اللہ تعالی نےانسانوں کو پیدا کیا اور ان کی رہنمائی کے لیے وقتا فوقتاً انبیاء و رسل کا سلسلہ بھی جاری کیا اور ہر ایک نبی کو دلائل ومعجزات اور براہین بھی عطاکیے اوراس کے ساتھ اس نبی کو دعوت کا اسلوب بھی سکھایا کیونکہ صرف دلائل ومعجزات کافی نہیں ہوتے بلکہ کبھی کبھار ایک حکیمانہ اسلوب ایسا اثر کرتا ہے کہ مخاطب صرف دعوت ہی قبول نہیں کرتا بلکہ دعائیں دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔اللہ رب العزت نے سیدنا موسی علیہ السلام کو معجزات عطا کیے اور فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا اور ساتھ ساتھ اپنے پیغمبر کی رہنمائی بھی فرمائی ۔فرمان باری تعالی ہے :

اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى  فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى (طہ 43۔44)

 تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ اس نے بڑی سرکشی کی ہےاسے نرمی سے سمجھاؤ کہ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جائے۔
حالانکہ اس وقت کا بلکہ دنیا کا سب سے بڑا کافر تھا اس کے باوجود اللہ رب العزت نے نرمی کا حکم دیا ۔اسی طرح جب اللہ تعالی نے پیغمبر آخر الزماں محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور انہیں یہ حکم دیا :

اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ (النحل 125)

اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے ۔
اورآپ ﷺ اس حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور سیرت طیبہ کااگر بغور مطالعہ کیا جائے تو آپ ﷺ کی کوئی دعوت حکمت اور بصیرت سے خالی نہ ہوتی تھی بلکہ مخاطب پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بے اختیار کہہ اٹھے کہ اس جیسا داعی اور معلم کبھی دیکھا ہی نہیں ۔
سیدنا معاویہ بن حاکم رضی اللہ عنہ جب نماز میں باتیں کرنے لگے اور انہیں معلو م نہ تھا کہ نماز میںکلام کرناممنوع ہوگیا ہے ،جب نماز ختم ہوئی تو رسول اکرم ﷺ نے پوچھا نما زمیں باتیں کون کررہا تھا،سیدنا  معاویہ رضی اللہ عنہ ڈر گئے کہ شاید اب نبی اکرم ﷺ مجھے ڈانٹیں گے آپ ﷺ نے انہیں قریب بلایا اور سمجھایا کہ یہ نماز ہے اس میںباتیں کرنا درست نہیں اس عمل سے نماز باطل ہوجاتی ہے ،سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب نبی اکرم ﷺ نے ا س حسین اسلوب سے سمجھایا تو فرماتے ہیں ؛

مَا رَأَيْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ أَحْسَنَ تَعْلِيمًا مِنْهُ، فَوَاللهِ، مَا كَهَرَنِي وَلَا ضَرَبَنِي وَلَا شَتَمَنِي (صحیح مسلم : 537)

اللہ کی قسم میں نےکبھی نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ بعد میں کوئی ایسا معلم آئے گا ،مجھے نہ مار ا،نہ ڈانٹا اور نہ گالی دی ۔
کس قدر آپ ﷺ کی دعوت نے اثر کیا اور کس انداز میں آپ ﷺ نےانہیں سمجھایا ۔اسی طرح ایک اعرابی مسجد میں داخل ہو ااوراس نے پیشاب کرناشروع کردیا صحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین آگے بڑھے تاکہ اسے منع کیا جائے ،رسول اللہ ﷺ نےصحابہ کو منع کیا کہ اسے کچھ نہ کہا جائے جب وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو ااور آپ ﷺ نےاسے بلایا اور سمجھایا

إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنَ الْقَذَرِ وَالْبَوْلِ وَالْخَلَاءِ (مسند احمد :12984 )

کہ یہ مساجد اس لیے نہیں کہ اس میں پیشاب کیا جائے اور اس میں گندگی کی جائے( بلکہ یہ عبادت کے لیے ہیں)
آپﷺ کے سمجھانے کے بعد اس اعرابی نے جو الفاظ کہے وہ قابل غور ہیں ،آپ ﷺ نے کس قدرنرمی اور شفقت سے سمجھایا کہ ذیلی کلمات کہے بغیر نہ رہ سکا :

اللهُمُ ارْحَمْنِي وَمُحَمَّدًا، وَلَا تَرْحَمْ مَعَنَا أَحَدًا(سنن النسائی 1216)

اے اللہ مجھ پراور محمد ﷺ پر رحم کر اور کسی پر رحم نہ کر نا ۔ حالانکہ دیہاتی تھا اور دیہاتی لوگ عموماً رحم کی صفت سے عاری ہوتے ہیں لیکن آپ ﷺ کی تعلیم سے اس قدر متاثر ہو اکہ اس کے لب فوراً دعا کے لیے کھلے اور اگر ہم آج کے دور کےواعظینومبلغین کی طرف دیکھیں تو عموماً اس اسلوب اور انداز سے نا آشنا نظر آتے ہیں اور اگر کوئی شخص یا داعی کوشش کرتاہے تو ہم اسے عیب سمجھتےہیں کہ اس کےمنہج میں لچک ہے یہ دعوت اتنی کمزور تو نہیں کہ اس کو اس طریقے سے پہنچایا جائے اور دعاۃ کا یہمقام نہیں کہ عام لوگوں کی محفل میںجائیں اور انہیں سمجھائیں بجائے اس کے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے دعو ت کا کام کریں ہم صرف فتووں پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور یہاں تک نوبت ہی نہیں آتی کہ لوگوںکو دعوت دیں بلکہ ہم  پہلے ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ فلان بدعتی ہے وہ ہماری دعوت کہاں قبول کرے گا یا بدعتی انسان سے نرم انداز میں بات نہیں کرنی چاہیےیہ سراسرتعلیمات نبویﷺ کے خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ۔

فَإِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ(صحیح البخاری 220)

’’ بیشک تم تو آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو اور تم تنگی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو ‘‘
نبی اکرم ﷺ نے معاذ بن جبل اور ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہماکو یمن کی طرف گورنر بناکر بھیجا تو ان کو یہ خصوصی نصیحت فرمائی

يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا، وَلاَ تُنَفِّرُوا(صحيح البخاري:69)

’’ لوگوں کےلیے آسانی پیدا کرنا اور تنگی پیدا کرنے سے گریز کرنا اور لوگوں کو خوشخبری سنا کر قریب کرنا اور انہیں متنفر مت کرنا‘‘اس لیے کہ دین میں آسانی ہی آسانی ہے
ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فر مایا

 إِنَّ خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ(مسند ابن ابی شیبة596)

کہ تمہارا بہترین دین اور منہج وہ ہے جو آسان ہو ۔
آج مسلمان کے موجودہ حالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایسے داعی اٹھیں جو نبی اکرم ﷺ کےاسوۂ حسنہ کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کریں انہیں دین کے قریب کریں اور انہیں اسلام کی تعلیمات سے روشناس کریں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں آپ ﷺ کی تعلیمات کا حقیقی فہم نصیب فرمائے ۔(آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے