Scene 1

میمونہ بیگم کی آنکھ الارم کی بپ پر کھلی۔ ارے 3 بج گئے سحری بنانی ہے سب کو اٹھانا ہے ۔ آج چوتھا روزہ تھا۔ اتنی جلدی اٹھنے کی عادت جو نہیں ہے۔ رات کو بھی سوتے سوتے 1بج گیا تھا۔ چلو طاہرہ، مرزا سب اٹھو ابو کو بھی اٹھاؤ پھر سحری کر کے سوجانا۔ یہ کہہ کر میمونہ بیگم کچن ک طرف چلی گئیں۔ امی میں پھینی کھاؤں گا۔ امی مجھے پراٹھا کھانا ہے۔ بیگم میں لسی پیونگا۔ سحری کھاتے ہی سب لوگ بستر پر چلے گئے۔ طاہرہ ہاتھ میں بوتل کیوں پکڑی ہے بیٹا۔ اذان ہوتے ہی پانی پیونگی گرمی میں پیاس اتنی لگتی ہے اچھا بیٹا نماز پڑھ کر سونا۔ امی بہت نیند آرہی ہے کل سے جلدی سونگی پھر پڑھونگی۔ فجر کی اذان کے بعد میمونہ بیگم نے نماز بیٹھ کے پڑی۔ ان کے دل میں بیٹھ کر پڑھتے ہوئے خیال آیا۔ (یا اللہ بہت تھک گئی ہوں آپ جانتے ہیں کھڑے ہو کے پڑھنے کی ہمت نہیں) نماز کے بعد وہ سو گئیں۔ چھٹیوں کی وجہ سے بچوں کو اسکول نہیں بھیجنا تھا۔ دوپہر میں آرام سے اٹھیں۔ بھوک و پیاس سے سر میں درد ملازمہ سے ڈانٹ ڈانٹ کے عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ کام کرایا۔ (کام کراتے ہوئے دل میں خیال آیا( زکوٰۃ کے پیسے اسے ہی دے دونگی اس بہانے زیادہ کام تو کر دے گی دب کے رہے گی) دوپہر 2بجے کچن میں داخل ہوئیں انہیں یاد آیا آج مرزا نے کہا تھا روزے میں اسے پکوڑے کے ساتھ دہی بڑے اور چاٹ بھی کھانی تھی طاہرہ کو آج افطار میں فرنچ فرائز اور برگر کھانا تھا۔ اور طاہرہ کے ابو اگر فروٹ چاٹ نہ ہو تو ان کو افطار کرنا اچھا ہی نہیں لگتا۔ سارے کام کاج کرتے ہوئے کب عصر کا وقت نکل گیا اور مغرب کا آن پہنچا انہیں معلوم ہی نہ ہوا۔ مغرب سے دو منٹ پہلے تک وہ پکوڑے ہی تل رہی تھیں جلدی جلدی ٹیبل پر آکر بیٹھیں۔ اذان ہوتے ہی روزہ کھولا۔ اف آج میں بہت تھک گئی ۔ اب میں سونگی تھوڑا طاہر ہ مجھے چائے بناکے دے دو۔ مغرب کی نماز کی ہمت نہیں۔ عشاء اٹھ کر پڑھونگی۔ عشا کے قریب آنکھ کھلی ارے 8 بج گئے وہ ڈرامہ نکل جائے گا ذرا T.V کھولو جلدی۔۔۔ اس سے فارغ ہو کے ذرا بازار بھی جانا ہے ۔

Scene 2

عثمان ، عفان سحری کا وقت ہے بیٹا اٹھ جاؤ اب رات میں سونا شاباش ۔

أَيَّامًا مَعْدُودَات (البقرة: 184)

 ’’یہ گنتی کے چند دن ہیں‘‘ اٹھ جائیں شاباش جب یہ گزر جائیں گے تو بہت یاد آئیں گے۔جی امی جان اٹھ گئے۔ رات کا سالن رکھاہوا ہےاور روٹی بھی ہیں دودھ گرم کر لیتی ہوں اس سے سحری الحمد للہ ہوجائے گی۔ سحری کھانا برکت ہے عثمان ٹھیک سے کھالو۔ بیٹا یہ کفار اور مسلمان کے روزے میں فرق کراتی ہے ۔ بشریٰ اب جلدی سے برتن سمیٹ دو ۔ سب کھجور لے لو شاباش اب فجر ہونے والی ہے ۔ فجر کی نماز پڑھ کر قرآن کی تلاوت کی سب نے پھر صبح کے اذکار پڑھے۔ عثمان ، عفان جلدی کرو ان کے ابو نے کہا آج سے ہمارا دورہ قرآن شروع ہوگا۔ بشریٰ چلو تیاری کرو خواتین آنا شروع ہوجائیں گی۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ہمارے گھر ہی الحمد للہ دورہ قرآن کا اہتمام ہوا ہے۔ دوپہر تک ان ہی مشاغل میں مصروف رہاگیا۔ ظہر کی نماز کے بعد تھوڑا بہت کچن میں افطار کا انتظام کیا گیا۔ عصر کے بعد اذکار قرآن دعائیں یہ سلسلہ جاری رہا۔ افطار سے کچھ دیر قبل دسترخوان لگایا گیا۔ جس میں چند ہی چیزیں رکھی گئیں اور سب نے شکر کر کے وہی کھایا پیا۔ مغرب کی نماز کے بعد سب تراویح کی تیاری کی طرف لگ گئے عشاء کی نماز تراویح کے ساتھ پوری فیملی نے مسجد کے احاطے میں الگ الگ جگہ ادا کی واپس آکر رات کو آرام کیا گیا۔

 اے مومن عورتوں! ہمارے گھر کا منظر ان ہی منظروں سے ملتا جلتا ہے جن میں سے اکثریت (Scene 1) کے منظر کی عکاسی کرتی ہے۔ گو کہ وقت ہر انسان کے لئے قیمتی متاع ہے جس نے اس کی حقیقت پہچان لی وہ کامیاب ہوگیا۔ رسول اللہ  کا فرمان ہے: صحت اور فراغت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں لوگوں کی اکثریت خسارے میں رہتی ہے۔ (بخاری)

پھر رمضان اس کی گھڑیاں ویسے ہی اس کے فضائل و برکات کے لحاظ سے بہت انمول ہوجاتی ہیں۔عام حالت میں وقت کا ضیاع گھاٹے کا سودا ہوتا ہے توکیارمضان المبارک صرف مردوں کے لیے ہی نیکیاں  جمع کرنے کا مہینہ ہے؟ کیا ہمیں اللہ کی رضا مطلوب نہیں ہے کیا ہم جنت الفردوس میں نہیں جگہ پانا چاہتے ، کیا ہم دوڑ نے والوں کی صف میں نہ ہوں؟ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہر گز مخصوص نہیں کیااور نہ ہی ایک عورت کو یہ تاثر دیا گیا کہ آپ بغیر عمل کے جنت کی مستحق بن سکتی ہیں۔ اللہ رب العالمین کا فرمان مبارک ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ [النحل: 97]

 ’’جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انھیں ضرور ضرور دیں گے‘‘ رمضان کی فضیلت قرآن سے ہے قرآن کا مخاطب انسان ہے جس میں مرد عورت کی کسی بھی تفریق کی گنجائش نہیں۔ دنیا کے دن بھی ایام معدودات ہیں گنتی کے چند دن ہیں۔ یہاں آزمائش ساتھ لگا کر بھیجے گئے ہیں۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرشتوں پر ہمارے اعمال کی زیادتی کے باعث فخر کرتے ہیں یہ ہم پر ہے کہ ہم کتنی بھلائی اللہ کو دکھائیں گے۔

رسول اللہ ان الفاظ سے خوشخبری دیا کرتے : (مجمع الزوائد) تمہارے پاس رمضان جیسا با برکت مہینہ آتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے تمہیں ڈھانپ لیتے ہیں گناہ معاف کر دیتے ہیں دعا قبول فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے ذوق و شوق کو دیکھتے ہیں۔تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتے ہیں پس تم بھی اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کوبھلائی دکھاؤ۔ بیشک وہ نہایت ہی بد بخت ہے جو اس مہینے میں اللہ کی رحمت سے محروم رہا۔ قرآن کریم میں اللہ رب العالمین نے اس مہینے کا تعارف اس طرح کرایا کہ:

 شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ  ( البقرہ185)

’’ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت کی حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اور روزہ رکھنا چاہے‘‘

قرآن کے نزول کے بعد روزوںکی فرضیت ،قرآن سے ہمارا رمضان کے مہینے میں تعلق کیا ہوتا ہے ہم اس قرآن کو رمضان میں ہی نہیں پورے سال دینے سے دینے سےقاصر  ہیں۔

 رمضان، شھر القرآن ہمارا کچن کی نذر ہوجاتا ہے۔ صبح و شام زندگی کچن میں ہی تمام ہوتی ہے۔ کھانا پکانا یہ ایک بیوی اور ماں کا فرض ضرور ہے کہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے اس حق کو ادا کرے لیکن وہ صرف فرض اداکرنےکے درجے تک ہی رکھا جائے۔اسے زبان کا چٹخارہ نہ بنالیا جائے۔ایک مومنہ عورت بھر پور صحت مندغذا اپنے اہل و عیال کے لئے تیار کرتی ہے۔ لیکن وہ اسے زبان کا Taste بنا کر زندگی کھانا پکانے کی نذر نہ کر دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجر میں ایسے لوگوں کے بارے میں رسول کو حکم دیا۔

ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ  (الحجر: 3)

 ’’آپ انھیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئیے یہ خود بھی جان لیں گے‘‘

 اہل ایمان کی زندگی کا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے۔ اگر ایک شوہر ہے تو اسے اپنی بیوی کا بھرپور خیال رکھنا پڑے گا کہ یہ رمضان شوہر کے ساتھ بیوی کے لئے بھی نیکی کمانے کا مہینہ ہے۔ میرے تمام بھائی خود دیکھیں وہ کس طرح چٹخارے دار کھانے پکانے کے لئے اپنی بیویوں کو تنگ کر کے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کام کاج میں ہاٹھ بٹاتے تھے کیوں؟ آپ جانتے تھے وہ بیوی انسان ہے غلام نہیں زندگی کا اس پر حق ہے جنت ان کا بھی گھر ہے۔ آج ہم اسے کرنا معیوب سمجھتے ہیں بچے اور بچیاں خود دیکھیں ہر وقت کھانا ہر روزے کے لئے ایک لمبی فہرست یہ رمضان کا مقصد نہیں ہے ۔ ایسے روزے کھولنے والوں کو کیا لوگوں کے پورے سال فَقَرو فاقوں کا احساس ہو سکتا ہے ۔ ایک عورت ہونے کے ناطے آپ کو چاہیے پہلے منصوبہ بندی کرلیں۔ اپنے روزوں کو کچن کی نظر نہ کریں اور یہ وقت ظہر کے بعد نکالیں۔ عصر کے بعد کا وقت میری پیاری بہنوں بہت قیمتی ہے عام دنوں میں اس وقت کا اتنا مقام ہے نبی اکرم نے فرمایا: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: آپ نے فرمایا: مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے چار غلاموں کو آذاد کرنے سے زیادہ پسند ہے جو نماز فجر سے طلوع آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کا ذکر کریں۔ (سنن ابی داؤد)

آپ کو ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا پسند تو یہ لمحات رمضان میں کتنی اہمیت رکھتے ہونگے۔ آپ رمضان میں کیا کیا کر سکتی ہیں۔ کچھ چیزیں ذیل میں دی جارہی ہیں ان پر غور و فکر کریں اور دوڑ لگا دیں۔

عبادات:

۱۔ طہارت:

٭ زیادہ سے زیادہ وقت با وضو رہنا خصوصاً تلاوت قرآن کے وقت

٭ کثرت سے مسواک کرنا۔

٭ ممکن ہو تو روزانہ غسل کرنا۔

٭ لباس اور ارد گرد کی صفائی کا خصوصی اہتمام کرنا۔

۲۔ روزہ:

 رمضان میں ان شاء اللہ پورے روزے رکھنا سوائے عذر شرعی کے۔

۳۔ نماز:

٭ فرائض:  رمضان مبارک میں فرض نمازو کو اول وقت میں ، تمام آداب و شرائط کی پابندی اور خشوع و خضوع سے ادا کرنا۔

٭ نوافل:  کثرت سے اور احسن طریقے پر نفل نمازیں پڑھنے کی کوشش کرنا۔ مثلاً تہجد/ تراویح، اشراق، چاشت وغیرہ۔

٭ تراویح:  رمضان میں تراویح کا باقاعدہ اہتمام کرنا تاکہ قیام کی حالت میں زیادہ سے زیادہ قرآن سننے کا اجر حاصل کرسکیں

۴۔ قرآن مجید:

٭ تلاوت قرآن: رمضان مبارک میں قرآن مجید کی تلاوت اس کے تمام آداب و شرائط کی پابندی کے ساتھ بکثرت کرنا۔

٭ کسی اچھے قاری کی تلاوت ( قاری حذیفی، قاری غامدی) کی کیسٹ لگا کر قرآن پاک دیکھتے ہوئے صرف تلاوت سننا یا ہر آیت پر رک کر اسکے پیچھے دہرانا۔

٭ ترجمہ قرآن : پورے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا۔

٭ ترجمہ اور منتخب آیات کی تفسیر پڑھنا۔

٭ ترجمہ اور مختصر تفسیر پڑھنا۔

٭ حفظ قرآن: قرآن پاک کی منتخب آیات اور سورتیں حفظ کرنا انہیں نوافل میں پڑھنا تاکہحفظ پکا ہو۔

۵۔ ذکر الٰہی:

٭ ذکر و تسبیحات: روزانہ یہ تسبیحات کر سکتے ہیں۔

٭ سُبْحَانَ اللهِ،،  الْحَمْدُ لِلهِ اللهُ أَكْبَرُ

٭ لا إِلَهَ إِلا اللهُ

٭سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ

٭لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ

٭ استغفار :  اپنے گناہوں پر بکثرت استغفار کرنا۔

 أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ

٭ درود شریف: پورے رمضان میں ہر روز بکثرت درود شریف پڑھنا۔

٭ دعا: رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ سے خیرو برکت ، تقویٰ کے حصول اور دین کے راستہ پر استقامت سے چلتے رہنے کی دعائیں مانگنا۔ اپنے لئے، اپنے رشتہ داروں، دوستوں، متعلقین، ملک و ملت اور تمام انسانیت کی بھلائی کے لئے دعائیں مانگنا۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل دعائیں باقاعدگی سے مانگنا اور ان دعاؤں میں سے کچھ دعائیں ( جو یاد نہیں) انہیں حفظ کرنا۔

قرآنی دعائیں  مسنون دعائیں  صبح و شام کی دعائیں   مختلف مواقع کی دعائیں

۶۔ اعتکاف:

اگر حالات و صحت اجازت دے تو آخری عشرے میں اعتکاف کرنا۔ پورے عشرے میں ممکن نہ ہو تو کچھ مدت یا لمحات کے لئے دنیا کے سب کام، مشاغل اور دلچسپیاں چھوڑ کر اپنے آپ کو صرف اللہ کے لئے وقف کرنا۔ اس کے لئے عصر کی نماز کے بعد یا افطاری سے کچھ دیر پہلے تھوڑی دیر کیلئے بھی مکمل یکسوئی کے ساتھ کسی کو نے میں بیٹھ کر تلاوت ، مسنون اذکار اور دعائیں کرنا۔

۷۔ شب قدر :

رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتیں نفل نمازوں، تلاوت، ذکر، تسبیح و تہلیل اور استغفار میں گزارنا۔ رات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزارنا یا نصف شب کے بعد سے سحری تک دو تین گھنٹہ تک عبادت کرنا۔

۸۔ عمرہ:

استطاعت ہو تو رمضان میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے عمرہ ادا کرنا۔ کیونکہ رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب ایک حج کے برابر ہے۔

۹۔ انفاق فی سبیل اللہ :

٭ زکوٰۃ: زکوٰۃ کے لئے واجب الذمہ رقم کا حساب لگا کر رمضان میں زکوٰۃ ادا کرنا۔ (اگر رمضان سے قبل زکوٰۃ واجب ہوچکی ہے تو اس کو اسی وقت ادا کرنا زیادہ بہتر ہے )

٭ صدقہ و خیرات: اپنا وقت، مال، صلاحیتیں، جسم و جان کی قوتیں اللہ کی خاطر خرچ کرنا۔ خاص طور میں اس ماہ میں دل کھول کر صدقہ و خیرات کرنا۔ دین کی تبلیغ اور اشاعت، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں وغیرہ پر روپیہ خرچ کرنا۔

۱۰۔ دیگر نیک اعمال:

٭ ہمدردی اور صلہ رحمی: رشتہ داروں، یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرنا۔

٭ مہمان نوازی:  رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ ساتھ غریبوں، بیواؤں ، یتیموں اور پڑوسیوں کے لئے بھی افطاری کا اہتمام کرنا۔

٭ حصول علم:طہارت، نماز میں خشوع، روزے ، زکوٰۃ، صدقہ و خیرات، صلہ رحمی، شکر و صبر، تزکہ نفس وغیرہ سے متعلق کتب کا مطالعہ کرنا۔

٭ درس و تدریس: گھر کے اور محلے کے بچوں، بچیوں اور خواتین کو تعلیم و تربیت اس مہینے کی فضیلت و اہمیت اور احکامات سے آگاہ کرنا۔

٭ تبلیغ دین: رمضان میں دین کی تبلیغ کا کام گھر، محلے، اسکول، کالج، کچی آبادی ، بازار ، ہسپتال اور جیل وغیرہ میں کرنا۔ افطار پر رشتہ داروں، پڑوسیوں، دوستوں، اور غریبوں و مسکینوں کو بلا کر قرآن مجید کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں ضرور گفتگو کرنا۔ کسی نہ کسی طرح کہیں نہ کہیں درس قرآن کا پروگرام کرنا۔ تراویح کے وقفہ میں کچھ دیر کے لئے عامۃ الناس اور اولاد تربیت پر بات کرنا۔

۱۱۔ تزکیہ نفس:

ناپسندیدہ کاموں سے بچنا:  خود سے عہد کرنا کہ میں ان تمام چیزوں سے روزے کو بچانے کی کوشش کروں گی جن سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے۔ مثلاً غیبت، چغلی، جھوٹ، غلط بیانی ، گالی گلوچ، لعن طعن، لڑائی جھگڑا، بیہودہ گوئی، فحاشی اور جہالت کے کام، فضول خرچی، خیانت ، دھوکہ دہی، بری بات و کلام کرنا، موسیقی سننا، ٹی وی پر غیر اسلامی پروگرام( حرام، بیہودہ، لغویات) دیکھا، حرام کھانا۔

۱۲۔ مباح کام کرنا:

٭ کھانا تیار کرنا: رمضان میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا کہ کھانے تیار کرنے میں کم سے کم وقت خرچ ہو، اس میں کسی طرح کا تکلف اور اسراف نہ ہو اور تلی ہوئی چیزیں زیادہ نہ بنائی جائیں البتہ کھانا گھر کے افراد کی جسمانی ضروریات کو پورا کرتا ہو اور غذائیت سے بھرپور ہو۔ افطاری کا سامان افطاری سے پہلے تیار کرلینا تاکہ دعاؤں کے لئے مناسب وقت مل جائے۔

٭ آرام اور نیند:  رمضان میں اپنے سونے کے اوقات عام دنوں کے مقابلے میں کم کرلینا تاکہ عبادات اور نیک اعمال کے لئے زیادہ وقت بچ سکے۔ مثلاً شب قدر کی تلاش میں طاق راتوں میں عبادت کرنے کے لئے دن میں کچھ دیر سولیا جائے۔

٭ عید کی تیاری: عید کے لئے کپڑوں اور ضروری سامان کی خریداری رمضان کی آمد سے قبل ہی کر لینا تاکہ رمضان میں نیکیاں کمانے کے لئے زیادہ وقت مل سکے۔

٭ باتیں کرنا:  رمضان میں عبادات کے لئے زیادہ وقت بچانے کے لئے دنیاوی معاملات سے متعلق صرف ضروری گفتگو ہی کرنا۔

حرف آخر:

اے اللہ ہمیں رمضان کو پانے کی توفیق عطاء فرماتاکہ ہم تجھ کو  منالیں تو ہم سے راضی ہوجائے، ہم صر ف تیرے بن جائیںتاکہ ایک دفعہ پھر خاص رحمت کے سائے میں اپنی بخشش کا سامان کرلیں،یا اللہ ہمیں، ہمارے اہل و عیال دوست و احباب کو ہر لمحہ بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ اور ایسا فائدہ جیسا توچاہتاہے کہ ہم اپنے لئے خیر جمع کریں۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے