زکوٰۃ کے لغوی معنیٰ: الزیادۃ والتزکیۃ یعنی بڑھنے اور پاک ہونے کے ہے۔
زکوٰۃ کے شرعی معنیٰ: حق واجب فی مال خاصٍ لطائفۃ مخصوصۃٍ لوقت مخصوصٍ۔
(معونۃ اولی النھی شرح المنتھی ،لابن نجار 551/2)
مخصوص افراد کے لئے خاص اوقات میں جو خاص مال خرچ کیا جاتا ہے اسے شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔
وضاحت:
یعنی ایک سال مکمل ہونے پر سونا، چاندی، نقدی،مویشی اور مالِ تجارت پر زکاۃ ہے جب کہ غلہ اورپھل تیار ہوجانے پر اور معین مقدار شہد یا معدنیات کا حصول ہو تو ان میں زکاۃ فرض ہے۔اسی طرح عیدالفطر کی رات سورج غروب ہوجانے پر صدقۃ الفطر فرض ہے۔
فرضیتِ زکوٰۃ:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (البقرہ:43)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ تم بھی رکوع کیا کرو۔
مزید ارشاد ِفرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا(التوبة103)
اے نبی (ﷺ)! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرکے انہیں پاک و صاف کردو۔
رسول اکرم ﷺنے جب معاذبن جبل رضی اللہ کو یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو ارشاد ہے:
اَخْبِرْھُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ
کہ لوگوں کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان ہی کے نادار لوگوں کو دیا جائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِيَاءِ وَتُرَدَّ ...)
زکوٰۃ، نماز کے بعد اسلام کا انتہائی اہم ترین رکن ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں82 مقامات پر ہوا ہے۔
جس سے زکوٰۃ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ ساتھ درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور زکاۃ ادا کرنے والے کا مال حلال اور پاک بنتا ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور زکوٰۃ کوئی تاوان یا ٹیکس نہیں جس سے مال کم ہوتا ہو اور دینے والے کو نقصان اٹھانا پڑے بلکہ اس کے برعکس زکوٰۃ سے مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، (صحیح مسلم)
صدقہ (زکوٰۃ) دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔
زکوٰۃ کی حکمت:
زکوٰۃ کے فرض ہونےمیں مندرجہ ذیل حکمتیں پنہاں ہیں:
1۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسانی نفوس بخل و کنجوسی، لالچ، حرص، خودغرضی اور سنگدلی جیسے اخلاق رذیلہ سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں۔
2۔ مال کی بے جا محبت کم ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ سے اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار مثلاً ایثار و قربانی، احسان ، جود و سخا اور خیر خواہی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
3۔فقراء،مساکین،تنگدست،محتاجوںاورضرورتمندوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
4۔ مصالح عامہ جن پر امت کی زندگی اور سعادت موقوف ہے ، زکوٰۃ سے وہ پورے ہوتے ہیں۔
5۔زکوٰۃ ادا کرنے سے مسلمانوں کو دولت کمانے اور خرچ کرنے کی حدود و قیود سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
6۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کویہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مال و دولت کا اصل مالک اللہ ربّ العزت ہے۔
7۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے روپیہ ،پیسہ گردش میںرہتا ہے۔
8۔ زکوٰۃ عام آدمی کی خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔
9۔ زکوٰۃایک ایسا عمل ہے جو دین کی تکمیل اور تقرب الی اللہ حاصل ہونے کےعلاوہ ایک عام آدمی سے لیکر پورے معاشرے کی اجتماعی خوشحالی کا ضامن ہے۔
زکوٰۃ نہ دینے والوں کی سزا:
فرمانِ الٰہی ہے:
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ o يَوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰي بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ (التوبۃ34تا35)
’’دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیںلیکن اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں،پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا(اور کہا جائے گا) یہ وہ خزانہ ہے جسے تم اپنے لیے سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے، اب اپنے خزانے کا مزہ چکھو۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ
مَنْ اٰتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ - يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ- يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے هیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس نے اس کی زکوۃ نہ دی تو قیامت کے روز اس کا مال اس کے لئے سانپ بن جائے گا اس کے سر پر بال اور آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے اور پھر یہ سانپ اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اپنی زبان سے کہتا ہوگا کہ میں تیرا مال ہو میں تیرا جمع کردہ خزانہ ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب التفاسیر، بَابُ :وَلَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ ۔۔۔)
اس اخروی عذاب کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوٰۃ کی دائیگی سے منہ موڑتی ہے، قحط سالی اور مشاکل میں مبتلا کردیتا ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
جو قوم بھی زکوٰۃ سے انکار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کردیتا ہے۔ (صحیح الترغیب، لالبانی467/1)
ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے وہ بارانِ رحمت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات)
زکوۃ فرض ہونے کی شرائط :
زکوٰۃ فرض ہونے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں :
۱۔ مسلمان ہونا : کافر پر زکوۃ فرض نہیں کیونکہ وہ اسلامی احکامات کا مکلف نہیں ہے اس میں بچہ اور عورت عاقل اور غیر عاقل بھی شامل ہے ان کی طرف سے ان کاولی زکوٰۃ اداکرے گا ۔
۲۔ آزاد مرد اور عورت : کیونکہ غلام کا اپنا کوئی مال نہیںہوتا بلکہ وہ تو خود کسی کی ملکیت ہوتاہے۔
۳۔ نصاب کا مالک ہونا :یعنی ساڑھے سات تولے سونا(87گرام) یا ساڑھے باون تولے چاندی (612گرام)یا اس نصاب کے برابر نقدی ہو یا جانوروں کا نصاب یا زرعی پیداوار گندم ،جو،کشمش اور دیگر پھل وغیرہ یعنی تقریباً 19 من (750کلوگرام)تک پیداوار حاصل ہو۔
۴۔مذکورہ بالا نصاب پر پورا سال گزر جائے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا مال میں زکوۃ تب ہے جب اس پر ایک سال گزر جائے۔ ( ابن ماجہ ، کتاب الزکاۃ ، باب استفاد مالا )
البتہ زمین کی پیداوار میں ایک سال کاگزرناشرط نہیں بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اگر نصاب پورا ہو (یعنی تقریباً 19من 750کلوگرام)ہو تو زکوۃ ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ (الانعام:141)
اور اجناس کی کٹائی کے دن اس کا حق (زکاۃ)ادا کرو۔
وضاحت:
٭ مقررہ نصاب کو پہنچے ہوئے جانوروں کے دوران سال پیدا ہونے والے بچے اور مال تجارت سے دوران سال حاصل ہونے والا منافع بھی اسی سال کی آمدن تصور ہوگا۔زکوٰۃ ادا کرنے میں سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔
مگر استعمال کی عام چیزوں میں زکوٰۃ نہیں مثلاً : رہائشی گھر اور اس کا سامان، گاڑیاں، مشینری اور سواری کیلئے جانور وغیرہ۔
٭ جن چیزوں سے کرایہ حاصل ہوتاہو ان پر زکاۃ نہیں بلکہ ان کی آمدن پر زکاۃ ہے بشرطیکہ نصاب کو پہنچے اور سال بھی گزر جائے۔
٭ اگر کسی شخص پر زکاۃ فرض ہو اور وہ ادا کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ’’فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضٰى‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الصوم ، باب من مات وعلیہ صوم)
’’اللہ تعالیٰ کاقرض زیادہ حق رکھتاہے کہ اسے ادا کیا جائے۔‘‘
وہ اموال جن پر زکوٰۃ فرض ہے:
حدیث میں جن چیزوں کی زکوٰۃ کا ذکر ہے، ان کا پانچ قسمیںہیں:
۱۔ سونا اور چاندی یا اس سے مساوی نقدی
۲۔ مال تجارت
۳۔ زرعی پیداوار
۴۔ مویشی
۵۔ کان اور دبے ہوئے خزانے
چاندی کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:
اس بارے میںامت کا اجماع ہے کہ چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ (علمائے حدیث و فقہ اور علمائے لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک اوقیہ کا وزن چالیس درہم اور دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہے۔(شرح مسلم، للنووی) مثقال کا وزن ہمارے ہاں کے لحاظ سے ساڑھے باون ماشہ ہے۔ لہٰذا ۲۰۰ درہم کا وزن ساڑھے ۵۲ تولہ ہوا۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔(مسلم)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے، لیکن چاندی کی زکوٰۃ ادا کرو، ہر چالیس درہموں پر ایک ایک درہم زکوٰۃ ہے۔ ایک سو نوے درہموں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، لیکن جب وہ دو سو درہم ہوجائیں، تو ان پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔(ترمذی)
شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے۔
سونے کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:
جمہورعلماء کرام(اکثر سلف) کے نزدیک سونے کا نصاب بیس دینار(۲۰ مثقال، ساڑھے ۷ تولہ) ہے اور شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے یعنی اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے ۷ تولہ سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پر سونے میں اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، جب تک وہ بیس دینار(۲۰ مثقال) نہ ہوجائے، اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے تو اس کی نصف دینار(یعنی چالیسواں حصہ)زکوٰۃ ادا کرو۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الزکوٰۃ ، باب:بَابٌ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ)
دھات اور کاغذی سکوں کی زکوٰۃ:
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں نقدی کے طور پر سونا اور چاندی(بشکل دینار ودرہم) استعمال ہوتے تھے۔ موجودہ دزمانہ میں دھات اور کاغذ کے سکے سونے اور چاندی کے قائم مقام ہوگئے ہیں اور انہیں ہر وقت سونے اور چاندی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب کسی شخص کے پاس دھات یا کاغذ کے سکوں کی اتنی مقدار ہوجائے جس سے سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا ہو اور اس پر ایک سال گذر چکا ہو، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔موجودہ دور میںایک تولہ سونے کی قیمت50250 روپے ہے جبکہ سونے کا نصاب 7.5تولہ کی کل قیمت 376875.50/ روپے بنتی ہے اس پر 2.50 فیصد زکاۃ کی رقم 9422روپے بنے گی اگر کسی کے پاس اس مقدار میں سونا نہیں بلکہ نقدی ہوتو اس پر بھی زکاۃ فرض ہے۔
اسی طرح موجودہ دور میںایک تولہ چاندی کی قیمت 730روپے ہے جبکہ50.52 تولہ کی قیمت 38325روپے بنتی ہے اور 2.50فیصد کے حساب 959 روپے زکاۃ بنتی ہے اور ان دونوں نصاب میں سے کوئی ایک بھی پورا ہورہا ہوتو زکوۃ فرض ہے مگر اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں جوکرنسی رائج ہو اسی کو نصاب بنایا جائے مگر بعض علماء کے ہاں جس کرنسی سے فقراء اور مساکین کو زیادہ فائدہ ہو اس کو نصاب بنایا جائے تو دوسرے قول کا لحاظ کرتے ہوئے چاندی کا نصاب مقرر کرنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر کسی پاس ساڑھے 52 تولے چاندی38325 روپے نقدی ہوتو وہ صاحب نصاب ہے،اس پر زکاۃ فرض ہوگی۔
عورت کے زیور پر زکوٰۃ:
موتی، یاقوت اور دوسرے تمام جواہرات، کپڑوں اور دوسرے سامان(جیسے گھرکے برتن) پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جبکہ وہ محض استعمال اور زینت کے لئے ہوں، لیکن اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو ان پر زکوٰۃ سب کے نزدیک ضروری ہے۔(نیل الاوطار، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
عورت کے سونے اور چاندی کے زیور پر زکوٰۃ ضروری ہے، جبکہ اس کا وزن بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر ایک سال گزرچکا ہو۔
سیدناعمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ذریعے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک لڑکی تھی، جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ قیامت کے روز تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟(ابوداوٗد، ترمذی، نسائی)
سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کےکنگن پہنے ہوئے تھی، میں نے آپﷺ سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کنگن کنز(جمع کیا ہوا خزانہ جس کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعید فرمائی ہے) کی تعریف میں آتے ہیں؟۔ آپﷺ نے فرمایا اگر تم نے ان کی زکوٰۃ دیدی تو یہ کنز نہیں ہیں۔(ابوداوٗد، دارقطنی)
وضاحت:اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زیور جس کی ملکیت ہو وہی اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔
زرعی پیداوار پر زکوٰۃ:
زرعی پیداوا رمیں بعض اجناس پر زکوٰۃ فرض ہے :
إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِي هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ: الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ
آپ ﷺ نے درج ذیل چار چیزوں میں زکوٰۃ مقرر فرمائی، گندم، جو، کشمش، کھجور
(الدارقطنی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ لالبانی ۲/۸۷۹)
زمین کی پیداوار کے لئے زکوٰۃ کا نصاب:
زرعی زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب تک غلہ اور کھجور کی مقدار پانچ وسق(تقریباً 19 من، یا 750کلوگرام)تک نہ ہوجائے، زکوٰۃ نہیں ہے۔(صحیح سنن النسائی لالبانی2330/2)
قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کے لئے شرح زکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور مصنوعی ذرائع (مثلاً کنواں، ٹیوب ویل، نہر)سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کی شرح زکوٰۃ بیسواں حصہ(نصف عشر)ہے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
فِيمَا سَقَتِ السَّمَآءُ وَالعُيُوْنُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا العُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ(بخاری، الزکوٰۃ، بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي...)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس زمین کو بارش یا چشمے پانی پلائیں یا زمین ترو تازہ ہو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ زکوٰۃ ہے، جس زمین کو کنویں کے ذریعے پانی دیا جائے اس میں سے نصف عشر(بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے۔
حرام کمائی سے حاصل شدہ مال پر زکوٰۃ :
حرام طریقہ سے حاصل کیا ہوا مال مثلاً ڈاکہ ،چوری، فریب، رشوت، سود ، دھوکہ،شراب ، ہیرون، بھنگ، چرس وغیرہ سے حاصل شدہ مال پر زکوٰ ۃ نہیں ہے ۔اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ خود پاک ہیں اورپاک مال ہی کو قبول کرتے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللهe نے فرمایا جس نے پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اللہ صرف پاک کمائی کو قبول کرتا ہے، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لئے پالتا رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کو پالتا ہے،یہاں تک کہ وہ خیرات پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب.)
عورت کے حق مہر سے زکوٰۃ:
عورت کا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے اسی لئے کہ یہ شوہر پر قرض ہوتا ہے جس طرح قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے ا لاّ یہ کہ عورت معاف کردے۔عورت کے حق مہر کی رقم زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو تو اڑھائی فیصد(2.5%)کی شرح سے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
مشترکہ کاروبار پر زکوٰۃ:
اگر چند افراد کا مشترکہ کاروبار ہوتو ہرشخص کو اپنے نفع سے زکوٰۃ نکالنی ہوگی بشرطیکہ کے وہ نصاب کو پہنچ جائیں۔
فیکٹری پر زکوٰۃ :
فیکٹری ، کارخانہ کے آلات مشینری اور بلڈنگ پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال تجارت نہیں بلکہ آلات تجارت ہیں۔جبکہ زکوٰۃ مال تجارت پر فرض ہوتی ہے۔ البتہ فیکٹری یا کارخانہ سے جو مال تیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ خام مال ہو یا تیار مال ہو اس کی قیمت پر اڑھائی فیصد (2.5%)کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، 864/2)
خاوند اور زیر پرورش بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا:
چونکہ بیوی اور بچوں کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد غریب اور عورت مالدار ہو تو وہ عورت اپنی زکوٰۃ اپنے غریب شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہے۔ جیسا کہ سيدنا عبداﷲ بن مسعود t کی بیوی سیدہ زینب rنے آپ e سے دریافت کیا میرا شوہر غریب ہے کیا میں اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں ۔ آپe نے فرمایا:۔ان پر خرچ کرنے سے تجھے دہرا اجر ملے گا۔(۱)قرابت (صلہ رحمی) کا (۲) زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب:بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي ..)
مصارفِ زکوٰۃ:
شریعتِ اسلامیہ نے زکوٰۃ کے مصارف کا تذکرہ بھی پوری تفصیل سے کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِّنَ اللهِ ۭوَاللهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ
صدقات تو دراصل فقیروںمسکینوں اور ان افرادکے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب، غلام آزاد کرانے، قرضداروں کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروںپر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
مصارفِ زکوٰۃ کی کل تعداد آٹھ ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
[1-2] فقراء و مساکین :
فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ tکہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔
(بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ لَا يَسْــئَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی )
گویا محتاجی کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو حاجت کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔
[3] زکوٰۃ وصول کرنے والے لوگ:
زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔
سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺمجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ تو آپ نے فرمایا یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی )
[4] تالیف کے حقدار :
اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جا سکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے آپ کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کر دیا تھا کہ اب اسلام غالب آ چکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہٰذا بوقتِ ضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
[5] غلاموں کی آزادی کے لئے:
اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کر دیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہو گئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔
\زکوٰۃ کی تعریف
لفظ "زکوۃ" کا لغوی مفہوم پاکیزگی اور اضافہ ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس عبادت سے انسان کا مال حلال اور پاک ہوجاتا ہے ، اور انسان کا نفس بھی تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک اور صاف ہوجاتا ہے۔
شریعت اسلامی میں زکوۃ کا معنی ہے:
خاص اموال میں جب وہ نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں سے مخصوص حصہ نکال کر مخصوص مستحقین تک پہنچانا۔
اس تعریف سے پانچ چیزیں واضح ہوتی ہیں:
1زکوۃ تمام اموال میں سے نہیں نکالی جائیگی ، بلکہ صرف چند خاص اموال ہیں جن پر زکوۃ لاگو ہوتی ہے۔ ان کی تفصیل آئندہ سطور میں آئیگی۔
2ہر کم و زیادہ مال و دولت پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ ایک خاص مقدار پر زکوۃ کا نفاذ ہوگا، یہ مقدار ہر مال کے لحاظ سے مختلف ہے۔
اس مقدار میں شریعت نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ صاحب مال پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالا جائے اور اتنی مقدار پر زکوۃ فرض کی گئی ہے کہ صاحب مال باآسانی اسے ادا کرسکتا ہے ۔
3یہ بات بھی شریعت کی آسانی اور سماحت کا مظہر ہے کہ مال کے اس خاص مقدار کو پہنچتے ہی زکوۃ فرض نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ کی فرضیت کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار پر ایک سال گزر جائے۔یعنی اگر دوران سال مال کی اس خاص مقدار میں کمی واقع ہوجائے تو زکوۃ کی فرضیت ختم ہوجاتی ہے۔
4صاحب مال پر زکوۃ صرف اتنی فرض کی گئی جو ہر صاحب نصاب بڑی آسانی سے اور راضی خوشی ادا کرسکتا ہے، یعنی پورے مال کا صرف ڈھائی فیصد حصہ بطور زکوۃ کے فرض کیا گیا جو کہ بقیہ ساڑھے ستانوے فیصد مال کے سامنے کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یقینا ً یہ اللہ تعالی کا اس امت پر احسان ہے ، اگر یہی زکوۃ جمیع مال کا پچاس فیصد ہوتی تو یقیناً صاحب مال کے لئے بڑی مشقت اور حرج کا سامان ہوتی، لیکن اللہ رب العزت نے اس امت کے ساتھ خصوصی رحمت کا برتاؤ کرتے ہوئے صرف ڈھائی فیصد تک زکوۃ کو محدود رکھا۔
5زکوۃ کے مصارف خاص ہیں ، اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ ان کا بیان کردیا ہے، یہ آٹھ مصارف ہیں جہاں پر زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے ، اس کے علاوہ کسی اور جگہ زکوۃکا مال دینے سے زکوۃ کی ادائیگی نہ ہوگی۔ ان مصارف کا بیان ان شاء اللہ اگلی سطور میں ہوگا۔
\زکوٰۃ کی فرضیت و اہمیت
نماز کے بعد’’ زکوۃ ‘‘دین اسلام کا انتہائی اہم رکن ہے ۔ قرآن مجید میں بیاسی مرتبہ اس کا تاکیدی حکم آیا ہے۔ زکوۃ نہ صرف امت محمدیہ ﷺ پر فرض ہے بلکہ اس سے پہلے بھی تمام امتوں پر فرض کی گئی تھی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [البقرة: 43]
’’ اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے زکوۃ ادا کرنے والوں کو سچا مومن قرار دیا ہے:
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ o أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (الأنفال: 3، 4)
’’جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے سیدنا معاذ t کو یمن روانہ کرتے وقت فرمایا تھا: ’’انہیں اس بات کا بھی علم دینا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائے گی‘‘۔(بخاری :۱۳۳۱۔ مسلم :۱۹)
\فرضیت زکوٰۃ کی حکمتیں اور فوائد
زکوۃ کی صحیح طور پر ادائیگی کے معاشرہ پر ، زکوۃ ادا کرنے والے کے نفس اور مال پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں:
mزکوۃ ، مال میں اضافہ کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (الروم: 39)
’’ اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالٰی کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں۔
mانسان کے نفس اور مال کی پاکیزگی کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ (التوبة: 103)
’’ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے‘‘۔
mغریبوں کے دل سے امراء کے خلاف حقد وحسد کے جذبات ختم کرنے کا سبب ہے۔
mمعاشرہ میں تعاون اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھانے میں معاون ہے۔
\زکوۃ ادا نہ کرنے پر وعید
اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ زکوۃ کے وجوب کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے ، البتہ وہ شخص جو زکوۃ کے وجوب کا اقرار تو کرتا ہو لیکن زکوۃ ادا نہ کرے وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، اللہ تعالی نے ایسے افراد کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی ہےکہ:
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ o يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ o(التوبة: 34، 35)
’’ اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو‘‘۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:’’ کسی شخص کو اللہ تعالی نے مال سے نوازا پھر اس نے اس مال کی زکوۃ ادا نہیں کی تو اس کے مال کو قیامت کے دن سانپ کی شکل کا بنایا جائے گا جس کی آنکھوں کے اوپر نکتے ہوں گے، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بن جائے گااور اس کے جبڑوں کو دبوچ کر کہے گا ’’میں ہوں تیرا مال ، میں ہوں تیرا خزانہ‘‘۔(صحیح بخاری 1338)
\زکوۃ کس پر واجب ہے؟
زکوۃ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں درج ذیل شروط پائی جائیں:
vاسلام: لہٰذا کافر پر زکوۃ واجب نہیں، اور نہ ہی کافر کے مال کی زکوۃ قبول کی جائیگی۔
vآزادی: یعنی وہ شخص آزاد ہو ، غلام پر زکوۃ واجب نہیں۔
vملکیت: وہ اس مال کا مالک ہو، لہذا ایسا مال جس کا وہ شخص مالک نہ ہو اس کی زکوۃ ادا نہیں کرےگا، جیسے امانت یا رہن کے طور پر رکھوائے گئے مال پر وہ زکاۃ ادا نہیں کرے گا۔
vنصاب : یعنی اس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچ جائے، اور نصاب سے مراد وہ کم از کم حد ہے جس کے بعد مال پر زکوۃ نہیں ہوتی۔
vاس مال پر ایک سال گزر جائے۔ البتہ زرعی پیداوار میں یہ شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل ہوگی اس میں سے زکوۃ ادا کرنا واجب ہے ، چاہے سال میں دو فصلیں ہوں یا اس سے زیادہ یا کم۔
vاس کا مال پاکیزہ ہو ، حرام مال کی زکوۃ نہیں ہے۔
\جن چیزوں پر زکوۃ واجب ہے
vسونا چاندی اور جو اس کے متبادل ہو، یعنی کرنسی۔
سونے کا نصاب:
سیدنا علی t سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سونے پر اس وقت تک زکوۃ نہیں جب تک تمہارے پاس بیس (۲۰) دینار نہ ہوں، جب تمہارے پاس بیس دینار ہوں تو اس میں سے آدھا دینار زکوۃ ادا کرو‘‘۔(سنن ابو داود (۱۵۷۲) اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے، لیکن یہ حدیث علی t سے موقوفاً صحیح ثابت ہے ، اور چونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں لہذا یہ مرفوع کے حکم میں آتی ہے۔)
بیس دینار کا وزن پچاسی (۸۵) گرام ہے، جو کہ تقریباًساڑھے سات تولہ بنتے ہیں۔
چاندی کا نصاب:
سیدنا ابو سعید خدری t فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم (چاندی ) پر زکوۃ نہیں‘‘۔ (سنن نسائی ۲۴۴۵)
ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے ، تو پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہیںاور دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (۵۹۵) گرام ہے جو کہ تقریبا پچاس تولہ بنتے ہیں۔
زیورات کی زکوۃ:
زیورات کی زکوۃ کے حوالہ سے علماء میں اختلاف ہے ، موجودہ دور کے اکثر علماء کرام کا یہی قول ہے کہ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ زیورات کی زکوۃ ادا کی جائے جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا پچاس تولہ چاندی ہو اور ان پر سال گزر جائے۔ اگر زیورات کی زکوۃ قیمت کے حساب سے دی جائے گی تو اس میں زیورات کی حالیہ قیمت کا اعتبار ہوگا اس کی اصل قیمت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
کرنسی کا نصاب:
کرنسی سونا اور چاندی کا متبادل ہے ، کیونکہ گزشتہ ادوار میں سونا اور چاندی بطور قیمت کے استعمال ہوتے تھے ، موجودہ دور میں کرنسی بطور قیمت کے استعمال ہوتی ہے۔
کرنسی کے نصاب کا اندازہ سونا اور چاندی میں سے سستی جنس کے نصاب سے لگایا جائے گا ، اور موجودہ دور میں چونکہ چاندی سونے کی نسبت سستی ہے لہذا کرنسی کا نصاب چاندی کے نصاب کی قیمت کے بقدر ہوگا، یعنی پچاس تولہ چاندی کی جو موجودہ قیمت ہے وہ کرنسی کا نصاب ہے۔
وضاحت:
زیورات کی قیمت کو کرنسی کے ساتھ نہیں ملا یا جائے گا ، بلکہ زیورات کا نصاب وزن ہے اور کرنسی کا نصاب قیمت ہے ، یعنی اگر کسی شخص کے پاس چار تولہ سونے کے زیورات ہوں او ر ان کی قیمت دولاکھ روپے ہو تو وہ اس پر زکوۃ ادا نہیں کرے گا کیونکہ نصاب مکمل نہیں ہے، سونے کے زیورات ساڑھے سات تولہ ہوں تو زکوۃ واجب ہوگی۔
شئیرز :
ایسی کمپنی جس کا کاروبار حلال ہو اس کے حصص کی خریدو فروخت جائز ہے جب اس خریدو فروخت اور تبادلہ میں جوا شامل نہ ہو۔
شئیرز پر بھی زکاۃ واجب ہے ، اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ شئیرز کی حالیہ قیمت اور وہ منافع جو سارا سال اس سے حاصل ہوا ہے کو جمع کیا جائے اور پھر اخراجات نکال کر باقی رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے۔
بانڈز:
بانڈز ایسے قرضہ جات کی رسید کو کہتے ہیں جو ایک انویسٹر کسی کمپنی کو ادا کرتا ہے اور کمپنی یہ قرضہ اس شخص کو ایک خاص مدت میں مخصوص منافع کے ساتھ ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ بانڈز کا کاروبار حرام ہے ، کیونکہ اس میں قرضہ پر ایک مخصوص منافع لیا جاتا ہے جو کہ سود ہے، لیکن علماء کے نزدیک سود کو نکال کر بانڈز کی اصل رقم پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائے ، کیونکہ ایسا قرضہ جس کا حصول متوقع ہو اس کو زکوۃ کے نصاب میں شمار کیا جائےگا۔
زرعی پیداوار
اس سے مراد وہ اجناس ہیں جنہیں کھایا جاتا ہو اور ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ لہذا ایسی اجناس جو کھائی نہ جاتی ہوں جیسے کپاس اور وہ اجناس جنہیں ذخیرہ نہ کیا جاسکتا ہو ، جیسے سبزیاں وغیرہ ، ان پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح پھلوں پر بھی زکوۃ نہیں ہے، البتہ جب ان پھلوں کو یا سبزیوں وغیرہ کو بیچا جائے اور اس سے حاصل کردہ رقم نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔
زرعی پیداوار کا نصاب نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ :’’ پانچ وسق سے کم پر زکوۃ نہیں‘‘۔
وسق ایک پیمانہ ہے جس کا وزن تقریبا 56.130کلو ہے اور پانچ وسق 652 کلو بنتے ہیں۔
جن اجناس پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائیں اور ان کی سیرابی میں اگر کسان کا خرچہ نہیں آتا یعنی وہ بارش یا نہروں کے ذریعہ سیراب ہوتی ہوں تو ان پر عشر یعنی دس (۱۰) فیصد زکوۃ ہے ، اور جن کی سیرابی میں کسان کا خرچہ ہو جیسے ٹیوب ویل وغیرہ تو اس پر نصف العشر یعنی پانچ (۵) فیصد زکوۃ ہے۔
مویشی:
یعنی اونٹ ، گائے ، اور بکریاں۔ ان کے علاوہ باقی جانوروں پر زکوۃ نہیں ، البتہ جب ان کی تجارت کی جائے تو ان پر بھی زکوۃ ہے۔
مویشیوں پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ خود چرتے ہوں یا ان کے چارے پر مالک کا خرچہ نہ ہو۔مویشیوں میں سے ہر جنس کی زکوۃ الگ الگ ہے جس کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔
وہ مویشی جنہیں اس غرض سے رکھا جائے کہ ان کا دودھ نکال کر بیچا جائے تو ان جانوروں کے عین پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی دودھ کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب کو پہنچ جائے۔اسی طرح وہ جانور جنہیں بیچنے کی غرض سے پالا جائے تو ان کے عین پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے۔
سامان تجارت:
اس سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کی تجارت کی جاتی ہو، چاہے ان کے عین پر زکوۃ ہو یا نہ ہو۔
چاہے وہ اشیاء خرید کر آگے بیچی جائیں چاہے خود تیار کر کے۔
تجارت اور سامان تجارت سے زکوۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دن خاص کر لیا جائے جس میں پورے سال کا آڈٹ(Audit) ہو اور اس میں سال میں حاصل کردہ منا فع اور موجودہ سامان تجارت کی حالیہ قیمت، اور ایسے قرضے جن کا حصول متوقع ہوکو جمع کیا جائے اور اس میں سے اخراجات ، اور وہ قرضے جو واجب الادا ہیں کو نکال کر باقی رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے ۔
وضاحت:
مکان تجارت یعنی وہ جگہ جہاں سے تجارت کی جاتی ہو جیسے دکان ، فیکٹری وغیرہ ان کی قیمت پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح جن مشینوں کو سامان کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہو ان پر بھی زکوۃ نہیں۔
کرایہ پر دی گئی اشیاء:
کرایہ پر دی گئی اشیاء کی قیمت پر زکوۃ نہیں بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ہے۔ جیسے مکان ، فلیٹ، فیکٹری ، مشینری ، گاڑی وغیرہ کو کرایہ پر دیا جائے تو ان کی قیمت پر زکوۃ نہیں بلکہ ان سے حاصل کردہ کرایہ پر زکوۃ ہے۔
وضاحت:
زمین و مکان یا جائیداد وغیرہ اگر ایک شخص اپنے استعمال کی نیت سے خریدے تو ان پر زکوۃ نہیں ، البتہ اگر اسے بیچنے اور تجارت کی غرض سے خریدے تو اس کی ہر سال کی حالیہ قیمت پر زکوۃ ہوگی ، اور اسی طرح اگر اسے کرایہ پر دیدے تو اس کی قیمت پر زکوۃ نہیں ہوگی بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ہوگی۔
\زکوۃ کے مصارف
شریعت اسلامی میں جب بھی مال کی تقسیم کا معاملہ آیا ہے خاص طور پر وہ مال جس میں مشترکہ حقوق ہوں ، تو اس تقسیم کو اللہ تعالی نے بندوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ خود قرآن مجید میں اس کی تقسیم بیان فرمادی ، جیسا کہ وراثت کا مال ، مال غنیمت اور مال فئی کی تقسیم اللہ تعالی نے مکمل وضاحت کے ساتھ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے، بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے زکوۃ کی تقسیم بھی کردی اور وہ افراد اور جہات متعین کردی ہیں جن کے علاوہ کسی اور کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی، نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور زکوۃ کے مال میں کچھ حصہ مانگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالی نے اس معاملہ میں کسی کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا چاہے وہ نبی ہو یا کوئی اور ہو، بلکہ خود اس کی تقسیم فرمائی ہے ، اگر اس تقسیم کے مطابق تمہارا اس میں حصہ بنتا ہے تو بتا دو میں تمہیں دے دوںگا‘‘۔(سنن ابو داود (۱۶۳۰))
امام شافعی a فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے صدقات کی تقسیم اپنی کتاب میں بیان فرمادی ہے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: { فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ} [التوبة: 60] کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ ہے، لہٰذا کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اسے اللہ تعالی کی بیان کردہ تقسیم کے علاوہ کسی اور جگہ تقسیم کرے‘‘۔(احکام القرآن بیھقی (۱/ ۱۶۰))
سورۃ توبہ آیت (۶۰) میں اللہ تعالی نے زکوۃ کے آٹھ مصرف بیان کئے ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ (التوبة: 60)
’’ صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔
ان آٹھ مصارف کی تفصیل درج ذیل ہے:
zفقیر: اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اپنی حاجات پورا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو۔
zمسکین:اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال یا ذرائع ہوں لیکن وہ اس کی حاجات کے لئے کافی نہ ہوں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ} [الكهف: 79]’’ کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے‘‘۔
تو معلوم ہوا کہ ان مساکین کے پاس کشتی تھی اور وہ کام بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسکین تھے۔
zعامل زکوۃ: یعنی وہ شخص جو زکوۃ جمع کرتا ہے، وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں لے سکتا بلکہ امیر یا حاکم اسے اس زکوۃ میں سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
zتالیف قلبی: یہ وہ واحد مصرف ہے جس میں کسی کافر کو بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ اس مصرف میں تین قسم کے افراد شامل ہیں:
bجس کے مسلمان ہونے کی امید ہو۔
bججس کے فتنہ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا ہو۔ چاہے وہ شخص مسلمان ہو یا کافر۔
bججو علاقہ کا بڑا ، قبیلہ کا سردار یا کوئی حیثیت رکھنے والا شخص ہو اور دعوت دین میں معاون ہوسکے ، اسے بھی تالیف قلبی کی خاطر زکوۃ میں سے دیا جاسکتا ہے۔
zگردن آزاد کرانا: اور موجودہ دور میں کسی بے گناہ مسلمان قیدی کی ضمانت کرانا۔
zقرضدار: اس سے مراد ایسا قرضدار ہے جس نے کسی اسراف ، فضول خرچی یا کسی گناہ کے کام کے لئے قرض نہ لیا ہو، بلکہ ضرورت کے تحت لیا ہو اور پھر اسے چکا نہ سکے۔
zفی سبیل اللہ: آیتِ زکوۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مرادعموم نہیں بلکہ خاص معنی ہے اور وہ ہے مجاہدین ۔
نصوص شرعیہ کی رو سے جہاد کی تین قسمیں ہیں :
bجہاد بالقلم(قلم و تحریر کے ذریعہ جہاد)
bجہاد باللسان (زبان و کلام کے ذریعہ جہاد)
bجہاد بالسیف(تلوار و اسلحہ کے ذریعہ جہاد)۔
نصوص شرعیہ کی رو سے تینوں میں سے کسی بھی قسم کے ذریعہ دینِ اسلام، شعائرِ اسلام کا تحفظ و دفاع کرنے والے اس مصرف میں داخل ہیں۔
اللہ تعالی نے آیت کی ابتدا میں لفظ ’’إنما‘‘ یعنی ’’فقط‘‘ کہہ کر یہ بتا یا کہ یہ زکوۃ انہی آٹھ مصارف میں محدود رہے گی، اگر یہاں ’’فی سبیل اللہ ‘‘سے مراد ہر قسم کی نیکی اور فلاح کاکام مراد لیا جائے تو اس قید کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔لہٰذامساجد کی تعمیر ، ہسپتال اور مریضوں کے علاج و معالجہ ، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں میں جن کا ذکر زکوۃ کے مصارف میں نہیں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں۔ واللہ اعلم
مفتی دیارِ سعودیہ سماحۃ الشیخ ابن باز a فرماتے ہیں:
مساجد کی تعمیر اور اسی طرح سڑکوں ، پلوں وغیرہ کی تعمیر میں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ زکوۃ کے آٹھ مصارف میں شامل نہیں۔ (فتاوی نور علی الدرب)
نوٹ: البتہ ایسے مریض جو فقراء یا مساکین یا دیگر مذکورہ مصارف میں سےہوں تو انہیں مذکورہ مصارف میں سے ہونے کی وجہ سے زکٰوۃ ادا کی جاسکتی ہے ،نا کہ مریض ہونے کی وجہ سے۔
zمسافر: یہ زکوٰۃ کا آٹھواں مصرف ہے ۔اس سے مراد وہ شخص ہے جو حالتِ سفر میں ہو ، چاہے وہ اپنے علاقہ میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو حالتِ سفر میں آفت آجانے کی وجہ سے اس کے لئے زکوۃ لینا جائز ہے۔والله أعلم
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
۔۔،
زکوۃ کی تعریف:
لفظ’’زکوۃ‘‘کا لغوی مفہوم پاکیزگی اور اضافہ ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس عبادت سے انسان کا مال حلال اور پاک ہوجاتا ہے ، اور انسان کا نفس بھی تمام گناہوں کی آلودگی سے پاک اور صاف ہوجاتا ہے۔
شریعت اسلامی میں زکوۃ کا معنی ہے:
خاص اموال میں جب وہ نصاب تک پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں سے مخصوص حصہ نکال کر مخصوص مستحقین تک پہنچانا۔
اس تعریف سے پانچ چیزیں واضح ہوتی ہیں:
Aزکوۃ تمام اموال میں سے نہیں نکالی جائیگی ، بلکہ صرف چند خاص اموال ہیں جن پر زکوۃ لاگو ہوتی ہے۔ ان کی تفصیل آئندہ سطور میں آ ئے گی۔
B ہر کم و زیادہ مال و دولت پر زکوۃ نہیں ہے بلکہ ایک خاص مقدار پر زکوۃ کا نفاذ ہوگا، یہ مقدار ہر مال کے لحاظ سے مختلف ہے، مثلاً مویشیوں میں سے بکری ، گائے بھینس اور اونٹ وغیرہ میں تعداد کا خیال رکھا گیا ہے اور ہر ایک میں الگ الگ تعداد مقرر کی گئی ہے ، اسی طرح کھیتی باڑی میں فصل کے وزن کو اور سونا چاندی میں قیمت کو معیار بنایا گیا ہے ۔
اس مقدار میں شریعت نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ صاحب مال پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالا جائے اور اتنی مقدار پر زکوۃ فرض کی گئی ہے کہ صاحب مال باآسانی اسے ادا کرسکتا ہے ۔
C یہ بات بھی شریعت کی آسانی اور سماحت کا مظہر ہے کہ مال کے اس خاص مقدار کو پہنچتے ہی زکوۃ فرض نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ کی فرضیت کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار پر ایک سال گزر جائے۔یعنی اگر دوران سال مال کی اس خاص مقدار میں کمی واقع ہوجائے تو زکوۃ کی فرضیت ختم ہوجاتی ہے۔
D صاحب مال پر زکوۃ صرف اتنی فرض کی گئی جو ہر صاحب نصاب بڑی آسانی سے اور خوشی ادا کرسکتا ہے، یعنی پورے مال کا صرف ڈھائی فیصد حصہ بطور زکوۃ کے فرض کیا گیا جو کہ بقیہ ساڑھے ستانوے فیصد مال کے سامنے کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یقینا ً یہ اللہ تعالی کا اس امت پر احسان ہے ، اگر یہی زکوۃ جمیع مال کا پچاس فیصد ہوتی تو یقیناً صاحب مال کے لئے بڑی مشقت اور حرج کا سامان ہوتی، لیکن اللہ رب العزت نے اس امت کے ساتھ خصوصی رحمت کا برتاؤ کرتے ہوئے صرف ڈھائی فیصد تک زکوۃ کو محدود رکھا۔
E زکوۃ کے مصارف خاص ہیں ، اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ ان کا بیان کردیا ہے، یہ آٹھ مصارف ہیں جہاں پر زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے ، اس کے علاوہ کسی اور جگہ زکوۃکا مال دینے سے زکوۃ کی ادائیگی نہ ہوگی۔ ان مصارف کا بیان ان شاء اللہ اگلی سطور میں ہوگا۔
زکوۃ کی فرضیت و اہمیت:
نماز کے بعد’’ زکوۃ‘‘دین اسلام کا انتہائی اہم رکن ہے ۔ قرآن مجید میں بیاسی مرتبہ اس کا تاکیدی حکم آیا ہے۔ زکوۃ نہ صرف امت محمدیہ ﷺ پر فرض ہے بلکہ اس سے پہلے بھی تمام امتوں پر فرض کی گئی تھی۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ][البقرة: 43]
ترجمہ : ’’ اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے زکوۃ ادا کرنے والوں کو سچا مومن قرار دیا ہے:
الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَأُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِم وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ] ([الأنفال: 3، 4)
’’ جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔سچے ایمان والے یہ لوگ ہیں ان کے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور مغفرت اور عزت کی روزی ہے‘‘
نبی کریم ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ کرتے وقت فرمایا تھا: ’’انہیں اس بات کا بھی علم دینا کہ اللہ تعالی نے ان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر ان کے غریبوں میں تقسیم کی جائےگی‘‘ (1331) مسلم (19)
فرضیت زکوۃ کی حکمتیں اور فوائد
زکوۃ کی صحیح طور پر ادائیگی کے معاشرہ پر ، زکوۃ ادا کرنے والے کے نفس اور مال پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں:
Aزکوۃ ، مال میں اضافہ کا سبب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
[وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُوْنَ][الروم: 39]
’’ اور جو کچھ صدقہ زکوۃ تم اللہ تعالیٰ کا منہ دیکھنے (اور خوشنودی کے لئے) دو تو ایسے لوگ ہی ہیں اپنا دوچند کرنے والے ہیں۔
Bانسان کے نفس اور مال کی پاکیزگی کا باعث ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ} [التوبة: 103]
’’ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے‘‘۔
Cغریبوں کے دل سے امراء کے خلاف حقد وحسد کے جذبات ختم کرنے کا سبب ہے۔
Dمعاشرہ میں تعاون اور ہمدردی کے جذبات پروان چڑھانے میں معاون ہے۔
Eحصول رحمت کا سبب ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ } [الأعراف: 156]
’’ اور میری رحمت تمام اشیا پر محیط ہے تو وہ رحمت ان لوگوں کے نام ضرور لکھوں گا جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں‘‘۔
Fنصرت الہٰی کا سبب ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌالَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ}[الحج: 40، 41]
’’ جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔ بیشک اللہ تعالٰی بڑی قوتوں والا بڑے غلبے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں‘‘۔
زکوۃ ادا نہ کرنےوالے کا حکم
اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ زکوۃ کے وجوب کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے ، البتہ وہ شخص جو زکوۃ کے وجوب کا اقرار تو کرتا ہو لیکن زکوۃ ادا نہ کرے وہ کبیرہ گناہ کا مرتکب ہے، اللہ تعالی نے ایسے افراد کے بارے میں سخت وعید بیان فرمائی ہےکہ:
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ } [التوبة: 34، 35]
’’اور جو لوگ سونا چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس دن ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لئے خزانہ بنا رکھا تھا، پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو‘‘۔
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:’’ کسی شخص کو اللہ تعالی نے مال سے نوازا پھر اس نے اس مال کی زکوۃ ادا نہیں کی تو اس کے مال کو قیامت کے دن سانپ کی شکل کا بنایا جائے گا جس کی آنکھوں کے اوپر نکتے ہوں گے، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بن جائے گااور اس کے جبڑوں کو دبوچ کر کہے گا ’’میں ہوں تیرا مال ، میں ہوں تیرا خزانہ‘‘۔ (صحیح بخاری ۱۳۳۸)
زکوٰۃ کس پر واجب ہے؟
زکوۃ ہر اس شخص پر واجب ہے جس میں درج ذیل شرائط پائی جائیں:
1اسلام: لہٰذا کافر پر زکوۃ واجب نہیں، اور نہ ہی کافر کے مال کی زکوۃ قبول کی جائیگی۔
2آزادی: یعنی وہ شخص آزاد ہو ، غلام پر زکوۃ واجب نہیں۔
2ملکیت: وہ اس مال کا مالک ہو، لہذا ایسا مال جس کا وہ شخص مالک نہ ہو اس کی زکوۃ ادا نہیں کرےگا، جیسے امانت یا رہن کے طور پر رکھوائے گئے مال پر وہ زکوۃ ادا نہیں کرے گا۔
3نصاب : یعنی اس کے پاس اتنا مال ہو جو نصاب تک پہنچ جائے، اور نصاب سے مراد وہ کم از کم حد ہے جس تک پہنچنےکے بعد مال پر زکوۃ واجب ہوتی ہے۔
4اس مال پر ایک سال گزر جائے۔ البتہ زرعی پیداوار میں یہ شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل ہوگی اس میں سے زکوۃ ادا کرنا واجب ہے ، چاہے سال میں دو فصلیں ہوں یا اس سے زیادہ یا کم۔
5اس کا مال پاکیزہ ہو ، حرام مال کی زکوۃ نہیں ہے۔
جن چیزوں پر زکوٰۃ واجب ہےسونا چاندی اور جو اس کے متبادل ہو، یعنی کرنسی۔
سونے کا نصاب:
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’سونے پر اس وقت تک زکوۃ نہیں جب تک تمہارے پاس بیس (۲۰) دینار نہ ہوں، جب تمہارے پاس بیس دینار ہوں تو اس میں سے آدھا دینار زکوۃ ادا کرو‘‘۔{ FR 124 }سنن ابو داود (1572) اس حدیث کی صحت میں اختلاف ہے، لیکن یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاً صحیح ثابت ہے ، اور چونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں لہذا یہ مرفوع کے حکم میں آتی ہے۔
بیس دینار کا وزن پچاسی (۸۵) گرام ہے، جو کہ تقریباًساڑھے سات تولہ بنتے ہیں۔
چاندی کا نصاب:
ابو سعید خدری رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم (چاندی ) پر زکوۃ نہیں‘‘۔
(سنن نسائی (2445)
ایک اوقیہ چالیس درہم کے برابر ہے ، تو پانچ اوقیہ دو سو درہم کے برابر ہیں ، اور دو سو درہم کا وزن پانچ سو پچانوے (۵۹۵) گرام ہے جو کہ تقریبا پچاس تولہ بنتے ہیں۔
زیورات کی زکوۃ:
زیورات کی زکوۃ کے حوالہ سے علماء میں اختلاف ہے ، صحابہ کرام میں سے عبداللہ بن عمر ، جابر بن عبداللہ، انس بن مالک ، عائشہ صدیقہ ، اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہم اجمعین ، جبکہ تابعین کی ایک بڑی جماعت جن میں سے سعید بن المسیب ، سعید بن جبیر ، ابن سیرین ، زہری رحمہم اللہ ، جبکہ ائمہ اربعہ میں سے امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک وہ زیورات جو عورت کے اپنےاستعمال کے ہوں ان پر زکوۃ نہیں ہے، جبکہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ائمہ میں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک زیورات پر زکوٰۃ واجب ہے ۔
موجودہ دور کے اکثر علماء کرام کا یہی قول ہے کہ احتیاط کا تقاضہ ہے کہ زیورات کی زکوۃ ادا کی جائے جب وہ نصاب کو پہنچ جائیں یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا پچاس تولہ چاندی ہو اور ان پر سال گزر جائے۔ اگر زیورات کی زکوۃ قیمت کے حساب سے دی جائے گی تو اس میں زیورات کی حالیہ قیمت کا اعتبار ہوگا اس کی اصل قیمت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
کرنسی کا نصاب:
کرنسی سونا اور چاندی کا متبادل ہے ، کیونکہ گزشتہ ادوار میں سونا اور چاندی بطور قیمت کے استعمال ہوتے تھے ، موجودہ دور میں کرنسی بطور قیمت کے استعمال ہوتی ہے۔
کرنسی کے نصاب کا اندازہ سونا اور چاندی میں سے سستی جنس کے نصاب سے لگایا جائے گا ، اور موجودہ دور میں چونکہ چاندی سونے کی نسبت سستی ہے لہذا کرنسی کا نصاب چاندی کے نصاب کی قیمت کے بقدر ہوگا، یعنی پچاس تولہ چاندی کی جو موجودہ قیمت ہے وہ کرنسی کا نصاب ہے۔
وضاحت:
زیورات کی قیمت کو کرنسی کے ساتھ نہیں ملا یا جائے گا ، بلکہ زیورات کا نصاب وزن ہے اور کرنسی کا نصاب قیمت ہے ، یعنی اگر کسی شخص کے پاس چار تولہ سونے کے زیورات ہوں او ر ان کی قیمت دو لاکھ روپے ہو تو وہ اس پر زکوۃ ادا نہیں کرے گا کیونکہ نصاب مکمل نہیں ہے، سونے کے زیورات ساڑھے سات تولہ ہوں تو زکوۃ واجب ہوگی۔
شیئرز :
ایسی کمپنی جس کا کاروبار حلال ہو اس کے حصص کی خریدو فروخت جائز ہے جبکہ اس خریدو فروخت اور تبادلہ میں جوا شامل نہ ہو۔
شیئرز پر بھی زکوۃ واجب ہے ، اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہے کہ شیئرزکی حالیہ قیمت اور وہ منافع جو سارا سال اس سے حاصل ہوا ہے کو جمع کیا جائے اور پھر اخراجات نکال کر باقی رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے۔
بانڈز:
بانڈز ایسے قرضہ جات کی رسید کو کہتے ہیں جو ایک انویسٹر کسی کمپنی کو ادا کرتا ہے اور کمپنی یہ قرضہ اس شخص کو ایک خاص مدت میں مخصوص منافع کے ساتھ ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ بانڈز کا کاروبار حرام ہے ، کیونکہ اس میں قرضہ پر ایک مخصوص منافع لیا جاتا ہے جو کہ سود ہے، لیکن علماء کے نزدیک سود کو نکال کر بانڈز کی اصل رقم پر زکوۃ ادا کرنا واجب ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائے ، کیونکہ ایسا قرضہ جس کا حصول متوقع ہو اس کو زکوۃ کے نصاب میں شمار کیا جائےگا۔
زرعی پیداوار :
اس سے مراد وہ اجناس ہیں جنہیں کھایا جاتا ہو اور ذخیرہ کیا جاتا ہو۔ لہذا ایسی اجناس جو کھائی نہ جاتی ہوں جیسے کپاس اور وہ اجناس جنہیں ذخیرہ نہ کیا جاسکتا ہو ، جیسے سبزیاں وغیرہ ، ان پر زکوۃ نہیں ، اسی طرح پھلوں پر بھی زکوۃ نہیں ہے، البتہ جب ان پھلوںیا سبزیوں وغیرہ کو بیچا جائے اور اس سے حاصل کردہ رقم نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔
زرعی پیداوار کا نصاب نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا کہ :’’ پانچ وسق سے کم پر زکوۃ نہیں‘‘۔
وسق ایک پیمانہ ہے جس کا وزن تقریبا 56 . 130کلو ہے ، اور پانچ وسق 652 کلو بنتے ہیں۔
جن اجناس پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب تک پہنچ جائیں اوران کی سیرابی میں اگر کسان کا خرچہ نہیں آتا یعنی وہ بارش یا نہروں کے ذریعہ سیراب ہوتی ہوں تو ان پر عشر یعنی دس (۱۰) فیصد زکوۃ ہے ، اور جن کی سیرابی میں کسان کا خرچہ ہو جیسے ٹیوب ویل وغیرہ تو اس پر نصف العشر یعنی پانچ (۵) فیصد زکوۃ ہے۔
مویشی:
یعنی اونٹ، گائےاور بکریاں۔ ان کے علاوہ باقی جانوروں پر زکوۃ نہیں، البتہ جب ان کی تجارت کی جائے تو ان پر بھی زکوۃ ہے۔
مویشیوں پر زکوۃ اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ خود چرتے ہوں یا ان کے چارے پر مالک کا خرچہ نہ ہو۔مویشیوں میں سے ہر جنس کی زکوۃ الگ الگ ہے جس کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔
وہ مویشی جنہیں اس غرض سے رکھا جائے کہ ان کا دودھ نکال کر بیچا جائے تو ان جانوروں پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی دودھ کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے جب وہ نصاب کو پہنچ جائے۔اسی طرح وہ جانور جنہیں بیچنے کی غرض سے پالا جائے تو ان پر زکوۃ نہیں بلکہ ان کی تجارت سے حاصل کردہ رقم پر زکوۃ ہے۔
سامان تجارت:
اس سے مراد وہ اشیاء ہیں جن کی تجارت کی جاتی ہو، چاہے ان پربذات خود زکوۃ ہو یا نہ ہو۔
چاہے وہ اشیاء خرید کر آگے بیچی جائیں چاہے خود تیار کی جائیں۔
تجارت اور سامان تجارت سے زکوۃ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک دن خاص کر لیا جائے جس میں پورے سال کا آڈٹ(Audit) ہو اور اس میں سال میں حاصل کردہ منا فع اور موجودہ سامان تجارت کی حالیہ قیمت، اور ایسے قرضے جن کا حصول متوقع ہوکو جمع کیا جائے اور اس میں سے اخراجات ، اور وہ قرضے جو واجب الادا ہیں کو نکال کر باقی رقم سے زکوۃ ادا کردی جائے ۔
منافع
۲۰۰۰۰۰ (دو لاکھ) +
سامان تجارت (موجودہ)
۱۰۰۰۰۰ (ایک لاکھ) +
وہ قرضہ جن کا حصول متوقع ہے
۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار) +
کل رقم
۳۵۰۰۰۰ (تین لاکھ پچاس ہزار) +
اخراجات
۱۰۰۰۰۰ (ایک لاکھ )
واجب الادا قرضہ
۵۰۰۰۰ (پچاس ہزار)
باقی رقم
۲۰۰۰۰۰ (دو لاکھ)
زکوۃ
۵۰۰۰ (پانچ ہزار)
وضاحت:
مکان تجارت یعنی وہ جگہ جہاں سے تجارت کی جاتی ہو جیسے دکان ، فیکٹری وغیرہ ان کی قیمت پر زکوۃ نہیںاسی طرح جن مشینوں کو سامان کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہو ان پر بھی زکوۃ نہیں۔
کرایہ پر دی گئی اشیاء:
کرایہ پر دی گئی اشیاء کی قیمت پر زکوۃ نہیں بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ہے۔ جیسے مکان ، فلیٹ، فیکٹری ، مشینری ، گاڑی وغیرہ کو کرایہ پر دیا جائے تو ان کی قیمت پر زکوۃ نہیں بلکہ ان سے حاصل کردہ کرایہ پر زکوۃ ہے۔
وضاحت:
زمین و مکان یا جائیداد وغیرہ اگر ایک شخص اپنے استعمال کی نیت سے خریدے تو ان پر زکوۃ نہیں ، البتہ اگر اسے بیچنے اور تجارت کی غرض سے خریدے تو اس کی ہر سال کی حالیہ قیمت پر زکوۃ ہوگی ، اور اسی طرح اگر اسے کرایہ پر دیدے تو اس کی قیمت پر زکوۃ نہیں ہوگی بلکہ اس کے کرایہ پر زکوۃ ہوگی۔
زکوۃ کے مصارف
شریعت اسلامی میں جب بھی مال کی تقسیم کا معاملہ آیا ہے خاص طور پر وہ مال جس میں مشترکہ حقوق ہوں ، تو اس تقسیم کو اللہ تعالی نے بندوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا ہے بلکہ خود قرآن مجید میں اس کی تقسیم بیان فرمادی ، جیسا کہ وراثت کا مال ، مال غنیمت اور مال فئ کی تقسیم اللہ تعالی نے مکمل وضاحت کے ساتھ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر بیان فرمائی ہے، بالکل اسی طرح اللہ تعالی نے زکوۃ کی تقسیم بھی کردی اور وہ افراد اور جہات متعین کردی ہیں جن کے علاوہ کسی اور کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی، نبی کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور زکوۃ کے مال میں کچھ حصہ مانگا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالی نے اس معاملہ میں کسی کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا چاہے وہ نبی ہو یا کوئی اور ہو، بلکہ خود اس کی تقسیم فرمائی ہے ، اگر اس تقسیم کے مطابق تمہارا اس میں حصہ بنتا ہے تو بتا دو میں تمہیں دے دوں گا‘‘۔ (سنن ابو داود 1630)
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالی نے صدقات کی تقسیم اپنی کتاب میں بیان فرمادی ہے مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ(التوبة: 60)
’’اللہ کی طرف سے فرض کی گئ ہے‘‘
کہ یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ ہے، لہٰذا کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ اسے اللہ تعالی کی بیان کردہ تقسیم کے علاوہ کسی اور جگہ تقسیم کرے‘‘۔(احکام القرآن بیہقی 1/ 160)
اللہ تعالی نے زکوۃ کے آٹھ مصرف بیان کئے ہیں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ }
’’صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔[التوبة: 60]
ان آٹھ مصارف کی تفصیل درج ذیل ہے:
Aفقیر: اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس اپنی حاجات پورا کرنے کے لئے کچھ نہ ہو۔
Bمسکین:اس سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال یا ذرائع ہوں لیکن وہ اس کی حاجات کے لئے کافی نہ ہوں۔جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ(الكهف: 79)
’’کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے‘‘۔
تو معلوم ہوا کہ ان مساکین کے پاس کشتی تھی اور وہ کام بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود بھی وہ مسکین تھے۔
Cعامل زکوۃ: یعنی وہ شخص جو زکوۃ جمع کرتا ہے، وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں لے سکتا بلکہ امیر یا حاکم اسے اس زکوۃ میں سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
Dتالیف قلبی: یہ وہ واحد مصرف ہے جس میں کسی کافر کو بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ اس مصرف میں تین قسم کے افراد شامل ہیں:
vجس کے مسلمان ہونے کی امید ہو۔
vجس کے فتنہ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا ہو۔ چاہے وہ شخص مسلمان ہو یا کافر۔
vوہ علاقہ کا بڑا ، قبیلہ کا سردار یا کوئی حیثیت رکھنے والا شخص ہو اور دعوت دین میں معاون ہوسکے اسے بھی تالیف قلبی کی خاطر زکوۃ میں سے دیا جاسکتا ہے۔
Eگردن آزاد کرانا:اور موجودہ دور میں کسی بے گناہ مسلمان قیدی کی ضمانت کرانا۔
Fقرضدار: اس سے مراد ایسا قرضدار ہے جس نے کسی اسراف ، فضول خرچی یا کسی گناہ کے کام کے لئے قرض نہ لیا ہو، بلکہ ضرورت کے تحت لیا ہو اور پھر اسے چکا نہ سکے۔
Gفی سبیل اللہ:
یہ ایک ایسا مصرف ہے جس میں کافی تفصیل کی ضرورت ہے۔
’’فی سبیل اللہ ‘‘ نصوص قرآن و حدیث میںدو معنی میں استعمال ہوا ہے:
vعمومی معنی ، یعنی ہر وہ نیکی کا کام جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطر کیا جائے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّۃٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ } [البقرة: 261]
’’جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سے سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ اسے چاہے اور بڑھا دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے۔
vخاص معنی، یعنی جہاد۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (الأنفال: 60)
’’تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جان رہا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا‘‘۔
اسی وجہ سے اہل علم میں اس بات پر اختلاف ہے کہ یہاں کونسا معنی مراد ہے ، اور اس بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:
پہلا قول : اس سے مرادخاص معنی یعنی جہاد ہے۔
اس پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے اور جمہور اہل علم بلکہ ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے۔
مفسرین کے اقوال:
vاستاد المفسرین ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا تعلق ہے تو اس سے مراد ہے کہ اللہ تعالی کے دین اور اس کی شریعت کی نصرت کے لئے جو قتال کیا جاتا ہے جو کفار سے جہاد ہے اس کے لئے خرچ کرنا۔(تفسیر طبری:14 /319)
vابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سبیل اللہ ‘‘ سے مراد ہے کہ یہ مال مجاہد کو دیا جائے چاہے وہ مالدار ہی کیوں نہ ہو۔(تفسیر ابن عطیہ: 3 /274)
vابو الحسن الواحدی صاحب تفسیر ’’الوجیز‘‘ لکھتے ہیں: ’’فی سبیل اللہ ‘‘ یعنی مجاہدین اور سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے۔(تفسیر الوجیز:289)
vحسین بن مسعود البغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’ فی سبیل اللہ ‘‘ سے اللہ تعالی کی مراد مجاہدین ہیں ، لہذا انہیں بھی اس صدقہ میں حصہ دینا چاہئے۔(فتح القدیر:3 /272)
vاما م قرطبی فرماتے ہیں :’’ اس سے مراد غازی اور سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے مجاہدین ہیں ، اور یہی اکثر اہل علم کا قول ہے‘‘۔( تفسیر القرطبی: 10 / 189)
vتاج المفسرین امام ابن کثیر رحمہ اللہ بھی اسی موقف کی تائید میں لکھتے ہیں کہ : ’’ اس سے مراد وہ غازی ہیں جن کے لئے باقاعدہ تنخواہ مقرر نہ ہو‘‘۔(تفسیر ابن کثیر : 4 /169)
vامام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اس سے مراد غازی اور سرحدوں کی رکھوالی کرنے والے مجاہدین ہیں‘‘۔(فتح القدیر : 3 /272)
vعبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ساتواں مصرف: اور یہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے ہیں ، اور یہ وہ مجاہدین ہیں جن کے لئے باقاعدہ تنخواہیں مقرر نہ ہوں‘‘۔(فتح القدیر : 3 /272)
یہ چند کبار مفسرین کے اقوال ہیں ، اور ان کے علاوہ بھی سلف و خلف کے تمام مفسرین کا یہی قول ہے۔
علما ء کے اقوال :
(۱) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس کی زکوۃ ادا نہیں ہوگی جو اسے میت کی تکفین میں دیدے ، کیونکہ زکوۃ صرف فقراء اور مساکین اور ان افراد کے لئے ہے جن کا اللہ تعالی نے قرآ ن میں ذکر کیا ہے ، میت کے لئے اور مساجد کی تعمیر کے لئے نہیں ہے‘‘۔(المدونہ الکبری :2 /59)
(۲) ابن ہبیرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ چاروں ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زکوۃ کو مساجد کی تعمیر اور میت کی تکفین وغیرہ کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا ، اگرچہ یہ بھی نیکی ہے ، لیکن زکوۃ کے مصارف پہلےسے متعین ہیں۔ (الافصاح108
(۳)ابن قدامہ المقدسی فرماتے ہیں :’’اللہ تعالی کے ذکر کردہ مصارف کے علاوہ زکوۃ کو کسی اور مصرف جیسے مساجد کی تعمیر ، پلوں اور سڑکوں کی درستگی اور کنویں کی کھدائی میت کی تکفین وغیرہ کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ۔امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمدرحمہ اللہ سے سوال کیا کہ :’’کیا زکوۃ کو میت کی تکفین و تجہیز کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ تو امام احمد نے فرمایا :’’نہیں ، اور نہ ہی میت کا قرض اس میں سے ادا کیا جاسکتا ہے‘‘۔(المغنی : 2 /525)
(۴) ابو حنیفہ رحمہ اللہ : ’’فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد ایسا غازی ہے جو غنی نہ ہو۔(عمدۃ القاری:9/45)
(۵) ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہاں تک ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کا تعلق ہے تو اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ یہ مجاہد کے لئے خاص ہے ، چاہے وہ امیر ہو یا غریب، اور بعض کا یہ قول ہے کہ یہ صرف غریب مجاہد کے لئے خاص ہے۔(فتح الباری:3 / 259)
(۶) ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جہاں تک ’’سبیل اللہ ‘‘ کا تعلق ہے تو اس سے مراد یقیناً جہاد ہی ہے۔
(المحلی: 6 /151)
دلائل
1 ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کا لفظ جب نصوص قرآن وحدیث میں مطلقاًآئے تو اس سے مراد جہاد ہوتا ہے، گویا کہ یہ لفظ اسی کے لئے خاص ہوگیا ہے۔ابن اثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ سبیل اللہ ویسے ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو اللہ تعالی کے قریب کردے ، لیکن جب یہ مطلقاًآئے تو اس کا معنی جہاد ہی ہوتا ہے ، حتی کہ جہاد کے لئے کثرت استعمال کی وجہ سے گویا یہ اسی کے لئے خاص ہوکر رہ گیا ہے۔(النھایہ فی غریب الحدیث:2 /145)
2 اللہ تعالی نے آیت کی ابتدا میں لفظ ’’إنما‘‘ یعنی ’’فقط‘‘ کہہ کر یہ بتا یا کہ یہ زکوۃ انہی آٹھ مصارف میں محدود رہے گی، اگر یہاں ’’فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد ہر قسم کی نیکی اور فلاح کاکام ہوتو اس قید کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
3 عربی لغت کا قاعدہ ہے کہ ’’عطف مغایرت چاہتا ہے ‘‘ یعنی ان آٹھ مصارف کے درمیان جو حرف ’’و‘‘ کا استعمال ہوا ہے اسے عربی گرامر میں ’’حرف عطف ‘‘ کہتے ہیں، اور حرف عطف دو الگ الگ چیزوں کے درمیان فرق کے لئے استعمال ہوتا ہے،یہاں پر اس کا استعمال یہ بتاتا ہے کہ سارے مصارف ایک دوسرے سے الگ ہیں ، ’’و ‘‘ کا معنی ہے ’’اور‘‘ جیسا کہ اردو میں کہا جاتا ہے :’’ابو بکر اور عمر آئے‘‘ تو لفظ ’’اور‘‘ کے ذریعہ دو الگ الگ چیزوں کے درمیان فاصلہ کیا جاتا ہے ، یہی استعمال ’’و‘‘ کا عربی میں ہے۔اللہ تعالی نے آٹھوں مصارف کے درمیان ’’و‘‘ ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مصرف دوسرے سے مختلف ہے، فقراء کا مصرف الگ ہے ، مساکین کا الگ ہے ، تالیف قلبی کا الگ ، اسی طرح ان سب مصارف کا ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کے مصرف سے کوئی تعلق نہیں ، اگر ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا معنی ہر نیکی کر لیا جائے تو فقرا ، مساکین کو دینا بھی نیکی ہے پھر اللہ تعالی نے ان کے درمیان ’’و‘‘ کا استعمال کیوں کیا ہے؟تو معلوم ہوا کہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ ایک الگ مصرف ہے اور وہ مجاہدین ہیں۔
4 ایک صحیح حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے : ’’مالدار شخص کے لئے پانچ قسم کے حالات کے علاوہ زکوۃ لینا جائز نہیں ، (ان میں سےایک ) جب وہ فی سبیل اللہ غازی ہو‘‘۔(سنن ابو داود (1635)تو اس حدیث میں واضح طور پر نبی ﷺ نے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے مصرف کو بیان کیا ہے۔
دوسرا قول : اس سے مراد غازی اور فقیر حاجی ہے۔
اس قول کو امام بخاری نے کتاب الزکوۃ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہاور حسن بصری رحمہ اللہ سے تعلیقاً (بغیر سند) روایت کیا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الزكوة، باب قوله تعالی : وفی الرقاب والغارمین۔۔۔)اور حنابلہ کی بعض کتب میں اسے امام احمد کا قول بھی بتایا گیا ہے۔
دلائل :
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری صحابیہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ: مجھے نبیﷺ کے ساتھ حج کراؤ ، تو اس صحابی نے کہا کہ: میرے پاس تو کوئی سواری نہیں جس پر میں تمھیں حج کرواسکوں ،تو صحابیہ نے کہا : تمہارا وہ فلاں گھوڑا ہے ، تو صحابی نے کہا: میں اسے فی سبیل اللہ وقف کرچکا ہوں، پھر وہ صحابی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور یہ واقعہ بیان فرمایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اسے اس گھوڑے پر حج کرواؤگے تو یہ بھی فی سبیل اللہ میں ہوگا‘‘، پھر اس صحابی نے کہا کہ میری بیوی نے کہاہے کہ میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کے ساتھ حج کرنے کے ثواب کے برابر اور کون سا عمل ہے ، تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنے کا اجر میرے ساتھ حج کرنے کے ثواب کے برابر ہے‘‘۔(سنن ابو داود 1990)
(1)ام معقل اسدیہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے کہ ان کے شوہر نے وصیت کرتے ہوئے اپنا اونٹ فی سبیل اللہ وقف کردیا ، پھر ام معقل نے حج کا ارداہ کیا لیکن ان کے پاس سواری نہیں تھی تونبی ﷺ نے ابو معقل کو حکم دیاکہ وہ یہ اونٹ انہیں دیں اور فرمایا:’’حج ’’فی سبیل اللہ‘‘ میںسےہے‘‘۔(سنن دارمی3304)
(2)ابو لاس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں نبی ﷺ نے حج پر جانے کے لئے صدقہ کے اونٹ عنایت فرمائے تھے۔( مسند احمد 4 /221)
دلائل کا تجزیہ:(1)دلیل کے طور پر پیش کی جانی والی تینوں احادیث ضعیف ہیں، حدیث ابن عباس : اس کی سند میں ایک راوی عامر الاحول ہے جو کہ صدوق یخطئ ہے، اور یہی روایت صحیح بخاری اور مسلم میں ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس میں یہ الفاظ نہیں کہ ’’ اگر تم اسے اس گھوڑے پر حج کرواؤگے تو یہ بھی فی سبیل اللہ میں ہوگا‘‘ تو معلوم ہوا کہ یہ الفاظ شاذ (یعنی ضعیف) ہیں، امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث ان الفاظ کے علاوہ صحیح ہے‘‘۔
حدیث ام معقل: اس حدیث کی سند اور الفاظ میں شدید اضطراب اور اختلاف ہے اور اس میں جمع بھی ممکن نہیں لہذا حدیث ضعیف ہے، عبید الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے مرعاۃ المفاتیح (3 / 117) میں اس حدیث پر ضعف کا حکم لگایا ہے، اس حدیث کی دو اسناد ہیں ، ایک میں مہاجر بن ابراہیم ہے جو کہ مقبول ہے اور یہ توثیق کا سب سے نچلا درجہ ہے، یعنی اس کی روایت بغیر متابعت کے قبول نہیں کی جائیگی ، جبکہ دوسری سند میں ابن اسحاق ہے جو کہ مدلس ہے اور اس نے سماع کی صراحت نہیں کی۔
حدیث ابو لاس: اس کی سند میں محمد بن اسحاق ہے جو کہ مدلس ہے اور اس نے سماع کی صراحت نہیں کی، اسی لئے ابن حجر نے تغلیق التعلیق میں اس روایت کے بارے میں توقف اختیار کیا ہے۔
2اگر بالفرض ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو بھی یہ اس مسئلہ میں دلیل نہیں بن سکتیں ، کیونکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ام معقل رضی اللہ عنہا میں وقف کا بیان ہے زکوۃ کا نہیں ، جبکہ مسئلہ مذکورہ زکوۃ کے مصارف کے بیان میں ہے، وقف کے نہیں۔ صاحب تفسیر المنار محمد رشید بن علی رضا لکھتے ہیں :’’ابو معقل رضی اللہ عنہ کا وقف کرنا ایک نفلی صدقہ تھا اور اس کے مصارف میں وہ شرط نہیں ہوتی جو زکوۃ کے مصارف میں ہوتی ہے، بلکہ نفلی صدقہ کے مصارف عام ہیں۔(تفسیر المنار (10 / 434)
تیسرا قول : آیت میں ’’فی سبیل اللّٰہ‘‘ سے مراد تمام نیکی اور بھلائی کے کام ہیں۔ لہٰذا زکوۃ کا مال ہر قسم کے رفاہی اور فلاحی کاموں جیسے مساجد کی تعمیر ، ہسپتال ، سڑکوں کی تعمیر وغیرہ میںخرچ کیا جاسکتا ہے۔
اس قول کا سلف صالحین میں سے کوئی بھی قائل نہیں، بلکہ متاخرین علماء میں سے چند اس کے قائل رہے ہیں، سب سے پہلے اس قول کو اختیار کرنے والے فخرالدین رازی شافعی ہیں جنہوں نے اپنی تفسیر میں بعض فقہاء کی طرف اس قول کو منسوب کیا اور پھر اسے راجح قرار دیا، تفسیر رازی (16 /113)ان کے بعد متاخرین حنفیہ میں سے بعض نے اسے اختیار کیا ، جیسا کہ امام کاسانی نے بدائع الصنائع میں ،اور امام آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں۔
اہلحدیث علماء میں سب سے پہلے یہ قول امام صنعانی رحمہ اللہ نے سبل السلام میں اختیار کیا، پھر صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے روضۃ الندیہ میں،ان کے بعد یہ قول کئی علماء نے اختیار کیا ، لیکن اکثر علماء نے اسے مرجوح قرار دیا ، جیسا کہ عبیدالرحمن مبارکپوری نے مرعاۃ المفاتیح میں اس پر سخت تنقید کی ہے اور اس قول کو انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔(مرعاۃ المفاتیح 3 /118)
دلائل اور ان کا تجزیہ
1 ’’فی سبیل اللہ ‘‘ عام ہے ، اور اسے خاص معنی پر محمول کرنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے، جو کہ اس آیت میں موجود نہیں۔
جواب:
جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ جب بھی مطلقاًآتا ہے تو اس سے مراد جہاد ہی ہوتا ہے ، اور پھر آیت میں ’’انما‘‘ کی قید اور حرف ’’و‘‘ کا ستعمال بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد خاص معنی ہے نہ کہ عام ۔
2وہ تمام احادیث جن سے دوسرے قول کے قائلین نے استدلال لیا تھا۔ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فی سبیل اللہ ایک چیز کے لئے خاص نہیں بلکہ اس میں اور اعمال بھی آتے ہیں۔
جواب:
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہ احادیث صحیح ثابت نہیں لہٰذا ان سے استدلال لینا جائز نہیں۔ اگر ان احادیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو ان سےیہی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کو ایک خاص معنی پر محمول کرتے تھے، اسی لئے صحابہ نے نبی کریم ﷺ سے آکر اس بارے میں سوال کیا ، اور نبی ﷺ نے صرف حج کو مزید اس مصرف میں شامل کیا۔
3 عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے مسجد کی تعمیر میں رقم خرچ کی ، اور بیت المال میں زکوۃ کا ہی مال جمع ہوتا تھا، اور صحابہ کرام نے عمر رضی اللہ عنہ کی مخالفت نہیں کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ’’فی سبیل اللہ ‘‘ تمام بھلائی کے کاموں کو شامل ہے۔
جواب:
پہلی بات: یہ ہے کہ قاعدہ اور اصل تو یہ ہے کہ زکوۃ کا مال چند مخصوص مصا رف ہی میں استعمال کیا جائیگا، اور عمر رضی اللہ عنہ یقیناً اس قاعدہ سے لاعلم نہیں ہونگے، اور زکوۃ کا مال انہی مصارف میں خرچ کریں گے جن کے لئے وہ مخصوص کیا گیا ہے، البتہ اس کے برعکس یہ بات ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر میں زکوۃ ہی کا مال خرچ کیا ہے؟؟۔
دوسری بات : یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں بیت المال نہیں تھا بلکہ جو بھی مال آتا آپ ﷺ اسے فوراً تقسیم فرمادیتے، بیت المال کا انشاء سب سے پہلے عمر رضی اللہ عنہ نے ہی کیا تھا ، اور اس کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب دارالخلافہ مدینہ میں مال کی کثرت ہوگئی ، اور عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں وہ ذرائع جن سے مال آتا تھا وہ بھی زیادہ ہوگئے تھے ، عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المال میں چھ ذرائع سے مال آتا تھا:
(۱) زکوۃ:
(۲) مال غنیمت:
وہ مال جو جنگ کے ذریعہ حاصل ہو۔
(۳) مال فئ:
وہ مال جو جہاد میں بغیر جنگ کے حاصل ہو۔
(۴) خراج:
وہ مال جو مسلمان ان کفار سے لیتے تھے جو مسلمانوں کے علاقہ میں رہتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے ، ان سے ایک مناسب نسبت طے کرلی جاتی جسے وہ ہر فصل میں سے ادا کرتے۔
(۵) جزیہ:
جو مسلمانوں کے علاقہ میں رہنے والے ایسے کفار سے لیا جاتا جو کھیتی باڑی کے علاوہ کسی اور پیشہ سے منسلک ہوتے ۔
(۶) ٹیکس:
ایسے کفار سے لیا جاتا جو دارالکفر سے دارالاسلام میں تجارت کی غرض سے آتے تھے۔تو یہ کہنا درست نہیں کہ بیت المال میں صرف زکوۃ کا ہی مال آتا تھا، بلکہ زکوۃ کی نسبت دیگر ذرائع سے آنے والا مال زیادہ تھا، اور یہ بات بھی ثابت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المال میں ہر ایک کے الگ دیوان قائم کئے تھے ، جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں تفصیل سے ذکر کیا ہےکہ بیت المال میں کئی دیوان تھے مثلاًدیوان الزکوۃ جس میں صرف زکوۃ کا مال رکھا جاتا ، اسی طرح دیوان الجند جس میں جہاد سے حاصل کردہ مال رکھا جاتا، اور دیگر دیوان بھی قائم تھے۔ اس تقسیم سے صاف ظاہر ہے کہ عمررضی اللہ عنہ نے زکوۃ کے مصارف کی خصوصی تقسیم کی وجہ سے اس کا دیوان الگ قائم کیا تھا ، لہٰذا یہ سمجھنا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کا معنی عام تھا اور وہ اسے ہر نیکی کے کام پر محمول کرتے تھے، غلط ہے۔
تیسری بات :
یہ ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المال سے تمام مسلمانوں کو بلا تفریق مخصوص ماہانہ وظیفہ دیا جاتا تھا، اور ان میں نبی کریم ﷺ کے اہل بیت اور مالدار مسلمان بھی شامل تھے، جبکہ مالدار مسلمان اور نبی ﷺ کے اہل بیت کے لئے زکوۃ لینا حرام ہے۔
یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زکوۃ کا مال تو امیر المومنین کے پاس ہوتا تھا پھر وہ آگے اسے مسلمانوں کو ہدیہ کرتے تھے اور اہل بیت کے لئے ہدیہ حرام نہیں جیسا کہ نبی کریمﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی آزاد کردہ لونڈی بریرہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا تھا کہ اسے جو صدقہ ملتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہے ہمارے لئے ہدیہ ہے ۔تو اس کاجواب یہ ہے کہ امیر المومنین یا خلیفہ زکوۃ کے مال کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ مال اس کے پاس بطور امانت ہوتا ہے اور اسے وہیں خرچ کرنا ہوتا ہے جو اس کے جائز مصارف ہیں، جبکہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو جو صدقہ ملتا تھا وہ ان کی ملکیت میں آجاتا تھا پھر وہ اسے جہاں چاہے خرچ کریں۔لہٰذا اہل بیت کو ملنے والا مال زکوۃ کا ہرگز نہیں ہوسکتا تو معلوم ہوا کہ زکوۃ کا مال یقیناً دیگر اموال سے الگ رکھا جاتا تھا اور اسے اس کے مخصوص مصارف ہی میں خرچ کیا جاتاتھا۔
خلاصہ کلام
اس مسئلہ میں راجح قول پہلا قول ہے ، کہ آیت زکوۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد خاص معنی ہے اور وہ ہے مجاہدین۔ لہٰذامساجد و مدارس کی تعمیر ، ہسپتال اور مریضوں کے علاج و معالجہ ، سڑکوں کی تعمیر اور دیگر فلاحی کاموں میں جن کا ذکر زکوۃ کے مصارف میں نہیں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں۔
ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: مساجد کی تعمیر اور مدارس کی تعمیر اور اسی طرح سڑکوں ، پلوں وغیرہ کی تعمیر میں زکوۃ استعمال کرنا جائز نہیں، کیونکہ یہ زکوۃ کے آٹھ مصارف میں شامل نہیں۔(فتاوی نور علی الدرب)
چند ضروری وضاحتیں:
1 یہاں پر مجاہدین سے مراد وہ مجاہد ہیں جو صحیح منہج پر ہوں اور خالصتاً اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کریں نہ کہ وہ جماعتیں اور ایسے نام نہاد مجاہد جو حکومت کی خاص ایجنسیوں کے ایجنڈے پر عمل کرنے کے لئے جہاد کا علم بلند کریں ، جن کے ہاں دوستی اور دشمنی کا معیار قرآن و حدیث اور توحید کے بجائے صرف شہرت اور مطلب براری ہو ، جن کا جہاد مشکوک ہو،اور جن کے مالی معاملات پر انگلیاں اٹھتی ہوں۔
2 جہاد سے مراد صرف جہاد بالسیف نہیں ہے ، بلکہ جہاد باللسان ، یعنی زبان کا جہاد اور قلم کا جہاد بھی اس میں شامل ہے، اور یہ جہاد قرآن وحدیث کے نصوص سے ثابت ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا } [الفرقان: 52]
’’ پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں‘‘۔
یہاں قرآن کے ذریعہ جہاد کاحکم دیا گیا ہے جو کہ یقیناً زبان ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے ، اور یہ سورۃ الفرقان کی آیت ہے اور سورۃ الفرقان مکی سورت ہے اور مکہ میں جہاد فرض نہیں ہوا تھا ، لہذا اس آیت میں تبلیغ دین ہی کو جہاد قرار دیا گیا ہے، اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
’جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم‘‘
’’ مشرکین سے جہاد کرو اپنی جانوں کے ساتھ اور مال کے ساتھ اور زبانوں کے ساتھ‘‘۔(سنن ابو داود 2504)
لہٰذا ایسے ادارے ، مراکز اور افراد جو معاشرہ میں انسانوں کی رہنمائی اور شرک وبدعت کے خلاف جہاد میں مصروف عمل ہوں ان کے ساتھ زکوۃ کے مال سے تعاون کیا جاسکتا ہے ، بلکہ موجودہ دور میں یہ جہاد بہت اہمیت کاحامل ہے کیونکہ حالیہ زمانہ میں قوموں کو اسلحہ کے زور سے فتح کرنے کے بجائے نظریات اور افکار کی جنگ لڑی جاتی ہے، اور اس کے نتائج آج ہمیں اپنے معاشرہ پر بھی بھرپور طریقہ سے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب رابطہ عالم اسلامی (OIC) کی علماء کمیٹی ’’المجمع الفقه الاسلامی ‘‘ سے خاص طور پر پاکستان کے حوالہ سے زکوۃ کے متعلق پوچھا گیا تو علماء کمیٹی نے فتوی دیا جو کہ ۲۷جون ۱۹۸۳کو جاری ہوا، اس میں مجمع الفقہی الاسلامی نے ایسے اداروں اور مراکز کو زکوۃ کے مصرف فی سبیل اللہ میں سے قرار دیا جو معاشرہ میں جہاد باللسان کا فرض انجام دے رہے ہوں۔
Hمسافر:
اس سے مراد وہ شخص ہے جو حالت سفر میں ہو ، چاہے وہ اپنے علاقہ میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو حالت سفر میں آفت آجانے کی وجہ سے اس کے لئے زکوۃ لینا جائز ہے۔والله أعلم
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
لغوی وضاحت
لفظ زکاۃ ’’بڑھنا ‘نشوونماپانا اور پا کیزہ ہونا ‘‘کے معانی میں مستعمل ہے اس کے تین ابواب آتے ہیں :
زَکَی یَزْکُو(نصر) زَکَّی یُزَکِّی (تفعیل) تَزَکَّی یَتَزَکَّی (تفعل)
زکوۃ کو زکوۃ اس لیے کہتےہیں کہ اس سے زکوۃ دینے والے کا مال مزید بڑھ جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ (البقرۃ 276)
’’اللہ تعالی صدقات کو بڑھادیتے ہیں ۔‘‘
اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے کہ
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ (صحيح مسلم 4/ 2001)
’’صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔‘‘
زکوۃ مال کو پاک کردیتی ہے اور صاحب مال کو بخل کی رزالت سے اور گناہوں سے پاک کرتی ہے ان دونوں لغوی معنوں کو ایک ہی آیت میں دیکھا جاسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۭ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّھُمْ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ (التوبۃ 103)
’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لئے دعا کیجئے بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لئے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے جانتا ہے۔‘‘
اس کے علاوہ اکثر مقامات پر یہ لفظ پا کیزگی کے معنی میں استعمال ہو ا ہے مثلاً : قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا )الشمس 9)
’’بے شک فلاح پاگیا وہ شخص جس نے نفس کا تزکیہ کرلیا۔‘‘
مزید فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى (الاعلی 14)
’’بے شک وہ شخص کامیاب ہو گیا جس نے تز کیہ کر لیا ۔‘‘
نیز فرمایا: فَلَا تُزَكُّوْٓا اَنْفُسَكُمْ (النجم 32)
’’اپنے نفسوں کا تزکیہ نہ بیان کرو۔‘‘
شرعی تعریف
حق واجب فی مال خاصٍ لطائفۃ مخصوصۃٍ لوقت مخصوصٍ۔(معونۃ اولی النھی شرح المنتھی ،لابن نجار 551/2)
مخصوص افراد کے لئے خاص اوقات میں جو خاص مال خرچ کیا جاتا ہے اسے شریعت میں زکوٰۃ کہتے ہیں۔
وضاحت:
یعنی ایک سال مکمل ہونے پر سونا، چاندی، نقدی،مویشی اور مالِ تجارت پر زکاۃ ہے جب کہ غلہ اورپھل تیار ہوجانے پر اور معین مقدار شہد یا معدنیات کا حصول ہو تو ان میں زکاۃ فرض ہے۔اسی طرح عیدالفطر کی رات سورج غروب ہوجانے پر صدقۃ الفطر فرض ہے۔
زکوٰۃ کب فرض ہوئی؟
اس کے وقت فرضیت میں علماء کا اختلاف ہے اکثر علماء کا یہ خیال ہے یہ 2ہجری میں رمضان کے روزوںکی فرضیت سے پہلے فرض ہوئی اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ فرض تو مکہ میں ہی ہوگئی تھی لیکن اس کے تفصیلی احکام مدینہ میں 2ہجری کو نازل ہوئے ۔
(شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ )اہل علم کے اقوال میں سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ زکوۃ مکہ میں فرض ہوئی لیکن نصاب زکوۃ کے اموال اور اہل زکوۃ کی تعیین مدینہ میں ہوئی ۔
فرضیتِ زکوٰۃ پر چند دلائل :
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ (البقرہ:43)
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ تم بھی رکوع کیا کرو۔
مزید ارشاد ِفرمایا:
خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا(التوبة103)
اے نبی ( صلی اللہ علیہ و سلم )! ان کے مالوں میں سے صدقہ (زکوٰۃ) وصول کرکے انہیں پاک و صاف کردو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب معاذبن جبل رضی اللہ کو یمن کی طرف قاضی بناکر بھیجا تو ارشاد ہے:
اَخْبِرْھُمْ أَنَّ اللّٰهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ
کہ لوگوں کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے مالوں میں صدقہ فرض کیا ہے جو مالدار لوگوں سے لیا جائے گا اور ان ہی کے نادار لوگوں کو دیا جائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِيَاءِ وَتُرَدَّ ...)
زکوٰۃ، نماز کے بعد اسلام کا انتہائی اہم ترین رکن ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید میں82 مقامات پر ہوا ہے۔
جس سے زکوٰۃ کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ بات بھی روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے سے گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ ساتھ درجات بھی بلند ہوتے ہیں اور زکاۃ ادا کرنے والے کا مال حلال اور پاک بنتا ہے اور اس میں اضافہ بھی ہوتا ہے اور زکوٰۃ کوئی تاوان یا ٹیکس نہیں جس سے مال کم ہوتا ہو اور دینے والے کو نقصان اٹھانا پڑے بلکہ اس کے برعکس زکوٰۃ سے مال میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ(صحیح مسلم)
’’صدقہ (زکوٰۃ) دینے سے مال کم نہیں ہوتا۔‘‘
فرضیت زکوۃ کی حکمتیں :
زکوٰۃ کے فرض ہونےمیں مندرجہ ذیل حکمتیں پنہاں ہیں:
1۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے انسانی نفوس بخل و کنجوسی، لالچ، حرص، خودغرضی اور سنگدلی جیسے اخلاق رذیلہ سے پاک و صاف ہوجاتے ہیں۔
2۔ مال کی بے جا محبت کم ہوجاتی ہے اور زکوٰۃ سے اعلیٰ و ارفع انسانی اقدار مثلاً ایثار و قربانی، احسان ، جود و سخا اور خیر خواہی جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
3۔فقراء،مساکین،تنگدست،محتاجوںاورضرورتمندوں سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔
4۔ مصالح عامہ جن پر امت کی زندگی اور سعادت موقوف ہے ، زکوٰۃ سے وہ پورے ہوتے ہیں۔
5۔زکوٰۃ ادا کرنے سے مسلمانوں کو دولت کمانے اور خرچ کرنے کی حدود و قیود سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
6۔ زکوٰۃ ادا کرنے والے کویہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مال و دولت کا اصل مالک اللہ ربّ العزت ہے۔
7۔ زکوٰۃ کی ادائیگی سے روپیہ ،پیسہ گردش میںرہتا ہے۔
8۔ زکوٰۃ عام آدمی کی خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔
9۔ زکوٰۃایک ایسا عمل ہے جو دین کی تکمیل اور تقرب الی اللہ حاصل ہونے کےعلاوہ ایک عام آدمی سے لیکر پورے معاشرے کی اجتماعی خوشحالی کا ضامن ہے۔
زکوٰۃ کی عدم ادائیگی کی سزا:
فرمانِ الٰہی ہے:
وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ o يَوْمَ يُحْمٰي عَلَيْهَا فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰي بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوْبُهُمْ وَظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ (التوبۃ34تا35)
’’دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ان لوگوں کو جو سونا اور چاندی جمع کرتے ہیںلیکن اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اس سے ان لوگوں کی پیشانیوں،پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا(اور کہا جائے گا) یہ وہ خزانہ ہے جسے تم اپنے لیے سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے، اب اپنے خزانے کا مزہ چکھو۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے کہ
مَنْ اٰتَاهُ اللّٰهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ - يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ- يَقُولُ: أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے هیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس نے اس کی زکوۃ نہ دی تو قیامت کے روز اس کا مال اس کے لئے سانپ بن جائے گا اس کے سر پر بال اور آنکھوں پر دو نقطے ہوں گے اور پھر یہ سانپ اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈالا جائے گا اور وہ سانپ اپنی زبان سے کہتا ہوگا کہ میں تیرا مال ہو میں تیرا جمع کردہ خزانہ ہوں۔(صحیح بخاری، کتاب التفاسیر، بَابُ :وَلَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ ۔۔۔)
اس اخروی عذاب کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوٰۃ کی دائیگی سے منہ موڑتی ہے، قحط سالی اور مشاکل میں مبتلا کردیتا ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے: جو قوم بھی زکوٰۃ سے انکار کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کردیتا ہے۔ (صحیح الترغیب، لالبانی467/1)
ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:جو لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتے وہ بارانِ رحمت سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العقوبات)
چھپا کر زکوٰۃ وصدقات کی ادائیگی افضل ہے :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ... وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ (صحیح البخاری:660)
’’سات آدمیوں کو اللہ اپنے سائے میں رکھے گا جس دن کہ سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہ ہوگا ...اور وہ شخص جو چھپا کر صدقہ دے یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہو کہ اس کے داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا ۔‘‘
دوسروں کو ترغیب کے لیے دکھا کر صدقہ کرنا بھی جائز ہے:
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:274)
’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لئے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف اور نہ غمگینی۔‘‘
اس آیت میں چھپا کر صدقہ کرنے والے اور ظاہر کرکے صدقہ کرنے والے دونوں کو اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر وثواب کی نوید سنائی گئی ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ (محض ترغیب کی غرض سے) لوگوں کو دکھا کر صدقہ کرنا بھی جائز ہے لیکن اگر لوگوں کو دکھانے کا مقصد ان کے ہاں عز ت ومقام حاصل کرنا ہو تو یہ جائز نہیں بلکہ اس کے ذریعے صدقات ضائع ہوجاتے ہیں۔
احسان جتلانے سے صدقہ ضائع ہوجاتاہے :
ارشاد باری تعالی ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى ۙ كَالَّذِيْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَاۗءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ۭ لَا يَـقْدِرُوْنَ عَلٰي شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْا ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ (البقرۃ:264)
’’اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔‘‘
زکوٰۃ اموال کی حفاظت کا باعث ہے :
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : حصنوا أَمْوَالكُم بِالزَّكَاةِ (صحیح الترغیب:744) ’’زکوٰۃ کے ذریعے اپنے اموال محفوظ کرو۔‘‘
زکوۃ ادا کرنے والا صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا :
سیدنا عمرو بن مرہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قضاعہ قبیلے کا ایک آدمی رسول اللہ عنہ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا ، بلاشبہ میں نے یہ شہادت دی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں نے پانچوں نمازیں ادا کیں اوررمضان کے روزے رکھے اور اس کا قیام کیا اور زکوٰۃ ادا کی۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
من مَاتَ على هَذَا كَانَ من الصديقين وَالشُّهَدَاء
’’ جو شخص اسی عمل پر فوت ہوا وہ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (صحیح الترغیب :749)
ہر سال زکوۃ ادا کرنے والا ایمان کا ذائقہ چکھتا ہے:
سیدنا عبد اللہ بن معاویہ غاضری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
ثَلَاثٌ مَنْ فَعَلَهُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِيمَانِ: مَنْ عَبَدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَأَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَعْطَى زَكَاةَ مَالِهِ طَيِّبَةً بِهَا نَفْسُهُ، رَافِدَةً عَلَيْهِ كُلَّ عَامٍ (سنن أبي داود2/ 103)
’’ تین باتیں ہیں جو شخص ان کو کرے گا وہ ایمان کا مزہ پائے گا ایک اللہ کی عبادت کرے اور دوسرے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کا اقرار کرے اور تیسرے ہر سال اپنے مال کی زکوٰۃ خوشی خوشی ادا کرے۔‘‘
زکوۃ وخیرات گناہوں کا کفارہ ہے :
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الفِتْنَةِ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَحْفَظُهُ كَمَا قَالَ، قَالَ: إِنَّكَ عَلَيْهِ لَجَرِيءٌ، فَكَيْفَ؟ قَالَ: قُلْتُ: فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ المُنْكَرِ(صحيح البخاري 2/ 113)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث آپ لوگوں میں کسی کو یاد ہے ؟ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اس طرح یادرکھتا ہوں جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں اسے بیان کرنے کی جرأت ہے تو (بتاؤ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ میں نے کہا کہ ( آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا) ’’ انسان کی آزمائش اس کے خاندان ، اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز،صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم دینا اور بری باتوں سے روکنا اس آزمائش کا کفارہ بن جاتی ہے ۔
صدقہ وخیرات سے رب کا غضب ختم ہوجاتاہے:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
إِنَّ الصَّدَقَةَ لَتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ(سنن الترمذي 2/ 45)
’’ بلاشبہ صدقہ پروردگار کا غضب ختم کردیتاہے۔‘‘
صدقہ روزِ قیامت مومن پر سایہ کرے گا :
مرثد بن عبد اللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے کسی نے بتایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نا ، آپ نے فرمایا :
إِنَّ ظِلَّ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَة صدقته (مشكاة المصابيح 1/ 601)
’’ بلاشبہ روزِ قیامت مومن پر اس کا صدقہ سایہ کرے گا۔‘‘
فرضیتِ زکاۃ کی شرائط:
زکوٰۃ فرض ہونے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں :
۱۔ مسلمان ہونا : کافر پر زکوۃ فرض نہیں کیونکہ وہ اسلامی احکامات کا مکلف نہیں ہے اس میں بچہ اور عورت عاقل اور غیر عاقل بھی شامل ہے ان کی طرف سے ان کاولی زکوٰۃ اداکرے گا ۔
۲۔ آزاد مرد اور عورت : کیونکہ غلام کا اپنا کوئی مال نہیںہوتا بلکہ وہ تو خود کسی کی ملکیت ہوتاہے۔
۳۔ نصاب کا مالک ہونا :یعنی ساڑھے سات تولے سونا (87گرام)یا ساڑھے باون تولے چاندی (612گرام) یا اس نصاب کے برابر نقدی ہو یا جانوروں کا نصاب یا زرعی پیداوار گندم ،جو،کشمش اور دیگر پھل وغیرہ یعنی تقریباً 19 من (750کلوگرام)تک پیداوار حاصل ہو۔
۴۔مذکورہ بالا نصاب پر پورا سال گزر جائے جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مال میں زکوۃ تب ہے جب اس پر ایک سال گزر جائے۔ ( ابن ماجہ ، کتاب الزکاۃ ، باب استفاد مالا )
البتہ زمین کی پیداوار میں ایک سال کاگزرناشرط نہیں بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اگر نصاب پورا ہو (یعنی تقریباً 19من 750کلوگرام)ہو تو زکوۃ ادا کرنی ہوگی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ (الانعام:141)
اور اجناس کی کٹائی کے دن اس کا حق (زکاۃ)ادا کرو۔
وضاحت:
٭ مقررہ نصاب کو پہنچے ہوئے جانوروں کے دوران سال پیدا ہونے والے بچے اور مال تجارت سے دوران سال حاصل ہونے والا منافع بھی اسی سال کی آمدن تصور ہوگا۔زکوٰۃ ادا کرنے میں سال گزرنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔
مگر استعمال کی عام چیزوں میں زکوٰۃ نہیں مثلاً : رہائشی گھر اور اس کا سامان، گاڑیاں، مشینری اور سواری کیلئے جانور وغیرہ۔
٭ جن چیزوں سے کرایہ حاصل ہوتاہو ان پر زکاۃ نہیں بلکہ ان کی آمدن پر زکاۃ ہے بشرطیکہ نصاب کو پہنچے اور سال بھی گزر جائے۔
٭ اگر کسی شخص پر زکاۃ فرض ہو اور وہ ادا کرنے سے پہلے فوت ہوجائے تو اس کے ورثاء پر زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’فَدَيْنُ اللهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضٰى‘‘(صحیح البخاری ، کتاب الصوم ، باب من مات وعلیہ صوم)
’’اللہ تعالیٰ کاقرض زیادہ حق رکھتاہے کہ اسے ادا کیا جائے۔‘‘
وہ اموال جن پر زکوٰۃ فرض ہے:
حدیث میں جن چیزوں کی زکوٰۃ کا ذکر ہے، ان کا پانچ قسمیںہیں:
۱۔ سونا اور چاندی یا اس سے مساوی نقدی
۲۔ مال تجارت
۳۔ زرعی پیداوار
۴۔ مویشی
۵۔ کان اور دبے ہوئے خزانے
سونے کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:
جمہورعلماء کرام(اکثر سلف) کے نزدیک سونے کا نصاب بیس دینار(۲۰ مثقال، ساڑھے ۷ تولہ) ہے اور شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے یعنی اگر کسی شخص کے پاس ساڑھے ۷ تولہ سونا ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر اس کا چالیسواں حصہ بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا فرض ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم پر سونے میں اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں ہے، جب تک وہ بیس دینار(۲۰ مثقال) نہ ہوجائے، اگر تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو اور اس پر ایک سال گذر جائے تو اس کی نصف دینار(یعنی چالیسواں حصہ)زکوٰۃ ادا کرو۔(سنن ابوداؤد ، کتاب الزکوٰۃ ، باب:بَابٌ فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ)
چاندی کا نصاب اور شرح زکوٰۃ:
اس بارے میںامت کا اجماع ہے کہ چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ (علمائے حدیث و فقہ اور علمائے لغت کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک اوقیہ کا وزن چالیس درہم اور دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہے۔(شرح مسلم، للنووی) مثقال کا وزن ہمارے ہاں کے لحاظ سے ساڑھے باون ماشہ ہے۔ لہٰذا ۲۰۰ درہم کا وزن ساڑھے ۵۲ تولہ ہوا۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پانچ اوقیہ سے کم چاندی پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے۔(مسلم)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میں نے تمہیں گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ معاف کردی ہے، لیکن چاندی کی زکوٰۃ ادا کرو، ہر چالیس درہموں پر ایک ایک درہم زکوٰۃ ہے۔ ایک سو نوے درہموں پر کوئی زکوٰۃ نہیں، لیکن جب وہ دو سو درہم ہوجائیں، تو ان پر پانچ درہم زکوٰۃ ہے۔(ترمذی)
شرح زکوٰۃ اڑھائی فیصد 2.5% (چالیسواں حصہ) ہے۔
دھات اور کاغذی سکوں کی زکوٰۃ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں نقدی کے طور پر سونا اور چاندی(بشکل دینار ودرہم) استعمال ہوتے تھے۔ موجودہ دزمانہ میں دھات اور کاغذ کے سکے سونے اور چاندی کے قائم مقام ہوگئے ہیں اور انہیں ہر وقت سونے اور چاندی میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جب کسی شخص کے پاس دھات یا کاغذ کے سکوں کی اتنی مقدار ہوجائے جس سے سونے یا چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا ہو اور اس پر ایک سال گذر چکا ہو، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ موجودہ دور میںایک تولہ سونے کی قیمت 57800 روپے ہے جبکہ سونے کا نصاب 7.5تولہ کی کل قیمت 433500 روپے بنتی ہے اس پر 2.50 فیصد زکاۃ کی رقم 10837روپے بنے گی اگر کسی کے پاس اس مقدار میں سونا نہیں بلکہ نقدی ہوتو اس پر بھی زکاۃ فرض ہے۔
اسی طرح موجودہ دور میںایک تولہ چاندی کی قیمت 770روپے ہے جبکہ50.52 تولہ کی قیمت 40425 روپے بنتی ہے اور 2.50فیصد کے حساب 1010 روپے زکاۃ بنتی ہے اور ان دونوں نصاب میں سے کوئی ایک بھی پورا ہورہا ہوتو زکوۃ فرض ہے مگر اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ملک میں جوکرنسی رائج ہو اسی کو نصاب بنایا جائے مگر بعض علماء کے ہاں جس کرنسی سے فقراء اور مساکین کو زیادہ فائدہ ہو اس کو نصاب بنایا جائے تو دوسرے قول کا لحاظ کرتے ہوئے چاندی کا نصاب مقرر کرنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اگر کسی پاس ساڑھے 52 تولے چاندی40425روپے نقدی ہوتو وہ صاحب نصاب ہے،اس پر زکاۃ فرض ہوگی۔
حُلي (عورت کے زیور )پر زکوٰۃ:
موتی، یاقوت اور دوسرے تمام جواہرات، کپڑوں اور دوسرے سامان(جیسے گھرکے برتن) پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ جبکہ وہ محض استعمال اور زینت کے لئے ہوں، لیکن اگر وہ تجارت کے لئے ہوں تو ان پر زکوٰۃ سب کے نزدیک ضروری ہے۔(نیل الاوطار، الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
عورت کے سونے اور چاندی کے زیور پر زکوٰۃ ضروری ہے، جبکہ اس کا وزن بقدر نصاب یا اس سے زیادہ ہو اور اس پر ایک سال گزرچکا ہو۔
سیدناعمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ذریعے اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک لڑکی تھی، جس کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ اللہ قیامت کے روز تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے؟(ابوداوٗد، ترمذی، نسائی)
سیدہ امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں سونے کےکنگن پہنے ہوئے تھی، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا یہ کنگن کنز(جمع کیا ہوا خزانہ جس کی زکوٰۃ نہ دینے والوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں وعید فرمائی ہے) کی تعریف میں آتے ہیں؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم نے ان کی زکوٰۃ دیدی تو یہ کنز نہیں ہیں۔(ابوداوٗد، دارقطنی)
وضاحت:اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ زیور جس کی ملکیت ہو وہی اس کی زکوٰۃ بھی ادا کرے۔
زرعی پیداوار پر زکوٰۃ:
زرعی پیداوا رمیں بعض اجناس پر زکوٰۃ فرض ہے :
إِنَّمَا سَنَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَاةَ فِي هَذِهِ الْأَرْبَعَةِ: الْحِنْطَةِ وَالشَّعِيرِ وَالزَّبِيبِ وَالتَّمْرِ
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے درج ذیل چار چیزوں میں زکوٰۃ مقرر فرمائی، گندم، جو، کشمش، کھجور
(الدارقطنی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ لالبانی ۲/۸۷۹)
زرعی پیداوار کا نصاب:
زرعی زمین سے حاصل شدہ پیداوار پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
جب تک غلہ اور کھجور کی مقدار پانچ وسق(تقریباً 19 من، یا 750کلوگرام)تک نہ ہوجائے، زکوٰۃ نہیں ہے۔(صحیح سنن النسائی لالبانی2330/2)
قدرتی ذرائع سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کے لئے شرح زکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور مصنوعی ذرائع (مثلاً کنواں، ٹیوب ویل، نہر)سے سیراب ہونے والی زمین کی پیداوار کی شرح زکوٰۃ بیسواں حصہ(نصف عشر)ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:
فِيمَا سَقَتِ السَّمَآءُ وَالعُيُوْنُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا العُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ العُشْرِ(بخاری، الزکوٰۃ، بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي...)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس زمین کو بارش یا چشمے پانی پلائیں یا زمین ترو تازہ ہو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ زکوٰۃ ہے، جس زمین کو کنویں کے ذریعے پانی دیا جائے اس میں سے نصف عشر(بیسواں حصہ) زکوٰۃ ہے۔
حرام کمائی سے حاصل شدہ مال پر زکوٰۃ :
حرام طریقہ سے حاصل کیا ہوا مال مثلاً ڈاکہ ،چوری، فریب، رشوت، سود ، دھوکہ،شراب ، ہیرون، بھنگ، چرس وغیرہ سے حاصل شدہ مال پر زکوٰ ۃ نہیں ہے ۔اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ خود پاک ہیں اورپاک مال ہی کو قبول کرتے ہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ tسے روایت ہے کہ رسول اللهe نے فرمایا جس نے پاک کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اللہ صرف پاک کمائی کو قبول کرتا ہے، پھر اس کو خیرات کرنے والے کے لئے پالتا رہتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص اپنے بچھڑے کو پالتا ہے،یہاں تک کہ وہ خیرات پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے۔
(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقۃ من کسب طیب)
عورت کے حق مہر سے زکوٰۃ:
عورت کا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے اسی لئے کہ یہ شوہر پر قرض ہوتا ہے جس طرح قرض ادا کرنا ضروری ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہوتا ہے ا لاّ یہ کہ عورت معاف کردے۔عورت کے حق مہر کی رقم زکوٰۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال بھی گزرچکا ہو تو اڑھائی فیصد(2.5%)کی شرح سے اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
مشترکہ کاروبار پر زکوٰۃ:
اگر چند افراد کا مشترکہ کاروبار ہوتو ہرشخص کو اپنے نفع سے زکوٰۃ نکالنی ہوگی بشرطیکہ کے وہ نصاب کو پہنچ جائیں۔
فیکٹری پر زکوٰۃ :
فیکٹری ، کارخانہ کے آلات مشینری اور بلڈنگ پر کوئی زکوٰۃ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مال تجارت نہیں بلکہ آلات تجارت ہیں۔جبکہ زکوٰۃ مال تجارت پر فرض ہوتی ہے۔ البتہ فیکٹری یا کارخانہ سے جو مال تیار ہوتا ہے۔ خواہ وہ خام مال ہو یا تیار مال ہو اس کی قیمت پر اڑھائی فیصد (2.5%)کے حساب سے زکوٰۃ ہوگی۔(الفقہ الاسلامی وادلتہ، 864/2)
خاوند اور زیر پرورش بچوں پر زکوٰۃ خرچ کرنا:
چونکہ بیوی اور بچوں کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے۔اگر مرد غریب اور عورت مالدار ہو تو وہ عورت اپنی زکوٰۃ اپنے غریب شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہے۔ جیسا کہ سيدنا عبداﷲ بن مسعود t کی بیوی سیدہ زینب rنے آپ e سے دریافت کیا میرا شوہر غریب ہے کیا میں اپنی زکوٰۃ اپنے شوہر اور زیر کفالت بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں ۔ آپe نے فرمایا:۔ان پر خرچ کرنے سے تجھے دہرا اجر ملے گا۔(۱)قرابت (صلہ رحمی) کا (۲) زکوٰۃ کی ادائیگی کا۔(صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ، باب:بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي ..)
مصارفِ زکوٰۃ:
شریعتِ اسلامیہ نے زکوٰۃ کے مصارف کا تذکرہ بھی پوری تفصیل سے کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْعٰمِلِيْنَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِيْنَ وَفِيْ سَبِيْلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِّنَ اللهِ ۭوَاللهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ (التوبۃ:60)
صدقات تو دراصل فقیروںمسکینوں اور ان افرادکے لئے ہیں جو ان (کی وصولی) پر مقرر ہیں۔ نیز تالیف قلب، غلام آزاد کرانے، قرضداروں کے قرض اتارنے، اللہ کی راہ میں اور مسافروںپر خرچ کرنے کے لئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فریضہ ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
مصارفِ زکوٰۃ کی کل تعداد آٹھ ہے۔ جو درج ذیل ہیں:
1-2 فقراء و مساکین :
فقیر اور مسکین کی تعریف اور ان میں فرق سے متعلق علماء کے کئی اقوال ہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل حدیث قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ tکہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جو ایک یا دو لقموں کے لیے لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ اسے ایک یا دو کھجوریں دے کر لوٹا دیا جائے بلکہ مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جو اسے بے نیاز کر دے۔ نہ اس کا حال کسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے صدقہ دیا جائے، نہ وہ لوگوں سے کھڑا ہو کر سوال کرتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ لَا يَسْــئَـلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب المسکین الذی لایجد غنی )
گویا محتاجی کے لحاظ سے فقیر اور مسکین میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ فقیر وہ ہے جو لوگوں سے سوال کرتا پھرے اور مسکین وہ ہے جو حاجت کے باوجود قانع رہے اور سوال کرنے سے پرہیز کرے جسے ہمارے ہاں سفید پوش کہا جاتا ہے۔
3 زکوٰۃ وصول کرنے والے لوگ:
زکوٰۃ کو وصول کرنے والے، تقسیم کرنے والے اور ان کا حساب کتاب رکھنے والا سارا عملہ اموال زکوٰۃ سے معاوضہ یا تنخواہ لینے کا حقدار ہے۔ اس عملہ میں سے اگر کوئی شخص خود مالدار ہو تو بھی معاوضہ یا تنخواہ کا حقدار ہے اور اسے یہ معاوضہ لینا ہی چاہیے خواہ بعد میں صدقہ کر دے جیساکہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔
سیدنا عبداللہ بن السعدی کہتے ہیں کہ دور فاروقی میں میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے مجھے کہا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم لوگوں کے کام کرتے ہو اور جب تمہیں اس کی اجرت دی جائے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ میں نے کہا ہاں انہوں نے پوچھا پھر اس سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میرے پاس گھوڑے ہیں غلام ہیں اور مال بھی ہے میں چاہتا ہوں کہ اپنی اجرت مسلمانوں پر صدقہ کر دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ایسا نہ کرو، کیونکہ میں نے بھی یہی ارادہ کیا تھا جو تم نے کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھے کچھ دیتے تو میں کہہ دیتا کہ یہ آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ محتاج ہے۔ تو آپ نے فرمایا یہ لے لو، اس سے مالدار بنو، پھر صدقہ کرو، اگر تمہارے پاس مال اس طرح آئے کہ تم اس کے حریص نہ ہو اور نہ ہی اس کا سوال کرنے والے ہو تو اس کو لے لیا کرو اور اگر نہ ملے تو اس کی فکر نہ کیا کرو۔ (بخاری۔ کتاب الاحکام۔ باب رزق الحاکم والعاملین علیھا،مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب اباحۃ الاخذ لمن اعطی )
4 تالیف کے حقدار :
اس مدد سے ان کافروں کو بھی مال دیا جا سکتا ہے جو اسلام دشمنی میں پیش پیش ہوں اگر یہ توقع ہو کہ مال کے لالچ سے وہ اپنی حرکتیں چھوڑ کر اسلام کی طرف مائل ہوجائیں گے اور ان نو مسلموں کو بھی جو نئے مسلم معاشرہ میں ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل نہ ہوں اور انہیں اپنی معاشی حالت سنبھلنے تک مستقل وظیفہ بھی دیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے آپ کو جو سونا بھیجا تھا وہ آپ نے ایسے ہی کافروں میں تقسیم کیا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں یہ کہہ کر اس مد کو حذف کر دیا تھا کہ اب اسلام غالب آ چکا ہے اور اب اس مد کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے لہٰذا بوقتِ ضرورت اس مد کو بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔
5 غلاموں کی آزادی کے لئے:
اس کی بھی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی غلام کو خرید کر آزاد کر دیا جائے۔ دوسری کسی مکاتب غلام کی بقایا رقم ادا کر کے اسے آزاد کرایا جائے۔ آج کل انفرادی غلامی کا دور گزر چکا ہے اور اس کے بجائے اجتماعی غلامی رائج ہو گئی ہے۔ بعض مالدار ممالک نے تنگ دست ممالک کو معاشی طور پر اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ لہٰذا آج علماء کو یہ غور کرنا چاہیے کہ ایسے غلام ممالک کی رہائی کے لیے ممکنہ صورتیں کیا ہونی چاہئیں؟ مثلاً آج کل پاکستان بیرونی ممالک اور بالخصوص امریکہ کے سودی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور مسلمان تاجر اتنے مالدار بھی ہیں کہ وہ حکومت سے تعاون کریں تو وہ یہ قرضہ اتار بھی سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ ان کی زکوٰۃ کا یہ مصرف درست ہے اور حکومت اسلامی نظام کے نفاذ میں مخلص ہے۔
6 مقروض کے قرضہ کی ادائیگی :
یہاں قرض سے مراد خانگی ضروریات کے قرضے ہیں تجارتی اور کاروباری قرضے نہیں اور قرض دار سے مراد ایسا مقروض ہے کہ اگر اس کے مال سے سارا قرض ادا کر دیا جائے تو اس کے پاس نقد نصاب سے کم مال رہتا ہو۔ یہ مقروض خواہ برسر روزگار ہو یا بے روزگار ہو اور خوا ہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو۔ اس مد سے اس کا قرض ادا کیا جا سکتا ہے۔
7فی سبیل اللہ:
اور یہ میدان بڑا وسیع ہے۔ اکثر ائمہ سلف کے اقوال کے مطابق اس کا بہترین مصرف جہاد فی سبیل اللہ میں خرچ کرنا ہے اور قتال فی سبیل اللہ اسی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس مد سے دینی مدارس کا قیام اور اس کے اخراجات پورے کیے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ہر وہ ادارہ بھی اس مصرف میں شامل ہے جو زبانی یا تحریری طور پر دینی خدمات سر انجام دے رہا ہے یا اسلام کا دفاع کر رہا ہو۔
8 مسافر خواہ وہ فقیر ہو یا غنی ہو:
اگر دوران سفر اسے ایسی ضرورت پیش آ جائے تو اس کی بھی مدد کی جا سکتی ہے مثلاً فی الواقع کسی کی جیب کٹ جائے یا مال چوری ہو جائے وغیرہ۔(واللہ اعلم بالصواب)