نئی ایجاد اور سائنسی ترقی کا انمول تحفہ یعنی انٹرنیٹ: قدرت کی تخلیقی آیات بینات اور کائناتی معجزات کا ایک عجوبۂ روزگار شاہکار ہے جو مدبر کائنات کے فرمان:

كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن: 29)

ہر آن وہ نئی سے نئی کار گزاری دکھا رہاہے۔

کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

عہد رواں میں تبلیغی سرگرمیوں کے لیے انٹرنیٹ پر ویب سائٹس کا استعمال تقاضہ وقت بھی ہے اور نہایت کار آمد اور نتیجہ خیز ذریعہ بھی ، اس سے چہار دانگ عالم میں  دعوت الی اللہ کا عظیم کام بآسانی انگلیوں کے پوروں  میں سمٹ آتا نظر آنے لگتا ہے، علوم دینیہ اور اسلامی معارف کو پھیلانے کے لیے نہایت زرخیز یہ ذریعہ تبلیغ دین کے جذبہ سے سرشار حضرات کے لیے تبلیغی مہارتوں کو بروئے کار لانے کا کھلا میدان ہے۔

ہم آج علمی و ثقافتی ترقی اور تہذیبی و تمدنی روشنیوں کی جھلملاہٹ کے دور سے گزر رہے ہیں، اطوار زندگی کی رفتار تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی، نت نئی ایجادات، نئے علمی انکشافات، ذرائع و وسائل میں سائنسی ترقی فرمان الٰہی ’’ویخلق مالا تعلمون‘‘ کی حقانیت کا منہ بولتا ثبوت پیش کیے چلے جا رہے ہیں۔

لہذا: کار تبلیغ میں ہنر آزما کہنہ مشق یا طالع آزما مسلم سپوت سبھی اس غیر مترقبہ خدائی نعمت کو بطور کامیاب و نہایت تیز رفتار اور آسان ترین ہتھیار کے استعمال کر گزرنے میں سر گرمی کا مظاہرہ کریں۔

؎ أیا صاح ھذا الرکب سار مسرعا
ونحن قعود، ماالذی انت صانع؟

یہ حقیقت کسی پر مخفی نہیں کہ: دعوت دین میں مصروف متعدد اسلامی ویب سائٹس کے بہترین دعوتی ثمرات و نتائج نے جہاں اہل مغرب کی نیندیں اڑا دی ہیں وہاں لادین عناصر اور نفاق پرور دعویداران اسلام کا چین بھی چُرا لیا ہے اور ساتھ میں دنیائے کفر کو عجیب کشمکش اور خوف میں مبتلا کر رکھا ہے گویا انٹرنیٹ کی ایجاد کی شکل میں کفر کی پسپائی و نابودی اور اسلام کے احیاء اور نشاۃ ثانیہ کا کام خود کافر کے ہاتھوں سے ہو گیا، کیا خوب رہی خدائی پیشین گوئی: ’

’قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ (سبأ: 49)‘‘

؎ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا۔

* کار دعوت بذریعہ انٹرنیٹ، ہنر آزماؤں کے لیے ایک نیا میدان

یقیناً! داعیان اسلام کو نیٹ کی صورت میں دعوتی مشاقی کا ایک کھلا میدان میسر آ گیا ہے، بالخصوص جو داعی حضرات روبرو دعوت و تبلیغ میں خاطر خواہ کامیابی نہیں سمیٹ پاتے تو نیٹ نے ان کی تو چاندی کر دی کیونکہ یہ دنیا بھر میں سب زیادہ استعمال ہونے والا اور دعوتی کار گزاری میں بہترین نتائج لانے کا کامیاب ذریعہ ہے جو بمصداق ’’کم خرچ بالا نشین‘‘ گھر گھر آسانی سے پہنچ کر سبھی اہل خانہ کو اپنا گرویدہ بنا چکا ہے۔

لہذا: ہر ذی شعور مسلم پر واجب ہے کہ اپنی علمی بساط کے بمطابق اس میں اپنا کردار ادا کرے جناب شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’دعوت دین اس وقت فرض کفایہ نہیں رہی بلکہ بقدر استطاعت ہر مسلمان پر فرض عین ہے‘‘۔

ویب سائٹس کے ذریعہ، اپنی علمی بساط کی حد تک دین کی تبلیغ ہر مقتدر صاحب بصیرت کی ذمہ داری ہے، عوام الناس کے سامنے بصورت خطیب، مقرر یا معلم نہ سہی لیکن اس جدید سہولت کے ذریعے کار نبوت کی اس میراث میں ہر آدمی ضرور حصہ لے۔

’’فواللہ لان یہدی اللہ بک رجلا واحد خیر لک میں حمر النعم‘‘ وفی روایۃ ’’خیرلک مما طلعت علیہ الشمس و غربت‘‘ (بخاری)

تمہارے ذریعہ ایک آدمی کی ہدایت تمہارے لیے دنیا و مافیہا سے کہیں بہتر ہے۔

ذرا ٹھہرئیے!

نیٹ پر دعوتی کام سے قبل کچھ نصیحتیں، کچھ تقاضے:

دعوتی مشن میں سرگرم ہر عالم دین اور بالخصوص نیٹ کے یوزر داعی حضرات کا درج ذیل دعوتی، فکری، ثقافتی اور اخلاقی ضابطوں کی پاسداری کرنا انکی کامیابی رقم کرنے کی بنیادی شرط ہے۔

.یہ محنت خالصتاً لوجہ اللہ ہو۔

. کار ہائے دعوت، سنت و شریعت کے تابع ہوں۔

. محترم داعی دین سے خاطر خواہ آگاہی و معرفت سے مزین ہو۔

. دعوت الی اللہ کی اخلاقیات مثلاً نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو، حکیمانہ انداز، ناصحانہ دلپذیری اور بحث و مباحثہ میں عمدگی بھری جاذبیت و تاثیر کا پیکر ہو۔

. تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کے جذبہ سے سرشار ہو۔

. علمائے راسخین اور قلم و کردار کی معروف علمی شخصیات سے مسلسل رابطہ میں رہے

. دینی و دعوتی مسائل و احکام میں بغیر تحقیق و تدقیق جرات اظہار سے گریز رکھے۔

. عملی خیانت کا مرتکب نہ ہو بلکہ کارگردگی صاحب کردار کی طرف منسوب کرے اور اسے سراہے۔

. کامیاب طریقہ ہائے دعوت سیکھنے، دعوتی ذرائع و وسائل، دعوتی ضروریات، آداب اور تقاضے جاننے کے لیے اس متعلق منعقدہ ورکشاپ اور کورسز میں حصہ لے۔

. عموم مستفیض ہونے والوں کے الگ الگ مزاجوں سے واقفیت رکھتا ہو اور موقعہ بمطابق مؤثر طریقہ دعوت اپنانے کا سلیقہ جانتا ہو۔

. دعوتی ترتیب میں الاھم فالاھم اور الأولی فالأولی کے اصول پر کاربند ہو۔

. مخالفانہ یا معاندانہ رد عمل سامنے آنے پر اختلاف رائے کی اخلاقیات ہاتھ سے نہ جانے دے۔

. حق واضح ہو جانے کی صورت میں اسے قبول کرنے کی اخلاقی جرات رکھتا ہو۔معاشرتی اقدار اور سماجی روایات کا مستحسن انداز میں مقابلہ کرے۔

. اور آخر میں یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ: دعوت الی اللہ کے لیے نیٹ پر بیٹھنے کا ٹائم ٹیبل بنائے اور اس کی پابندی کرے تاکہ دیگر لوازمات زندگی متاثر نہ ہوں۔

نیٹ دعوت الی اللہ کے لیے زرخیز میدان

سبحان ہے وہ ذات کہ جس نے حصول مقاصد کے لیے اسباب و وسائل مسخر فرمائے اسی قدوس و علام نے داعیان اسلام کے ہاتھ نیٹ کی شکل میں نہایت مؤثر و کامیاب ہتھیار دے دیا جس کے ذریعہ مقاصد دعوت تک رسائی متعدد طرق سے ممکن ہوئی مثلاً:

1۔ اسلامی ویب سائٹس:

منفرد نوعیتوں کی حامل معتبر اسلامی ویب سائٹس کا اجراء اس دعوتی سلسلے کا موقر ذریعہ اور بہترین نتائج کا سنگ میل ہے۔

2۔ علمی مجالس فورم:

انٹرنیٹ علمی مجالس کے لیے ایک ایسا فورم مہیا کرتا ہے جس پر دعوتی، فکری حوار افادہ عام کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے اور فکری نشستیں، بحث ومباحثہ اور تحقیقی مناقشات و مناظروں کے لیے مضبوط پلیٹ فارم ہے۔

PALL-TALKکے ذریعے دعوتی سرگرمیاں:

یہ امر واقعہ ہے کہ اس ذریعہ تبلیغ سے پختگی عقیدہ، دفاع اسلام اور منحرف و باطل ادیان و مذاہب کے مناقشہ و بطلان جیسے عظیم فوائد حاصل ہوئے ہیں جبکہ لاتعداد فالوورز، ایڈفرینڈز اور شیئر کرنے والوں کی ہدایت کا سامان بھی ہوا ہے۔

4۔ مخصوص/ محددو CHAT ROOM مثلاًؒ میسنجر، ذرائع رسل و ترسیل، اسکائپ، فیس بک وغیرہ

اس بات چیت کے ذریعہ بیشتر دعوتی مقاصد کا حصول ممکن ہوا ہے لیکن یاد رہے کہ اس میں مزاج شناسی پہلی ضرورت ہے ضعیف العقیدہ اور فکری نا پختہ افراد کے لیے یہ طریقہ مفید کی بجائے مضر بھی ہو سکتا ہے لہذا: انفرادی چیٹ میں دعوتی سرگرمیوں کے مطلوبہ شرائط و تقاضے ملحوظ خاطر رہنا ضروری ہیں۔

5۔ نشریاتی ویب:

لیکچرز، تقاریر اور معروف داعیان و مفکرین اسلام کی بات چیت نشر کرنے، کانفرنسز اور دعوتی پروگراموں، مناقشہ و علمی مباحثہ جات کی مجلسوں اور موقعہ پر سوال و جواب اس ذریعہ تبلیغ کا طرۂ امتیاز ہے جو ہر وقت ہر کس و ناکس کے لیے اوپن اور برابر مفید ہے۔

6۔ الیکٹرونکس پوسٹ:

پوسٹ بھیجنے اور لینے کے اس ذریعہ تبلیغ میں نیٹ یوزر کے سامنے بیک وقت ہزاروں پوسٹ ہوتی ہیں وہ پیش آمدہ مسئلہ سے متعلق لمحوں میں معلومات حاصل کرتا ہے اور انہیں اپنے پاس رجسٹرڈ حضرات کو بھیج کر دعوتی کام کا حصہ بن جاتا ہے بس اس میں تحقیق و تدقیق شرط ہے۔

انٹرنیٹ مؤثر ذریعہ دعوت:

یہ حقیقت دوست دشمن، اپنے پرائے اور ہر چھوٹے بڑے پر عیاں ہے کہ انٹرنیٹ نہایت مؤثر ذریعہ دعوت ہے کیونکہ یہ رسل وترسیل، تحریر وتقریر، درس و تدریس، سوال و جواب، بالمشافہ بات چیت، براہ راست راہنمائی و استفادہ اور بیک وقت کثیر افراد کے باہمی ربط اور کمیونیکشن کا نہایت کم خرچ اور سہل الاستعمال ذریعہ ہے۔

بلکہ اس کے ذریعہ فقہی، اخلاقی اور معاشرتی مشکل عقدے، پیچیدہ الجھنیں اور ایسے نا قابل اظہار مسائل جنہیں مروجہ ذرائع ابلاغ پر بصراحت زیر بحث لانا ادب و حیا کے منافی ہوتا ہے، لیکن: نیٹ پر سائل کا نام ظاہر کیے بغیر ان پر سیر حال بحث و مباحثہ تشفی بخش جواب اور منطقی حل اور تفصیلی وضاحت تک ہر خاص و عام کی رسائی ممکن و آسان ہوتی ہے۔ اور اس کثیر المقاصد کمیونیکیشن کے مثبت نتائج میں جہاں طلب حق کے جویا اور راہ راست کے طلبگاران کے لیے سامان راہنمائی ہے وہاں گم کردہ راہ بھٹکوں کے لیے روشنی کی کرن اور غیر مسلم جستجو کاروں کے لیے سامان ہدایت بھی ہے یہ حقیقت اوضح من الشمس ہے کہ مذکورہ طریقہ دعوت سے ہزاروں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور لاکھوں کو صراط مستقیم اور عقیدہ و منہج کی راستی نصیب ہوئی ہے۔

ویب سائٹس کی بہتات لیکن: مکھی پہ مکھی!

آج ویب سائٹس کی ایسی بہتات ہے گویا دنیائے وجود کے گرد ایک جال بچھا ہے، نئے نئے نام اور نت نئی سائٹس لیکن کھول کر دیکھیں تو جیسے نشر مکرر۔۔۔۔ بلکہ تکرار اور تکرار سو بار، بس نام بدل دیا اور بس! بہرحال:  معلومات میں معمولی رد وبدل کر کے نیا نام متعارف کرادینا علمی خیانت تو ہے ہی لیکن یہ غیر اخلاقی و غیر انسانی فعل بھی ہے۔

آج سائٹس تو بہت ہیں لیکن بے نتیجہ کھوکھلی اور بوسیدہ معلومات کا چربہ،جہاں تلاش کیے بھی کچھ نیا نہیں ملتا، وہی علمی چوری اور خیانت جو ایک ہنر کا روپ دھارے دکھائی دیتے ہیں حتی کہ ردوبدل شدہ مسروقہ مواد کو اصل مصدر کی طرف منسوب کرنے کی اخلاقی جرات بھی لگتا ہے۔

اگر ان مہربان طالع آزماؤں سے پوچھا جائے کہ: آپ کو سائٹ بنانے کی کیا پڑی تھی؟ اغراض و مقاصد تو بتائیے! کوئی نئی فکر، کوئی نیا انداز، کوئی نیا پروگرام، آخر کرنا کیا چاہتے ہیں آپ؟ کسی ماہر تجربہ کار کی خدمات بھی اس میں شامل ہیں یا محض یہ بازیچہ اطفال ہے اور بس؟

تو اکثریت کے ہاں سے۔ ہم ان کے اخلاص میں شک کرنے والے کون لیکن۔ تسلی بخش وضاحت سننے کو نہیں ملتی، ہاں! جذبات نہایت قابل قدر ہوتے ہیں لیکن: فکر کی پختگی وراستی، اہداف کا تعین، ٹھوس پلاننگ، خاطر خواہ وسائل اور طریقہ کار کی شُد بُد۔۔۔۔؟کا تو جیسے فقدان ہی نظر آتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سائٹ کے شرکاء وزئیڑز نہ ہونے کے برابر ملتے ہیں اور بالاخر سائٹ فلاپ ہو جاتی ہے اور نتیجہ گویا بے بتیجہ رہتا ہے۔

دراصل: جدتوں سے عاری، نئی کاوشوں کے حوالے سے قلاش، مانگے تانگے، لوٹے گھسیٹے اور خیانت زدہ مواد کی حامل ایسی سائٹس کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے درج ذیل اسباب سامنے آتے ہیں:

1۔ کمزور پلاننگ اور ناقص کارکردگی:

یوں کہیے کہ کام کی کثرت اور انتھک محنت تو سر کھجانے کی مہلت نہیں دیتی لیکن کسی بھی پیشگی منصوبہ بندی کے بغیر!!! گویا سب کیا لیکن جیسے کچھ بھی نہیں کیا۔ وجہ؟ یہی کہ کام توکیا لیکن پیش بندی نہیں کی۔

2۔ ایک تو بلا استعداد میدان میں کود پڑنا اور اس پر مستزادیہ کہ خود انحصاری کا بھوت سوار ہو۔

3۔ دعوتی سائٹس کا باہمی عدم ربط و تعاون۔

4۔ مطلوبہ آگہی، فکری پختگی اور وسعت معلومات میں نیم کورے، اور نتیجہ کہ میدانی نتائج نہ ہونے کے برابر۔

5۔ نئی نئی سائٹس تو بنا ڈالیں، ممبران کی بھی خاصی تعداد مل گئی لیکن سبھی کے سبھی مکھی پہ مکھی مارنے والے اور گھسی پٹی مسروقہ معلومات (بصورت مکرر) اپنے نام سے سیٹ پر دے کر بغلیں مارنے والے۔

نیٹ پر مکرر بر مکرر معلومات۔۔۔ چھٹکارا کیونکر ممکن ہے؟

اے کاش! کہ مشہور ویب سائٹس کے ذمہ داران نیٹ پر دعوتی و معلوماتی سر برآوارہ شخصیات کی شراکت سے بھر پور قسم کی کانفرنس منعقد کریں اور درپیش مسئلہ کو ہمہ پہلو زیر بحث لائیں اور متفقہ قرار دادوں کے ذریعے واضح لائحہ عمل کا تعین کریں تاکہ بے مقصدیت میں ضیاع اوقات کی بجائے جدت وجودت کے ساتھ کثیر الفوائد عمدہ کارگردگی سامنے آسکے۔ میرے خیال میں اس مسئلے کا حل درج ذیل طریقے سے ممکن ہے:

1۔ پروگرامز اور منصوبہ جات کو واضح خطوط پر مبنی متفقہ پلاننگ کے ساتھ نئے سرے سے ڈیزائن کیا جانا چاہیے جس میں کوانٹیٹی (Quntity)کی بجائے کوالٹی (Quality) ملحوظ خاطر رکھی گئی ہو۔

2۔ نشریاتی سطح پر جدت اور بانکپن ابھر آئے یعنی بات بھی نئی اور انداز بھی نیا ہو۔ ایسا ہو جائے تو فکری جمود کا خاتمہ ہو جائے، تکرار کا عمل آخری سانسیں لینے لگے اور نئے سے نیا اور خوب سے خوب ترین میسر آ جائے۔ دراصل افکار کو وسعت دینا، نئے نئے تصورات نکال لانا اور تخلیقی سوچ میں نئے افق آشکارہ کرنا اس عمل کا پہلا اور لازمی تقاضا ہے لیکن افسوس کہ ان کا فقدان بلکہ بحران ہے ’’نابلیون‘‘ نے سچ رونا رویا، کہتا ہے کہ :(ہمارے اداروں/ مراکز کی کمزوری یہ ہے کہ یہ افکار و تصورات کو جگاتے ہی نہیں)۔ (دیکھیے مقدمات للنہوض بالعمل الدعوی از ڈاکٹر عبدالکریم بکار ص 26)

لہذا ضروری ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں اسلام کے داعیان میں تخلیقی صلاحیتیں پروان چڑھ سکیں تاکہ آج کی سوچیں کل کی حقیقتوں کے روپ میں منظر عام پر دکھائی دیں۔ ’’اینسٹائن‘‘ کہا کرتا تھا کہ (فکری خاکہ کی اہمیت، حقیقت واقعہ سے زیادہ ہوتی ہے)۔

3۔ مختلف الاشکال دعوتی سرگرمیوں کو مؤثر عالمی شخصیات اور باکفایت ماہرین کی سر پرستی حاصل ہو، تاکہ نئے نئے آئیڈیاز کے توسط سے فکری زاویوں کو مزید پروان چڑھانے کے مواقع میسر آ سکیں کیونکہ: ویب سائٹس پر معمولی رد و بدل کر کے ڈال دیے گئے منشر خیالی کا ملغوبہ، گھساپٹا چیسپاں لگا، جدت و جودت سے عاری یہ بے جان مواد خود نوحہ کناں ہے کہ ڈرائیور سے محروم اور عمدہ ایندھن سے خالی یہ گاڑی چلے گی بھی تو کب تک!!! مشہور مقولہ ہے کہ: التکرار یغیب الافکار ’’تکرار‘‘ نئے افکار کی موت ہے۔

4۔ جذبہ صادق سے سرشار ان صاحبان درد کو اگر دعوت الی اللہ کے اس جدید ذریعہ کے ضروری لوازمات اور فکری پختگی و وسعت کے لازمی تقاضے اور کامیابی کے ضامن دیگر ضروری امور تک رسائی حاصل نہیں تو انہیں چاہیے کہ اس جولان گاہ میں خود ہنر آزمائی کرنے کی بجائے وہ معتبر، مؤثر اور نتیجہ خیز، پہلے سے مصروف کار کسی ویب سائٹ کو مزید فعال بنانے میں اپنا مالی، تجرباتی اور علمی حصہ ڈال دیں یہ عمل نئی لیکن بے جان و بے نتیجہ ویب سائٹ بنا لینے سے زیادہ معتبر اور قابل ستائش ہو گا۔

5۔ مخصوص ویب سائٹس کا اجراء اور پرکشش و منفرد انداز ہائے دعوت متعارف کرانا کہ جنہیں متخصص علماء وداعیان اور نیٹ پر دعوت کے فنی و تکنیکی ماہرین کے باہمی تعاون و شراکت سے (ضرورت: ایجاد کی ماں ہے) کے اصول پر ڈیزائن کیا جائے۔ اس ویب سائٹ پر سر اٹھاتے پیچیدہ مسائل پر بحثیں ہوں، تشفی بخش حل پیس کیے جائیں اور انہیں زندہ زبانوں میں نیٹ پر ڈال دیا جائے تاکہ یہ پیغامِ دعوت دنیا کے کونے کونے میں ہر متلاشی اور جستجو کار تک پہنچ سکے ہو سکتا ہے یہی اس کی ہدایت کا سامان بن جائے۔

مصطفی صادق الرافعی کا قول ہے: اگر آپ نے موجودہ پر کچھ اضافہ نہ کیا تو گویا تم خود ایک اضافی چیز ہو۔ (وحی القلم : 2/80)

6۔ اپنی مدد آپ کے تحت ایک پرائیویٹ مؤقر کمیٹی/ تنظیم یا آرگنائزیشن تشکیل دی جائے۔ جس کا مشن یہ ہو کہ نیٹ پر موجود بیداری و اصلاح امت کے لیے نشریاتی مواد و فکری و دعوتی کاوشوں کی افادیت و معنویت کا اندازہ لگائے۔ ایجابیات (مثبت پہلوؤں) میں ہمت افزائی اور سلبیات (قابل اصلاح و مواخذہ پہلوؤں) کی نشاندہی کرے اور کامیابیوں کو مزید مؤثر و فعال بنانےکے طریق ایجاد کرے۔

7۔ مختلف الانواع فیلڈز کے لیے مخصوص ویب سائٹس:

مثلاً: عہد رسالت سے لے کر عصر حاضر تک کے کامیاب دعوتی تجربوں پر مشتمل مخصوص ویب سائٹ بنائی جائے جو اکابر علماء کرام، مشاق داعیان اسلام پر مشتمل مؤقر کمیٹی کی زیر نگرانی ہو جس پر دعوتی نزاکتوں، مہارتوں اور کامیاب طریقوں کے ہنر بتانے جائیں، دعوتی مشکلات، رکاوٹوں کی نشاندہی کی جائے اور ان سے نمٹنے کے گر سکھائے جائیں گویا یہ ویب دعوتی ٹریننگ سنٹر کا کام کرے۔

ساتھ میں یہ ماہرین غیر مسلم مشنزیز کی نیٹ پر سرگرمیوں کا جائزہ لیں ان کے آئیڈیاز جو غیر شرعی نہ ہوں سے اپنی دعوتی مہم میں استفادہ کریں اور استفادہ کرنے کے طریق بتائیں اسی طرح بے راہ اور غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ویب سائٹس سے بھی باخبر رہیں اور رکھیں۔

اسی طرح خطباء کے لیے مخصوص سائٹس ہوں، تحقیق، علمی مباحث، فقہی مسائل، معاشرتی اقدار، اخلاقیات وغیرہ کے لیے الگ الگ ویب سائٹس ہوں اور اپنے تخصص تک محدود رہ کر دینی دعوتی خدمات سر انجام دیں۔ دنیا بھر میں مروجہ زبانوں میں دعوتی مواد پہچانے کے لیے مختلف زبانوں کی مخصوص ویب سائٹس کا اجراء بھی لازمی ہے۔ تاکہ ان زبانوں کی ویب سائٹس پر اسلام کے خلاف پروپگنڈے اور جو ہرزہ سرائیاں موجود ہیں ان کا مدلل و مؤثر جواب دیا جا سکے اور اس طرح بطور مثال ہندوؤں، چینی بولنے والوں، اہل مغرب غیر مسلموں، بدھسٹوں، لامذہبوں تک دعوت دین پہنچائی جا سکے۔

نیٹ پر دعوت الی اللہ، کچھ تلخ و ترش حقائق:

