جن اسلامی موضوعات پر ایک عرصے سے علمی حلقوں میں بحث مباحثہ جاری ہے، ان میں عورت کے حقوق کا موضوع متعدد پہلوؤں سے بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے،
اسلام نے عورت کو جو حقوق دئیے ہیں، مسلم معاشرے میں اگر ان کا احترام پیدا ہو جائے، اور وہ ٹھیک ٹھیک ادا کیے جانے لگیں، تو وہ مسائل ہی شاید پیدا نہ ہوں، جن کا حوالہ دے کر پورے اسلامی قانون ہی کو بدنام کرنے اور اسے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے، اگر مسلمان خود عورت کے حقوق ادا نہ کریں تو وہ کس منہ سے دوسروں سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ حقوق ان کے لئے پوری طرح واجب الاحترام ہیں، اس میں کسی قسم کی تبدیلی کو وہ گوارا نہیں کر سکتے ان کی بے عملی خود اس بات کی دلیل بن جائے گی کہ اس کی تقدیس ختم ہو چکی ہے اور اس کی کم از کم عملی اہمیت باقی نہیں رہی،
عورت کے حقوق کے متعلق پھیلائی ہوئی سر فہرست غلط فہمیوں میں سے ایک اسلام میں بیٹی کی جبری شادی یا پسند نا پسند کے متعلق ہے، اس غلط فہمی کے اسباب میں سے دشمنوں کا جھوٹا اور معاندانہ پروپیگنڈا، بعض مسلمانوں کی اس بارے میں بے خبری، اور بعض دوسرے مسلمانوں کی اسلامی تعلیمات سے بے اعتنائی اور بے پرواہی ہے،اور اسی رویے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار ہو چکا ہے، جہاں ایک جانب شرم و حیا اور اخلاقیات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو ٹھکراتے ہوئے، ہماری بچیاں آزادی کے خوبصورت نعرے سے مغلوب ہوکر ولی کی اجازت کے بغیر اور گھروں سے بھاگ کر عدالتوں میں نکاح کر رہی ہیں، وہیں دوسری جانب بھی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر والدین اپنی مرضی مسلط کرتے ہوئے زبردستی بچیوں کی شادی کر دیتے ہیں، اور وہ تمام عمر اس کو خاموشی سے بھگتی ہے، ایسے حالات میں ضروری ہے کہ فریقین اپنے حقوق وفرائض سے آگاہ ہوں، اور انہیں نبھانے کی کوشش کریں،اور اس کے لیے طریقہ کار رسول اللہ ﷺ کے بیان کردہ احکامات سے لینا چاہیے، آپ ﷺ نے نکاح کے جو اصول و ضوابط ذکر فرمائے ہیں، ان میں سے ایک لڑکی کی رضا مندی ہے،اور لڑکی کی رضامندی اس کے نکاح میں ضروری ہے، چاہے وہ بیوہ ہو یا کنواری۔جیساکہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لاَ تُنْكَحُ الأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ، وَلاَ تُنْكَحُ البِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ إِذْنُهَا؟ قَالَ: أَنْ تَسْكُتَ (صحیح البخاری:5136)

کہ بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے، اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کنواری عورت اذن کیونکر دے گی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ وہ خاموش رہ جائے۔ یہ خاموشی اس کا اذن سمجھی جائے گی۔
اسی طرح سنن ابو داؤد کی ایک حدیث کے مطابق
ایک بالغ لڑکی رسول اللہ ﷺ خدمت اقدس میں حاضر ہوئی۔ اور کہا اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کی شادی کر دی ہے، نبی کریم ﷺنے اسے اختیار دے دیا (کہ نکاح رکھو یا توڑ دو)۔
​یہاں پر یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بیٹی سے اجازت
کب لی جائے، عام طور پر تقریب نکاح کے موقع پر بیٹی
کے والد یا ماموں وغیرہ اس سے اجازت طلب کرتے ہیں، اگر اس سے بیشتر بیٹی سے اجازت لی جا چکی ہے، تو شاید اس موقع پر طلب کردہ اجازت کی شرعی حیثیت ایک رسمی کارروائی سے زیادہ نہ ہو، لیکن اگر اس سے بیشتر اجازت نہ لی گئی ہو تو یہ موقع اجازت طلب کرنے کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ رشتہ کی ناپسندیدگی کی بناء پر اگر لڑکی اس وقت انکار کر دے، تو یہ گھر والوں کے لیے پریشانی کا موجب ہو گا، اور اگر وہ اپنی ناپسندیدگی کے باوجود اظہار نہ کرے، تو اس کا حق مجروح ہو گا، لہٰذا درست طریقہ یہ ہے کہ رشتہ طے کرنے سے بیشتر بیٹی سے اجازت لی جائے، اور رضا مندی ظاہر کرنے پر ہی معاملہ کو آگے بڑھایا جائے، وگرنہ وہیں ختم کر دیا جائے،
لیکن یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ عورت بذات خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی ،کیونکہ شرعاً عورت نہ اپنی ولی بن سکتی ہے اور نہ ہی کسی دوسری عورت کی ولی بن سکتی ہے۔اور ولی کے بغیر نکاح واقع ہی نہیں ہوتا۔لہذا اگر لڑکی اپنی مرضی سے گھر سے فرار اختیار کر کے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیتی ہے، تو اس کا نکاح باطل قرار پاتا ہے ۔ عورت کے لئے اولیاء کی اجازت کے مسئلہ میں کتاب وسنت سے دلائل درج ذیل ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ

اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام، مشرک سے بہتر ہے۔ اگر چہ تمہیں بہت پسند ہو۔(البقرۃ : 221)
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد القرطبی رقم فرماتے ہیں:
‘یہ آیت کریمہ اس بات پر بطور نص کے دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا امام محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نکاح کا بذریعہ ولی منعقد ہونا اللہ کی کتاب میں موجود ہے پھر انہوں نے (وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ )آیت کریمہ پڑھی۔ (الجامع الاحکام القرآن۳/۴۹)
مولانا عبدالماجد دریاآبادی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:
(وَلَا تُنْكِحُوا) خطاب مردوں سے ہے کہ تم اپنی عورتوں کو کافروں کے نکاح میں نہ دو۔ حکم خود عورتوں کو براہ ِ راست نہیں مل رہا ہے کہ تم کافروں کے نکاح میں نہ جاؤ ۔ یہ طرزِ خطاب بہت پُر معنی ہے۔ صاف اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ مسلمان عورتوں کا نکاح مردوں کے واسطہ سے ہونا چاہیے۔ (تفسیر ماجدی ص۸۹)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کی توضیح فرما دی ہے کہ مسلمان عورت کے نکاح کا انعقاد اس کے ولی کے ذریعے ہونا چاہیے اس لئے فرمایا:
(وَلَا تُنْكِحُوا)کہ تم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو اگر ولی کا نکاح میں ہونا لازم نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس انداز سے خطاب نہ فرماتا بلکہ عورتوں کو حکم دیتا کہ تم ان کے ساتھ نکاح نہ کرو۔ حالانکہ ایسے نہیں فرمایا۔
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ (البقرۃ : 232)

‘اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور وہ اپنی عدت کو پورا کر لیں تو انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے نہ روکو جب وہ آپس میں اچھی طرح راضی ہو جائیں۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی الباری شرح صحیح بخاری۹/۹۴ رقمطراز ہیں:
‘یہ آیت ولی کے معتبر ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور اگر ولی کا اعتبار نہ ہو تا تو اس کو روکنے کا کوئی معنی باقی نہیں رہتا۔ اگر معقل کی بہن کے لئے اپنا نکاح خود کرنا جائز ہوتا تو وہ اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور اختیار جس کے ہاتھ میں ہو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی نے اس کو روک دیا۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
‘اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں اس لئے کہ معقل بن یسار کی بہن طلاق یافتہ تھیں اور اگر ولی کے بغیر معاملہ اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ اپنا نکاح خود کر لیتی اور اپنے ولی معقل کی محتاج نہ ہوتی اور اس آیت کریمہ میں (فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ)میں خطاب اولیاء کو ہے نکاح میں عورت کی رضا مندی کے باوجودمعاملہ مردوں پر موقوف ہے۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ کا شان نزول یہ ہے کہ معقل بن یسار کی بہن کو ان کے خاوند نے طلاق دے دی پھر عدت کے پورا ہوجانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح کرنے پر راضی ہو گئے تو معقل بن یسار نے اپنی بہن کا نکاح دینے سے انکار کر دیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مسئلہ سمجھا دیا کہ عورت کے ولی کا حق اس کے نکاح کے انعقاد میں موجود ہے اگر ایسی بات نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ مردوں کو منع نہ کرتا۔ مردوں کو خطاب کرنے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ حق ولایت اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لئے رکھا ہے اور یہی بات امام بغوی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل۲/۱۱۲ امام ابنِ قدامہ نے المغنی۷/۳۳۸ اور امام ابنِ کثیر نے اپنی تفسیر۱/۳۰۲ میں لکھی ہے اور اسی بات کو امام طبری نے اپنی تفسیر طبری ۲/۴۸۸ میں صحیح قرار دیا ہے۔(فتح الباری کتاب النکاح ٩٠٩)
اس مسئلہ کی مزید وضاحت کئی ایک احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
دورِ جاہلیت میں ولی کی اجازت کے ساتھ نکاح کے علاوہ بھی نکاح کی کئی صورتیں رائج تھیں جن کی تفصیل صحیح بخاری میںسیدہ اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہےوہ ارشاد فرماتی ہیں:
‘ان میں سے ایک نکاح جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کہ آدمی دوسرے آدمی کے پاس اس کی زیر ولایت لڑکی یا اس کی بیٹی کے لئے نکاح کا پیغام بھیجتا ۔ اسے مہر دیتا پھر اس سے نکاح کر لیتا۔
پھر نکاح کی کچھ دوسری صورتیں ذکر کیں جو کہ ولی کی اجازت کے بغیر رائج تھیں آخر میں فرمایا:
‘جب محمدﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا گیا تو آپ ﷺ نے جاہلیت کے تمام نکاح منہدم کر دیئے سوائے اس نکاح کے جو آج کل رائج ہے۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں نکاح کی صرف ایک صورت باقی رکھی جو کہ ولی کی اجازت پر مبنی ہے اور ولی کی اجازت کے علاوہ نکاح کی تمام صورتوں کو کالعدم کر دیا۔ لہٰذا جو نکاح ولی کی اجازت کے بغیر کیا جائے وہ جاہلیت کے نکاح کی صورت ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
اسی طرح ‘سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔ (ابو داؤد مع عون۲/۱۰۱،۱۰۲۔ ترمذی۴/۲۲۶، ابنِ ماجہ۱/۵۸۰، دارمی۲/۲۱، ابنِ حبان (۱۲۴۳)
سیدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے علاوہ تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس حدیث کے راوی ہیں اور اللہ کے نبیﷺ کا یہ فرمان عالی شان اس بات پر نص قطعی کا حکم رکھتا ہے کہ ولی کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ‘جس بھی عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے۔ آپ ﷺنے یہ بات تین دفعہ فرمائی اگر اس مرد نے اس کے ساتھ صحبت کر لی تو عورت کو مہر دینا ہے اس وجہ سے کہ جو اُس نے اس کی شرمگاہ کو حلال سمجھا۔ اگر وہ (اولیا) جھگڑا کریں تو جس کا کوئی ولی نہ ہو حاکم اس کا ولی ہے۔(شرح السنہ ۲/۳۹، ابو داؤد۶/۹۸، ترمذی۴/۲۲۷، ابن ماجہ۱/۵۸، دارقطنی۳/۲۲۱، حاکم۲/۱۶۸، بیہقی۷/۱۰۵)
اس حدیث کی شرح میں محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں:
‘یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔

آگے مزید فرماتے ہیں:

‘حق یہی ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے جیسا کہ اس پر باب کی احادیث دلالت کرتی ہيں۔ (عون المعبود ۲/۱۹۱، طبع ملتانی)
علاوہ ازیں حدیث عائشہ رضی اللہ عنھا میں ’’ایّما‘‘کلمہ عموم ہے جس میں باکرہ ‘ثیبہ چھوٹی بڑی ہر طرح کی عورت داخل ہے کہ جو بھی عورت ولی کے بغیر اپنا نکاح از خود کرے اس کا نکاح باطل ہے ۔ رسول مکرم ﷺ کی یہ حدیث اس بات پر نص و قطعی ہے کہ ایسا نکاح باطل ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں:
‘اس مسئلے میں نبی کریمﷺ کی حدیث کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ‘پر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سیدناعمر بن خطاب، سیدناعلی بن ابی طالب ، سیدناعبداللہ بن عباس اور سیدناابو ہریرہ کا عمل ہے اور اسی طرح تابعین فقہا میں سے سعید بن مسیب ، حسن بصری ، شریح، ابراہیم النخعی اور عمر بن عبدالعزیز وغیرہ اور امام ثوری ، امام اوزاعی، امام عبداللہ بن مبارک، امام مالک ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحق بن راہویہ رحمة اللہ علیہم کا بھی یہی موقف ہے۔ (ترمذی ۳/۴۱۰،۴۱۱)
ثابت ہوا کہ نکاح کے لیے ولی کی اجازت او ررضامندی ضروری ہے قرآن وحدیث کی نصوص سے واضح ہے کہ کسی نوجوان لڑکی کو یہ اجازت حاصل نہیں ہے کہ وہ والدین کی اجازت اور رضامندی کے بغیر گھر سے راہ ِفرار اختیار کرکے کسی عدالت میں یا کسی اور جگہ جاکر از خود کسی سے نکاح کر لے ۔ایسا نکاح باطل ہوگا نکاح کی صحت کے لیے ولی کی اجازت ،رضامندی اور موجودگی ضروری ہے، اسی طرح والدین کو بھی قرآن وسنت کے احکامات کو پیش نظر رکھنا چاہیے، اور اپنی مرضی اولاد پر مسلط نہیں کرنی چاہیے، اور نہ ہی اسے اپنی اَنا کا مسئلہ بنانا چاہیے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے دین پر کما حقہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یا رب العالمین
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے