ ہی سب سے بلند وبالا اورجلالت وجبروت کا مالک ہے۔‘‘
تاریخ کے دریچوں میں اب بھی معوذاور معاذwابوجہل کو جہنم میں دھکیلتے نظر آتے ہیں ،یہی وہ قطعہ ہے جس پر اسلام کے عظیم جرنیل، اپنے قبیلے کے سربراہ اور نبیeکے انتہا درجے کے جانثار حضرت سعدبن ربیعہ t زندگی کے آخری الفاظ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ :اے جینے والو نبی اکرم eکی خدمت میں میرا سلام پیش کرنا اور میرے قبیلے کے جوانوں کو یہ پیغام دیناکہ تمہارے ہوتے ہوئے اگر نبیe کی ذاتِ اطہر کو کوئی نقصان پہنچاتو قیامت کے دن کیا منہ دکھاؤ گے۔ (صاحب مضمون کی کتاب :آپe کا حج )
حج کا پیغام:
نبی معظم eوادی عرفات پہنچے اور لوگوں کو خطبہ دیا اورفرمایا:
اِنَّ دِمَاءَکُمْ وَاَمْوَالَکُمْ حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَہْرِکُمْ ھٰذَا فِیْ بَلَدِکُمْ ھٰذَااَ لَا کُلُّ شَیْئٍ مِّنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمَیَّ مَوْضُوْعٌ وَّدِمَآءُ الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ وَاِنَّ اَوَّلَ دَمٍ اَضَعُ مِنْ دِمَآءِ نَا دَمُ ابْنِ رَبِیْعَۃَ ابْنِ الْحَارِثِ وَکَانَ مُسْتَرْضَعًا فِیْ بَنِیْ سَعْدٍ فَقَتَلَہُ ھُذَیْلٌ وَرِبَا الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعٌ وَاَوَّلُ رِبًا اَضَعُ مِنْ رِّبَانَا رِبَا عَبَّاسٍ ابْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ فَاِنَّہُ مَوْضُوْعٌ کُلُّہُ فَاتَّقُوااللّٰہَ فِی النِّسَآءِ فَاِنَّکُمْ اَخَذْتُمُوْھُنَّ بِاَمَانِ اللہِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوْجَھُنَّ بِکَلِمَۃِ اللّٰہِ وَلَکُمْ عَلَیْھِنَّ اَنْ لَّا یُوْطِیْنَ فُرُشَکُمْ اَحَدًا تَکْرَھُوْنَہُ فَاِنْ فَعَلْنَ ذٰلِکَ فَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرَّحٍ وَلَھُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُھُنَّ وَکِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَقَدْتَّرَکْتُ فِیْکُمْ مَّا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہُ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ کِتَابُ اللہِ وَاَنْتُمْ تُسْئَلُوْنَ عَنِّیْ فَمَا اَنْتُمْ قَائِلُوْنَ قَالُوْا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِاِصْبَعِہِ السَّبَّابَۃِ یَرْفَعُھَا اِلَی السَّمَآءِ وَیَنْکُتُھَا اِلَی النَّاسِ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ(رواہ مسلم: باب حجۃ النبیﷺ)
’’تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر حرام ہیں جس طرح یہ دن ‘ یہ مہینہ اور یہ شہر حرام ہیں ۔ دور جاہلیت کے تمام امور میرے قدمو ں کے نیچے مسل دئیے گئے ہیں۔ دورجاہلیت کے تمام خون معاف ہیں اس سلسلے میں سے سب سے پہلے میں ربیعہ بن الحارث کے بیٹے کا خون معاف کرتا ہوں۔ جس کو رضاعت کے دوران قبیلہ بنی سعد کے ہذیل نے قتل کردیا تھا ۔ زمانۂ جا ہلیت کا ہر قسم کا سود ختم کرتا ہوں۔ سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کا سود ختم کیا جاتا ہے۔ لوگو! عورتوں کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ تم اللہ کے کلمہ کی بدولت انہیں اپنے نکاح میں لائے ہو اوراللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی شرم گاہوں کو تم نے حلال کیا۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستروں میں کسی کو نہ آنے دیں تم جن سے کراہت کرتے ہو ۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کو سزادو لیکن زیادہ شدید نہیں اور ان کا تم پر حق ہے کہ تم انہیں اپنی استعداد کے مطابق نان ونفقہ اور لباس مہیا کرو ۔ بلاشبہ میں تمہارے درمیان اللہ کی کتا ب (اور اپنا طریقہ) چھوڑے جا رہا ہوں اگراس کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے ۔ تم سے میرے متعلق سوال کیا گیا تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟ صحابہ y نے جواب دیا ‘ بلاشبہ آپ e نے ابلاغ ‘ فرض کی ادائیگی اور نصیحت وخیر خواہی کا حق ادا کر دیا ۔ آپ نے اپنی انگشتِ شہادت آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا ‘ بارالٰہا! گواہ رہنا، اے اللہ گواہ رہنا ۔ آپ نے یہ الفاظ تین بار دوہرائے ۔ ‘‘
۔۔۔