آغاز کار سے روز حاضر تک وجود میں آنے والی اسلامی ویب سائٹس کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ: یہ سائٹس ایک تو مطلوبہ تعداد سے کم ہیں اوپر سے زیادہ تر سطحی معلومات تک محدود ہیں اور مزید برآں یہ کہ قابل ذکر تاثیر سے بھی محروم ہیں۔ بلکہ اکثریت تو (نقل بمطابق اصل) یعنی علمی خیانت و چوری کا چربہ ہیں اور کچھ جدت وجودت سے مزین ہیں بھی تو بہت کم تناسب کے ساتھ، اور چونکہ نیٹ ایک وسیع میدان ہے جو بھی جو چاہیے جتنا چاہیے جیسا چاہے اس پر ڈال دے کوئی روک ٹوک، کوئی پابندی یا کسی کی مشاورت/ اجازت کی ضرورت حائل نہیں ہوتی مثلاً ایک شخص محض فنی ٹیکنیکی مہارت کا حامل ہونے کے گھمنڈ میں دعوت دین کا درد مول لے کر اسلامی سائٹ تو بنا لیتا ہے ڈیزائن بھی خوب عمدہ کرتا ہے علمی/ دعوتی مواد ادھر ادھر سے اٹھا کر ڈال دیتا ہے لیکن نہ ٹھوس بنیاد دے سکتا ہے نہ ہی منہجی انداز، اور نہ کچھ نئی معلومات۔۔۔۔ پھر یہ کہ اکثر و بیشتر سائٹس انفرادی اور جذباتی نوعیت کی ہوتی ہیں جس میں ایک سے زیادہ صلاحیتوں کا باہمی اشتراک اور تعاون نہیں پایا جاتا نتیجتاً ساری کارگردگی بانجھ ثابت ہوتی ہے اور بالاخر سائٹ فلاپ ہو جاتی ہے۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ منظم کوششیں باہمی اشتراک اور (بھلے تھوڑا لیکن نتیجہ خیز) اور SLOW BAT SURE کے اصول پر عمل کیا جائے۔

نیٹ پر دینی دعوتی سائٹس کے منفی پہلوؤں کے حوالے سے چند ملاحظات نذر قارئین کیے جاتے ہیں:

1۔ پیشگی تیاری کے بغیر، بلاجھجھک سائٹ ڈئزائن کر کے لانچ کر دینا۔

2۔ دعوتی سائٹس کے لیے مربوط اور منظم پلاننگ کا فقدان۔

3۔ اکثر و بیشتر اسلامی ویب سائٹس فردی جذبات کی جولان گاہ نظر آتی ہیں کسی ماہر مربی و عالم یا شرعی کونسل وغیرہ کی سر پرستی اسے حاصل نہیں ہوتی تو ایسا طالع آزما یا شبہات کے جال میں یا پھر شہوات کی زد میں پھنس کے رہ جاتا ہے جو فائدہ مند ہو سکنے کی بجائے دین و دعوت کے لیے مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ لہٰذا: ایسے داعی کو خود علمی پختگی، منہجی رسوخ اور تکنیکی وثوق سے متصف ہونے کے ساتھ ساتھ معروف اور پختہ کار کبار علماء کی سر پرستی بھی حاصل ہونی چاہیے تاکہ بے وزن باتوں، منحرف خیالوں اور بے نتیجہ بلکہ نقصان دہ کاوشوں سے محفوظ رہے اور مستفیدین کو بھی محفوظ رہنے دے۔

4۔ انٹرنیٹ پر دعوتی سرگرمیوں میں مصروف دیگر معتبر شخصیات سے رابطہ و مشورہ کا فقدان۔

5۔ نیٹ میں کثرت انہماک اور شدید کربز کہ دیگر لوازمات دین اور ضروریات زندگی متاثر ہو کے رہ جائیں۔

6۔ اپنی ذات تک محدودیت و محبوسیت کہ تعلقات عامہ اور میل جول کا تصور ہی باقی نہ رہے، وجہ؟ جی مصروفیت شدید ہے فرصت ہی نہیں ملتی! یعنی: بلاشبہ انٹرنیٹ بحر بے کنار کی مانند ہے، خیر و شر کے متلاشی یکساں طور پر اس میں غوطہ زن نظر آتے ہیں اس کی مقناطیسی کشش مسحور کن اور اس کا جنون لا محدود ہے۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس کے گرویدہ اکثر و بیشتر اپنے اردگرد سے گھنٹوں لا تعلق رہتے ہیں جس سے ان کی ذاتی زندگی منتشر ہونے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی متاثر ہوتے ہیں، بصارت اور نظام ہضم بھی خراب ہوتا ہے، چڑ چڑاپن اور تعلقات میں کشیدگی کا تاریک پہلو بھی اس سے جنم لیتا ہے، لہذا: انٹرنیٹ کے استعمال میں اعتدال اور اوقات کا تعین کر لینا انتہائی ضروری ہے، ورنہ علمی افادے کی بجائے اس کا نشہ آپ کو دین و دنیا سے بے بہرہ بھی کر سکتا ہے اور آپ معاشرے سے کٹ کر تنہا بھی ہو سکتے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق چالیس فیصد نیٹ یوزر نوجوان معاشرتی عزلت پسندی کا شکار ہوچکے ہیں۔

؎ شھد اللہ ما انتقدتک الا

طمعا ان اراک فوق انتقاد

واللہ میرا مقصد تنقید نہیں اصلاح ہے تاکہ تم جرح و نقد سے محفوظ رہو۔

اسلام مخالف یورشیں اور اسلامی سائٹس کی ذمہ داری:

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ صہیونیت کی شہ پر متعدد مغربی ذرائع ابلاغ آزادی رائے کی آڑ میں اسلام دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے بلکہ ہر ایسی خبر کو بڑی مہارت سے اسلام کی بھیانک شکل کے طور پر پیش کرنے میں ایسی ہنرمندی دکھا جاتے ہیں کہ پڑھنے، سننے اور دیکھنے والا اسے حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ وہ خود حقائق کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنے کی شرمناک مثال ہوتی ہے ویب سائٹ SWISSINFO.Ch نے 22 مارچ 2007 کو ’’مغربی ذرائع ابلاغ کا اسلام سے متعلق حقاتق کو مسخ کر کے پیش کرنے کا اعتراف‘‘ کی ہیڈنگ کے ساتھ یہ نشر کیا کہ: ’’سویسرا‘‘ میں ’’اہل مغرب اور عربی و اسلامی دنیا کے مابین تعلقات اور ذرائع ابلاغ کا کردار‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس میں ماہرین و شرکاء اس نتیجہ پر پہنچے کہ: واقعتاً مغربی ذرائع ابلاغ اسلام کو منفی شکل میں پیش کرنے میں بھر پور توانائیاں لگا رہے ہیں۔

اسی طرح ازہر یونیورسٹی میں 2005 کو پیش کردہ شماریاتی ریسرچ میں بتایا گیا کہ دو ملیار ڈالر کے اخراجات سے دس ہزار ویب سائٹس اسلام دشمن مواد لانچ کرنے میں مصروف کا ر ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں اسلامی ویب سائٹس کی تعداد محض 200 ہے جن پر اٹھنے والی رقم صرف ایک ملین ڈالر ہے۔

لہذا تقاضائے ضرورت بھی ہے اور دینی فریضہ بھی کہ: مغربی ویب سائٹس جب اسلام کو مسخ شدہ صورت میں پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھ رہیں تو لازم ہے کہ: مغربی دنیا کی طرف سے اٹھائے جانے والے اسلام کے خلاف شبہات و اعتراضات کو جمع کر کے ممکنہ مروجہ طریق ہائے نشر و ترسیل کے ذریعہ اسلامی سائٹس پر ان کا مؤثر جواب دیا جائے تاکہ لاعلم مغربی دنیا اسلام کو حقیقی معنوں میں سمجھ سکے اور ان دجاجلہ، فراعنہ، دشمنان اسلام کی مکارانہ عیارانہ منحرف ہرزہ سرائیوں کے جال میں پھنسنے سے محفوظ رہیں۔

مخالف اسلام یورشوں کے خلاف اسلامی ویب سائٹس کی کاوشیں۔۔۔ امید کی کرن!!!

اہل مغرب کے اسلام دشمنی میں زہریلے منفی مواد کے مؤثر جواب، دفاع اسلام اور تحفظ عصمت رسول صلی اللہ علیہ و سلم بالخصوص خاکوں کی ڈنمارک کی غیر اخلاقی جسارت کے بعد۔ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر دعوت الی اللہ، غیر مذاہب کے بطلان اور حقانیت اسلام کے لیے سر گرم اسلامی ویب سائٹس کا کردار نہایت قابل تعریف و ستائش ہے۔

قارئین کی راہنمائی کے لیے ایسی چند معتبر سائٹس کا تذکرہ افادہ سے خالی نہ ہوگا :

نیز عمومی طور پر دعوت الی اللہ اور خدمت اسلام میں پیش پیش چند مشہور اسلامی سائٹس: جن کا وزٹ فائدے بلکہ فوائد سے خالی نہ ہو گا۔

1-www.islamweb.net

2-www.islamtomorrow.com

3-www.islamalways.com‎

4-www.islamyesterday.com

5.www.islamqa.com

6.www.islamhouse.com

اردو زبان میںدعوت و تبلیغ کی معتبر ویب سائٹس جو باقاعدہ طور پر اپ ڈیٹ ہوتی ہیں

1.www.kitabosunnat.com

2.www.islamfort.com

3.www.ircpk.com

4.www.usvah.org (اسوہ حسنہ)

صیہونیت زدہ اسلام دشمن ویب سائٹس نے اسلام پر کیچر اچھالنے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے توہین آمیز خاکے شائع کرنے کی ناپاک جسارت کی تو مسلم دنیا سے اس کاشدید رد عمل سامنے آیا نتیجتاً یہ کہ جب ایک ویب سائٹ نے ہالینڈ سے اسلام دشمنی پر مبنی فلم (فتنہ:FITNA) نیٹ پر ڈال دی تو ایک ہی روز میں ہالینڈ کی 55 سائٹس کا گلہ گھونٹ دیا گیا۔ یعنی بلاک (Block)کر دی گئیں۔

اسی طرح توہین آمیز خاکوں کے رد عمل میں ڈنمارک میں نیٹ کے معتبر ذرائع کی شماریات کے مطابق اسلام دوستوں نے وہاں کی سینکڑوں سائٹس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے ساتھ ساتھ معتبر سائٹس پر 718 طریقوں سے شدید رد عمل ریکارڈ کرایا۔

یہ دیگر مسئلہ ہے کہ آیا کسی کی سائٹس کو کسی وجہ سے بلاک/ ہیک کیا جا سکتا ہے کہ نہیں اور ایسا کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ تو اس پر تفصیلی مباحثات کے لیے مستقل مقالہ کی ضرورت ہے۔

دعوتی انٹرنیٹ: کچھ تلخیاں کچھ حقائق:

نیٹ پر دعوتی سرگرمیاں بیش بہا، مصروفیات گوناگوں، اور خدمات قابل ستائش لیکن : کیا مطلوبہ نتائج تسلی بخش ہیں؟؟؟نہیں بصد افسوس نہیں۔ لہٰذا تدارک مافات کے لیے منظم و مربوط اور باہمی تعاون کی بنیاد پر متحدہ مساعی اس کی واحد سبیل ہے۔ مشنری تنظیموں نے ’’نیٹ پر متحدہ تبشیری خدمات کے نام سے فورم تشکیل دیا ہوا ہے جس کا سالانہ اجلاس ہوتا ہے اس میں مشنری وفود کے ذمہ داران وممبران شریک ہوتے ہیں اور اپنے تجربات، تجزیے، نتائج اور مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے مشورے دیتے ہیں اور متفقہ قراردادوں کے ذریعے ان پر عمل کیا جاتا ہے۔

تبھی تو تبشیری خدمات کے اس متحدہ فورم کی طرف سے نیٹ پر ہزاروں سائٹس مصروف تبشیر ملتی ہیں۔ جبکہ مسلم داعیان کے ہاں دعوتی میدانوں میں باہمی تعاون محض ایک خواب ہے وہ بھی دیوانے کا، اور بس!

دقت نظری اور بیدار مغزی کی ضروت:

اب آخر میں یہ باور کرائے بغیر موضوع کا اختتام کر دینا علمی انصاف اور اخلاقی و دعوتی مسئولیت سےخالی رہیگا کہ: نیٹ اچھائی برائی کا ملغوبہ ہے، جادۂ حق کو توضیح و راہنمائی اور علمی افادیت کا بے کراں سر چشمہ ہونے کے ساتھ ساتھ، اس میں اخلاقی بے راہ روی کی دعوت اور سماجی برائیوں کی نئی نئی راہیں گویا قدم قدم پر منتظر ملتی ہیں سچ جھوٹ اور غلط صحیح سب اس پر بھرا پڑا ہے، نیک و بد سبھی یہاں ہنر آزمائی میں لگے ملتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کہنہ مشق، پختہ کار، ماہر، باصلاحیت، دقیق نظر، بیدار مغز اور بھاری بھر کم اسلامی سائٹس کی مؤقر تعداد بھی موجود ہے لیکن اکثر سائٹس کچھ کم معیاری ہیں اور دیگر کچھ بوگس اور بے وزن بھی ہیں۔

ہم ’’ختامہ مسک‘‘ کی نیت سے آخر میں چند مفید مشورے اور نصیحتیں سپرد قارئین کرنا چاہتے ہیں کہ جنہیں نیٹ کا دھنی اپنا ہتھیار بنا لے تو یہ اس کا زاد سفر بھی ہوں اور توشہ آخرت بھی۔

1۔ اپنے قول و کردار کی ’’وما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید‘‘ القرآن، کی روشنی میں مسلسل خود احتسابی رکھے۔

2۔ یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم  ہر وقت مدنظر رکھے: ’’کفیٰ بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع‘‘ الحدیث۔

3۔ صرف جدت طرازی ہی نہیں بلکہ (جدید بھی اور دیانتا مفید بھی) کی بنیاد پر کام ہو۔

4۔ فکر کی نگرانی اور احساس مسئولیت نیز ریفرنسز میں دیانتداری کا مظاہرہ علمی امانت و دیانت کا مظہر ہوتےہیں۔ اس کا اہتمام رکھے۔

5۔ موضوعاتی پروگرامز کا انعقاد: کہ وسائل و اختیارات کے مطابق کارکردگی کی دقت اور مثبت کردار کی تربیت کا اہتمام ہونا کہ بہترین معلم و راہنما ثابت سکے۔

6۔ اور یاد رہے کہ زیر نظر موضوع سے متعلق مفید تحقیقات، مبنی بر حقائق معلومات اور راہنما تضیفات کے بغور جائزہ و مطالعہ میں نیٹ کے داعی کی کامیابی کا راز مضمر ہے اور اس سے استغناء ادھورے پن سے نکلنے اور تکمیل شخصیت و کردار کی راہ میں رکاوٹ ہو گا۔

ہم بارگاہ الہ: میں دست بدعا ہوتے ہیں کہ نیٹ پر داعیان اسلام کی توفیق و راہنمائی میں خود ان کا کفیل و وکیل بن جائے ہمں اور انہیں اور درد دعوت سے سرشار ہر مسلمان کو اخلاص نیت و اخلاص فی العمل کی نعمت سے نوازے۔ آمین

ھوالموفق والمعین، وھو الہادی الی الصراط المستقیم۔

(الحمد للہ!ماہنامہ’’ اسوہ حسنہ ‘‘نے اس دعوتی میدان کو موزوں سمجھتے ہوئےاپنے تمام شمارہ جات آن لائن پڑھنےکے لئے ویب سائٹwww.usvah.orgکا اہتمام کیا گیا ہے۔ تقریبا3 سال کے مختصر عرصے میںزائرئن کی جانب سے تقریبا4لاکھ،81ہزا ر5 سو بار استفادہ کیا گیا ہے۔ادارہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے