محمد رسول اللہ ﷺ قدیم صحیفوں میں

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ اما بعد!

انبیاء و رسل کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آتے ہیں۔ قرآن مجید اور قدیم صحیفوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کو بشارت دی۔ نبی کو ماننے یا نا ماننے پر چونکہ آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نےا س معاملہ میں یہ اہتمام فرمایا ہے کہ عام اہل حق کی طرح نبی محض اپنی سیرت اور اپنی تعلیمات ہی کے بل پر دعوت کے لیے کھڑا نہیں ہو جاتا بلکہ کائنات کے بادشاہ کی طرف سے اپنا پروانہ تقر ر ساتھ لے کر آتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ مقدر کر دیا تھا کہ پیغمبرانہ دور کے آخری مرحلہ میں وہ اپنا خاص نمائندہ بھیجے گا تاکہ اللہ کا دین ہمیشہ کے لیے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور اللہ کی کتاب کی حفاظت کا مستقل انتظام ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منصوبہ کو ’’بائبل کی شہادت‘‘ کے مطابق ہزاروں برس پہلے مختلف انبیاء کے ذریعے ظاہر کرنا شروع کر دیا تھا نبیوں اور رسولوں علیہم السلام کے اس مقدس سلسلہ کے خاتم النبی رحمت دو عالم محمدﷺ ہیں اور آپ کی بعثت کی خبر سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک تمام انبیاء و رسل نے دی ہے۔

بائبل میں رحمت مجتبیٰﷺ کا تذکرہ:

موجودہ بائبل کے دو حصے ہیں: عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید۔ عہد نامہ جدید سیدنا عیسی علیہ السلام کی اناجیل پر مشتمل ہے جبکہ عہد نامہ قدیم دیگر انبیاء کی کتب پر مشتمل ہے اگرچہ ترجمہ اور الحاقات کے نتیجہ میں موجودہ بائبل اصل بائبل سے بہت مختلف ہو چکی ہے۔ تاہم آج بھی کثیر تعداد میں اس کے اندر ایسے بیانات موجود ہیں جو ایک غیر جانبدار آدمی کے لیے آنے والے آخری نبی کے سوا کسی اور ذات پر صادق نہیں آتے۔ خاص طور پر مسیح علیہ السلام کی تشریف آواری کا تو مشن ہی یہ تھا کہ وہ دنیا کو خصوصاً یہود کو آنے والے آخری نبی سے آخری طور پر آگاہ کریں آپ نے جس نئے ’’عہد نامہ‘‘ کی بشارت دی وہ حقیقتاً اسلام تھا جو یہود کی معزولی کے بعد بنی اسماعیل کے ذریعے باندھا گیا۔ انجیل نئے عہدنامہ کی بشارت ہے نہ کہ خود نیا عہد نامہ۔

1۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی شہادت:

اسرائیلی سلسلہ کے سب سے جلیل القدر رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل پر واضح کر دیا تھا کہ آنے والا بنی اسماعیل میں سے ہوگا انہوں نے اپنی قوم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:

خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی سننا۔۔۔۔۔ میں ان کے لیے انہی کےبھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گااور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہ وہی ان سے کہے گا اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔ (استثناء 18: 15-19)

عیسائی کہتے ہیں کہ یہ پیشن گوئی حضرت عیسی علیہ السلام پر صادق آتی ہے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام یہودی النسل تھے اور آپ علیہ السلام پیغمبر بھی تھے اگر یہی دلیل ہے تو پھر بنی اسرائیل کے ان تمام انبیاء پر بھی تو یہ صادق آ سکتی ہے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے۔ ہماری رائے میں تورات کی یہ پیشن گوئی صاف طور پر محمد عربیﷺ کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ:

1۔ اس میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ ’’میں تیرے لیے تیرے بھائیوں سے ایک نبی برپاکروں گا ظاہر ہے کہ ایک قوم کے ’’بھائیوں‘‘ سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی دوسری ہی ایسی قوم ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ ہو اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی نبی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوئے کہ ’’میں تمہارے لیے خود تم ہی سے ایک نبی برپاکروں گا‘‘ لہذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لازما بنی اسماعیل ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے سیدنا اسماعیل علیہ السلام اور سیدنا اسحاق علیہ السلام جن کے بیٹے یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کی نسل کا نام بنی اسرائیل پڑا اور اسماعیل کی نسل کا بنی اسماعیل۔ بنی اسماعیل اس پیشن گوئی کا مصداق بنی۔

2۔ دوسری بات بشارت میں ہے کہ یہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند ہوں گے اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کی بھی ایک مستقل شریعت ہوگی۔ یہ خصوصیت حضرت محمدﷺ کے سوا کسی میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد نہیں پائی جاتی کیونکہ آپﷺ سے پہلے بنی اسرائیل کے تمام انبیاء شریعت موسوی کے پیرو تھے ان میں سے کوئی بھی نئی مستقل شریعت لے کر نہیں آیا تھا۔ عیسیٰ علیہ السلام اس کا مصداق نہیں ہو سکتے کیونکہ:

1۔ موسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہﷺ دونوں کے والدین تھے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام معجزانہ طریقے سے بن باپ کے پیدا ہوئے۔

2۔ موسیٰ علیہ السلام اور محمد عربیﷺ دونوں نے شادیاں کیں اور ان کے ہاں اولاد ہوئی جبکہ عیسی علیہ السلام تمام عمر کنوارے رہے۔

3۔ موسیٰ علیہ السلام اور محمدﷺ دونوں کو ان کی اپنی قوموں نے پیغمبر تسلیم کیا جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بائبل میں ہے:

’’وہ اپنے گھر آیا اور اس کے اپنوں نے اسے قبول نہ کیا‘‘(یوحنا 1:11)

آج دو ہزار سال بعد بھی عیسیٰ علیہ السلام کی قوم یہود نے انہیں تسلیم نہیں کیا۔

4۔ موسیٰ علیہ السلام اور محمدﷺ دونوں نےہجرت کی اور انہیں اقتدار حاصل ہوا۔

5۔ موسیٰ علیہ السلام اور محمدﷺ دونوں قدرتی طور پر فوت ہوئے زمین میں دفن ہوئے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھا لیے گئے۔

2۔ صحابہ کرام کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شہادت:

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کی آخری وصیت میں فرمایا:

’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشیں شریعت ان کے لیے تھی۔ (استثناء 33:1۔3)

فتح مکہ کے دن سید الانبیاء محمد رسول اللہﷺ کے ساتھ دس ہزار صحابہ تھے نیز خدا کا مظہر تین پہاڑوں کو قرار دیا گیا کوہ سینا سے حضرت موسیٰ علیہ السلام، کوہ شعیر سے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور کوہ فاران سے نبی مکرمﷺ مراد ہیں۔ تورات باب پیدائش میں ابراہیم علیہ السلام کا سیدہ ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو جس جگہ چھوڑ آنے کا ذکر ہے: ’’اور وہ فاران کے بیاباں میں رہنےلگا‘‘(21:20)

مسلم علماء کے نزدیک کوہ فاران مکہ کی پہاڑی کا نام ہے جبکہ عیسائی علماء کے نزدیک فاران سیناء میں ہے مسلمان علماء کا سوال یہ ہے کہ پھر وہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کہاں آباد ہے؟ بائبل کی تحریف کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ انگریزی ترجمہ King James Version میں تحریر شدہ دس ہزار کےالفاظ کو اب اردو ترجمہ میں لاکھوں سے تبدیل کر دیا گیا ہے۔

3۔ حقوق نبی کا صحیفہ

’’اور وہ جو مقدس ہے کوہ فاران سے آیا اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور اس کی حمد سے زمین معمور ہو گئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی‘‘ (3:3۔4)

’’اس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا‘‘ یہ معراج آسمانی کی تشریح ہے اس کی حمد سے زمین معمور ہو گئی۔ زمین کا کون سا گوشہ ہے جو حضرت محمدﷺ کی حمد سے آباد نہیں۔

4۔ مدینہ کے کوہ سلع اور واقعہ ہجرت کا ذکر

۱۔ بیاباں (عرب) اور اس کی بستیاں قیدار (اسماعیل کے بیٹے) کے آباد گاؤں اپنی آواز بلند کریں گے۔ سلع کے باشندے ایک گیت گائیں گے پہاڑوں کی چوٹیوں سے للکاریں گے وہ خداوند کا جلال ظاہر کریںگے۔(یسعیاہ 92:11)

۲۔ عرب کی بابت بار نبوت: 21 دوانیوں کے قافلو! تم عرب کے صحرا میں رات کاٹوگے پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آؤ، تیما (اسماعیل کے بیٹے) کی سرزمین کے باشندے روٹی لے کر بھاگنے والے سے ملنے کو نکلے کیونکہ وہ تلواروں کے سامنے ننگی تلوار سے، کھچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں۔

(یسعیاہ 21:14۔15)

کیا آنے والے کی اس آمد پر دامن سلع کے باشندے مدینے والے ’’طلع البدر علینا‘‘ کے گیت نہیں گا رہے تھے انہی کی للکار سے قید ار کی اولاد (قریش مکہ) کی عظمت بدر کے کنویں میں غرق ہوئی۔

5۔ جنگ بدر کا تذکرہ

ٹھیک ایک سال مزدوروں کے ایک سال میں قیدار (یعنی قریش مکہ) کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی۔

(یسعیاہ 21:16)

جنگ بدر میں قریش کے تقریباً تمام بڑے سردار مارے گئے۔اسی سلسلہ کلام میں یسعیاہ کی مزید پیشن گوئیاں اس طرح ہیں:

۱۔ خداوند بہادر کی مانند نکلے گا وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت دکھائے گا وہ اپنے دشمنوں پر غالب آئےگا جو کھودی ہوئی مورتیوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور ڈھالے ہوئے بتوں سے کہتے ہیں تم ہمارے معبود ہو وہ پیچھے ہٹیں گے اور بہت شرمندہ ہوں گے۔ (یسعیاہ 42:13۔17)

یقیناً یہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام مراد نہیں نہ وہ ایک جنگی مرد کی طرح دنیا میں آئے نہ انہوں نے توحید قائم کی اور بت پرستی ختم کی علاوہ ازیں اس مکمل پیشن گوئی میں اس طرف بھی خاص اشارہ ہے کہ وہ آنے والا بنی قیدار (قریش) کی نسل سے ہوگا اور قیدار کا دیہات مکہ معظمہ ہے نیز فتح مکہ کے دن آپﷺ کے دشمنوں قریش کی ندامت کی طرف بھی اشارہ ہے۔

۲۔ وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا، جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کر دے، (یسعیاہ 42:5) یعنی جب تک ان کی شریعت اور تعلیم قائم نہ ہوجائے گی ان کو موت نہ آئے گی ظاہر ہے کہ یہ وصف بھی آپﷺ کا ہے کہ آپ اس وقت تک دنیا میں تشریف فرما رہے جب تک آپﷺ کا مشن مکمل نہ ہو گیا۔

۳۔ جزیرے اُس کی شریعت کا انتظار کریںگے۔

(یسعیاہ 42:16)

یہ اسلام ہی تھا جس کی شریعت نہر سیحون سے جحیون سے دجلہ، فرات سے ہو کر بحیرہ روم تک اور بحیرہ ہند سے بحر ظلمات تک پھیل گئی اور بڑے بڑے جزیرے اس نور سے منور ہو گئے۔

۴۔ اور اندھوں کو اس راہ سے جسے وہ نہیں جانتے لے جاؤں گا میں ان کو ان راستوں پر جن سے وہ آگاہ نہیں لے چلوں گا۔ (یسعیاہ 42:16)

یعنی امیوں کا پیغمبر ہو گا یہ صفت اہل عرب کی ہے جن کو آپﷺ سے پہلے کوئی صاحب شریعت پیغمبر نہیں ملا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے جن کو شریعت مل چکی تھی۔

6۔ فتح مکہ کا ذکر

دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا اور خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہاں اپنے ہیکل میں آ موجود ہوگا ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزو مند ہو آئے گا۔ (ملاکی 3:1)

نبی اکرمﷺ فتح مکہ کے موقع پر اس طرح اچانک مکہ پہنچے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی دس ہزار فوج جب مکہ کے قریب پہنچی اور رات کو کھانا پکانے کے لیے چولہے روشن کئے گئے تب مکہ والوں کو آپ کے آنے کا علم ہوا اور وہ بالکل مزاحمت نہ کر سکے۔

7۔ زبور میں مکہ کا ذکر

داؤد علیہ السلام اس گھر کی تمنا میں بے چین ہو کر فرمایا کرتے تھے؟

مبارک ہیں وہ جو تیرے گھر میں رہتے ہیں وہ سرا تیری تعریف کریںگے۔۔۔۔ وہ وادی بکہ سے گزر کر اُسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔ (زبور 84:4۔6)

قرآن نے بھی مکہ کا نام بکہ بتایا حتی کہ قرآن کے مشہور دشمن مارگولیوتھ نے بھی گواہی دی کہ زبور کا یہ بکہ عرب کے سوا کوئی اور جگہ نہیں ہو سکتی۔

خدا کے لیے گاؤ اس کے نام کی مدح سرائی کرو صحرا کے سوار کے لیے شاہراہ تیار کرو۔ (زبور 68:4)

کیا صحرا کے یہ سوار حضرت محمدﷺ کے سوا کوئی اور ہو سکتے ہیں؟

8۔ یہود کی سلطنت کا خاتمہ

یہوداہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہوگا جب تک کہ وہ نہ آیا جو بھیجا جانے والا ہے اور قومیں اس کی مطیع ہوں گی۔

(پیدائش 49:10)

نبی اکرمﷺ کی آمد کے وقت یہود کے پاس یمن اور سبا کا اقتدار تھا مدینہ اور بعد ازاں خیبر میں بھی کچھ عرصہ ان کے پاس اقتدار رہا اس پیشن گوئی کا مصداق حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہو سکتے کیونکہ یروشلم کی یہود کی سلطنت ان کی پیدائش سے 62 سال پہلے ختم ہو چکی تھی انہوں نے اسے ختم نہیں کیا یہود کا اقتدار حقیقتاً نبی اکرمﷺ نے مکمل ختم کیا۔

9۔ سیدنا سلیمان uکی غزل الغزلات:

یہ غزل دراصل نبی اکرمﷺ کے بارے میں عظیم الشان پیشن گوئی ہے تاہم ترجمہ کرتے ہوئے اس کو بالکل بدل کر رکھ دیا گیا ہے ایک پیرا یہاں نقل کیا جا رہا ہے۔

میرا محبوب سرخ و سفید ہے وہ دس ہزار میں ممتاز ہے اس کا سر خالص سونا ہے اس کی زلفیں پیچ در پیچ اور کوے سی کالی ہیں اس کا منہ ازبس شیریں ہے ہاں! وہ سراپا عشق انگیز اے یروشلم کی بیٹیو! یہ ہے میرا محبوب یہ ہے میرا پیارا۔ (5:10۔16)

وہ سراپا عشق انگیز ہے اس کا انگریزی ترجمہ بائبل میں He is all together desirable کیا گیا ہے جبکہ اصل عبرانی زبان میں موجود بائبل میں اصل الفاظ کا تلفظ Wa Kullo Muhammadim یعنی ’’وقلومحمدیم‘‘ ہے۔

عبرانی میں کسی کی عزت افزائی کے لیے اسے جمع کے صیغے سے مخاطب کیا جاتا ہے اس مقصد کے لیے نام کے آخر میں im لگایا جاتا ہے۔ پیشن گوئی کے باقی الفاظ میں آپﷺ کا سراپا اور شیریں گفتار ہونا بھی بیان کیا گیا ہے۔ آپﷺ کے سر کے بالوں کے سیاہ اور ہلکے گھنگریالے ہونے کا بھی ذکر ہے یہ سراپا وہی ہے کہ جو شمائل ترمذی میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز فتح مکہ پر دس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم میں آپﷺ کے ممتاز ہونے کا بھی ذکر ہے۔ یعنی سلیمان علیہ السلام فرما رہے ہیں:

’’وہ ٹھیک محمدﷺ ہیں میرے محبوب میری جان‘‘

ہندوؤں کی ویدوں میں محمد عربیﷺ کا ذکر

1۔ اے لوگو! سنو حضرت محمدﷺ کو لوگوں کے درمیان مبعوث کیا جائے گا اس مہاجر کو ہم ساٹھ ہزار اور نوے دشمنوں سے پناہ میں لیں گے جس کے ساتھ بیس اونٹ ہوں گے اس کی سواری اونٹ ہوگی جس کی عظمت آسمانوں کو بھی جھکا دے گی۔ اس عظیم رشی کو سو سونے کے سکے، دس مالائیں تین سو عربی گھوڑے اور دس ہزار گائیں عطا کی گئیں ہیں۔ (اتھروید کندہ 20 سکنذ 127، ہفتر 1،2،3)

اس میں سو سونے کے سکے سے مراد مہاجرین حبشہ دس مالائیں سے مراد عشرہ مبشرہ تین سو گھوڑے سے مراد اصحاب بدر اور دس ہزار گائیں سے مراد فتح مکہ کے دس ہزار اصحاب ہیں۔

2۔ پنڈت ویرپرکاش سنسکرت میں ایم اے ہیں اور جرمنی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے انہوں نے اپنی کتاب ’’کلکی اوتار اور محمد صاحب‘‘ (حال طبع: ڈاکٹر اظہر وحید B-106 گرین ویو سوسائٹی شیخوپورہ روڑ لاہور) لکھی ہے۔ اس کتاب کے شروع میں سنسکرت کے آٹھ مشہور عالموں کے تصدیقی نوٹ ہیں اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ چوبیسویں اور آخری اوتار جن کا ہندو ابھی تک انتظار کر رہے ہیں وہ محمدﷺ ہی ہیں انہوں نے اس کے لیے اپنی مذہبی کتب کو بطور ثبوت پیش کیا ہے:

‏1۔ کلکی اوتار کا زمانہ تلوار سے جنگ اور گھوڑوں کی سواری کا زمانہ ہوگا اور خود کلکی اوتار شو (گھوڑا) اور کھڑکی (تلوار) استعمال کریں گے۔

‏2۔ کلکی اوتار کے مقام پیدائش کے بارے میں ’’شنبھل گرام‘‘ کا نام لیا جاتا ہے اس کے معنی شانتی کا استھان یعنی دارالا من ہے اوریہ بات مکہ جو حضرت ‏محمدﷺ کی جائے پیدائش ہے اس پر صادق آتا ہے۔

‏3۔ مذہبی کتابوں میں کلکی اوتار کو جگت گرو (دنیا کا رہنما) کیا گیا ہے قرآن محمد عربیﷺ کو رحمۃ للعالمین (پوری دنیا کے لیے رحمت) کہتا ہے۔

‏4۔ کلکی اوتار کی والدہ کا نام سومروتی یا سومتی بتلایا جاتا ہے جس کا معنی ہیں ’’امن والی‘‘ محمدﷺ کی والدہ کا نام آمنہ یعنی امن والی تھا۔

‏5۔ ان کے والد کا نام وشنویس یعنی وشنو کا پالک نبی محترم محمدﷺ کے والد کا نام عبداللہ یعنی ‏اللہ (وشنو) کا بندہ (پالک)۔

‏6۔ کلکی اوتار کو اتم اوتار یعنی آخری اوتار کہا گیا ہے قرآن حضرت محمدﷺ کو خاتم النبین (اتم اوتار) کہتا ہے۔

اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے شمس نوید عثمانی کی کتاب ’’اگر اب بھی نہ جاگے تو‘‘ اور ابن الاکبر الاعظمی کی کتاب ’’حضرت محمدﷺ ہندو کتابوں ‏میں‘‘ پڑھیں۔

آخری بات: وہ رسول اللہﷺ جن کے آنے کی مناری انبیاء و رسل ہر ہر زمانے میں کرتے رہے ہیں جن کی آمد کے لوگ صدیوں منتظر ہے اس ‏آرزو کے ساتھ جیئے کہ وہ آئیں تو ان کی راہ میں دیدہ و دل فرش راہ کریں کس قدر خوش قسمت ہیں ہم۔۔۔ ہمیں اللہ نے انہی کی امت میں سے پیدا کیا ‏جتنا بڑا احسان یہ ہے اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم ان کے لائے ہوئے پیغام اور احکام کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔۔۔۔؟

اللہ تعالیٰ ہمیں آپﷺ کی اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

 

By admin

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے