تمام قسم کی تعریف اللہ رب العزت ہی کے لئے جو تمام جہانوں کا تن تنہا واحد رب ہے معبود برحق ہے۔
کروڑوں درود و سلام رسول اللہﷺ کی ذات مقدس پہ اور رحمتیں اور برکتیں ہوں آپ کی آل آپ کی ازواج اور آپ کے اصحاب پر،
یقینا حب رسولﷺ ایمان کے بنیادی تقاضوں سے اولین تقاضا ہے، محبت رسول ایمان کا حصہ ہے، اس کے بغیر بندہ مومن کا ایمان مکمل نہیں ہوتا، جب ایمان مکمل نہیں ہو گا تو اس کے اعمال بھی قبول نہیں ہوں گے،
اور ایک مومن کے لئے حبِ رسول کی حد اس آیت سے لگائی جا سکتی ہے

اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (الاحزاب 6)

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں۔
یعنی کہ نبی ﷺکا حق یہ کہ ہر مومن انہیں اپنی جان ، مال ،آل اولاد سب سے زیادہ محبوب رکھے،
اسی طرح سورہ توبہ میں اللہ و رسول کی محبت کی اہمیت کو کچھ یوں بیان کیا گیا ہے

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَاۗؤُكُمْ وَاَبْنَاۗؤُكُمْ وَاِخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَيْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِيْ سَبِيْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰي يَاْتِيَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖ  ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ     (التوبۃ24)

آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں ، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالٰی اپنا عذاب لے آئے اللہ تعالٰی فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
یہاں اللہ رب العزت نے تمام رشتوں ، مال، تجارت، کاروبار، گھر، سب کو گنوا کر یہ واضح کر دیا کہ ان سب پہ اللہ و رسول کی

محبت فوقیت رکھتی ہے

اور جو شخص اس معیار پر پورا نہیں اترتا وہ مومن نہیں بلکہ فاسق ہے، اور اس کی  اہمیت کا اندازہ ہم ان دو احادیث سے لگا سکتے ہیں،
ایک دفعہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ”اللہ کی قسم ! آپ مجھے اپنی جان کے علاوہ دنیاکی ہرچیز سے زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “ آپﷺ نے فرمایا: ” اے عمر! جب تک تم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب نہیں جانوگے اس وقت تک تم سچے مسلمان نہیں ہوسکتے۔ “
تب سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایاہے اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز اورمحبوب ہیں۔ “
آپﷺ نے فرمایا: ” عمر !اب جبکہ تم نے مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب سمجھاہے تو اب تمہاراایمان کامل ہوگیا۔ “ (بخاری 6632)
محترم قارئین :غور کیجئے پیارے رسول اللہ ﷺ  یہ بات ان صحابی سے کہہ رہے ہیں جو مراد نبی ہیں،
یہی وہ صحابی ہیں جن کی زبان سے نکلنے والے احکامات بعد میں رب العزت نے قرآن بنا کر نازل کر دیئے، یہی وہ صحابی ہیں جنکی قوت و غیرت ایمانی سے ڈر کر شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا جس پہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چلتے تھے، لیکن کامل ایمان ان کے لئے بھی یہی ٹھرا کہ سب سے زیادہ محبت کے حقدار ہیں تو ایک مومن کے لئے اللہ اور اس کے رسول ہی ہیں، اسی طرح صحیح بخاری ہی کی ایک حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں،

قال الَنبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “”لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ””. (صحیح البخاری 15)

نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔

اور پیارے رسولﷺ نے فرمایا:

کہ تین چیزیں جس شخص میں پائی جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا،
ان تین چیزوں میں سے ایک اللہ ا ور اسکے رسول کو ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھنا ہے۔
‏‏‏‏‏

وَحَتَّى يَكُونَ اللَّہ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا (صحیح البخاری6041)

اور جب تک اسے دوسری تمام چیزوں کے مقابلے میں اللہ اور اس کے رسول سے زیادہ محبت نہ ہو۔
اس بات کو مختصر الفاظ میں یوں سمجھئے، چاہے ایک شخص توحید کا کتنا بڑا داعی کیوں نہ ہو۔کتنا پکا سچا موحد کیوں نہ ہو اس وقت تک وہ مسلمان ہی نہیں ہو سکتا جب تک وہ خاتم النبین،سید البشر محمد رسول اللہ پہ ایمان نہیں لے آتا۔اور جب تک وہ اللہ کے رسول سے محبت ہر چیز سے زیادہ نہیں کرتا۔اس کا ایمان کامل نہیں ہے۔اور یقیناً صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اس محبت کے تقاضے کو اس طرح نبھایا اور ایسا ایمان لایا اور محبت کی وہ داستان رقم کی ، قربانیوں کی وہ عظیم مثال بنے کہ میرے رب نے ایمان کا معیار صحابہ رضوان اللہ کے ایمان کو بنا دیااور رہتی دنیا تک ایک حجت قائم کر دی کہ اگر ہدایت پانا چاہتے ہو توایمان لاؤ تو صحابہ کی طرح، محبت کرو تو صحابہ کی طرح، رسول اللہ کے اسوہ پہ چلو تو صحابہ کی طرح تب جاکر تمہیں ہدایت نصیب ہو گی۔

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ۚ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ   (البقرۃ137)

اگر وہ تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں ،  اور اگر منہ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں ،  اللہ تعالی ان سے عنقریب آپ کی کفایت کرے اور وہ خوب سننے اور جاننے والا ہے۔
یہ تو تھی رسول اللہ کی محبت کی وجوبیت، اہمیت و فضیلت لیکن یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حب رسول یعنی محبت رسول ہے کیا چیز؟
محبت ایک قلبی کیفیت کا نام ہے کہ جس کا ظہور انسان کے اعمال سے ہوتا ہے ۔
یہ فطری بات ہے کہ انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے، اس  کا اظہار اس کے عمل سے ہوتا ہے، محبت کرنے والے کی تمام تر توجہ اپنے محبوب کی طرف ہوتی ہے، اور وہ دوسروں سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اپنے محبوب کی خاطر اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال کر محبوب کی پسند کے مطابق اپنی زندگی گزارتا ہے، یہ انسان کی دلی کیفیت اور اس کیفیت کا انسان کے جسم اور عمل پہ ظہور اسی کو محبت کہا جاتا ہے ۔
حب رسول بھی یہی ہے کہ رسولﷺ کے قول و فعل  کے آگے انسان اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال دے، نبی کا ہر عمل اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہو، نبی کا محب اس کا محبوب ہو اور نبی کا دشمن اس کا دشمن ہو، نبی کا طریقہ اس کا محبوب ہو، نبی کا ذکر اس کا سکون ہو،  اسی طرح نبی کے رہن سہن، ان کی وضع قطع، ان کا اخلاق، الغرض نبی کا ہر ہر عمل انسان کے لیے محبوب ہو تو یہی حب رسول ہے ۔
اب یہاں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ حب رسول کا تقاضا کیا ہے؟
تقاضا حب رسول بھی ایک الگ اور طویل موضوع ہے
لیکن میں یہاں مختصرا حب رسول کے تقاضے ذکر کرنا چاہوں گی،
1۔ اطاعت و اتباع
2۔ خواہشات نفس کا نبی علیہ السلام کی لائی گئی شریعت کے تابع ہونا
3۔نبی علیہ السلام کے محبوب سے محبت اور ان کے دشمن سے بغض رکھنا
4۔سنت رسول سے محبت رکھنا
5) ناموس رسالت کا تحفظ کرنا
یہ تو تھے چند تقاضے حب رسول ﷺکے ۔
ان تقاضوں کو تفصیلا بیان کرنا ضروری سمجھتی ہوں لیکن میرا موضوع یہ نہیں اس لئے صرف بنیاد ذکر کی تاکہ آپ لوگوں تک میری بات مختصر انداز میں پہنچ سکے
’’جذبہ حب رسول اور اصحاب رسول‘‘
اگر اس موضوع کو لکھنا شروع کردیا جائے تو صفحے ختم ہوجائیں اور سیاہی کم پڑجائے اور انسان کی عمر اپنے اختتام کو پہنچ جائے لیکن اس کا حق ادا نہیں ہو سکتالیکن اللہ رب العزت نے موقع دیا ہے کہ ان لوگوں کی زندگی کو ذکر کروں کہ جن سے رب راضی ہوا اور وہ رب سے راضی ہوئے تو اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے بہر حال صحابہ کرام کی زندگی پہ نگاہ ڈالی جائے تو ان کی زندگی جذبہ حب رسول سے پُر نظر آتی ہے کوئی ایک لمحہ ایسا نظر نہیں آتا کہ جس میں ان میں جذبۂ حب رسول نہ ہو کیونکہ ایک مومن سے یہی جذبۂ حبِ رسول مطلوب ہے کہ جو اصحاب رسول نے نبھایارسول اللہ کے اصحاب نے  محبت کے تقاضے کو اس طرح نبھایا کہ رہتی دنیا تک اس کی مثال نہیں مل سکتی۔
ایمان لائے ، محبت کی ، اور ایسی نبھائی کہ یقینا تاریخ انسانیت ایسی مثال دینے سے قاصر ہے۔
اگر محبانِ رسول کا تذکرہ کیا جائے اور جو محبت کے تقاضے انہوں نے نبھائے، اور رسول اللہ کے سسر، آپ کے ساتھی، یار غار، سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ داستان محبت ادھوری ہی رہے گی یہی وہ ذات اقدس تھی جن کی محبت، اطاعت، قربانیوں، اور احسانات کے بارے رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا:’’میں ہر شخص کا بدلہ دے چکا ہوںصرف ایک ابو بکر ہے جن کے احسانات کا بدلہ کل قیامت والے رب دیں گے‘‘۔
ہاں یہی وہ ابو بکر ہیں جو اسلام سے پہلے رسول اللہ کے دوست، آپ کی صداقت، آپ کی امانت ،آپ کی پاک بازی و پاک دامنی کی معترف و گواہ تھے کہ جب رسول اللہ ﷺنے نبوت کا اعلان کیا تو یہی وہ شخصیت تھی جنہوں نے آپﷺ کی نبوت کی تصدیق کی آپ معراج پہ گئے تو یہی وہ ابو بکر جن سے مشرکین مکہ نے کہا اب تو انکار کر دے انکی نبوت کا جو یہ کہتے ہیں کہ آج کی رات وہ مکہ سے بیت المقدس وہاں سے ساتوں آسمان صرف اس مختصر سے وقت میں ہو کر آگئے،
فرمایا اگر محمدﷺ نے ایسا کہا ہے تو یقیناً سچ ہی کہا ہے
اسلام کا ابتدائی دور بڑا ہی مصیبتوں ،مشکلات تکالیف سے بھرا پڑا ہے یہی ابو بکر ہیں جو رسول اللہ کے شانہ بشانہ ہیںیہی ابو بکر ہیں جو ہجرت کے ساتھی ہیںغار ثور کے رفیق ہیں۔
یہی ابو بکرکہ جس نے ہر موقع پہ اللہ و رسول کی جان و مال سے مدد کی،محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک موقع ایسا آیا
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے کر حاضر ہوگئے ، رسول اللہﷺ نے ان سے پوچھا:  اپنے گھر والوں کے لیے تم نے کیا چھوڑا ہے؟ ، انہوں نے کہا میں ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں۔ (سنن ابو داؤد1678 )
آئی بات شادی کی تو اپنی کنواری لاڈلی بیٹی بھی رسول اللہ ﷺکے نکاح میں دے دی،غرض یہ کہ ابو بکر کی محبت رسول کو کسی تحریر میں مکمل طور پہ لانا یا کسی ایک شخص کا مکمل طور پہ بیان کرنا نا ممکنات سے ہےاسی طرح دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی محبت کو صلح حدیبیہ میں سیدنا عروہ جو اس وقت مسلمان نہ ہوئے تھے کچھ یوں بیان کرتے ہیں، عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا اے لوگو قسم اللہ! کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمدﷺ کے اصحاب آپ ﷺ کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمدﷺ نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیا۔ آپ ﷺ نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ ﷺنے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپﷺ کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپﷺ نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپﷺ کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔( صحیح البخاری 2731)
اور غزوہ احد کا موقع کیسے بھلایا جا سکتا ہے کہ کس طرح رسول اللہ کے صحابہ نے آپﷺ کی حفاظت کے لیے یکے بعد دیگرے جانوں کے نذرانے پیش کیے تاکہ محمد رسول اللہﷺ کی حفاظت ہو سکے،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ احد کی لڑائی کے موقعہ پرسیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اپنی ایک ڈھال سے رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھےسیدنا ابوطلحہ بڑے تیرانداز تھے اور خوب کھینچ کر تیر چلایا کرتے تھے، چنانچہ اس دن دو یا تین کمانیں انہوں نے توڑ دی تھیں، اس وقت اگر کوئی مسلمان ترکش لیے ہوئے گزرتا تو آنحضرتﷺ فرماتے کہ اس کے تیر ابوطلحہ کو دے دو،رسول اللہ ﷺ حالات معلوم کرنے کے لیے اچک کر دیکھنے لگتے تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے یا نبی اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اچک کر ملاحظہ نہ فرمائیں، کہیں کوئی تیر آپ کو نہ لگ جائے، میرا سینہ رسول اللہ ﷺکے سینےکی ڈھال بنا رہا،قیس بن ابی حازم نے کہا میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا وہ ہاتھ دیکھا ہے جس سے انہوں نے رسول اللہﷺ کی (جنگ احد میں) حفاظت کی تھی وہ بالکل بیکار ہو چکا تھا۔(صحیح بخاری)
اللہ اکبر!

أؤلئك أبائي فجئنا مثلهم

اور یہی وہ حب رسول کا جذبہ تھاکہ نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ ان کے لئے حرف آخر ہوتے تھے، جیسا کہ رسول ﷺ نے ایک شخص کے ہاتھ (کی انگلی ) میں سونے کی انگوٹھی دیکھی ،آپ نے اس کو اتار کر پھینک دیا اور فرما یا “تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارہ اٹھا تا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے ۔” رسول اللہﷺ کے تشریف لے جا نے کے بعد اس شخص سے کہا گیا:اپنی انگوٹھی لے لو اور اس سے کو ئی فائدہ اٹھا لو۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم !میں اسے کبھی نہیں اٹھا ؤں گا ۔جبکہ رسول ﷺ نے اسے پھینک دیا ہے۔( صحیح مسلم)
غر ضیکہ صحابہ کرام کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں، کہ کس طرح انہوں نے حقیقی معنوں میں محبت واتباع کا حق ادا کیا، آپﷺ کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسے انہوں نے غور سے نہ دیکھا ہو، اور پھر اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال نہ لیا ہو، آپﷺ کے صحابہ کرام کو آپ سے جو والہانہ محبت تھی اسی کا نتیجہ تھا، کہ وہ ہر اس کام کو کرنے کی کوشش کرتے جو حضور اکرمﷺ نے کیا ہوتا ،ان کو وہی کھانا پسند ہوتا جسے آپﷺ پسند کرتے، جس مقام پر آپ تشریف فرما ہوتے، یا نماز پڑھ لیتے، وہ جگہ بھی واجب الاحترام ہو جاتی، اور اس مقام پر وہی عمل کرنے کو وہ اپنے لیے باعث سعادت سمجھتے تھے۔
صحابہ کرام کی رسول اللہﷺ سے محبت، آپ کی اطاعت واتباع کی مثالیں ایک تحریر میں بیان کرنا ناممکن ہے، لہذا اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں صحیح معنوں میں رسول اللہ ﷺسے محبت کرنے اور اس محبت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین یا رب العالمین )

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے