اسلام قبول کر لینے والے مسلمان پر زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مضبوط نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ جس کے اندر رہنا ایک مسلمان کو بہت ضروری ہے۔ اللہ رب العالمین کی طرف سے ہم انسانوں کو دی گئی مہلت بہت محدود ہے اور اس میں گزر بسر کرنے کے لیے مکمل سامان مہیا کر دیا گیا ہے پھر یہ انسان کے تمام معاملات کو اسی کے تحت گزارنےکا تقاضا بھی کرتی ہے وہ انسان کی معیشت ہو معاشرت ہو عبادات ہوں اخلاقیات ہوں یا معاملات، خواہ دنیا و آخرت کے تمام شعبوں سے منسلک کوئی بھی کام ہو انسان کو اپنی خاص حد میں رہ کر سر انجام دینا ہے اور اسی پر اس کا حساب کتاب ہے اور اسی کے نتیجے میں اس کی جزا و سزا ہے جس کے بعد وہ اپنا مستقل ٹھکانہ پاتا ہے۔ اب یہ ہم انسانوں اور خصوصا مسلمانوں کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنا آپ بہتر بنائیں اور اپنے لیے مستقل ٹھکانے کو پرسکون کریں کیونکہ اس کو چننے کا اختیار بھی رب کائنات نے عقل سلیم عطا فرما کر انسانوں کو دے دیا۔ پھر اسی بنیاد پر وہ اپنے لیے ثواب اور گناہ کا راستہ چنتا ہے اور اسی کے مطابق اس کا صلہ پاتا ہے۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کی معاشرتی صورتحال کا شدید نقصان ہو رہا ہے جس میں سوشل میڈیا بھر پور کردارادا کر رہا ہے اور اسی کا حصہ موبائل فونز جن میں یہ سہولت بآسانی میسر ہے ۔ سوشل میڈیا کے فوائد بھی ہیں لیکن اس سے زیادہ تر نقصانات ہو رہے ہیں جن میں سب سے بڑا نقصان معاشرت و معیشت اور حقوق کا ہو رہا ہے۔ آزادی اظہار رائے ایک انگلی کے کلک کی دوری نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے اور ہر ایک کو بولنے کہنے لکھنے کی بھونڈی آزادی کا نعرہ لگا کر بداخلاق و بدتمیز اور پھر بدکردار بھی کر دیا۔
اسی سلسلے کی اک کڑی یوٹیوب بھی ہے جس کا آج کل بہت زیادہ زور و شور ہے ہر دوسرا فرد اس پر اپنا چینل بنا کر اسے بے دریغ استعمال کر رہا ہے جبکہ اس کو نہ اچھے کی تمیز نہ بُرے کی اور نہ ہی کسی بھی بڑے چھوٹے کی اور نہ کسی مذہب و کردار کی۔
سوشل میڈیا کی یہ سہولت آخر کس شے کا نام ہے ؟ اس کا مختصر تعارف ذیل میں دینے کے ساتھ ساتھ اس کے فوائد و نقصانا ت اور طریقہ استعمال ذکر کیا جائے گا۔ دنیا کی کوئی بھی چیز ہو اس کے دو پہلو ہوتے ہیں جس میں سے ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی۔
اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں اشرف المخلوقات بنایالیکن ہم ہیں کہ یہ بھول کر بھی نہیں سوچتے کہ آخر ہر چیز کا منفی پہلو ہی کیوں اجاگر کرتے ہیں۔ جبکہ وہ چیز بنانے والا یا ایجاد کرنے والا بلکہ یہاں تک کہ اس کو عام کرنے والا اس کا مثبت پہلو پھیلانا چاہتا ہے لیکن جب وہ اپنا عروج پا لیتی ہے تو پھر اس کےمنفی پہلو ہی اسے مشہور کرتے ہیں اور اسی کو تھام کر سب اپنا آپ تباہ کر گزرتےہیں۔
یوٹیوب کا تعارف اور بانی:
یوٹیوب وڈیوز پیش کرنے والی ایک ویب سائٹ ہے جہاں صارفین اپنی وڈیوز شامل اور پیش کر سکتے ہیں۔
پے پال کے تین سابق ملازمین نے فروری 2005ء میں یوٹیوب قائم کی۔ نومبر 2006ء میں گوگل انکارپوریٹڈ نے1.65ارب ڈالر کے عوض یوٹیوب کو خرید لیا اور اب یہ گوگل کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے۔ ادارے کے صدر دفاتر سان برونو، کیلیفورنیا، امریکہ میں واقع ہیں۔ یوٹیوب صارفین کے وڈیو مواد کو دکھانے کے لیے ایڈوب کی فلیش وڈیو ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ یوٹیوب پر پیش کردہ بیشتر مواد انفرادی طور پر اس کے صارفین کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے البتہ سی بی ایس، بی بی سی، یو ایم جی اور دیگر ابلاغی ادارے بھی یوٹیوب شراکت منصوبے کے تحت اپنا کچھ مواد پیش کرتے ہیں۔
غیر مندرج صارفین یوٹیوب پر نہایت آسانی سے وڈیوز دیکھ سکتے ہیں جبکہ مندرج صارفین کو لامحدود وڈیوز پیش کرنے کی اجازت ہے۔ ممکنہ طور پر مواد 18 سال سے زائد عمر کے مندرج صارفین کے لیے دستیاب ہے۔ یوٹیوب کی شرائط کے تحت رسوائی کا باعث بننے والا، فحش، حقوق دانش کی خلاف ورزی کرنے والا اور جرائم پر ابھارنے والا مواد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ اس مذکورہ شرط پر یوٹیوب پورا عمل کرنے سے کتراتا رہا ہے البتہ اب اس بنائے قانون پر عمل کروانے میں سختی برتنا شروع کر دی گئی ہے۔
مندرج صارفین کے کھاتے «چینلز» کہلاتے ہیں۔
یوٹیوب انگریزی کے علاوہ 16 سے زائد زبانوں میں سہولیات فراہم کرتی ہے جن میں عربی، اردو، ہسپانوی، ولندیزی، چینی سمیت دیگر شامل ہیں۔
کاروباری لحاظ سے مزید تفصیل جو کہ ویکی پیڈیا پر میسر ہے وہ کچھ یوں ہے۔
یوٹیوب نے اپنے کاروبار میں مزید ترقی کرتے ہوئے اس پر مزید کئی سارے فیچرز متعارف کروا دیئے ہیں۔ یوٹیوب اپنا بزنس مندرج صارفین کے ساتھ شراکت داری پر کرتا ہے۔ جس میں ویڈیوز، اشتہارات، چلنے والے گھنٹے، پسند کرنے والے، پھیلانے والے اور لکھنے والے کےذریعے مخصوص طریقہ کار پر محدود آمدن دی جاتی ہے۔ جس کےلالچ میں چینلز کی بھرمار ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ہر دوسرا شخص یوٹیوب کے بزنس کا حصہ بنا ہوا ہے اور وہ اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لاتا ہے۔ یوٹیوب اپنا حالیہ فیچر یوٹیوب کڈز کے نام سے بچوں کے متعلق لایا ہے جس کی پذیرائی کا اندازہ کچھ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ مختصر ترین وقت میں اس کو استعمال کرنے والوں کی تعداد کم و پیش 50 ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ بچوں کے لیے یوٹیوب کی یہ کوشش اچھی تو ہو سکتی ہے لیکن اس کا نقصان بچوں کی نشوونما کے ساتھ ان کے معاشرتی و خاندانی تعلقات پر ضرور اثرا نداز ہو گا۔
اور اسی کے ساتھ ان صارفین کےلیے سہولت مہیا کر رہا ہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت انتہائی سہولت ہے اور اس نئے فیچر کا نام یوٹیوب گورکھا ہے۔
یوٹیوب کڈز ایپ کے تین اہم فیچرز:
والدین کو بچوں پر مزید کنٹرول فراہم کرنے کے لیے یوٹیوب کڈز ایپ نے اپنے تین نئے فیچرز کا اعلان کردیا ہے۔
بچوں کے فن کے لیے بنائی اس ایپ میں والدین کو بچوں کے لیے مواد کا انتخاب کرنے کے لیے یہ تین نئے فیچرز دیے جارہے ہیں، جن میں تلاش فعال یا غیر فعال، پیرینٹل کنٹرول، ٹائمر، کلیکشنز، پیرنٹ اپرووڈ کنٹینٹ، اور ’سرچ آف‘ شامل ہیں۔
تلاش یعنی سرچ کو اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے جس سے نگرانی کرنے میں مزید آسانی مہیا ہوتی ہے۔
پیرینٹل کنٹرول کے ذریعے ایپ میں پاسورڈ یعنی لاک لگایا جا سکتا ہے جس کے بعد اسی کوڈ کو جاننے والا ہی اس کا استعمال کر سکتا ہے۔
اس ایپ میں ٹائمر کی سہولت بھی مناسب و موزوں ہے کہ جس سے ایک سے 120 منٹ تک ویڈیو چلنے کا وقت مقرر کیا جا سکتا ہے جس سے وہ ویڈیو اپنا مقرر کیا گیا دورانیہ مکمل کر کے از خود نظام کے تحت بند ہو جائے گی۔
ایپ میں موجود کلیکشن فیچر سے والدین ان موضوعات اور چینلز کا انتخاب کرسکتے ہیں جو وہ اپنے بچوں کو دکھانا چاہتے ہیں۔
ایک فیچر پیرنٹ اپرووڈ کنٹینٹ میں والدین کو اس بات کا حق دیا جارہا ہے کہ وہ پہلے خود ہر ویڈیو کو اپنے بچوں کے لیے منتخب کرسکتے ہیں، جبکہ سرچ آف فیچر میں وہ اس بات کی یقین دہانی کرسکتے ہیں کہ ان کے بچے اس ایپ میں کیا کیا سرچ کریں؟
یوٹیوب کڈز کے پروڈکٹ ڈائیریکٹر جیمز بیسر کا اس حوالے سے جاری اپنے بیان میں کہنا تھا کہ جب ہم نے تین سال قبل یوٹیوب کڈز ایپ لانچ کی، تو ہمارا مقصد تھا کہ دنیا بھر میں بچے ایسی ویڈیوز دیکھ سکیں جس سے وہ کچھ مثبت سیکھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا فوکس نئے فیچرز سامنے لانے میں بھی ہے، جو والدین کو اپنے بچوں پر مزید کنٹرول دے سکیں، تاکہ وہ ان ویڈیوز کا اپنے بچوں کے لیے انتخاب کریں جو ان کے لیے محفوظ ہیں۔
کلیکشنز فیچر کے ذریعے یوٹیوب پارٹنرز ایسے چینلز کو اس ایپ پر سامنے لائیں گے جن سے بچوں کو فن اور کھیل کے حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دور میں انسان کو بہت ساری آسانیاں اور ترقیاں ملی ہیں لیکن اس کے ساتھ جہاں ان کا فائدہ ملا وہیں ان کا نقصان بھی ملا اور کچھ نقصان ہم نے خود ساختہ بنا لیا کیونکہ اس مثبت پہلو کو چھوڑ کر منفی رجحان زیادہ لگا بیٹھے۔ جبکہ مسلمان کا اصل حق تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ان سب نعمتوں پر مزید شکر گزار بندہ بنتا لیکن وہ ناشکری کے ساتھ ساتھ راہ حق سے بھی پیچھے رہنے لگا۔
اللہ رب العالمین کا فرمان عالی شان ہے کہ
وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا
اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ (سورۃ ابراہیم 34)
یوٹیوب کے معاشرہ پر اثرات:
جدید دور کے جدید تقاضوں کو پورا کرنے جیسی بھونڈی جستجو میں ہم اپنی اخلاقیات کا سب سے زیادہ نقصان کر چکے ہیں۔ اسی میں یوٹیوب کی جدید بااثر اور آسان ٹیکنالوجی سے فائدہ حاصل کرتے کرتے نقصان کر بیٹھے۔ جیسا کہ اس کے زیر اثر ہر دوسرا بندہ آ چکا ہے اسی طرح اس کے برے اثر ات دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ اگر اس میں بچوں کی بات کی جائے تو اس میں ان کی تربیت ہی اسی کے ذریعے ہو رہی ہے جس کی قطعا یہ گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ وہ مکمل اچھی تربیت پا رہے ہیں کیونکہ یوٹیوب کا پلیٹ فارم برائی پھیلانے کا زیادہ کام کررہا ہے۔
اسی طرح جنونی نوعیت کی بات کی جائے تو یہ بھی اسی کی مرہون منت ہو رہی ہےجیسا کہ آئے روز خبروں کی زینت بنتا رہتا ہے کہ ویڈیو بنانے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اسی طرح چینلز کی دوڑ میں سبسکرائبربڑھانے لائیکس لینے کے لیے اندھے ہوئے چلے جاتے ہیں جس کی بنیاد میں نہ اخلاقیات ہوتی نہ سچ ہوتا نہ ایمانداری کا عنصر باقی رہتا۔
عوام کو گمراہ کرنے کا مکمل سامان اس پر مہیا ہوتاہے۔ جس میں کوئی حکیم بنا بیٹھا ہوتا ہے اور کوئی سنگر تو کوئی نیوز اینکر تو کوئی مفتی مولانا و محقق تو کوئی دانشور و ادیب۔ غرضیکہ ہر آئٹم اس راہ پر عام پایا جاتا ہے۔ جس سے برائی زیادہ پھیلتی ہے۔ اس میں قطعا کوئی شائبہ نہیں کہ یہ ایک مفید راہ بھی ہے لیکن ہم اس کو اس پیرائے میں نہ استعمال کرتے ہیں اورنہ ہی اس کا اسی کے مطابق فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
البتہ منفی اثرات زیادہ حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اس تباہی میں صرف اخلاق، معاشرہ، معیشت، معاشرت، تہذیب و تمدن ہی نہیں بگڑتی بلکہ دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی اجاڑ لیتے ہیں۔ اپنی نسل کو بھی تباہ کر لیتے ہیں۔ کیونکہ جب بچہ ضد کرتا ہے یا روتا ہے یا تنگ کرتا ہے تو ہمارے پاس آسان حل ہے کہ اس کو موبائل پر یوٹیوب ویڈیوز چلا کر مصروف کر دو اور خود دوسرے موبائل پر ویڈیوز میں مصروف رہو۔
اس کے ذریعے سے ہم مجالس و مساجد کا احترام تک بھول گئے ہر وقت اسی میں مصروف رہنے کی وجہ سے رشتہ دار بھول گئےیہاں تک کہ اپنے گھر میں رہنے والے بہن بھائی والد والدہ رشتہ دار برابر میں ہمسائے کا کوئی خیال تک نہیں البتہ دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والے کا بخوبی علم ہے جبکہ اس کے لیے اگر دعا کر لیں تو یہی اس کیلئے کافی ہوگا، اس کے علاوہ کچھ کر بھی تو نہیںسکتے۔ اور دعا بھی کیسے کریں کیونکہ ایک ویڈیو کے بعد دوسری ویڈیو چلا کر پہلی والی پر توجہ نہیں رہتی۔
اسی طرح اس پر جھوٹ پھیلانے کا عمل کچھ یوں ہوتا ہے کہ کسی خبر کو بغیرتحقیق فورا ًپھیلا دیتے ہیں جبکہ وہ جھوٹی ہو کر ایسا نقصان دے چکی ہوتی ہے کہ اس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن ہم پھر بھی اپنی ریٹینگ کے چکر میں یہ سب کام سر انجام دیتے ہیں۔
اسی کے ساتھ جعلی اکاؤنٹز کی بھر مار جن کے ذریعے جھوٹ، بے حیائی، آواہ گردی، فحش گوئی الزام تراشی کے ذریعے کئی جانوں کا نقصان کرتے ہیں کئی لوگوں کی عزت اچھالتے ہیں کئی گھروں میں لڑائی کرواتے ہیں اور تو اور کسی بھی شریف النفس کو سر راہ بے عزت کر ڈالتے ہیں۔
اس سے مزید اگر بڑھیں تو ذہنی، جسمانی صحت کا نقصان بھی اسی کی مرہون منت ہے۔ کیونکہ نئے نئے تجربات اس کے سیکھ کر کیے جاتے ہیں جبکہ وہ نقصان دہ ہوتے ہیں اسی طرح ایک طالب علم اپنا وقت پڑھائی کو دینے کی بجائے اس میں مگن ہو کر ضائع کرتا ہے جس سے اس کی پراگرس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اور نوجوان نسل جذباتی اتنی ہو گئی کہ کسی کا ادب احترام چنداں نہ رہا بلکہ آزادی اظہار کے نام پر کسی کی ہتک عزت کرنا بداخلاقی کرناکسی کے خلوص کو ٹھیس پہنچانا اپنا فریضہ سمجھ لیا۔
اس کے نقصانات کا احاطہ گو کہ ممکن نہیں لیکن چند پہلوؤں کو احاطہ تحریر میں لا کر اجاگر کرنے کی ادنیٰ سعی کی ہے۔
ترقی کرتی دنیا میں ہر چیز جس طرح آسان اور ممکن ہوتی جا رہی اسی طرح ہمیں اپنی عقل سوچ فکر کو بھی پروان چڑھانا چاہیے اور اپنے اندرشعود کو مزید پختہ بناتے ہوئے اپنے اچھے اور برے کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ ہم اپنے تباہ ہوتے معاشرہ کو بچا سکیں اپنے بچوں کو ان سب چیزوں میں مصروف کرنے کی بجائے خود انہیں وقت دیں اور ان کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کریں تاکہ یہی بچے کل ہمیں کسی شکایت کا موقع دیے بنا ہمارے سہارا بنیں اور اپنا مستقبل روشن کرتے ہوئے پوری قوم کے لیے معمار ثابت ہو سکیں۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر چیز کا منفی و مثبت پہلو ہوتا ہے لیکن ہمیں یہ فکر کرنا ہو گی کہ اس کا منفی پہلو ہی کیوں زیادہ اثر انداز ہوتا ہے آخر ایسی کیا وجہ ہے جس سے ہماری اکثریت اس طرف کو چل نکلتی ہے۔ جبکہ اسی یوٹیوب کے مثبت پہلو پر رہ کر کام کیا جائے تو اس کے فوائد بھی بہت ہیں۔
جس سے ہم ترقی کی راہ مزید آسان کر سکتے ہیں اچھی چیزیں سیکھ سیکھتے ہیں۔ بہترین مدبر و معلم بن سکتے ہیں۔ یہی یوٹیوب بہترین تربیت گاہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ کم از کم اپنی یہ سوچ ختم کرنا ہو گی کہ میں یوٹیوب پر چینل بنا کر بزنس کرو اوراسے کمائی کا ذریعہ بناؤ۔ اگرچہ یہ بہترین ذریعہ معاش بن سکتا ہے لیکن اس سے پہلے اپنی اور دوسروں کی تربیت کولازمی سامنے رکھنا چاہیے یا اتنا ہی سوچ لینا چاہیے کہ آج میں دنیا کے اندر جو کچھ کرو گا کل قیامت کے دن یہی اعمال میرے سامنے گواہ بنے کھڑے ہوں گے۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم انہیں اپنے حق میں بنائیں یا اپنے مخالف۔
قرآن نے ہمیں فیصلہ سنا دیا کہ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗؒ۰۰۸
جس کسی نے بھی ذرہ برابر خیر کا کام کیا ہو گا وہ اس کے سامنے ہو گا اور جس کسی نے بھی شر کا کام کیا ہو گا وہ اس کے سامنے ہو گا۔
اور اسی کے ساتھ فرما دیا گیا کہ إِنَّ اللہَ لَا یَظلِمُ مِثقَالَ ذَرَّةٍ اللہ تعالیٰ بے مثال عدالت میں کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہو گا۔
جو کوئی جس طرح کے اعمال لے کر گیا ہو گا اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہو گا اس کی جزا ہو گی اور اس کا ٹھکانہ ہوگا۔ لہذا ہمیں اپنی فکر خود کرنی ہے۔ اپنا احتساب خود کرنا ہے تاکہ ہم اپنے آج کے ساتھ ساتھ اپنے کل کو بھی محفوظ بناسکیں۔ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی عزت حفاظت کرنے والے بھی بن جائیں۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ بطور مسلمان ہم سے یہ تقاضہ کرتی ہے کہ نہ کسی پر ظلم کرو نہ کسی پر حسد کرو نہ کسی کا حق مارو نہ کسی پر غصہ ہو نہ کسی کی تحقیر کرو بلکہ اللہ کے نیک بندے بن کر اسی کا تقویٰ اختیار کرو۔
یوں بھی دیکھا گیا کہ یوٹیوب چینل بنا کر ہر ایک کی کردار کشی کرنے والے خود کردار سے عاری ہوتے ہیں یا پھر اس کا الٹ کہ سب کو اخلاقیات کا درس دینے والے سبق سکھانے والے خود اس سے محروم ہوتے ہیں۔ اس کی زندہ مثالیں ہمارے چینلز پر بولنے والے اینکرز، دانشور، جعلی پیر ، درباری ملاں، غرض کہ ہر شعبہ سے منسلک کوئی نہ کوئی ایٹم موجود ہے جو اس کی زندہ مثال ہے۔ اور قرآن مجید کے اس فرمان پر مکمل اترتے ہیں کہ ’’لِمَ تَقُولُونَ مَالاَ تَفعَلُونَ‘‘ تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یعنی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت۔
لہذا ان جعلی لوگوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اگرچہ صرف اچھی بات کو لے لینا کوئی بری بات نہیں لیکن اپنا آئیڈیل صرف ایک ہی بنانا چاہیے جوکہ محمد عربی علیہ الصلاۃوالسلام کی ذات مبارکہ ہے۔
اپنے ظاہر و باطن کو یکساں رکھنا چاہیے دل بھی سچا رکھیں زبان بھی سچی رکھیں صاف ستھرا عمدہ نمایاں کردار بنائیں تاکہ اس سے معاشرہ کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے اسے راہ راست پر لانے والے بنیں۔
موجودہ حالات پر علامہ اقبال علیہ الرحمہ کا اک شعر بھی کچھ یوں منضبط ہوتا ہے کہ :
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
سوشل میڈیا ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں ۔کیونکہ سوشل میڈیا لوگوں کو تبادلہ خیالات اور اظہار رائے کی اجازت دیتا ہے آج کے دور میں جبکہ ہر فرد کو اپڈیٹ رکھنے کا شوق سر چڑھ کر بول رہا ہے اور میڈیا اس سلسلے میں بھرپور متحرک ہے اور حقیقت پر مبنی یا غیر حقیقی معلومات کی طرف بھرمار ہے تو اس عالم میں سچائی کو تلاش کرنا بہت ہی مشکل ہوچلا ہے۔ میڈیا کی نسبت سوشل میڈیا کم از کم ایک ایسا ٹول ہے کہ جس پر استعمال کنندہ کی گرفت ہوتی ہے اور جو وہ چاہے پھیلا سکتا ہے اسی لئے پیمرا کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ اس میڈیم کے مثبت اور قومی یکجہتی کے فروغ میں استعمال کی کوئی خاص شکل وضع کرے تاکہ استعمال کنندہ اس میڈیم کے مثبت استعمال ہی کا پابندہو، تبھی یہ ممکن ہوگاکہ سوشل میڈیا کے اس بے لگام گھوڑے کو لگام دی جا سکے گی۔
سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے کہ جس پہ انفارمیشن کی ریل پیل ہے اور ہر دوسرا فرد اپنی مرضی سے ہر وہ چیز شئیر کرنے پہ تلا ہوا ہے کہ جس کی کوئی بنیاد ہے یا نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج نوجوان نسل اس میڈیم کی رنگینیوں میں مست ہے ، وقت کے ضیاع یا ذہنی تناو کی طرف کسی کی توجہ نہیں ۔ نوجوان نسل میں اخلاقی پستیوں کی بڑی وجہ بھی یہی سوشل میڈیا ہے کیونکہ اس میڈیم کے ذریعے آپ جب اور جہاں چاہیں پہنچ سکتے ہیں۔ نازیبا اور فحش مواد تک اسی رسائی نے نوجوانوں میں اخلاقی گراوٹ کو جنم دےکر معاشرے سے دور کر دیا ہے اور آج آپ دیکھ لیجئے یہی نوجوان معاشرے کے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں حالانکہ ان کو پاکیزہ تفریح اور سیر کے ساتھ ساتھ کھیل کے مواقع فراہم کرکے ان بیماریوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔
نوجوانوں میں یہی نقائص پیدا کر نے کےلئے اغیار نے سوشل میڈیا کو ایک ہتھیار کے طور پہ لیا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کر رہے ہیں انہوں نے اس کا بھرپور استعمال کرکے ہمارے نوجوان کو حالت جنگ میں مبتلا کر رکھا ہے ، ایک ایسی جنگ جو غیر واضح ہے یہی وجہ ہے آج کا نوجوان اس کو جنگ سمجھنے پہ آمادہ ہی نہیں ۔
مغرب نے انفارمیشن کے ذریعے ذہنوں پہ کنٹرول کا جو منصوبہ شروع کر رکھا ہے ہمارا نوجوان اس سے بے بہرہ ہے
معاشرے کے ذمہ داران کو چاہئیے کہ وہ ان فارغ نوجوانوں کو مثبت مصروفیات فراہم کرکے ان کی سوچوں کا رخ و محور بدل دیں تاکہ یہ نوجوان نسل ملک کے لئے مفید ثابت ہو۔
تبدیلی دو قسم کی ہوا کرتی ہے ایک تو وہ جو نظر آتی ہے اور دوسری وہ جو نظر نہیں آتی، سوشل میڈیا یہ دوسری قسم کی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے ایک ایسی تبدیلی جو نظریات و
عقائد سوچ اور جذبات میں آرہی ہے لیکن نظر نہیں آتی،
کیا یہ کم خطرناک بات ہے ۔
آج کے مسلم نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے بارے میں معلومات اسی سوشل میڈیا سے لیتا ہے اور اس میڈیم کی رنگین پوسٹوں سے اس کا ایمان بڑھتا ہے ،جبکہ ہمارے پیارے نبی علیہ السلام نے دین اسلام کو مکمل کرکے ہم تک پہنچا دیا تھا ۔
چاہیے تو یہ تھا کہ مسلم نوجوان ایک لیڈر ہوتا کیونکہ لیڈر کو
اپنی منزل واضح نظر آرہی ہوتی ہے۔وہ مستقبل سے بھی آگے دیکھ رہا ہوتاہے مسلم نوجوان کو لیڈ کرنے والا ہونا چاہئیے تھا کیونکہ لیڈر ایک انڈر پرفارمنگ یونٹ کو ہائی پرفارمنگ یونٹ میں تبدیل کردیتا ہے لیکن سوشل میڈیا نے اس کے عزائم اور ترجیحات کو پس پشت ڈال دیا ہے جو کہ الارمنگ سیچوئشن ہے۔
سوشل میڈیا جہاں کئی نقصانات کا حامل ہے وہیں یہ بہت سے فوائد بھی رکھتا ہے مثال کے طور پہ ایک تاجر یا بزنس مین لوگوں تک اپنی پراڈکٹس کی خبر پہنچانے کے لئے اس پلیٹ فارم کا سہارا لے سکتا ہے ۔ فیس بک ، ٹوئیٹر اور وٹس ایپ کے ذریعے یہ لوگ کم وقت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچا کر اپنے بزنس کو بڑھا سکتے ہیں ، اسی طرح ایک پروفیشنل اپنی کامیابیوں کا سوشل میڈیا پہ بھرپور انداز میں ذکر کرکےاپنے لئے رائے عامہ ہموار کرسکتا اور مزید کامیابیوں کی راہیں کھول سکتا ہے ۔
سوشل میڈیا تجارتی،اور پیشہ وارانہ برانڈ سازی کے لئے زبردست امکانات رکھتا ہے نیز اگر ہم سوشل میڈیا کو اس کی اصل روح کے ساتھ سمجھ کر لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھیں تو انٹرنیٹ عوام کےلئے زیادہ حوصلہ بخش ماحول فراہم کر سکتا ہے ۔
اسی طرح کسی بھی خاص چیز کے بارے عوام کی رائے معلوم کرنے کی خاطر اسی پلیٹ فارم پہ پول بھی بنائے جاتے ہیں۔
ہم سوشل میڈیا پہ قرآن وسنت کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ عقیدے کی درستگی کا کام بھی احسن اندا ز میں کر سکتے ہیں
یہ سب مثالیں ہیں جو بتا رہی ہیں کہ سوشل میڈیا مثبت پہلو بھی رکھتا ہے ہمیں اسی مثبت پہلو کو استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا کو اپنے لئے اور ملک و ملت کے لئے مفید بنانا ہے۔
پاکستان مخالف
پاکستان مخالف ،اسلام مخالف ، ملکی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے مخالف اور بنیادی اسلامی عقائد مخالفین کے لیے اس تحریر میں چند پوائنٹس پوشیدہ ہیں۔
ایسے مخالفین جو ہیں تو مسلم لیکن جدیدیت کے بتوں سے متاثر ہوکر اپنے ہی بنیادی عقائد کو فراموش کر بیٹھتے ہیں اوریورپ کی کھوکھلی چکا چوند سے متاثر ہوکر اپنی اصل کو نظر انداز کر چکے ۔
جدیدیت کے بتوں میں سے ایک بت میڈیا اور انتہائی جدید دور میں سوشل میڈیا ہے جس کے بارے میں میں نے لکھا کہ اس میڈیم نے نوجوانوں کی ترجیحات کو پس پشت ڈال دیا ہے کیونکہ وہ وقت کے ضیاع سے بے خبر اس میڈیم کی روشنیوں میں مگن ہوگیا ہے ۔
ایک نقصان تو یہ ہوا
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ یورپ نے انفارمیشن کے ذریعے اذہان پر کنٹرول کا جو منصوبہ شروع کیا تھا اس کا لازمی اور انتہائی جلد نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہمارے نوجوان ہمیں سے خائف ہوئے، مسلم نوجوان اسلام سے دور ہوئے۔
انتہائی پیچیدہ شکوک کو پھیلانے میں اسی سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا اور آج کا نوجوان صرف اسی بات کو درست سمجھتا ہے جس پر کمبخت فیس بک ٹویٹر انسٹاگرام ٹمبلر کی مہر ثبت ہو ۔
سوشل میڈیا پر اس یقین نے اللہ واحد سے یقین اٹھا دیا ہے جس کے نتیجے میں آج کا نوجوان جہاں ایک طرف آزاد خیالی کا مرتکب ہوا ہے وہیں دوسری طرف آخرت اور قبر سے اس کا یقین جاتا رہا ہے ۔
آزاد خیالی ہی کا نتیجہ ہے کہ یہ نوجوان دھڑلے سے اپنے ہی مذہب پر حملہ آور ہے (یہ حملہ خواہ قلمی صورت میں ہے یا مسلح جدوجہد کی شکل میں) اور پاکستان میں رہ کر بھی پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں پر لاف زنی کا مرتکب ہے ۔
یہ یاد رکھئے کہ خوبیاں اور خامیاں سبھی میں ہوتی ہیں لیکن یہ بھی عجیب ہے کہ جس خوبی کو سوشل میڈیا خامی کہہ دے ہمارا نوجوان اس کو خامی سمجھ کر متعلقہ فرد یا ادارے کو رگڑا لگانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتا ۔
آپ دیکھ لیجئے ماضی قریب سے شروع ہونے والا قصہ کہ کیسے سوشل میڈیا پر سعودیہ کو برا بھلا کہنا شروع کیا گیا اور آج ہر نوجوان کی زبانی، قلمی اور فکری توپ کا رخ سعودی عرب ہی کی طرف ہے اسی کے ساتھ ساتھ دفاعی اداروں کو بدنام کرنے کی خاطر جو مہم شروع کی گئی اس میں بھی اسی سوشل میڈیا نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
جبکہ دوسری ہی طرف یورپ کی خامیوں کو خوبیاں بناکر پیش کیا گیا اور ہمارا نوجوان عقل سے پیدل ہوکر یورپ کی تقلید کو اپنی نجات کا سبب گرداننے لگاکیونکہ یورپ صرف ظاہری حالت پر یقین دلاتا ہے اور اس کی ہر تان مادیت پرستی پر ٹوٹتی ہے ۔
اور کون نوجوان ہوگا جو مال و ذر کا شیدائی نہیں لہذا لازمی طور پر ہر نوجوان یورپ کا شیدائی ٹھہرا ۔
یورپ میں قتل، ریپ، اغواء اور دیگر سبھی جرائم کی شرح پاکستان سے ہزار درجہ زیادہ ہے لیکن کوئی ایک بھی خبر کہیں نہیں ملتی کیونکہ یہی تو انفارمیشن پر کنٹرول ہےجبکہ دوسری طرف پاکستان یا اس کے اداروں میں بشری تقاضوں کے تحت ریزے کے برابر بھی کوئی غلطی مل جائے تو اسے برابر اور بھرپور اچھالا جاتا ہے اس سب کشمکش نے آج کے نوجوان کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔
اور اس کے عقائد اور جذبات میں نظر نہ آنے والی تبدیلی رونما ہوچکی ہے جس کا لازمی نتیجہ اپنے ہم مذہبوں سے نفرت اور اپنی ہی وطن سے اکتاہٹ کی صورت میں نکلا ہے ۔
اس کی لیڈر شپ صلاحیتوں کو جس برے طریقے سے سوشل میڈیا نے قتل کیا ہے اس کے بعد یہ بےچارہ خود تو عضو معطل ٹھہرا ہی ہے لیکن دوسروں کو اس کے فرائض سے غافل کرنے میں مصروف ہے ۔
یہاں پر بصری آلودگی کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ یورپ ہمارے نوجوان کو وہی دکھاتا ہے جو یورپ کو مطلوب ہوتا ہے اور یورپ کی طرف سے دکھایا جانے والا ہر منظر حقیقت میں اس سراب کی مانند ہے جو صحرائی سفر میں کسی مسافر کو نظر آتا ہے اور سراب کی حقیقت تو آپ سب جانتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی چکا چوند نے اس نوجوان کو سراب کی حقیقت سے نا آشنا کر رکھا ہے اور جب حقیقت اس پر آشکار ہوگی تب بہت کچھ سر سے گزر چکا ہوگا ۔
اس کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے دیگر عوامل بھی ہیں جن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں لیکن تحریر کی طوالت آڑے آرہی ہے لہذا دیگر عوامل کو پھر پر اٹھا رکھتے ہیں۔
۔۔۔