تاریخی پس منظر

خلافت راشدہ سے خلافت عثمانیہ تک (محور اور مرکز) 1897 میں سوئیزرلینڈ میں عالمی صہیونی اجتماع پہلی عالمی جنگ (سقوط خلافت عثمانیہ 1924م، امت اسلامیہ کی بندربانٹ)

دوسری عالمی جنگ (قیام اسرائیل 1948م)

عربوں اور اسرائیل کے مابین چار جنگیں (اسرائیل کی توسیع در توسیع )

امت اسلامیہ کو پہلی صدی ہجری سے چودھویں صدی ہجری تک خلافت کی شکل میں ایک محور اور مرکز میسر رہا لہذا یہود اور ہنود نے اپنے مذمومانہ اھداف کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے اس کےس خلاف سازشوں کا آغاز کیا اور اس سلسلے میں 1897 میں سوئیزرلینڈ میں بین الاقوامی صہیونی اجتماع منعقد کیا جس میں تین اھداف بنیادی طور پر مقرر کیے ۔

۱۔خلافت عثمانیہ کاخاتمہ کرنا

۲۔مملکت اسرائیل کا 50 سالوں میں قیام ممکن بنانا

۳۔عظیم ترین اسرائیل (ارض موعود) کی حدود کو حاصل کرنالہٰذا ان اھداف کے حصول کے لیے پہلی جنگ عظیم 1914 سے 1919 تک لڑی گئی اور نیتجہ 1924 میں خلافت عثمانیہ ختم ہو گئی اور خلافت عثمانیہ کے تمام تر علاقے باہمی طور پر بانٹ لیے گئے جس میں فلسطین اور شام برطانیہ کے حصے میں آئے ۔ اس کے بعد دوسری جنگ عظیم 1939 تا1945 تک لڑی گئی اور 1948 میں اسرائیل وجود میں آیا اور پھر عظیم تر اسرائیل کے حصول کے لیے عربوں کے ساتھ چار جنگیں لڑیں جن کے نتیجے میں اسرائیل کی حدود میں مسلسل توسیع ہی ہوتی رہی ۔ 1947میں بوقت قیام اسرائیل صرف چند محدود خطوں پر قائم ہوااور 1947 میں ہی طے شدہ معاہدہ کے بعد اسرائیل آدھے سے زیادہ علاقے پر قابض ہو گیا 1967 کی جنگ کے بعد مزید علاقے اس کے تسلط میں آگئے2012 میںمکمل علاقہ اسرائیل کے قبضے کے تحت اور ریاست فلسطین صرف چند محدود علاقوں پر محیط ہے، گریٹ اسرائیل کی حدودمیں فلسطین ، شام، عراق، لبنان، کویت کے کچھ حصے، سعودی عرب کا آدھا حصہ اور مصر کے تمام ساحلی علاقے شامل ہیں

—-   سیادت شیعہ اور عیسائی لابی کے پاس

مشرق وسطی میں عظیم ترین اسرائیل کے ھدف میں سب سے پہلے لبنان کی سیاسی، مذہبی، اور اقتصادی تباہی

—— حکومت شیعہ لابی کے پاس

عراق کی مکمل تباہی، داخلی انتشار و بحران، شیعہ سنی فسادات

——- حکومت شیعہ لابی کے پاس

شام میں بشار الاسد کو یہود و شیعہ کی بھرپورحمایت !

—-ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے مزیدکوششیں

بحرین میں بھی شیعہ انقلاب کی کوشش لیکن ناکام اور اب یمن میں حوثی قبائل کی مدد سے شیعہ انقلاب کی کوشش

جیسا کہ تاریخی پس منظر کے سلسلے میں عظیم ترین اسرائیل اور قدیم ایرانی مملکت کی حدود کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے سب سے پہلےلبنان سے آغاز کیا گیا اور داخلی انتشار کے ذریعے اسے اقتصادی طور پر تباہی و بربادی سے دوچار کرنے کے بعد حکومتی منصوبہ تیار کیا گیا جس کے تحت صدر، وزیراعظم اور سپیکر کا عہدہ بالترتیب عیسائی، شیعہ اور سنی کے پاس ہوں نتیجتا اس علاقے میں حکومت شیعہ لابی کے پاس آ گئی اور اس کے بعد اگلے مرحلے میں عراق جو کہ مشرق وسطی کی سب سے بڑی طاقت تھی اس کے ایٹمی پلانٹ کو اسرائیل نے تباہ کر دیا پھر صدام حسین کے ذریعے کویت کے ساتھ تصادم کے بعد مشرق وسطی میں انہیں قدم جمانے کے مواقع ملے اور آخر میں صدام حسین سے مطلوبہ اھداف حاصل کرنے کے بعد براہ راست عراق پر حملہ کیا اور شیعہ سنی فرقہ واریت جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا جس کے بعد وہاں کی حکومت شیعہ لابی کے پاس آ گئی اور تیسرے مرحلے میں شام میں بشار الاسد نے رہی سہی اہل سنت و جماعت کو کچلنا شروع کیا اور ساتھ میں بحرین میں بھی شیعہ انقلاب کی کوشش شروع کی جو کہ ملک عبداللہ رحمہ اللہ کے بھرپور تعاون سے ناکام ہوئی اور اس سلسلے کا آخری قدم یمن میں حوثی قبائل کے ذریعے شیعہ حکومت لانے کی کوشش ہے جس کی حمایت میں امریکہ، اسرائیل ، روس اور ایران بھرپور معنوی اور مالی مدد کر رہے ہیں یعنی مسلمانوں کے روحانی مرکز حرمین شریفین کو چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،حوثی قبائل،

یمن کی جغرافیائی تقسیم:

یمن جغرافیائی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے جنوبی یمن اور شمالی یمن تاریخی اعتبار سے شمالی یمن زیدی شیعہ اکثریتی علاقہ رہا ہےاور جنوبی یمن شافعی سنی قبائل کا علاقہ ہے۔

زیدی شیعوں کے سیاسی تسلط کی تاریخ شمالی یمن میں کوئی ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس میں ایسے ادوار بھی ہیں جن میں یہ تسلط شمالی یمن سے بڑھ کے تقریباً پورے یمن میں موجود رہا ہےاس کے برعکس جنوبی یمن جس کا سیاسی دارالحکومت بالعموم عدن کی بندرگاہ ہے تاریخی اعتبار سے سنیوں کے شافعی مکتبہ فکر کی اکثریت کا گہوارا رہا ہے۔ عدن کی بندرگاہ اور جنوبی یمن کے اکثر حصے اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پہلے سلطنت عثمانیہ اور بعد میں براہ راست برطانوی سلطنت کے زیر اختیار چلے گئے تھے۔ تاہم شمالی یمن میں دو صدیوں سے قائم شیعہ زیدی امامت میں کسی نہ کسی طرح 1962ء تک اپنی سلطنت کو برقرار رکھا اگرچہ اُس کی حیثیت کئی ادوار میں علامتی ہی تھی۔

ایرانی مداخلت کے ابتدائی اسباب

22 مئی 1990 سے 27 فروری 2012 تک یمن کے حکمران علی عبداللہ صالح صنعاء کے احمر قبیلے سے ہے جو کہ مذہبا ًزیدی شیعہ ہے۔

اگست 1990ء میں کو یت پر عراق کا قبضہ ،جس کے بعد تمام عرب ریاستوں نے عراقی حکومت کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ سوائے علی عبداللہ صالح کے جو عراق کی حمایت میں تھا ۔

ایران نے یمن میں اپنے ہمنوا قبائل کی مدد کرنا شروع کی حوثی قبائل کے عمائدین ایک طویل عرصہ تک ایران میں قیام پذیر رہے22 سال تک حکمراں رہنے والے علی عبداللہ صالح نے ایران کے ساتھ ہمہ جہتی تعلقات نہ صرف قائم کیے بلکہ اس میں مزید مضبوطی کے لیے اپنے وزیر خارجہ کرنل غالب الگماش کو ایران کئی مرتبہ بھیجا تاکہ ایران کے ساتھ مل کر کوئی باہمی سلامتی کا نظام وضع کیا جا سکے۔ اور اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے یمن کی سفارتوں میں تمام فوجی افسران شیعہ ہیں جو ضروری تربیت کے لیے ایران جاتے ہیں اور اس میں ایک اہم نام علی الاناس نامی روحانی شخصیت کا بھی ہے ۔ اور مزید یہ کہ بطور خاص یمن کے دیگر عرب ملکوں میں متعین سفیر حضرات کی تعیناتی سے قبل ان سب کو ایران بھیجا گیا۔

اور اس منصوبے پر اسے کامیابی اس موقع پر ملی جب علی عبداللہ صالح نے صدام حسین کی جارحیت کے موقع پر عرب اتحاد کے خلاف عراق کی کھلی حمایت کی۔

جس کے دوران ایران نے یمن میں اپنے ہمنوا قبائل کو مسلح کرنا شروع کر دیا اور اس میں علی عبداللہ کی ریپبلیکن گارڈ نے ہر اول دستے کا کام کیا۔

حوثی قبائل کی پہلی بغاوت 2004

حسین بدرالدین حوثی نے ایران کے تعاون سے 1990 میں ’شباب المومنین‘ کی داغ بیل ڈالی۔

شیعہ اکثریتی علاقوں میں درج ذیل منصوبے شروع کیے:ہسپتال، سوشل ویلفیئر، سکولز میں خاص طور پرشیعہ دینیات کو مقرر کیا گیا۔

طلبہ ، طالبات کاایرانی یونیورسٹیوں میں داخلہ ، عمومی تعلیم کے علاوہ مالی تعاون اورعسکری تربیت بھی حاصل کرتے تھے۔

انقلابی نعروں اور ایرانی مدد سے حوثی قبیلے کے شیعہ قائدین اور عوام کو اپنے گرد جمع کرلیا۔(فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں) ۔

14 سال کی تیاری کے بعد 2004ء میں پہلی بغاوت جو کہ شمالی یمن کے سعودی سرحد سے متصل صوبے صعدہ میں واقع ہوئی تھی۔ حوثیوں کی بغاوت بُری طرح ناکام، بانی حسین بدرالدین اور اُس کے بہت سے اہم رفقاء یمنی فوج کے ہاتھوں مارے گئے ۔ حسین بدر الدین کے قتل کے بعد قیادت اُس کے بھائی عبدالمالک الحوثی کے پاس آگئی۔

شباب المومنین کی تنظیم کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نئی تنظیم انصار اللہ قائم کی جسے عرف عام میں الحوثی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں صرف اور صرف اثناء عشری مذہب اختیار کرنے والوں کو شامل کیا گیا جن میں اکثریت حوثی قبیلے کے افراد کی ہے۔

القاعدہ کی مخالفت میں امریکہ بھی انکی بھرپور مدد کرنے لگ گیا (ایران کے بعد امریکہ بھی)

یمنی وزیر خارجہ کے مسلسل ایرانی دورے اور سفیر حضرات کے ایران میں تربیتی دورہ جات اور حوثی قبائل کو مسلح کرنے کے عمل میں مندرجہ بالا اقدامات کو بھی اپنے حق میں کامیابی سے استعمال کیا ۔

اور اس مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے حوثی قبائل جو کہ اپنے قبیح عقائد کے پس منظر میں دشمنان اسلام کے ہاتھوں کامیابی سے استعمال ہو رہے تھے ان کےقائد اول بدر الدین حوثی نے نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جسے شباب المومنین کا نام دیا گیا۔ اور اس تنظیم کے زیادہ تر اراکین ایرانی یونی ورسٹیز کے تعلیم یافتہ تھے اور 2004 میں پہلی بغاوت کا ظہور ہوا جو کہ بری طرح ناکام ہوئی اور اس میں شباب المومنین کے قائد اپنے بیشتر رفقا سمیت موت گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں اور پہلی بغاوت کی ناکامی کے بعد بدرالدین حوثی کے چھوٹے بھائی عبدالمالک حوثی نے سابقہ منصوبے کی تکمیل کے لیے سابقہ تنظیمی نیٹ ورک ختم کر کے ایک نئی تنظیم انصار اللہ کی بنیاد ڈالی جو اپنے نام سے بظاہر سنی المسلک معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت اس میں شمولیت صرف اور صرف شیعہ افراد کے لیے مخصوص تھی۔

اور اس مرحلے پر امریکہ جس کی مداخلت خفیہ ہی تھی کھل کر پہلی مرتبہ القاعدہ کی مخالفت میں حوثی قبائل کو مضبوط کرنے کے لیے میدان عمل میں آ جاتا ہے جہاں اسرائیل اور مغربی ممالک بھی اس کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔

امریکہ اور حوثی قبائل

امریکہ، مغربی طاقتوں کی منافقانہ پالیسی حکمران علی عبداللہ الصالح کی وفادار فوج ری پبلکن گارڈز (قیادت علی عبداللہ الصالح کے بیٹے احمد علی الصالح) کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ 2004 سے لے کر 2011 تک یمنی ری پبلکن گارڈز کو امریکہ کی جانب سے 326 ملین ڈالر سے زائد مالیت کا اسلحہ اور نقد رقوم مہیا کی گئیں۔

یمنی این آر او کی بنیاد پر حوثی تحریک کی حکومت سے صلح کی، پھر 2008 میں معاہدہ کے تحت بغاوت کے جرم میں قید تمام حوثی قائدین کو رہا کر دیا گیا،ضبط شدہ اسلحہ اور گولہ بارود واپس کر دیا گیا۔ ایران عسکری امداد پر آنکھیں بند امریکہ نےپاکستان،عراق اور صومالیہ کی نسبت کہیں زیادہ ڈرونز حملے یمن پر کیے۔ بظاہر یہ القاعدہ اور اس سے تعاون کرنے والوں پر کیے جاتے تھے، لیکن عملا ان کے نتیجے میں یمن کے تمام ہی سنّی قبائل کی عسکری قوت کو کمزور کر دیا گیا اور القاعدہ کی مخالفت کے بہانے امریکہ نے مقامی حوثی قبائل اور ان کے ہمنواوں میں اسلحہ تقسیم کرنا شروع کیا اور اس سلسلے میں علی عبداللہ صالح کی وفادار فوج ریپبلیکن گارڈ کو اس سابقہ بغاوت کے مقابلے کے بہانے 2004 سے 2011 تک 326 ملین ڈالر کے اسلحے کی مدد کی گئی۔

امریکہ نے ایک طرف یمنی حکومت کو اسلحے کی ترسیل جا ری رکھی تو دوسری جانب حوثی قبائل کو القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ اور مالی امداد دینا شروع کی۔

اور تیسری طرف یمن کے سنی علاقوں میں ڈرونز حملے شروع کر دیے جس سے مقامی طور پر اشتعال اور انتقام کے جذبات پیدا ہوئے بالکل اسی طرح جیسا کہ امریکہ نے پاکستانی شمالی علاقوں میں القاعدہ کو نشانہ بنانے کے نام پر ڈرونز حملے شروع کر دیے اور پھر خود ہی ان نوجوانوں کو انتقام کے نام پر اپنے مذموم پقاصد کے لیے پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کیا بالکل یہی پالیسی امریکہ نے یمن میں بھی استعمال کی پاکستان کی مانند یمن میں بھی امریکی ڈرون حملے دہشت گردی میں شدت کا سبب بنتے چلے آ رہے ہیں۔وہاں بھی ہر ڈرون حملے کے بعد مظاہرین احتجاجا سڑکیں بند کر دیتے ہیں، انتظامیہ مظلوموں کی داد رسی کا وعدہ کر کے راستے کھلواتی ہے اور ردِعمل میں دہشت گردی کی کوئی نہ کوئی تازہ واردات رونما ہو جاتی ہے اس کے دیگر نقصانات جو تھے سو تھے لیکن سب سے بڑا نقصان یمن میں موجود سنی عناصر کی عسکری قوت کو کمزور کر دیا گیا تاکہ جب یہ حوثی قبائل بغاوت کریں تو یمن کے داخل سے ان کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو جیسا کہ پہلی بغاوت کی ناکامی میں مقامی سنی قبائل کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔

منافقانہ پالیسی

امریکا، تہران اور حوثیوں کے درمیان کسی تعلق کے بارے میںیکے بعد دیگرے تردیدی بیانات کیونکر دے رہا ہے؟

اور آخر حوثی باغیوں کے بارے میں امریکا گرگٹ کی طرح رنگ کیوں بدل رہا ہے۔

ان (حوثیوں) کے بارے میں امریکی عہدیداروں سے جب بھی کوئی سوال کیا جاتا ہے تو وہ ایک گھڑا گھڑایا جواب یہ دیتے ہیں کہ واشنگٹن کو حوثی باغیوں کی کارروائیوں میں ایرانی مداخلت یا تعلق کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔ بسا اوقات ایک ہی آن میں امریکی اہلکار حوثی بغاوت کو یمن کا اندرونی معاملہ قرار دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔’‘امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا، خطے میں ایرانی معاملات پرجس باریک بینی سے نگاہ رکھے ہوئے ہےاس کی روشنی میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ حوثیوں اور ایران کے درمیان کسی بھی تعلق یا رابطے کا علم واشنگٹن سے زیادہ کسی کو نہیں ہو سکتا۔ حوثیوں سے متعلق امریکی موقف کی دو تشریحات کی جا سکتی ہیں۔ یا تو یمنی حکومت حوثیوں پر ایرانی مدد کا الزام لگا کر مغربی رائے عامہ کو باغیوں کے خلاف اور اپنے حق میں ہموار کرنا چاہتی ہے۔ یا پھر امریکا خود جھوٹ بول رہا ہے ۔در پردہ اسے حوثیوں کے لئے ایرانی امداد کا پوری طرح علم ہےلیکن فی الوقت وہ ایران کے ساتھ اپنے تنازعے کو مزید طول نہیں دینا چاہتا۔ دوسری تشریح حقیقت کے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے کیونکہ حوثی باغیوں سے ایران کے ساتھ تعلقات پرانے ہیں اور اس تعلق کے ناقابل تردید ثبوت بھی موجود ہیں۔اگراس مفروضے کودرست مان لیا جائے کہ امریکا کو حقیقت کا علم ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ واشنگٹن’حوثیوں کے جرائم پر کیونکر پردہ پوشی کر رہا ہے؟

امریکا نے اس وقت دو غلی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ اپنی خاموش پالیسی کے تحت واشنگٹن’یمنی فوج کو حوثیوں کے خلاف معلومات اور لاجسٹک امداد فراہم کر رہا ہے اور عوام الناس کے سامنے وہ حوثیوں اور ایران کے درمیان تعلق کے سلسلے میں یمنی حکومت کے الزامات کی مسلسل تردید کئے جا رہا ہے تاکہ دنیا کے سامنے یمنی حکومت کے لئے امریکی حمایت کا تاثر پیدا نہ ہو۔ یہ حربہ امریکا کی اس عمومی پالیسی سے قدرے مختلف ہے کہ جو وہ اپنے اتحادیوں کی حمایت کے وقت اختیار کرتا ہے۔

امریکا’شاید حوثیوں سے تعلق خاطر کا عندیہ دیکر اس بار انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ واشنگٹن کے اس اقدام کے بعد حوثیوں کے لئے القاعدہ سے راہ و رسم بڑھانا ممکن نہیں رہا۔ یہ موہوم تعلق زیادہ دیر چلنے والا نہیں کیونکہ غالب امکان ہے کہ حوثی باغی اپنے نظریات کے ہاتھوں مجبور ہو کر امریکا مخالف کارروائیاں شروع کر دیں۔ مستقبل میں ان باغیوں کے ایران اور القاعدہ سے تعلق کے شواہد بھی منظر عام پر آنے لگیں گے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ مدت بعد امریکاحوثیوں کے بارے میں چپ کا روزہ توڑنے پر مجبور ہو گا۔ یہ پیش رفت یمنی حکومت کے لئے خوشی کا باعث ہو گی کیونکہ صنعا’بالآخر مغربی دنیا کو حوثیوں کے خلاف اکسانا چاہتا ہے

منافقانہ پالیسی کا نتیجہ

حکومت مخالف مظاہرے، اور حکومتی بے پناہ تشدد کے بعد تمام سٹیک ہولڈرز پر مشتمل نئی حکومت کا 2012 میں قیام عمل میں لایاگیا ۔جس کے صدرعبد ربہ منصور ہادی سنی المسلک شافعی تھا وزیر اعظم کا عہدہ اخوان المسلمون کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آ گیا۔جو مصر اور دیگر ممالک میں مظاہرات کے ذریعےحوثی قبائل کی خاموش حمایت کر رہے ہیں منصوبہ کے تحت امریکہ، مغربی طاقتوں اور ایران نے اس حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی یمن کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد بند کر دی۔

دوسری طرف علی عبد اللہ الصالح نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ یمن پر اہل سنّت کا قبضہ ہو گیا ہے۔

اس نعرے کو اہل تشیع میں پذیرائی حاصل ہوئی، یمن کے شعیہ اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع کے اقتدار کی بحالی کے نعرے بلند ہونا شروع ہو ئے۔

علی عبداللہ الصالح کے تعاون، عبد المالک حوثی کی قیادت اور ایرانی عسکری ماہرین کی رہنمائی میں حوثی قبائل کی فوجوں نے پیش قدمی کرنا شروع کر دی۔

اسی منصوبے کے تحت یمن میں خانہ جنگی جس کا آغاز بعض علاقوں میں تو 2004 سے ہی شروع ہو چکا تھا لیکن عمومی طور پر 2008 سے اس خانہ جنگی نے یمن کے کثیر علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اس مرحلے پر علی عبداللہ صالح کی حکومت کو ختم کروایا گیا تاکہ شیعہ لابی کو مزید اشتعال میں لایا جا سکے اور حوثی قبائل کو موقع دیا جائے کہ وہ اس بہانے ایک مرتبہ پھر بغاوت کر سکیں ۔

اور اس بغاوت کی کامیابی کے درج ذیل پہلو اہم ہیں:

وزیر اعظم کا عہدہ ایک اخوانی کو دیا گیا جس کی مصر اور دیگر ممالک میں شاخیں ابھی تک حوثی قبائل کی حمایت میں مظاہرے کر رہی ہیں ۔

امریکہ نے یمن کو دینے والی امداد بند کر دی علی عبداللہ صالح نے سب سے پہلے بہت بڑے پیمانے پر اس ممکنہ بغاوت کو شیعہ سنی فرقہ واریت کے نام پر احتجاج شروع کر دیا جسے شیعہ اکثریتی علاقوں میں مقبولیت حاصل ہو ئی اور ایران نے براہ راست پہلی مرتبہ علی الاعلان پیش قدمی شروع کر دی۔

حوثی قبائل کی دوسری بغاوت

علی عبداللہ الصالح کی ری پبلکن کارڈز (نئی حکومت نے بحیثیت ادارہ تحلیل کر دیاتھا) دیگر سرکاری عہدے داروں نے حوثیوں کا ساتھ دیا اور وہ بغیر کسی بڑی مزاحمت کے دارالحکومت صنعاء پر قابض ہو گئے۔

پلان کے مطابق امریکہ ، مغربی طاقتوں کی خاموشی مکمل قبضے اور صدر و وزیراعظم کی جبری برطرفی کے بعد اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی جمال بن عمر کی زیر نگرانی اور خلیج تعاون کونسل کی ضمانت میں حوثی نمائندوں اور باقی یمنی سیاسی جماعتوں کے مابین ایک دستاویز پر دستخط ہوئے۔ جسے ’’اتفاقیۃ السلم والشراکۃ‘‘(معاہدہ امن و اشتراک) کا نام دیا گیا۔

معاہدے کے تحت سابق یمنی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

ایک ٹیکنو کریٹ حکومت کے قیام پر اتفاق ہوا وزیراعظم حُوثی اورعبد ربہ ھادی منصور کو عبوری صدر نامزد کیا گیا۔

حوثی قبائل کی دوسری بغاوت اور بین الاقوامی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور یورپ وغیرہ جو ہر معاملے میں ملوث ہونا اپنا حق سمجھتے ہیں اور دنیائے اسلام کے تمام مسائل میں دوغلے موقف کے حامل، پہلے جن اسباب کی بنیاد پر بغاوت ناکام ہوئی تھی اب ان سب اسباب کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کے ساتھ بغاوت کروائی گئی اور یمن میں ان باغیوں ایک منتخب حکومت کو بزور طاقت ہٹا کر قبضہ کر لیا۔

حوثی قبائل کی تیسری بغاوت

حُوثیوں نے امن معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود فوجی اور دفاعی شقوں سے انکار کر دیا، جس کے تحت حوثیوں کو دارالحکومت صنعاء سے پیچھے ہٹ جانا تھا اور سکیورٹی سرکاری حکام کے حوالے کر دینی تھی۔

دارالحکومت خالی کرنے کے بجائے وزارت دفاع، داخلہ، فوجی مراکز سمیت دارالحکومت کے تمام اہم مقامات پر اپنا قبضہ مستحکم کرلیا۔

صنعاء اور دیگر زیر قبضہ شہروں میں واقع اہم فوجی چھاؤنیوں سے ٹینکوں، توپوں اور بکتربندگاڑیوں پر مشتمل بھاری اسلحہ اپنے قبضے میں لے کر شمال میں واقع اپنے محفوظ فوجی ٹھکانوں میں منتقل کردیا۔

عبوری صدر کو اُس کے محل میں نظر بند رکھنے کے بعد صنعاء سے نکال دیا۔

تہران اور صنعاء کے درمیان براہ راست پروازوں کا غیر قانونی معاہدہ کر لیا۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خصوصی ایلچی علی شیرازی نے فارسی نیوز ویب پورٹل” دفاع پریس” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ حوثی گروپ انصار اللہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی ایک نئی شکل ہے جو یمن میں کامیابی کے بعد اسلام دشمنوں کے خلاف ایک نیا محاذ شروع کرے گا۔

ادھر حوثی باغیوں نے صنعاء سے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے یمن کے عارضی دارلحکومت عدن کو محاصرے میں لے لیا۔

دوسری بغاوت کے نتائج ہمارے سامنے اس انداز میں آتے ہیں کہ یمن کو صرف ایک بیس کیمپ بنایا جائے اور اصل ھدف کی طرف بڑھا جائے اور اس پورے عمل میں ایران کی بھرپور حمایت اور مدد ہر مرحلے میں ان کے ساتھ شامل رہی ۔

اور اگر کسی کو غلط فہمی تھی تو اب دور ہو جانی چاہیے جیسا کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے خصوصی ایلچی علی شیرازی نے فارسی نیوز ویب پورٹل” دفاع پریس” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ حوثی گروپ انصار اللہ لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی ایک نئی شکل ہے جو یمن میں کامیابی کے بعد اسلام دشمنوں کے خلاف ایک نیا محاذ شروع کرے گا 2011 میں مصراورتیونس کی طرح مصر میں بھی بڑے بڑے مظاہرے ہوئے اور صدر علی عبداﷲ صالح نے اقتدارچھوڑ کر سعودی عرب میں جاکر پناہ لی۔ یمن کے اس سیاسی بحران کا حل اقوام متحدہ اور خلیجی ممالک کی کوشش سے یہ نکالا گیا کہ صدر اقتدار سے علیحدگی کا اعلان کریں اور نائب صدر’’ عبد ربہ ہادی منصور‘‘ ملک کی باگ و ڈور سنبھال لیں۔ لیکن اب منصور ہادی کا اقتدار بھی خطرے میں آچکا ہے ۔ حوثی باغی 21 ستمبر 2014 سے ملک کے کئی حصوں پر قابض ہیں اور ان مقامات پر اپنی نام نہاد حکومت بھی قائم کررکھی ہے ۔ حوثیوں نے یمن پرحکومت کرنے کے لئے ایک نیشنل کونسل بنائی ہے جس کے ممبران کی تعداد 551 افراد پر مشتمل ہے۔نیشنل کونسل کے چیئرمین محمد علی الحوثی کو عبوری مرحلے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ حوثی باغیوں کا ایک اہم فرد ہونے کے ساتھ ساتھ محمد علی عبدالکریم الحوثی کو قبیلے کے سربراہ عبدالملک الحوثی کے مقربین میں شمار کیا جاتا ہے۔ حوثی باغیوں کی کونسل نے بہت سے اہم حکومتی عہدیداروں، وزیروں اور بیوروکریٹس کو برطرف کرنے کے ساتھ کئی حکومتی عہدیداروں، وزیروں اور بیوروکریٹس کے خلاف اپنی قائم کردہ نام نہاد عدالتوں میں بدعنوانی کا مقدمہ بھی دائر کردیا۔ حوثی باغیوں کی انتقامی کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے یمن کے بہت سے لوگ ترک وطن کررہے ہیں ۔

سعودی عرب اور یمن کی جغرافیائی حدبندیاںسعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور یمن کی ڈیڑھ ہزار کلو میٹر طویل سرحد کے ساتھ بالکل ایسا ہی معاملہ ہے جیسا کہ پاکستان اور افغانستان کی طویل سرحد کا معاملہ ہے کہ سرحد کے دونوں اطراف مقامی قبائل کی آزادانہ آمدورفت جاری رہتی تھی ۔

بالکل جیسا محاذ پاکستان کے اندر بنایا گیا تھا یعنی ایک طرف بھارت تو دوسری طرف ایران اور تیسری طرف افغانستان اور پھر داخلی انتشار اور خانہ جنگی کی کوششیں ۔ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ان تمام مذموم کوششوں کا کامیابی سے سدباب کیا گیا اسی طرح سعودی عرب کے ایک طرف ایران ، پھر عراق، پھر شام، اور اسرائیل اور اب یمن تو گویا سعودی عرب کو بھی پاکستان کی طرح چاروں طرف سے گھیرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے اور  یمن میں بیٹھ کر سعودی عرب کے ساتھ وہی کچھ کیا جا سکتا ہے، جو افغانستان میں چھپنے والے پاکستان میں کر رہے ہیں یا پاکستان میں پناہ پانے والے افغانستان میں کرتے رہے ہیں۔

یمن آبادی کا تناسب

حوثی یمن کے علاوہ سعودی عرب کے تین صوبوں “نجران جازان اور عسیر” کو یمن کی سابق شیعہ سلطنت کا حصہ قرار دے کر دوبارہ قبضے کے دعوے دار ہیں۔

یمن کی 70 فیصد آبادی سنّی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

20 فیصد آبادی زیدی شیعہ کی ہے۔

حوثی کل آبادی کا 5 فیصد بھی نہیں ہیں۔

یمن کی آبادی کے بارے میں بہت بری غلط فہمی جو میڈیا کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہے کہ حوثی قبائل جو کبھی سنی المسلک کے ساتھ مشابہت دی جا تی ہے اور کبھی زیدی شیعہ قبائل کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور اسی دوران ان کی آبادی 30 فی صد تک بتائی جا تی ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ حوثی قبائل صرف 5 فی صد سے بھی کم ہیں اور ملک کی اکثریت سنی شافعی المسلک یا مالکی المسلک سے تعلق رکھتے ہیں جن کی نسبت 70 فی صد تقریبا ہے اور 25 فی صد زیدی شیعہ اور باقی 5 فی صد حوثی قبائل ہیں۔

حوثی عقائد

بدر الدین الحوثی اصل میں روافض کے ایک غالی فرقہ جارودیہ سے تعلق رکھتا ہے ان کے عقائد کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے : (روافض سے متفق، دیگر فرقوں سے اتفاق) یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو ان کے عقائد کے بارے میں دھوکہ ہوتا ہے اور وہ انہیں اہل سنت سے نزدیک سمجھتے ہیں۔

بدر الدین الحوثی کی کتب اور تقاریر کے مطابق:

قرآن مجید محرف ہے اس میں تینوں نعوذ باللہ کی مذمت میں جتنی بھی سورتیں تھی وہ ان تینوں نے نکلوا دیں تمام صحابہ کافر ہیں اور مدینہ پر قبضہ کے بعد خلفائے ثلاثہ کو ان کی قبور سے نکال کر ان پر حد جاری جائے گی خلافت راشدہ کا سلسلہ عمر رضی اللہ عنہ کی سیئات میں سے ہے ۔

ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے شر سے امت اب تک پریشان اورا بو بکر خلافت کے لیے کسی طرح لائق نہیں تھے ۔

اس امت میں تمام برائیوں کی جڑ ابوبکر ، عمر ، عثمان ہیں ، اور ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کلیدی حیثیت ہے ۔

اس امت میں جتنے بھی ظلم رونما ہو رہے ہیں ان سب کی ذمہ داریاں ابوبکر، عمر و عثمان (رضی اللہ عنہم ہیںاللہ تعالی کی صفات حسنہ کا انکار اور قرآن کے ساتھ استھزا (اشاعرہ اور معتزلہ کے ساتھ موافقت )

عذاب قبر سے انکار، جنت ، جہنم، پل صراط، وغیرہ کا انکار أنه يقوم بأخذ كلبة سوداء ويدفنها إلى منتصفها، ثم يقول لأتباعه: ارموا عائشة التي لم يقم عليها الحد

خلاصۃ القول:

یہ ایک رافضی تحریک ہے جس میں جہمیہ، معتزلہ، قدریہ، خوارج، قبوری فرقوں کے تمام تر انحرافات اور گمراہیاں پائی جاتی ہیں

حوثیوں کے بارے میں عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ شعیہ مذہب کے زیدی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ماضی کے حوالے سے کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں۔اگر حوثی قبائل کے عقائد کا جائزہ بزبانی بدرالدین الحوثی کے لیے جائے تو شاید ہی کائنات میں اتنے قبیح عقائد کسی اور گروہ کے ہوں لیکن اپنے عقائد میں غالی روافض سے مشابہت ضرور رکھتے ہیں جیسا کہ تحریف قرآن، صحابہ، کے حوالے سے۔

اور یہ واضح رہے کہ یہ سارے عقائد ان کے بانی بدر الدین الحوثی کی کتب اور دروس سے ماخوذ ہیں جن کے نام اگلے صفحے پر درج کر دیے گئے ہیں

مولفات بدرالدین الحوثی

الزهري وأحاديثه وسيرته لبدر الدين الحوثي

 كشف التقرير لبدر الدين الحوثي

الفرق بين السب وقول الحق لغرض التصحيح لبدر الدين الحوثي

أبو جعفر المبخوت (المتشيع) في لقاء معه على الموقع الشيعي الرسمي المسمى (المعصومين الأربعة عشر)

دروس من هدي القرآن الكريم، سورة المائدة الدرس الثالث، لحسين الحوثي

(الإرهاب والسلام) محاضرة ألقاها حسين الحوثي بتاريخ 8/3/2002م في صعدة

بروتوكولات آيات قم والنجف حول اليمن لعبد السلام الحسني

ماذا تعرف عن الحوثيين؟ لعلي الصادق

الحوثية في اليمن الأطماع المذهبية في ظل التحولات الدولية، مركز الجزيرة للبحوث والدراسات

رافضة اليمن عبر الزمن، ومختصره طعون رافضة اليمن في صحابة الرسول المؤتمن صلى الله عليه وسلم لمحمد الإمام

بوائق رافضة اليمن لمحمد الإمام

منهاج السنة النبوية ابن تيمية رحمه الله

فرق معاصرة(1 /229- 230).

التشيع في صعدة لعبد الرحمن المجاهد

یہ چند کتب کے نام بطور مثال پیش کیے جا رہے ہیں یہاں ایک بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے جس کے واضح ہو جانے سے یہ امر بھی واضح ہونے میں آسانی ہو گی کہ سعودی عرب نے آخر حوثی قبائل کے خلاف علم جہاد کیوں بلند کیا؟

حوثی قبائل کے ملعونانہ عقائد کے حوالے سے سعودی عرب کے علماء کی علمی و تحقیقی جہود تقریبا 30 سال سے موجود ہیں یعنی اہل سعودی عرب ان قبائل کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں مکمل طور پر واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کی بغاوت کو صرف ایک علاقائی معاملہ نہیں سمجھا لیکن اس کے باوجود جارحیت سے گریز کیا اور اس وقت حملہ کیا جب وہاں کی قانونی اور جائز حکومت سے مدد کی اپیل کی۔

یہ تمام کتب انٹر نیٹ پر موجود ہیں اور دروس بھی انٹر نیٹ پر بآسانی دستیاب ہیں

حوثیوں کے جرائم

یمن میں موجودہ بغاوت سے قبل چھ مرتبہ خانہ جنگی میں بھرپور حصہ اور ہر خانہ جنگی میں اہل سنت و جماعت کے خلاف دہشت گرد کاروائیاں گوگل سرچ پر جرائم الحوثیین لکھیں Anti Shia-Majoos ابو جعران کے ساتھ حوثی شیعوں کے جرائم مساجد، عام مدارس اور قرآنی تعلیم کے مدارس کی تباہی و بربادی بالخصوص ان علاقوں میں جہاں یہ اکثریت میں ہیں عورتیں ، بچے اور بوڑھے افراد کا قتل عام مسلمان عورتوں کی عصمت دری اہل سنت جماعت کے علاقوں میں وحشیانہ بمباری اور ان کے علاقوں کا شدید حصار جو مہینوں تک قائم رکھا گیا کہ کوئی طبی، مالی، معنوی امداد نہ پہنچ سکے ویسے تو ان کے جرائم کا مکمل احاطہ اس مختصر تحریر میں ممکن نہیں لیکن بطور نمونہ چند درج ذیل ہیں:

مدارس تباہ کر دئے گئے ۔مساجد کو مسمار کر دیا گیا کو کہ قرآن مجید سے اعلان جنگ ہے ۔قرآن پڑھانے والوں کیساتھ لڑائیاں لڑ رہے ہیں علم حدیث کے طلباء کو محصور کر کے قتل کرنا عام لوگوں کو جو ان کے جرائم پر ان کی تائید نہیں کرتے نہیں گھروں سے بے دخل کر کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ الغرض تعلیمی ادارے، یونیورسٹیز، اور ان کی املاک لوٹ کر علم سے دشمنی عام لوگوں کی املاک کو لوٹنا۔

پاکدامن اور باعفت خواتین کی عصمت دری ۔

عام لوگوں اور مخالفین کا بے دریغ قتل عام علمائے کرام کو قتل کرنے کیلئے گھروں سے بے دخل کرنا ۔

رہزنی اور نقب زنی ۔

زرعی زمینوں اور جانوروں کو تباہ و برباد کرنا ۔

مملکت کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور باڈر سکیورٹی کے جوانوں سے جھڑپیں ۔

حرمین شریفین پر حملے کی دھمکیاں ۔

صحابہ رضی اللہ عنہم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین کو لعن طعن کا نشانہ نہیں بنایا۔

سعودی عرب اور یمن جنگ؟

وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

محض علاقائی جنگ نہیں (ایران کی مداخلت؟)

محض شیعہ سنی جنگ بھی نہیں (یہودی،مغربی مفادات)

محض اخوان المسلمین کے خلاف بھی نہیں (اخوانی مقتول اور مظلوم ہونے کے باوجود کوئی مدد نہیں کر رہے)

یہ محض اقتدار کی جنگ بھی نہیں (سعودی عرب نے یمن پر قبضہ نہیں کرنا)

تمام یمن اس بغاوت میں شریک نہیں میڈیا میں اس جنگ کے مختلف پس منظر بیان کیے جا رہے ہیں جو صرف رائے عامہ کو گمراہ کر رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ علاقای جنگ ہے لہذا یہ دونوں آپس میں نمٹ لیں گے ایسا ہر گز نہیں ہے یہ یمن اور سعودی عرب کے مابین جنگ نہیں بلکہ یہ یمن کی جائز اور قانونی حکومت کی درخواست پر شروع کیا گیا باغیوں کے خلاف ایک آپریشن ہے جیسا پاکستان میں آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔ اور اگر واقعی یہ علاقائی ہے تو پھر ایرانی مداخلت کیوں اور کیسے ہو رہی ہے ۔

یہ محض شیعہ سنی جنگ بھی نہیں جیسا کہ ہمارا میڈیا ہمیں باور کروا رہا ہے کہ اگر پاکستان سعودی عرب کی مدد کرے گا تو پاکستان میں شیعہ سنی فساد شروع ہو جائے گا ۔ لیکن یہ شیعہ سنی جنگ نہیں اور باغیوں اور دہشت گردوں کا حکومت کے خلاف بغاوت کا معاملہ ہے یہ محض حسن اتفاق ہے کہ ایک طرف شیعہ لابی اور دوسری طرف اہل سنت وجماعت ہیں بعض عناصر اسے اخوان المسلمین کے خلاف آپریشن قرار دے رہے ہیں ایسا بھی نہیں ہے کہ اخوانی وزیر اعظم کو معزول کیا گیا تو انہوں نے باقاعدہ ابھی تک اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا الٹا سعودی حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا جو ان کی جائز حکومت کی بحالی کے لیے یہ سب کچھ کر رہی ہے اور یہ باغی یمن کی مکمل آبادی تو بہت دور کی بات ہے صرف چند فی صد دہشت گرد ہیں جو اسلحے کے زور پر یمن کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں اور اس کا اندازہ اس خبر سے بھی ہو سکتا ہے اور جرائم حوثیوں کے نام سے چند لنک بھی دیے گئے ہیں ان سے بھی بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔

دبئی ۔60اپریل (فکروخبر/ذرائع) یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں جاری فیصلہ کن طوفان آپریشن کے ساتھ ساتھ مقامی قبائل نے بھی حوثیوں اور سابق صدر علی صالح کے وفاداروں کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یمن کی مآرب گورنری کے قبائل نے 35 ہزار جنگجوئوں کا ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے جو حوثیوں کے خلاف برسر پیکار ہے۔

اصل حقیقت

ایک طرف تو عظیم تر اسرائیل کی تکمیل میں آسانی دوسری جانب ایرانی حکومت کے توسیع آمیز عزائم سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد امت اسلامیہ کے واحد محور اور مرکز حرمین شریفین کے خلاف مذموم مقاصد عرب ملکوں کے معدنی وسائل پر مکمل تسلط دنیا کے اہم ترین دو اقتصادی راستے (باب المندب، نہر سوئز) پر تسلط دنیا میں سعودی حکمرانوں کی دین اسلام کی نشر و اشاعت کی روک تھام سب سے اہم حرمین شریفین پر قبضہ کے مذموم عزائم حوثی اور ایران موجودہ قبضے کے ذریعے یمن میں ایک خود مختار علاقے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کے برقرار رہنے کی یقین دھانی کے علاوہ بحرین میں شیعہ حکومت کے قیام کے لئے سودےبازی کرنا چاہتے ہیں۔

عظیم ترین اسرائیل اور قدیم ایرانی حکومت کی بحالی اور یہ اتفاق ہی ہے یا منصوبہ بندی کے دونوں کی مطلوبہ حدود میں کہیں بھی کوئی ٹکراو نہیں ہے اور دونوں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اس میں ایک اہم معاملہ اقتصادی راستے پر تسلط بھی حاصل کرنا ہے جس کی وضاحت اس تفصیل سے ہو سکتی ہے یمن کے مغربی کنارے پر بحراحمر اور جنوبی کنارے پر بحرعرب واقع ہے۔ یمن کے مغربی کنارے پرواقع تنگ بحری راستہ باب المندب جیو اسٹراٹیجی کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے، اورمشرق وسطٰی سے نکلنے والا تیل اپنی منزل یورپ کے لئے پہلے آبنائے ہرمز (جو ایران اورعمان کے درمیان واقع ہے) سے ہوتا ہوا، اسی تنگ بحری راستے پر پہنچتا ہے اور پھر اگلے مرحلے پر نہر سویز سے نکل کر یورپ کی طرف جاتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس تنگ بحری راستے سے سالانہ20000بحری جہاز گزرتے ہیں اور اس کے علاوہ یہ امر بھی بہت اہم ہے کہ سعودی عرب پوری دنیا میں دین اسلام کی نشر واشاعت کے لیے اربوں بلکہ کھربوں خرچ کر رہا ہے جس کی چند مثالیں جیسا کہ کنگ فہد کملیپکس، سعودی جامعات میں پوری دنیا سے طالبعلموں کے لیے سکالرشپس، دنیا کے مختلف خطوں میں مساجد، مدارس اور یونی ورسٹیز میں عربی اور اسلامی سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی تعمیر اور مستقل اخراجات کی ذمہ داریاں وغیرہ کیا یہ صرف سعودی عرب اور یمن جنگ ہے؟

ایک مرتبہ پھر امت اسلامیہ کی مزید تقسیم در تقسیم کے اس مذموم ھدف کی تکمیل کی راہ میں آخری رکاوٹ خطہ حجازمیں آل سعود کی موحد حکومتخدانخواستہ بات صرف یہی تک نہیں رکے گی بلکہ پاکستان اپنی حقیقی بے لوث مخلص حمایت سے محروم ہو جائے گا یہ پورے عالم اسلام کی بقا کی جنگ ہے جو سعودی عرب فرنٹ پر رہ کر لڑ رہا ہے سابقہ گفتگو سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان باغیوں کا اصل ھدف امت اسلامیہ کے روحانی مقدس مرکز یعنی حرمین شریفین پر قبضہ کرنا ہےاور یہ محض سعودی عرب اور یمن کی جنگ نہیں اگر ایسا ہوتا تو اس وقت اتحادی افواج میں عرب ملکوں کے علاوہ ترکی، ملایشیا اور مصر شامل نہ ہوتے اور سابقہ 30 سالوں کی دشمن اسلام حرکات کا سب سے اہم ترین مرحلہ ہے جس میں انہوں نے براہ راست حرمین شریفین کو ھدف بنایا ہے اور یہاں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کر دیا جائے کہ کچھ عناصر حرمین شریفین کو سعوی حکومت سے الگ کر کے دیکھ رہی ہے جو کہ درحقیقت دشمنان اسلام کے مذموم ھدف کی ایک لاشعوری تکمیل ہی ہے کہ یہ دونوں لازم ملزوم ہیں ایک کا دفاع دوسرے کا دفاع ہے ورنہ سعودی حکومت کو ایک طرف کر کے عملا حرمین شریفین کا دفاع کس طرح ممکن ہے یہ عالم تخیلات میں تو ہو سکتا ہے لیکن زمینی حقائق کے یکسر خلاف ہے

پاکستان کا کردار؟

25 لاکھ پاکستانی خطیر زرمبادلہ سعودی عرب سے بھیجتے ہیں قیام پاکستان سے آج تک سعودی عرب کی پاکستان کے ساتھ معنوی ، مالی ، مادی امداد(زلزلہ کوئٹہ 1974، ایٹم بم، ایٹمی دھماکہ 1998، زلزلہ کشمیر2005، سیلاب 2009، موجودہ حکومت کے آتے ہی معاشی امداد) قیام پاکستان سے آج تک مختلف مقامات تقریبا 14 مرتبہ پاکستانی فوج نے اپنی خدمات انجام دیں تو صرف ابھی یہ واویلہ اور شوو وغل کیوں؟

ان سب باتوں سے قطع نظر ایمان کا لازوال رشتہ اور حرمین شریفین کا تحفظ پاکستان کے طول و عرض میں سوائے چند جماعتیں جو ایران اور ان کے ہمنوا کے زیر اثر ہیں ان کے علاوہ مکمل پاکستان اس مرحلے پر سعودی عرب کے ساتھ ہے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے