؎ ملتا ہے کیا نماز میں سر کوجھکا کے دیکھ لے!

نماز کی بروقت ادائیگی ہر مسلمان کے لیے فرضِ لازم ہے۔ یہ تمام نیک اعمال میں سب سے زیادہ مستحسن اور بابرکت عمل ہے۔ جیسا کہ صادق و مصدوق پیغمبرe نے فرمایا: نماز وہ بنیاد ہے کہ جب یہ صحیح ہو گی تو بندے کے تمام اعمال ٹھیک ہو جائیں گے، بصورت دیگر تمام اعمال میں خرابی آئے گی۔ ‘‘ (جامع الترمذی، رقم: 413)

اس حدیث مبارک کے مطالعے سے یہ آگہی نصیب ہوتی ہے کہ نماز نہ صرف خود ایک عظیم الشان عبادت ہے بلکہ یہ تمام اعمال کی درستگی کا مؤثر ترین ذریعہ بھی ہے۔ یہ تجربہ ہر شخص کر کے دیکھ لے کہ اگر وہ باقاعدگی سے نماز باجماعت ادا کرے گا تو اس کے تمام اعمال ٹھیک ہوتے چلے جائیں گے۔ اُس کی عقل اُسے صراط مستقیم پر لے جائے گی اور وہ برائیوں سے بچ جائے گا۔ سبحان اللہ! نماز واقعی اتنی مبارک چیز ہے جو انسان کی سیرت سازی میں بہترین کردار ادا کرتی ہے۔ جو لوگ اپنے بچوں کو اعلیٰ کریکٹر کا حامل دیکھنا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو نماز باجماعت کا عادی بنائیں۔ اس طرح ان کے بچوں کی تقدیر کے کواڑ کھل جائیں گے اور وہ ہر لحاظ سے مایۂ ناز مسلمان بنیں گے۔

پانچ نمازوں میں سے سب سے اہم نماز فجر کی ہے جسے ادا کرتے ہی ایک مسلمان اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔ اس لیے اس کا اہتمام نہایت  ضروری ہے۔

اس کی فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ضعیف الایمان شخص اس کی طاقت نہیں رکھتا بلکہ منافقین پر تو اس کی ادائیگی بے حد مشکل ہے۔ جیسا کہ ہمارے رہبراعظم محمدe کا فرمان ہے:

أثقل الصلاۃ علی المنافقین صلاۃ العشاء و صلاۃ الفجر

’’عشاء اور فجر کی نماز منافقین پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے۔‘‘ اور فجر کی با جماعت نماز ایک مسلمان کی صداقت اور اس کا ایمان پرکھنے کی کسوٹی ہے۔

سیدناعبداللہ بن عمرw فرماتے ہیں : ’’ہم اگر فجر اور عشاء کی نماز میں کسی آدمی کو نہ پاتے تو اس کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسری نمازوں کے اوقات میں آدمی بیدار ہوتا ہے اس لیے دیگر نمازوں کا پڑھنا چنداں دشوار نہیں ہوتا، لیکن فجر اور عشاء کی با جماعت نماز کا اہتمام صرف مؤمن ہی کرتا ہے جس کی بابت خیر و بھلائی کی اُمید کی جاتی ہے۔

یہ بہت تعجب خیز اور ملال انگیز صورت حال ہے کہ مساجد میں فجر کے وقت بہت کم لوگ آتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ تر جھکی ہوئی کمر والے، بوڑھے لوگ ہوتے ہیں، نوجوان خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔!

افسوس! اکثر لوگ رات بھر فضول باتیں کرتےرہتے  ہیں۔ فلمیں، ڈرامے دیکھتے ہیںاور طرح طرح کے گناہ کرتے ہیں۔ اور اللہ رب العزت کی نافرمانی میں مشغول رہتے ہیں۔ان وجوہ سے وہ فجر کے وقت بڑی غفلت اور غلبے کی نیند سوتے ہیں یوں وہ نماز فجر جیسی عظیم الشان دولت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

مساجد نمازیوں کی قلت کی وجہ سے نوحہ خواں ہیں۔ اگر مساجد بول سکتیں تو لوگ ان کی اپنے رب کے حضور شکایت اور آہ و زاری ضرور سنتے۔ علامہ اقبال نے اسی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے:

  مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نماز ی نہ رہے

فرائض میں تفریق کرنا بہت بڑی غلطی ہے یعنی بعض من پسند احکام اختیار کرنا اور بعض احکام کو مشکل سمجھ کر چھوڑ دینا اسلام تو ایک مسلم سے سب سے پہلا مطالبہ ہی یہ کرتا ہے کہ

اُدخُلُوا فِی السِّلمِ کافَّۃ

 یعنی ہمارا دین ہم سے تمام فرائض کی ادائیگی کا متقاضی ہے، اس لیے لازم ہے کہ تمام لوگ فجر میں بھی اسی طرح حاضر ہوں جس طرح جمعۃ کی نماز میں ہجوم در ہجوم شریک ہوتے ہیں۔

کاش! ہر کلمہ گو یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لے کہ نماز نہ پڑھنا دنیا و آخرت میں کتنے بڑے نقصان و خسران کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے برحق فرمایا ہے:

وَ اللّٰہُ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ

’’اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرما دیتا ہے۔‘‘  (البقر2: 213)

دوسرے مقام پر یہ ارشاد فرمایا ہے:

لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰىھُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ 

 ’’آپ کسی کو راہ راست پر نہیں لا سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔‘‘  (البقرۃ 2: 272)

مزید فرمایا:

فَذَكِّر اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ   لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ

’’پس آپ نصیحت کریں آپ تو بس نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ آپ ان پر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوئے۔‘‘ (الغاشیۃ 88:22,21)

اب اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہاں فجر کے معنی، فجر کی نماز کی فضیلت اور ایسے خطوط اور طریقہ کار جو نمازِ فجر کے اہتمام میں معین و مدد گار ثابت ہوں، بیان کیے جاتے ہیں۔

فجر کی لغوی تعریف:

فجر سے مراد صبح کی روشنی اور اندھیری رات میں سورج کی سرخی ظاہر ہونا ہے۔ فجر دو قسم کی ہے: 1 المستطیل وہ صبح کاذب جسے ذَنَبِ سرحَان کہا جاتا ہے 2 المستطیر (لائن دار) وہ صبح صادق جس کی سرخی افق میں پھیل جاتی ہے۔ اس وقت روزے دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے۔ 

شرعی معنی:

شریعت اسلامیہ میں فجر سے مراد وہ نماز ہے جس سے مسلمان اپنے دن کی ابتدا کرتا ہے، اور اس کا وقت دوسری فجر (صبح صادق) کے طلوع ہونے سے شروع ہوتاہے۔

فجر کی نماز کی فضیلت:

فجر کی نماز کی فضیلت اتنی گراں مایہ ہے کہ اسے کما حقۂ قلمبند نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ اللہ! ذرا اندازہ تو کیجیے کہ فجر کا وقت کتنا رفیع المنزلت اور کس قدر بابرکت ہے کہ خو د اللہ تعالیٰ اہلِ دانش کو خطاب کرتے ہوئے فجر کی قسم اٹھاتا ہے۔ اور فرماتا ہے:

وَالْفَجْرِ  وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَّالشَّفْعِ وَالْوَتْرِوَالَّيْلِ اِذَا يَسْرِهَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍ

’’قسم ہے فجر کی، اور دس راتوں کی، اور جفت اور طاق کی، اور رات کی جب وہ چلنے لگے، یقینا ان میں عقلمند کے لیے بڑی قسم ہے۔‘‘  (الفجر 89:51)

یقینا تمام لوگ فہم و فراست کے اعتبار سے ایک جیسے نہیں ہوتے، اور جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے قسم کھائی ہے بھلا وہ  اس کی عظمت و مرتبت کا اندازہ کس طرح کر سکتے ہیں جس میں أصحاب العقول یعنی دانشوروں کو خاص کیا گیا ہے۔

ابن کثیرa فرماتے ہیں کہ’’ لذی حجر‘‘ سے عقل والے دانشور اور دین دار لوگ مراد ہیں۔ اسی وجہ سے عقل کانام حجر رکھا گیا ہے کیونکہ وہ انسان کو ہر اس فعل اور قول سے روکتی ہے جو اس کے لائق اور شایان نہ ہو۔

 پس جس کی عقل اُسے نماز فجر کے ضائع ہونے سے نہیں روکتی، اللہ رب العزت کے فرمان کی رو سے وہ عقل والوں میں شمار نہیں ہو گا۔

اللہ کی قسم! ان آیات کا سیاق ان کے لیے، جو غور و فکر کرتے ہیں، صلاۃ فجر کا شوق، اس کا اہتمام اور اس میں رغبت پیدا کرنے کے لیے بے حد اہم ہے۔ تم یقینا اس میں ایسی روحانی غذا پاؤ گے جو تمھارے دل کو اطمینان بخشے گی اور دل کی سختیوں کو نابود کر دے گی۔

فجر اور مغرب کا وقت ایسا ہوتا ہے جس سے دل میں اطمینان اور خشوع پیدا ہوتا ہے۔ یہ اوقات کائنات کے راز، اس کے قانون فطرت میں غور و فکر کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں جس سے انسان میں فہم و فراست کا نُور پیدا ہوتا ہے۔

 جب زندگی کی راہ کٹھن ہو، خطرات اور آزمائشیں منڈ لا رہی ہوں، تو اللہ رب العزت بندۂ مومن کے لیے فجر کی نماز میں سکون و اطمینان کا سامان عطا فرماتا ہے۔ اس نے اپنے پیارے حبیب جناب محمدe سے فرمایا:

فَاصبِر عَلٰی مَایَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِھَا(طٰہ 130)

 ’’پس ان کی باتوں پر صبر کریں اور اپنے پروردگار کی تسبیح اور تعریف بیان کرتے رہیں سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔‘‘ یعنی فجر کی نماز میں اور عصر کی نماز میں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو تلقین فرمائی کہ فَاصبِر عَلٰی مَایَقُولُونَ صبر کریں اس بات پر جو وہ کہتے ہیں، یعنی جو کفر کرتے، انکار کرتے، مذاق اُڑاتے ہیں اور اعراض کرتے ہیں۔ ان کی ان بے ہودہ باتوں کی وجہ سے آپ کے سینے میں تنگی پیدا نہ ہو، نہ آپ کا دل کسی حسرت و درماندگی کا شکار ہو۔ پس آپ اپنے رب کی طرف متوجہ رہیں۔

وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّک َصبح کی فضا میں دل پر سکون ہوتا ہے اور زندگی کی راہیں آسان اور کشادہ ہوتی ہیں یہی حالت عصر کے وقت بھی طاری ہوتی ہے۔

 ہمیں چاہیے کہ ہم نہایت التزام و اہتمام سے نماز پنجگانہ ادا کرتے رہیں۔ اس کے لیے ہمیں اوقاتِ صلاۃ کی دم بدم فکر کرنی چاہیے۔

صبح کے وقت برکت کے لیے دعائے نبوی

نماز فجر کی اس لحاظ سے بڑی اہمیت ہے کہ نبیe نے اللہ رب العزت سے اپنی امت کے لیے صبح کے وقت میں برکت عطا کرنے کی دعا فرمائی ہے۔ ’اللھم بارک لامتی فی بکورھا‘ ’’اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت ڈال دے۔‘‘ (صحیح الترغیب: 307/2)

اس دعا کے نتیجے میں جو شخص اپنے دن کا آغاز نماز فجر سے کرے گا، یقینا اس کے ہر کام میں اللہ کی طرف سے برکت کی قوی امید ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہe کہیں کوئی لشکر روانہ فرماتے تو فجر کے وقت منہ اندھیرے ہی روانہ فرماتے تھے۔ اس حدیث کے راوی سیدنا صخرt تاجر تھے، یہ اپنا تجارتی مال دوسرے علاقوں میں بھیجتے تو صبح صبح ہی بھیجتے، ان کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی تجارت میں بڑی برکت ڈال دی اور وہ بڑے خوشحال اور مال دار ہو گئے۔

(صحیح الترغیب: 307/2)

فجر کی نماز مسلمان کو تحفظ فراہم کرتی ہے

صحیح مسلم میں رسول اللہe کا فرمان ہے: ’’جس نے صبح کی نماز (با جماعت) ادا کی، وہ شخص اللہ کے ذمہ (حفاظت) میں آ گیا پس تم میں سے کسی سے اللہ تعالیٰ اپنے ذمے کے بارے میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے، پس جس شخص سے اس نے اپنے ذمے کے بارے میں کوئی مطالبہ کر دیا تو وہ اس کو پکڑلے گا، اور اوندھے منہ جہنم میں پھینک دے گا۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری میں آ جانے سے مراد اس کی حفاظت و نگرانی اور اس کی رعایت میں آ جانا ہے۔ اور تم جانتے ہو کہ اس کی حفاظت و نگرانی کیا ہے؟ یہ تمام تر اللہ کی رحمت ہے، جب وہ انسان کو اپنے دامن میں ڈھانپ لیتی ہے تو اس کے آلام راحت میں بدل جاتے ہیں، یہ تمام تر اس کا لطف و کرم ہے، جب اللہ رب العزت کا لطف و کرم ہوتا ہے تو وہ آگ کو بھی ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیتا ہے، وہ اس کی حکمت، غلبہ اور ارادہ ہے جو سب پر غالب ہے اور جب وہ فیصلہ کرتا ہے تو دشمن کو بھی دوست بنا دیتا ہے اور خون خوار شیر کو بھی مہربان کر دیتا ہے۔

ایک عربی شاعر نے اس سلسلے میں چند بہترین اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ درج ذیل ہے:

n پس اے نوجوان! اگر تجھ کو عورتوں کے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے تو تو اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر۔ اللہ تیرا نگہبان و محافظ بن جائے گا۔

n گھر سے نکلتے ہوئے، اگر تیرا دل ظالم کی ملاقات سے لرزاں ہے تو اپنے دن کا آغاز فجر کی با جماعت نماز کی ادائیگی سے کر۔ اللہ تعالیٰ تیرا محافظ اور ساتھی بن جائے گا۔

n اگر تیرا دل سفر کے خطرات اور اس کی وحشتوں سے گھبراتا اور لرزتا ہے تو تجھ کو چاہیے کہ اپنے دن کا آغاز فجر کی نماز سے کر تو اللہ کی حفاظت اور اس کی پناہ میں آجائے گا۔

n تو اپنی اولاد کے آگ (جہنم) میں جھونکے جانے کے خوف میں مبتلا ہے تو تجھے چاہیے کہ فجر کی نماز وقت پر ادا کر اور اپنے اہل خانہ کو بھی اس کا حکم دے، اور اس بات پر استقامت اختیار کر۔ تو اور تیرے اہل خانہ اللہ کی حفاظت و نگہبانی میں آ جائیں گے۔

با جماعت نمازِ فجر آدھی رات کی عبادت کے برابر ہے

اس امت پر اللہ تعالیٰ کا کتنا عظیم فضل ہے کہ اس نے پہلے پہل امت پر رات کے قیام (نماز تہجد) کو فرض قرار دیا۔

یاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا (المزمل73:2,1)

’’اے کپڑے میں لپٹنے والے،رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم‘‘

پھر اللہ تعالیٰ نے آسانی فرماتے ہوئے اس حکم کو منسوخ فرما دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے کیا کہنے کہ قیام اللیل کے نسخ کے باوجود اس نے اس کی فضیلت کو اس طرح باقی رکھا کہ جو شخص آدھی رات کے قیام کا اجر حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے یہ فرما دیا کہ وہ عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے اور جو بقیہ آدھی رات کی بھی عبادت کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ فجر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لے۔

 صادق و مصدوق  نے فرمایا: ’’جو عشاء میں حاضر ہوا گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو صبح کی نماز میں حاضر ہوا گویا  اس نے تمام رات قیام کیا۔‘‘ (مسلم: 1491)

پس ہم کو یہ سنہرا موقعہ ہرگز نہیں گنوانا چاہیے۔ اسی لیے اہل علم نے رات کی بیداری کو ناپسند کیا ہے، چاہے اس کی یہ شب بیداری قراء تِ قرآن اور قیام لیل ہی کی خاطر ہو، کیونکہ اِس وجہ سے اس کی باجماعت نماز فجر ہی رہ جانے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔

سیدناعمر فاروق  پر اللہ رحم فرمائے۔ وہ فرمایا کرتے تھے: ’’صبح کی با جماعت نماز ادا کرنا میرے نزدیک تمام رات قیام کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ (مؤطا امام مالک: 126/1)

ہمارے اسلاف عشاء اور فجر کی نمازیں باجماعت پڑھتے تھے، حالانکہ رات کا قیام بھی ان کا معمول تھا، لیکن یہ قیام لیل ان کی ہمتوں کو کبھی پست نہیں کرتا تھا۔

امام عبدالعزیز بن وراد رات کے وقت جب اپنے بستر پر آتے تھے تو اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرماتے کہ بیشک تو بہت نرم اور آرام دہ ہے۔ لیکن اللہ کی قسم! جنت کا بستر تجھ سے بھی زیادہ نرم اور آرام دہ ہے۔ یوں وہ ہمیشہ اسی طرح بغیر آرام کیے ساری رات قیام میں گزار دیتے تھے۔

فجر کی نماز جہنم سے نجات دلاتی ہے:

سولِ کریمe نے فرمایا:

 ’لن یلج النار أحد صلی قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا

’طلوع شمس سے پہلے اور غروب شمس سے پہلے نماز ادا کرنے والا جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہو گا۔‘‘ (مسلم بشرح النووي، کتاب المساجد، مسند أحمد: 136/4)

گویا فجر اور عصر کی با جماعت نماز کی ادائیگی جہنم کی آگ سے بچاتی ہے۔ یہ ہمارے نبیe کا فرمان ہے۔ اور اُن کے فرمان سے بڑھ کر سچا اور راحت بخش فرمان اور کس شخص کا ہو سکتا ہے۔

فجر کی نماز جنت میں لے جاتی ہے:

صحیح بخاری میں روایت ہے۔ نبی کریمe نے فرمایا:

’من صلی البردین دخل الجنۃ‘

’’جس نے بردین (دو ٹھنڈک والی) نمازیں ادا کیں وہ جنت میں جائے گا۔‘‘ (صحیح البخاری: 574)

بردین سے مراد فجر کی نماز اور عصر کی نماز ہے۔ برد سے مراد ٹھنڈک ہے۔ ان دو نمازوں کو بردین اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ جس وقت ان کی ادائیگی ہوتی ہے اس وقت دن ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور سورج کی حرارت کم ہو جاتی ہے۔

اللہ رب العزت کے اتنی بڑی بشارت والے اٹل وعدے کے بعد بھی کیا ہم صلوۃ الفجر ادا کر کے جنت میں جانے والے نہیں بنیں گے؟ یقینا اللہ کی ذاتِ بابرکات بہت بلند و بالا ہے، رب ذوالجلال اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔

فجر کی نماز دنیا و مافیھا سے بہتر ہے

رسول کریم  نے فرمایا: ’رکعتا الفجر خیر من الدنیا وما فیھا‘ ’’فجر کی دو رکعتیں تمام دنیا سے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘

ام المؤمنینا عائشہ صدیقہr فرماتی ہیں کہ نبی کریمe نے فجر کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں فرمایا: ’ھما أحب إلی من الدنیا جمیعاً‘ ’’یعنی یہ رکعتیں مجھے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘

نماز فجر کے بارے میں ایسے بے شمار فضائل اور بھی ہیں جن کو ہم نہیں جان سکتے۔ اگر انسان ان کو جان لے تو کبھی کوتاہی نہ کرے بلکہ اس کی طرف سبقت کرے چاہے اس کو مسجد کی طرف گھسٹتے ہوئے ہی جانا پڑے۔

 اس کے بارے میں نبی کریمe کا فرمان ہے: ’’اگروہ (لوگ) عشاء اور فجر کی فضیلت کے بارے میں جان لیں تو وہ ضرور بالضرور ان نمازوں میں حاضر ہوں چاہے ان کو گھسٹتے ہوئے ہی آنا پڑے۔‘‘

اب آپ خود اندازہ کیجیے کہ ایک طرف ان دو نمازوں کی اتنی رفیع الشان فضیلت و اہمیت ہے۔ اور دوسری طرف ان کی ادائیگی میں کتنی ملال انگیز سُستی اور لاپروائی برتی جاتی ہے۔ جبکہ رمضان المبارک میں نماز فجر کی عادت کو پختہ کرنا آسان ہوجاتاہے اس پر خاص توجہ دینی چاہیئے اللہ تعالیٰ ہم سب کو پنجگانہ نماز بروقت التزام کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

آخر میں علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھیے اور اس کی معنویت پر غور فرمائیے۔

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے